حدیث قدسی لَا ‌يَسَعُنِي ‌أَرْضِي کا بیان مکتوب نمبر 21دفتر دوم

 اس بیان میں کہ مراد اس قلب سے جو حدیث قدسی لَا ‌يَسَعُنِي ‌أَرْضِي الخ میں واقع ہے مضغہ(گوشت کا ٹکڑا) ہے۔ نہ کہ وہ حقیقت جامع جس کی وسعت کی نسبت بعض مشائخ نے خبر دی ہے وہ مضغہ جس نے سلوک و جذبہ اور تصفیہ و تزکیہ (رذائل سے پاک) اور قلب کی تمکین (سالک کا مطلوب حقیقی سے واصل ہونا)  اورنفس کے اطمینان کے بعد اجزاء عشرہ کی ترکیب سے صورت حاصل کی ہے اورہیئت وحدانی پیدا کی ہے۔ اس حقیقت جامعہ پرکئی وجوہ سے زیادتی رکھتا ہے اور اب بیان میں کہ یہ سب کمالات جو مضغہ کے لیے ثابت کیے گئے ہیں۔ مقام قاب قوسین میں ہیں اور او ادنی کا معاملہ آگے ہے۔ خواجہ محمد صدیق کی طرف جو ہدایہ سے ملقب ہے ، صادر فرمایا: 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی الله تعالی کے لیے حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو)

آپ نے دریافت کیا تھا کہ آپ نے اپنے مکتوبات و رسائل میں لکھا ہے کہ ظہورقلبی ظہور عرشی کا ایک لمعہ(چمک) اور کلی فضیلت ظہورعرشی کے لیے ہے اور حدیث شریف میں یوں آیا ہے۔ لَا ‌يَسَعُنِي ‌أَرْضِي، وَلَا سَمَائِي، وَلَكِنْ يَسَعُنِي قَلْبُ عَبْدِي الْمُؤْمِنِ میں نہ اپنی زمین  میں سما سکتا ہوں نہ آسمانوں میں لیکن مومن آدمی کے دل میں سما سکتا ہوں۔ اس حدیث سے یہ لازم آتا ہے کہ ظہور بھی زیادہ کامل ہے اور فضیلت اس کے لیے ہے۔ اے میری محبت کے نشان والے۔ اس سوال کا حل ایک مقدمہ پر مبنی ہے۔ 

جاننا چاہے کہ ارباب ولایت لفظ قلب بولتے ہیں اور اس سے انسان کی وہ جامعہ حقیقت مراد لیتے ہیں جو عالم امر سے ہے اور نبوت على صاحبها الصلوة والسلام کی زبان میں اس سے وہ مضغه مراد ہے جس کی درستی پر تمام بدن کی درستی وابستہ ہے اور جس کے بگڑنے پر تمام جسم کا بگاڑ موقوف ہے۔ جیسا کہ حدیث نبوی ع میں وارد ہے۔ أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا ‌صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ (انسان کے جسم میں ایک مضغہ ہے کہ جس وقت وہ درست ہو جائے تمام جسم درست ہو جاتا ہے اور جب وہ بگڑ جاۓ تمام جسم بگڑ جاتا ہے۔ خبردار اور وہ قلب ہے)

قلب کی وسعت اطلاق اول (حقیقت جامعہ)کو لازم ہے جس کے باعث بایزید وجنیدقدس سرہمانے قلب کی اور اس قدروسعت بیان کی ہے کہ عرش مافیہ کو قلب کی عظمت کے مقابلہ میں بہت ہی حقیر خیال کیا ہے اور قلب تنگی دوسری اطلاق (مضغہ)کو لازم ہے۔ اس مقام میں قلب کی تنگی اس طرح پر ہے کہ جز لایتجزی کو جو تمام اشیاء سے حقیر وصغیر ہے۔ اس میں کچھ گنجائش نہیں ۔ بعض اوقات کہ تنگی قلب کو جز لایتجزی(وہ جزء جس کا مزید جزء بننا ممکن نہ ہو) کے ساتھ نسبت دی جاتی ہے۔ وہ جز وحقیر نظر میں انسانوں اور زمین  کے طبقات کی مانند دکھائی دیتی ہے۔ یہ معاملہ نظر عقلی سے برتر ہے۔ (فَلَا تَكُنْ مِنَ ‌الْمُمْتَرِينَ کچھ شک نہ کر)

جب یہ مقدمہ معلوم ہو چکا تو پھر جاننا چاہئے کہ وہ ظہور جو حقیقت جامعہ سے وابستہ ہے۔ بے شک عرش کے ظہور تامہ کے مقابلہ میں ایک لمعہ(چمک) ہے اور کلی فضیلت اس مقام میں عرش ہی کو ہے اور بایزید اور جنید رحمہما اللہ تعالی نے جو قلب کوسب سے وسیع فرمایا ہے اور عرش و مافیہ کو اس کے پہلو میں بہت ہی حقیر خیال کیا ہے۔ یہ بات شے کو اس کے اپنے نمونہ کی مانند جاننے کی قسم ہے۔ انہوں نے عرش ومافیہ کے نمونے کو جامعیت قلب کے پہلو میں حقیر دیکھ کر اس کا حکم عرش و مافیہ کے حقائق پر کیا ہے۔ اس اشتباه کا باعث فقیر نے اپنی کتابوں میں اور رسالوں میں کئی جگہ لکھا ہے اور جو وہ حدیث قدسی میں آیا ہے۔ وہ انبیاء علیہ السلام کی زبان کے موافق ہے اور مراد اس قلب سے مضغہ ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ ظہور اتم اسی جگہ ہے اورذات مجردہ (غیر مادی)  کی احدیت کے مراتب اسی کے لیے مسلم ہیں۔ عرش کو اگر چہ ظہور تمام سے جو ظہور اصلی ہے، کامل حصہ ہے لیکن اس مقام میں صفات کی آمیزش ہے اور صفات چونکہ حقیقت میں حضرت ذات کے ظلال ہیں۔ اس لیے وہ ظہور ظلال کی آویزش سے پاک و صاف نہیں ہے۔ یہی باعث ہے کہ عرش کو اس ظہور انسانی سے جو اصل محض کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ کئی طرح امیدیں ہیں ۔ اس معاملہ کا مرکز وہی مضغہ ہے۔

 سوال:حدیث قدسی سے اس قلب کی وسعت مفہوم ہوتی ہے اور تو اس کوتنگ کہتا ہے۔ 

 جواب: تنگ اس اعتبار سے کہتے ہیں کہ اس میں ماسوا کی گنجائش نہیں اور وسیع اس اعتبار سے کہتے ہیں کہ اس پر انوار قدم کا ظہور ہوتا ہے۔ پس کوئی منافات و تناقص نہیں۔ اس فقیر نے اپنے بعض رسالوں میں اس قلب کی تعبیر اس عبارت سے کی ہے۔ الضيق الأوسع والبسيط الأبسط و الا قل الأكثر (اس میں تنگی بھی ہے وسعت بھی ہے،بسیط بھی ہے بسط بھی ہے اور کم بھی ہے زیادہ بھی ہے)

سوال:- فضیلت کے لائق حقیقت جامعہ ہے جو عالم امر سے ہے نہ کہ مضغہ جو عالم خلق سے ہے۔ اس عناصر کے مرکز نے یہ فضیلت کہاں سے پائی ہے۔ 

جواب :- عالم خلق کو عالم امر پردہ فضیلت ہے جسےعوام کیاخواص بھی نہیں سمجھ سکتے۔ اس مضمون کو فقیر نے ایک مکتوب (نمبر 260 دفتر اول)میں جو فرزند اعظم(محمد صادق) کے نام طریق کے بیان میں لکھا ہے۔ بخوبی واضح کیا ہے۔ اگرکچھ تردد ره جائے تو وہاں سے اطمینان کر لیں۔ 

اب ہم اس مضغہ کی حقیقت بیان کرتے ہیں۔ ذرا غور سے سنیں ۔ عوام کا وہ مضغہ ہے جو اربعہ عناصر کی ترکیب سے حاصل ہے اور خواص اور اخص خواص مضغہ اس قسم کا ہے جس نے سلوک و جذبہ اور تصفیہ و تزکیہ (رذائل سے پاک) اور قلب کے تمکین (سالک کا مطلوب حقیقی سے واصل ہونا)  اورنفس کے اطمینان کے بعد کہ الله تعالی کے محض فضل و کرم سے اجزاء عشرہ کی ترکیب سے صورتحال کی ہے یعنی چارجز وعناصر کے ہیں اور ایک جز نفس مطمئنہ کا اور پانچ جزو عالم امر کے۔ دونوں طرفوں کے اجزاء حالانکہ ایک دوسرے کی ضد اور ایک دوسرے کے مخالف ہیں لیکن حق تعالی کی قدرت کاملہ سے ان کی ضدیت اور مخالفت دور ہوگئی اور باہم جمع ہو گئے ہیں اورہئیت وحدانی پیدا کر کے اس عجو بہ کو حاصل کیا ہے۔ جزو اعظم اس معاملہ میں عنصر خاک ہے۔ اس ہیئت وحدانی(تمام لطائف اورجسم) نے بھی جزوارضی کا رنگ اختیار کر کےخاک کے ساتھ قرار پکڑا ہے۔ بیت 

خاک شو خاک تابر وید گل کہ بجز خاک نیست مظہر گل

ترجمہ: خاک ہو جاو تاکہ پھول کھلیں خاک ہی سے تو پھول کھلتا ہے

اے برادر ار باب ولایت کا ہاتھ ان علوم و معارف کے دامن تک نہیں پہنچ سکتا کیونکہ یہ انوار نبوت على صاحبها الصلوة والسلام کی مشکوة سے مقتبس ہیں۔ ۔ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ( یہ الله تعالی کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور الله تعالی بڑے فضل والا ہے۔)

وہ قلب جس کے اطمینان کے لیے حضرت خلیل الرحمن علے نبینا وعلیہ الصلوة والسلام نے سوال کیا تھا۔ یہی مضغہ ہے کیونکہ ان کی حقیقت جامعہ تمکین (سالک کا مطلوب حقیقی سے واصل ہونا)  تک پہنچ چکی تھی اورنفس مطمئنہ ہو چکا تھا اور یہ تمکیں و اطمینان مرتبہ ولایت میں متصور ہے جو نبوت کا زینہ ہے۔ شان نبوت کے مناسب مضغہ کی بیقراری اور اضطراب ہے نہ حقیقت جامعہ کی بیقراری و بے آرامی کہ یہ عوام کو بھی نصیب ہے اور حضرت رسالت خاتمیت علیہ الصلوة والسلام نے جو قلب کی ثابتی طلب فرمائی ہے اور کہا ہے يَا ‌مُقَلِّبَ ‌الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ وَطَاعَتِكَاے ولوں کے پھیرنے والے میرے دل کو اپنی طاعت پر ثابت رکھ) اس سے مقصود مضغہ کا ثابت ہے اور بعض احادیث میں جو امتوں کے احوال پر نظر کرنے کے باعث دل کی بیقراری کے بارہ میں وارد ہوئی ہے۔ اگر قلب کے وہ معنی مراد لیے جائیں جو حقیقت جامعہ اور مضغہ دونوں کو شامل ہوں تو بھی ہوسکتا ہے۔

 سوال:- یہ مضغہ جب “ يَسَعُنِي قَلْبُ عَبْدِي الْمُؤْمِنِ “ کے شرف سے مشرف ہو چکا اور حضرت ذات تعالی کا آئینہ بننے کے لائق ہو چکا ہو تو پھر اس میں اضطراب و بے قراری کیوں ہو اور اطمینان کامحتاج کیوں ہو۔

جواب:۔ ظہور جس قدر اتم واکمل ہوتا جاتا ہے اور شیون وصفات کی آمیزش سے صاف ہوتا جاتا ہے۔ اسی قدر جہل و حیرت پیدا کرتا جاتا ہے اور بیگانگی اور نایافت زیادہ تر حاصل ہوتی جاتی ہے۔ بسا اوقات اس ظہور اور اس گنجائش کے باوجود کمال جہل و حیرت سے صانع کے وجود پر دلیل طلب کرتا ہے اور عوام کی طرح استدلال وتقلید کے بغیر اس کو وجود صانع کا یقین حاصل نہیں ہوتا۔ اس صورت میں اضطراب و بے قراری اس کے حال کے مناسب ہے اور اطمینان کا طلب کرنا اس کے لئے ضروری ہے۔ 

اس فقیر نے اپنے بعض رسالوں میں لکھا ہے کہ عارف صاحب یقین کو رجوع کے بعد استدلال کی حاجت ہوتی ہے۔ اس مقام میں معلوم ہوا ہے کہ عین وصول اور حصول میں دلیل کی احتیاج ہے۔ یہ مقام مرتب نبوت کے کمالات کے موافق ہے اور وہ مقام مرتبہ ولایت کے حال کے مناسب۔ جب اس قلب کا صاحب دعوت کی طرف رجوع کرتا ہے تو اس کے دل کا قلق واضطراب اور تغیر وتبد یل زیادہ ہو جاتا ہے۔ جب عین صل میں جہل و حیرت کے باعث  دلیل کا محتاج ہے تو جدائی کے زمانہ میں بطریق اولے استدلال کامحتاج ہو گا تا کہ استدلال کے ذریعے کچھ اطمینان حاصل کرے بلکہ ہم کہتے ہیں کہ وہ دولت جسم کو چند روز کے لیے اپنے دوست سے پوشیدہ رکھا ہے اور داغ فرقت میں مبتلا کیا ہے، اس کے واسطے مناسب ہے کہ ہمیشہ قلب و اضطراب اور دائمی غم و اندوہ میں رہے۔ انَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ ‌مُتَواصِلَ ‌الأَحْزَانِ، دَائِمَ الْفِكْرَةِ رسول الله ﷺہمیشہ غمناک اور متفکر رہتے تھے ) اب وہ وجوہ جو قلب کے ان دونوں اطلاقوں(حقیقت جامعہ قلبیہ،مضغہ لحمیہ) کے درمیان فرق ظاہر کرتے ہیں، بیان کیے جاتے ہیں۔ گوش ہوش سے سننے چاہئیں۔

 وجہ اول: حقیقت جامعہ جو عالم امرسے ہے، تصفیہ اور تزکیہ (رذائل سے پاک) کے بعد اس کو تمکین (سالک کا مطلوب حقیقی سے واصل ہونا)  تام ودائمی طور پر میسر ہے۔ برخلاف مضغہ کے کہ اس کا اطمینان حواس کے ادراک پر وابستہ ہے۔ جب تک کسی شے کو جو اس کے ساتھ ادراک نہ کر لے، اس کا قلق نہیں جاتا۔ اسی واسطے حضرت خلیل الرحمن علی نبینا وعلیہ الصلوة والسلام و على جميع الانبياء والمرسلين والملائکۃ المقربین میں نے اپنے قلب کے اطمینان کے لیے سوال کیا اور کہا۔ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِ ‌الْمَوْتَى یاللہ تو مجھے دکھا کہ کس طرح مردوں کو زندہ کرتا ہے

 وجہ دوم: حقیقت جامعہ فکر کے ساتھ متاثر ہو جاتی ہے اور جب کمال ذکر تک پہنچ جاتی ہے تو ذکر سے متحد اور اس کی ہم جنس ہو جاتی ہے۔ اس مقام کو صاحب عوارف قدس سرہ(شیخ شہاب الدین سہروردی) نے روشن تر کہا ہے اور ذکر ذات کے ساتھ قلب کے اس ہم رنگ ہونے کو اس سے تعبیر کیا ہے۔ برخلاف مضغہ کے کہ ذکر کو اس کی طرف راہ ہیں۔ پھر اس کا متاثر ہونا کجا اور ہم جنس ہونا کجا۔ مضغہ میں مذکور کا ظہور اصالت کے طور پر ہے نہ کہ ظلیت کے طور پر اور ذکر کا عروج مذکور کی دہلیز تک ہی ہے۔

سوم: حقیقت جامعہ جب نہایت النہایت تک جاتی ہے اور مراتیت سے حظ وافر (پورا پورا حصہ)  حاصل کر لیتی ہے تو اس وقت اگر مطلوب کو نمایاں کرنا چاہے تو اس میں مطلوب کاظل ظاہر ہوگا نہ کہ اس  کا عین ۔ جیسے کہ آئینہ میں شخص کا نمونہ ظاہر ہے نہ کہ شخض کا عین۔ برخلاف مضغہ کے کہ آئینہ کے برعکس اس میں مطلوب کا عین ظاہر ہے۔ نہ کہ اس کاظل ۔ اسی واسطے فر مایا یَسَعُنِي قَلْبُ عَبْدِي الْمُؤْمِنِ یہ معاملہ نظر و فکر کے طور سے وراء الورا ہے۔ اس بیان سے کہیں حلول و  تمکین (سالک کا مطلوب حقیقی سے واصل ہونا)  نہ سمجھ لینا کہ یہ کفر زندقہ ہے۔ اگر چہ عقل معاش باور نہیں کرتی کہ ایک شے کا عین دوسری شے میں ظاہر ہو اور حلول وتمکین نہ ہو۔ یہ عقل کا قصور ہے اور حاضر پر غائب کا قیا  س ہے۔ (فَلَا تَكُنْ مِنَ ‌الْقَاصِرِِينَ تم کوتاہ بین نہ ہو جاؤ)

. وجہ چہارم : حقیقت جامعہ عالم امرسے ہے اور مضغہ عالم خلق سے بلکہ عالم خلق اور عالم امر دونوں اس کے اجزاء ہیں  خلق اس کا بڑا جزو ہے اور امر اس کا چھوٹا جزو۔ ان دونوں اجزاء کے ملنے سے ایک ایسی ہئیت وحدانی موجود ہو گئی ہے جوعجو بہ روزگار بن گئی ہے۔ یہ عجوبہ اگرچہ عالم امر و عالم خلق سے ہے لیکن ہبیت ترکیبی کے باعث ان میں سے کسی کے ساتھ مناسب و مشابہت نہیں رکھتا مگر اس کو عالم خلق ہی گنتے ہیں کیونکہ اس معاملہ میں سب سے عمدہ اور بہتر جز ارضی ہے اور خاک کی پستی اس کی بلندی کا باعث ہے۔ 

و پنجم : حقیقت جامعہ کی وسعت اس اعتبار سے ہے کہ اس میں اشیاء کی صورتوں کا ظہورہے اور مضغہ کی وسعت جو اس کی تنگی کے بعد مکشوف ہوتی ہے، اس اعتبار سے ہے . لامحدود اورلامتناہی مطلوب کی اس میں گنجائش ہے اور وہ تنگی اس کی دہلیز تک کی ہے جو ماسوا کو وہاں داخل ہونے نہیں دیتی۔ حتی کہ ذکر کو بھی مذکور کے خیموں کے گرد نہیں آنے دیتی اور ظلیت کی آمیزش کو اس حریم مقدس کے گرد پھٹکنے نہیں دیتی۔ 

وجہ ششم: حقیقت جامعہ کی فراخی چونکہ چون کی آمیزش رکھتی ہے۔ اس لیے اس میں بیچون کی گنجائش نہیں اور مضغہ کی فراخی نے چونکہ بے چونی سے حصہ پایا ہے، اس لیے اس میں چون کی گنجائش نہیں۔ عجب معاملہ ہے اسی قلب پر دعوت کے لیے رجوع کرنے کے بعد ظلمت وغین طاری ہو جاتی ہے۔ اسی واسطے حضرت سید البشر علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ إِنَّهُ ‌لَيُغَانُ عَلَى قَلْبِي (یعنی میرے قلب پر بھی پردہ ڈالا جاتا ہے اس سے زیادہ کس قدر فرق بیان کیا جائے۔ مالتراب ورب الأرباب  چہ نسبت خاک را با عالم پاک

اے برادر تو اس مضغہ کوایک بے اعتبار گوشت کا ٹکڑا نہ خیال کر لے بلکہ ہر وہ جوہرنفیس ہے جس میں عالم خلق کے خزائن و اسرار پوشیدہ ہیں اور عالم امر کے دفینے اور خفیہ دقائق مدفون ہیں۔ معاملات خاصہ کی زیادتی جو ہیئت وحدانی(تمام لطائف اورجسم) سے وابستہ ہے۔ یہ ہے کہ اول اس کے اجزا عشرہ و تصفیه و تزکیہ (رذائل سے پاک) اور جذ بہ وسلوک اور فناو بقا کے ساتھ پاک و صاف کیا ہے اور ماسواکے  تعلقات کی آلودگی سے آزاد کیا ہے۔ مثلا قلب کوتقلب يعنی تغیر سے گزار کرتمکین تک اورنفس کو امارگی سے اطمینان تک لے آئے اور جز و آتشی سے سرکشی اور نافرمانی کو دور کیا اور خاک کو پستی اور پست فطرتی سے بلند کیا ۔ علی ہذا القیاس اس کے تمام اجزاء کو افراط و تفریط سے ہٹا کر حد اعتدال وتوسط پرلائے ہیں۔ بعد ازاں محض فضل وکرم کے ساتھ ان اجزاء کو مرکب کر کے شخص معین بنایا ہے اور اس کا نام انسان کامل رکھا ہے اور اس کے قلب کو جو اس کا خلاصہ اور اس کے وجود کا مرکز ہے۔ مضغہ کے ساتھ تعبیر کیا ہے۔ یہ ہے مضغہ کی حقیقت جو عبارت کے انداز کے موافق بیان کی گئی ہے۔ والأمر إلى الله سبحانه  حقیقت حال الله تعالی ہی کو معلوم ہے۔

اگر کوئی ناقص کہے کہ ہر ایک انسان ان اجزاء عشرہ سے مرکب ہے اور انہی کی ترکیب سے ہیئت وحدانی(تمام لطائف اورجسم) رکھتا ہے تو میں کہتا ہوں کہ ہاں انہی اجزاء سے مرکب ہے لیکن وہ اجزاء پاک و صاف نہیں ہوئے اور جذبہ سلوک کے ساتھ ماسوا کے تعلقات کی آلائش سے آزادنہیں ہوئے۔ برخلاف انسان کامل کے اجزاء کے جوفنا و بقا سے پاک و صاف ہوگئے ہوتے ہیں، جیسے کہ اوپر گزر چکا ہے۔ 

چونکہ ہر ایک انسان میں یہ اجزاء ایک دوسرے سے علیحدہ علیحدہ ہیں اور ہر جزو کے احکام واحوال الگ ہیں ، اس لیے ہیئت وحدانی ان کے نصیب نہیں اور اگر کچھ ہیئت پیدا کی ہے تو وہ اعتباری ہے، حقیقی نہیں۔ برخلاف انسان کامل کے اجزاء کے جوتمائز اور تبائین سے نکل کر ایک دوسرے سے مل جل گئے ہیں اور ان کے مختلفہ احکام و احوال زائل ہو کر ایک ہی حکم میں پاگئے ہیں۔ پس ناچار اس میں ہیئت وحدانی(تمام لطائف اورجسم)  حقیقی ہوگی نہ کہ اعتباری جس طرح معجون کو مختلف ادویہ سے درست کرتے ہیں اور سب اجزاء کو باریک پیس کر ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر ہیئت وحدانی(تمام لطائف اورجسم) ثابت کرتے ہیں اور اس کے مختلف احکام کو ایک ہی حکم میں لے آتے ہیں۔فافهم والله سبحانه أعلم. 

اے برادر، یہ سب کمالات جو مضغہ کے لیے ثابت ہیں، مقام قاب قوسین میں ہیں۔ جہاں ظاہر میں مظہر کے رنگ کا وہم پایا جاتا ہے۔ اگر چہ ظاہر اس جگہ اصل ہے۔ اس کاظل یا صورت نہیں لیکن شخص ظاہر آ ئینہ کے رنگ سے پاک و مبرا نہیں۔ پس قوسین ثابت ہوں گے۔ اس مقام سے اعلی مقامّّ اوادنی ٗٗہے جہاں ظاہر نے مظہر کا رنگ اختیارنہیں کیا اور کوئی امرزائد خیال میں نہیں آتا۔ پس قوسین اس جگہ مفقود ہوں گے۔ یہاں سوائے یک رنگی کے جو مقام او ادنی کے مناسب ہے۔کچھ متصور نہیں ۔ اس مقام کا معاملہ علیحدہ ہے۔ اگر تمام ورق کو الٹائیں    تو پھر قوسین سے ادنی تک رخت اٹھا کر لے جا سکتے ہیں۔ کلامنا إشارات ورموز وبشارات وکنوز (ہماری کلام اشارات و رموز و بشارات وکنوز ہوتی ہے) واللہ سبحنہ الملهم (اللہ تعالی ہی الہام کرنے والا ہے ) وصلى الله تعالى على نبينا محمد ونه وصحبه وسلم وبارک

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ71 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں