رسول اللہ ﷺکا مرض موت میں کاغذ طلب کرنامکتوب نمبر96دفتر دوم

اس مضمون کےحل میں کہ پیمبر ﷺنے مرض موت میں کاغذ طلب کیا تا کہ کچھ لکھیں اور حضرت فاروق رضی اللہ عنہ نے مع چند اصحاب کے اس سے منع کیا خواجہ ابوالحسن بدخشی کشمی کی طرف صادر فرمایا ہے:۔ 

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (الله تعالیٰ  کا حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو) ۔

 سوال: حضرت رسالت خاتمیت علیہ الصلوة والسلام نے مرض موت میں کاغذ طلب کیا اور فرمایا کہ آتُونِي ‌أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا ‌لَنْ ‌تَضِلُّوا ‌بَعْدِي أبدا كاغذ لاؤ کہ میں کچھ لکھوں تا کہ تم میرے بعد گمراہ نہ ہو( اور حضرت فاروق رضی اللہ عنہ اور چند اور اصحاب نے منع کیا اور کہا کہ كِتَابُ اللَّهِ حَسْبُنَا (ہمیں کتاب اللہ کافی ہے اور کہا أَهَجَرَ: اسْتَفْهِمُوهُ (کیاغشی سے ایسی کلام کرتے ہیں اچھی طرح پوچھو) حالانکہ حضرت رسالت خاتمیت علیہ الصلوة والسلام جو کچھ فرمایا کرتے تھے۔ وحی سے فرمایا کرتے تھے۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ  فرماتا 

ہے۔ وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى  إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى (وہ خواہش سے کلام نہیں کرتے بلکہ جو کچھ بولتے ہیں وحی کے مطابق بولتے ہیں) اور وحی کاردومنع کرنا کفر ہے۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ  فرماتا ہے۔ ‌وَمَنْ ‌لَمْ ‌يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ جو لوگ اللہ تعالیٰ  کے اتارے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہیں کرتے وہ کافر ہیں۔ 

نیز پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام پرہجر وہذیان(بے مقصد بلا اختیار) کی کیفیت جائز کرنے سے تمام احکام شرعیہ کا اعتماد دور ہو جاتا ہے اور یہ کفروالحا دوزندقہ ہے۔ اس شبہ قویہ کا حل کیا ہے۔ 

جواب:خدا آپ کو سعادتمند کرے اور سیدھے راستہ کی ہدایت دے۔ آپ کو واضح ہو کہ یہ شبہ اور اس قم کے اور شبہے جو بعض لوگ حضرات خلفاء ثلاثہ رضی الله تعالیٰ  عنہم اور باقی تمام اصحاب کرام رضی اللہ عنہم پر وارد کرتے ہیں اور اس قسم کی تشکیکات اور شبہات سے ان کو رد کرنا چاہتے ہیں ۔ اگر انصاف کی نظر سے دیکھیں اور حضرت خیر البشر علیہ الصلوة والسلام کی صحبت کے شرف ورتبہ کوقبول کریں تو ان کو معلوم ہو جائے گا کہ ان کےنفس حضرت خیرالبشر علیہ الصلوة والسلام کی صحبت میں ہوا اور ہوس سے پاک وصاف ہو چکے تھے اور ان کے سینوں سے عداوت وکینہ نکل چکا تھا تو ان پر واضح ہو جائے گا کہ یہی وہ اسلام اور دین کے بزرگوار ہیں جنہوں نے کلمہ اسلام کے بلند کرنے اور حضرت سیدنا ﷺ کی مدد اور دین متین کی تائید کے لیے رات دن اور ظاہر و باطن میں اپنی طاقتوں اورمالوں کو خرچ کیا ہے اور اپنے خویش و قبیلہ اور اولاد وازواج اور وطن وگھربارکھیتی کیاری باغ اور انہار وغیرہ سب کچھ رسول الله ﷺکی محبت میں چھوڑ دیا تھا اور اپنی جان اور مال و اولاد کی محبت پر رسول اللہ کی محبت کو ترجیح دی تھی۔ ان بزرگواروں نے وحی وفرشتہ کا مشاہدہ کیا تھا اورمعجزات و خوارق کو دیکھا تھا۔ ان کا غیب شہادت سے اور ان کا علم عین سے بدل چکا تھا۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کی تعریف اللہ تعالیٰ  قرآن مجید میں ان الفاظ کے ساتھ فرماتا ہے ‌رَضِيَ ‌اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ.. ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ (اللہ تعالیٰ  ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ تعالی سے راضی ہو گئے ۔ توریت و انجیل میں ان کی یہی مثال ہے) جب تمام صحابہ کرام ان کرامات اور فضائل میں شریک ہیں تو خلفاء راشدین جو تمام صحابہ سے افضل و اعلی ہیں۔ ان کی فضیلت و بزرگی کس قدر ہوگی۔ یہی وہ فاروق رضی الله عنہ ہیں جن کی شان میں اللہ تعالیٰ  اپنے رسول کو فرماتا ہے۔ يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللَّهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اےنبی تجھ کو الله تعالى اور تیری اتباع کرنے والے مومن کافی ہیں۔ 

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا ہے کہ اس آیت کریمہ کا شان نزول حضرت فاروق رضی اللہ تعالیٰ  عنہ کا اسلام ہے۔ نظر انصاف کے ساتھ دیکھنے اور حضرت خیر البشر کی شرف محبت قبول کرنے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درجات کی بلند اور بزرگی معلوم کرنے کے بعد امید ہے کہ یہ اعتراض کرنے والے اور تشکیکات کی پیروی کرنے والے لوگ ان شبہات کو مغالطوں اور زر سے منڈھی ہوئی خیالی باتوں کی طرح بے اعتبار اور خوار خیال کریں گے اور اگر ان شبہات میں غلطی کو تجویز نہ کریں اور ان کووہمی اور خیالی باتوں کی طرح نہ سمجھیں تو  کم از کم اتنا تو ضرور جان لیں گے کہ ان شبہات اورتشکیکات کاماحاصل ہیچ و پوچ ہے۔ بلکہ اسلامی ہدایت اور ضرورت کے برخلاف ہے اور کتاب وسنت کے مقابلہ میں مردود اور مطرود(رد کیا ہوا،دھتکارا ہوا)ہے۔ اس کے علاوہ اس سوال کے جواب اور اس شبہ کی غلط فہمی کے بیان کو الله تعالیٰ  کی مدد سے چند مقدموں میں لکھا جاتا ہے۔ غور سے سنیں۔ اس شبہ واشکال کا کامل طور پر حل کرنا چند مقدموں پہنی ہے۔ جن میں سے ہر ایک مقدمہ بجاے خود علیحدہ علیحدہ جواب مبنی ہے:۔

 مقدمہ اول: یہ ہے کہ آنحضرت ﷺکے نام منطوقات و معقولات یعنی اقوال و گفتار وحی کے مطابق نہ تھے۔ آیت کریمه وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى  نص قرآنی سے مخصوص ہے جیسے کہ مفسرین نے بیان کیا ہے۔ اگر آنحضرت ﷺکے تمام اقوال و گفتار وحی کے موافق ہوتے تو حق تعالیٰ  کی طرف سے بعض اقوال پر اعتراض وارد نہ ہوتا اور ان سے معافی کی گنجائش نہ ہوتی۔ اللہ تعالیٰ  اپنے نبی ﷺکو مخاطب کرکے فرماتا ہے عَفَا اللَّهُ عَنْكَ لِمَ أَذِنْتَ لَهُمْ (اللہ تعالیٰ  تجھے معاف کرے تو نے ان کو کیوں اذن دیا)

مقدمہ دوم: یہ کہ احکام اجتہادیہ اور امور عقلیہ میں آیت کریمہ ‌فَاعْتَبِرُوا يَاأُولِي الْأَبْصَارِ اے دانا ؤ عبرت پکڑو( اور آیت کریمہ‌وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ( کام میں ان سے مشورہ کرليا کرو) کے بموجب اصحاب کرام رضی الله عنہم کوحضرت ﷺکے ساتھ گفتگو کی گنجائش اور ردوبدل کی مجال تھی۔ کیونکہ اعتبار ومشورہ کا امر کرنا ردوبدل کے حاصل ہونے کے بغیرمتصورنہیں۔ جنگ بدر کے قیدیوں کے قتل اور فدیہ کے بارے میں جب اختلاف واقع ہوا تھا تو حضرت عمرفاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے قتل کا مشورہ دیا تھا اور وحی حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے مشورہ کے موافق آئی اور فدیہ لینے پروعید نازل ہوئی۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے۔ لَوْ نَزَلَ من السماء عذاب ما نجا منهم غَيْرُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَسَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ (اگر عذاب نازل ہوتا تو عمرو سعد بن معاذ رضی الله عنہما کے بغیر کوئی نجات نہ پاتا) کیونکہ سعد رضی الله عنہ نے بھی ان قیدیوں کےقتل کا مشورہ دیا تھا۔

مقدمہ سوم: یہ کہ سہو ونسیان پیغمبر پر جائز بلکہ واقع ہے۔ حدیث ذوالید ین میں آیا ہے کہ آنحضرت ﷺنے چار رکعت نماز میں دورکعت کے بعد سلام پھیر دیا۔ذوالیدین نے عرض ‌أَقَصُرَتِ الصَّلاةُ أَمْ نَسِيتَ کیا آپ نے نماز کو قصر کیا ہے یا آپ بھول  گئے۔ ذوالیدین کی صداقت ثابت ہونے کے بعد آنحضرت ﷺنے اٹھ کر دو رکعت اور ادا کیں اورسجدہ سہو ادا کیا۔ جب صحت و فراغت کی حالت میں سہو ونسيان بمقتضائے بشریت جائز ہے تو مرض موت میں درد کے غلبہ کے وقت بمقتضائے بشری حضرت ﷺسے بے قصد دبے اختیار کام کا صادر ہوا کیونکر جائز نہ ہوا اوراحکام شرعیہ سے کیوں اعتماد رفع ہوگا۔ جبکہ حق تعالیٰ  نے نبی ﷺکو وحی قطعی سے سہو ونسیان پر اطلاع فرمائی ہے اور صواب کو خطا سے الگ کیا ہے۔ کیونکہ نبی کا خطا پر برقرار رہناجائز نہیں۔ اس لیے کہ اس سے احکام شریعت کا اعتما د  رفع ہوتا ہے۔ 

پس ثابت ہوا کہ نفس سہو و نسیان اعتماد کے رفع ہونے کا موجب نہیں ہے بلکہ سہو و نسیان پر برقرار رہنا احکام شرعیہ کے اعتماد کے رفع ہونے کا باعث ہے اور وہ تقریر علماء کے نزدیک مقررہ ثابت ہے کہ جائز نہیں۔

 مقدمہ چہارم: یہ کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ بلکہ خلفاءثلاثہ رضی الله عنہم کے لیے کتاب وسنت میں جنت کی خوشخبری ہے اور وہ احادیث جن میں خاص طور پران کے لیے جنت کی بشارت ہے ثقہ راویوں کی کثرت سے شہرت بلکہ تواتر معنی کی حد تک پہنچ چکی ہیں۔ جن کا انکار کرنا سراسر جہالت ہے یا بغض و عناد۔ ان صحیح وحسن حدیثوں کے راوی اہل سنت ہیں۔ جنہوں نے اپنے استادوں سے جو سب کے سب اصحاب و تابعین ہیں ۔ اخذ کی ہیں۔ ان کے مقابلہ میں اگر تمام مخالف فرقوں کے راویوں کو جمع کریں۔ تو اہل سنت کے دسویں حصے تک بھی نہیں پہنچ سکتے۔ كما لا يخفى على المتتبع المتفحص المنصف (جیسے کہ منصف تابعدار اور جستجو کرنے والے پر پوشیدہ نہیں) اہل سنت کی تمام کتب احادیث ان بزرگواروں کی بشارات سے بھری ہوئی ہیں۔ اگر بعض مخالف فرقوں کی کتب احادیث میں بشارات کی روایت نہ بھی ہو تو کچھ نہیں کیونکہ بشارات کی روایت کا نہ ہونا بشارات کے نہ ہونے پر دلالت نہیں کرتا۔ ان بزرگواروں کی بشارت کے لیے قرآن مجید کافی ہے۔ جس کی بہت سی آیات میں ان کے لیے جنت کی خوشخبری آگئی ہے۔

اللہ تعالیٰ  فرماتا ہے۔ ‌وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ

مہاجرین اور انصار میں سابقین اولین اور وہ لوگ جنہوں نے احسان سے ان کی تابعداری کی۔ ان سب پر اللہ تعالیٰ  راضی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ  سے راضی ہیں اور ان کے لیے جنات تیار کی گئی ہیں۔ جن میں نہریں بہتی ہیں۔ ان میں ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے۔ 

اور فرماتا ہے ‌لَا ‌يَسْتَوِي مِنْكُمْ مَنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ أُولَئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِنَ الَّذِينَ أَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوا وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى نہیں برابرتم میں سے وہ شخص جس نے فتح سے پہلے خرچ کیا اور لڑائی کی۔ یہ زیادہ درجے والے ہیں۔ ان لوگوں سے جنہوں نے فتح کے بعد خرچ کیا اور لڑائی کی اور سب کو الله تعالیٰ  نےحسنی میں بہشت کا وعدہ دیا ہے۔ 

جب ان تمام صحابہ کے لیے جنہوں نے فتح سے پہلے اور بعد انفاق و مقاتلہ کیا ہے۔ بہشت کی خوشخبری ہے۔ تو پھر ان بزرگ اصحاب کی نسبت جو انفاق و مقاتلہ و مہاجرت میں سب سے بڑھ کر ہیں کیا کہا جائے اور ان کے درجات کی بلند کو کس طرح معلوم کیا جائے۔ 

تمام اہل تفسیر کہتے ہیں کہ آیت کریمہ لا یستوی حضرت صدیق اکبر رضی الله تعالیٰ  عنہ کی شان میں نازل ہوئی ہے جو انفاق ومقاتلہ میں سب سابقین سے بڑھے ہوئے ہیں۔ الله تعالى فرماتا ہے لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ ‌الشَّجَرَةِ يعنی الله تعالیٰ  راضی ہو گیا۔ مومنین سے جب انہوں نے درخت کے نیچے تیری بیعت کی۔ 

امام محی السنہ نے معالم تنزیل میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا ہے کہ جن لوگوں نے درخت کے نیچے بیعت کی ہے۔ ان میں سے ایک بھی دوزخ میں نہ جائے گا۔ اس بیعت کو بیعت رضوان کہتے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ  ان لوگوں سے خوش ہوا ہے اور شک نہیں کہ اس شخص کو کافر کہنا جس کو کتاب وسنت میں بہشت کی خوشخبری مل چکی ہوں نہایت ہی برا ہے۔

مقدمہ پنجم : یہ ہے کہ کاغذ کے لانے میں حضرت فاروق اعظم رضی الله عنہ کا توقف کرناردو انکار کے باعث نہ تھا۔ پناه بخدا۔ ایسے پیغمبر علیہ الصلوة والسلام کے وزیروں اورہم نشینوں سے جوخلق عظیم کے ساتھ متصف ہے۔ اس قسم کی بے ادبی تصور بھی کس طرح ہوسکتی ہے۔ بلکہ ادنی صحابی سے جو ایک یا دو بار حضرت خیرالبشر ﷺکی شرف محبت سے مشرف ہو چکا ہو۔ اس قسم کی بے ادبی کی امید نہیں ہوسکتی۔ بلکہ آنحضرت ﷺکی امت کے عام لوگوں سے جو دولت اسلام سے مشرف ہو چکے ہیں۔ اس قسم کے ردوا نکار کا گمان نہیں ہو سکتا۔ تو پھر ان لوگوں سے جو بزرگ اور وزیر اور ندیم اور تمام مہاجرین اور انصار میں سے اعلی درجہ والے ہوں، کس طرح اس امر کا خیال پیدا ہوسکتا ہے۔ حق تعالیٰ  ان لوگوں کو انصاف دے تا کہ بزرگان دین پر اس طرح کی بدظنی نہ کریں اور بے سوچے سمجھے ہر کلمہ وکلام پر مواخذہ نہ کریں۔ 

حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا مطلب استفہام اور استفساریعنی اسْتَفْهِمُوهُ سے یہ تھا کہ اگر یہ آپ کوشش و اہتمام کے ساتھ کاغذ طلب فرمائیں تو لایا جائے۔ اگر آپ اس باره میں کوشش نہ فرمائیں تو ایسے نازک وقت میں آپ کو تکلیف نہ دینی چاہیئے ، کیونکہ اگر امرووحی سے آپ نے کاغذ طلب فرمایا ہے تو تا کید و مبالغہ سے کاغذ طلب فرمائیں گے اور جو کچھ آپ کوحکم ہوگا لکھیں گے۔ کیونکہ وحی کی تبلیغ نبی پر واجب ہے۔ اگر یہ مطلب امرووحی سے نہیں ہے بلکہ چاہتے ہیں کہ فکرواجتہاد کی رو سے لکھیں تو وقت یاوری نہیں کرتا ۔ کیونکہ پایہ اجتہاد آپ کے رحلت فرما جانے کے بعد بھی باقی ہے۔ آپ کی امت کے مستنبط اورمجتہد لوگ کتاب اللہ سے جو دین کا اصل اصول ہے۔احکام اجتہادیہ کو نکال لیں گے اور جب حضور کی موجودگی میں جو وحی کے نزول کا وقت تھا۔ مستنبطوں اورمجتہدوں کے استنباط واجتہاد کی گنجائش تھی۔ تو آپ کے رحلت فرمانے کے بعد جودحی کے ختم ہونے کا زمانہ ہے علماء کا اجتہاد و استنباط بطریق اولے مقبول ہوگا۔ جب آنحضرت ﷺنے اس بارہ میں جدو اہتمام نہ فرمایا بلکہ اس امر سے اعراض فرمایا تو معلوم ہوا کہ آپ کا فرمانا وحی کی رو سے نہ تھا اور وہ توقف جو مجرد استفسار کے لیے ہو۔مذموم نہیں ہے۔ 

ملائکہ کرام نے حضرت آدم علیہ السلام کی خلافت کی وجہ دریافت کرنے کے لیے عرض کیا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ ‌يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ کیا تو ایسے شخص کوخلیفہ بنانا چاہتا ہے جو اس میں فساد کرے گا اور خون گرائے گا اور ہم تیری حمد کرتے ہیں اور تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں۔ 

اور حضرت زکریا علیہ السلام نے حضرت یحی علیہ السلام کی پیدائش کی خوشخبری کے وقت کہا أَنَّى يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَكَانَتِ امْرَأَتِي ‌عَاقِرًا وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا میرے  ہاں کسی طرح لڑ کا ہوگا جبکہ میری عورت با نجھ ہے اور میں از حد بوڑھا ہوں۔ 

اور حضرت مریم علیہا الصلوة والسلام نے کہا أَنَّى يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ وَلَمْ أَكُ بَغِيًّا میرے ہاں کس طرح لڑکا ہو گا جب کہ مجھے کسی بشر نے ہاتھ نہیں لگایا اور میں نافرمان یعنی بدکار بھی نہیں ہوں۔

اگر حضرت فاروق رضی اللہ عنہ نے بھی استفسار اور استفہام کے لیے کاغذ کے لانے میں توقف کیا ہو تو کیا مضائقہ ہے اور کیاشور وشبہ ہے۔

 مقدمہ ششم:یہ ہے کہ آنحضرت ﷺکی شرف محبت کے حاصل ہونے کے باعث صحابہ کرام کے ساتھ حسن ظن ضروری ہے اور اس امر کا جاننا بھی ضروری ہے کہ تمام زمانوں سے بہتر زمانہ نبی ﷺکا زمانہ تھا اور نبی ﷺکے اصحاب انبیا علیہم السلام کے بعد تمام بنی آدم سے بہتر تھے تا کہ یقین ہو جائے کہ نبی ﷺکے رحلت فرمانے کے بعد بہترین زمانہ میں وہ لوگ جو انبیا علیہم الصلوة والسلام کے بعد تمام بنی آدم سے بہتر ہیں۔ باطل عمل پر اجتماع نہ کریں گے اور کافروں اور فاسقوں کو حضرت خیرالبشر علیہ الصلوة والسلام کے جانشین نہ بنائیں گے اور یہ جو ہم نے کہا ہے کہ اصحاب تمام بنی آدم سے بہتر ہیں اس لیے کہا ہے کہ کہ یہ امت نص قرآنی کے ساتھ خیرالامم تمام امتوں میں سے بہتر ثابت ہوچکی ہے اور تمام امت میں سے بہتر اصحاب کرام رضی الله عنہم ہیں۔ کیونکہ کوئی ولی صحابی کے مرتبہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ 

پس کچھ انصاف کرنا چاہیئے کہ اگر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا کاغذ لانے سے منع کرنا کفر کا باعث ہوتا تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ جونص قرآن کے ساتھ اس بہترین امت میں سے سب سے زیادہ متقی ثابت ہو چکے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر تنصیص تصریح نہ کرتے اور مہاجرین و انصار جن کی تعریف حق تعالیٰ  نے اپنے قرآن مجید میں فرمائی 

ہے اور ان سے راضی ہوا ہے اور ان کو جنت کا وعدہ دیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت نہ کرتے اور پیغمبر ﷺکا جانشین نہ بناتے۔ جب آنحضرت ﷺکی صحبت اور اصحاب کے ساتھ حسن ظن جو محبت کا مقدمہ ہے حاصل ہوجائے تو اس قسم کے شبہات کی تکلیف سے نجات مل جاتی ہے اور ان تشکیکات کا باطل ہونا صاف طور پر نظرآ جاتا ہے اور اگر نَعُوذُ ‌بِاَللَّهِ ‌منہ نبی ﷺکی صحبت اور اصحاب کے ساتھ حسن ظن پیدا  نہ ہواور بد ظنی تک نوبت آ جائے تو یہ بد ظنی اس صحبت کے صاحب یعنی صحاب کرام اوران اصحاب کے صاحب یعنی پیغمبر علیہ الصلوة والسلام تک پہنچ جائے گی بلکہ اس صاحب کے صاحب جل شانہ تک چلی جائے گی۔ اس امر کی برائی کو اچھی طرح معلوم کرنا چاہیئے۔ ما امن برسول من لم يوقر أصحابه (جس نے اصحاب کی عزت نہ کی وہ رسول کے ساتھ ایمان نہیں لایا )۔ رسول الله ﷺنے اصحاب کی شان میں فرمایا ہے۔ فَمَنْ ‌أَحَبَّهُمْ، فَبِحُبِّي ‌أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ، فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْجس نے ان کو دوست رکھا، اس نے میری محبت کے باعث ان کو دوست رکھا اور جس نے ان سے بغض کیا، اس نے میرے بغض کے باعث ان سے بغض رکھا۔ 

  اصحاب کی محبت رسول الله ﷺکی محبت کا باعث اور اصحاب کا بغض رسول الله ﷺکے بغض کا موجب ہے۔ 

جب یہ مقدمات معلوم ہو چکے تو بے تکلف اس شبہ کا اور اس قسم کے اور شبہوں کا جواب حاصل ہو گیا۔ بلکہ متعدد اورکئی قسم کے جوابات حاصل ہو گئے ۔ کیونکہ ان مقدمات سے ہر ایک مقدمہ متعدد جوابوں میں سے ایک جواب ہے۔ جیسے کہ گزر چکا ہے اور یہ مقدمات سب کے سب اس شبہ کے مادہ کو توڑ دیتے ہیں اور اس تشکیک کے دفع کرنے میں نظر یعنی دلیل سے حدس یعنی فراست و باریک بینی میں لے آتے ہیں۔کما لا يخفى على الفطين المنصف (جیسے کہ دانا منصف پر پوشیدہ نہیں ہے۔)حدس کا لفظ صرف زبان پر لایا گیا ہے۔ ورنہ اس قسم کی تشکیکات بدیہی البطلان ہیں اور وہ مقدمات جوان شبہات کے باطل کرنے میں لائے گئے ہیں۔ اس بداہت پرتنبیہات کی قسم سے ہیں۔ بلکہ اس قسم کی تشکیکات و شبہات اس فقیر کے نزدیک اس طرح ہیں ۔ جس طرح کوئی پر فن شخص چند بیوقوفوں کے پاس آ کر ایک پتھر کو جو ان کا محسوس ہےملمع اور جھوٹی دلیلوں اور مقدمات سے ان کے سامنے ثابت کردے کہ یہ سونا ہے اور چونکہ یہ بچارے ان وہمی مقدمات کے دفع کرنے میں عاجز ہیں اور ان کے غلط ثابت کرنے میں قاصر ہیں اس لیے شبہ میں پڑ جائیں بلکہ یقین کر لیں کہ یہ سونا ہے اور اپنی حس کو فراموش کر دیں بلکہ متہم جانیں۔ اس مقام پر دانا کی ضرورت ہے۔ جو اس کی ضرورت پر اعتماد کرے اور وہمی مقدمات کو غلط ثابت کرے۔مذکورہ بالا صورت میں بھی خلفاے ثلاثہ بلکہ تمام اصحاب کرام کی بزرگی اور بلندی درجات کتاب وسنت کی رو سے محسوس و مشاہد ہے اور ان بزرگواروں پر طعن کرنے والے جو جھوٹی اورملمع دلیلوں کے ساتھ ان پرطعن وقدح کرتے ہیں  اس پتھر کے حق میں طعن و ملامت کرنے والوں کی طرح بھٹک رہے ہیں اور گمراہ ہورہے ہیں اور اوروں کو بھی گمراہ کررہے ہیں۔ 

َبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ (یااللہ تو ہدایت دے کر ہمارے دلوں کی ٹیڑھانہ کر اور اپنے پاس سے ہم پر رحمت نازل فرما۔ تو بڑا بخشنے والا ہے۔)ہائے افسوس ان لوگوں کو کس نے آمادہ کیا کہ اکابر دین کو گالی نکالیں اور اسلام کے بزرگوں پرطعن لگائیں۔ حالانکہ فاسقوں اورفاجروں میں سے کسی کو گالی نکالنا اور طعن لگانا یہ درجہ نہیں رکھتا کہ شرع میں عبادت و کرامت و فضیلت اور نجات کا وسیلہ سمجھا جائے۔ تو پھردین کے ہادیوں کو گالی نکالنا اور اسلام کے حامیوں کو طعن لگانا کیا کچھ درجہ رکھتا ہوگا۔ شرع میں کہیں نہیں کہ رسول اللہ ﷺکے دشمنوں میں ابوجہل اور ابولہب وغیرہ کو گالی نکالنا اورطعن لگانا عبادت و کرامت میں داخل ہے۔ بلکہ ان سے اور ان کے احوال سے اعراض کرنا اچھا ہے 

اور اس قسم کے بیہودہ امور میں مشغول ہونے اور وقت کے ضائع کرنے سے بہتر ہے تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ ‌خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَیہ لوگ گزر گئے۔ ان کے لیے اپنے اعمال اور تمہارے لیے اپنےعمل کام آئیں گے اور تم سے نہ پوچھا جائے گا کہ وہ کیا عمل کیا کرتے تھے۔ 

حق تعالیٰ  قرآن مجید میں اصحاب پیغمبر کی صف میں ‌رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ فرماتا ہے پس ان بزرگواروں کے حق میں ایک دوسرے کے ساتھ عداوت رکھنے کا گمان کرنا نص قرآنی کے برخلاف ہے نیز ان بزرگواروں میں عداوت و کینہ کا ثابت کرنا فریقین میں قدح وندامت پیدا کرتا ہے اور دونوں گروہوں سے امان کو رفع کرتا ہے۔ جس سے اصحاب کے دونوں گروہوں کا مطعون ہونا لازم آتا ہے۔ ‌نَعُوذُ ‌بِاللَّهِ ‌مِنْ ‌ذَلِكَ اور اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ انبیاءعلیہم الصلوة والسلام کے بعد جو لوگ تمام بنی آدم سے بہتر تھے۔ وہ گویا بدترین مردم تھے اور ان کا بہترین زمانہ بدترین زمانہ تھا اور اس قرن وزمانہ کے لوگ عداوت و کینہ سے موصوف تھے۔ کوئی مسلمان اس بات پر دلیری نہیں کرسکتا اور نہ ہی اس امر کو پسند کر سکتا ہے۔ کتنی بڑی گستاخی اور جرات ہے خلفاء ثلاثہ رضی الله عنہم کو حضرت امیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ دشمنی ہو اور حضرت امیران کے پوشیده دشمن ہیں۔ اس امر میں طرفین کی ندامت و ملامت ہے۔ 

کیوں نہ ہم یوں کہیں کہ آپس میں شیروشکر اور ایک دوسرے میں فانی تھے۔ خلافت کا معاملہ بھی ان کے نزدیک مرغوب و مطبوع نہ تھا۔ جس کو کینہ و عداوت کا موجب قرار دیا جائے۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے أَقِيلُونِي ایعنی مجھ سے بیعت موڑ کر خلافت واپس نے لو) کا ظاہر ہونا مشہور ومعروف ہے اور حضرت فاروق رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر کوئی خریدارمل جائے تو اس خلافت کو ایک دینار کے بدلے بیچ ڈالوں اور حضرت امیر رضی اللہ عنہ نے خلافت کی خواہش کے لیے معاویہ کے ساتھ لڑائی جھگڑا نہیں کیا بلکہ باغیوں کے ساتھ لڑائی کرنا فرض سمجھ کر ان کا مقابلہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ  فرماتا ہے۔ فَقَاتِلُوا الَّتِي ‌تَبْغِي حَتَّى تَفِيءَ إِلَى أَمْرِ اللَّهِ تم باغی گروہ سے یہاں تک لڑو کہ الله تعالیٰ  کی طرف پھر آئے۔ 

حاصل کلام یہ ہے کہ حضرت امیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ لڑائی کرنے والے باغی ہیں۔ جو سب کے سب صاحب تاویل اور صاحب رائے واجتہاد تھے۔ اگر اس اجتہاد میں خطا کاربھی ہوں تو بھی طعن وملامت او تفسیق و تکفیر سے دور اور پاک ہیں۔ 

حضرت امیر رضی اللہ عنہ ان کے حق میں فرماتے ہیں ‌إِخْوَانُنَا ‌بَغَوْا عَلَيْنَاولیسوا کفرة ولا فسقة لما لهم من التاويل (ہمارے بھائیوں نے ہم پر بغاوت کی حالانکہ نہ ہی وہ کافر ہیں اور نہ ہی فاسق کیونکہ ان کے لئے تاویل ہے) امام شافعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں اور حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح منقول ہے کہ تلک د ماه طهرالله عنها ایدینا فلنطھر عنها السنتنا یہ وہ خون ہیں جن سے ہمارے ہاتھوں کو الله تعالیٰ  نے پاک رکھا۔ پس ہم اپنی زبانوں کو ان سے پاک رکھتے ہیں۔

رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ ‌سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ ياللہ ہم اور ہمارے ان بھائیوں کو جو ایمان لے کر ہم سے چلے گئے بخش اور ایمانداروں کے لیے ہمارے دلوں میں کوئی غل وغش نہ چھوڑ یا اللہ توہی مہربان اوررحم کرنے والا ہے۔ والصلوة والسلام على سيد الأنام و على اله وأصحابہ الكرام إلى يوم القيام. 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ308ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں