حسن ملاحت اور حسن صباحت مکتوب نمبر97دفتر دوم

 ایک سوال کے جواب میں جس میں اسی دفتر کے چھٹے مکتوب کاحل طلب کیا گیا تھا۔  

خواجہ ہاشم کشمی کی طرف صادر فرمایا ہے:۔ 

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (الله تعالیٰ  کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو) آپ نے پوچھا تھا کہ اس عبارت کے کیا معنی ہیں جو چھٹے مکتوب(دفتر دوم) میں واقع ہے کہ میں خیال کرتا ہوں کہ میری پیدائش سے مقصود یہ ہے کہ ولایت محمدی ﷺ ولایت ابرا ہیمی علیہ الصلوة والسلام کے رنگ میں رنگی جائے اور ولایت محمدیﷺ کا حسن ملاحت ولایت ابرا ہیمی کے جمال صباحت کیساتھ مل جائے اور اس انصباغ و امتزاج سےمحبو بیت محمدیہ کا مقام درجہ بلندی تک بن جائے۔ 

آپ کو واضح ہو کہ دلالگی(رہنمائی کرنا) اور مشاطگی(آرائش کرنا) کا منصب کسی طرح ممنوع ومحضور نہیں ہے۔ دلالہ جو اپنی دلالت کی خوبی سے دو صاحب جمال و کمال محبوب کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا دے اور ایک کے حسن کو دوسرے کے حسن کے ساتھ خلط ملط کر دے تو اس کی کمال خدمتگاری ہے اور اس میں اس کی اپنی شرافت و سعادت ہے ان دونوں صاحب جمال کے شان میں کسی قسم کا نقص وقصور لازم نہیں آتا۔ اسی طرح اگر مشاطگی کر کے ان دونوں صاحب کمال کے حسن و جمال کو بڑھانے اور زیادہ طراوت وزینت پیدا کردے۔ تو اس کی شرافت و سعادت ہے ان میں کسی قسم کا نقص و قصورلازم نہیں آتا۔

 ازاں طرف نپذ یرد کمال تو نقصاں وزیں طرف شرف روزگار من باشد 

ترجمہ: تیرے کمال میں سے ایک ذرہ کم نہ ہوگا لیکن میری سعادت ہو جائیگی دو بالا

 غرض وہ انتفاع واستفاده جوصاحب دولتوں کو غلاموں اور خادموں کی جہت سے میسر ہوتا ہے۔ کوئی ممنوع ومحذور نہیں اور نہ ہی اس میں ان کا کسی قسم کا قصور نقصان ہے۔ بلکہ صاحب دولتوں کا کمال غلاموں اور خادموں کی خدمت ہی میں ہے۔ وہ شیخ بہت ہی بے نصیب ہے جو اپنے خادموں سے فائدہ اور نفع حاصل نہ کرے۔ ہاں ہم رتبه شخصوں سے نفع اور فائدہ طلب کرنا نقصان کا موجب ہے اورہمسروں سے استمد ادو استفادہ کرنا سراسر قصور ہے۔ 

الله تعالیٰ  فرماتا ہے۔  يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ ‌حَسْبُكَ اللَّهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ یا رسول اللہ  تجھے اللہ تعالی  اور تابعدار مومن کافی ہیں)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا ہے کہ اس آیت کریمہ کےنزول کا سبب حضرت فاروق رضی اللہ عنہ کا اسلام ہے۔ یہ بات بدیہی اور ظاہر ہے کہ ادنے اور کم درجہ والے لوگوں کی خدمت سے بزرگوں اور اعلے درجہ والے لوگوں کا مرتبہ زیادہ ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص اس ظاہر اور بدیہی امر کو معلوم نہ کر سکے تو عبارت کا کیا قصور ہے۔ بادشاہ اور امیر اپنی شان و شوکت وسلطنت میں خادموں اور نوکروں چاکروں کے محتاج ہیں اور اپنے کمال کو انہی پر موقوف جانتے ہیں اور اس امر سے کوئی قصورو نقصان ان کے مرتبہ میں نہیں آتا۔ چنانچہ ہر ایک ادنے واعلے اس امر کو جانتا ہے۔ اس اشتباه کا باعث یہ ہے کہ اس انتفاع و تمتع کے (جوادنےٰ کی طرف سے آتا ہے) اور اس انتفاع تمتع کے (جواعلیٰ کی طرف حاصل ہوتا ہے)۔ درمیان فرق نہیں کر سکتے اور جب ظاہر ہو چکا کہ اول سے کمال بڑھتا ہے اور دوسرے سے نقصان پیدا ہوتا ہے تو اول جائز ہوگا اور دوسراممتنع وَاللَّهُ ‌سُبْحَانَهُ الْمُلْهَمُ ‌الصَّوَابَ اللہ تعالیٰ  بہتری کا الہام کرنے والا ہے۔ 

رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا (یا اللہ تو اپنے پاس سے ہم پر رحمت نازل فرما اور ہمارے کام سے ہدایت و بھلائی ہمارے نصیب کر) وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى (سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایت اختیار کی )

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ318ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں