فاقوں سے عید جیسی خوشی (انیسواں باب)

فاقوں سے عید جیسی خوشی کے عنوان سے انیسویں باب میں  حکمت نمبر 174 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کو اپنے اس قول میں بیان فرمایا ہے:۔
174) وُرُودُ الفَاقَاتِ أَعيَادُ المُرِيدِينَ.
فاقوں کا ہونا ۔ مریدین کے لئے عید کی خوشی کی طرح ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں ۔ عید :- اس کو کہتے ہیں جو مسرت اور خوشی کے ساتھ بار بار لوگوں کے سامنے آتی ہے۔ پس عوام کی مسرت اور خوشی ، فوائد اور جسمانی عادتوں سے وابستہ ہوتی ہے اور خواص کی خوشی اسمیں ہوتی ہے، کہ اللہ تعالیٰ ان کی طرف متوجہ ہو اور ان کے قلوب زندہ ہوں اور ان کا وقت غیر اللہ کی کثافتوں سے پاک وصاف ہو۔ اور اکثر یہ کیفیتیں صرف فاقہ اورحیرت اور مجبوری کے وقت پائی جاتی ہیں۔ اس لئے کہ اس حالت میں نفس کے فوائد ختم ہو جاتے ہیں ۔ اور نفس پر جتنی زیادہ تنگی واقع ہوتی ہے اتنا ہی زیادہ عالم ملکوت کی طرف سیر کرتا ہے ۔ اور عالم ملکوت میں اس کوآرام اور مسرت اور خوشی حاصل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
وَأَمَّا مَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِۦ ‌وَنَهَى ٱلنَّفۡسَ عَنِ ٱلۡهَوَىٰ فَإِنَّ ٱلۡجَنَّةَ هِيَ ٱلۡمَأۡوَىٰ اور جو شخص اللہ تعالی کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا اور اپنے نفس کو خواہش سے روکا ۔ اس کا ٹھکانہ جنت ہے۔
اور وہ دو جنتیں ہیں۔ ایک جنت معجل ، یعنی فورا حاصل ہونے والی اور دوسری جنت مؤجل یعنی مقررہ وقت پر آخرت میں ملنے والی۔ اسی وجہ سے حضرات صوفیائے کرام نے فقر کو غنا پر اور تنگدستی کو فراخدستی پر اور ذلت کوعزت پر اور بیماری کو تندرستی پر ترجیح دی ہے۔ کیونکہ اس طریقے پر ان کو رقت قلب اور لذت حاصل ہوتی ہے۔ اور جس قدر وہ فاقہ اور محتاجی میں ترقی کرتے ہیں اسی قدر اللہ تعالی ان کو اپنے قرب اور دوستی میں ترقی عطا فرماتا ہے۔
ایک صوفی خانہ کعبہ کا طواف کر رہے تھے ۔ اور یہ کہہ رہے تھے ۔
مُؤْ تَزِرٌ بِشَمُلَتِي كَمَا تَرَى وَصَيَّةٌ بَاكِيةٌ كَمَا تَرَى
میری چھوٹی سی چادر یا رومال میں لپٹی ہوئی اور روتی ہوئی لڑ کی کوتو دیکھ رہا ہے۔
وَامٌرَأَتِي عُرْيَانَةٌ كَمَا تَرَى يَأْمَنُ يَرَى الَّذِي بِمَا وَلَا يَرَى
اور میری بیوی بر ہنہ ہے جیسا کہ تو دیکھ رہا ہے۔ اے وہ ذات مقدس جو ہم کو دیکھ رہی ہے اور خود نظر نہیں آتی ہے۔
ا مَا تَرَى مَاحَلَّ آمَا تَرَى کیا تو نہیں دیکھتا ہے۔ جو کچھ میرے اوپر گزر رہا ہے۔ کیا تو نہیں دیکھتا ہے۔
ایک شخص نے ان کو یہ کہتے ہوئے سنا۔ تو اس نے کچھ درہم جمع کر کے ان کے سامنے پیش کئے ۔ انہوں نے اس سے کہا ۔ یہ میری طرف سے تم لے لو اگر میرے پاس کچھ ہو گا تو پھر میں اس طرح نہ کہہ سکوں گا ۔
حضرت ابواسحق ہر وی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:۔
جو شخص بزرگی کے انتہائی درجے پر پہنچنا چاہتا ہے۔ اس کو چاہیئے کہ سات چیزوں کو ترک کر کے سات چیزوں کو اختیار کرے کیونکہ صالحین ان کو اختیار کر کے اعلیٰ مقام پر پہنچے ہیں۔
صالحین نے دولتمندی کو ترک کر کے محتاجی کو اور آسودگی کو ترک کر کے فاقہ کو اور بلندی کو ترک کر کے پستی کو اور عزت کو ترک کر کے ذلت کو اور تکبر کو ترک کر کے تواضع کو اور خوشی کو ترک کرکے غم کو اور زندگی کو ترک کر کے موت کو اختیار کیا ہے۔
ایک عارف نے فرمایا ہے :۔سچے فقیر کو دولتمندی سے اس خوف سے پوری طرح پر ہیز کرنا چاہیئے ۔ کہ وہ اس کے اندر داخل ہو کر اس کے فقر کو برباد نہ کردے ۔ جیسا کہ دولتمند فقیری سے اس خوف سے بچتا ہے۔ کہ کہیں فقیری اس کی دولتمندی کو برباد نہ کردے ۔ اور عارفین کی عید اور خوشی کےبارے میں یہ اشعار کہے گئے ہیں :-
قَالُوا غَدَ الْعِيْدُ مَاذَا أَنتَ لَا بِسُهُ فَقُلْتُ خِلْعَةُ سَاقٍ حُبُّهُ جُرُعًا
لوگوں نے کہا:- کل عید ہے تم کون سالباس پہنو گے ۔ میں نے کہا۔ میرا لباس جس کی محبت میرے لئے ایک گھونٹ ہے ۔
فَقَرٌ وَ صَبْرٌ هُمَاثَوْبَايَ تَحْتَهُما قَلْبٌ یَرَى الْفَہُ إِلَّا عُبَادَةِ الْجُمْعًا
فقر اور صبر انہیں دونوں کپڑوں میں میرا قلب ملبوس ہے۔ جو اپنے اس محبوب لباس کو عید اور جمعہ سمجھتا ہے۔
أحْرَى الْمَلَابِسِ أَنْ تَلْقَى الْحَبِيْبَ بِهِ يَوْمَ التَّزَاوُرِ فِي الثَّوْبِ الَّذِي خُلِعًا
وہی بہترین لباس ہے کہ اپنے دوست سے ملاقات کے دن تم اس کپڑے کو پہن کر ملوجو تم کو پہنا دیاگیا ہے
الدَّھْرُلِى مَا ثَم إِن غِبْتَ يَا أَمَلِي وَالْعِیْدُ مَا كُنتُ مَرَأى لى وَمُسْتَمِعًا
اے میرے مقصود جب میں تم سے دور ہو جاتا ہوں تو زمانہ میرے لئے تاریک ہو جاتا ہے۔ اور جب تم میرے سامنے ہوتے ہو اور میں تمہاری باتیں سنتا ہوں تو زمانہ میرے لئے عید ہو جاتا ہے
اور ایک دوسرے شاعر کا کلام ہے :-
قالت هنَا الْعِيْدُ بِالبَشْرَى فَقُلْتُ لَهَا الْعِیْدُ وَالبِشْرُ عِنْدِي يَوْم لقياك
اس نے کہا:- وہاں خوشی کے ساتھ عید ہے۔ تو میں نے اسےکہا :- میری عید ہے اور خوشی تمہاری ملاقات کا دن ہے۔
اللَّهُ يَعْلَمُ أَنَّ النَّاسَ قَدْ فَرِحُوا فِيْهِ وَ مَا فَرْحَتِي إِلَّا بِرُؤْيَاكَ
اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ لوگ عید میں خوشی مناتے ہیں۔ اور میری خوشی صرف تمہارے دیدار میں ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں