ارشاد الطالبين از قاضی ثناءاللہ پانی پتی مجددی نقشبندی

ارشاد الطالبين

حقائق و معارف اورعلم وعرفان کا ایک خوبصورت اور تاریخی مرقع ، سلوک و طریقت اور روحانیت کے اسرار و رموز پر ایک معتبر کتاب سالکین کے اوصاف اور مریدین کے آداب کی مختصر اور جامع دستاویزعالم اسلام کی نہایت جلیل القدرمستند اور روحانی شخصیت کی تصنیف لطیف .بیہقی زماں عارف الله حضرت قاضی ثناءاللہ پانی پتی مجددی نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان اور رحم فرمانے والا ہے
سب تعریفیں اللہ جل جلالہ کے لیے جو تمام جہانوں کا رب ہے نہایت مہربان رحم فرمانے والا ہے۔ مالک ہے بدلے کے دن کا ۔ ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔ ہم کو سیدھا راستہ دکھا ۔ ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا نہ ان کا جن پر غضب ہوا اور نہ گمراہوں کا۔ اے اللہ میری دعا قبول فرما۔ اے اللہ تو محمد ﷺ پر اور ان کی آل پر رحمت فرما۔ بے شک تو تعریف کیا گیا عزت والا ہے۔ اے اللہ توحضرت محمد ﷺ پر اور ان کی آل پر برکت نازل فرما جس طرح تو نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر برکت نازل فرمائی۔ بے شک تو تعریف کیا گیا۔ بزرگ ہے۔ اے اللہ میں تجھ سے وہ چیز مانگتا ہوں جو تیرے نبی نے نے تجھ سے مانگی تھی اور میں پناہ مانگتا ہوں اس سے جس سے تیرے نبی امیﷺ نے پناہ مانگی ۔ اے اللہ میرے لیے میرا سینہ کھول دے اور میرے لیے میرا کام آسان فرما۔ اور میری زبان سے گرہ کھول دے تا کہ وہ سمجھیں میری بات کو اور تو میرے لیے کافی ہے اور تو کیا ہی اچھا کارساز ہے اور بہت اچھا مددگار ہے۔
حمد و صلوۃ کے بعد فقیر حقیر محمدثناء اللہ جو وطنا پانی پتی ، نسبا عثمانی ،مذہب حنفی اور مشر با نقشبندی مجددی ہے عرض کرتا ہے کہ جب میں نے دیکھا کہ لوگوں کے خیالات میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے اس طرح کہ ان میں
1. بعض ولایت کے منکر ہیں۔
2. بعض کہتے ہیں کہ پہلے کبھی اولیاء اللہ ہوا کرتے تھے لیکن اس فاسد زمانے میں کوئی بھی نہیں
3. بعض اولیاء کے معصوم ہونے کا اعتقاد رکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ اولیا ، جو کچھ چاہتے ہیں وہی ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتے وہ نہیں ہوتا۔ اور اسی خیال سے اولیاء اللہ کی قبروں سے اپنی مرادیں طلب کرتے ہیں اور جو وہ زندہ اولیاء اللہ اور مقربان خداوندی میں یہ صفت نہیں پاتے تو ان کی ولایت کا انکار کر کے ان کی فیوض سے محروم رہتے ہیں ۔
4. بعض لوگ ایسے نادان اور جاہل پیروں کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں جو اسلام اور کفر میں تمیز نہیں کر سکتے۔
5. بعض لوگ اولیاء اللہ کے غلبہ سکر کی باتوں سے اور ان کلمات سے جن کے ظاہری معنی مراد نہیں ہوتے انکار کرتے ہیں اور ان پر کفر کا فتوی لگاتے ہیں۔
6. بعض لوگ اولیاء اللہ کے غلبہ کی کیفیت ( حالت سکر ) کی باتوں کو ظاہری معنوں پر معمول کر کے انہیں کو اپنا عقیدہ بنا کر قرآن وحدیث اور اجماع امت سے جو عقائد ثابت ہیں، انہیں چھوڑ دیتے ہیں۔
7. بعض لوگ علوم ظاہری پر اکتفا کرتے ہوئے طریقت کے حصول میں سستی کرتے ہیں۔
8. بعض لوگ اولیاء اللہ کے آداب بجالانے ) اور ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کرتے ہیں ۔
تو میں نے ارادہ کیا کہ اختصار سے ایک کتاب لکھوں جس سے لوگ ولایت کی حقیقت کو جان لیں اور اس سلسلے میں جو افراط و تفریط کا شکار ہیں اس کے گناہ سے بچیں۔ اس بارے میں میں نے” ارشاد الطالبین” کے نام سے ایک کتاب عربی زبان میں لکھی۔ لیکن جب کچھ دوستوں نے یہ فرمائش کی کہ کچھ فارسی زبان میں بھی لکھنا چاہئیے تا کہ فارسی جاننے والے لوگ بھی اس سے فائدہ حاصل کر سکیں تو یہ رسالہ فارسی زبان میں لکھا گیا اور یہ رسالہ پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا۔
1. مقام اول:۔ ولایت کے ثبوت اور اس کے متعلقات کے بارے میں
2. مقام دوم :۔ان آداب کے بارے میں جونا قصوں اور مریدوں کو لازم ہے
3. مقام سوم:۔ مرشدوں کے آداب کے بارے میں ۔
4. مقام چهارم:۔ وہ آداب جو ترقی اور حصول ولایت کے بارے میں ہیں
5. مقام پنجم :۔مراتب قرب الٰہی تک پہنچنے اور پہنچانے کے بارے میں ۔

مقام اول
ولایت کے ثبوت میں

جان لے کہ خدا تجھے سعادت عطا فرمائے کہ جس طرح انسان کے اندر کمالات ظاہری ہیں اور وہ صحیح اعتقادات ، قرآن و حدیث اور اجماع اہل سنت و جماعت کے موافق اچھے اعمال، فرائض ، واجبات سنن اور مستحبات کا ادا کرنا حرام، مکر وہ مشتبہات اور بدعات کا ترک کرتا ہے اسی طرح انسان میں ایک اور قسم کے کمالات باطنی بھی میں صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک اجنبی شخص حضور نبی کر یم اﷺ کے پاس حاضر ہو کر عرض کرنے لگا۔
کہ اسلام کیا ہے؟
آپ ﷺ نے فرمایا سچے دل سے ) کلمہ شہادت پڑھنا نماز پڑھنا ، زکوۃ ادا کرنا ، ماہ رمضان کے روزے رکھنا اور طاقت ہو تو حج کرنا۔
اس نے عرض کی کہ آپ ﷺ نے صحیح فرمایا ۔ تو ہم نے تعجب کیا کہ خود ہی سوال کرتا ہے اور خود ہی تصدیق کرتا ہے ۔
پھر ایمان کے بارے میں سوال کیا
تو آپ ﷺ نے فرمایا ایمان یہ ہے کہ تو خدا پر اور فرشتوں پر اور کتابوں پر اور رسولوں اور روز قیامت پر ایمان لائے ۔ اور اس پر بھی ایمان رکھے کہ خیر و شر سب خدا کی تقدیر ہے ہے۔
اس نے عرض کیا کہ آپ ﷺ نے صحیح فرمایا۔
پھر عرض کیا کہ احسان کیا ہے؟
تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو خدا کی عبادت اس طرح کرے کہ گویا تو اس کو دیکھ رہا ہے اور اگر تو اس کو نہیں دیکھتا تو یہ جان لے کہ وہ تجھ کو دیکھ رہا ہے۔
اس کے بعد قیامت کے متعلق سوال کیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں تجھ سے زیادہ نہیں جانتا۔
پھر قیامت کی نشانیوں کے متعلق پوچھا اور آپ ﷺنے اس کی نشانیاں ارشاد فرما ئیں۔
اس کے بعد آپ ﷺ نے (ہم لوگوں سے ) فرمایا کہ یہ جبرائیل علیہ السلام تھے جو تمہیں دین سکھانے کے لیے آئے تھے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عقائد اور اعمال کے علاوہ احسان نامی ایک اور کمال بھی ہے جو ولایت کہلاتا ہے۔ صوفی پر جب محبت الٰہی غالب ہو جاتی ہے تو اس کو اصطلاح میں فنائے قلب کہا جاتا ہے تو اس کا دل محبوب حقیقی کے مشاہدے میں غرق اور محو ہو جاتا ہے اور اس کے علاوہ کسی دوسری چیز کی طرف متوجہ نہیں رہتا۔ اس حالت میں وہ خدا کو نہیں دیکھتا کیونکہ اس کو دنیا میں دیکھنا عادتاً مشکل ہے۔ لیکن صوفی پر اس وقت ایک ایسی کیفیت پیدا ہوتی ہے کہ گویا خدا کو دیکھ رہا ہے اور اس کیفیت سے پہلے صوفی تکلف سے خود کو اس حالت میں رکھتا ہے اور رسول کریم ﷺ نے اس حالت کی خبر دی ہے کہ تو یہ سمجھے کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔
دوسری دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ انسان کے جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے اگر وہ صحیح ہو جائے تو سارا بدن صحیح ہو جائے گا اور اگر وہ خراب ہو جائے تو سارا بدن خراب ہو جائے گا اور وہ دل ہے۔
اس میں شک نہیں کہ دل کی اصلاح بدن کی اصلاح کی وجہ سے ہوتی ہے جس کو صوفیہ کرام فنائے قلب کہتے ہیں جب وہ محبت الٰہی میں فنا ہو جائے تو نفس اسکی محبت سے متاثر ہو کر سرکشی سے باز آتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ہی کے لیے لوگوں سے محبت اور بغض کو اپنا شعار بنالیتا ہے تو بے شک تمام جسم شریعت کا تابع اور فرمانبردار ہو جاتا ہے۔
اگر کوئی یہ کہے کہ دل کی اصلاح تو ایمان اور اعمال سے ہوتی ہے تو بلاشبہ اس کا جواب یہ دینا چاہئیے کہ حدیث شریف میں دل کی اصلاح کو جسم کی اصلاح کا سبب قرار دیا گیا ہے اور جسم کی اصلاح سے اچھے اعمال مراد ہیں کیونکہ اصلاح قلب اگر صرف ایمان کو قرار دیا جائے تو صرف ایمان بھی اصلاح بدن کے بغیر بھی پایا جاتا ہے۔
اور اگر ایمان اور اعمال کو جمع کرکے اصلاح قلب کہا جائے تو اس کو اصلاح بدن کی وجہ سمجھنا صحیح نہ ہوگا ۔
تیسری دلیل یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے دوسرے تمام لوگوں سے افضل ہونے پر امت کا اجماع ہو چکا ہے اور علم و عمل میں تو دوسرے لوگ بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے شریک ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان صحابہ کرام کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی ان (صحابہ) کے علاوہ احد پہاڑ کے برابر سونا خداوند تعالیٰ کی راہ میں خرچ کردے تو وہ ان کے نصف صاع ( تقریبا ایک کلوگرام) کے برابر بھی نہیں ہو سکتا۔ جو صحابہ کرام نے راہ خدا میں خرچ کیا تھا۔ یہ فقط باطن کے کمال کی وجہ سے ہے کیونکہ انہوں نے پیغمبر خدا کی صحبت اختیار کی اور پیغمبر خداﷺکے باطن سے ان کا باطن روشن ہو گیا۔
اگر اولیائے امت نے یہ دولت حاصل کی ہے تو مرشدین کی صحبت سے پائی ہے کیونکہ ان کے باطن پیغمبر خداﷺکے باطن کے واسطے سے روشن ہوئے اور ان کی صحبت اور ان کی صحبت میں جو فرق ہے وہ واضح ہے تو معلوم ہوا کہ کمالات ظاہری کے سوا ایک کمال باطنی بھی ہے جس کے درجات میں بڑا فرق ہے۔
جیسا کہ حدیث قدسی اس پر دلالت کرتی ہے کہ حق جل جلالہ فرماتا ہے کہ جو شخص ایک بالشت میرے قریب ہونا چاہتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کے قریب آنا چاہتا ہوں اور جو ایک ہاتھ میرے قریب آنا چاہے تو میں دو ہاتھ کے برابر اس کے قریب آنا چاہتا ہوں اور فرمایا کہ بندہ ہمیشہ نفلی عبادت سے میرے نزدیک ہونا چاہتا ہے تا کہ میں اسے اپنا دوست بنالوں۔ اور جب میں اس کو اپنا دوست بنالیتا ہوں تو میں اس کی آنکھ اور کان بن جاتا ہوں بلکہ وہ بندہ میری قدرت کا مظہر بن جاتا ہے۔
چوتھی دلیل یہ ہے کہ بہت سارے لوگوں کی ایک جماعت کا جھوٹ پر متفق ہونا عقلاً محال ہے اور وہ اسی طرح کی جماعت ہے کہ اس کا ہر ایک فرد تقوی اور علم کے باعث ایسا درجہ رکھتا ہے اس پر جھوٹ کی تہمت لگانا جائز نہیں ۔ زبان قلم سے اور قلم زبان سے خبر دیتی ہے اور ہمیں مشائخ کی صحبت کی وجہ سے جن کی صحبت کا سلسلہ رسول کریم ﷺ تک پہنچتا ہے۔ عقائد اور فقہ کے سوا جن سے وہ ان کی صحبت سے پہلے فیض یاب تھے ، باطن میں ایک نئی کیفیت حاصل ہوئی اور اس حاصل شدہ کیفیت سے خدا تعالیٰ سے اور اس کے دوستوں سے محبت ، اعمال صالحہ اور نیکیوں کو حاصل کرنے کی توفیق اور سچے عقائد اور پختہ ہو گئے ہیں اور یہ کیفیت جسے کمال چاہیئے بہت سارے کمالات کا سبب ہے۔
پانچویں دلیل خرق عادات کی ہے اور یہ دلیل ضعیف ہے مگر اتنی بات ضروری ہے کہ خرق عادات کا تقویٰ کے ساتھ مل جانے سے اس میں اور جادو میں فرق ہو جاتا ہے جو کمال کی دلیل بن جاتا ہے واللہ تعالی اعلم۔

فصل دوم

ولایت کی تحقیق کہ وہ کیا ہے

جان نے اللہ تعالیٰ تجھے ہدایت دے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے بہت قریب ہے
جیسا کہ اس کا ارشاد ہے ۔ وَنَحۡنُ أَقۡرَبُ إِلَيۡهِ مِنۡ حَبۡلِ ‌ٱلۡوَرِيدِکے ہم زیادہ قریب ہیں بندوں کے ان کی شہ رگ سے۔
اور یہ ارشاد کہ ﴿ وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَمَا كُنتُم )تم جہاں بھی ہو اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے۔
ایک قرب خاص ہے جو خاص بندوں اور فرشتوں کے لیے ہے جس کی دلیل اللہ تبارک و تعالی کا یہ ارشاد ہے۔ ﴿وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبُ )سجدہ کر اور خدا کا قرب مانگ ۔
اور نبی کریم ﷺ کا ارشاد پاک ہے۔ وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ ‌بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ بندہ ہمیشہ نفلوں کی وجہ سے میرے نزدیک ہو جاتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں ۔
یہ اس پر دلیل ہے اور اس دوسرے قرب کو ولایت سے تعبیر کیا گیا ہے۔
اس قرب کے پہلے مراتب نفس ایمان سے حاصل ہوتے ہیں۔
فرمایا اللہ تعالیٰ نے وَاللهُ : وَلِيُّ المُومِنِین اللہ تعالیٰ مومنوں کا دوست ہے۔
لیکن معتمد یہ ہے کہ جو ولایت خاصہ سے تعبیر کی گئی ہے اور یہی محبوبیت کا مرتبہ ہے
جیسا کہ حدیث قدسی میں بیان ہوا وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ ‌بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ،
اس کے بہت سارے مقامات اور درجات ہیں ۔ چنانچہ ذات حق سبحانہ تعالیٰ بے چون و بیچگون (یعنی بے مثل اور بے نظیر )ہے ولیس کمثله شئى فى الذات ولا في الصفات ولا في شئى من الاعتبارات کوئی چیز بھی اس کی ذات میں یا صفات میں اور کسی اعتبار سے اس جیسی نہیں۔
پس یہ دونوں قرب بھی جو خالق اور مخلوق کے درمیان بطور نسبت قائم ہیں نیز بیچون (بے مثل)ہیں جو قرب زمانی اور قرب مکانی کے مشابہ ہیں اور اسکے علاوہ کوئی قرب نہیں نہ ذات میں اور نہ طول و عرض میں ۔ اس قرب کی بلندی عقل اور حس کے ذریعے معلوم نہیں ہو سکتی۔ اگر معلوم بھی ہوتی ہے تو اس علم کے واسطے سے ہوتی ہے جو خدا کی عنایت اور علم حضوری کے مناسب ہوتا ہے اور ان دونوں قربوں کا حاصل ہونا ثابت ہے جن پر ایمان لانا واجب ہے۔ چنانچہ حق سبحانہ تعالیٰ کا دیدار بلا جہت (بے سبب اللہ کی شان ہے)اس کے نظر کرنے والے میں نصوص قطعیہ(ازروئے شرع واضح اور صاف دلائل) سے ثابت ہے نہ کہ عقل سے۔
سوال: ولایت سے مراد وہ بے کیف نسبت ہے جو بندے کو خدا کے ساتھ ہے اس کا نام قرب کس وجہ سے ہے؟ جواب: اس کا جواب دو مقدموں کے بیان پر موقوف ہے ۔
ٍ پہلا مقدمہ یہ کہ کشف اور خواب دونوں کا مطلب یہ ہے جیسے کہ مثال کی صورت تصویر کے آئینے میں منعکس ہو جاتی ہے چاہے خواب میں ہو یا بیداری میں ۔ اور جس قدر خیال کا آئینہ صاف و شفاف ہوگا اسی قدر کشف اور خواب سچا ہو گا۔ اس لیے پیغمبروں کا خواب وحی قطعی ہے کیونکہ وہ گناہوں سے معصوم ہیں۔ ان کے خیالات بہت مصفا اور ان کا باطن بہت پاکیزہ ہے۔ اور اولیاء کا خواب بھی زیادہ تر اس لیے صحیح ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے پیغمبروں کی صحبت سے بالواسطہ یا بلا واسطہ فیض حاصل کیا ہوتا ہے اور شریعت پر عمل کرنے کی وجہ سے خیالات کی صفائی اور باطن کو منور کیا ہوتا ہے۔
مولانا روم فرماتے ہیں
آن خیالا تیکه دام اولیاست عکس مهردیان بستان خداست
ترجمہ: اولیاء کرام کے جو پختہ خیالات ہوتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے روشن احکامات کا عکس ہوتے ہیں یعنی چونکہ ان اولیاء کے بواطن میں جو انبیاء کے باطن کا فروعی آئینہ ہے یعنی ذاتی نہیں ہے، انبیاء کی متابعت کی وجہ سے صفائی ہوئی ہے۔ کبھی اصلی تاریکی ظاہر ہوتی ہے اور خیال کا آئینہ مکدر ہو جاتا ہے جس کے سبب کشف اور خواب میں غلطی ہو جاتی ہے۔ اور کبھی یہ کدورت حرام یا متشبہ امر کے واقع ہونے یا حد اعتدال سے بڑھ جانے یا عوام سے ملنے جلنے یا ان سے اثر لینے کی وجہ سے پیدا ہو جاتی ہے اور عوام کا خواب باطنی اندھیرے کی وجہ سے عام طور پر جھوٹا ہوتا ہے۔
دوسرا مقدمہ یہ ہے کہ عالم مثال میں واجب سے لے کر ممکن تک ہر چیز کی مثال ہے اگر چہ اللہ تعالی کی ذات اور صفات کی کوئی مثل نہیں ۔ مثل ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اس شے جیسی ہو اور اس کے اوصاف سے متصف ہو اور یہ بات اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات اور صفات میں محال ہے مثال کے برخلاف کہ سورج کو بادشاہ کی طرح کہہ دیں ۔ حق تعالی جل جلالہ نے اپنے نور کی مثال خود بیان فرمائی ہے۔ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشۡكَوٰةٖ فِيهَا مِصۡبَاحٌۖ یعنی اللہ تعالیٰ کا نور مومن کے دل میں اس چراغ کے نور کی طرح ہے جو چراغ دان میں رکھا ہو (الخ)
اور حدیث شریف میں اللہ تعالیٰ کی مثال فرمائی گئی ہے۔ سَيِّدٌ ‌بَنَى ‌دَارًا، وَصَنَعَ مَأْدُبَةًایک سردار جس نے گھر بنایا اور اس میں ایک دعوت کا اہتمام کیا
اس لیے حق تعالی کو خواب میں دیکھنا جائز ہے۔ چنانچہ حدیث پاک میں آیا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے قحط سالی کے دنوں کو لاغر گائیوں کی شکل میں اور ارزانی (خوشحالی) کے دنوں کو موٹی گائیوں اور گیہوں کے خوشوں کی صورت میں دیکھا تھا۔ اور صحیح بخاری شریف میں روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہم نے خواب دیکھا کہ لوگ میرے پاس آ رہے ہیں اور ان میں ہر ایک نے پیراہن پہنا ہوا ہے ۔ بعض کا پیراہن پستان (یعنی سینے ) تک اور بعض کا اس سے نیچے تک ہے۔ اور حضرت عمر میرے پاس سے گزرے اور اپنا پیراہن زمین پر گھسیٹتے جارہے تھے ۔ لوگوں نے اس خواب کی تعبیر پوچھی تو آپ ﷺ نے فرمایا اس سے مراد علم ہے۔ ان احادیث و آیات سے معلوم ہوا کہ جو چیز بے مثل ہو اور مادی نہ ہو اس کا خواب میں دیکھنا ممکن ہے اور کشف کی نظر سے دکھائی دے سکتی ہے۔ جب تم ان دونوں مقدموں کو جان چکے ہو تو واضح ہوا کہ وہ بے مثل نسبت بھی جس کو ولایت سے موسوم کرتے ہیں کبھی کشف کی نظر میں جسمانی قرب کی شکل میں مثال بن جاتی ہے اور جس قدر اس قرب میں ترقی ہوتی جاتی ہے اس قدر کشف کی نظر سے دکھائی دیتی ہے جیسے کہ میں اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف یا اس کی صفات میں سے کسی صفت کی طرف بڑھتا جا رہا ہوں۔ اور اسی صورت مثالی جس کی وجہ اس نسبت کو قرب الٰہی اور اس ترقی کو سیر الی اللہ اور سیر فی اللہ اور سیر من اللہ اور سیر باللہ کہا جاتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔
مسئلہ:۔ صوفیاءفنا کے بعد اپنی پہلی حالت پر نہیں آسکتے ۔ اگر کوئی آیا ہے تو فنا سے پہلے آیا ہے۔ فقیر اس مسئلہ کے استدلال میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد نقل کرتا ہے۔ وَمَا كَانَ ٱللَّهُ ‌لِيُضِيعَ إِيمَٰانَكُمۡۚ إِنَّ ٱللَّهَ بِٱلنَّاسِ لَرَءُوف رَّحِيمیعنی اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان کو ضائع نہیں کرتا بے شک اللہ تعالیٰ لوگوں پر نہایت شفیق اور مہربان ہے اور رسول خداﷺ نے فرمایا کہ حق تعالیٰ بندوں سے علم واپس نہیں لے گا۔ لیکن علماء کے قبضے سے علم کو قبض کر لے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ حق تعالیٰ ایمان حقیقی اور علم باطنی کو قبضہ نہیں کرے گا۔
مسئلہ:۔ کمال تقویٰ صرف ولایت سے حاصل ہوتا ہے جب تک نفس کی بری عادتیں مثلا حسد، تکبر، ریا کاری اور طلب شہرت وغیرہ پوری طرح زائل نہیں ہو جاتیں اس وقت تک کمال تقویٰ حاصل نہیں ہوتا۔ اور یہ فنائے نفس پر موقوف ہے اور جب تک حق تعالیٰ کی محبت غیر حق تعالی کی محبت پر غالب نہ ہو بلکہ غیر اللہ کی محبت کے لیے دل میں قطعا گنجائش ہی نہ ر ہے ، کامل ایمان اور کمال تقویٰ حاصل نہیں ہوتا اور یہ قلب کے فنا ہونے سے مربوط ہے۔ جس کو رسول اللہ ﷺ نے اصلاح قلب سے تعبیر فرمایا ہے۔ صحیحین میں روایت ہے لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ ‌مِنْ ‌وَالِدِهِ، ‌وَوَلَدِهِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ یعنی حضرت انس نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص کامل ایمان والا نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ میں اس کو اس کے ماں باپ ، اولا د اور تمام لوگوں سے زیادہ عزیز نہ ہوں۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ وقال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ ‌حَلَاوَةَ ‌الْإِيمَانِ: أَنْ يَكُونَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَأَنْ يُحِبَّ الْمَرْءَ لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ، وَأَنْ يَكْرَهَ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُقْذَفَ في النار. رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تین آدمی ایمان کا ذائقہ چکھتے ہیں کہ ایک وہ جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو دوسروں سے زیادہ محبوب جانے دوسرا وہ جو کسی کو دوست نہ رکھے مگر خدا کیلئے اور تیسرا وہ جس کے نزدیک کفر کی طرف لوٹنا دوزخ میں داخل ہونے سے کہیں زیادہ ناپسندہو یعنی عام لوگ دوزخ کے ڈر سے ایمان لاتے ہیں اور عبادت کرتے ہیں جبکہ صحیح مومن کفر کو دوزخ سے زیادہ مکروہ جانتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت محض اس کی محبت میں کرتا ہے نہ کہ دوزخ کے ڈریا بہشت کے لالچ میں .
حضرت رابعہ بصری نے ایک ہاتھ میں پانی اور دوسرے میں آگ لی ۔ لوگوں نے پوچھا کہاں جارہی ہو؟ تو آپ نے فرمایا کہ میں اس وجہ سے جارہی ہوں کہ اس پانی سے جہنم کو بجھاؤں اور اس آگ سے بہشت کو جلا دوں تا کہ لوگ جہنم کے ڈر اور بہشت کے لالچ میں خدا کی عبادت نہ کریں۔
رسول مقبول ﷺ نے فرمایا أَكْرِمُوا ‌أَصْحَابِي یعنی میرے صحابہ کی عزت کرو
اللہ تعالی کا ارشاد ہے ۔ إِنَّ أَكۡرَمَكُمۡ عِندَ ٱللَّهِ أَتۡقَىٰكُمۡۚ یعنی بے شک تم میں اللہ تعالی کے نزدیک عزت والا وہ ہے جو زیادہ تقویٰ والا ہے اس بات پر تمام امت کا اجماع ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین تمام مخلوق سے افضل اور سب سے زیادہ متقی ہیں۔ اور یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ رسول خدا ﷺ کی صحبت کی برکت کی وجہ سے سب سے پہلے مقام ولایت سے سرفراز ہوئے ۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا وَٱلسَّٰبِقُونَ ٱلۡأَوَّلُونَ مِنَ ٱلۡمُهَٰجِرِينَ وَٱلۡأَنصَارِ سبقت لینے والے ایمان میں اور ہجرت میں مہاجرین اور انصار سے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَٱلسَّٰبِقُونَ ٱلسَّٰبِقُونَ أُوْلَٰٓئِكَ ٱلۡمُقَرَّبُونَیعنی اور پہل کرنے والے ایمان میں اور پہل کرنے والے ہیں اللہ کی طرف اور متقی ہیں۔
مسئلہ:۔ اولیاء اللہ کی عبادت کا اجر دوسروں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔ رسول خدا ﷺ نےفرمایا کہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرے تو وہ میرے صحابہ کرام کے ایک سیر جو کے برابر بھی نہیں ہو سکتا۔ اس حدیث کو صحیحین میں حضرت ابوسعید خدری نے روایت کیا۔ اس بات میں راز یہ ہے کہ تمام عالم ظل (سایہ) ہے۔ اور ظلال کے دائرہ کو ان شاء اللہ بیان کریں گے۔ اور صوفی جب سیر کی ترقی دائرہ ظلال تک پہنچ کر اس میں فنا حاصل کر لیتا ہے تو جو قرب دائرہ ظلال کو خدا کے ساتھ ہوتا ہے اس کو صوفی حاصل کر لیتا ہے اور تمام عالم گویا اس صوفی کا حل ہو جاتا ہے اور اہل جہان کی صفات و عبادت گویا اس صوفی کی صفات وعبادت کا سایہ بن جاتی ہیں، پس جو فرق اصل اور سایہ میں ہوتا ہے وہی فرق ولی اور غیر ولی کی عبادت میں ہوگا۔ صوفی ہر وقت ترقی کرتا ہے۔ مَنِ اسْتَوَى يَوْمَاهُ ‌فَهُوَ ‌مَغْبُونٌ جو شخص ایک دن بھی اسی مرتبہ پر رہے وہ نقصان میں رہا پس صوفی کو ہر وقت مراتب ملتے رہتے ہیں جو کہ پہلے مراتب سے بہتر اور اعلیٰ ہوتے ہیں۔ مولانا روم فرماتے ہیں۔
سیر زاہد ہر شبے یک روزه راه سیر عارف ہر دمے تا تخت شاہ
ترجمہ: زاہد تو ہر رات صرف ایک دن کا سفر طے کرتا ہے جبکہ عارف ایک ہی سانس میں اللہ تعالی کی بارگاہ میں جا پہنچتا ہے”
اس مسئلہ کے لیے دلیل عبید بن خالد والی حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام میں سے دو کو آپس میں بھائی بنا دیا۔ ان میں سے ایک صحابی خدا کی راہ میں شہید ہو گئے ۔ اور دوسرے صحابی بھی چند دنوں کے بعد فوت ہو گئے ۔ لوگوں نے ان کی نماز جنازہ پڑھی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس مرد کے حق میں کیا دعا کی گئی ہے تو میں نے عرض کیا یا رسول الله ﷺ اس کے حق میں اس طرح دعا کی گئی تھی کہ اے اللہ اس کو بخش دے اور اس کو اپنے ساتھی کے ساتھ ملادے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تو اس کی وہ نماز جو اس نے اس کی شہادت کے بعد پڑھی ہے اور جو عمل اس کے بعد کیے ہیں کس جگہ جائیں گے ؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ ان دونوں صحابیوں کے درمیان زمین و آسمان سے زیادہ فرق ہے۔ اس حدیث کو ابو داؤد اور نسائی شریف نے روایت کیا۔ اور راز اس میں وہی ہے جو پہلے ذکر کیا گیا کہ قرب کے لحاظ سے اوپر کا ایک نقطہ ہر ایک نیچے والے نقطہ کے لیے بمنزلہ اصل کے ہے اور نیچے کے تمام نقطے اس کے سایہ کے بمنزلہ ہیں۔ پس جب اوپر کا ایک نقطہ حاصل ہو جائے تو وہ نیچے کے تمام نقطوں سے بہتر ہے کیونکہ سایہ اصل کے مقابلہ میں کیا حیثیت رکھتا ہے۔
مسئلہ:۔ ہر وہ ولی جو خدا کی بارگاہ میں زیادہ مقرب ہے اس کی عبادت کا ثواب بھی دوسرے اولیاء کرام جو اس سے کم مرتبہ ہوتے ہیں، کی عبادت سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس میں یہی راز ہے کہ ” ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ روایت فرماتی ہیں کہ ایک رات ستارے بہت زیادہ چمکدار اور گھنے نظر آرہے تھے ۔ رسول کریمﷺ میرے پاس تشریف فرما تھے۔ میں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺکوئی ایسا شخص بھی ہے جس کی نیکیاں ان ستاروں کے برابر ہوں ۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا ہاں ! عمر ہے۔ میں نے عرض کیا کہ ابو بکر کی نیکیاں کتنی ہوں گی تو فرمایا عمر کی تمام نیکیاں ابو بکر کی ایک نیکی کے برابر ہوں گی تو اے بھائی جب دونوں خلفائے راشدہ کی تمام معاملات میں شرکت کے باوجود ان کی منزلوں کی بلندیوں میں اس قدر فرق ہے تو اس شخص کے مرتبے میں جو صفات کے رتبہ پر پہنچا ہو اور دوسرا شخص جو دائرو ظلال میں ہوکس قدر فرق ہے سمجھ لینا چاہیئے۔

فصل سوم
خوارق عادات کا بیان

خرق عادات کی کئی اقسام ہیں۔ ان میں ایک کشف ہے اور کشف کی دو قسمیں ہیں۔
اول کشف کونی ہے۔ کہ موجودات کے احوال جو نظروں سے غائب ہوں ظاہر ہو جائیں اور موجودات کے زمانہ ماضی یا مستقبل کے احوال معلوم ہو جا ئیں بیہقی شریف میں حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے جہاد کے لیے لشکر روانہ کیا اور حضرت ساریہ کوان کا سالار مقرر فرمایا ایک دن حضرت عمر خطبہ فرمارہے تھے۔ عین خطبہ کے دوران آواز دی کہ اے ساریہ پہاڑ کی طرف سے ہوشیار ہو جاؤ پہاڑ میں کفار گھات لگائے بیٹھے تھے جو حضرت عمر کو نظر آگئے اور بہت دور سے ساریہ کو اس کی اطلاع دی گئی
دوم کشف الٰہی ہے۔ اس سے طریق سلوک میں اپنے اور دوسرے سالکوں کے حالات کو معلوم کرنا ، خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں ہر ایک کے مرتبہ قرب کو جاننا مراد ہے۔ اور و ہ علوم جو خداوند تعالیٰ کی ذات صفات سے تعلق رکھتے ہیں اسی قبیل سے ہیں ۔ اگر عالم مثال میں کشفی نظر سے دیکھا جائے ۔
دوسری تمام قسمیں الہام ہیں جواللہ تعالی صوفی کے دل پر علم القاء فرماتا ہے اور ہاتف کا کلام اسی قبیل سے ہے۔ الہام اور وسوسہ میں فرق یہ ہے کہ الہام سے صوفی کا دل اطمینان پکڑتا ہے۔ اور اس کو یقین ہو جاتا ہے جبکہ وسوسہ سے قلب سلیم انکار کر دیتا ہے ۔ رسول خدا ﷺنے فرمایا ‌اسْتَفْتِ ‌قَلبَكَ ‌وَإِنْ ‌أَفْتَاكَ ‌المُفْتُونیعنی اپنے دل سے فتوئی حاصل کر گو مفتی بھی تجھے فتوی دے دیں اگر چہ علمائے ظاہر ایک چیز کے حلال ہونے پر فتوی دے دیں مگر صوفی کے لیے ضروری ہے کہ اپنے دل سے بھی فتوی حاصل کرے۔ کیونکہ صوفی کا دل حرام سے طبیعتاً نفرت کرتا ہے اگر چہ علماء ظاہرطور پر اس کو مباح قرار دیں۔ اس حدیث کو امام بخاری نے باب التاریخ میں وابصہ سے بسند حسن روایت کیا ہے اور فرمایا ہے اتَّقُوا ‌فِرَاسَةَ ‌الْمُؤْمِنِ، فَإِنَّهُ يَنْظُرُ بِنُورِ اللَّهِ تَعَالَى” یعنی مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے جو کہ اس کے دل میں ہے اس حدیث کو امام ترمذی نے ابوسعید اور طبرانی اور ابن عدی نے ابو امامہ سے روایت کیا ہے۔
تاثیر:۔ انہی قسموں میں ایک تاثیر ہے اور اس کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جومرید کے باطن میں تاثیر کرے اور اس کو حق تعالیٰ کی جانب جذب کرے۔ دوسری تاثیر عالم کون و مکان میں کہ حق تعالی اس کی دعا اور اس کے ارادے کے مطابق ظہور میں لائے۔ حضرت زکر یہ علیہ السلام جب حضرت مریم کے پاس تشریف لے جاتے تو ان کے پاس غیب سے رزق پاتے ۔ وہ اس قبیل سے ہے۔ خرق عادات کی یہ تمام اقسام اصحاب اور اولیائے امت سے مروی ہیں۔
مسئلہ:۔ اولیاء کا کشف اور ان کا الہام علم ظنی کے سبب سے ہوتا ہے۔ اگر دو آدمیوں کے کشف کا اتفاق ہو جائے تو ظن غالب ہو گا ۔ ابو داؤ د ترمذی، ابن ماجہ، اور دارمی نے عبداللہ بن زید سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ناقوس طلب فرمایا تا کہ لوگ اس کی وجہ سے نماز کے لیے جمع ہو جا ئیں۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک آدمی کے ہاتھ میں ناقوس ہے۔ میں نے کہا اے بندہ خدا کیا یہ ناقوس بیچے گا۔ اس نے پو چھا تو اسے کیا کرے گا۔ میں نے جواب دیا لوگوں کو نماز کے لیے بلاؤں گا۔ اس نے کہا میں تجھے اس سے بہتر چیز سکھاتا ہوں اور کہا اللہ اکبر اور اذان سکھا دی۔ جب صبح ہوئی تو میں نے یہ خواب حضور پاک ﷺ کی خدمت میں عرض کیا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا یہ خواب حق ہے بلال کو اٹھاؤ اور اس کو سکھا دو۔ پس میں نے بلال کو سکھا دیا۔ اتنے میں حضرت عمر آئے اور کہا یا رسول اللہ ﷺمیں نے بھی اسی طرح کا خواب دیکھا ہے تو نبی پاک ﷺ نے فرمایا فللہ الحمد پس معلوم ہوا کہ کشف والہام کے موافق عمل کرنا جائز ہے بشرطیکہ قرآن وحدیث، اجماع اورقیاس صحیح کے خلاف نہ ہو۔
بیہقی نے حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت کی ہے کہ جب صحابہ کرام، پیغمبر خدا ﷺ کو وفات کے بعد غسل دینے لگے تو آپس میں کہنے لگے کہ حضور پاک ﷺ کو ننگے جسم غسل دیں یا کپڑا ڈال کر ۔ اس بارے میں اختلاف ہو گیا۔ اللہ تعالی نے ان پر خواب مسلط کر دیا وہ سب کے سب سو گئے ۔ انہوں نے خواب میں آواز سنی کہ پیغمبر خدا ﷺ کو کپڑے میں غسل دیں۔ وہ تمام اٹھے اور حضور پاک ﷺکو پیراہن میں غسل دیا اور انہیں قمیض کے اوپر سے ملتے رہے۔
مسئلہ:۔ اگر کشف و الہام مخالف حدیث احاد یا قیاس ہو جو شرائط قیاس کو بھی جامع ہوں، وہاں حدیث اور قیاس کو ترجیح دینی چاہیئے اور یہ حکم دینا چاہئیے کہ کشف میں خطا واقع ہوئی ہے اور یہ مسئلہ متفق علیہ اور مجمع علیہ ہے۔ بزرگوں کے درمیان میں کیونکہ رسول پاک ﷺ کا ارشاد حجت قطعی ہے۔ جھوٹ اور بھول جانے کا احتمال موثق راویوں کی روایت میں ضعیف ہے اور کشف اولیاء میں خطا زیادہ واقع ہوئی ہے جب کبھی دو کشفوں کے درمیان اختلاف واقع ہو تو شرع جس کی مدد کرے گی۔ وہ قبول کرنے میں بہتر ہو گا اگر شرع خاموش ہو ۔ اگر ایک ہی شخص دو کشف کرتا ہے تو اس کا آخیر کشف بہتر اور مقبول ہے کیونکہ صوفی ہمیشہ ترقی میں رہتا ہے اور صاحب کشف آخر وقت میں اللہ تعالی کے زیادہ قریب ہوتا ہے اور انبیاء کی طرح ہوتا ہے اگر کشف والے دو شخص ہوں تو ان میں صاحب صحو کا کشف بہتر ہو گا بنسبت صاحب سکر کے کیونکہ سکران والوں کے کلام میں غلطی کا احتمال زیادہ ہوتا ہے اگر صحوو سکر میں دونوں ہی برابر ہوں تو اس شخص کا کشف جو کبھی بھی شرع کے خلاف نہ ہو بہتر ہو گا اس کشف سے جو بھی مخالف شرع ہو جائے اور جس کسی کا کشف کبھی کبھی مخالف شرع ہو اس کشف سے بہتر ہے جو زیادہ تر مخالف شرع ہو۔ اور اگر اس میں بھی دونوں برابر ہوں تو اسکے کشف کو تر جیح دی جائے گی۔ جس کی قدرو منزلت اور قرب اللہ تعالی کے ہاں زیادہ ہوگی ۔ یہ تمام وجوہ قوت کشف کی ہیں۔ اگر دونوں منکشف قوت میں برابر ہوں تو زیادہ کشف والے کو ترجیح ہوگی۔ اگر ایک کشف دس آدمیوں پر ہو جائے اور دوسرا ایک آدمی پر ہو تو دس آدمیوں والا کشف زیادہ بہتر اور مقبول ہے۔ لیکن اگر صاحب کشف زیادہ قوی مرد ہے۔ تو جماعت کے کشف کی نسبت وہ قوی کشف بہتر ہوگا۔ الہام کا حکم بھی کشف کے حکم کی طرح ہے۔
مجددالف ثانی کے کشف کا مرتبہ
کشف ہائے مجددالف ثانی کے رتبہ کی بلندی کو معلوم کرنا چاہئیے جن کی بنیاد صحو پر ہے اور کبھی شرع کی مخالف نہیں ہوتی۔ بلکہ زیادہ تر کی شرع مقدس مرید ہے اور بعض جگہ اگر شرع خاموش ہے تو ان کی مثال اولیاء کرام میں ایسے ہے جیسے انبیاء کرام میں کوئی اولی العزم نبی۔ جس کا ذکر ان شاء اللہ کیا جائے گا۔ اور یہ تمام چیزیں اس شخص پر مخفی نہیں رہیں گی۔ جو انصاف کی نظر سے ان کے کلام کو دیکھے گا۔ اگر کوئی یہ کہے کہ انہوں نے کمالات نبوت وغیرہ کا دعوی کیا ہے اور جو کہ نبی پاک ﷺ کی طینت پاک سے خلق ہوئے ہیں اور وہ مجد والف ثانی ہے تو جواب یہ ہے کہ ایسے امور کا وجود حضور نبی پاک ﷺ کی امت میں سے کسی فرد میں ہونا شرع مقدس سے ثابت ہے۔ چنانچہ اس کو میں آگے ان شاء اللہ بیان کروں گا۔ پس ایسے کمالات سے متصف ہونا کشف سے ثابت ہے اور کشف کی اتباع شرع کیخلاف نہیں ہے۔
فائدہ:۔ جان لو ( اللہ تعالی تمہیں سعادت بخشے ) کہ خرق عادات ولایت کے لوازمات میں سے نہیں ہے۔ کچھ اولیاء کرام اور مقربان بارگاہ الٰہی ایسے بھی ہیں جن سے خرق عادات ظاہر نہیں۔ اسی لیے اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم سے خرق عادات مروی نہیں ہے۔ حالانکہ ایک ادنی صحابی بھی تمام اولیاء کرام سے افضل ہے۔ پس معلوم ہوا کہ بعض اولیاء کرام کی بعض پر فضیلت خوارق کی زیادتی کی وجہ سے نہیں ۔ کیونکہ فضیلت سے مراد کثرت ثواب و خوارق سے نفع حاصل کرنا ہے جبکہ ثواب عبادت قرب الٰہی سے حاصل ہوتا ہے۔ اسی لیے محدثین نے صحابہ کرام کی کرامات ان کے مناقب میں بیان نہیں کیں بلکہ کرامات کو علیحدہ باب میں لائے ہیں معجزات کے ذکر کے بعد خرق عادات جوگیوں میں بھی ہوتا ہے۔ یہ فرمان ہے حضرت مجددالف ثانی کا اور صاحب عوارف کہتے ہیں کہ اللہ تعالٰی بعض آدمیوں کو خوارق عطا فرماتا ہے اور دوسروں کو نہیں دیتا۔ اور وہ صاحب خوارق سے افضل ہوتے ہیں۔ اور خرق عادات قلبی ذکر اور اس کی بلندی سے رتبہ میں کمتر ہے۔ اور شیخ الاسلام خواجہ عبداللہ انصاری فرماتے ہیں کہ عارف لوگ اپنی فراست سے طالبان کی استعداد اور مقامات اولیاء کو جان لیتے ہیں۔ اور اہل ریاضت کی فراست اور طلب اس بات سے مخصوص ہے کہ وہ ان اشیاء کی صورتوں اور احوال کو جان لیتے ہیں جو ان کی نظر سے غائب ہوں ۔ اکثر لوگ دنیا میں مشغول ہیں اور خدا سے بے تعلق ہیں۔ ان کے دل چھپی ہوئی چیزوں کے احوال جاننے کی طرف زیادہ مائل ہیں اور اس کو بہت عمدہ خیال کرتے ہیں۔ ان کا اہل عرفان کے کشف اور حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر یہ لوگ اہل اللہ ہوتے تو احوال غیب سے بے خبر ہوتے ۔ جب یہ لوگ اس قدر خبر نہیں رکھتے تو دوسری باتیں کیسے جانیں گے۔ اس طرح کی باتیں منافقین بھی سرکار دو عالم ﷺ کے بارے میں کہتے تھے۔ یہ نادان لوگ انہی برے خیالات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے دوستوں کی برکات سے محروم رہتے ہیں انہیں نہیں معلوم کہ اللہ اپنے دوستوں کے بارے میں بہت غیرت رکھتا ہے کہ ان کو اپنے سواکسی اور کی طرف مشغول نہیں ہونے دیتا۔ مولانا روم فرماتے ہیں
من ندانم فاعلات و فاعلات شعر می گویم به از آب حیات
قافیه اندیشم و دلدار من گوید مندیش جز دیدارمن
ترجمہ میں نہیں جانتا کہ یہ فاعلات و فاعلات کیا ہیں۔ میں آب حیات سے زیادہ عمدہ شعر کہتا ہوں۔ جب بھی (شعر کے لیے ) میں کوئی قافیہ سوچتا ہوں تو میرا محبوب مجھ سے کہتا ہے کہ میرے دیدار کے سوا کچھ نہ سوچ۔
حضرت مجددالف ثانی اپنے مرشد سے روایت کرتے ہیں کہ شیخ محی الدین ابن عربی نے بعض جگہ لکھا ہے کہ کچھ اولیاء کرام سے بہت زیادہ کرامات ظاہر ہوتی ہیں۔ وفات کے وقت ان کی یہ آرزو ہوتی ہے کہ کاش ہم سے اس قدر کرامات ظاہر نہ ہوتیں۔
اگر کوئی کہے کہ خوارق اگر شرط ولایت نہ ہوں تو کس طرح معلوم ہو کہ یہ ولی اللہ ہے؟
حضرت مجددالف ثانی نے اس کے دو جوابات دیئے ہیں۔
(1) ولی اللہ کی ولایت کو معلوم کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ ولایت اللہ تعالی کے ساتھ ایک نسبت ہے۔ کوئی اس پر باخبر ہو یا نہ اکثر اولیاء اللہ خود اپنی ولایت سے باخبر نہیں ہوتے دوسروں کے بارے میں کیا جانیں گے ۔
موت کے بعد اس کا انعام دیکھ لیں گے ۔ انبیاء کرام کے لیے خوارق ضروری ہیں کیونکہ انہوں نے مخلوق کو ( رب کریم) کی دعوت دینا ہوتی ہے۔ یہ بھی لازمی ہے کہ مخلوق پر اپنی نبوت کو ظاہر کریں (اور خوارق سے اس کا )ثبوت دیں۔ اولیائے کرام پیغمبر علیہ السلام کی شریعت کی طرف دعوت دیتے ہیں جبکہ پیغمبر کا اپنا معجزہ ہی دعوت کیلئے کافی ہوتا ہے۔ علماء و فقہا ظاہر اشریعت کی دعوت دیتے ہیں جبکہ اولیاء کرام اپنے مریدوں کو پہلے ظاہر ا شریعت پر عمل پیرا ہونے کی دعوت دیتے ہیں اس کے بعد ذکر کی تعلیم دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ہر وقت ذکر الٰہی میں مشغول رہوتا کہ ذکر الٰہی تم پر اس قدر حاوی ہو جائے کہ غیر خدا کا معمولی سا خطرہ بھی تمھارے دل میں گزر نہ سکے اس طرح کی دعوت کیلئے کر امت کی ضرورت نہیں ہوتی
(2) مرید رشید ہرلمحہ شیخ کی کرامت کو اپنی ذات میں احوال کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ دیکھتا رہتا ہے۔ کیونکہ (شیخ ) مردہ دل کو زندہ کر کے مشاہدہ و مکاشفہ سے سرفراز کر دیتا ہے۔ عوام کے نزدیک مردہ کو زندہ کرنا اچھا کام ہے جبکہ خواص کے نزدیک روح اور قلب کو زندہ کرنا بہت معتبر ہے۔ پس مرید کی نظر میں کرامت موجود ہے اور عوام کے لیے اس کی ضرورت نہیں۔
فائدہ: ۔جان لو کہ ولی وہ ہے جو ظا ہر ی طور پر شریعت مطہرہ کا مکمل طور پر پابند ہو ۔ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے إِنۡ أَوۡلِيَآؤُهُۥٓ إِلَّا ٱلۡمُتَّقُونَ یعنی پر ہیز گار لوگ ہی اللہ تعالی کے دوست ہیں۔
اور اس کا باطن اس قسم کا ہو کہ جب کوئی بھی شخص اس (ولی) کی صحبت میں بیٹھے تو اپنے دل کو اللہ تعالیٰ کی طرف مائل پائے اور صرف اس کی طرف اسکی توجہ رہے۔
امام نووی سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ سے پوچھا گیا کہ اولیاء اللہ کی علامت کیا ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان کی زیارت سے خدا یاد آ جاتا ہے ۔ ابن ماجہ نے بھی اس طرح کی روایت کی ہے اور امام بغوی نے بھی رسول اللہ ﷺ سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بلاشبہ لوگوں میں سے میرے دوست وہ بندے ہیں جو مجھے یاد کرنے سے یاد کیے جاتے ہیں اور ان کو یاد کرنے سے میں یاد کیا جاتا ہوں لیکن اس بات کو سمجھنے کے لیے مناسبت کا ہونا بہت ضروری ہے اور کسی شخص کا انکار ہی اس کی سمجھ کے آڑے آ جاتا ہے۔
ہر کرا روئے یہ بہود نبود دیدن روئے نبی سود نبود
ترجمہ جب کسی کے دل میں بھلائی کا ارادہ نہ ہو تو اس کو نبی پا ک ﷺ کا دیدار بھی فائدہ نہیں دیتا ۔
یہ تاثیر کے مرتبے ہیں جو کہ ہر ولی میں ہوتے ہیں اور اگر اس کے باطن میں تیز اثر کرنے والی قوت ہو اور مرید اس کو برداشت کر سکے اور اس کو اللہ تعالیٰ کے قرب کے مراتب تک پہنچادے تو اس کو مکمل کہتے ہیں جس طرح کمالات کے بہت سارے مراتب ہیں اسی طرح تکمیل کے بھی بہت سے درجے میں کچھ اولیاء اللہ اپنے کمال میں تو بہت بلند ہوتے ہیں لیکن تکمیل میں اس طرح کی تاثیر نہیں رکھتے۔ اور بعض اس قدر کمال نہیں رکھتے لیکن جس مقام تک وہ خود پہنچے ہوتے ہیں وہاں تک دوسروں کو بھی پہنچا سکتے ہیں (اور تمام اللہ کے فضل سے ہے)

مقام دوم
مریدوں کے آداب کے بارے میں

باطنی کمالات کے حصول کے لیے طریقت کی طلب کی کوشش کرنا واجب ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱتَّقُواْ ٱللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِیعنی اے ایمان والو! ان اشیاء سے پر ہیز کرو جو اللہ تعالی کو پسند نہیں کمال تقومی یہ ہے کہ ظاہر و باطن میں کوئی بھی امرحتی کہ عقائد و اخلاق میں بھی اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف نہ ہو اور امر برائے و جوب ہوتا ہے اور کمال تقوی کا ولایت کے بغیر امکان نہیں ۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جاچکا ہے کہ نفس کی بری عادتیں مثلا حسد، کینہ تکبر ، ریا کاری ، طلب شہرت ، خود پسندی اور احسان جتلانا وغیرہ جن کے حرام ہونے کے بارے میں قرآن وحدیث اور اجماع سے واضح ثابت ہو چکا ہے۔ جب تک یہ بری عادتیں زائل نہیں ہوتیں کامل تقوی کیسے حاصل ہو سکتا ہے فنائے نفس اور ترک، معاصی سے مربوط ہے اور اسی کا نام تقوی ہے۔ اور اس کو جسم کی اصلاح سے تعبیر کرتے ہیں جس کا ثمرہ قلب کی اصلاح ہے۔ جس طرح حدیث شریف میں مذکور ہوا اور صوفیہ کرام اس کو فنائے قلب کہتے ہیں ۔ اور ولایت کا حاصل ہونا فنائے نفس سے ہے صوفیہ کرام نے فرمایا کہ جس راہ پر ہم چل رہے ہیں وہ صرف سات قدم ہے۔ جو فنائے لطائف خمسه عالم امریعنی قلب ، روح ، سر خفی ، اخفی ، اور فنائے نفس اور لطیفہ قالبی کی صفائی ہے۔ جس سے مراد جسم کی اصلاح ہے تقویٰ کا تعلق نوافل کی زیادتی سے نہیں بلکہ تقویٰ سے مراد واجبات کی ادائیگی اور جن باتوں سے منع کیا گیا ہے، سے پر ہیز کرنا ہے ۔ فرائض اور واجبات کا ادا کرنا اخلاص کے بغیر کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے فَٱعۡبُدِ ٱللَّهَ ‌مُخۡلِصٗا لَّهُ ٱلدِّينَ یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو خالص کرتے ہوئے اس کے لیے اطاعت کو اور جن چیزوں سے منع کیا گیا ہے ان سے پرہیز فنائے نفس کے بغیر ممکن نہیں ۔ پس کمالات ولایت کا حاصل کرنا فرائض میں سے ہے۔
لیکن چونکہ ولایت کا حاصل ہونا خدا کی عنایت ہے اپنے اختیار کی بات نہیں اور ( شرع میں) تکلیف انسانی اختیار کے مطابق ہے۔ اس لیے اللہ تعالی نے فرمایا فَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ ‌مَا ‌ٱسۡتَطَعۡتُمۡ ” یعنی جہاں تک تم سے ممکن ہو اللہ تعالی کی ناپسندیدہ باتوں سے بچو اسی لیے حکم دیا گیا کہ اپنی طرف سے کوشش کرنا اور ہاتھ پاؤں ہلانا واجب ہے۔ دوسرے یہ کہ جس طرح ولایت کے بے انتہا مراتب ہیں جیسے شیخ سعدی فرماتے ہیں۔
نه حسنش غایتی دارد نه سعدی راسخن پایاں بمیردتشنه مستسقی و دریا ہمچناں باقی
ترجمہ نہ تو اس کے حسن کی کوئی انتہا ہے اور نہ سعدی کا کلام ختم ہوتا ہے پھر بھی پیاسا پیاس سے مرجاتا ہے اور دریا اسی طرح باقی رہتا ہے”
اسی تقوی کے بھی بے انتہا مراتب ہیں اور اللہ تعالی کے رسول مقبول ﷺ نے ارشاد فرمایا إِنَّ ‌أتْقَاكُمْ وَأعْلَمَكُمْ بِاللهِ أنَا یعنی میں تم میں سے سب سے زیادہ جاننے والا اور اللہ تعالی سے ڈرنے والا ہوں ہر وہ شخص جو مر اتب الہٰی میں ترقی کرتا ہے اس پر خوف اور خشیت غالب رہی ہے اور وہ زیادہ پرہیز گار رہتا ہے إِنَّ أَكۡرَمَكُمۡ عِندَ ٱللَّهِ أَتۡقَىٰكُمۡۚاللہ کے نزدیک وہ زیادہ عزت والا ہے جو اس سے زیادہ ڈرتا ہے”
اور جب تقوی کی کوئی انتہانہیں تو قرب کے مقامات میں ترقی کیلئے کوشش کرنا اور دائمی تقوی حاصل کرنا واجب ہو گیا۔ اور باطنی علم کی زیادتی چاہنا فرض ہو گیا۔ اللہ تعالی نے فرمایا وَقُل رَّبِّ ‌زِدۡنِي عِلۡمٗا یعنی اے محمد نے کہہ کہ اے میرے پروردگا میرے علم میں اضافہ فرما اور قرب کے مراتب پر قناعت کرنا کامل اور ناقص دونوں پر حرام ہے۔
حضرت خواجہ باقی باللہ فرماتے ہیں
در راه خدا جمله ادب باید بود تا جان باقی است در طلب باید بود
در یا در یا اگر بکامت ریزند کم باید کرد و خشک لب باید بود
ترجمہ : خدا کی راہ میں سراپا ادب بن جانا چا ہیئے جب تک جان باقی ہے اس کی طلب کرتے رہنا چا ہیئے اگر ( کامیابی کے ) دریاؤں کے دریا بھی حلق میں انڈیل دیئے جائیں تو اس کو بھی کم سمجھ کر اپنے آپ کو پیاسا رکھنا چاہئیے۔
مولانا روم فرماتے ہیں
اے بر ادر بے نہایت در گہے است ہر چہ بروے می رسی بروے مایست
ترجمہ: اے بھائی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ بے حد و بے انتہا ہے جس مرتبہ پر تو پہنچے اس پر اکتفا نہ کر بلکہ اس مرتبہ سے آگے ترقی کرنے کی کوشش کر ۔
حضرت خرابہ محمد باقی باللہ فرماتے ہیں۔
ہر جا که ترشح تویینم دار العطشيم و تشنه كاميم
ترجمہ جس جگہ تیرا جلوہ دکھائی دیتا ہے وہ مقام پیاس کا گھربں جاتا ہے اور ہماری پیاس بڑھ جاتی ہے ۔
حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا لَآ أَبۡرَحُ حَتَّىٰٓ أَبۡلُغَ مَجۡمَعَ ‌ٱلۡبَحۡرَيۡنِ أَوۡ أَمۡضِيَ حُقُبٗا یعنی میں مسلسل سفر کروں گا یہاں تک کہ اس جگہ پہنچوں جہاں نمکین اور میٹھے دریا آپس میں ملتے ہیں کیونکہ ان کو اللہ تعالی کی طرف سے الہام ہوا تھا کہ وہ حضرت خضر کا ٹھکانہ ہے (جہاں ان کی ملاقات ہو گی ) اور جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات کی تو انہوں نے کہا هَلۡ أَتَّبِعُكَ عَلَىٰٓ أَن تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمۡتَ رُشۡدٗا یعنی کیا میں آپ کے ساتھ چلوں تا کہ اللہ تعالٰی نے جو علم آپ کو سکھایا وہ وہ آپ مجھ کو بھی سکھا دیں۔
مسئلہ:۔ جب کمالات باطنی کا طلب کرنا واجبات میں سے ہے تو پھر پیر کامل و مکمل کو تلاش کرنا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ پیر کامل و مکمل کے وسیلہ کے بغیر خدا تک رسائی نہایت قلیل اور کمیاب ہے ۔
مولا نا روم فرماتے ہیں
نفس را نکشد بغیر از ظل پیر د امن آن نفس کش محکم بگیر
پیر کی مدد کے بغیر نفس کومار انہیں جا سکتا اس لیے اس نفس کو مارنے والے (پیر کامل ) کا دامن مضبوطی سے تھام لے پیر کامل و مکمل کو تلاش کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اکثر درویشوں سے ملاقات کرتا رہے اور ان میں سے کسی کا بھی کسی کے پاس انکار نہ کرے اور نہ عیب جوئی کرے۔ خود بھی بیعت نہ کرے جب تک مکمل غور و خوض اور نتیجہ نہ کرلے۔ پہلے اس کی شریعت پر پابندی دیکھے۔ جو شریعت کا پابند نہ ہو ہر گز اس کی بیعت نہ کرے۔ خواہ اس سے خرق عادات ہی کیوں نہ ظاہر ہوں کیونکہ اس جگہ نفع (فیض) کی بجائے نقصان کا بہت زیادہ احتمال ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تُطِعۡ مِنۡهُمۡ ءَاثِمًا أَوۡ ‌كَفُورٗا یعنی ان میں سے کسی گناہگار اور کافر کی اطاعت نہ کرو۔
اللہ تعالی نے پہلے گناہگار کی اطاعت سے منع کیا ہے اور پھر کافر کی اطاعت ہے۔ چونکہ وہ مسلمانوں سے دور رہے اور اس کے اعمال کا باطل ہونا ظاہر ہے۔ اس لیے کافر کی صحبت سے مسلمانوں کو اتنا نقصان نہیں پہنچتا جس قدر کہ گناہگار ( بد اعمال مسلمان ) کی صحبت سے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَلَا تُطِعۡ مَنۡ أَغۡفَلۡنَا قَلۡبَهُۥ عَن ذِكۡرِنَا وَٱتَّبَعَ هَوَىٰهُ وَكَانَ أَمۡرُهُۥ ‌فُرُطٗا یعنی اس شخص کی فرمانبرداری نہ کرو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے اور اس کے کام شرع کی حد سے باہر ہیں ۔ وَٱتَّبَعَ هَوَىٰهُ میں عطف تفسیری ہے۔ خواہش کی پیروی قلب کی غفلت اور جسم کے فساد کی دلیل ہے۔ یعنی گناہوں کا ارتکاب دل کے بگاڑ کی دلیل ہے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وَإِذَا ‌فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ یعنی جب دل بگڑا تو سارا جسم بگڑ گیا ” پس جو شخص مستقیم الاحوال ہو اور خاص اپنے لیے ولایت کا دعوی کرے نہ یہ کہ اپنے باپ دادا کے کمالات پر مرید بناتا ہو جیسا کہ پیر زادوں کی رسم ہے۔ اس کا دعوی صحیح ہے لیکن اس کے دعوی پر دلیل اور برہان ہونی چاہئیے۔ اس لیے کہ خرق عادات کا ظہور جو اتباع شرع استقامت سے مقرون(قریب) ہو ولایت کی دلیل ہو سکتا ہے لیکن قوی دلائل وہی ہیں جو حدیث سے ثابت ہیں۔ کہ اس ( پیر کامل) کی صحبت میں بیٹھنے اور اس کے دیکھنے سے خدا یاد آجائے اور دل اللہ کے سوا سب کو بھول جائے ۔ لیکن عوام الناس اور اغیار کے لیے پہلی ہی صحبت میں صحبت کی تاثیر محسوس کرنا ذرا مشکل ہے اس لیے چاہئیے کہ اس ( پیر ) کے مریدوں میں سے جس کسی کو وہ عالم ، عادل اور عقلمند سمجھے سوال کر کے شیخ کی تاثیر کا احوال معلوم کرے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَسۡـَٔلُوٓاْ ‌أَهۡلَ ‌ٱلذِّكۡرِ إِن كُنتُمۡ لَا تَعۡلَمُونَ یعنی سوال کر واہل ذکر ( اہل علم ) سے اگر تم نہیں جانتے ، رسول خداﷺ فرمایا ألَمْ يَكُنْ ‌شِفَاءُ ‌الْعِيِّ السُّؤَالَ یعنی جاہل کی جہالت کے مرض کا علاج نہیں سوائے اس کے کہ علماء سے سوال کرے۔
چنانچہ اگر کوئی شخص اس کی صحبت کی تاثیر کی شہادت دے اور وہ عادل بھی ہو اور جاو و مال یا کسی اور چیز کے حصول کی غرض نہ رکھتا ہو اور اس کی نسبت جھوٹ بولنے کا احتمال بھی نہ ہواورده عاقل بھی ہو اور اس پر غلط فہمی اور حماقت کی تہمت بھی نہ لگی ہو تو اس کی تصدیق کرنی چاہئیے اور اگر چند افراد شہادت دیں تو گمان کا غلبہ ہوگا۔ اگر روایات کی کثرت تواتر کی حد کو پہنچ جائے تو یقین کرنا ہوگا ۔ لیکن ایک ایسا مرد جو متقی اور مستقیم الاحوال ہو، کی خدمت میں رجوع کرنے کے لیے غللبہ ظن کافی ہے ۔ کیونکہ مرو متقی کی صحبت میں نقصان کا احتمال نہیں ہے۔ اور نفع اگر چہ یقینی نہیں ہے۔ لیکن احتمالی ضرور ہے پس اگر اس جگہ نفع طلب کرنے سے مقصود حاصل ہو جائے تو سبحان اللہ ور نہ دوسری جگہ تلاش کرے۔
مسئلہ:۔ اگر کوئی شخص ایک مدت تک حسن اعتقاد کے ساتھ اپنے پیر کی صحبت میں رہا اور اس کی صحبت کی تاثیر نہ پائی تو اس پر واجب ہے کہ اس کو چھوڑ دے اور دوسرے شیخ کی تلاش کرے ۔ ور نہ اس شخص کا مقصود اور معبود شیخ ہو گا نہ کہ اللہ تعالی ۔ اور یہ شرک ہے۔ خواجہ عزیزان علی را متینی قدس سرہ جو کہ طریقہ نقشبند میں پیر میں فرماتے ہیں۔
با هر که نشستی و نشد جمع دلت وز تو نرمید صحبت آب و گلت
زنہارز صحبتش گریزاں می باش ور نہ نکند روح عزیزاں بحلت
ترجمہ جب تو کسی ( پیر ) کی صحبت میں رہے۔ اور تجھے اطمینان حاصل نہ اور تجھ سے آب و گل (دنیا) کی کدورتیں دور نہ ہوں تو ایسے (پیر ) کی صحبت سے دور بھاگ دور نہ عزیزان کی روح کو تکلیف ہوگی۔
لیکن اپنے پرانے شیخ سے حسن ظن رکھے کیونکہ ممکن ہے کہ وہ پیر کامل ومکمل ہو لیکن اس کی صحبت سے فیض حاصل کرنا اس کے مقدر میں نہ ہو۔ اس طرح اگر شیخ کامل ومکمل ہو اور پیشتر اس کے کہ مرید درجہ کمال کو پہنچے وہ شیخ اس دنیا سے رحلت کر جائے اس (مرید ) پر واجب ہے کہ کسی دوسرے شیخ کی صحبت تلاش کرے کیونکہ مقصود اللہ تعالی ہے۔ حضرت مجددالف ثانی فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام نے رسول کریم ﷺ کے وصال کے بعد حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان غنی اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی بیعت کی۔ اس بیعت کا مقصد فقط دنیاوی امور نہ تھے بلکہ باطنی کمالات کا حصول بھی تھا۔ اگر کوئی کہے کہ اولیاء کا فیض ان کی وفات کے بعد بھی جاری رہتا ہے اس لیے دوسرے شیخ کی تلاش فضول ہے ۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اولیاء کا فیض ان کی وفات کے بعد اس قدر نہیں ہوتا کہ ناقص کو درجہ کمال تک پہنچاے دے۔ مگر بہت کم اگر وصال کے بعد فیض ویسا ہی ہوتا جیسے زندگی میں ہوتا ہے تو تمام اہل مدینہ رسول اکرم ﷺ کے زمانے سے آج تک صحابہ کرام کے برابر ہوتے اور کسی کو بھی اولیاء کرام کی صحبت کی ضرورت نہ ہوتی ۔ فوت شدہ کا فیض زندہ کے فیض کے برابر ہر گز نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ فیض حاصل کرنے والے اور فیض پہنچانے والے میں نسبت شرط ہے اور وفات کے بعد وہ شرط ختم ہو جاتی ہے۔ ہاں البتہ فنا و بقا کے بعد جب باطنی مناسبت پیدا ہو جائے تو پھر قبروں سے فیض حاصل ہو سکتا ہے لیکن اس قدر نہیں جتنا کہ حیات میں ہوتا ہے۔ واللہ تعالی اعلم
مسئلہ:۔ اگر کسی شخص کی ولایت ثابت ہو جائے اور مرد اس کی صحبت کا اثر اپنے اندر دیکھے تو اس پر واجب ہے کہ اس کی صحبت کو غنیمت جانے اور اس کا دامن مضبوطی سے پکڑے رہے اور اس کے عشق و محبت کو اپنے دل میں خوب جمالے ۔ اور اللہ تعالیٰ کے حضور اس (شیخ) کی محبت کو دل میں مضبوطی سے جم جانے کی دعا کرے۔ اور اس کے حکموں کو مانے اور ممنوعات سے بچنے کی بھر پور کوشش کرے اور ہمیشہ اس کی خوشنودی کو مد نظر رکھے اور ہر وقت احتیاط کرے کہ کوئی ایسی بات سرزد نہ ہو جو شیخ کی ناراضی کا سبب ہے ۔ کیونکہ شیخ کی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا کا سبب اور ترقی کا باعث ہے جبکہ اس کی ناراضی سے فیض اور فتوحات کا دروازہ بند ہو سکتا۔

مسئلہ:۔ شیخ کے آداب میں کوتاہی کرنا حرام ہے کیونکہ اس سے ترقی رک جاتی ہے ۔ ارشاد خداوندی ہے
يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَرۡفَعُوٓاْ أَصۡوَٰتَكُمۡ فَوۡقَ صَوۡتِ ٱلنَّبِيِّ وَلَا تَجۡهَرُواْ لَهُۥ بِٱلۡقَوۡلِ كَجَهۡرِ بَعۡضِكُمۡ لِبَعۡضٍ أَن تَحۡبَطَ أَعۡمَٰلُكُمۡ وَأَنتُمۡ لَا تَشۡعُرُونَ ”
یعنی اے مسلمانو اپنی آواز نبی کریم ﷺ کی آواز سے بلند نہ کرو اور ان سے بات کرتے وقت اس طرح زور سے نہ بولو جس طرح تم آپس میں زور سے باتیں کرتے ہو اور اس بات سے ڈرو کہ کہیں اس بے ادبی کے سب تمہارے نیک اعمال ضائع ہو جا ئیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو”
چونکہ شیخ پیغمبر ﷺ کا نائب ہوتا ہے اس لیے اس کے آداب کا بھی لحاظ رکھنا چاہئیے۔ جس طرح پیغمبر ﷺ سے محبت کرنا فرض ہے اس لیے کہ وہ خدا تعالی سے ملانے والے ہیں۔ آپ کی محبت خداوند تعالی سے محبت کا سبب ہے اور آپ کی میعت اللہ تعالی کی معیت کا سبب ہے۔
اسی طرح پیر کی محبت بھی فرض ہے کیونکہ رسول کریم ﷺ کا نائب ہونے کی حیثیت سے اللہ تعالی اور اس کی محبت کی طرف پہنچاتا ہے۔
مسئلہ:۔ کچھ صوفی حضرات کہتے ہیں کہ مرید کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے پیر کو دوسرے مشائخ سے افضل جانے اور کچھ کہتے ہیں کہ یہ عقیدہ غلط ہے کیونکہ ایک صریح بات : ہے وَفَوۡقَ كُلِّ ‌ذِي ‌عِلۡمٍ عَلِيمہر جاننے والے پر ایک بڑا عالم موجود ہے۔
فقیر ( قاضی ثناء اللہ پانی پتی ) کہتا ہے کہ فضیلت دو قسم کی ہے۔
اول اختیار ۔ اس میں اپنے شیخ کو افضل جاننے کے معنی یہ ہیں کہ اپنے پیر کو اپنے حق میں زیادہ نفع پہنچانے والا جانے اور اسی طرح جانتا صحیح ہے۔
دوم بے اختیاری۔ وہ محبت کی زیادتی اور سکر کی وجہ سے ہے۔ جب محبت کامل ہو جائے تو محبت کرنے والے کی نظر میں اپنے محبوب کے فضائل کے سامنے غیر محبوب کے فضائل بہت ہی کم نظر آتے ہیں۔ اور اس میں محبت کرنے والا عشق کی مستی اور محبت کی زیادتی کی وجہ سے معذور ہے ان دو تاویلوں کے سوا فضیلت کے اور کوئی معنی نہیں ہیں۔
مسئلہ:۔ مرید کو شیخ پر اعتراض نہیں کرنا چاہئیے کیونکہ یہ بات فیض کے حصول میں مانع ہے۔ اس کی دلیل حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کا واقعہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام سے فیض کی درخواست کی تو حضرت خضر علیہ السلام نے ان سے یہ وعدہ لیا کہ میں جو بھی کام کروں گا آپ اس پر اعتراض نہیں کریں گے۔ قَالَ إِنَّكَ لَن تَسۡتَطِيعَ مَعِيَ صَبۡرٗا ٦٧ ‌وَكَيۡفَ ‌تَصۡبِرُ عَلَىٰ مَا لَمۡ تُحِطۡ بِهِ خُبۡرٗا یعنی پہلے حضرت خضر علیہ السلام نے کہا۔ کہ آپ سے صبر نہ ہو سکے گا اور آپ کسی طرح صبر کر سکتے ہیں جس کی حکمت کا آپ کو علم نہیں ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ آپ ان شاء اللہ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے۔ پھر خضر علیہ السلام نے کہا کہ مجھ سے میرے کسی کام کے متعلق کوئی سوال نہ کرنا یہاں تک کہ میں خودان کی آپ سے وضاحت نہ کروں۔ آخر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سوال پوچھنے پر ان دونوں میں جدائی ہوگئی هَٰذَا فِرَاقُ بَيۡنِي وَبَيۡنِكَۚ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر علیہ السلام پر جو اعتراضات کیے تھے وہ ظاہری شریعت کی رو سے تھے۔ ان کو ان کاموں کی حکمت کا علم نہ تھا۔ اس لیے حضرت خضر علیہ السلام نے کہا کہ اب آپ میں اور مجھے میں جدائی ہے۔
فائدہ: ۔یہ ذکر ایسے پیر کے بارے میں ہے جو استقامت والا اور صاحب تقویٰ ہے۔ اگر اس سے ساری عمر میں کوئی ایسی بات ظاہر ہو جو شریعت کے خلاف ہو تو اس صورت میں شیخ پر اعتراض نہ کرے۔ بلکہ اس کی تاویل کرے اگر ہو سکے تو اسے عذر سمجھے اگر کوئی نا جائز قول اس کے منہ سے نکل جائے تو اسے سکر یا مجاز سمجھے یا اپنے معنی نہ سمجھنے پر محمول کرے۔ اگر پیر سے کوئی گناہ سرزد ہو بھی جائے تو بھی اس ولی کا انکار نہ کرے گو خود اس عمل کو ناپسند کرتا ہو کیونکہ بزرگوں نے فرمایا ہے۔ القطب قدیزنی یعنی کبھی قطب بھی زنا کر بیٹھتا ہے” حضرت ماعز ” نبی پاک ﷺ کے صحابہ کرام میں سے تھے ان سے بزور تقدیر زنا کا ارتکاب ہو گیا۔ ان کواللہ تعالٰی نے تو بہ کی توفیق بخشی اور انہوں نے خود کورجم (سنگسار)کیلئے پیش کر دیا۔ اگر کوئی ایسا شخص ہے جس کا شعار ہی گناہ کرتا ہے وہ یقینا ولی اللہ نہیں سے اور اس کے قول وفعل کی تاویل کی ضرورت نہیں۔
مسئلہ:۔ جس طرح شیخ کے آداب میں کمی اور تقصیر کرنا حرام ہے اسی طرح ضرورت سے زیادہ اضافہ کرنا بھی بہت برا ہے۔ جس ہے جناب الٰہی کے آداب میں کمی لازم آتی ہے۔ عیسائیوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کی عزت میں اس قدر اضافہ کیا کہ اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہنے لگے۔ اس طرح اللہ تعالی کے آداب میں کمی لازما آئی۔ اور رافضی لوگوں نے بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی تعظیم میں بے حد افراط کیا۔ بعض نے کہا کہ اللہ تعالی ان میں حلول(اندر سما جانا) کر گیا ہے۔ بعض نے کہا کہ وحی ان کی طرف آئی تھی۔ اور بعض انہیں خلفائے ثلاثہ سے بہتر کہتے ہیں ۔ اس طرح اللہ تعالی کے آداب یا رسول خد اﷺکے آداب یا خلفائے ثلاثہ کے آداب میں کمی لازم آتی ہے۔

مسئلہ:۔ اولیاء اللہ کوغیب کا علم نہیں ہوتا البتہ بعض غائب چیزوں کے متعلق خرق عادتا کے طور پر کشف یا الہام سے ان کو علم دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے قُل لَّآ أَقُولُ لَكُمۡ عِندِي ‌خَزَآئِنُ ٱللَّهِ وَلَآ أَعۡلَمُ ٱلۡغَيۡبَ وقال تعالى وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيۡءٖ مِّنۡ عِلۡمِهِۦٓ إِلَّا بِمَا شَآءَ
ترجمہ: اے نبی سے کہہ دو کہ میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالی کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں۔ اور دوسری جگہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ انبیاء اور ملائکہ وغیرہ خدا کے علم کے کسی حصے کا احاطہ نہیں کر سکتے مگر اس کا جس کا خدا خود چاہے اور اس کا علم ان کو دے دے۔
اور دوسری آیات اس بات کی شاہد ہیں۔
مسئلہ:۔ کوئی بھی ولی انبیاء کرام میں سے ادنی درجے کے نبی کے برابر ہرگز نہیں ہو سکتا اس مسئلہ پر اجماع کا اتفاق ہے۔ پس اگر کوئی کہے کہ ولایت نبوت سے افضل ہے علانیہ غلط ہے۔
مسئلہ:۔ کوئی بھی ولی نبی کے مرتبہ تک نہیں پہنچ سکتا اور اس سے شرعی تکالیف ساقط نہیں ہوتیں۔ سوائے مجذوب کے وہ عقل سے عاری ہوتا ہے کیونکہ تکلیف کے لیے عقل و طاقت کا ہونا شرط ہے۔ اور انبیاء کرام سے بھی تکلیف شرعی ساقط نہیں ہوتیں بلکہ تکالیف کی زیادتی عزت و بزرگی کی دلیل ہے۔ انبیاء کرام پر تبلیغ کے احکام واجب ہوتے ہیں۔ ایک روایت کے مطابق نبی کریم ﷺ پر تہجد کی نماز واجب تھی اسی طرح ایک روایت کے مطابق نماز چاشت اور فجر کی سنتیں بھی واجب تھیں ۔
مسئلہ:۔ عصمت انبیاء کرام کے لیے مخصوص ہے۔ اسے اولیا ء کیلئے بولنا کفر ہے اصطلاحاً عصمت کا مطلب ہے کہ اس سے کسی قسم کا چھوٹا یا بڑا گناہ نہ ہو سکے خواہ عمد اًیا خطاً عقل میں فتورنہ آئے ۔ خواب اور بیداری میں غفلت نہ ہو ۔ اور ہذیان وسکر سے بھی محفوظ رہے۔ ایسی عصمت کا انبیاء کرام میں ہونا لازمی ہے۔ تا کہ ان میں کسی قسم کا شک وشبہ پیدا نہ ہو۔ غیرانبیاء کیلئے عصمت کا لفظ استعمال کرنا اجماع کے خلاف ہے۔
مسئلہ:۔ صحابہ کرام امت کے اولیاء سے افضل ہیں اللہ تعالی نے ان کے بارے میں فرمایا ہے كُنتُمۡ خَيۡرَ أُمَّةٍ أُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ ” تم لوگوں میں لائی ہوئی بہترین امت ہو رسول خدا ﷺ نے ارشاد فرمایاٍ خَيْرُ ‌القُرُونِ ‌قَرْنِي ثُمَّ الذِيْنَ ‌يَلُوْنَهُمْ تمام زمانوں سے میرا زمانہ بہترین ہے اور پھر جو اس کے ساتھ ہے اور اجماع کا اس پر اتفاق ہے که الصَّحَابَةَ ‌كُلَّهُمْ ‌عُدُولٌ ( تمام صحابہ کرام عادل ہیں ” حضرت عبد اللہ بن مبارک جو کہ تا بعین میں سے ہیں کہتے ہیں ۔ الغبار الذي دخل انف فرس معاوية : خير من أويس من القرني وعمر المرواني یعنی وہ غبار جو معاویہ کے گھوڑے کےنتھنوں میں داخل ہوا۔ وہ اویس قرنی اور عمر مروانی سے بہتر ہے”
مسئلہ:۔ اگر کوئی کہے کہ خدا اور رسول اس عمل پر گواہ ہیں تو وہ کافر ہو جاتا ہے۔ اولیاء کرام معدوم کو موجود کرنے یا موجود کو معدوم کرنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ اس لیے پیدا کرنے معدوم کرنے ، رزق دینے ، اولا د دینے ، بلا دور کرنے اور مرض سے شفا دینے وغیرہ کی نسبت ان سے مدد طلب کرنا کفر ہے۔
فرمان خداوندی ہے قُل ‌لَّآ ‌أَمۡلِكُ لِنَفۡسِي نَفۡعٗا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَآءَ ٱللَّهُۚیعنی اے محمد ﷺ کہہ دیجیے میں اپنے آپ کے لیے نفع اور نقصان کا مالک نہیں ہوں مگر وہ کچھ جواللہ چاہے اور اگر سبب کے لحاظ سے نسبت ہو تو کوئی حرج
نہیں۔
مسئلہ:۔ (زیارت قبور کے وقت) سنت یہ ہے کہ کہے السَّلَامُ عَلَيْكُمْ ‌أَهْلَ ‌الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ، نَسْأَلُ اللَّهَ لَنَا وَلَكُمُ الْعَافِيَةَ السلام علیکم اے قبروں کے رہنے والے مومنو اور مسلمانو اور ان شاء اللہ ہم بھی تمھارے پاس آپہنچنے والے ہیں ہم اللہ سے اپنے لیے اور تمھارے لیے عافیت چاہتے ہیں
مسئلہ:۔ حضرت رسول خدا ﷺ اور اولیاء کرام کے مقابر کی زیارت کے وقت مستحب ہے کہ کامل طہارت ہو اور متواتر درود پاک پیغمبر خدا ﷺ اور ان کے اتباع پر پڑھنا چاہئیے ۔ اور نماز ، روز ہ یا صدقہ جیسا کوئی نیک عمل جو اس سے پہلے خالص نیت سے کیا ہو اس کا ثواب بخشے اور اپنے دل کو حاضر رکھے اور خشوع و خضوع کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے ان کی محبت اور ان کے طریقہ کی اتباع کی التجا کر ہے۔ اور اگر صاحب نسبت ہو تو اپنا دل تمام دوسرے خیالات سے خالی کر کے صاحب قبر سے فیض حاصل کرنے کے لیے مراقبہ کرے۔ قبروں کے نزدیک قرآن پڑھنے میں اختلاف ہے مگر صحیح یہ ہے کہ جائز ہے۔

مقام سوم
کاملوں اور مرشدوں کے آداب کے بارے میں

فصل :۔ کاملوں کو بھی لازم ہے کہ مزید طلب کریں۔ اللہ تعالیٰ کا قرب طلب کرنے میں کبھی قناعت نہیں چاہئیے بلکہ جناب الہٰی میں سوال کرتا رہے۔ جس طرح رسول خدا ﷺ کہا کرتے تھے طررب زدنی علما کے یعنی اے پروردگار میرے علم میں اضافہ کر مجاہدہ میں کبھی ستی اور کوتاہی نہ کرے کیونکہ جب تک جان باقی ہے مجاہدہ بھی باقی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: واعيد ربك حتى ياتيك اليقين ما محمد کو اپنے پروردگار کی عبادت کرتے رہو یہاں تک کہ آپ کو یقین (موت) آ جائے ۔ رسول اللہ ہے رات کو اس قدر قیام کرتے کہ آپ کے پاؤں مبارک سوج جاتے ۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ نے وقد غفر الله لك ما تقدم من ذنبك و ما تاخر يا رسول اللہ کے خدا نے تو آپ کی اگلی پچھلی سب تقصیریں معاف کر دیں (پھر آپ اتنی عبادت کیوں کرتے ہیں) آپ ﷺ نے فرمایا واولا اكون عبداً شكورا ) کیا میں سب سے زیادہ شکر گزار بندہ نہ بنوں۔ مسئلہ:۔ : اگر کوئی کامل اپنے سے زیادہ کسی کامل کو دیکھے تو چاہئیے کہ اس سے فیض حاصل کرے۔ بلکہ اگر اپنے سے کم درجہ والے میں بھی کوئی خصوصیت یا خوبی دیکھے تو چاہئیے کہ وہ بھی طلب کرے۔ جیسے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر علیہ السلام سے طلب کی ۔ رسول اللہ اللہ نے اپنی اُمت کو یہ درود سکھایا واللهم صل على محمد و على ال : محمد كما صليت على ابراهيم وعلى آل ابراهیم کے الٰہی رحمت نازل کر حضرت محمد نے پر اور ان کی آل پر جس طرح تو نے رحمت نازل کی حضرت ابراہیم علیہ السلام پر اور ان کی آل پر حضرت مجددالف ثانی فرماتے ہیں کہ حضرت محمد ﷺ کی تعین کا مبداء خالص محبوبیت ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعین کا مبداء خلت ہے ۔ جو تعین محمدی کے درجہ کا زینہ ہے ۔ ولایت محمدی والے کو ولایت ابرا ہیمی ضروری ہے کہ جو اس کے درجہ کا زینہ ہے ۔ لیکن چونکہ خالص محبوبیت مقتضی ہے کہ محبوب درجہ کے زینہ پر توقف نہ کرے۔ اور مقام خلت میں بھی بڑی فضیلت ہے گو کہ محبوبیت خالص کے درجہ کا ایک زینہ ہے۔ اس لیے رب العالمین نے چاہا کہ مقام خلت کی بزرگی بھی بعض پیروان محمد ﷺ کو حاصل ہو جائے تا کہ وہ منصب مالی بھی سرور محبوبان کے زیریمین ہو جائے۔ طوفان العبد وما في يده ملك لمولاه ) غلام خود اور اس کے ہاتھ کا سارا مال اس کے مالک کی ملکیت ہے
اللہ تعالی نے ہزار سال کے بعد یہ دعا قبول فرمائی اور حضرت مجدد گو جو کہ آنحضرت ے کی اتباع کرنے والوں میں سے ایک ہیں ان کی اتباع کی بدولت اس رتبہ سے سرفراز فرمایا۔ کم عقل لوگ آنحضرت مے کی اس بات پر اعتراض کرتے ہیں۔
گیر نه بیند بروز شیره چشم چشمه آفتاب را چه گناه
ترجمہ: اگر دن کے اجالے میں چمگادڑ کو کچھ نظر نہیں آتاتو اس میں سورج کا کیا قصور ہے۔
مسئلہ :۔ اولیائے کامل جو ارشاد اور تکمیل کی قدرت رکھتے ہیں انہیں چاہئیے کہ لوگوں کو اپنے فیض کی طرف توجہ دلائیں تا کہ وہ ان سے فیض حاصل کریں اور لوگوں کے طعنوں اور انکار کاکوئی ڈر نہ رکھیں ۔ رسول خدا ﷺ نے فرمایا:
لَا يَزَالُ مِنْ أُمَّتِي أُمَّةٌ قَائِمَةٌ بِأَمْرِ اللهِ ‌لَا ‌يَضُرُّهُمْ ‌مَنْ ‌خَذَلَهُمْ وَلَا مَنْ ‌خَالَفَهُمْ
ترجمہ: میری امت میں سے ہمیشہ ایک جماعت خدا کے کام یعنی لوگوں کی ہدایت اور دین کی ترویج پر کمر بستہ رہے گی ۔ ان کی مدد نہ کرنے والا ان کو نقصان نہ پہنچا سکے گا اور نہ وہ شخص کچھ کر سکے گا جو ان کی مخالفت کرے گا۔
لوگوں کو حق کی دعوت دینا انبیاء کرام کی سنت ہے اور اولیاء کرام ، انبیاء کرام کے نائب بن کر یہ خدمت انجام دیتے ہیں۔ اس لیے اس عظیم منصب کو نادان لوگوں کے انکار کی بنا پر چھوڑ نہیں دینا چاہئیے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ فَإِن كَذَّبُوكَ فَقَدۡ كُذِّبَ رُسُل مِّن قَبۡلِكَ جَآءُو بِٱلۡبَيِّنَٰتِ وَٱلزُّبُرِ وَٱلۡكِتَٰبِ ٱلۡمُنِيرِ ”
ترجمہ: اے محمد ﷺ اگر یہ لوگ آپ کو جھٹلاتے ہیں تو کچھ غم نہ کریں ۔ آپ سے پہلے بھی لوگوں نے رسولوں کو جھٹلایا تھا حالانکہ انہوں نے معجزے صحیفے اور روشنی دینے والی کتاب کی نشانیاں پیش کیں۔
حدیث پاک ہے ۔ فَضْلُ ‌العَالِمِ عَلَى العَابِدِ كَفَضْلِي عَلَى أَدْنَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ وَأَهْلَ السَّمَوَاتِ وَالأَرَضِينَ حَتَّى النَّمْلَةَ فِي جُحْرِهَا وَحَتَّى الحُوتَ لَيُصَلُّونَ عَلَى مُعَلِّمِ النَّاسِ الخَيْرَ (رواه الترندی عن ابى الامامۃ الباہلی)
ترجمہ : یعنی عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تم میں سے کسی ادنی آدمی پر” بے شک اللہ تعالٰی اور اس کے فرشے اور اہل آسمان اور اہل زمین یہاں تک کہ چیونٹی اپنے بل میں اور مچھلی پانی میں لوگوں کو نیکی کا سبق دینے والوں پر درود بھیجتے ہیں ۔
مسئلہ:۔ جو شخص اپنی ولایت اور ارشاد کا جھوٹا دعوی، شہرت، حکومت اور مال کے حصول کیلئے کرے وہ مسیلمہ کذاب کی طرح شیطان کا خلیفہ ہے۔
فرمان خداوندی ہے۔ وَمَنۡ أَظۡلَمُ مِمَّنِ ٱفۡتَرَىٰ عَلَى ٱللَّهِ كَذِبًا أَوۡ قَالَ أُوحِيَ إِلَيَّ ‌وَلَمۡ ‌يُوحَ إِلَيۡهِ شَيۡءٞ وَمَن قَالَ سَأُنزِلُ مِثۡلَ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُۗ اور اس سے زیادہ ظالم شخص اور کون ہے جو اللہ تعالی پر جھوٹا بہتان باندھتا ہے کہ مجھ پر وحی نازل ہوتی ہے حالانکہ اس پر کوئی وحی نازل نہیں ہوئی۔ اور وہ شخص جس نے کہا میں بھی ویساہی کلام نازل کروں گا جیسا کہ خدا نے نازل کیا ہے۔
ایسا شخص شیطان کی طرح ہے جو لوگوں کو راہ خدا سے روکتا ہے۔ نعوذ بالله منها
مسئلہ:۔ اولیاء اللہ کو جائز ہے کہ اللہ تعالٰی کے اس انعام کو جو ان پر ہوا ہو اور اس مرتبہ قرب الہٰی کو جو اللہ تعالٰی نے ان کو اپنے فضل سے عطا کیا ہو اس کا اظہار کریں۔ چنانچہ غوث الثقلین کے قصائد، حضرت مجد دالف ثانی کے مکتوبات اور شیخ اکبر کی تصانیف ان سے پر ہیں ۔ کیونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے وَأَمَّا بِنِعۡمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثۡ یعنی اپنے پروردگار کی نعمت کا ذکر کر اللہ تعالٰی کی دی ہوئی نعمت کا ذکر کرنا بھی شکر ہے اور بیہقی نے اضافہ کیا ہے ‌وَتَرْكُهُ ‌كُفْرٌ اور اس کا ترک کرنا کفران نعمت ہے اور ابن جریر نے تفسیر میں ابی بسرہ غفاری سے روایت کی ہے کہ مسلمان یعنی صحابہ کرام جانتے تھے کہ شکر نعمت یہ ہے کہ اس نعمت کا اظہار کیا جائے ۔
کیونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے لَئِن شَكَرۡتُمۡ لَأَزِيدَنَّكُمۡۖ وَلَئِن كَفَرۡتُمۡ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيد یعنی اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہاری نعمت میں اضافہ کردوں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو بے شک میرا عذاب بہت سخت ہے۔
اس میں اللہ تعالٰی نے کفران نعمت پر عذاب شدید کا حکم صادر فرمایا ہے۔
دیلمی نے فردوس میں اور ابو نعیم نے حلیہ میں روایت کی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے منبر پر چڑھ کر فرمایا الحمد ‌لله ‌الذي ‌صيرني ليس فوقي أحد یعنی تمام تعریفیں اس اللہ تعالی کے لیے ہیں جس نے مجھے یہ رتبہ بخشا ہے کہ کوئی مجھ سے اوپر نہیں ہے پھر جب منبر سے اترے تو لوگوں نے اس بات کی وجہ دریافت کی۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے یہ بات فقط شکر نعمت کے طور پر کہی ہے۔
ابن ابی حاتم نے مقیم سے روایت کی ہے کہ حضرت حسن بن علی سے ملاقات کی۔ ان سے مصافحہ کیا اور وَأَمَّا بِنِعۡمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثۡ کی تفسیر پوچھی تو انہوں نے فرمایا: کہ اگر کوئی مرد مسلمان کوئی نیک کام کرے تو اپنے گھر والوں سے اس کا ذکر کرے۔ اس بارے میں بہت سی احادیث اور صحابہ اور سلف صالحین کے بہت سے اقوال مروی ہیں ۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اللہ تعالی نے اپنے نفس کی پاکیزگی پر فخر کرنے سے منع فرمایا ہے اور حکم ہے کہ ‌فَلَا ‌تُزَكُّوٓاْ أَنفُسَكُمۡۖیعنی اپنے نفس کی پاکیزگی کو بیان نہ کرو تو اس کا جواب یہ ہے کہ تزکیہ نفس اور اظہار نعمت بظاہر ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔ لیکن در حقیقت ان میں بڑا فرق ہے۔ اگر کمالات کو اپنے نفس کی جانب منسوب کرے اور ان کو خالق حقیقی سے منسوب کرنا فراموش کر دے تو وہ تزکیہ نفس ہے اور تکبر ہے جو مذموم ہے لیکن اگر اس کو خدائے لم یزل سے منسوب کرے اور اپنے آپ کوئی نفسیہ منشائے شر سمجھے اور ان خوبیوں کیساتھ اپنا متصف ہونا ، خوف خدا سے اور اللہ تعالیٰ کی عنایت سمجھ کر اس کا شکر ادا کرے تو اس کو اظہار نعمت کہتے ہیں۔ اگرچہ یہ معنی عوام کی نظروں میں ملتے جلتے ہیں لیکن خدا وند قدوس کی نظروں میں ملتے جلتے نہیں ۔ وَٱللَّهُ يَعۡلَمُ ٱلۡمُفۡسِدَ مِنَ ٱلۡمُصۡلِحِ. یعنی اللہ تعالی مفسد اور صلح کو الگ الگ جانتا ہے اولیاء اللہ جو نفسانی برائیوں سے پاک ہوتے ہیں اظہار نعمت کے سوا کچھ نہیں کہتے ۔ اس لیے اگر متقی لوگوں سے ایسا امر ظہور پذیر ہو تو ان پر اعتراض نہیں ہونا چاہئیے کیونکہ حسن ظن ( نیک گمان ) کا حکم آیا ہے ۔ لیکن مرید کو چاہئیے کہ نفس کے مکر پر مطمئن نہ ر ہے اور اپنے کمالات کو خیال میں نہ لائے ۔ اور اپنے نفس پر ہمیشہ تہمت لگا تار ہے۔ لیکن جب تکمیل کے مرتبہ پر پہنچ جائے اور اکابر کی شہادت اور مسلسل الہامات سے ملہم ہو جائے تو اس وقت ( اس نعمت کا )اظہار کرے تاکہ لوگ اس کے مرتبہ کو پہچان کر اس سے استفادہ کریں اور اس کے کمالات کے خواہشمندر ہیں۔
فصل:۔ شیخ کو چاہئے کہ مرید کے ساتھ عمدہ سلوک رکھے۔ طریقہ کے بیان کرنے میں گہری دلچسپی لے اور اپنے مریدوں پر مہربان اور رحیم ہو کیونکہ یہ رسول کریم ﷺ کی صفات ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لَقَدۡ جَآءَكُمۡ رَسُول مِّنۡ أَنفُسِكُمۡ عَزِيزٌ عَلَيۡهِ مَا عَنِتُّمۡ حَرِيصٌ عَلَيۡكُم بِٱلۡمُؤۡمِنِينَ رَءُوف رَّحِيم
ترجمہ یعنی البتہ آیا تمہارے پاس تم میں سے رسول دُشوار ہے اس پر تمہارا رنج کرنا۔ تمہاری ہدایت کیلئے حریص ہے اور مسلمانوں پر کمال مہربان ہے شیخ کو چاہئیے کہ وہ مریدوں سے ترش روئی اختیار نہ کرے انہیں سخت سست نہ کہے مگر اسلام کے متعلق۔ نصیحت نرمی اور شفقت سے کرے۔
درشتی اور سخت گوئی نہ کرے کیونکہ رسول کریم ﷺ کا یہی طریقہ تھا اور اگر اپنے متعلق ان سے کوئی قصور دیکھے تو معاف کر دے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے ‌وَلۡيَعۡفُواْ وَلۡيَصۡفَحُوٓاْۗیعنی چاہئیے کہ معاف کرے اور (ان کے قصوروں سے درگزر کرے ۔ اللہ تعالی نے فرمایا فَبِمَا رَحۡمَةٖ مِّنَ ٱللَّهِ لِنتَ لَهُمۡۖ وَلَوۡ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ ٱلۡقَلۡبِ لَٱنفَضُّواْ مِنۡ حَوۡلِكَۖ فَٱعۡفُ عَنۡهُمۡ وَٱسۡتَغۡفِرۡ لَهُمۡ ‌وَشَاوِرۡهُمۡ فِي ٱلۡأَمۡرِۖیعنی خدا کی رحمت کے سبب جو تجھ پر ہے تو ان پر نرم دل ہے اور اگر تو ان کے لیے ترش رو اور سخت دل ہوتا تو ضرور تتر بتر ہو جائیں گرد سے پس ان کے قصور معاف کر اور خدا سے ان کے لیے مغفرت طلب کر اور کام میں ان سے مشورہ کر۔
اللہ تعالی نے فرمایا وَلَا ‌تَطۡرُدِ ٱلَّذِينَ يَدۡعُونَ رَبَّهُم، یعنی ان لوگوں کو دور نہ کر جوصبح و شام خدا کو یاد کرتے ہیں،
اللہ تعالیٰ کا قول ہے ‌فَتَطۡرُدَهُمۡ فَتَكُونَ مِنَ ٱلظَّٰلِمِينَ یعنی اگر تو ان کو دور کرے گا تو ظالموں میں سے ہوگا۔
اور مریدوں سے مالی یا بدنی منفعت کی توقع نہیں رکھنی چاہئیے جیسا کہ ارشاد عبادت ہے اور عبادت پر اجرت لینا جائز نہیں۔ اللہ تعالی نے فرمايا وَلَا ‌تَعۡدُ عَيۡنَاكَ عَنۡهُمۡ تُرِيدُ زِينَةَ ٱلۡحَيَوٰةِ ٱلدُّنۡيَاۖیعنی اور ان سے اپنی آنکھیں نہ پھیر اس حالت میں جب تو حیات دنیا کی زینت کا ارادور کھتا ہو اور رہنمائی کرتے وقت اجرت لینے کی نیت نہ کر مگر صرف خداسے قُلۡ مَا سَأَلۡتُكُم مِّنۡ أَجۡرٖ فَهُوَ لَكُمۡۖ ‌إِنۡ ‌أَجۡرِيَ إِلَّا عَلَى ٱللَّهِۖیعنی اے محمد ﷺ کہہ دیجیے یہ میں تم سے (اپنی محنت کا صلہ نہیں مانگتا بے شک میرا اجر تو محض اللہ تعالیٰ پر ہے”
رسول کریم نے لوگوں کے تکلیف دینے پر صبر کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے رَحِمَ الله ‌أخِي ‌مُوَسى- عَلَيْهِ السَّلَامُ- لَقَدْ أُوذِيَ بِأَكْثَرَ مِنْ هذا فَصَبَریعنی ” رحم کرے الله تعالى میرے بھائی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر کہ ان کو اس سے زیاد و ایذا دی گئی تھی جس پر انہوں نے صبر کیا حضرت ایشاں شہید ( قاضی ثناء اللہ پانی پتی کے مرشد حضرت مرزا مظہر جان جانان) بزرگوار حضرت سید نور محمد بدایونی کے متعلق نقل کرتے ہیں کہ ایک شخص خود کو آنحضرت کے مریدوں سے بیان کرتا تھا۔ ایک دن اس شخص نے بدبختی میں آکر آنحضرت کے حضور میں سخت بے ادبی کی اور بہت برا بھلا کہا۔ اس کے جواب میں آپ نے کچھ نہ کہا۔ اگلے دن وہی شخص آیا تا کہ آنحضرت سے توجہ لے اور استفادہ کرے۔ میں نے چاہا کہ اس کو سزا دوں ۔ مگر آنحضرت نے مجھے منع فرمادیا اور اس شخص کی طرف اس طرح متوجہ ے ہوئے جس طرح دوسرے مخلص لوگوں پر توجہ فرماتے تھے بلکہ اس پر کچھ زیادہ توجہ فرمائی۔ فقیر اس بات سے بہت تنگ دل ہوا اور اس کو تمام مخلصوں کے برابر سمجھنے کے سبب پر آنحضرت سے درخواست کی۔ آنحضرت نے فرمایا مرزا صاحب اگر میں اس کو سرزنش اور ملامت کرتا اور توجہ نہ دیتا تو اللہ تعالیٰ مجھ سے پوچھتا کہ میں نے تیرے سینے میں ایک نور عطا کیا تھا اور میرے بندوں میں ایک اس نور کو طلب کر نے آیا تو نے اسے محروم کیوں رکھا ؟ تو اس وقت میں کیسے کہتا کہ الٰہی چونکہ اس نے مجھے گالی دی تھی اس لیے میں نے محروم رکھا۔ کیا یہ جواب قبول کیا جاتا؟ میں تنگدلی کے ساتھ کچھ وقت خاموش رہا۔ کچھ دیر کے بعد آنجناب نے فرمایا کہ اے بچہ اگر چہ میں نے اس کو مخلصوں کی طرح توجہ دی ہے لیکن اللہ تعالی منافق کو کب مخلص کے برابر جانتا ہے وَٱللَّهُ يَعۡلَمُ ٱلۡمُفۡسِدَ مِنَ ٱلۡمُصۡلِحِ کام کی حقیقت خدا کے ہاتھ میں ہے۔ فیض فقط مخلص اور مودب دوستوں کو پہنچتا ہے۔ اس قصہ کی ہی مثال ہے کہ عبداللہ بن ابی بن سلول منافق ، جس نے آنحضرت ﷺ کی شان اقدس میں کئی باربے ادبی کی تھی ، اس کے جنازہ کے لیے اس کے بیٹے جو کہ مخلص مومن تھا، آنحضور ﷺ کی خدمت میں التجا کی کہ سرکار دو عالم ﷺ اس کی نماز جنازہ پڑھی اور بخشش مانگی آنحضرت نماز کے لیے کھڑے ہوئے مگر حضرت عمر مانع ہوئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ یہ وہی شخص ہے کہ جس نے فلاں روز ایسا کہا اور فلاں روز ویسا کہا اور اللہ تعالی نے فرمایا ہے إِن تَسۡتَغۡفِرۡ لَهُمۡ ‌سَبۡعِينَ مَرَّةٗ فَلَن يَغۡفِرَ ٱللَّهُ لَهُمۡیعنی اگر تو منافقوں کے لیے ستر بار بھی مغفرت طلب کرے اللہ تعالی انہیں ہر گز نہیں بخشے گا۔ آنحضرت ﷺ نے اس کو قول کو نظر انداز کیا اور فرمایا کہ میں اس کے لیے ستر بار سے بھی زیادہ بخشش طلب کروں گا۔ آخر کار آنحضرت ﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی۔ لیکن اللہ تعالی نے اس منافق کے حق میں استغفار قبول نہ کی اور یہ آیت نازل فرمائی وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰٓ أَحَدٖ مِّنۡهُم مَّاتَ أَبَدٗا وَلَا ‌تَقُمۡ عَلَىٰ قَبۡرِهِیعنی منافقوں میں سے کسی کے لیے بھی نماز جنازہ نہ پڑھ اور نہ اس کی قبر پر کھڑا ہو پھر ایک اور آیت نازل ہوئی۔ أَسۡتَغۡفَرۡتَ لَهُمۡ أَمۡ لَمۡ تَسۡتَغۡفِرۡ لَهُمۡ ‌لَن ‌يَغۡفِرَ ٱللَّهُ لَهُمۡۚ یعنی ” چاہے تو منافقوں کے لیے استغفار کر یا نہ کر اللہ تعالیٰ ہر گز نہیں بخشے گا۔ اس کے بعد آنحضرت نے کسی منافق کے جنازہ پر نماز نہیں پڑھی۔
مسئلہ:۔ مسند نشین کو چاہئیے کہ باوقار طریقے سے رہے اور کھیل تماشا اور زیادہ میل جول کی راہ نہ نکالے کیونکہ اگر مرید کی نظر میں اس کی شوکت و عظمت کم ہو گئی تو ان پر فیض کا دروازہ بند ہو جائے گا۔ اور رسول اللہ ﷺکے حق میں مروی ہے کہ مَنْ رَآهُ بَدِيهَةً ‌هَابَهُ، وَمَنْ خَالَطَهُ مَعْرِفَةً ‌أَحَبَّهُ یعنی جو کوئی شخص آپ ﷺ کو دور سے دیکھتا تھا تو اس پر آپ کا رعب و دبدبہ بڑھ جاتا تھا اور جو شخص آپ ﷺ کو قریب سے دیکھتا تھا تو اس کے دل میں آپ کی محبت گھر کر جاتی تھی۔
مسئلہ:۔ پیر بعض مریدوں کو بعض پر ترجیح نہ دے مگر اس شخص کو جس کی خداوند تعالیٰ کی طلب زیادہ ہو ۔ حضرت ابن ام مکتوم صحابہ کرام میں سے تھے ایک روزوہ آنحضرت ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ہے حق تعالی نے آپ کو جو علم عطا کیا ہے مجھے سکھائیے۔ اس وقت قریش کے بڑے سردار آنحضور ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور آپ ﷺ کو اللہ تعالی کی طرف ترغیب و ترہیب اور دعوت دینے میں مشغول تھے اور ابن ام مکتوم کے سوال کا جواب نہ دیا۔ چونکہ وہ نابینا تھے بار بار بلند آواز سے عرض کیا آنحضرت ﷺ نے ان کی بات پر توجہ نہ دی۔ قریش کے سرداروں سے مشغول رہنے میں یہ حکمت تھی کہ اگر وہ ایمان لے آئے تو ایک کثیر جماعت مشرف بہ اسلام ہو جائے گی۔ ابن ام مکتوم مخلص آدمی تھے ان کی تعلیم میں اگر دیر بھی ہوگئی تو کوئی نقصان نہ تھا، اس لمحہ یہ عتاب نازل ہوا عَبَسَ وَتَوَلَّىٰٓ أَن جَآءَهُ ٱلۡأَعۡمَىٰ یعنی تر شروئی کی اور منہ پھیر لیا جس وقت کہ اس کے پاس نا بینا آیا اس غرض کے لیے یہ آیت نازل ہوئی کہ جو شخص خدا طلبی میں زیادہ محکم ہو اس کی تعلیم میں کوشش کرنی چاہئیے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو فرمایا: یادَاوُدَاِذَا رَأَيْتَ لِي طَالِبًا ‌فَكُنْ ‌لَهُ ‌خَادِمًا یعنی اے داؤ د جب تجھے کوئی میرا طالب ملے تو اس کا خادم بن جا
مسئلہ:۔ اور صاحب ارشاد کو یہ بھی چاہئیے کہ وہ کوئی ایسی حرکت نہ کرے جو مخلوق خدا کی بے اعتقادی کا باعث ہے۔ جس طرح کہ فرقہ ملامتیہ نے اس کو اختیار کر رکھا ہے۔ کہ یہ طریقہ منصب ارشاد میں خلل انداز ہوتا ہے۔ اس لیے صوفیہ کرام کہتے ہیں ریا الکاملین خير من اخلاص المريدين یعنی کامل لوگوں کی ریا مریدوں کے اخلاص سے بہتر ہے کہ ارشاد کا منصب بہت بلند منصب ہے یعنی یہ رسول اللہ ﷺ کی نیابت ہے ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے إِنَّآ أَرۡسَلۡنَٰكَ شَٰهِدٗا وَمُبَشِّرٗا وَنَذِيرٗا ‌وَدَاعِيًا إِلَى ٱللَّهِ بِإِذۡنِهِۦ وَسِرَاجٗا مُّنِيرٗا یعنی ہم نے تجھ کو بھیجا تا کہ تو امت کے اعمال پر گواہ ہو نیکو کاروں کو خوشخبری دے۔ بدکاروں کو جہنم سے ڈرائے اور اللہ تعالی کی اجازت سے اس کی طرف رہنمائی کرے اور روشنی بکھیر نے والا چراغ ہو”
ارشاد کا ثواب تمام عبادتوں کے ثواب سے زیادہ ہے دارمی نے حضرت حسن سے روایت کی ہے کہ لوگوں نے نبی پاک سے دو آدمیوں کے حال کی بابت پوچھا جو بنی اسرائیل میں سے تھے ایک عالم تھا جو فرض نماز پڑھتا تھا اور پھر مخلوق کی تعلیم میں مشغول ہو جاتا تھا دوسرا ہمیشہ ساری رات قیام کرتا تھا اور ہمیشہ دن کو روزہ رکھتا تھا رسول خدا ﷺ نے فرمایا کہ اس عالم کی فضیلت اس عابدہ پر ایسی ہے جیسی میری فضیلت تم میں سے ایک ادنی آدمی پر ۔

مقام چهارم
قرب الٰہی کے اسباب اور اس کی ترقی کا بیان

جاننا چا ہیئے کہ قرب الٰہی کا سبب جذب یعنی اللہ تعالی کا اپنے بندے کو اپنی طرف کھینچنا ہے۔ یہ جذب بھی بغیر واسطے کے ہوتا ہے اور اس کو اجتبا کہتے ہیں۔ اور کبھی کسی امر کےو اسطہ سے ہوتا ہے اور وہ متوسط بحکم استقراء(تلاش) دو چیزیں ہیں ایک عبادت اور دوسری انسان کامل مکمل کی صحبت ، اس لیے جو جذب الٰہی عبادت کے توسط سے ہو اس کو عبادت کا ثمرہ کہتے ہیں اور جو صحبت کے توسط سے ہوا سے تاثیر شیخ کا نام دیتے ہیں یہ کلام علت فاعلی میں ہے اور علت قابلی استعداد ہے۔ جو اللہ تعالی نے انسان کو عطا کی ہے۔ جس کی خبر قرآن مجید بھی دیتا ہے
‌فِطۡرَتَ ٱللَّهِ ٱلَّتِي ‌فَطَرَ ٱلنَّاسَ عَلَيۡهَایعنی اللہ تعالی کی فطرت ہے کہ اس قابلیت پر خدا تعالی نے انسان کو پیدا کیا اور حدیث پاک میں آیا ہے۔ مَا ‌مِنْ ‌مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ ‌يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ یعنی جو بچہ پیدا ہوتا ہے وہ اسلام کی قابلیت پر پیدا ہوتا ہے پھر ا سکے والدین اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں۔ انسانی استعدادات مختلف ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے۔ النَّاسُ مَعَادِنُ، ‌كَمَعَادِنِ الْفِضَّةِ وَالذَّهَبِ یعنی انسان کی جنس سونے اور چاندی کی کانوں کی طرح کان ہے کہ کسی کان سے سونا نکلتا ہے کسی سے چاندی اور کسی کان سے لوہا وغیرہ ۔ اور قرب الٰہی سے روکنے والی چیزیں رذائل نفس جنس عناصر اور لطائف عالم امر سے غفلت ہیں۔ ان میں سے ہر ایک عبادت اور انسان کامل کی صحبت سے حصول قرب کی علت ہے۔ ویسے یہی دونوں چیزیں موانع کے دفع کرنے والی علت (سبب)بھی ہیں۔

فصل آفاقی و انفسی سیر کا بیان

اوپر کے بیان سے واضح ہو گیا کہ ناقصوں کو حصول کمال کیلئے دو چیزیں بہت ضروری ہیں۔ ایک کسب جس سے مراد عبادت وریاضت ہے جیسے کہ شیخ کامل و مکمل تجویز کرے جو موانع کو رفع کرتا ہے نفس و عناصر کا تزکیہ کرتا ہے لطائف عالم امر کو صاف کرتا ہے جو لطائف عالم خلق کی مصاحبت سے تاریک ہو گئے ہوں ۔ اور اپنے آپ کو اور اپنے خالق کو بھلا چکے ہوں دوسرا جذب شیخ کامل و مکمل جو نسبت اور قرب الٰہی بخشتا ہے اور ہستی سے بلندی تک پہنچاتا ہے۔ اور اولیاء کرام اکثر طریق سلوک کو جذب پر مقدم رکھتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ تحصیل مقاصد کی نسبت رفع موانع کو مقدم سمجھتے ہیں۔
تحصیل مقاصد:۔ اس لیے وہ مرید کو اذکار اور ریاضت نفسی کا حکم دیتے ہیں اور اپنے تصرف کو اس کی امداد میں متوجہ رکھتے ہیں۔ تا کہ عالم امر کے لطائف پاک وصاف ہو جائیں اور نفس اخلاق حسنه مثلا تو به، انابت، زہد، توکل، صبر، رضا اور تمام مقامات عشرہ سے متصف ہو جائے اس طرح جب سالک قرب الٰہی کے لیے مستعد ہو جاتا ہے تو اس وقت شیخ اس کو اللہ تعالی کی طرف جذب کرتا ہے اور قرب الٰہی عطا فرماتا ہے۔ اور ایسے سالک کو سالک مجذوب کہتے ہیں۔ اور اس سیر کو سیر آفاقی کا نام دیتے ہیں۔ کیونکہ یہ بزرگ عناصر نفس اور لطائف عالم امر کے تزکیہ کا حکم نہیں دیتے تا کہ (سالک) عالم مثال میں اپنے نفس سے خارج ملا حظہ نہ کرے۔
انوار لطائف: ۔اور ہر لطیفہ کا ایک نور ہے جب تک وہ نور ظاہر نہ ہو اس لطیفہ کی صفائی کا حکم نہیں کرتے ۔ قلب کو نور سرخ ، روح کونور زرد، سر کو نور سفید، خفی کونور سیاہ اور اخفی کونور سبز کہتے ہیں ۔ چونکہ یہ سیر بہت دور دراز ہے اور اس میں بڑی مشقت ہے کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ صوفی اثنائے سلوک میں مر جاتا ہے اور مقصود سے ناکام رہتا ہے۔
سیرانفسی:۔ اس لیے اللہ تعالٰی نے حضرت خواجہ نقشبند کو سلوک پر جذب کے مقدم کرنے کا الہام فرمایا ۔ مرید کا اول توجہ کے ذریعے عالم امر کے لطائف میں ذکر کا القاء کرتے ہیں تا کہ قلب، روح، سر،خفی اور اخفی اپنے اصول سے فانی اور ہلاک ہو جائیں ۔ اور اس سیر کو سیر انفسی کہتے ہیں۔ اور اس سیر انفسی کے ضمن میں اکثر سیر آفاقی بھی حاصل ہو جاتی ہے۔ چونکہ اس طرح عالم امر کے لطائف سے تاریکیاں اور کدورتیں دور ہو جاتی ہیں اور قرب بھی حاصل ہو جاتا ہے اس کے بعد نفس اور قالب کے تزکیہ کے لیے مرید کو ریاضت کا حکم دیتے ہیں۔ اس طرح مرید کو ریاضت اور شیخ کی تو جہات کی مدد سے نفس و عناصر کا تزکیہ بھی حاصل ہو جاتا ہے۔ اور اس سالک کو مجذوب سالک کہتے ہیں، اور اس سیر کو اندراج النہایت فی البدایت کہتے ہیں کیونکہ جذب جو آخری کام تھا وہ ابتداء میں مندرج ہو گیا اور چونکہ عالم امر کے لطائف کی فنا کے بعد ریاضت کا حکم دیا گیا اور نفس کی تیزی اورسختی لطائف عالم امر کی معیت سے ختم ہوگئی اور اس پر ریاضت آسان ہو گئی تو عبادات کا ثواب لطائف کی فنا کے بعد زیادہو گیا۔ اس لحاظ سے یہ سیر بہت آسان اور بہت جلد ہوتی ہے اور اگر مرید اس سیر میں کمال کے حصول سے قبل مر جائے تو مطلق محروم نہیں رہتا۔ کیونکہ اسے ذکر قلب پہلی صحبت میں ہی حاصل ہو چکا ہوتا ہے۔ واللہ اعلم

(سالک کی دو قسمیں ہیں سالک مجذوب اور مجذوب سالک سالک مجذوب وہ ہے جس کو سلوک کی انتہا میں جذ بہ نصیب ہو۔ مجذوب سالک وہ ہے جس کے سلوک کی ابتدا جذ بہ سے ہو ۔ نقشبندی مشائخ مجذوب سالک ہوتے ہیں ان کا سلوک جذبہ سے شروع ہوتا ہے۔)
فصل ۔ عبادات کی برکات کا بیان
جانا چاہئیے کہ کامل کی عبادات سے قرب الٰہی ایسی ترقی پکڑتا ہے جس کا اعتبار کیا جا سکے۔ اور ناقص کی عبادات سے قرب حاصل ہوتا ہے لیکن غیر معتبر ۔ کیونکہ ناقصوں کی عبادت کا ثواب کاملوں کی عبادت کے ثواب سے کمتر ہوتا ہے جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا تمام اہل جہاں کی عبادت گویا ولی کی عبادت کا سایہ ہے پس ایسے ہی ان کی عبادات کی برکات میں فرق ہے۔ مشائخ نے کہا ہے کہ ناقص کی عبادت سے صرف اس قدر قرب حاصل ہوتا ہے کہ اگر بالفرض کوئی شخص پچاس ہزار سال عبادت کرے تو اولیاء کے ادنی درجہ کو پہنچے گا اور مرتبہ ولایت پائے گا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے ‌تَعۡرُجُ ٱلۡمَلَٰٓئِكَةُ وَٱلرُّوحُ إِلَيۡهِ فِي يَوۡمٖ كَانَ مِقۡدَارُهُۥ خَمۡسِينَ أَلۡفَ سَنَةٖ یعنی فرشتے اور جبریل علیہ السلام ایک دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے اللہ تعالی کی طرف چڑھتے ہیں”
یہ فرمان گویا اوپر والی بات کی طرف اشارہ ہے۔ اور چونکہ دنیا کی ساری عمر بھی اس قدر نہیں ہوتی اس لیے ولایت کا حصول صرف ریاضت اور مجاہدہ سے متصور نہیں ہو سکتا۔
مولانا روم فرماتے ہیں۔
سیر زاہد ہر شبے یک روزه راه سیر عارف ہر دمے تا تخت شاہ
ترجمہ زاہد کی سیر ہر رات کی ایک دن کے برابر ہوتی ہے جبکہ عارف کی سیر ہرلمحہ اللہ تعالٰی کی بارگاہ تک ہوتی ہے۔
پس جاننا چاہئیے کہ مشائخ جو مریدوں کو ریاضت اور مجاہد کا حکم دیتے ہیں تو اس سے مقصود تصفیہ عناصر اور تزکیہ نفس ہے نہ کہ حصول قرب ۔ بلکہ تزکیہ و تصفیہ بھی صرف عبادت سے نہیں ہوتا جب تک صحبت مشائخ کی تاثیر اس کے ساتھ شامل نہ ہو۔
مسئلہ:۔ بعض اکا بر ایسا فرماتے ہیں کہ جس عبادت میں محبت و مشقت بہت ہو وہ رذائل نفس کے دور کرنے میں پوری پوری مؤثر ہوتی ہے۔ اس لیے ذکر جہر، چلے اور خلوت مانوس وغیرہ جیسے امورا ایجاد کیے گئے۔ اور یہ بات رسول کریم ﷺ کے اس فرمان سے اخذ کی گئی ہے کہ خِصَاءُ ‌أُمَّتِي الصِّيَامُ یعنی روزہ رکھنا میری امت کا خصی ہونا ہے یعنی جس پر شہوت غالب ہوا سے چاہئیے کہ روزہ سے اس کو دور کرے۔ چونکہ روزہ میں دقت ہے اس لیے رسول اللہﷺ نے قوت شہوانی کو دور کرنے کیلئے روزہ کو تجویز فرمایا ہے نماز کو نہیں۔ حضرت خواجہ عالی شان خواجہ بہاؤ الدین نقشبند اور آپ جیسے دیگر بزرگان نے ارشاد فرمایا ہے کہ وہ عبادت جو سنت کے موافق ہے وہ رذائل نفس، تصفیہ عناصر اور قرب الٰہی کے حصول کے لیے زیادہ مفید ہے۔
اس لیے بدعت حسنہ سے بھی بدعت سیئہ کی طرح بچتے ہیں کیونکہ رسول مقبول ﷺنے فرمایا ہے فَإِنَّ ‌كُلَّ ‌مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ ہر نئی بات بدعت ہے اور تمام بدعتیں گمراہی ہیں پس اس حدیث کا نتیجہ یہ ہے کہ کل محدث بدعہ اور ظاہر ہے کہ : لا شئى من الضلالة بهداية فلا شئى من المحدث بهداية ” گمراہی کی کوئی چیز ہدایت نہیں ہے پس ہر نئی بات بھی ہدایت نہیں ہے۔
نیز حدیث پاک میں آیا ہے ان القول لا يقبل مالم يعمل به وكلاهما لا يقبلان بدون النية والقول والعمل والنية لا تقبل ما لم تواقف السنة یعنی عمل کے بغیر کوئی زبانی بات مقبول نہیں۔ اور یہ دونوں ( یعنی قول اور عمل ) مقبول نہیں بغیر نیت کے اور یہ تینوں مقبول نہیں ہوتے جب تک کہ سنت کے موافق نہ ہوں” خلاف سنت اعمال مردود ہیں۔ اور جب سنت کے خلاف اعمال مقبول نہیں ہوتے اس لیے ان پر ثواب بھی مترتب نہیں ہوتا۔ اگر مشقت کو حصول قرب اور رفع رذائل میں کوئی دخل ہو تا رسول کریم ﷺ اس سے منع نہ فرماتے ۔
ابو داؤد نے انس بن مالک سے روایت کی ہے لَا تُشَدِّدُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ فَيُشَدَّدَ عَلَيْكُمْ، فَإِنَّ قَوْمًا شَدَّدُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ ‌فَشَدَّدَ اللهُ عَلَيْهِمْ، فَتِلْكَ بَقَايَاهُمْ فِي الصَّوَامِعِ وَالدِّيَارِ {وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ} یعنی اپنے نفسوں کو سخت تنگ نہ کرو کیونکہ ایک قوم نے اپنے نفسوں پر سخت تنگی کی تھی پس اللہ تعالی نے ان کو سخت تنگ کیا ۔ اور یہ لوگ گر جاؤں اور معبدوں میں انہی کی اولاد ہیں ۔ یعنی نصاری نے رہبانیت خود اپنے اوپر فرض کی تھی۔ خدا تعالٰی نے ان پر فرض نہیں کی تھی۔
صحیحین میں روایت ہے کہ تین افراد رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات کی خدمت میں آئے اور ان سے رسول خدا ﷺ کی عبادت کے متعلق پوچھا۔ امہات المومنین نے ان کو رسول مقبول ﷺ کی عبادت کے متعلق بتایا جس کو وہ بہت کم جانتے تھے اور کہنے لگے کہ رسول اللہﷺ کی کوئی برابری ہو سکتی ہے ان کی شان میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے لِّيَغۡفِرَ لَكَ ٱللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنۢبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ الله تعالیٰ نے تمھارے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیئے ایک نے کہا میں تمام رات عبادت میں گزاروں گا اور نیند نہیں کروں گا۔ دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا اور افطار نہیں کروں گا۔ تیسرے نے کہا کہ میں نکاح نہیں کروں گا اور عورتوں سے کوئی تعلق نہیں رکھوں گا رسول کریم ہﷺجب گھر تشریف لائے اور یہ قصہ سناتو آپ نے فرمایا أَلَا وَاللَّهِ إِنِّي أَخْشَاكُمْ مِنَ الله و آتقَكُمْ لَهُ یعنی یا د رکھو میں تم سے زیادہ اللہ تعالی سے ڈرتا ہوں اور زیادہ متقی ہوں لیکن میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں رات کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہے ہوں ۔ اور عورتوں سے محبت بھی کرتا ہوں رات کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں پس جو شخص میری سنت سے منہ پھیرے وہ میرے پیروکاروں کے زمرہ میں سے نہیں ہے اگر کوئی یہ کہے کہ میں سخت محنت سے ترقیات حاصل کرتا ہوں اور مکاشفات اور باطن کی صفائی پاتا ہوں کہ جس کا میں انکار نہیں کر سکتا تو جوابا کہا جائے گا کہ کشف خرق عادات اور عالم کون و فساد میں تصرف ریاضت سے حاصل ہو سکتا ہے اس لیے حکمائے اشراقین اور ہندوستان کے جوگی اس سے بہرہ مند ہو جاتے ہیں لیکن اہل اللہ کی نظر کے اعتبار سے یہ کمالات نکمے ہیں کہ جنہیں جو اور نخود(چنا) کی قیمت میں بھی نہیں خریدا جا تا نفس کی برائیوں کا دور کرنا اور شیطان ووسو اس کا هلاک کرنا طریقہ سنت کے بغیر ممکن نہیں
محال سعدی که راه صفا تو اں رخت جز در پئے مصطفے
ترجمہ: اے سعدی حضرت محمد ﷺ کی پیروی کے بغیر راہ صفا کو طے کرنا انتہائی مشکل ہے۔
اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ اگر اسی طرح ہو تو پھر چاہئیے کہ بعض سلسلوں میں جو سخت ریاضت کرتے ہیں کوئی ولایت کے مرتبہ کو نہ پہنچے اور یہ باطل ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ تمام اولیاء الله سنت کے تابع ہیں۔ ان میں سے بعض پر سنت کی پیروی میں فوقیت رکھتے ہیں اور اگر بدعت داخل ہوئی ہے تو ان کے بعض اعمال میں ہوئی ہے اس لیے اگر ان کے بعض اعمال قرب کے زیادہ ہونے کے موجب نہ ہوں تو دوسرے اعمال کے سنت کے موافق ہونے اور مشائخ کامل کی صحبت سے ان کی دستگیری ہو جاتی ہے جو انہیں درجہ کمال تک پہنچادیتی ہے۔ علاوہ ازیں جو بدعت ان کے بعض اعمال میں داخل ہو گئی ہے وہ خطائے اجتہادی پرمبنی ہے اور مجتہد جو خطا کا مرتکب ہو معذور ہے اور ایک درجہ ثواب کا پاتا ہے اور جو مجتہد صحیح رائے رکھتا ہو دو در جے ثواب کا پاتا ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو فقہاء پر بلکہ تمام عالم ہستی تنگ ہو جائے۔ والله تعالى اعلم

فصل ۔ مشائخ کی تاثیر کا بیان
جاننا چاہئیے کہ نا قص اور کامل دونوں اپنے سے زیادہ کامل سے فیض حاصل کرتے ہیں جیسے انبیاء حضرت یوشع بن نون علیہ السلام وغیر ہ اولا لعزم پیغمبروں مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فیض حاصل کرتے تھے۔
مسئلہ:۔ ناقصوں کو ولایت حاصل نہیں ہوتی مگر کاملوں کی تاثیر صحبت سے کیونکہ تنہا ان کی عبادت ولایت کا اثر نہیں پاسکتی۔ جیسے کہ پہلے گزر چکا کہ جذب مطلق جس کو اجتباء کہتے ہیں ان کے حق میں اللہ تعالی کے ساتھ مناسبت نہ رکھنے کے سبب متصور نہیں ہے۔ اس لیے کہ حق سبحانہ تعالی سے حصول فیض عوام الناس کے حق میں متصور نہیں ہے مگر کسی ایسے شخص کے توسط سے کہ جو باطن میں خدا سے اور ظاہر میں بندوں سے مناسبت رکھتا ہو اور وہ اللہ کا رسول ہے یا اس کا نائب ہے۔ نائب کی مناسبت ظاہری کے بغیر طالبوں کو فیض پہنچانا مشکل ہے ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے۔ لَّوۡ كَانَ فِي ٱلۡأَرۡضِ مَلَٰٓئِكَة ‌يَمۡشُونَ مُطۡمَئِنِّينَ لَنَزَّلۡنَا عَلَيۡهِم مِّنَ ٱلسَّمَآءِ مَلَكٗا رَّسُولٗا یعنی اگر زمین پر فرشتے رہتے بستے ہوتے تو ضرور ہم ان پر کوئی فرشتہ ان کے پاس رسول بنا کر بھیجتے اسی لیے رسول اللہ ﷺ کی رحلت کے بعد آپ کی قبر مبارک سے فیض نہیں پہنچ سکتا۔ بعدم المناسبة الصورية ( کیونکہ ظاہری مناسبت نہیں ہے )
اس لیے دوسرا واسطہ درکار ہے جو پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کا نائب اور وارث ہو۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے الْعُلَمَاءَ ‌وَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ یعنی علمائے ظاہر و باطن انبیاء کے وارث ہیں۔
مسئلہ:۔ جب کوئی شخص مرتبہ کمال کو پہنچ جاتا ہے تو اس کو جناب الٰہی سے بے واسطہ فیض پہنچ سکتا ہے اور عبادت سے بھی ترقیات حاصل کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَٱسۡجُدۡۤ وَٱقۡتَرِب سجدہ کر اور رب کا قرب حاصل کرے اور رسول کریم ﷺکے مزار مبارک اور اولیاء کرام کی قبور سے فیض حاصل کر سکتا ہے۔
مسئلہ:۔ پیغمبران کرام علیہم السلام کے بھیجنے کا اصلی مقصد یہی تاثیر صحبت ہے کیونکہ فقہ اور عقائد کے مسائل ملائکہ سے بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ جیسا کہ حدیث جبریل اس پر دلالت کرتی ہے۔ کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ، أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ یعنی یہ جبریل علیہ السلام هیں جو تمہارے پاس آئے ہیں تا کہ تمہیں تمھارا دین سکھا ئیں اس سے ثابت ہوا کہ مناسبت اس پر ہی تاثیر صحبت موقوف ہے جس کا ثمرہ ولایت ہے۔ اسی لیے رسول انسانوں میں سے ہی آئے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے لَقَدۡ جَآءَكُمۡ رَسُول مِّنۡ أَنفُسِكُمۡ بے شک تمھارے پاس آیا رسول تمھاری جنس سے اور فرمایا لَّوۡ كَانَ فِي ٱلۡأَرۡضِ مَلَٰٓئِكَة ‌يَمۡشُونَ (الآيه)
مسئلہ:۔ بعض لوگوں کو کہ جن کو بہت قوی استعداد دی گئی ہے كبھی ایسا ہوتا ہے کہ اس کو پیغمبر کی روح سے یا کسی ولی کی روح سے فیض پہنچتا ہے اور اس کو ولایت کے مرتبے پر پہنچا دیتا ہے۔ اسے اویسی کہتے ہیں جس طرح کہ حضرت اویس قرنی نے سید البشر ے کی صحبت سے مشرف نہ ہوئے۔ آپ ﷺ سے فیض حاصل کیا ہے۔
مسئلہ:۔ اکیلی ریاضت، تاثیر صحبت کے بغیر نفس کی برائیوں کو دور کرنے اور ولایت کے حصول کے لیے کافی نہیں ہوتی۔ اور انبیاء کرام کہ جنہیں بے واسطے کمالات ولایت اور کمالات نبوت حاصل ہوتے ہیں، کی تاثیر صحبت اور نیک لوگوں کو پیروی سے کمالات نبوت رکھتے ہیں کی صحبت کی تاثیر مثل صحابہ کرام رسول اللہ ﷺ نفس کی برائیوں کو دور کرنے اور ولایت حاصل کرنے کے لیے کافی ہے۔ لیکن اس کے لیے ایک دوصحبتیں کافی نہیں ہیں بلکہ بڑی مدت لگتی ہے۔ دیگر اولیاء کرام کی تاثیر صحبت تنہا مرید کی ریاضت کے بغیر کافی نہیں ہوتی کہ اگر فقط جذب کسی ولی سے حاصل ہوا ہو تو بلا ریاضت اور سلوک کے ہوتا ہے۔
فائدہ : جذب الٰہی کہ جو انبیاء علیہم السلام کے واسطہ کے بغیر ہوتا ہے وہ خالص اجتباء ہے۔ اسی طرح جو انبیاء کرام کے واسطہ اور اولیاء کرام کے واسطے سے ہے وہ خالص ہدایت ہے اور اس کا انحصار نیابت پر ہے۔ اور جوار باب کمالات نبوت یعنی اصحاب یا دوسرے لوگوں کے واسطے سے ہو وہ ایسا اجتباء ہے کہ جس میں ہدایت کی بُو ہے یا ایسی ہدایت ہے کہ جس میں اجتباء کی بو ہے۔ پہلی قسم کو مرادیت اور دوسری کو مریدیت کہنا مناسب ہے ٱللَّهُ ‌يَجۡتَبِيٓ إِلَيۡهِ مَن يَشَآءُ وَيَهۡدِيٓ إِلَيۡهِ مَن يُنِيبُ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اجتباء کرتا ہے یعنی بغیر کوشش کے انتخاب فرما لیتا ہے اور جور جوع کرتا ہے”اس کو ہدایت کرتا ہے۔
مسئلہ:۔ جذب مطلق کہ جس سے مراد اجتباء ہے جو کہ انبیاء کرام کو مبداء فیاض ( اللہ تعالی ) سے مناسبت رکھنے کے باعث حاصل ہوتا ہے اولیاء کو بھی اللہ تعالی کے ساتھ مکمل نسبت رکھنے سے حاصل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ جذب مطلق کا مانع عدم مناسبت ہوتا ہے اور وہ مناسبت سے تبدیل ہو گیا پس معلوم ہوا کہ صوفی جب سیر مریدی سے واصل ہوتا ہے اور دوسری منزلیں طے کر کے مقام محبوبیت تک پہنچ جاتا ہے اور رسول خداﷺ کی متابعت سے محبوب خدا ہو جاتا ہے تو اس وقت اس کے اجتباء کا نیابت پر انحصار نہیں رہتا بلکہ اس کے بعد اس کو جو ترقیات حاصل ہوں گی وہ سیر مرادی سے حاصل ہوں گی۔
مسئلہ:۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مرید کو اجتباء اور جذب مطلق حاصل ہو جاتا ہے اور پیر کو وہ چیز حاصل نہیں ہوئی تو اس صورت میں مرید ، پیر سے افضل ہو جاتا ہے۔ مراد رومی نے شیخ تاج الدین سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا ہے کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اللہ تعالی بندہ کو اپنی طرف جذب کر لیتا ہے اور اس پر کوئی استاد مقرر نہیں کرتا ۔ حسن سے پوچھا گیا کہ آپ کا مرشد کون ہے؟ فرمایا کہ پہلے تو عبد السلام بن مشیش تھے اب دس دریا هیں پانچ آسمان میں اور پانچ زمین میں ۔ ابن مشیش سے پوچھا گیا کہ آپ کا مرشد کون ہے؟ فرمایا کہ اس سے پہلے حضرت حماد د باس تھے اب دو دریاؤں سے سیراب ہوتا ہوں ایک دریائے نبوت اور دوسرا دریا ئے فتوت ( یعنی سخاوت )
مسئلہ:۔ ہر چند کہ مریدپیر سے افضل ہو جائے لیکن پھر بھی شیخ کی تربیت کا حق اس (مرید ) کی گردن پر باقی رہتا ہے۔
فائدہ جب یہ چیز واضح ہو گئی کہ قرب کی ترقی تین چیزوں سے ہوتی ہے۔
(1) برکات عبادت (2) تاثیر شیخ (3) جذب مطلق
پس جاننا چاہئیے کہ عبادات کی برکت سے قوت، وسعت اور اقر بیت حاصل ہوتی ہے لیکن ایک مقام میں ۔ اور ایک مقام سے دوسرے مقام تک یعنی ولایت صغری سے ولایت کبری تک پھر اس سے ولایت علیا ، تک اور اس سے کمالات نبوت تک ترقی نہیں ہو سکتی ۔ جبکہ تاثیر صحبت سے ایک مقام سے دوسرے مقام میں مقام شیخ تک ترقی ہو سکتی ہے ۔ اور جذب مطلق سے مقام بمقام برابر ترقیات حاصل ہوتی چلی جاتی ہیں جہاں تک خدا کو منظور ہو۔ واللہ تعالیٰ اعلم
فصل استعداد کا بیان
جان لو کہ حق سبحانہ تعالی نے انسان میں اپنی قرب و معرفت کی استعداد رکھی ہے اور اس استعداد کو ہدایت بالفعل لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ لَقَدۡ خَلَقۡنَا ٱلۡإِنسَانَ فِيٓ أَحۡسَنِ تَقۡوِيمٖ ثُمَّ رَدَدۡنَٰهُ أَسۡفَلَ سَٰفِلِينَ إِلَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّٰلِحَٰتِ یعنی یقینا ہم نے انسان کو بہترین حقیقت میں پیدا کیا یعنی وہ کمالات کی استعداد رکھتا ہے پھر ہم نے اس کو رد کیا نیچے سے نیچے تک یہاں تک وہ اپنے جیسے یا اپنے سے بھی زیادہ نا چیز کی عبادت کرنے لگتا ہے مگر وہ اشخاص جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے ” رسول خدا ﷺ نے فرمایا مَا ‌مِنْ ‌مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ ‌يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ (الحدیث) لیکن ہر انسانی فرد میں استعداد کی کیفیت مختلف ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے النَّاسُ مَعَادِنُ، ‌كَمَعَادِنِ الْفِضَّةِ وَالذَّهَبِ، خِيَارُهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُهُمْ فِي الْإِسْلَامِ إِذَا فَقِهُوا انسان کان کی طرح سے ہیں جیسے سونے کی کان اور چاندی کی کان ۔ تم میں سے جو لوگ عہد جہالت میں بھلے لوگ تھے وہ اسلام میں بھی بھلے لوگ ہیں جب ان کو سمجھ آگئی جس طرح تمام کانوں میں فرق ہوتا ہے یعنی کہ سونے کی اہلیت لو ہے اور تا ہے کی کان میں نہیں ہوتی ، اورلو ہے کی اہلیت سونے کی کان میں نہیں ہوتی اسی طرح انسانی افراد میں بھی قابلیت و استعداد مختلف ہوتی ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا وَقَدۡ خَلَقَكُمۡ ‌أَطۡوَارًا اور یقینا ہم نے تم کو مختلف طور پر پیدا کیا اور یہ کیفیات مبتدی انداز میں نفس و عناصر کی صفات میں شدت اور ضعف وغیرہ کے لحاظ سے پیدا ہوتی ہیں اور ہدایت و گمراہی دونوں جگہ ظاہر ہوتی ہے۔ خِيَارُكُمْ ‌فِي ‌الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُكُمْ فِي الْإِسْلَامِ اس پر دلالت کرتی ہے۔ حضرت صدیق اکبر جو متعجب ہوئے اور حضرت عمر کے حق میں فرمایا اخيار في الجاهلية وحوار في الاسلام کئے جاہلیت میں نیک اور اسلام میں رسوا اس کی دوسری نوعیت ہے۔ انسانی استعداد میں اختلاف کا ایک سبب ہے کچھ ان میں سے اسماء الٰہی کا سایہ ہیں۔ یہ سایہ یا تو ایک درجہ کا ہے ۔ یا دس درجہ کا یا سو درجہ کا ۔ الى ما يعلمه الله تعالى اور نیز بعض اسم الهادی کا سایہ ہیں اور بعض اسم المضل” کا استعداد کی قسم ہدایت و گمراہی کو لازم ہے۔ جس استعداد کا مبدا ءتعین اسم الہادی کا سایہ ہے وہ یقینا ہدایت کو پہنچے گا اور جس کا مبدا ءتعین اسم “المضل” کا سایہ ہے وہ یقینا گمراہ ہو گا۔ لیکن کسی شخص کا مبدا ءتعین اسم هادی کا سایہ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ ولایت کے درجہ تک پہنچے ۔ لیکن جس کسی کواللہ تعالٰی اپنے فضل سے اس مرتبہ تک پہنچادے۔ اس وقت مراتب کا فرق اس ظل کے قرب اور بعد کے سبب سے جو اس کے تعین کا مبدا ء ہے حقیقت میں ظاہر ہو جائیگا ۔ جس کسی کا مبدا ءتعین اعلیٰ اور اقرب ہو گا اس کی ولایت بھی اشرف ہوگی ۔ حضرت صدیق اکبر کا مبدا ءتعین چونکہ دائر و ظلال کا اعلیٰ مقام تھا اس لیے وہ ولایت میں بھی سب سے زیادہ پیش قدم اور برتر ر ہے۔
مسئلہ:۔ دوسری قسم میں استعدادات کے اختلاف کا ثمرہ یعنی مبادی تعینات کے اعتبار سے ولایت میں ظاہر ہوتا ہے خصوصاً ولایت صغري میں۔ جبکہ پہلی قسم میں اختلاف کا ثمرہ تمام مقامات میں ظاہر ہوتا ہے۔ کیونکہ لطائف عالم امر اور مبادی تعینات کے فیوض کا معاملہ ولایت صغری میں ہے۔ اور اس کا کچھ حصہ ولایت کبری میں بھی آتا ہے اور ولایت کبری کے اکثر دائروں میں معاملہ نفس کے ساتھ ہے اور ولایت علیا میں تین عناصر کے ساتھ اور کمالات نبوت میں عنصر خاک کے ساتھ اور اس کے اوپر هيئت وحدانی ہے ۔ واللہ اعلم
مسئلہ:۔ ممکن ہے کہ بعض اولیاء بعض انبیاء کے باقی خمیر (مٹی) سے پیدا ہوئے ہوں نیز یہ کہ رسول اکرم ﷺکے بقیہ خمیر (مٹی) سے پیدا ہوئے ہوں
سوال:۔ یہ بات قرین عقل نہیں لگتی کیونکہ ہر شخص اپنے والدین کے نطفہ سے پیدا ہوتا ہے۔
جواب:۔ اکثر چیزیں ایسی ہیں جو انسانی عقل سے ثابت نہیں ہو سکتیں مگر شرع سے ثابت ہوتی ہیں یا کشف والہام سے جیسے کہ نفس ولایت کہ جس سے مراد بے مثل ( خدا ) کا قرب ہے۔ امام محی السنہ بغوی نے تفسیر معالم التنزیل میں اس آیت کی تفسیر میں کہ مِنۡهَا خَلَقۡنَٰكُمۡ وَفِيهَا نُعِيدُكُمۡ وَمِنۡهَا نُخۡرِجُكُمۡ ‌تَارَةً أُخۡرَىٰکے اس نے تمہیں پیدا کیا اور اس نے تمہیں پروان چڑھایا اور اس نے تمھارے لیے حکم دیا پھر اٹھانے کو۔
عطا خراسانی کا قول ذکر کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ نطفہ جورحم میں ٹھہرجاتا ہے تو ایک فرشتہ تھوڑی سی مٹی اس جگہ سے لاتا ہے کہ جہاں بعد میں اس کو دفن کیا جائیگا۔ نطفہ میں ڈال دیتا ہے اس طرح خاک اور نطفہ سے آدمی پیدا ہوتا ہے۔ اور خطیب نے ابن مسعودؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مامن مولود الا وفى سرته من تربته التى يولد منها فاذا رد الى ارذل عمره رد الى تربته التي خلق منها يدفن فيها وإنّي وابابكر وعمر خُلقنا من تربة واحدة وفيها ندفن ) يعنى ہر پیدا شدہ کی ناف میں مٹی ہے جس سے وہ پیدا ہوا۔ پس جب وہ ارزل عمر یعنی موت کے وقت کو پہنچتا ہے تو اس کو اس مٹی کی طرف لوٹایا جاتا ہے جس سے پیدا ہوا تھا۔ اس میں دفن کیا جاتا ہے اور بے شک میں اور ابو بکر اور عمر ایک ہی مٹی سے پیدا ہوئے ہیں اور اسی میں دفن کیے جائیں گئے ”
مرزا محمد بدخشائی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی تائید میں کئی احادیث ابن عمر، ابن عباس، ابوسعید اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں۔ بعض کو بعض تقویت دیتی ہیں، چنانچہ صحیح بخاری کی شرح کتاب الجنائز میں ابن سیرین کا قول لائے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ اگر میں اس بات پر قسم کھاؤں تو میں سچا ہوں اور مجھے کچھ شک نہیں ہے۔ رسول کریم ﷺ اور ابو بکر صدیق اور عمر فاروق ایک مٹی سے پیداہوئے ہیں۔
اور رسول اللہ ﷺ نے عبداللہ بن جعفر سے فرمایا کہ ” تو میری مٹی سے پیدا ہوا ہے اور ا تیرا باپ آسمان پر فرشتوں کے ساتھ اڑ رہا ہے ۔ اور یہ مناسب ہے کہ اللہ تعالی نے جو مٹی کسی پیغمبر کے لیے مہیا کی ہو اور زمین کی پیدائش کے وقت سے اس کو انوار و برکات اور نزول رحمت سے پرورش کیا ہو اور اس میں سے کچھ مٹی بچ رہی ہو وہ کسی ولی کے جسم کا خمیر بن جائے ۔ یہ بات عقلاً محال نہیں ہے اور شرع سے اس کا پتہ ملتا ہے اور کشف سے ثبوت حاصل ہوتا ہے اور اس کو اصطلاح میں اصالت” کہتے ہیں اور صاحب اصالت کشفی کی نظر میں اس طرح دکھائی دیتا ہے کہ گویا اس کا جسم جواہرات سے آراستہ ہے اور دوسروں کا جسم پانی اور مٹی سے بنا ہے۔
مسئلہ:۔ ہر چند اصالت موجب فضل ہے لیکن صاحب اصالت کی افضلیت ان لوگوں پر جن کی افضلیت اجماع سے ثابت ہے لازم نہیں آتی ۔ کیا تو نہیں دیکھتا کہ عبداللہ بن جعفر نص حدیث کے مو جب صاحب اصالت ہیں حالانکہ عثمان علی حسن اور حسین رضی اللہ عنہم بالا جماع ان سے افضل ہیں۔
مقام پنجم
مقامات قرب الٰہی کا بیان
جان لو کہ حق سبحانہ تعالٰی صفات و جود یہ حقیقیہ اور اضافیہ صفات سلبیہ اور اسمائے حسنی سے موصوف ہے۔ چنانچہ قرآن اور حدیث اس پر گواہ ہیں۔ اور اولیاء کے کشف سے ثابت ہے کہ اسماء اور صفات الٰہی کے ظلال ہیں۔ اور اسماء و صفات الٰہی انبیاء اور ملائکہ کے مبادی تعینات ہیں۔ اور یہ ظلال دوسروں کے مبادی تعینات ہیں۔ اگر کوئی یہ کہے کہ اسماء وصفات الهی کا ظلال ہونا عقل و شرع کے نزدیک جائز نہیں۔ خود مجددالف ثانی نے اپنے مکتوب نمبر 122 جلد سوم میں لکھا ہے کہ واجب تعالی کا ظل نہیں ہوتا کیونکہ ظل سے مثل پیدا ہونے کا و ہم پیدا ہو سکتا ہے اور کمال لطافت سے اصل کے عدم کا شائبہ پایا جاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت محمد ﷺ کا بوجہ لطافت سایہ نہ تھاتو محمد ﷺ کے خدا کا سایہ (ظل) کیسے ہو سکتا ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ظلال کا مفہوم وہ نہیں ہے جو عوام سمجھتے ہیں بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ مخلوقات انہی کے لطائف میں جو ا سماء صفات الٰہی کے ساتھ مکمل نسبت رکھتے ہیں اور اس مناسبت کے سبب اسماء وصفات الهی وجود اور تابع وجود کا فیض اہل عالم کو پہنچانے کا واسطہ بن جاتے ہیں۔
اس مناسبت کو پوشیدہ رکھنے کے سبب ظل کہا جاتا ہے۔ یا سکر (مستی) کی حالت میں اس کو ظل سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ حضرت مجددالف ثانی نے اس مکتوب میں لکھا ہے کہ اگر اس قسم کے علوم واجب تعالی اور ممکن کے درمیان نسبت ثابت کریں مگر ہماری شرع اس کے ثبوت میں وارد نہیں ہوئی تو یہ سب معارف سکریہ میں سے ہیں۔ خارج میں موجود بالذات اور بالا ستقلال حضرت عزت تعالی و تقدس کی ذات ہے اور اس کی آٹھوں حقیقی صفات ۔ اس کے سوا جو کچھ ہے سب اللہ تعالٰی کی ایجاد سے موجود ہوا ہے ۔ اور سب ممکن و مخلوق حادث ہے اور کوئی مخلوق خالق تعالی کا ظل نہیں ہے ۔ ظلیت کا یہ علم عالم سالک کو راہ میں بڑا کام دیتا ہے اور اس کو کشاں کشاں اصل تک لے جاتا ہے۔ اور فقیر کہتا ہے کہ جو حدیث میں وارد ہوا ہے۔ ان الله تعالى سبعين الف حجاب من نُورٍ وظلمة لو كشف لا حرقت سبحات وجهه ما انتهى اليه بصره من خلقه یعنی ” بے شک اللہ تعالی کے ستر ہزار پردے نور اور ظلمات کے ہیں۔ اگر وہ پر دے دور ہو جاتے تو اس کی ذات کی روشنی جہاں تک نگاہ جاتی ساری مخلوق کو جلا دیتی ایک دوسری حدیث مسلم میں روایت کی گئی ہے حِجَابُهُ ‌النُّورُ لَوْ كَشَفَهُ لَأَحْرَقَ سُبُحَاتُ وَجْهِهِ مَا انْتَهَى إِلَيْهِ بَصَرُهُ مِنْ خَلْقِهِاللہ تعالیٰ کے نور کے پردے ہیں اگر دور کر دیئے جائیں یقینا اس کی ذات کی روشنی تا حد نظر مخلوق کو جلا دیتی ہے ” ایک اور حدیث میں جبرئیل علیہ السلام نے کہا یا محمد دنوتُ مِنَ اللهِ دَنُوا ما دنوت منه : قط فقال كَيْف كان يا جبريل قال كان بينى وبينه سبعون الف حجاب من نور یعنی اے محمد ﷺ میں خدا سے اس قدر قریب ہوا کہ پہلے كبھی نہ ہوا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے پوچھا اے جبریل اس کی کیا کیفیت تھی ؟ عرض کیا میرے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ستر ہزار نور کے پردے تھے شاید ان پردوں سے مراد یہی ظلال ہوں۔ یعنی اگر ظلال کی تخلیق نہ ہوتی تو عالم معدوم ہو جاتا والغناء ذاته تعالى عن العالمين الله تعالی کی ذات عالمین سے مستغنی ہے اور سبعون کا لفظ کلام عرب میں اظہار کثرت کے لیے آتا ہے۔
اور وہ جو حدیث میں نور اور ظلمت کے پردوں کا ذکر کیا گیا ہے اس سے صوفی کے قول کی تائید ہوتی ہے کہ مومنوں کے مبادی تعينات نو رانی پردے ہیں جو اسم الہادی کے ظلال ہیں اور کفار کے مبادی تعينات ظلت کے پردے میں جو اسم المضل کے ظلال ہیں۔ حضرت غوث الثقلین فرماتے ہیں
حرقت جميع الحجب حتى وصل الي مقام لقد كان جدي فادنا في
ترجمہ میں تمام پردوں کو پھاڑتا ہوا اس جگہ پہنچا جہاں میرے جد (حضرت محمدﷺ ) تھے تو مجھے کو قریب کیا یہاں تک کہ میں تمام مراتب ظلال سے تجاوز کر گیا۔ (جس سے مرادو لایت صغری ہے)
اورمحمد ﷺ کے مبداء تعین جو مرتبہ صفات میں ہے، میں پہنچا جس کو ولایت کبری کہتے ہیں۔
سوال: ۔اسماء وصفات الٰہی کا اور ان کے ظلال کو کیوں انسان کا مبدا ء تعین کہتے ہیں ۔
جواب: ۔ جیسا کہ معلوم ہو چکا کہ إِنَّ ٱللَّهَ ‌لَغَنِيٌّ عَنِ ٱلۡعَٰلَمِينَ اس لیے کہ ان صفات و ظلال کا فیض الٰہی پہنچانے کیلئے وجود اور توابع وجود سے واسطہ ہو۔
سوال: ۔ہر شخص کا تعین انہی وجوہ سے اس کے وجود کی فرع ہے جیسا کہ حلقہ میں مقرر ہے پس اسماء و صفات خود عالم کے مبادی تعینات ہو سکتے ہیں تو پھر ظلال کے وجود کی کیا ضرورت ہے۔ اور اگر مبادی تعینات نہیں ہو سکتے توانبیاء اور ملائکہ کے مبادی تعینات کیونکر ہوں گے۔
جواب: ۔ مبادی تعینات تو ہو سکتے ہیں لیکن ظلال کی پیدائش میں اور ان کو فیض رسانی کا واسطہ بنانے میں کوئی حکمت ہوگی۔ واللہ اعلم
اگر تمام مبادی تعینات خود صفات وا سماء ہوتے تو سارے عالم انبیاء و ملائکہ کی طرح معصوم ہوتے ۔ تو ہر ایک ذات کا مقتضا جذب مطلق ہوتا اور صفات جلالی و جمالی کا مقتضا یہ تھا کہ بعض مومن ہوتے اور بعض کافر، بعض نیک ہوتے اور بعض فاسق تا کہ رحمت و قہر وغیرہ صفات کے آثار ظہور پذیر ہوں۔ اللہ تعالی نے فرمایا وَلَوۡ شِئۡنَا لَأٓتَيۡنَا كُلَّ نَفۡسٍ ‌هُدَىٰهَا وَلَٰكِنۡ حَقَّ ٱلۡقَوۡلُ مِنِّي لَأَمۡلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ ٱلۡجِنَّةِ وَٱلنَّاسِ أَجۡمَعِينَ یعنی اگر ہم چاہتے تو ضرور ہر شخص کو ہدایت بخشتے لیکن میری طرف سے یہ تقدیر فیصلہ پا چکی ہے کہ میں ضرور جنوں اور انسانوں سے دوزخ کو بھر دوں گا
فائدہ: ۔ انبیاء اور ملائکہ کے مبادی تعینات میں فرق یہ ہے کہ صفات الٰہی میں دو اعتبار جاری ہیں۔ ایک تو فی نفسها ان کے وجود کی جہت اور دوسری ان کے قیام بذات حق کی جہت ۔ پس صفات پہلی جہت سے مربی انبیاء ہیں اور دوسری جہت سے ملائکہ کی مربی ہیں ۔ اس لیے ملائکہ کی ولایت انبیاء کی ولایت کی نسبت اعلیٰ اور اللہ تعالی کی جانب اقرب ہے۔
لیکن ملائکہ اپنے مقام میں ترقی نہیں کر سکتے۔ جیسا کہ آیت کریمہ وَمَا مِنَّآ إِلَّا لَهُۥ ‌مَقَام مَّعۡلُوم”ہم (ملائكہ) میں سے ہر ایک کے لیے مقرر درجہ ہے جس سے وہ ترقی نہیں کر سکتا” سے ظاہر ہے۔ اور انبیاء کرام ترقیات کر سکتے ہیں ملائکہ کے مقام تک اور اس سے اوپر بھی۔ چونکہ یہ نبوت و رسالت کے کمالات ہیں اور اولو العزم وغیرہ کے کمالات ہیں: اس لیے اس لحاظ سے انبیاء ملائکہ سے افضل ہیں۔ چنانچہ اہل حق کا یہ عقیدہ ہے جیسے کہ اس ساری تمہید سے واضح ہوا ۔
پس جان لے کہ جب صوفی ریاضت و عبادت و صاحب شریعت محمد مصطفے نے کی متابعت اور آنحضور ﷺ کی بے واسطہ یا با واسطہ زیادہ تاثیر صحبت سے اپنے مقام سے حق تعالی کی اقربیت کی جانب ترقی کرتا ہے تو باوجود یہ کہ اس صوفی کو جناب الہی سے اس قدر قرب حاصل ہوتا ہے جو اس کے اصل یعنی ظل کو ہے اور جو اس کا مبداتعین ہے تو اس وقت صوفی پر اصطلاح میں ولی کا لفظ بولا جاتا ہے۔ اور ہر چند قرب کے مراتب بے مثل و بے نظیر ہیں لیکن عالم مثال میں تمام عالم نظر کشفی میں بصورت دائرہ دکھائی دیتا ہے ۔ اور اس کو عالم امکان کہتے ہیں اور عرش مجید قطر دائرہ کی صورت میں نظر آتا ہے۔ نیچے کی قوس میں عناصر ار بعه اور نفس نظر آتے ہیں جبکہ عالم امر کےپانچوں لطائف او پر کی قوس میں دکھائی دیتے ہیں اور اس ظلال میں سے گزرنے سے اسماء وصفات بھی دائرہ کی صورت میں نظر آتے ہیں۔ اور صوفی خود کو عالم مثال میں دیکھتا ہے گویا سیر کرتا ہے اور یہاں تک ترقی کرتا ہے کہ دائرہ ظلال میں داخل ہو جاتا ہے اور اپنی اصل کو پہنچ جاتا ہے۔ اور خود کو اصل کے رنگ میں پاتا ہے اور اصل کے وجود کے ساتھ باقی دیکھتا ہے اور اپنے آپ کو اس میں فانی و ہلاک پاتا ہے اس طرح کہ اپنے آپ کی حقیقت و اثر کو نہیں پاتا۔ اور اصطلاح میں اس سیر کو سیر الی اللہ کہتے ہیں ۔ اور ظلال کا یہ دائر و ولایت صغری اور انبیا ء کی ولایت کا دائرہ ہوتا ہے۔ اکثر اولیاء سکر کی حالت میں اس ظلال کو دائرہ صفات کہہ دیتے ہیں اور صفات کو عین ذات سمجھ لیتے ہیں اور انا الحق کے قائل ہو جاتے ہیں ۔ اس کے بعد جب اپنے مبدا ء تعین سے ترقی کر کے دائرہ ظلال میں سیر واقع ہوتی ہے تو اس سیر کو سیر فی اللہ کہتے ہیں ۔ اور در حقیقت یہ سیر الی اللہ ہے۔
فائدہ: ۔ اے بھائی جان لے کہ ہر چند حق تعالی کی صفات حقیقیہ سات یا آٹھ ہیں جیسے کہ علمائے کلام نے ان پر بحث کی ہے۔ لیکن ان صفات وغیرہ کی جزئیات بے انتہا ہیں۔ احادیث میں ان دوسرے اسماء کو اسمائے حسنہ بتایا گیا ہے اور توریت میں ایک ہزار اسی کا ذکر ہوا ہے۔ لیکن ان پر انحصار نہیں کرنا چاہئیے۔ کہ ان کی کوئی انتہا نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَوۡ أَنَّمَا فِي ٱلۡأَرۡضِ مِن شَجَرَةٍ ‌أَقۡلَٰم وَٱلۡبَحۡرُ يَمُدُّهُۥ مِنۢ بَعۡدِهِۦ سَبۡعَةُ أَبۡحُرٖ مَّا نَفِدَتۡ كَلِمَٰتُ ٱللَّهِیعنی اگر زمین کے تمام درخت قلم بن جائیں اور یہ اور ایسے ہی سات سمندرسیاهی بن جائیں تو بھی کلمات الٰہی ختم نہ ہوں“ یعنی کلمات مدح جو صفات و کمالات پر دلالت کرتے ہیں اختتام پذیر نہ ہوں ۔ جیسے کہ شیخ سعدی نے کہا ہے
نه حسنش غایتی دارد نه سعدی راسخن پایاں بمیردتشنه مستسقی و دریا ہمچناں باقی
ترجمہ نہ تو اس کے حسن کی کوئی انتہا ہے اور نہ سعدی کا ( تعریف کرتے کرتے ) کلام ختم ہوتا ہے۔ گویا ایک پیاسا پانی پی پی کرمر جاتا ہے مگر دریا ( پھر بھی اسی طرح ) باقی ہے۔
جس طرح اللہ تعالی کی صفات بے انتہا ہیں اسی طرح صفات کے ظلال بھی بے انتہا ہیں ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے مَا عِندَكُمۡ يَنفَدُ وَمَا ‌عِندَ ‌ٱللَّهِ ‌بَاقٖۗ” جو کچھ تمھارے پاس ہے فانی ہے اور جو کچھ خدا کے پاس ہے باقی ہے پس اگر کوئی ولایت صغری اور مراتب ظلال میں سیر کرے تو وہ ابدال آباد تک ختم نہ ہو۔ لیکن ہر شخص مراتب ظلال میں اتنی سیر کرتا ہے جس قدر کہ اس کے حق میں مقدر ہو۔ نیز ظل کا ظل ہوتا ہے اور پھر دوسرے تیسرے اور چوتھے درجہ میں اور جہان تک خدا کو منظور ہو – صوری ترقی کے مرتبہ میں عروج کر کے اپنی اصل تک پہنچ جاتا ہے اور اس میں فنا ہو جاتا ہے۔ اور پھر اس سے ترقی کر کے اس کی اصل میں فنا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح وہ جس ظل میں پہنچتا ہے خود کو اس میں فانی اور مستهلک(فنا فی اللہ) دیکھتا ہے اور اس کے وجود کے ساتھ باقی پاتا ہے۔ مولانا روم کے اس شعر کے یہی معنی ہیں
هفصد و هفتاد قالب دیده ام ہ مچو سبزه بار ها روئیده ام
ترجمہ: میں نے سات سوستر قالب دیکھتے ہیں اور سبزہ کی طرح کئی بار نمو پائی ہے۔ اس کے بعد اگر اللہ تعالی کی عنایت شامل حال ہو تو صوفی اس درجہ سے بھی عروج حاصل کرتا ہے۔ اور پیغمبر خداﷺ کی متابعت سے اسماء وصفات کے دائرہ میں داخلہ نصیب ہو جاتا ہے جو ظلال کے دائروں کی اصل ہے اور جو سیر اس میں واقع ہوگی وہ سیر فی اللہ ہو گی۔ اور ہے ولایت کبری کا آغاز ہوگا جو انبیاء علیہم السلام کی ولایت ہے۔ دوسروں میں سے جس کسی کو یہ دولت ملی متابعت سے ملی ۔ عالم امر کے لطائف پنجگانہ کے عروج کی انتہا اس دائرہ کی انتہا ہے۔ اس کے بعد محض اللہ تعالی کے فضل سے اس مقام سے آگے عروج ملتا ہے۔ اس کو دائرہ حصول کی سیر حاصل ہوتی ہے اگر اس دائرہ سے گزر کر اس کو طے کر لے تو اوپر کا دائرہ ظاہر ہوتا ہے۔ حضرت مجددالف ثانی کہتے ہیں کہ جب کوئی اور قوس ظاہر نہیں ہوئی تو اسی قوس پر اختصار کیا گیا۔ اس میں کوئی بھید ہو گا کہ اس پر کوئی اطلاع نہیں بخشی گئی ۔ اسماء وصفات کے یہ تینوں اصول جو بیان کیے گئے وہ حضرت ذات تعالی و تقدس کے محض اعتبارات ہیں۔ ان تینوں اصولوں کے کمالات کا حصول نفس مطمئنہ کے ساتھ خاص ہے۔ نفس کو اطمینان بھی اسی مقام پر حاصل ہوتا ہے۔ اس مقام پر شرح صدر حاصل ہوتی ہے اور سالک حقیقی اسلام سے مشرف ہوتا ہے۔ نفس مطمئنہ یہ تخت صدر پر جلوس فرماتا ہے اور مقام رضا پر ترقی کر جاتا ہے۔ یہ مقام انبیاء کی ولایت کبری کا منتہا ہے۔
حضرت مجددالف ثانی فرماتے ہیں کہ جب میری سیر کا سلسلہ اس مقام تک پہنچا تو میں نے خیال کیا کہ کام ختم ہو گیا اس وقت ندا آئی کہ یہ مقام اسم الظاہر کی تفصیل تھی جو کہ پرواز کا ایک بازو ہے اور اسم الباطن ملاء اعلیٰ کے مبادی تعینات سے تعلق رکھتا ہے۔ اور اس میں سیر کا آغاز کرنا ولایت ملائکہ کی ولایت علیاء میں قدم رکھنا ہے۔ حضرت مجدد فر ماتے ہیں کہ اسم الظاہر اور اسم الباطن کے دو بازو حاصل کر کے جب اڑنا نصیب ہوا تو معلوم ہوا کہ ترقیات در اصل عنصر ناری عنصر ہوائی اور عنصر آبی کا حصہ ہے۔ کیونکہ ملائکہ کو یہی تین عناصر دیئے گئے ہیں چنانچہ وارد ہوا ہے کہ بعض فرشتے آگ اور برف سے پیدا کیے گئے ہیں۔ اور ان کی تسبيح ہے۔ سبحان من جمع بين النار والثلج پاک ہے وہ ذات جس نے آگ اور برف کو جمع کیا ہے۔
اور جب اللہ تعالی کے فضل و کرم سے اس سے اوپر سیر کرنے کا موقع ملے تو وہ کمالات نبوت کا آغاز ہو گا۔ ان کمالات کا حصول انبیاء علیہم السلام کے لیے مخصوص ہے اور مقام نبوت کی ابتداء ہے۔ انبیاء علیہم السلام کی کامل اتباع کرنے والوں کو بھی ان کمالات سے حصہ مل سکتا ہے اور لطائف انسانی میں سے ان کمالات کا حصہ اور بلندی عنصر خاک کے لیے ہے اور تمام عناصر اور عالم خلق اور عالم امر کے لطائف اس کے تابع ہیں ۔ اور چونکہ یہ عنصر بشر سے مخصوص ہے اس لیے خواص بشر خواص ملائکہ سے افضل ہو گئے۔ ولایت صغری و کبری اور اولیاء کے تمام کمالات نبوت کے کمالات کا ظلال ہیں۔ اور اس کی مثال یہ ہے کہ جب کمالات نبوت کے دائرہ میں پہنچتے ہیں تو وہ مرکز بصورت دائرہ ظاہر ہوتا ہے اور وہ دائرہ کمالات رسالت کا ہے جو دراصل انبیاء مرسل کے لیے مخصوص ہے۔ باقی جس کسی کو میسر ہوا ہے تو واسطہ اور متابعت سے میسر ہوتا ہے اور جب اس دائرہ ثانی کے مرکز میں پہنچتے ہیں تو وہ مرکز بھی دائرہ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اولو العزم کے کمالات کا دائرہ ہے اس کی شان مثال سے اعلیٰ ہے۔ انبیاء اولوالعزم کو جب یہ منصب عطا کرتے ہیں اس کے ساتھ اشیاء کا قیام ہوتا ہے اولیاء میں سے بعض خوش قسمت ہوتے ہیں کہ جن کو انبیاء کی متابعت کے طفیل یہ منصب عطا ہو جاتا ہے۔
حضرت مجددالف ثانی فرماتے ہیں کہ جب میں یہ سیر پوری کر چکا تو معلوم ہوا کہ اگر بالفرض سیر میں ایک قدم اور آگے رکھوں تو وہ عدم محض میں جاپڑے گا اذ ليس ورائه الا العدم المحض ہے کیونکہ اس سے آگے عدم محض کے سوا اور کچھ نہیں اے بیٹے اس اجر سے وہم میں نہ پڑ جانا کہ عنقا جال میں آگیا هُوَ سُبْحَانَهُ بَعْدَ وَرَاء سُبْحَانَهُ أَقْرَبُ فِي الْوُجُودِ وَأَبَعْدُ فِي الْوُجْدَانِ الوراء ثُم وَرَآء الوراء یعنی ” پس وہ پاک ذات اس سے بھی آگے ہے بلکہ آگے سے بھی آگے ہے اس کا یہ آگے ہونا پردوں کے اعتبار سے نہیں کیونکہ تمام پردے تو اٹھ گئے۔ بلکہ یہ عظمت و کبریائی کے ثبوت کے اعتبار سے ہے۔ جو ادراک کا مانع ہے۔ فَهُوَ سُبْحَانَهُ أَقْرَبُ فِى الْوُجُودِ وَابَعْدُ فِي الْوُجُدَانِ
یعنی پس وه پاک ذات وجود کے زیادہ قریب ہے لیکن ادراک سے بہت دور ہے” بعض ایسے کامل مرشد ہوتے ہیں جولوگوں کو انبیا علیہم السلام کے طفیل عظمت و کبریائی کے خیموں میں پہنچا دیتے ہیں اور محرم بار گاہ بنادیتے ہیں فَعُومِلَ مَعَهُمْ مَاعُومِلَ ” پھر ان کے ساتھ جو معاملہ ہوتا ہے سو ہوتا ہے یہ معاملہ انسان کی هيئت وحدانی (انفرادی صورت)سے مخصوص ہے جو عالم خلق اور عالم امر کے مجموعہ سے پیدا ہوئی ہے۔ تاہم اس مقام کی سیر میں عنصر خاک کی سرداری ہوتی ہے ہے۔ اس مقام کے کمالات ہیئت ودانی سے مخصوص ہیں۔ ایسا آدمی صدیوں سالوں کے بعد پیدا ہوتا ہے اور بارگاہ عظمت و کبریائی کا ظہور کعبہ ربانی کی حقیقت سے تعلق رکھتا ہے۔ حضرت مجدد فر ماتے ہیں کہ مرتبہ علیا کے بعد خالص نور ہے کہ جس کو اس فقیر نے حقیقت کعبہ معلوم کیا ہے۔ ایک نہایت اعلیٰ مرتبہ ہے جو قرآن مجید کی حقیقت ہے۔ کعبہ بحکم قرآن جہان بھر کا قبلہ ٹھہرا ہے۔ حضرت شیخ سیف الدین فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کے انوار کے انکشاف کی علامت غالبا یہ ہے کہ عارف کے باطن پر ایک بوجھ وارد ہوتا ہے گویا یہ آیت کریمہ اسی معرفت کی طرف اشارہ کرتی ہے إِنَّا سَنُلۡقِي عَلَيۡكَ قَوۡلٗا ثَقِيلًا يعنى” بے شک ہم نے تجھ پر بھاری کلام نازل كيا ”
حضرت مجددالف ثانی فرماتے ہیں کہ اس مقدس رتبہ کے اوپر بھی ایک مرتبہ ہے جو نہایت بلند ہے کہ جو نماز کی حقیقت هے ممکن ہے کہ حقيقت نماز کا اس طرف اشارہ کیا گیاهوجو قصہ معراج میں آیا ہے کہ وقف یا محمد فان الله یصلی یعنی ایسی عبادت جو مرتبہ تجر د(اكيلا پن)وتنزہ (عیب سے پاک)کے لائق ہو مگر مراتب وجود سے صادر ہو فهو العابد وهو المعبود ” پس وہی عابد ہے اور وہی معبود‘ اس مرتبہ میں کمال وسعت اور بے مثل امتیاز ہے حضرت عروہ الوثقی فرماتے ہیں کہ جو لذت نماز ادا کرتے وقت حاصل ہوتی ہے نفس کا اس میں حصہ نہیں ہے۔ اور اصل لذت نالہ و فغان میں ہے اور دنیا میں نماز کا رتبہ ہے جیسا کہ آخرت میں دیدار کا رتبہ ہے ۔ حضرت مجدد فرماتے ہیں کہ حضور سرور عالم ﷺ کو جو دولت دیدار معراج کی رات اور بہشت میں حاصل ہوئی تھی دنیا میں وہ نماز میں حاصل ہوتی تھی۔ اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا ( الصلوة معراج المومنين ” نماز مومنین کی معراج ہے اور فرمایا ( اقرب ما يكون العبد من الرب في الصلوة ” بنده نماز میں اپنے رب کے نہایت قریب ہوتا ہے” حضرت عروة الوثقی فرماتے ہیں ہر چند دنیا میں دیدار ( الٰہی ) نہیں ہے لیکن دیدار کے قریب ضرور ہے یعنی نماز میں ۔ حضرت مجدد الف ثانی فرماتے ہیں کہ وہ مرتبہ مقدس جو حقیقت نماز کے اوپر ہے وہ خالص معبودیت کا استحقاق ہے۔ اور اس کا فوق ہونا ثابت ہے۔ اور اس سے مقام پر وسعت بھی کم ہے اگر چہ بے مثل ہے انبیاء کرام علیہم السلام اور اکابر اولیاء کرام کی انتہائی سیر حقیقت نماز کے مقام تک ہے اور اس کے اوپر صرف معبودیت کا مقام ہے۔ کہ کسی کو بھی یہ دولت میسر نہیں۔ لیکن الحمد اللہ سبحانہ کہ اس مقام پر نظر کرنے سے منع نہیں فرمایا گیا:
اور بقد راستعداد گنجائش دی گئی ہے
بلا بودے اگر این ہم نہ بودے ترجمہ : اگر یہ بھی نہ ہوتا تو غضب ہوتا
کلمہ لا الہ الا اللہ کی حقیقت اس مقام پر ثابت ہوتی ہے۔ لا الہ الا اللہ کے معنی منتهيان کے حسب حال لا معبود الا اللہ ہیں۔ چنانچہ شریعت میں اس کے یہی معنی قرار پاتے ہیں۔ اور لاموجود ، لا وجود اور لا مقصود کہنا اوسط درجہ کے مبتدیوں کے لیے مناسب ہے۔ اور لا مقصود، لا موجود اور لا وجود سے اوپر ہے اور اس کے اوپر لا معبود الا اللہ ہے۔ اس مقام پر نظر میں ترقی اور بینائی میں تیزی صرف نماز کی عبادت سے وابستہ ہے۔ دوسری عبادتوں میں نہیں ۔ البتہ (دوسری عبادتیں ) نماز کی تکمیل میں مدد کرتی ہیں اور اس کے نقص کی تلافی کرتی ہیں ۔

فصل ۔ولایت صغری كا بيان
اکثر اولیاء سوائے ایک مقام ولایت کے کہ جس کو حضرت مجد د ولایت صغری کہتے ہیں، کوئی دوسرا مقام ثابت نہیں کرتے اس لئے تعین اول کہ جس کو وحدت سے تعبیر کرتے ہیں اور مرتبہ اجمال اور حقیقت محمدی ﷺ کہتے ہیں اور تعین دوم کو وحدانیت سے تعبیر کرتے ہیں اور مرتبہ تفصیل اور حقائق ممکنات کہتے ہیں اسی مقام میں ثابت کرتے ہیں۔ حضرت مجددالف ثانی فرماتے ہیں کہ ولایت صغری سوائے انبیاء و ملائکہ علیہم السلام کے حقائق ممکنات کے ظلال کا دائرہ ہے۔ انبیاء کے حقائق یعنی ان کے مبادی تعینات نفس صفات ہیں جن کو ولایت کبری سے تعبیر کیا گیا ہے اور حقائق ملائکہ کو ولایت علیا سے تعبیر کیا ہے۔ ان دونوں ولاتیوں کے درمیان جو فرق ہے پہلے بیان کر دیا گیا ہے اور ولایت کبری کے اعلیٰ مقام کو حقیقت محمدی ﷺ کہا ہے کہ جس کو صفت العلم یا شان العلم سے تعبیر کیا گیا ہے۔
یہ بات آنحضرت ﷺ پر کمالات نبوت تک پہنچنے سے پہلے مکشوف تھی۔ اس کے بعد جب آپ کمالات نبوت ورسالت و اولوالعزم سے مشرف ہوئے تو آپ پر ظاہر ہوا کہ تعین اول وجود کا تعین ہے جو رب ابراہیم خلیل الرحمان ہے اور مرکز جو اس کے تمام اجزاء سے اشرف اور مقدم ہے حقیقت محمدی ہے۔
اس کے بعد آنحضرت ﷺ پر ظاہر ہوا کہ تعین اول حب کی صفت ہے۔ محیط دائرہ خلت ہے جو خلیل الرحمان ابراہیم علیہ السلام کا مبدا ءتعین ہے اور مرکز محبت ہے ۔ جب مرکز پر پہنچتے ہیں تو وہ كبھی دائرہ ظاہر ہوتا ہے جس کا محیط خالص محبت ہے جو حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام کا مبدا ءتعین ہے اور اس کا مرکز محبوبیت ہے جو رسول کریم ﷺ کا مبدا ءتعین ہے اور وہ مرکز دائرہ کی طرح ظاہر ہوتا ہے اس کا محیط محبوبیت ممتزجہ (مخلوط) ہے اس کا مرکز خالص محبوبیت ہے اور وہ حقية الحقائق ہے۔ محبوبیت ممتزجہ كا معامله اسم مبارک محمد ﷺ سےتعلق رکھتا ہے۔ اور محبوبیت خالص کا تعلق اسم مبارک احمد ﷺ کے ساتھ ہے۔ پس سرور کائنات ﷺ کے لیے دو ولايتیں ہیں ایک ولایت محبوبیت ممتزجہ کہ اس کو حقیقت محمدیہ ﷺ کهتےهیں اور دوسری ولایت خالص محبیت کہ اس کو حقیقت احمد یہ ﷺ کہتے ہیں۔ یہی تعین اول ہے اس کے اوپر لاتعین ہے کہ اس میں سیر کیلئے ایک قدم تک کی گنجائش نہیں ۔ اور تعین اول جو حقیقت احمد یہ ہے سے اوپر ترقی ممکن نہیں ۔ لیکن حضرت مجددالف ثانی کو آخری عمر میں مرض الموت کے قریب رسول کریم ﷺ کی اتباع اور ان کے طفیل اس مقام سے ترقی حاصل ہوئی تھی لیکن وہ صرف سیر نظری تھی سیر قدمی نہیں تھی ۔ حضرت عروۃ الوثقی فرماتے ہیں کہ اس معنی سے آنحضرت یعنی مجد د صاحب اسي مجلس میں مستفید ہوئے۔
سوال: ۔تعین اول میں اولیاء کے کشف اور حضرت مجدد کے کشف میں اختلاف کی وجہ کیا ہے؟
جواب: ۔ حضرت مجد دفرماتے ہیں کہ ظل بہت بڑی شے ہے اور خود کو اصل شے کے ساتھ ظاہر کرتا ہے اور سالک کو خود بخود گر فتار کر لیتا ہے۔ ہاں وہ لوگ تعین اول کے ظل کے تعین میں ہیں کہ جو شروع کے وقت میں عارف پر اصل تعین اول ، جو تعین حبی ہے ظاہر ہوا ہے۔
سوال: ۔علم صفات حقيقیہ سے ہے اور حب صفات اضافیہ سے اور وجود حب پر مقدم ہے ۔ کیا حب وجود کی شاخ ہے کیا انکو ظل تعین حبی کہنا درست نہیں ہو سکتا؟

جواب: ۔ علم صفات حقيقیہ سے ہے جو لاتعین کے مرتبہ میں داخل ہے اور مبادی تعینات تمام اعتبارات ہیں۔ سب سے پہلا اعتبار جو ظاہر ہواوہ حب ہے۔ اگر حب نہ ہوتی تو کوئی مخلوق پیدا نہ ہوتی ۔ حدیث قدسی میں آیا ہے۔ كُنتُ ‌كنزاً ‌مخفياً فأحببتُ أنْ أُعْرَفَ میں ایک مخفی خزانہ تھا پھر مجھ کو اس بات کی محبت ہوئی کہ میں پہچانا جاؤں دوسرا اعتبار وجود ہے جو تعین وجود کی ایجاد کا پیشرو ہے۔ گو یا تعین حبی کا مل ہے۔ اللہ تعالی اپنی صفات اپنے کمالات اور اپنی ذات کو بھی جانتا ہے۔ پس حق تعالی کی صفات جو مرتبہ علم میں ہیں۔ ولایت کبری اور ولایت علیاء کا دائرہ ہیں۔ اور ان صفات کا ظلال ولایت صغری ہے۔ اور ذات بے چون جو مرتبہ علم میں ہے اس تک پہنچنا کمالات رسالت اور کمالات اولو العزم سے ہے۔ اور حقیقت قرآن، حقیقت نماز اور معبودیت صرفه نفس الامری (اعیان ثابتہ یعنی صور علمیہ)اعتبارات ہیں۔ اور مرتبہ علم سے خارج ہیں کیونکہ ان کا نفس الامری وجود ہے۔ مثلا ز ید خارج میں موجود ہے اور اس کا وجود اعتباری امر ہے کہ خارج میں موجود نہیں۔ لیکن نه وہ اعتبار کہ جو اعتبار پر موقوف ہو معتبر ہوسکتا ہے۔ بلکہ نفس الامری ہے۔ چنانچہ حضرت مجدد نے سوال و جواب کے انداز میں فرمایا ہے۔
سوال: ۔تعیین اول وجود ہے اور اس کا وجود خارج میں موجود نہیں ان بزرگوں کے نزدیک اللہ تعالی کی ذات کے سوا کوئی چیز موجود نہیں ہے۔ اور اس میں تعینات و تنزلات سے خارج کوئی نام ونشان نہیں۔ اور اگر میں کوئی علمی ثبوت دوں تو لازم آتا ہے کہ تعین علمی اس سے مقدم ہو جو خلاف مقدر ہے۔
جواب: ۔ میں کہتا ہوں امر ثابت ہے اگر ثبوت خارجی کهوں اس معنی میں کہ علم سے ماورا ہے تو اس کا بھی ثبوت ہے اور گنجائش رکھتا ہے۔ واللہ اعلم
حضرت عروۃ الوثقی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
کہ جاننا چاہئیے کہ تعین اول اور تعین ثانی کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اللہ تعالی کی تنزل کر کے حُب بن گیا یا وجود بن گیا۔ بلکہ اس کا معنی اس کا ظہور ہے جو تنزیہ کے لائق ہے اور انبیاء علیہم السلام کے کلام کے مناسب ہے یعنی صادر اول ، رسول کریم ﷺ نے فرمایا أَوَّلَ مَا ‌خَلَقَ ‌اللَّهُ ‌نُورِيکے سب سے پہلے اللہ تعالی نے جس چیز کو پیدا کیا وہ میرا نور ہے”
فصل : ۔جاننا چاہئیے کہ ولایت اور کمالات نبوت ورسالت اور حقائق کے ہر مقام میں صوفی کي دو حالتیں ہیں ایک مخلوق سے الگ تھلگ ہونا اور اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونا وبمقتضا وَٱذۡكُرِ ٱسۡمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلۡ إِلَيۡهِ تَبۡتِيلٗا) یعنی اپنے رب کے نام کا ذکر کر اور اس کے غیر سے پوری طرح منقطع ہو دوسرے عن الله باللہ کی طرف رجوع کرنا یعنی مخلوق کے ساتھ تاز ه مناسبت کرنا جو مقام تبلیغ وارشاد کے لوازم میں سے ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَوۡ جَعَلۡنَٰهُ ‌مَلَكٗا لَّجَعَلۡنَٰهُ رَجُلٗا یعنی اگر ہم رسول کو فرشتہ بناتے تو بھی آدمی کی صورت میں بناتے ۔
اور اگر فرشتہ کو پیغمبری کے لیے بھیجتے تو اس کو آدمیوں کی صفات پر بناتے ۔ تاکہ فیض رساں اور فیض یاب کے درمیان مناسبت رہے ۔ کیونکہ مناسبت کے بغیر فیض حاصل نہیں ہوتا۔ پہلی حالت میں کشفی نظر سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا خدا کی طرف سیر کرتا ہے اور دوسری حالت میں یہ نظر آتا ہے کہ گویا اللہ تعالیٰ کی درگاہ سے مخلوق کی طرف آتا ہے۔ اس حالت میں صوفی غمگین ہوتا ہے اور جس قدر اس کا نزول پورا ہوتا ہے اسی قدر اس کا فیض عالم میں زیادہ سرایت کرتا ہے۔
فائدہ: ۔ عروج میں سور ه سبح اسم کا پڑھنا موثر ہوتا ہے۔
فصل : ۔یہ تمام معاملات جو عروج کے متعلق بیان ہوئے، ہزار سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت مجددالف ثانی کو عطا فرمائے۔ ان سے پہلے اولیا، میں سے کسی کی زبان سے ان کا ذكر نہیں ہوا ۔ ان سب کی بنیاد اس بات پر ہے کہ پہلی امتوں کے درمیان مخلوق کی ہدایت کے لیے ہر زمانہ میں اور ہر گاؤں میں انبیاء کرام مبعوث ہوتے رہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَإِن مِّنۡ أُمَّةٍ إِلَّا ‌خَلَا ‌فِيهَا نَذِيریعنی ” کوئی ایسا شہر ہی نہیں ہوا کہ جس میں کوئی پیغمبر ( ڈرانے والا ) نہ گزرا ہوا اور ان میں سے بعض مرتبہ رسالت تک بھی پہنچتے تھے۔ چنانچہ حديث پاک میں ہے کہ انبیاء کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے اور رسولوں کی تعداد تین سو تیرہ ہے اور ہر ہزار سال کے بعد یا اس کے قریب ایک اولو العزم پیغمبر مبعوث ہوا ۔ حضرت آدم علیہ السلام : سے (ہزار سال بعد ) حضرت نوح علیہ السلام اسی طرح ان کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام اور ان کے بعد حضرت محمد رسول اللہ کے خاتم النبین بن کر آئے۔
آپ ﷺ کی رحلت کے بعد آپ کی امت کے اولیاء آپ کے نائب بن کر مخلوق کی ہدایت کرتے رہے۔ رسول خدا ﷺ نے فرمایا إِنَّ ‌الْعُلَمَاءَ ‌وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ” علماء انبیاء کے وارث ہیں اور ان کے درمیان ہر صدی پر ایک ایسا ممتاز ولی جو فضیلت والا ہوتا ہے، پیدا ہوتا ہے جیسے انبیاء کے درمیان رسول پیدا ہوئے ۔ ابوداؤد وغیرہ نے آنحضرت علیہ الصلوۃ والسلام سے روایت کی ہے۔ إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ ‌يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَايعني الله تعالي اس امت میں ہر صدی پرايسا شخص مبعوث فرمائے گا جو اس کے دین کی تجدید کرے گا
اور جب ہزار سال گزر گئے اور اولوالعزم کی نوبت پہنچی تو اللہ تعالی نے قدیم عادت کے موافق دوسرے ہزار سال کے لیے ایک مجدد پیدا کیا جو تمام مجد د اولیاء میں وہی مقام رکھتا ہے جو انبیاء اور رسل میں اولو العزم کا ہوتا ہے۔ اور اس کو رسول کریم ﷺ کی بقیہ مٹی سے پیدا کیا۔ اور وہ مقامات و کمالات عطا کیے جو کسی نے نہ دیکھے تھے اور اس کے طفیل یہ کمالات آخری زمانے میں شائع ہوئے اور نمودار ہوئے۔ ابن امام جعفر صادق اپنے باپ اور دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا أَبْشِرُوا وَأَبْشِرُوا إِنَّمَا مَثَلُ أُمَّتِي مَثَلُ الْغَيْثِ ‌لَا ‌يُدْرَى ‌آخِرُهُ خَيْرٌ أَمْ ‌أَوَّلُهُ أَوْ ‌كَحَدِيقَةٍ أُطْعِمَ مِنْهَا فَوْجٌ عَامًا ثُمَّ أُطْعِمَ مِنْهَا فَوْجٌ عَامًا لَعَلَّ آخِرَهَا فَوْجًا أَنْ يَكُونَ أَعْرَضَهَا وَأَعْمَقَهَا عُمْقًا وَأَحْسَنَهَا حُسْنًايعنی بشارت دو اور بشارت حاصل کرو بے شک میری امت کا حال بارش کی طرح ہے معلوم نہیں اس کا آخر بہتر ہے يا اول یا میری امت کا حال باغ کی مانند ہے کہ مجھے اس باغ میں سے ایک سال میوؤں کی ایک قسم کھلائی جاتی ہے اور دوسرے سال دوسری قسم ۔ شاید دوسری قسم چوڑائی میں زیادہ چوڑی گہرائی میں زیادہ گہری اور خوبی میں زیادہ خوب ہو”
اور حضرت ابو ہریرہ سے کتاب الزہد میں بيہقی نے روایت کی ہے اور اسی طرح ابن عباس سے مروی ہے کہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا مَنْ ‌تَمَسَّكَ ‌بِسُنَّتِي عِنْدَ فَسَادِ أُمَّتِي فَلَهُ أَجْرُ مِائَةِ شَهِيدٍیعنی جوشخص میری امت کے فساد کے زمانے میں میری سنت کو لازم پکڑے اس کو سو شہیدوں کا ثواب ملے گا ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آخری زمانہ میں بعض لوگ ہوں گے جو دوسروں سے اپنے علوم اور کمالات میں زیادہ وسیع ، زیادہ گہرے اور زیادہ نیک ہوں گے۔ اور جو شخص امت کے فساد کے زمانے میں اور کفر و گناہ کے غلبہ کے وقت سنت کو مضبوط پکڑے گا اس کو سو شہیدوں کے برابر ثواب ملے گا۔ واللہ اعلم

خاتمہ نقشبندیہ کے سلوک کا بیان
تمام مسلمانوں کو عمو ما اور طریقہ نقشبندیہ کے صوفیہ جن کے طریقہ کی بنیاد ہی اتباع سنت پر ہے، کو خصوصاً لازم ہے کہ فقہ اور حدیث کی خدمت کریں۔ تا کہ عبادات و عادات میں فرائض، واجبات ، محرمات، مکروہات ، مشتبهات اور سنن پیغمبر ﷺ کو معلوم کریں اور جہاں تک ممکن ہو اتباع سنت کی کوشش کریں۔ خاص طور پر فرائض اور واجبات کی اتباع اور مکروبات و مشتبهات سے بچنے میں سنت کی رعایت کو مضبوطی سے تھام لیں۔ بدن ، کپڑے اور جگہ کی طہارت اور تمام شرائط نماز کی پوری پوری احتیاط کریں۔ لیکن ظاہری طہارت میں اپنے آپ کو وہم کی حد تک نہ پہنچا ئیں۔ کیونکہ یہ مذموم ہے۔ اور پنجگانہ نماز مسجد میں باجماعت پڑھیں اس طرح کہ تکبیر تحریمه اولی فوت نہ ہو۔ جماعت کی تعداد بڑھائیں اور کسی اچھے شخص کو امام بنا ئیں۔ کیونکہ حدیث پاک میں ہے ( الإِمَامُ ‌ضَامِنٌ مقتدی کی نماز امام کی نماز کی ضمانت میں ہے ” ۔ پس جس قدر امام کامل ہو گا اسی قدر نماز بھی زیادہ کامل ہو گی۔ اور جمعہ کی نماز کبھی نہ چھوڑیں ۔ تمام سنن اور آداب نماز کا اچھی طرح لحا ظ ر کھیں ۔ اور مکمل اطمینان سے نماز ادا کریں اور قرآن پاک کو صحیح طریقے سے تجوید اور عمدہ آواز سے لیکن گانے کی طرز کے بغیر پڑھیں۔ اور نماز کو مستحب اوقات میں پڑھیں۔ روزانہ کی سنتیں جو کہ بارہ ہیں ادا کریں۔ اور نماز تہجد جو کہ سنت مؤکدہ ہے بھی ہاتھ سے نہ جانے دیں۔
ماور رمضان کے روزے پوری احتیاط کے ساتھ رکھیں۔ بے ہودہ باتوں یا گناہ یا غيبت سے روزہ کے ثواب کو ضائع نہ کریں۔ نماز تراویح، ختم قرآن شریف اور رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کو لازم پکڑیں۔ اور لیلۃ القدر کے متلاشی رہیں۔ ذکر کے اوقات کو ذکر سے ) آبا درکھیں اور اگر صاحب نصاب ہوں تو زکوۃ کا ادا کرنا فرض ہے۔ لیکن اس سلسلے میں سنت یہ ہے کہ ضرورت سے زیادہ مال اپنے قبضہ میں نہ رکھیں ۔ رسول کریم ﷺنے فتح خیبر کے بعد اپنی ازواج مطہرات میں سے ہر ایک کو چھ سومن جو اور کھجور سالانہ دیتے تھے لیکن اپنی ملکیت میں ایک درہم بھی نہیں رکھتے تھے۔
اور کسب حلال سے کھاتے رہیں۔ خرید و فروخت وغیرہ کے معاملات میں مسائل فقہ کی پابندی لازم پکڑیں۔ اور مشتبهات سے پر ہیز کریں۔ حقوق العباد کی ادائیگی میں بھر پور کوشش کریں۔ حقوق اللہ کی ادائیگی میں اگر کوئی کوتاہی ہو گئی تو رسول کریم ﷺ اور پیران عظام کی شفاعت سے مغفرت کی قوی امید ہے لیکن حقوق العباد نہیں بخشے جا سکتے۔ نکاح رسول مقبول ﷺ کی سنت ہے۔ لیکن اگر اس خوف سے کہ اس کے حقوق پورے کرنے میں اکثر فرائض وسنن فوت ہو جائیں گے تو اسے باز رہنا بہتر ہے اس بارے میں مختصر بات کہی گئی ہے۔ اس کی تفصیل فقہ اور احادیث کی کتب سے تلاش کر لیں ۔
فرائض و واجبات کی ادائیگی اور مکروہات مشتبهات سے اجتناب کے بعد صوفی پر لازم ہے کہ وہ اپنے اوقات ذکر الٰہی میں گزاریں۔ بیہودگی میں وقت ضائع نہ کریں حدیث پاک میں آیا ہے کہ اہل جنت اس لمحے پر بڑی حسرت کریں گے جو اللہ تعالیٰ کے ذکر کے بغیر گزرا ہو گا نفس کو فنا کرنے سے پہلے نوافل کی کثرت اور تلاوت قرآن مجید سے قرب الٰہی میں ترقی نہیں ہوتی اللہ تعالی فرماتا ہے ﴿لَّا يَمَسُّهُۥٓ إِلَّا ٱلۡمُطَهَّرُونَیعنی قرآن پاک کو طہارت کے بغیر ہاتھ نہ لگا ئیں چنانچہ ظاہری طہارت نماز کی شرط ہے۔ نفس کی برائیوں سے پاک ہوئے بغیر نماز کی برکات اور تلاوت قرآن کی برکات حاصل نہیں ہوتیں۔ جس طرح ظاہری کفر کا ازالہ کلمہ لا الہ الا اللہ سے ہوتا ہے اسی طرح باطنی کفر کا ازالہ بھی کلمہ لا الہ الا اللہ سے ہوتا ہے۔ رسول پاک ﷺ کا فرمان ہے۔ جَدِّدُوا ‌إِيمَانَكُمْاپنے ایمان کو تازہ کرو لوگوں نے پوچھا۔ ایمان کو کیسے تازہ کریں۔
آپﷺ نے فرمایا کہ کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ بار بار پڑھنے سے۔
تمام سلسلوں کے مشائخ نے اپنے مریدوں کے لیے اس کلمہ لا الہ الا اللہ کا ذکر مقرر کیا ہے۔ بعض اونچی آواز سے ذکر کرتے ہیں اور اس میں (لذت /قرب) تلاش کرتے ہیں جبکہ (سلسلہ ) نقشبند ( کے مشائخ ) نے بلند ذکر کو بدعت سمجھا ہے اور ذکر خفی پر اکتفا کیا ہے اس لیے فنائے قلب وغیرہ کے لیے لطائف عالم امر کے لیے ذکر لا الہ الا اللہ کو جس نفس کے ساتھ مفید سمجھتے ہیں اور دم کو ناف کے نیچے بند کر کے لا کو خیال میں ناف سے دماغ تک اور الہ کو دماغ سے دائیں کندھے پر لطیفہ روح تک جودا ئیں پستان کے نیچے لاتے ہیں اور کلمہ الا اللہ کو وہاں سے قلب پر جو بائیں پستان کے نیچے ہے ضرب لگاتے ہیں۔ اس معنی کا لحاظ رکھتے ہوئے کہ اس ذات پاک کے سوا کوئی مقصود نہیں۔ یہ ذکر طاق عدد کی رعایت سے کرتے ہیں اور اس کو وقوف عددی کہتے ہیں۔ یہ عمل خواجہ عبد الخالق غجد وانی سے اور ان کو سرور کائنات ﷺ سے پہنچا ہے۔ نفس کے فناکے لیے کلمہ طیبہ کی تکرار زبان سے جس کے ساتھ معنی کا بھی پورا خیال ہو، مفید ہے کیونکہ نفس عالم مطلق سے ہے۔ اور فنائے نفس کا مرتبہ حاصل ہونے کے بعد کمالات نبوت کے مقام میں اور اس سے اوپر تلاوت قرآن پاک اور کثرت نماز سے ترقی حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ اس سے اوپر کے مقامات کے ذکر میں اس کا بیان گزر چکا ہے۔ ایک شخص نے آنحضرت ﷺ سے التجا کی کہ مجھے بہشت میں آپ کی ہمسائیگی نصیب ہو۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ کوئی اور چیز طلب کرو ۔ اس شخص نے کہا میں یہی چاہتا ہوں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ کہ کثرت سجود سے اپنے نفس کو مارنے پر میری مدد کرو۔ اور کثرت مراقبہ مبتدی کے لیے بھی مفید ہے اور منتہی کے لیے بھی ۔ حضرت خواجہ نقشبند رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صوفی کثرت مراقبہ سےوقار اور جاہ و جلال کے مراتب تک پہنچ سکتا ہے۔ مبتدی کو پہلے ذات مجتمع جمیع صفات کمال (خدا) کے مراقبہ کا حکم دیتے ہیں۔ جب اس کو اس مراقبہ سے اطمینان میسر ہو جاتا ہے۔ تو اس کو مراقبہ معیت اور اس آیت کے ملاحظہ کا حکم دیتے ہیں ۔ وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَمَا كُنتُم اللہ تعالی تمهارے ساتھ ہے تم جہاں کہیں بھی ہو فنائے قلب کے بعد مراقبہ اقر بیت اور اللہ تعالی کے اس قول کے ملاحظہ کا حکم دیتے ہیں ونَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الوريد اللہ تعالی بندہ کی طرف اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے فنائے نفس کے بعد مراقبہ محبت اور آیت ﴿يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ ) کے ملاحظہ کا حکم دیتے ہیں یعنی اللہ تعالی ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں جب فنائے کامل نصیب ہو جائے تو کمالات نبوت میں اور اس سے اوپر ذات خاص کا مراقبہ دائم کرتا رہے۔ ذکر و فکر اور فرائض و نوافل سے فارغ ہو کر اگر علمائے مفتیان اور صالح لوگوں کی صحبت اور گفتگو میسر آئے تو غنیمت سمجھے بشرطیکہ ایسے علماء دنیا داروں کی صحبت سے بچنے والے ہوں ۔ اگر صالح لوگوں کی صحبت میسر نہ آئے۔ تو پھر تنہا بیٹھنا یا سو رہنا زیادہ بہترہے فان العزلة خير من الجليس السوء والجليس الصالح ‌خير ‌من ‌العزلة: یعنی برے ہم نشین سے تنہائی بہتر ہے اور نیک ہم نشین تنہائی سے بہتر ہے جاہلوں ، فاسقوں اور دنیا میں غرق رہنے والے لوگوں کی صحبت اور میل ملاپ سے باطن کا کارخانہ خراب ہو جاتا ہے۔ خصوصاً مبتدی صوفیوں کے حق میں سخت نقصان دہ ہے جیسا کہ نجاست تھوڑے سے پانی کو نا پاک کر دیتی ہے۔ صوفیہ کرام صاحب دل اور اولیاء اللہ کی صحبت اللہ کے ذکر اور عبادت سے بھی زیادہ مفید ہے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین آپس میں کہا کرتے : تھے اجْلِسُ بِنَا نُؤْمِنُ سَاعَة ) یعنی ہمارے پاس بیٹھو تا کہ ایمان تازہ کر لیں مولانا روم فرماتے ہیں:
یک زمانه هم صحبت با اولیاء بهتر از صد سال بودن در تقا
ترجمہ اولیاء کی صحبت میں تیرا تھوڑی دیر بیٹھنا سو سال تقوی میں گزارنے سے بہتر ہے۔
حضرت خواجہ احرار فرماتے ہیں ۔
نماز را حقیقت قضا بود لیکن نماز صحبت مارا قضا نخواهد بود
ترجمه نماز رہ جائے تو اس کی قضا کی جا سکتی ہے لیکن ہماری محبت کی نماز کی قضا كبھی نہ ہو سکے گی۔
ایک شخص نے کسی دوسرے سے کہا کہ بایزید کی صحبت میں رہا کرو۔ اس شخص نے جواب دیا کہ میں خدا کی صحبت میں رہتا ہوں پہلے شخص نے کہا کہ بایزید کی صحبت میں رہناخدا تعالی کی صحبت میں رہنے سے بہتر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تو اپنی نسبت کے مقدور اور اپنے حو صلے کے موافق خدا تعالٰی سے فیض و برکت حاصل کرتا ہے جبکہ حضرت بایزید کی صحبت میں تجھ کو ان کے بلند مرتبہ کے موافق فیض حاصل ہوگا۔
مولانا روم فرماتے ہیں:
دور شو از اختلاط یار بد مار بد یار بد بدتر بو د از ماربد
ما بدتنها همی برجان زند یار بد بر جان و برایماں زند
ترجمہ بُرے دوست کی صحبت سے دور رہو کیونکہ برا دوست زہر یلے سانپ سے بھی زیادہ برا ہوتا ہے۔ زہریلا سانپ تو صرف جان کو نقصان پہنچاتا ہے جب کہ بُرا دوست جان کے ساتھ ایمان کو بھی تباہ و بر باد کر دیتا ہے۔ تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے ۔ اے اللہ تعالی تمام مخلوق سے عمدہ حضرت محمد پر ، ان کی آل پر اور ان کے تمام صحابہ کرام پر رحمتیں اور برکتیں نازل فرما۔ اے اللہ پاک مجھے اپنی محبت عطا کر ۔ اور ان کی کی محبت عطا کر جن سے تو محبت کرتا ہے اور اس عمل کی محبت عطا کر جسے تو پسند کرتا ہے آمین ثم آمین


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں