رسالہ قدسیہ خواجہ محمد پارسا

بے حد و حساب حمدوثناء اور بے انداز وقیاس شکر و سپاس اس بادشاہ  جل ذکرہ کے لئے زیبا ہے کہ جس کے طالبانِ وصال اور مشتاقانِ جمال اس کی ذات اور وجود کی دلیل ہے اور اس کے شہود کی دلیل اسی کا شہود ہے

تو بدو بشناس او را نہ بہ خود               راه از و خیزد بدو نہ از خرد

اس کی معرفت تو اس کی ذات سے ہو سکتی ہے اپنے آپ سے اس کی شناخت کرنے کی کوشش نہ کرو اس کا راستہ تو اسی سے ملتا ہے عقل خرد سے نہیں ملتا

تلطفت باولیائک  نعرفوک  ولو تلطفت باعدائک  لما سجدوک

اور بلند مرتبہ درود پاک اور تواتر کے ساتھ صلاۃ و سلام حضرت سیدیﷺ فدا ہ امی وابی کو پہنچے یہ تمام انبیاء کے سچے پیشوا اور تمام اصفیا کے رہنمائے مطلق ہیں خواجہ کونین وسلطان ہمہ    آفتاب جان  وایمان ہمہ

وہ دو جہاں کے شہنشاہ ہیں اور تمام لوگوں کے سلطان ہیں اور ہمارے ایمان اور جان کے آفتاب ہیں ۔

آپ کے آل و اصحاب خلفاء اور احباب کے ساتھ ساتھ آپ کے محبان اور متابعان  کے لئے بھی درود ہو اجمعین الی یوم الدین۔

 اما بعد یہ چند کلمات انفاس نفیسہ اور الفاظ متبرکہ حضرت گرامی قدر جناب شاہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیے جا رہے ہیں آپ کی ذات والا صفات ارشاد و ہدایت کی مسند کی صدر نشین ہے ولایت کے خصائص اور تعریفات کی جامع ہے آپ زمانے کے  ملاذی(پناہگاہ) و ماوا ہیں ۔

اہل حقیقت و عرفان کے قطب ہیں صفات ربانی کے مظہر ہیں اور اخلاق سبحانی کے مورد (وارد ہونے کی جگہ)ہیں ۔

گشت بے کبریا وریاء وکینہ   روح قدسی ازرخش آئینہ

اے لقائے تو جوابِ ہر سوال        مشکل از تو حل شود بے قیل و قال

  میرے محبوب! تیرا دیدار ہی ہر سوال کا جواب ہے اور میری ہر مشکل کا گرہ قیل و قال کے بغیر کھل جاتا ہے۔

وعلى تفنن واصفيه بحسنه  ‌يفنى ‌الزمان وفيه ما لم يوصف

اردت له قدحا  فما من فضیلۃ تاملت الا جل  عنھا و قلت

یعنی اعلیحضرت قدوۃ العارفین محققین کی آنکھوں کا نور انبیاء و مرسلین کے وارث شیخنا و سیدنا شیخ بہاؤ الحق و الدین محمد بن محمد البخاری المعروف بہ نقشبند قدس اللہ تعالی روحہ و طیب مشید ہ ونور خدیجہ  ونفعنابمحبتہ والا قتداء بسیرتہ۔

یہ آپ کے لطائف ومعارف کے بعض ارشادات ہیں جو آپ کی مجالس میں بعض اقوال کی صورت میں سامنے آرہے ہیں اور صحبت علی الدوام فی اللیالی والایام آپ کی زبان مبارک سے بیان ہوتے رہے ہیں  بندہ ضعیف (مؤلف) محمد بن محمد الحافظ البخاری وفقہ ٰ اللہ  تعالی سبحانہ  لما یحبہ ویرضاہ۔ ان کلمات قدسیہ میں بعض اقوال کو ازراہ صدق و ارادت اور برائے  برکت وتیمن ضبط تحریر میں لا تارہا ہے آپ اپنے عزیز احباب کے حکم اور اشارہ (متعنا اللہ تعالی بلقایہم  وادام  بر کات بقایہم )پر  ان پاکیزہ کلمات میں چند ایک کو تبرکا احاطہ  تحریر میں لا رہا  ہے تاکہ مخلصانِ خاص اور طالبان صادق ان کلمات طیبات کو گوش گزار کر سکیں آپ کو یوں محسوس ہوگا گویا آپ حضرت کی مجلس میں شرف باریابی پاکر بذات خود یہ باتیں سن رہے ہیں آپ کے احوال و مقامات شریف کا اور کرامات و آثار عجیبہ کا تذکرہ اول سے آخر تک اکثر بیان  میں آچکا ہے ان میں سے اکثر و بیشتر حالات نوکِ زبان خواص ہیں اگرچہ اس وقت قلب و روح اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ احو ا ل طیبہ کے گلستان کی نسیم جانفزا طالبان صادق کے مشام دل و جاں کو معطر کرے اور دلوں اور جانوں کو اس سے راحت ملے اور موجب عندہ ذکر الصالحین تنزل الرحمہ  نیک لوگوں کے تذکرے سے رحمت خداوندی نازل ہوتی ہے اس تذکرہ سے فضل خداوندی حاصل کرنے کی امید اور رحمت الہی اور اس کے فیض نامتناہی کے نزول کی آرزو ہے لیکن اس وقت ہم نہایت اختصار سے بیان کریں گے

خموش وزیر زباں خم کن تو باقی را             کہ نیست درخور آن گشت عقل سودائی

خموش وزیر زباں ختم کن تو باقی را             که ہست بر توکل غیور لا لا ي

حقیقت ہے کہ اس طائفہ مبارکہ کی باتیں ذوق و وجد پیدا کرتی ہیں۔ اور ان کےحفظ واذ کار سے حقیقت کا علم ہوتا ہے۔ اہل بصیرت فرماتے ہیں : فقہ اللہ اکبر برہانہ الاظہر

یعنی  اہل بصیرت کو جویقین ان بزرگان دین کی باتوں میں غور کرنے سے حاصل ہوتا ہے ۔ وہ نہایت قوی اور اعلی ہوتا ہے۔ یہ یقین خوارق عادات یا کرامات کے مشاہدےسے ہی حاصل ہوتا ہے۔ اسی لیےفرمایا

موجب ایمان نباشد معجزات بوئےجنسیت کند جذب صفات

معجزات از بہرقہر دشمنت بوئے جنسیت پے دل بردن است

چونکہ اس طائفہ  عالیہ کی باتیں کلام الہی کا پرتو ہوتی ہیں۔ اس لیے ان کی پوری کیفیت اور صفت کو بیان نہیں کیا جاسکتا ۔اکابر میں سے ایک نے فرمایا : الحمدلله الذي جعل الإنسان الكامل معلم الملک و ارادتشریفاوتنزيابانفاسه الفلك

یعنی اس اللہ کو تمام تعریفیں ہیں جس نے انسان کامل کو معلم ملکوت بنایا اوراسے خلعت شرف وکمال سے نوازا۔

اس کے باوجو دبعض منکرین نے قرآن پاک کو اساطیر الاولین کہا ہے ۔ اور پھر يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا  انہیں لوگوں کے لیے کہا گیا ہے ۔ چنانچہ  اس طائفہ کی باتیں ایسی ہیں  جیسے كَالنِّيلِ مَاءً ‌لِلْمَحْبُوبِينَ وَدَمًا لِلْمَحْجُوبِينَ اہل محبت کے لیے نیل مصر کے پانی کی طرح ہیں مگر بے گانہ محبت کے لیے تو ایک مصیبت ہیں۔

ہرکس افسانه بخواند افسانه است         و انگه د یدش نقد خود مردانه است

آب نیل است و به قبطی خون نمود       قوم موسی رانہ خون بود آب بود

دشمن این صرف و این دم در نظر        شدمثل سرنگوں اندر سفر

گر تو مرد راز جوئی راز جو  جان فشان و خوں گیری و باز جو

جو شخص افسانہ پڑھتا ہے۔ اس کے سامنے ایک  قصہ نظر آتا ہے مگرجو شخص اپنی ذات میں غور کرتا ہے وہ مرد کامل بن جاتا ہے۔ دریائے نیل کا پانی فرعونیوں کو خون نظر آیا تھا لیکن یہی خونی دریا حضرت موسی کی قوم کے لیے پانی تھا۔ ان کلمات کے مخالفین ظاہری نظر آتے ہیں مگر ایسے لوگ ہی جہنم کا ایندھن بنتے ہیں۔ اگر آپ مرد ہیں تو را ز کی تلاش کرو ۔ جانفشانی کرو جگرسوزی کرو. اور اللہ کو پالو۔

دل کو علائق وعوائق اور مشاغل دنیا سے پاک و صاف کرنے کے بعد تھوڑا سا غور کیا جائے تو آپ کی باتوں کے ظاہری معانی سمجھ میں آنے لگتے ہیں۔ اوراسی سمجھ سے حقیقی معافی کا انکشاف ہو جاتا ہے، اور حال حقیقت حاصل ہو جاتا ہے ۔

کیونکہ اس طائفہ اہل اللہ کی باتیں علم وراثت کے عالم سے آتی ہیں۔ یہ ظاہری علوم سے حاصل نہیں ہوتیں۔ ان کا بیان اس طریقہ پر ہوتا ہے کہ جس قدر اس طریقہ پر سے علم کی زبان یا علم کی عبارت کی زبان سے کام لیاجائے ۔ یہاں تو ذوق کی زبان اور اشارات کے نشان سے کام لیا جاتا ہے جب تک حقیقت حال کی شرح اس کے کانوں تک نہ پہنچی ہو۔ وہ کچھ نہیں کہہ سکتا۔

وماقدر الله حق قدرہ  ومازادبیانهم عند سكرة فان الاعراب عندبغيرذ ائقةسترة والاظهاربغيرو اجدة إخفاء

کہنے والوں کا مقصد بجز اس کے اور کچھ نہیں تھا کہ ذوق اور شوق میں اضافہ کر لیا جائے کیونکہ اس قسم کی باتیں طالبان حق کی طلب کو قوت دیتی ہیں ۔ ادران کی ہمت میں اضاف کرتی ہیں۔ اگر کسی کے دماغ میں تکبر کی بو ہوتی ہے۔ تو اسے ختم کر دیا جاتا ہے۔ وہ دوسروں کو اپنے آپ سے بہتر محسوس کرنے لگتا ہے۔ اور اپنے افلاس اور تہی دستی کو دیکھنے پر آمادہ ہوتا ہے بعض مشائخ رحمہم اللہ نے کیا خوب فرمایا۔

لا مزن الخلق بميزانك وزن نفسك بميزان الصديقين لتعلم فضلھم  وافلاسك

ر مخلوق کو اپنے میزان سے نہ تولا کرو بلکہ اپنے آپ کو صدیقین کے میزان اور پیمانہ سے تولا کرو تاکہ تمہیں ان کی فضیلت اور اپنے افلاس کا علم ہوجائے ۔

شیخ شہید مجدالدین بغدادی قدس سره  دعا کیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے ‘ اے اللہ تیراکوئی کام کسی علت کامحتاج نہیں مجھے اس قوم سے بنا ،یامجھے ان لوگوں کو دیکھنے والوں سے ہی بنا۔ میں کسی دوسری قسم کی ہمت اور طاقت نہیں رکھتا۔

گرنیم مرغان ره را ہیچ کسٍ      ذکر ایشان کرد ہ  ام اینم ز بس

گر نیم زیشان از ایشان گفته ام خوش دلم  کیں قصازجاں گفته ام

شیخ امام عارف ربانی ابو یعقوب یوسف بن ایوب صمدانی رحمۃ اللہ علیہ کو لوگوں نے پوچھا یا حضرت جب اہل اللہ ہم سے روپوش ہوجاتے ہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہیے تاکہ ہم سلامت رہ سکیں آپ نے فرمایا ان کی باتیں دہراتے رہو۔ صدیقوں میں سے ایک نے کہا تھا کہ کاش کوئی ایسا شخص ملے جوبندگان خدا کی باتیں کرتا جائے اور میں سنتا جاؤں یا میں سناتا جاؤں اور وہ سنتار ہے۔ اگر جنت میں اہل اللہ کے متعلق گفتگو نہیں ہو گی تو تمہیں جنت سے کیا کام جذرات مواجیہ کا اقتباس تو انہیں کے انفاس طیبہ سے ہو سکتا ہے۔ وَمَنْ أَحْسَنُ ‌قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا

گر ندارم از شکر جز نام بہر ایں بسے بہتر کہ اندر کام زہر

 آخرم زان کارواں گردے رسد قسم من زاں رفتگاں در وے رسد

نطقها نسبت با وقشر است لیک پیش دیگر فکر ہا مغز است نیک

آسمان نسبت به عرش آمد فرودورنہ بس عالیست پیش خاک شود

یہ کلمات قدسیہ اگر چہ کم الفاظ میں ادا ہو رہے ہیں مگربڑے وسیع معانی کے حامل ہیں والقليل تدل على الكثير والجرعة تنبئ عن البحر القدير

تھوڑی چیز بڑی چیز کی دلالت کرتی ہے۔ اور ایک گھونٹ بحر بے کراں کا پتہ دیتاہے ۔ قدوۃ الکبار شیخ بزرگوارشیخ ابوعبدالرحمن سلمی نیشاپوری قدس سره نے جو حقائق تفسیر اور طبقات مشائخ جیسی معروف کتابوں کے مصنف ہیں طبقات مشائخ میں ایک ایک بزرگ کے بیس بیس اقوال بیان کیے ہیں ۔ اور انہیں اقوال کو صاحب نظر اور اہل بینش و دانش حضرات نے سامنے رکھا۔ یہ اقوال ان مشائخ کی سیرت طیبہ سلسلہ طریقت اور ان کے علوم واحوال پر روشنی ڈالتے ہیں ان اقوال میں بعض علوم ومعارف ایقان (جن پران مشائخ کے سلوک اور سیرت کی اساس ہے) کا ذکر کیا ہے۔ ولنا فيه أسوة حسنة في تقليل الكلام مع الدلالة على المرام

در نیابد حال پخته ہیچ خام پس سخن کوتاه باید و السلام

اگر ان کلمات قدسیہ کی بعض مقامات پر مختصرسی شرح کی خدمت پڑے تو بہتر ہے کہ اس شرح کواہل اللہ کے پاکیزہ کلمات او رملفوظات کی استمداد و استعانت سے ہی کیا جائے فان الكلام المشائخ يفسربعضه بعضاً

اس شرح و متن کی تمیزیوں کی جائے کہ متن کو خط کشیدہ الفاظ میں بیان کیا جائے۔

 جمله معشوق است و عاشق پرده زندہ معشوق است و عاشق مرده

یہ ضعیف اپنے اندر یہ قوت نہیں پاتا کہ بذات خود اس عمل پر اقدام کرے۔ مگر قد وہ اہل اللہ صفوت اصحاب الانتباه . سند ارباب الطریقت موضح رموز اہل حقیقت ۔ اسوہ طلاب الیقین۔ خواجہ علاؤ الحق والدین محمد بن محمد بن البخاری المشتہر بہ عطاراطال اللہ مدت الحیوۃ وافاض على المسترشدین انوار بر کاتیہ کے حکم سے اشارہ پاکر اس مختصر سے وقت میں مشرحوں کی املاکر نامناسب خیال کرتا ہے۔

اگر ان کی امداد روحانی اور نگاہ قبولیت شامل حال رہی تو کامیاب رہوں گا ۔

این سخن را چوں تومبدا بو ده گرفزوں گردد تواش افزوده

 دیده غیبت چوں غیب است اوستا دکم مبادا از جہاں ایں دید و داد

 شرح توحیف است با اہل جہاں  ہمچوراز عشق دارم در نہاں

لیک گفتم وصف توتاره برند پیش ازان کز فوت آن حسدت خورند

ہوسکتا ہے ۔ کہ شرح بیان کرتے وقت یا املا کے وقت اس مقصد حنیف کا وجو د درمیان میں نہ آئے۔ یہ تالیف اور تصنیف ان صاحب نظر بزرگان دین کی دعوات صالحہ کا ثمرہ ہو۔ اور یہی درجات کی بلندی اور قربت کا ذریعہ ہے و بہ سبحانه الحول والقوة –

كلمات القدسيہ

مسلمانی اور احکام کا نفاذ ،تقوی کی رعایت عمل میں عزیمت ۔ اور حتی المقد و ررخصتوں (یارعایتوں سے دور رہنا تمام نور صفا اور رحمت ہیں اور ولایت کے درجات کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ ان صفات کی پرورش سے ہی اولیاء اللہ کے مقامات اور منازل تک رسائی ہوسکتی ہے ۔

شرح

 ہمارے خواجہ قدس سرہ نے مندرجہ بالا کلمات میں جو کچھ فرمایا ہے۔ اس میں اس قول کی طرف اشارہ ہے۔ جو آپ کو اپنے حضرت خواجہ بزرگ خواجہ عبد الخالق غجدوانی قدس اللہ روحہ سے سنا ہے ۔ اور مشاہد ہ اور خواب میں یہ اشارات پائے ہیں ہمارے خواجہ قدس اللہ روحہ نے خواب میں یوں دیکھا کہ آپ کے احوال کے ابتدائے کار اور غلبہ جذبات کے دوران میں مزارات مقدسہ میں سے تین مزارات پر پہنچے۔ ان مزارات میں آپ نے  جذب کی کیفیت محسوس کی۔ پہلامزارتوبخارا کے نواح میں ہے جو حضرت خواجہ محمد واسع  رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے ۔ آپ تبع تابعین میں سے ایک معروف بزرگ تھے۔ آپ کا بلاد ما وراء النہر میں تشریف لانامستند روایات سے ثابت ہے۔

خواجہ بزرگ خواجہ عبدالخالق غجدوانی نے ہمارے خواجہ قدس اللہ روحہماکوخواب میں یہ حکم فرمایا کہ اہل عز یمت میں قدم رکھو  اوررخصتوں سے دور رہنے کی کوشش کرد . اور متابعت سنت نبوی کرتےر ہو۔ بدعتوں سے پرہیز کرو۔ اس کے علا وہ آپ نے وہ ارشادات فرمائے جو سلوک کی ابتدائی وسطی اور انتہائی ادوار سے تعلق رکھتے ہیں اور اللہ تعالی کی مہربانی سےہر عمل اور وصیت کے بہترین نتائج دیکھے ہیں۔

اگر چہ آپ عزمیت پر گامزن رہنے پر مامور تھے مگر آپ نے اس بات کو کبھی ظاہر نہیں ہونے دیا تاہم آپ ان اعمال اور وصیت پر عمل کرنے کی وجہ سے اپنے باطنی احوال میں ترقی کی رفتار کو مشاہدہ کرتے رہے ۔اس واقعہ کی تشریح اور اس خواب کی تفصیل احوال عجیبہ اور کرامات کی صورت میں آپ کے مختلف مقامات پر ظاہر ہوتی رہی ہے ۔ان حالات اور مشاہدات کے اثرات کو آپ کے مخلص اور عزیز احباب  نے جمع کر کے تالیف وتصنیف کی شکل میں پیش کی ہے متعنا الله بلقائهم وايدھم  واواهم انشاء اللہ یہ حالات اکمل و اجمل صورت میں سامنے آئیں گے۔ اور ان مقامات کے تذکرہ واشاعت احباب اورمخلصین کی زبانیں اور کان مشرف اور محظوظ ہوں گے۔ اوران ا ذکار سے محفلیں منور اور معطرہوتی رہیں گی۔

راہ طریقت میں ہمارے خواجہ قدس ر و حہ کوشیخ طریقت خواجہ محمد باباسماسی قدس سرہ نے فرزندی کی نظر قبولیت سے نوازا تھا ۔

آپ حضرت عزیزاں  خواجہ علی رامیتنی کے خلفاء میں سے تھے حضرت خواجہ عزیزاں  خو اجہ  محمود انجیر  فغنوی رحمہ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے خواجہ محمود خواجہ عارف  ریوگری کے خلیفہ  تھے اور وہ حضرت خواجہ  بزرگ خواجہ عبد الخالق غجد وانی کے خلفاء میں سے تھے – قدس اللہ ارواحھم۔

حضرت خواجہ عبدالخالق غجد وانی کو حضرت سیدامیر کلال رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے نسبت ارادت صحبت تعلیم آداب سلوک اورتلقین ذکر سے حاصل تھی۔ سیدامیر کلال خواجہ محمد بابا سماسی کے خلفا میں تھے۔ لیکن سلوک میں ہمارے خواجہ قدس سرہ کی نسبت تربیت حقیقت میں خواجہ بزرگ خواجہ عبدالخالق غجد وافی کی روحانیت حاصل ہوئی تھی۔ ہم اسی سلسلہ میں مختصرسی گفتگو کریں گے۔

حضرت خواجہ بزرگ خواجہ عبدالخالق امام ربانی شیخ ابویعقوب یوسف بن ایوب  ہمدانی کے خلفاءمیں تھے۔خواجہ یوسف ہمدانی کو تصوف میں شیخ طریقت شیخ ابوعلی فارمدی طوسی قدس سرہ سے نسبت تھی۔ آپ خراسان کے اکابرمشائخ میں ہیں حجۃ الاسلام امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی آپ سے ہی باطنی تربیت حاصل کی تھی شیخ ابوعلی فارمدی رحمہ اللہ کو تصوف میں دو نسبتوں سے فیض ملا ہے۔ ایک شیخ بزرگوار شیخ ابوالقاسم گرگانی طوسی سے جوتین واسطوں سے سید الطائفہ شیخ جنید بغدادی قدس اللہ تعالی روحہ سے ملتے ہیں ۔ دوسری نسبت شیخ بزرگوار شیخ ابوالحسن خرقانی رحمتہ اللہ علیہ سے ملتی ہے۔ خواجہ ابوالحسن خرقانی اپنے زمانہ کے پیشوائے مشائخ اور قطب زماں ہوئے ہیں۔ چونکہ پرانے زمانہ میں حقیقی صاحبان دل اور کاملان حقیقت اور سالکان راہ طریقت بہت تھے۔ اور آخرین زمانہ میں ان کی تعداد بہت کم رہی ہےبلکہ اعز من الكبريت الاحمر ہوگئے ہیں یقیناً ایک زمانہ تھا کہ طالبان صادق کسی کبریٰ دین اور مقتدائے اہل یقین کی محبت و متابعت سے فیض یاب ہوکر اپنے روحانی بال و پر کوبشریت کی گراں باری سے سبکسار کر کے اپنے مقتدا و رشد کے مکمل تصرفات کو پالیتا تھا ۔ وہ دوسرے کا ملان عصر کے عمر بھر زیر تربیت رہتا۔ اور ان کی مجالس فیض میں مقبولیت حاصل کر کے ان کی صحبت کی سعادت حاصل کرتا تھا۔ ان کے علوم و معارف کا اقبا سس کرتا تھا۔ اس طرح ان حضرات کے انتساب کی نسبت سے تصوف اور علم باطن میں بے پناہ مقامات حاصل کرتا تھا۔ شیخ شہید ،شیخ مجدالدین بغدادی قدس اللہ تعالی روحہ  نے اسی طرف اشارہ فرمایا ہے علم باطن کی سند میں جس قدربیشتر واسطے ہوں۔ اسی قدر یہ سند مستند اور عالی تر ہوتی تھی چونکہ مشائخ کرام انوارحقیقت کے پھیلانے کا کام کرتے ہیں۔ اور وہ انہیں انوار حقیقت مشکوۃنبوت سے ملتے ہیں جس قدران پر انوار باطن کا اجتماع ہوتا ہے۔ اسی اندازہ سے وہ اپنے طالبان کو تقسیم کرتے ہیں۔

نور على نوریهدى الله لنـور مـن يشاء به نور علی نور – اللہ تعالی جسے چاہتا ہے اپنے نور کی ہدایت دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشائخ  اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ بہت سے مشائخ کے سلسلہ کے متبع ہیں ۔ آپ کا علم باطن میں دو طریقوں سے انتساب رکھتے ہیں۔ ایک حضرت داؤدطائی سے جو حبیب عجمی اور انہیں حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ سے اور انہیں امیرالمؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے اور آپ کو حضرت رسالت مآب ﷺ سے روحانی نسبت تھی۔ دوسری نسبت امام علی بن موسی الرضار رضی اللہ عنہما اور انہیں اپنے والد مکرم امام موسی الکاظم اور انہیں اپنے والد امام جعفر صادق رضی اللہ عنہم سے حاصل تھی۔ ان کا طریقہ ائمہ اہلبیت کا طریقہ تھا۔ ابا عن جدرضوان اللہ علیہم اجمعین۔ چنانچہ مشہور ہے ائمہ اہلبیت کا سلسلہ علم ظاہر و علم باطن میں امت کے علما و اکابرقدس سرہ اللہ ارواحہم کو ملا ہے ۔ اسی سلسلہ عالیہ کو بیانا ، عزتا، انفاسا تعظیما اورشانا سلسلۃ الذہب کہتے ہیں۔ شیخ ابوالحسن خرقانی قدس سرہ کو تصوف میں سلطان العارفین شیخ ابو یزیدبسطامی رحمتہ اللہ علیہ سے نسبت ہے۔ آپ کو سلوک میں روحانیت کی زینت حضرت شیخ بسطامی نے ہی دی تھی شیخ ابوالحسن کی ولادت حضرت شیخ ابویزید کی وفات کے ایک مدت بعد ہوئی کی شیخ ابویزید کوحضرت امام جعفرصادق رضی اللہ عنہ سے نسبت روحانی ہے۔ حضرت ابویزید کو حضرت شیخ ابوالحسن کی طرح حضرت امام سے روحانی تربیت حاصل تھی رضی اللہ عنہم حضرت امام جعفر کو علم باطن میں دو طریقوں سے نسبت حاصل ہوئی تھی۔ ایک تو اپنے والد محترم امام محمد باقر رضی اللہ عنہ سے اور انہیں اپنے والد حضرت زین العابدین علی بن حسین سے اور انہیں اپنے والد حضرت زین العابدین علی بن الحسین سے اور انہیں اپنے والد حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے اور انہیں اپنے والد حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم سے بھی امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ کو حضرت رسالت مآب ﷺ سے نسبت ولایت حاصل تھی۔ حضرت امام جعفر رضی اللہ عنہ کو دوسری طرف سے اپنے ناناقاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے نسبت حاصل تھی۔ قاسم بن محمد اکابرتابعین میں سے تھے۔ تابعین میں سات فقہاء(ابو بکر بن عبد الرحمن بن حارث، خارجہ بن زید بن ثابت،  قاسم بن محمد،  سعید بن مسیب،  عبد الله بن عقبہ  ،عروہ بن زبیر، سلیمان بن یسار )مشہور ہیں جنہیں ظاہری اور باطنی علوم سے وافرحصہ ملا تھا۔ ان میں ایک حضرت قاسم بن محمد تھے۔ حضرت قاسم کو باطنی علوم میں حضرت سلمان فارسی سے انتساب تھا حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کورسول ﷺ کی صحبت بہار سے بہت کچھ حاصل کر نے کا موقعہ ملا حضور نے آپ کو سلمان من اهل البیت (سلمان بھی اہلبیت میں سے ہیں کاشرف بخشا انہوں نے علم باطن کی نسبت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے حاصل . کی  یہ نسبت خواجہ دو عالم حضرت رسالت مآب ﷺ سے حاصل تھی۔

اہل تحقیق اس بات پر متفق ہیں کہ امیرالمومنین علی کرم اللہ وجہ سرکار دوعالم ﷺ کے وصال کے بعد ان خلفا ئے رسول سے جو آپ سے پہلے تھے نسبت باطنی میں تربیت حاصل کی تھی شیخ ا لطریقہ شیخ ابوطالب مکی قدس سرہ اپنی کتاب ” قوت القلوب میں فرماتے ہیں کہ قیامت تک ہر زمانہ میں ایک قطب زمان موجود رہے گا۔ اور یہ قطب زماں اپنے مرتبہ اور مقام میں نائب مناب سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہوگا۔ وہ تینوں اوتادجو قطب کے ماتحت ہوتے ہیں ہر زمانے میں ان تین خلفاء کے نائب مناب ہوں گے۔ امیرالمومنین حضرات عمر عثمان اور علی رضی اللہ عنہم اجمعین یہ تینوں حضرات یقین اوصاف اور احوال میں اپنے ان تینوں خلفاء کی پیروی کریں گے۔ ان کے علاوہ صدیقوں میں سے کچھ ہیں۔ جن کی صفت میں فرمایا گیا بھم يقوم الارض وبھم يدفع البلاء عن اهلها وبھم یرزقون وبھم يمطرون (یہ وہ لوگ ہیں جن کی وجہ سے زمین قائم ہے۔ مصائب کو دفع کرتے ہیں۔ لوگوں کو رزق تقسیم کرتے میں۔ اور کائنات ارضی پر بارش برسانے کا اہتمام کرتے ہیں، یہ حضرات ،ہر زمانے میں عشرہ مبشرہ کے چھ حضرات کے نائب ہیں ۔ رضوان اللہ علیہم اجمعین ۔ حضرت رسالت  پناہ ﷺ نے آخری عمر میں خطبہ ارشاد فرمایا

اس خطبہ میں یوں فرمایا :

اما بعد فان الله عز وجل اتخذصاحبكم خليلا ولوكنت متخذااحـد خليلا لاتخذت ابابکرخلیلا بے شک اللہ تعالی نے تمہارے دوست کو اپنا خلیل بنایا ہے۔ اگر میں کسی کو اپنا خلیل بناتا تو حضرت ابا بکر صدیق کو بناتا ایک اور حدیث میں فرمایا : اتخذ الله إبراهيم خليلا وموسى نجيا واتخذني حبيبا ثم قال: وعزتي وجلالي لأؤثرن حبيبي على خليلي ونجي بے شک اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم کوخلیل بنایا۔ اورموسی کونجی اور مجھےحبیب بنایا۔ پھر فرمایا مجھے اپنی عزت کی قسم ہے۔ میں حبیب کو خلیل، اورنجی کو اپنے قریب رکھتا ہوں

ان دونوں احادیث کا مضمون یوں ہے کہ اہل تحقیق اور ارباب بصیرت نے کہا ہے کہ خلت سے دو مقامات مراد ہیں۔ ایک تو محبت کا انتہائی مرتبہ ہے اوریہ مرا ددوسری حدیث سے لی جاتی ہے۔ دوسرے محبوبیت کے انتہائی درجات اور مراتب ہیں۔ یعنی پہلی حدیث سے مرادلیے جاتے ہیں۔ اس مرتبہ میں کوئی شخص بھی حضور اکرم ﷺ سے شرکت کا دعوی دار نہیں ہوسکتے۔ مقام محمود کا لفظ اسی نہایت بلند رتبہ کا دوسرانام ہے ۔ اور اسی سے کمال کے درجات متعین ہیں ۔ اور حضور اکرم ﷺ نے جو یہ فرمایا ہے کہ اگر اس مقام خاص میں میرے ساتھ کسی کو شرکت حاصل ہوتی تو وہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہوتے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ولایت اور علم باطن جسے  علم باللہ کہا جاتا ہے۔ میں اکمل ۔ افضل – اعلم۔ اور اعظم اولیاءامت ہیں بلکہ تمام صدیقوں سے اکمل ہیں اور انبیا علیہم السلام کے بعد آپ کا ہی مقام ہے۔ سیدناصدیق رضی اللہ عنہ اکبرہیں اور اہل بصیرت کے اکابر میں سے افضل ہیں (قدس سرہم )اس بات پر اجماع ہے ۔ اور یہ بات ان لوگوں کے خیالات اور خدشات کو دور کرنے کے لیے کافی ہے جو اس نظریہ کے خلاف اعتقاد رکھتے ہیں اور آپ کی افضلیت کو دوسری

وجوہات کی بنا پر تاویل کرتے ہیں ۔

ہمارے خواجہ قدس سرہ کے احوال کے بارے میں جوکچھ ذکر کیا گیا ہے۔ اور مشائخ نقشبندیہ قدس سرہم کے سلسلہ کے بیان سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ ان کاطریقہ

اویسیہ تھا اور بہت سے مشائخ جن کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔ اویسی تھے ۔ اویسی کا مطلب یہ ہے۔ جسے حضرت شیخ طریقت شیخ عطارحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمایا ہے ۔ اولیاء اللہ میں سے ایک ایسا طبقہ ہوا ہے جنہیں مشائخ طریقت اورکبری حقیقت اویسی کے نام سے یاد کرتے تھے۔انہیں ظاہری طور پر کسی مرشد یا رہبر کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ انہیں حضرت رسالت مآب ﷺ اپنی نگاہ عنایت سے پرورش فرماتے رہے ہیں۔ اور اس تربیت میں کوئی واسطہ درمیان نہیں تھا جس طرح آپ نے حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کو براہ راست تربیت دی تھی۔ یہ بہت بلند مقام ہے ۔ جو ہر ایک کومیسر نہیں آتا۔ اس مقام تک کس کی رسائی ہوسکتی ہے۔ اور اس عظیم مقام کو کون پاسکتا ہے۔ ذَلِكَ ‌فَضْلُ ‌اللَّهِ ‌يُؤْتِيهِ ‌مَنْ ‌يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ – ہمارے مشائخ طریقیت میں سے بہت سے حضرات کو سلوک کی ابتداء میں اس مقام کی طرف توجہ ملی ہے چنانچہ شیخ بزرگوار شیخ ابوالقاسم گرگانی طوسی جن سے حضرت نجم الدین کبری کے مشائخ کاسلسلہ طریقت جاملتا ہے۔ شیخ ابوسعید ابوالخیرا ور شیخ ابوالحسن خرقانی قدس اللہ ار واحھم کے طبقہ کے بزرگوار ابتدائے کار میں ہمیشہ اویس اویس  پکارا کرتے تھے۔ طریق سلوک میں ارواح مقدسہ مدد گار ہوتے ہیں ۔ اور فیض ربانی اور تجلیات روحانی کے حاصل کرنے میں ممد ہوتے ہیں لیکن طریقہ جذب جو ایک وجہ خاص کا طریقہ ہے کوئی واسطہ درمیان میں نہیں آتا۔ اور لا الہ الا اللہ کے ذکر کا مقصد خصوصی وجہ توجہ سے ہوتا ہے ۔ تمام موجودات میں التجا اور اعتصام اس کی صفت قیومی سے ہوتی ہےشیخ عطار قدس اللہ وجہ فرماتے ہیں :

 بادشاہادل بخوں آغشتہ ام پاۓتاسرچون فلک سرگشته ام

 گفته ای من با شمایم روزوشب یک نفس فارغ مباشیداز طلب

چونکہ بالطفت چنیں ہمسایہ ایم لطف تو خورشید و ما چوں سایہ ایم

چہ بودہ جاں بخشی سرمائے گاں کہ نگہ داری حق ہمسائے گان

راہبرم شوز انکه گمراه آمدم دولتم  دہ کہ چہ بے گام آمدم

 ہر کہ درکوئے تو دولت یا رشدور تو گم گشت وز خود بیزارشد

 مبتلاخویش و حیران توام گربدم گر نیک ہم زان توام

نیستم نومید وہستم بے قرار بوک در گیرد یکے از صد ہزار

 جب سالک کو ان دو صفات جلالی اور جمالی سے پرورش کی جاتی ہے۔ تو اس کے لیے جلال جمال بن جاتا ہے اور جمال جلال بن جاتا ہے۔ خوف کی انتہائی صورت امید وار بن جاتی ہے اور غلبہ رجا میں خوف کی کیفیت رہتی ہے۔ اس وقت جبکہ ا للہ تعالی کے جلال کی صفت کا اظہار ہوتا ہے تو جمال توجہ فرماتا ہے۔ سلطان العارفین حضرت ابویزید قدس سرہ کی نگاہ جلال ابوتراب نخشبی قدس اللہ روحہ کے ایک مرید کو دیکھا۔ یہ نگاہ تجلی ذات کی نسبت لیے ہوئے تھے۔ اور وہ مر مدصرف صفت جمال کا پرورش یافتہ تھا۔ اگر وہ دونوں اوصاف کا پرورش یافتہ ہوتا۔ تو اسے سلطان العارفین کی نگاہ کی کشش برداشت کرنے کی قوت حاصل ہوتی اور وہ اس طرح بشریت کا متلاشی  نہ ہوتا۔(شیخ ابوتراب کا ایک مرید بڑاہی گرم اور صاحب وجد تھا۔ ایک دن ابوتراب نے اسے کہا کہ بایزید کو دیکھنا چاہتے ہو کہنے لگا جو ہروقت بایزید کے خدا کو دیکھتا ہو۔ اسے بایزید کے دیکھنے کی حاجت نہیں رہتی ،ابو تراب نے فرمایا اللہ تعالی کواپنی آنکھوں اور اپنی قدرت سے دیکھتے  ہواور جب ان کے پاس جاؤ تو ، رب کوانکی  قدرسے  دیکھنا   کیونکہ آنکھوں میں اور نگاہوں میں فرق ہوتا ہے چنانچہ دونوں بایزید کے گھر کو روانہ ہوئے بایزید اس وقت پانی لانے کے لیے گھر سے باہر گئے ہوئے تھے چنانچہ دونوں آپ کے پیچھے چلے گئے راستے میں شیخ کو دیکھا کہ مٹی کا گھڑا اٹھائے آرہے ہیں سر پرگھڑا اور پرانی پوستین پہنے دکھائی دیئے ۔ جب با یزید کی آنکھیں اس مرید پر پڑیں تومرید زمین پر گر پڑا اور تڑپ کر و اصل بحق ہوگیا شیخ ابو تراب نے کہا حضرت ایک ہی نگاہ اور موت آپ نے فرمایا، ابو تراب، اس نوجوان کے بدن میں ایک نور تھا جس کے افشاء ہونے کا ابھی تک وقت نہیں آرہا تھا ، با یزید کی نگاہ سے وہ نورافشاء ہو گیا ، اس سےجلال کی قوت برد اشت  نہ تھی اس نے دم توڑد یا)

ایک دفعہ ہم اپنے ایک مرید صادقی محمد زاہد کے ساتھ صحرا کی طرف جانکلے ۔ ہمیں ایک ضروری کا م تھا،  ہمارےپاس ایک کلہاڑی تھی ۔ اسی دوران رقت طارمی ہوئی ہم نے کلہاڑی کو تو وہیں پھینکا اور بیابان میں چل نکلے۔ اور ایک دوسرے سے مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے رہے حتی کہ بات عبودیت اور فدایت پر  ہونے لگی۔ اس نے پوچھا کہ فدا کی غایت اور نہایت کیا ہے ۔ ہم نے بتایا کہ اگر درویش کوکہہ دیا جائے کہ مرجاؤ تو مرنے سے بھی دریغ نہ کرے۔ یہ بات کہتے ہوئے میرے اندر ایک ایسی حالت طاری ہوئی کہ میں نے محمد زاہد کی طرف منہ کر کے دیکھا اورکہا مرجا ؤ اسی وقت محمد زاہد زمین پرگرا – اور اس کے بدن سے روح پرواز کرگئی۔ وہ ایک عرصہ تک ایسے ہی مردہ پڑا رہا۔ اس کا جسم روح کے بغیر بلا حرکت پڑارہا۔  پشت زمین پر چہرہ آسمان کی طرف پاؤں قبلہ کی طرف چاشت سے لے کرکر دو پہر تک  وہ یونہی پڑا رہا  اس دن بے پناہ گرمی تھی سورج  پوری طرح آگ برسا رہا تھا ہمیں تو اس حالت سے سخت پریشانی ہوئی بڑے متحیر ہوئے۔ پاس ہی ایک سایہ درخت تھا۔ چند لمحے اس سایہ میں جا بیٹھے اور حیرانی کے عالم میں سو چنے لگے۔ پھر اس کی لاش پر آئے اور اس کے چہرے پر نظریں گاڑ دیں۔ اس کا رنگ اڑ چکا تھا چہرہ گرمی سے سیاہ ہوتا جار ہا تھا۔ ہم حیران سے حیران ہوتے جارہے تھے ناگاہ اسی حیرانی کے عالم میں ہمارے دل پر افشا (الہام) ہوا کہ کہو محمد زاہد زنده ہوجاؤ ہم  نے یہ بات تین  بار  کہی ا اوردیکھا اس جسم مردہ  میں زندگی کے آثار آنے لگے۔ اس کے اعضاہلنے لگے۔ وہ اسی وقت زندہ ہو کر اٹھ بیٹھا۔ ہم اسی حالت میں روانہ ہوئے۔ اور حضرت امیر سید کلال کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کی خدمت میں یہ واقعہ بیان کیا ہم نے واقعہ کے دوران جب یہ کہا کہ اس کی روح بدن سے جدا ہو گئی ۔ اور ہم بے حد حیران ہوئے۔ آپ فرمانے لگے۔ بیٹا۔ اس عالم حیرت میں تم نے کیوں نہ کہا کہ زندہ ہوجاؤ ہم نے بتایا تھوڑی مدت کے بعد ہمیں الہام ہوا ۔ تو ہم نے ایسا ہی کیا۔ اور وہ اپنی حالت پر اتر آیا۔

شرح

 اہل تحقیق فرماتے ہیں کہ سالک کو جلال و جمال کے اوصاف کے ساتھ اس وقت پرورش ہوا کرتی ہے جب وہ محبت ذاتی  کی حقیقت کوپالیتا ہے محبت ذاتی پا لینے کی علامت میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے سامنے اپنے محبوب کے متقابل اوصاف ایک سے دکھائی دینے لگیں جیسے عزت و ذلت حذر و نفع یکساں دکھائی دینے لگے اہل تحقیق  نے یہ بھی کہا ہے ؛ يعطى الحق سبحانه المحبوب من أولياء بہ في الدنيااول مايعطى أهل الجنة في الاخرة. وھوقولہ كن فيكون وتلک الکلمۃ  صورۃ الارادۃالکلیہ

(اللہ تعالی اپنے اولیا ءمیں سےمحبوب کو دنیا میں ہی وہ انعامات دے دیتا ہے جو آخرت میں اہل جنت کو جنت میں نصیب ہوں گے۔ اور اس کا قول کن فیکون اور یہ بات اس کے ارادے کے ماتحت تمام تر دے دی جاتی ہے۔ ایسے ہی مقام پر کہاگیا ہے ۔

چوں چنیں خوا ہد خدا خواہد چنیں             مے دہد حق آرزوئے متقین

كان للہ  بوده درمامضے تا کہ کان اللہ پیش آ مدجزا

 لیکن کمال معرفت اور کمال ادب کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ اللہ کا ایسا محبوب


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں