انسان کی وطن اصلی کی طرف واپسی فصل 1

انسان کی دو حیثیتیں ہیں۔ جسمانی اور روحانی۔

جسمانی انسان عام ہے اور روحانی خاص۔ روحانی انسان تو احرام باندھے۔اپنے اصلی وطن کی طرف یعنی قربت خداوندی(اسماء و صفات سے بندے کا علم و معرفت میں مستحکم ہو جانا اس طرح کہ کوئی چیز اسے مقصود سے دور نہ کر سکے) کے حصول کی راہ پر گامزن ہے۔ 

جسمانی انسان کی واپسی کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ وہ درجات کی طرف رجوع کرے۔ شریعت و طریقت(سالکین کی راہ جو انہیں واصل بحق کرتی ہے۔ مثلا منازل سلوک کا طے کرنا اور مقامات میں ترقی کرنا)  اور معرفت(یہ ولی اللہ کی صفت ہے جو حق سبحانہ تعالی کو اس کے اسماء صفات سے پہچانتا ہے۔ اور الله تعالی اس کے معاملات میں سچائی پیدا کر دیتا ہے۔ اور اس کو اخلاق رذیلہ اور اس کی آفات سے پاک و صاف کر دیتا ہے۔ اس تزکیہ کے بعد وہ اللہ تعالی کا ہو کر رہ جاتا ہے وہ سر میں اللہ تعالی کے ساتھ مناجات کر تا ہے اور یہاں اس کی حاضری دائمی صورت اختیار کر جاتی ہے۔ ایسے میں وہ وقت کا ترجمان بن جاتا ہے۔ اس کے اسرار قدرت  کو بیان کر تا ہے۔ اور تصرفات کے بارے گفتگو کرتا ہے۔ معرفت کے حامل شخص کو عارف کہتے ہیں)پر بلا نمود و ریاء عمل پیرا ہو کر ثواب حاصل کرے کیونکہ درجات (شریعت کےعلم ظاہری پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے انسان کو جو ثواب ملتا ہے اسے درجات کہا جاتا ہے) کے تین طبقے ہیں۔

 پہلا طبقہ :۔عالم الملک (عالم شہادت یا عالم اجسام واعراض۔ اسی عالم میں روحیں جسموں میں داخل ہوتی ہیں۔ اس کا دوسرا نام عالم سفلی ہے)میں جنت اور یہ جنت الماوی ہے۔ 

دوسراطبقہ :۔عالم الملكوت کی جنت اسے جنت النعیم کہتے ہیں۔ 

تیسراطبقہ :۔عالم الجبروت کی جنت یہ جنت الفردوس ہے۔ 

یہ نعمتیں جسمانیت کے لیے ہیں۔ ان عوالم تک جسمانیت اس وقت تک نہیں پہنچ سکتی جب تک کہ تین علوم کو حاصل نہ کر لے۔یعنی علم شریعت، علم طریقت اور علم معرفت۔ جیسا کہ حضور ﷺکا ارشاد گرامی ہے۔ 

الحِكمةُ الجامِعَةُ مَعرفَةُ الحَقُّ، والعَملُ بِها مَعرِفَةُ البَاطِن کامل دانائی حق تعالی کی معرفت ہے۔ اور اس کے مطابق عمل پیرا ہوناباطن کی معرفت ہے“ اسی طرح حضورﷺکا ایک اور ارشاد گرامی ہے ۔ اللَّهُمَّ، ‌أَرِنَا ‌الْحَقَّ ‌حَقّا ‌وَارْزُقْنَا ‌اتِّبَاعَهُ، وَأَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَارْزُقْنَااجْتِنَابَهٗ اللہ! ہمارے سامنے حق کو واضح فرما اور اس کی پیروی کی توفیق دے اور باطل کو باطل کر کے دکھا اور اس سے بچنے کی توفیق بخش دے۔ اسی طرح رسول کریم کا ایک اور ارشاد گرامی ہے۔مَنْ عَرَفَ نَفْسَهُ وخالَفَها فَقدْ عرَفَ رَبَّهُ وتابَعهُ

جس نے اپنے نفس کو پہچانا اور اس کی مخالفت کی تو اس نے یقین اپنے رب کو پہچان لی اور اس کی فرمانبرداری کی“ 

انسان خاص کا اپنے وطن یعنی قربت کی طرف رجوع اور رسائی علم حقیقت(اس سے مراد علم ظاہری اور باطنی کا مجموعہ ہے۔ اس علم کا حصول ہر مرد اور عورت پر فرض ہے۔ اسی کو علم شریعت کہتے ہیں) کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ علم حقیقت عالم لاہوت(روحوں کا پہلا وطن جہاں وہ تخلیق ہو گئیں۔ اسی عالم میں محو فنا ہے۔ کیونکہ فانی کو اس عالم میں قرب خداوندی حاصل ہو تا ہے۔ اس عالم تک ملا ئکہ نہیں پہنچ سکتے)میں توحید ہے۔ دنیا میں اللہ کی یکتائی کا عقیدہ ہے۔ اور یہ مقام ( اس سے مراد بندے کا دہ مرتبہ ہے جو وہ توبہ ، زهد ، عبادات ، ریاضات اور مجاہدات کے ذریعے بارگاہ خداوندی میں حاصل کرتا ہے۔ جب تک وہ ایک مقام کے احکام پر پورا نہیں اتر تا دوسرے مقام کی طرف ترقی نہیں کر سکتا)سوتے جاگتے عبادت سے حاصل ہوتا ہے۔ بلکہ جسم پر جب نیند طاری ہو جاتی ہے تو دل کو زیادہ فرصت ملتی ہے اور وہ اپنے وطن اصلی کی طرف رجوع کرتا ہے۔ یہ رجوع یا توکلی طور پر ہوتا ہے یا جزوی طور پر۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ 

اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى (الزمر:42 ( اللہ تعالی قبض کر تا ہے جانوں کو موت کے وقت اور جن کی موت کا وقت ابھی نہیں آیا( ان کی روحیں) حالت نیند میں۔ پھر روک لیتا ہے ان روحوں کو جن کی موت کا فیصلہ کرتا ہے اور واپس بھیج دیتا ہے دوسری روحوں کو مقررہ میعاد تک بے شک اس میں اس کی قدرت کی( نشانیاں ہیں ان کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں اسی لیے حضور ﷺنے فرمایا : نؤمُ العالم خيرٌ من عِبادةِ الجاهلِ عالم کا سونا جاہل کے عبادت کرنے سے بہتر ہے۔

مگر عالم کو یہ شرف صرف اسی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے کہ عالم کادل نور توحید سے زندہ ہو چکا ہو اور اسمائے توحید(اللہ تعالی کے اصلی نام سات ہیں۔ ان سات سے پھر چھ اور نام نکلتے ہیں۔ ان تمام اصلی اور فرعی اسماء کے مجموعے کو اسماء توحیدی کہتے ہیں۔ اصلی نام یہ ہیں۔ (لا الہ، الا الله ،هو،حی ، واحد، عزیز، ودود) فر عی چھ نام ۔ ( حق ،قھار، قیوم ، وھاب، مهیمن، باسط) باطن کی زبان پر بغیر حرف وصوت جاری ہو چکے ہوں۔ جیسا کہ حدیث قدسی میں ہے۔ 

الإنسان سرّي وأنا سرَّةانسان میر اراز اور میں اس کا راز ہوں‘‘

دوسری حدیث کے الفاظ یوں ہیں: إن علم الباطن هو سرّ من سرّي، أجّعله فى قلب عبدي، ولا يقف عليه أحد غيري بیشک علم باطنی میرے رازوں میں سے ایک راز ہے۔ میں نے اس راز کو اپنے بندے کے دل میں رکھ چھوڑا ہے۔ اس پر میرے سوا کوئی واقف نہیں ہو سکتا انسان کے وجود کا اصل مقصد ہے ہی علم تفکر جیسارسول اللہ کا ارشاد گرامی ہے : 

تَفكُّر ساعة خيرٌ من عبادةِ سبعينَ سنةایک پل کا غور و فکر ستر سال کی عبادت سے بہتر ہے“

 “ تفکر علم الفرقان ہے جسے توحید کہتے ہیں۔ اسی کی بدولت عارف اپنے مقصود ومحبوب تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ عارف اس علم کے نتیجے میں روحانیت کی پرواز کر کے عالم قربت(یہ عالم لاہوت میں انبیاء و اولیاء کا مقام ہے ۔ اس کی تشر یح میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد محل وصال ہے جہاں انسان و اصل بحق ہو تا ہے۔ اس کے متعلق ایک تیسرا قول بھی ہے کہ عالم حقیقت سے مراد عالم احسان میں دخول ہے۔ اس کو عالم قربت کانام بھی دیا جاتا ہے۔) تک پہنچتا ہے۔ پس عارف قربت کی طرف محو پرواز ہے جبکہ عابد جنت کی طرف پا پیادہ گامزن ہے۔ 

عارفین کے متعلق کسی نے کیاسچ کیا ہے۔ 

قُلوبُ العارفينَ لَها عُيونٌ               تَرى ما لا يَراهُ الناظِرونَ

وَأَجنِحَةٌ تَطيرُ بغَيرِ ريشٍ                  إِلى مَلَكوتِ رِبِّ العالِمينَ

عرفاء کے دلوں کی آنکھیں ہوتی ہیں۔ یہ آنکھیں وہ سب کچھ دیکھ لیتی ہیں جو ظاہری آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں۔ ان( اہل اللہ ( کہ پر ہیں لیکن یہ پرندوں کے سے پرنہیں ہیں۔ وہ ان پروں کے ساتھ پروردگار عالم کی بادشاہی کی طرف محو پرواز رہتے ہیں۔ 

یہ پرواز عرفاء کے باطن میں جاری و ساری ہے۔ عارف انسان حقیقی ہے۔ 

وہ اللہ عزوجل کا محبوب، محرم راز اور اس کی د لہن ہے جیسا کہ ابو یزید (بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ اولیاء اللہ، اللہ تعالی کی دلہنیں ہیں۔ دلہنوں کو محرموں کے سواء کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ اولیاء کرام اللہ تعالی کے حضور حجاب انس میں مستور ہوتے ہیں۔ نہ انہیں کوئی دنیا میں دیکھ پاتا ہے اور نہ ہی آخرت میں ہاں صرف ایک آنکھ ان کےحق کا مشاہدہ( دل کی آنکھ سے حق کو دیکھنا) کرتی ہے اور وہ ہے اللہ تعالی کی قدرت کی آنکھ جیسا کہ اللہ تعالی نے حدیث قدسی میں فرمایا :ا وليائي تَحْتَ قِبَائي لا يَعرِفُهُم غَيْرِي

میرے اولیاء میری قبا کےنیچے ہیں۔ انہیں میرے سواء کوئی نہیں پہچانتا۔

 لوگ دلہن کی صرف ظاہری سج دھج کو دیکھ سکتے ہیں۔ 

یحی بن معاذ رازی رحمۃ الله تعالی فرماتے ہیں ۔ 

ولی اللہ زمین میں اللہ تعالی کی خوشبو ہے جسے صرف صديق سونگھ سکتے ہیں۔ یہ خوشبو صدیقوں کے دلوں تک پہنچتی ہے۔ اسی لیے وہ اپنے مولا کی طرف مشتاق رہتے ہیں۔ تفاوت اخلاق کے مطابق ان کی عبادت بڑھتی جاتی ہے اور جوں جوں یہ لوگ عبادت میں بڑھتے ہیں اسی قدر فناء(بشریت کی صفات ذمیمہ کو الله تعالی کی صفات سے بدل دینا) میں بڑھتے جاتے ہیں۔ کیونکہ فانی(اس شخص کو کہتے ہیں جو حظوظ نفس کے شہود سے فناءہو گیا) جس قدر باقی کا قرب حاصل کر تا ہے اسی قدر فناء(بشریت کی صفات ذمیمہ کو الله تعالی کی صفات سے بدل دینا) ہوتا جاتا ہے ۔

ولی وہ ہے جو اپنے حال میں فناء ہو اور مشاہد حق میں باقی ہو۔ اسے اپنی ذات پر کوئی اختیار نہ ہو۔ اور نہ ہی اسے غیر خدا کے ساتھ سکون نصیب ہو۔ 

ولی وہ ہے جس کی تائید کرامات سے ہو۔ یعنی یہ مقام اس کی نگاہوں میں فروتر ہو۔ وہ خود افشاء کا ارادہ نہ رکھتا ہو۔ کیونکہ ربوبیت کے راز کو افشاء کرنا کفر ہے۔ جیسا کہ صاحب المرصادر حمہ اللہ تعالی نے فرمایا۔ اصحاب کرامات تمام کے تمام پس پردہ ہیں۔ کرامت مردان خدا کے لیے بمنزلہ حیض کے ہے ولی کے لیے ہزار مقامات ہیں۔ پہلا مقام کرامت ہے۔ جو اس سے گزر کیا تمام مقامات کو پانے میں کامیاب ہو گیا۔

سرالاسرار ،شیخ عبد القادر جیلانی صفحہ27 سلطان الفقر پبلیکیشنز لاہور


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں