تمہیدات عین القضات کے متعلق مکتوب نمبر80دفتر دوم

 اس بیان میں کہ آپ سے پوچھا گیا تھا کہ تمہیدات عین القضات میں لکھا ہے کہ جس کوتم خدا جانتے ہو ہمارے نزدیک محمدﷺہے اور جس کوتم محمد ﷺجانتے ہو ہمارے نزدیک خدا ہے۔ شیخ حامدنھاری کی طرف صادر فرمایا ہے:۔ 

الْحَمْدُ لِلَّهِ وَكَفَى وَسَلَامٌ عَلَى عِبَادِهِ ‌الَّذِي ‌اصْطَفَى تمام  تعریفیں اللہ کیلئے  ہیں اور اس کے برگزیدہ بندوں پرسلام ہو۔ 

آپ کاصحیفہ شریفہ جو بڑی محبت و اخلاص اور مودت و اختصاص سے لکھ کر روانہ کیا تھا پہنچا، بڑی خوشی ہوئی اللہ تعالیٰ  آپ کو اس دولت پر استقامت عطا فرمائے کیونکہ ہرگروہ کامحب اس گروہ کے ساتھ ہے۔ تو المَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ (آدمی  اسی کے ساتھ ہو گا۔ جس کے ساتھ اس کو محبت ہوگی) حدیث نبوی ﷺہے۔ 

آپ نے تمہیدات عین القضات کی عبارت کے معنے پوچھے تھے کہ اس میں لکھا ہے کہ جس کوتم خدا جانتے ہو ہمارے نزدیک محمدﷺہے اور جس کوتم محمد ﷺجانتے ہو ہمارے نزدیک خدا ہے ۔ 

میرے مخدوم ! اس قسم کی عبارتیں جو توحید و اتحاد کی خبر دیتی ہیں سکر کے غلبوں میں جو مرتبہ جمع ہے اور جس کو کفر طریقت سے تعبیر کرتے ہیں۔ (ایسی باتیں)مشائخ قدس سرہم سے بہت صادر ہوتی ہیں۔ اس وقت دوئی اور تمیز ان کی نظر سے دور ہو جاتی ہے اور ممکن کوعین واجب معلوم کرتے ہیں بلکہ ممکن کو پاتے ہی نہیں اور جب واجب کے سوا کچھ ان کا مشہود نہیں ہوتا اس صورت میں اس عبارت کے معنے یہ ہوں گے کہ وہ امتیاز اور دوئی جو تمہارے نزدیک خدا تعالیٰ  اور محمد ﷺ کے درمیان ہے۔ ہمارے نزدیک وہ امتیاز اور مغائرت ثابت نہیں بلکہ وہ ایک جو ایک ہونے سے بھی منزہ ہے۔ دوسرے کا عین ہے جب تمام ممکنات سے مغائرت کی نسبت دور ہو جائے تو پھر محمد رسول اللہ جو حق تعالیٰ  کے کمالات کا مظہر اتم ہیں۔ ان کے امتیاز کی نسبت کس طرح ثابت رہے یہ دید مرتبہ جمع کے ساتھ ہی مخصوص ہے جب سالک اس مقام سے بلند چلا جاتا ہے اور سکر  کی افراط سے آنکھ کھولتا ہے تو محمد ﷺ کو بندہ پاتا ہے اور اس کا رسول جانتا ہے جیسے کہ ابتدامیں جاناتھا۔ النهاية هي الرجوع إلى البداية (نہایت ہی بدایت کی طرح رجوع کرنا ہے) آپ نے سنا ہوگا۔ 

واضح ہو کہ مبتدی اورمنتہی دونوں صورت میں مشترک ہیں (حقیقت میں نہیں) یہی اشتراک منتہی کے لیے پردہ ہے جس کے باعث لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ رہتا ہے۔ ورنہ

چہ نسبت خاک را با عالم پاک خاک  کو عالم  پاک سے کیا نسبت

 جب متوسط کومنتہی کے ساتھ کچھ نسبت نہیں تو مبتدی دور از معاملہ کو اس کے ساتھ کیا نسبت ہوگی۔ رَبَّنَا ‌أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ یا اللہ ہمارے نور کو کامل کر اور ہم کو بخش۔ تو سب شے پر قادر ہے)والسلام علیکم و على من لدیکم۔

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ281ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں