اعتبار کے لحاظ سےاللہ تعالی کی صفات مكتوب نمبر 5دفتر دوم

 اس بیان میں کہ حق تعالی کی صفات دو اعتبارکھتی ہیں۔ اعتبار اول فی نفسها ان کا حصول ہے اور دوسرا اعتبار ذات کے ساتھ ان کا قیام ہے اور یہ دونوں اعتبار خارج میں ایک دوسرے سے متمیز ہیں ۔ میر شمس الدین علی خلخانی کی طرف صادر فرمایا ہے۔ 

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (الله تعالی کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو) 

میرے مخدوم حق تعالی کی صفات جو موجود ہیں اورذات تعالی کے ساتھ قیام رکھتی ہیں، دو اعتبار(جزء)رکھتی ہیں۔ اعتبار اول یہ ہے کہ في حد ذاتها ثابت ہیں اور اعتبار دوم یہ ہے کہ واجب تعالی کی ذات کے ساتھ قیام رکھتی ہیں۔ اعتبار اول کے لحاظ سے عالم کے ساتھ مناسبت رکھتی ہیں اور تعینات کے مبادی ہیں اور اعتبار دوم کے رو سے عالم سے مستغنی ہیں اور عالم اور اہل عالم کے ساتھ کسی قسم کی توجہ نہیں رکھتیں۔ نیز نظر کشفی میں اعتبار اول پرحق تعالی کی ذات سے الگ معلوم ہوتی ہیں اور حق تعالی کی ذات کاحجاب ہیں اور اعتبار دوم سے حجاب مرفوع (حجاب نہیں پائے جاتے)ہے جس طرح کہ سفیدی جو کپڑے کے ساتھ قائم ہے، کپڑے کا حجاب نہیں۔ 

حاصل کلام یہ کہ سفیدی حصول نفسی اور حصول قیامی کے دونوں اعتباروں سے ذات جامہ کی حجاب نہیں۔ اگرچہ محسوس وہی سفیدی ہے لیکن حجابیت مرفوع ہے۔ برخلاف واجب تعالی کی صفات کے کہ اعتبار اول سے حاجب ہیں اور اعتبار دوم سے غیر حاجب۔ ان دونوں اعتباروں کے درمیان فرق کو تو تھوڑا خیال نہ کرے ۔

 اس فقیر نے باوجود جذب قوی اور تیز رفتاری کے ان دونوں کی درمیانی مسافت کوتقریبا  پندرہ سال میں قطع کیا ہے۔ 

علماء متقد مین کو ان دونوں اعتباروں کا درمیانی فرق معلوم نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا ہے که عرض کا فی نفسہ حصول وہی ہے جو اس کا قیامی حصول ہے لیکن علماء متاخرین میں سے بعض نے ان دونوں اعتباروں کا فرق معلوم کیا ہے اور تحقیق کیا ہے کہ عرض کا حصول نفسی اور ہے اور حصول قیامی اور۔ لان العرض يقال في حقه أنه وجد فقام في الوجود غیر القيام ( کیونکہ عرض وہ ہے جس کے حق میں کہا جاتا ہے کہ وہ پایا گیا پھر قیام کے سوا وجود میں قائم ہوا) متاخرین کی یہ تحقیق جو انہوں نے عرض کے بارہ میں کی ہے، اس مستمند(حاجت مند)کے عروج (عروج سے مراد سالک کا حق تعالی کی ذات و صفات عالیہ کے مشاہدہ میں مستغرق ہو جانا اور مخلوق سے منقطع ہونا ہے)  کے لیے اور اس حاجت مند کی معرفت کے لیے زینہ کا کام دے گی بلکہ اس سیر و سلوک میں بہت سی کلامی اور فلسفی تحقیقات نے فقیر کی مدد کی اور حق تعالی کے معرفت کا واسطہ بن گئیں۔ 

والسلام على من اتبع الهدى والتزم متابعة المصطفى عليه وعليهم من الصلوة والتسليمات اتمها وادومها

 اور سلام ہو آپ پر اوران  لوگوں پر جو ہدایت کے رستہ پر چلے اور جنہوں نے حضرت محمدﷺکی متابعت کو لازم پکڑا۔

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ36 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں