شریعت اور طریقت کی نماز

شریعت کی نماز:۔

اس نماز کی فرضیت اس آیت کریمہ سے واضح ہوتی ہے ارشاد ربانی ہے۔

حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ (البقرہ:238) سب نمازوں کی پابندی کرو

اس نماز سے مراد ظاہری جوارح ()سے ادا ہونے والے ارکان ہیں جس میں جسم حرکت پذیر ہوتا ہے انسان قیام کرتا ہے قرأت کرتا ہے رکوع و سجود میں جاتا ہے قعدہ کرتا ہے، تلاوت میں آواز ہوتی ہے الفاظ ہوتے ہیں اس لیے حافظوا کا جامع لفظ استعمال کیا گیا ہے۔

طریقت کی نماز:۔

یہ دل کی نماز ہے یہ نماز ابدی ہیں اور اس کا ثبوت اللہ کریم کا یہ فرمان عالیشان ہے۔

وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى (البقرہ:238)اور خصوصاً درمیانی نماز کی

درمیانی نماز سے مراد قلبی نماز ہے کیونکہ دل کو دائیں بائیں اور اوپر نیچے کے اعتبار سے جسم کے درمیان میں پیدا کیا گیا ہے اسی طرح دل سعادت و شقاوت کے بھی درمیان تخلیق ہوا ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے

إِنَّ القُلُوبَ بَيْنَ أُصْبُعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ اللَّهِ يُقَلِّبُهَا كَيْفَ يَشَاءُ(سنن الترمذی)

دل رحمان کی دو انگلیوں کے درمیان ہے وہ ا سے جیسے چاہتا ہے پھر دیتا ہے

دو انگلیوں سے مراد صفت قہر وہ لطف ہے کیونکہ اللہ تعالی انگلیوں سے پاک ہے اس آیت کریمہ اور حدیث مبارکہ کو دلیل بنا کر معلوم کیا جا سکتا ہے اصل نماز دل کی نماز ہے۔

جب کوئی شخص دل کی نماز سے غافل ہو جاتا ہے تو اس کی دونوں نمازیں ٹوٹ جاتی ہیں یعنی دل کی نماز بھی اور جوارح کی نماز بھی جیسا کہ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے

لا صلوۃ الا بحضور القلب حضور قلب کے بغیر کوئی نماز نہیں۔

وجہ یہ ہے کہ نمازی اپنے رب سے ہم کلام ہوتا ہے کلام کامحل دل ہے جب دل غافل رہا تو نماز باطل ٹھہری اور جوارح کی نماز بھی ٹوٹ گئی کیونکہ دل اصل ہے اور باقی اعضاء اس کے تابع  ہیں جیسا کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان مبارک ہے۔

أَلاَ وَإِنَّ فِي الجَسَدِ مُضْغَةً: إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الجَسَدُ كُلُّهُ، أَلاَ وَهِيَ القَلْبُ(صحیح بخاری)

ہاں ہاں جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ایسا بھی ہے کہ اگر صحیح ہو جائے تو سارا بدن صحیح ہو جائے اور اگر بگڑ جائے تو پورا جسم بگڑ جائے یاد رہے وہ گوشت کا  ٹکڑا دل ہے۔

شریعت کی نماز

اس نماز کے لیے وقت مقرر ہے یہ دن رات میں پانچ مرتبہ ادا ہوتی ہے سنت طریقہ یہ ہے کہ یہ نماز مسجد میں باجماعت ادا کی جائے رخ کعبۃ اللہ شریف کی طرف ہو اور انسان امام کی اتباع کر رہا  ہو۔

طریقت کی نماز

یہ نماز پوری زندگی کو محیط ہے اس کی مسجد دل ہے اور جماعت یہ ہے کہ باطن کی ساری طاقتیں اسمائے توحید کےو رد میں مشغول ہوں اور یہ ورد ظاہری زبان سے نہیں باطن کی زبان سے کیا جائے اس نماز میں امام عشق ہوتا ہے جو جان کے محراب میں کھڑا ہوتا ہے ،اس نماز کا قبلہ حضرت احدیت اور جمال صمدیت ہے، اور یہی اصلی کعبہ ہے ، دل اور روح علی الدوام  اس نماز کو ادا کرتے  ہیں دل نہ تو سوتا ہے اور نہ مرتا ہے وہ نیند اور بیداری دونوں حالتوں میں حیات قلبی کے ساتھ بلا صوت(بغیر آواز) قیام اور قعود  اس نماز کی ادائیگی میں مشغول رہے اور بارگاہ خداوندی میں عرض کناں ر ہے۔

إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحہ:5)

تیری ہی ہم عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔

یہ درخواست حضور ﷺ کی اتباع میں ہوتی ہے حضرت قاضی بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے اس آیہ کریمہ میں عارف کے حال کی طرف اشارہ ہے وہ حال (کیفیت قلبی) غیبت سے حضور کی طرف منتقل ہوتا ہے اس لیے وہ اس خطاب کا مستحق بن جاتا ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے۔

الانبیاء والاولیاء یصلون  فی قبورھم   کما یصلون فی بیوتھم( الفاظ کے فرق کے ساتھ مسند البزار میں موجود ہے)

 انبیاء اور اولیاء اپنی قبروں میں بھی اسی طرح نماز پڑھتے ہیں جس طرح اپنے گھروں میں نمازیں ادا کرتے ہیں۔

مطلب یہ ہے کہ ان کے دل زندہ ہیں اس لیے وہ اللہ تعالی کی ذات اور اس کی مناجات میں مشغول رہتے ہیں جب شریعت اور طریقت کی نماز جمع ہو جائے تو نماز مکمل ہوگئی یعنی ایسے آدمی کی نماز ادا ہو چکی ہے ایسے آدمی کو اللہ  تعالیٰ روحانی طور پراپنا قرب بخشتا ہے اورثو اب بھی عطا کرتا ہے ایسا شخص ظاہر میں عابد اور باطن میں عارف ہوتا ہے اور جب طریقت کی نماز حیات قلب کے ذریعے ادا نہیں ہوتی تو اجر ثواب کی صورت میں تو ملتا ہے قربت کی صورت میں نہیں ملتا۔

سر الاسرار،  چودھویں فصل ،شیخ عبد القادر جیلانی، صفحہ  158


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں