نفس و آفاق کا معاملہ مکتوب نمبر 3 دفتردوم

 اس بیان میں کہ نفس و آفاق کا معاملہ ظلال میں داخل ہے اور ولایت صغری و کبری اور کمالات نبوت اور تجلی افعال کی حقیقت کی تحقیق میں جس کو بعض صوفیہ نے بیان کیا ہے کہ وہ تجلی حق تعالی کے فعل کا ظل ہے نہ کہ عین فعل ۔ توپھر صفات وذات کا کیا حال ہوگا۔ حقائق ومعارف کو جاننے والے فیض الہی کے مظہر مخدوم زادہ خواجہ محمد سعید سلمہ اللہ تعالی کی طرف صادر فرمایا ہے: 

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (الله تعالی کا حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو) 

 جو کچھ انفس وآ فاق کےآئینوں میں ظاہر ہوتا ہے، اس پر ظلیت کا داغ لگاہوتا ہے۔ اس واسطےنفی کے لائق ہے تا کہ اصل ثابت ہو جائے۔ جب نفس و آفاق سے معاملہ گزر جاتا ہے تو ظلیت کی قید چھوٹ جاتے ہیں اور فعل و تجلی کا آغاز ہوجاتا ہےاور معلوم ہو جاتا ہےکہ اس سے پہلے سیرانفسی وآفاقی  میں جو تجلی ظاہر ہوئی تھی، اگرچہ اس کو تجلی ذاتی جانتے ہیں لیکن فعل وصفت کے ظلال سے تعلق تھی نہ کہ نفس فعل وصفت کے ساتھ تو پر ذات  کاکیا ذکر ہے کیونکہ دائرہ ظلیت انفس کے نہایت منتہی ہو جاتا ہے۔ پس جو کچھ انفس و آفاق میں ظہور کرنا ہے سب اس دائرہ میں داخل ہے۔فعل وصفت بھی اگر چہ حقیقت میں حضرت ذات تعالی و تقدس کے ظلال ہیں لیکن دائرہ اصل(دائرہِ اصل سے مُراد ذات کے اسماء و صفات اور اور شیونات و اعتبارات کے مراتب ہیں اس دائرے کا تعلق عالمِ وُجوب سے ہے یہ مرتبہ کسی لفظ ، عبارت ، اشارے یا کنائے کے ذریعے بیان نہیں کیا جاسکتا اس مرتبے میں سالک کو سَیرِ علمی واقع ہوتی ہے اس سیر کا نام سیر فی اللہ ہے۔) میں داخل ہیں۔ اس دائرہ کی ولایت اصلی ہے برخلاف پہلے مرتبہ کی ولایت کے جوانفس و آفاق سے تعلق رکھتی تھی۔ جس کو ولایت ظلی کہتے ہیں۔ دائرہ ظل کے منتہیوں کو تجلی برقی جو مرتبہ اصل سے پیدا ہوتی ہے میسر ہوتی ہے جو ایک ساعت کے لیے ان کو آفاق وانفس کی قید سے رہا کر دیتی ہے اور وہ لوگ جو دائرہ آفاق وانفس سے گزر جاتے ہیں اورظل سےاصل کے ساتھ جا ملتے ہیں۔ یہ تجلی برقی ان کے حق میں دائمی ہوتی ہے کیونکہ ان بزرگواروں کا مسکن وماوی دائرہ  اصل ہے جہاں سے تجلی برقی ظاہر ہوتی ہے بلکہ ان بزرگواروں کا معاملہ تجلیات  وظہورات سے بڑھ کر ہوتا ہے کیونکہ ہر ایک تجلی وظہور خواه وہ کسی مرتبہ سے تعلق رکھے ، ظلیت کی آمیزش سے خالی نہیں ہوتی ۔ لیکن ان بزرگواروں کو اصل الاصل کی گرفتاری نے ظل سے فارغ اور زیغ بصر سے آزاد کر دیا ہوتا ہے۔ 

ولایت ظلی جس کو ولایت صغریٰ  کہتے ہیں، اس کا نہایت کمال تجلی برقی کے ظاہر ہونے سے حاصل ہو جاتا ہے۔ یہ تجلی برق ولایت کبری میں جو انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی ولایت ہے، پہلا قدم ہے اور ولایت صغریٰ  اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کی ولایت ہے۔ اس بیان سے اولیاء کی ولایت کا اور انبیاء کی ولایت کا فرق معلوم ہو جاتا ہے کہ اولیا کی ولایت کی انتہاء انبیاء کی ولایت کی ابتداء ہے۔ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی نبوت کے کمالات کا ذکر کیا جائے جبکہ اس ولایت کی انتہاء نبوت کی ابتداء ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ نے انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی ولایت سےتبعیت و وراثت کے طور پر حصہ پایا ہے جس کے سبب انہوں نے فرمایا ہے کہ(ما نہایت را در بدایت درج می کنیم) ہم نہایت کو بدایت میں درج کرتے ہیں۔ 

فقیر اس قدر جانتا ہے کہ نقشبندیہ نسبت وحضور جب کمال تک پہنچ جاتے ہیں تو ولایت کبری سے جاملتے ہیں اور اس ولایت کے کمالات سے حظ وافر (پورا پورا حصہ)  حاصل کر لیتے ہیں۔ برخلاف دوسرے طریقوں کے کہ جن کے کمال کی نہایت تجلی برقی تک ہی ہے۔ 

 جاننا چاہئے کہ وہ سیر جو آفاقی( سلوک کا ایک مرتبہ بے حاصلگی) وانفسی( سلوک کا ایک مرتبہ اپنے سے باہر کچھ نہ دیکھےآفاقی سے بہت بلند ہے) سیر کے بعد میسر ہوتا ہے، وہ حق تعالی کی اقربیت(زیادہ قریب ہونا) میں سیر ہوتا ہے کیونکہ حق تعالی کا فعل بھی ہم سے ہماری نسبت زیادہ نزدیک ہے اور حق تعالی کی صفت بھی اس کے اپنے فعل کی اور ہماری نسبت ہم سے زیادہ نزدیک ہے اور حق تعالی کی ذات بھی اس کے فعل وصفت کی اور ہماری نسبت ہم سے زیادہ نزدیک ہے۔ ان مراتب کاسیر حق تعالی کی اقربیت کا سیر ہے۔ اس مقام میں تجلی فعل اورتجلی صفت اور تجلی ذات متحقق و ثابت ہو جاتی ہیں اور وہم کی سلطنت اور خیال کے دائرہ سے اس مقام میں نجات حاصل ہو جاتی ہے کیونکہ سلطان وہم و خیال کا غلبہ دائرہ انفس و آفاق کے باہر میسر نہیں۔ وہم کی نہایت ظل کی نہایت تک ہی ہوتی ہے جہاں ظل  نہ ہو وہاں وہم بھی نہیں ہوتا۔ 

پس معلوم ہوا کہ ولایت ظلی میں موت کے بعد جب کہ دہم معدوم ہو جائے، وہم سے خلاصی حاصل ہوتی ہے لیکن ولایت اصلی میں جو ولایت کبری ہے، اسی جہان میں وہم وخيال کی قید سے آزادی حاصل ہو جاتی ہے اور وہم کے باوجود وہم کی قید سے آزاد ہوتے ہیں۔ پہلے گروہ کو جو کہ آخرت میں جا کر حاصل ہوگا، وہ دوسرے گروہ کو اسی جگہ میسرہوتا ہے۔ ولایت ظلی میں حصول مطلب اس جہان میں وہم و خیال کاتراشیدہ اور بنایا ہوا ہوتا ہے اور ولایت اصلی میں مطلوب وہم کی تراش وخراش سے منزہ ومبراء ہوتا ہے۔ 

شاید حضرت مولانا روم رحمتہ اللہ عليہ وہم و خیال کے احاطہ اور قید سے  تنگ آ کر موت کی آرزو کرتے ہیں تا کہ وہم و خیال سے اپنے مطلوب کو پائیں اوائل موت میں ’’عافاک اللہ ‘‘سےمنع کر کے فرماتے ہیں۔ 

من شوم عریاں زتن اواز خیال         تاخر ام در نہايات الوصال

 ترجمہ: دور ہوں مجھے یہ سب وہم و خیال تا کہ پاؤں یارکااعلی وصال

 جو میں نے کہا ہے کہ انفس وآفاق میں افعال وصفات کے ظلال کےتجلیات ہیں نہ کہ نفس افعال و صفات کے تجلیات، اس کا بیان یہ ہے کہ تکوین صفات حقیقیہ سےہے کہ علماء ماتریدیہ (اعتقادی مسائل میں اہلسنت و جماعت کا ایک گروہ)شکر اللہ تعالی سعیہم کا مذہب ہے نہ کہ صفات اضافیہ سے ہےجیسا کہ اشعریہ (اعتقادی مسائل میں اہلسنت و جماعت کا ایک گروہ)کایہ گمان ہے۔ اس صفت میں چونکہ اضافت کارنگ غالب ہے۔ اس واسطے اشعریہ نے دوسری صفات کی طرف نظر کرکے اس کو بھی صفات اضافیہ سے گمان کیا ہے لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ وہ صفت صفات حقیقیہ سے ہے جس کے ساتھ اضافت کا رنگ مل گیا ہے۔ صفت تکوین تمام صفات سے پیچھے ہے اور تمام صفات عالیہ کا رنگ رکھتی ہے۔ مثلاعلم و حیات سے بھی حصہ رکھتی ہے اور قدرت وارادت سے بھی اور اس صفت تکوین کے کئی جزئیات ہیں جو حقیقت میں اس کے ظلال ہیں۔ جیسا کہ تخلیق ( پیدا کرنا) اور ترزیق (رزق دینا) اور احیاء واماتت (زندہ اور مردہ کرنا) اور انعام و ایلام وغیرہ وغیرہ۔ 

یہ جزئیات افعال میں داخل ہیں جو درحقیقت اس صفت  کے قائل ہیں اور صفات کے دائرہ سے خارج ہیں اور اس عمل کی دو جہتیں ہیں۔ ایک جہت فاعل کی طرف ہے اور دوسری مفعول کی طرف اور پھر دونوں جہتیں نظرکشفی میں ایک دوسرے سےمتمیز ہیں۔ پہلی جہت عالی ہے اور دوسری بہت سافل یعنی نیچی نیز جہت اول  اصل کی  طرح نظر آتی ہے اور جہت دوم اس اصل کےظل کی طرح دکھائی دیتی ہے اور نیز جہت اول میں وجوب کارنگ ملا ہوا ہوتا ہے  اور جہت دوم میں امکان کا رنگ یہ دوسری جہت انبیاء علیہم الصلوة والسلام کے سوا باقی تمام اولیائے کرام اورمخلوقات کے تعینات کی مبادی ہے۔ حق تعالی کا یہ فعل چونکہ دونوں جہتوں کے اعتبار سے وجوب کا اور ممکن کا رنگ رکھتا ہے، اس لیے ممکن ہے کیونکہ جو واجب اورممکن سے مرکب ہے، وہ ممکن ہے نیز یہ فعل چونکہ اوپر کی جہت کے اعتبار سے قدم کی طرف توجہ رکھتا ہے اورنیچی جہت کے اعتبار سے حدوث میں قدم رکھتا ہے۔ اس لیے حادث ہے کیونکہ قدیم وحادث سے مرکب حادث ہوتا ہے۔ 

جن لوگوں نے حق تعالی کے فعل کو قدیم کہا ہے انہوں نے جہت اول کی طرف نظر کر کے کہا ہے اور جنہوں نے حق تعالی کے فعل کو حادث کہا ہے، ان کی منظور نظر دوسری جہت ہے۔ اول گروہ کی نظر بلند ہے اور دوسرے گروہ کی نظر پست لیکن یہ دونوں گروہ حق کو چھوڑ کر افراط و تفریط کی طرف جا پڑے ہیں اورحق متوسط وہی ہے جس کے ساتھ فقیرممتاز ہوا ہے۔ ۔ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ( یہ الله تعالی کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور الله تعالی بڑے فضل والا ہے۔)

) صفات حقیقیہ کی اسی قسم کی تحقیق بعض اور مکتو بوں میں بھی لکھی جا چکی ہے اور وہاں سے طلب فرمائیں۔ 

جاننا چاہئے فعل کی جہت دوم سے مرادخلق خاص ہے جس کا تعلق زید کے ساتھ ہے اور یہ خلق زیدگویاخلق مطلق کی جزئیات میں سے ایک جزئی ہے۔ یہ خلق خاص بھی جو زید سے تعلق رکھتی ہے، بہت سی جزئیات رکھتی ہے ہے جیساکہ زید کی ذات کا خلق اور زید کی صفات کا خلق اور زید کے افعال کاخلق اور خلق زید کی یہ جزئیات اس خلق زید کے لیے جو کلی کی طرح ہے۔ ظلال کی مانند ہیں اور زید کےفعل کے خلق کا بھی ایک ظل اور مظہر ہے اور وہ زید کا کسب ہے جس کا تعلق فعل سے ہوا ہے۔ اس کسب کو زید اپنے باپ کے گھر سے نہیں لایا بلکہ اس کا کسب حق تعالی کی خلق کا پرتو ہے۔ پس ان معارف سے معلوم ہوا ہے کہ حق تعالی کافعل تکوین کاظل ہے او فعل کی جہت ثانی جہت اول کاظل ہے جیسے کہ تحقیق پا چکا ہے اور جہت دوم کا بھی ظل ہے جوخلق زید ہے اورخلق زید کا بھی ظل ہے جو فعل زید کی خلق ہے اور اس ظل کا بھی ظل ہے۔ جو زید کا کسب ہے۔

جب یہ علوم معلوم ہو چکے تو پھر جاننا چاہئے کہ سالکوں کی نظر میں سلوک کے وقت جب  زید کے کسب کی نسبت زید سے منتفی(نیست و نابود) ہو جاتی ہے اور اس کی وہ اضافت جوزید کی طرف ہے، دور ہو جاتی ہے تو اس فعل کا فاعل حق تعالی ہی کو جانتے ہیں بلکہ مخلوقات کے بے شمار اور مختلف افعال کو ایک سی فاعل کا فعل سمجھتے ہیں اور اس معنی کے ظہور کوتجلی افعال خیال کرتے ہیں ۔ ذرا انصاف کرنا چاہئے کہ یہ تجلی حق تعالی کے فعل کی تجلی ہے یا اس فعل کے ظلال میں سے ایک ظل کی تجلی  ہے جس نے کئی مراتب میں تنزل کر کے ظلیت کا نام پایا ہے۔ دوسرے تجلیات (غیبی انوار دلوں پر ظاہر ہونا)  کو بھی تجلی فعل پر قیاس کرنا چاہئے کہ ظلال میں کسی ظل پر کفایت کر کے اس کو اصل الاصل خیال کر رہے ہیں اور جوز و مویز(اخروٹ و منقی) پرتسلی کیے بیٹھے ہیں۔ 

جاننا چاہئے کہ وجوب وجود چونکہ نسبت و اضافت ہے، اس لیے مرتبہ فعل میں پایا جاتا ہے اور جب یہ نسبت عالم کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتی بلکہ صانع عالم کے ساتھ مخصوص ہے تو فعل کی جہت اول سے جو اوپر ذکر ہو چکی ہے، مناسب ہوگی۔ اگر کہیں کہ اس بیان سے لازم آتا ہے کہ حق تعالی کی ذات کے مرتبہ میں وجوب ثابت نہیں ہے اور نہ حق تعالی کی ذات و صفات کو واجب کہا جاتا ہے۔ پس وجوب بھی حضرت ذات و صفات سے مسلوب ہوگا جیسے امکان و امتناع اس حضرت جل شانہ سے مسلوب ہیں۔ پس وجوب و امکان و امتناع کے سوا چوتھی قسم پیدا ہوگئی۔ حالانکہ انحصار نقلی انہیں تین چیزوں میں ثابت ہو چکا ہے تو میں کہتا ہوں کہ یہ انحصار اس کے وجود کی نسبت صرف ماہیت کے لیے ہے کیونکہ اس مقام میں ماہیت کو وجود کی طرف کوئی نسبت نہیں اور نہ ہی کوئی ا نحصار ہے۔ جیسے کے حق تعالی کی ذات و صفات میں کیونکہ حق تعالی کی ذات بذات خود موجود ہے۔ نہ کہ کسی وجود کے ساتھ خواہ وہ وجودعین ہو یا زائد اور حق تعالی کی صفات اس کی ذات کے ساتھ موجود ہیں۔ 

سوائے اس کے کہ ان میں وجود کا دخل ہو۔ پس حق تعالی کی ذات و صفات ان تینوں منحصرہ چیزوں سے برتر اور بلند ہیں۔ 

حاصل کلام یہ کہ جب وجود اور اعتبارات سے حق تعالی کی ذات کا تصور اور اس کی صفات میں غور کیا جاتا ہے۔ کیونکہ اس کی کنہ(ماہیتِ الٰہی جو ادراک سے پرے ہے۔انتہا، غایت) کی طرف کوئی راہ نہیں تو اس کی ذات کے لیے وجود تصوری ظلی میں وجوب کا عارض ہوتا ہے جو تعالی کی غنا کے مناسب اورلائق ہے اور اس کی صفات کے لیے وجود ذہنی میں امکان عارض ہوتا ہے جو ان کے لیے مناسب ہے۔ اس  لیے کہ ذات کی طر ف محتاج ہیں۔ پس حق تعالی کی ذات وصفات في نفسها مرتبہ وجوب و امکان بلکہ مرتبہ وجود سے بھی برتر اور بلند ہیں اور وجودتصوری ظلی کے اعتبار سے وجوب ذات کے لیے مناسب ہے اور امکان صفات کے مناسب ۔ پس صفات وجود خارجی کے لحاظ سے نہ واجب ہیں ممکن۔ بلکہ واجب و امکان سے برتر ہیں اور وجود ذہنی کے اعتبار سے ممکن ہے اور اس امکان سے حدوث لازم نہیں آتا کیونکہ امکان ان کی ذات یعنی اصلوں کے لیے نہیں ہے بلکہ ان کے ظلی وجودوں کے لیے ہے۔ یہی معرفت کے مناسب ہے۔ یہ مقولہ جو معقول والوں نے کہا ہے کہ کلیت اور جزئبیت دونوں وجودذہنی کی خصوصیت کے اعتبار سے ماہئیت کو عارض ہوتی ہیں لیکن وجود خارجی کی حالت میں ان دونوں کے ساتھ ماہیت موصوف نہیں ہوسکتی۔ مثلا زیدجوخارج میں موجود ہے تعقل سے پہلے جزئی نہیں جیسے کہ کلی بھی نہ تھا بلکہ وجود ذہنی ظلی کے بعد جزئیت اس کو عارض ہوگی بلکہ ہم کہتے ہیں کہ تمام نسبتیں اور اضافتیں اور احکام و اعتبارات جوحق تعالی پر محمول کیے جاتے ہیں۔ مثلا الوہیت اور ربوبیت اور اولیت اور ازلیت وغیرہ سب صفات ثمانیہ موجودہ کے ماسوا ہیں جو تعالی پر تصور اور تعقل کے اعتبار سے صادق آتی ہیں۔ 

 ورنہ حق تعالی کی ذات اصل میں کسی صفت سے متصف اور کسی اسم سے موسوم اور کسی حکم کےمحکوم نہیں ہے۔ صاحب شرع جوحق تعالی کی ذات پر اسماء و احکام کا اطلاق کیا ہے تو وہ با اعتبار تناسب اور تشابہ کے ہے تا کہ مخلوقات کی سمجھ میں آ سکے اور ان کے ساتھ ان کی عقول کے موافق گفتگو ہو سکے۔ مثلا زید کے لیے جو خارج میں موجود ہے۔ اس کے وجو دذہنی کے ملاحظہ کے بغیر تشبیہ اور تنظیر(مثال) کے طور پر کہا جائے کہ وہ جزئی ہے تو اس کے کلی ہونے کے احکام کی نسبت جزئی ہونے کے احکام زید کے لیے بہت ہی مناسب اور مشابہ ہوں گے۔ اسی طرح اس ذات بے نیاز اور بلند پرامکان اور امتناع کے حکم کی نسبت وجوب اور وجود کا حکم بہتر اور مناسب ہے ورنہ اس کی جناب پاک تک  نہ وجوب پہنچ سکتا ہے نہ وجود جیسے کہ اس کی پاک بارگاہ کے لیے امکان اور امتناع لائق نہیں۔ اس شریف اور پاکیزہ معرفت کو غور سے سمجھنا چاہئے کیونکہ یہ معرفت دین کی بنیاد اور حق تعالی کی ذات و صفات کے علم کا خلاصہ ہے۔ یہ معرفت کہ جس کے لیے حق تعالی نے اس حقیر بندہ کو برگزیدہ اور مختار کیا ہے، آج تک کسی ولی اور بزرگ نے بیان نہیں کی۔ 

وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى (سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایت اختیار کی )

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ27 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں