کامل استقامت کے بغیر کرامت (بیسواں باب)

کامل استقامت کے بغیر کرامت کے عنوان سے بیسویں باب میں  حکمت نمبر 179 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

بیسواں باب

کرامات ، کلام و بیان ،سوال، کے بیان میں حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) رضی اللہ عنہ نے فرمایا:-
179) رُبَّمَا رُزِقَ الْكَرَامَةَ مَنْ لَمْ تَكْمُلْ لَهُ الاسْتِقَامَةُ.
اکثر اوقات اس شخص سے بھی کرامت صادر ہو جاتی ہے۔ جس کو مکمل استقامت حاصل نہیں ہوتی ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ محسوس ظاہری کرامت :- یہ ہے ۔ پانی پر چلنا ، ہوا میں اڑنا ، زمین کا فاصلہ ختم ہو جانا ، پانی کا چشمہ جاری ہونا ، کھانا حاضر کر دیا، پوشیدہ باتوں سے واقف ہو جانا اور ان کے علاوہ دوسرے خرق عادات ( عادتوں کے خلاف واقعات ) کا صادر ہونا ۔ حقیقی باطنی کرامت – یہ ہے ۔ بندے کی اپنے رب کے ساتھ ظاہری و باطنی استقامت ،اس کے قلب سے حجاب کا دور ہو جانا ، اس طرح کہ اس کو اپنے مولائے حقیقی کی معرفت حاصل ہو جائے ، اپنے نفس اور اس کی خواہش پر غالب ہونا، اس کے یقین اور اطمینان کا مضبوط ہونا ہے۔ اور محققین عارفین کے نزدیک یہی کرامت معتبر ہے۔
اور عارفین :- محسوس ظاہری کرامات کو نہ چاہتے ہیں۔ نہ اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔
کیونکہ ظاہری کرامت ، اس شخص سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔ جس کی استقامت مکمل نہیں ہوتی ہے۔ بلکہ ایسے شخص سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔ جس کو بالکل استقامت حاصل نہیں ہوتی ہے۔ جیسے جادو گر اور کا ہن اور راہب سے بھی ظاہر ہوتی ہے اور یہ کرامت نہیں ہے۔ بلکہ یہ در حقیقت استدراج ہے۔
حضرت شیخ ابوالحسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے :۔ صرف یہی دو کرامتیں جامع اور محیط ہیں۔
اول:- ایمان کی کرامت ، یقین کی ترقی اور عیان شہود کے ساتھ۔
دوم :۔ عمل کی کرامت ، اطاعت اور اتباع کے ساتھ اور دعوں اور فریب کاری سے کنارہ کشی کے ساتھ۔
تو اگر کسی شخص کو یہ دونوں کرامتیں عطا کر دی جائیں۔ لیکن وہ ان دونوں کے علاوہ دوسری اشیاء کا مشتاق ہو۔ تو وہ دھوکا باز اور جھوٹا ہے۔ یا علم وعمل میں سیدھے راستے سے بھٹک گیا ہے۔ ایسے شخص کی مثال :- اس شخص کی طرح ہے۔ جس کو بادشاہ کی رضا مندی اور مشاہدے کا شرف حاصل ہو جائے لیکن وہ بادشاہ کی رضا مندی کی پرواہ نہ کر کے جانوروں کا انتظام اور دیکھ بال کا مشتاق ہوجائے۔
حضرت شیخ ابوالحسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے :۔ جس کرامت کے ساتھ اللہ تعالی کی رضامندی نہ ہو۔ ایسی کرامت والا شخص مستدرج، دھوکا میں مبتلا ہے۔ یا ناقص ہے۔ یا ہلاک ہونے والا ہے ۔ یا ہلاک ہو چکا ہے
حضرت شیخ ابو العباس مرسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے :۔ اس شخص کے اندر کچھ کمال نہیں ہے۔ جس کے لئے زمین کا فاصلہ ختم کر دیا جائے۔ کہ ابھی وہ مکہ معظمہ میں ہے۔ اور ابھی وہ دوسرے شہر میں ہے۔ بلکہ در حقیقت کمال ، اس کے اندر ہے، جس کے نفس کی صفات ختم ہو جائیں اور وہ اچانک اپنے رب کے قریب پہنچ جائے۔ میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ حقیقی کرامت :- دین پر مضبوطی سے قائم ہونا اور کامل یقین کا حاصل ہوناہے۔ اور محسوس ظاہری کرامت کے ساتھ اگر ظاہری و باطنی استقامت بھی حاصل ہو۔ تو ایسے صاحب کرامت بزرگ کی تعظیم واجب ہے۔ کیونکہ استقامت کے ساتھ (1) کرامت اس کے اندر موجود کمال کی شہادت ہے اور اگر ظاہری کرامت کے ساتھ استقامت (2) نہ ہو تو اس کا کچھ اعتبار نہیں ہے۔ اور اکثر ایسا ہوتا ہے ۔ اہل باطن کی کرامت باطنی ہوتی ہے۔ مثلا حجاب کا دور ہونا ، ایمان کی زیادتی اور شہود وعیاں کی معرفت ۔
اور اسی طرح اہل باطن کے ستانے اور تکلیف پہنچانے والوں کی سزا بھی باطنی ہوتی ہے۔ جس کو وہ ستانے والےسمجھتے بھی نہیں ہیں۔ جیسے کہ دل کا سخت ہو جانا ، اس طرح کہ حق باتیں سمجھنے کی صلاحیت باقی نہ رہے اور گناہوں میں پوری طرح منہمک ہونا اللہ تعالیٰ سے غافل اور اس کی بارگاہ سے دور ہونا۔ لیکن وہ اس کو سزا نہیں سمجھتے ہیں ۔ حالانکہ یہ ظاہری محسوس سزا سے بہت بڑی سزا ہے ۔ حاصل یہ ہے :۔ ظاہری استقامت والوں کی کرامت محسوس ظاہری ہوتی ہے اور باطنی استقامت والوں کی کرامت حقیقی باطنی ہوتی ہے۔ ظاہری استقامت والے کے ستانے والوں کو ظاہری سزا ملتی ہے۔ اور باطنی استقامت والے کے ستانے والوں کو باطنی سزا ملتی ہے۔ اور کبھی ان ستانے والوں کو کچھ بھی سزا نہیں دی جاتی ہے۔ کیونکہ اہل باطن سراپا رحمت ہوتے ہیں۔ جو شخص بھی ان سے قریب ہوتا ہے۔ ان کی رحمت اس کے شامل ہوتی ہے۔ خواہ وہ تسلیم کرتے ہوئے قریب ہو، یا انکار کرتے ہوئے قریب ہو ۔ وہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کے پاس بیٹھنے والا بد بخت نہیں ہوتا ہے۔ اس لئے کہ وہ حضرت نبی کر یم ﷺ کی قدم بہ قدم پیروی کرتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت نبی کریم ﷺ نے انتہائی تکلیف پہنچانے والے کافروں کے حق میں فرمایا:-
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ اے اللہ امیری قوم کو معاف فرما دے۔ کیونکہ یہ لوگ جانتے نہیں ہیں۔
اور جس ولی کی ذات بابرکات سے اللہ تعالی لوگوں کو فیض پہنچانا چاہتا ہے۔ وہ حضرت رسول کریم ﷺ کی پیروی کی بنا پر اپنے ستانے والوں کے سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نبی کریم ﷺ کو اختیار دیا۔ کہ پہاڑوں کے فرشتے کو جس طرح چاہیں حکم دیں۔ اور پہاڑوں کے فرشتے نے حاضر ہو کر عرض کیا :- اگر آپ حکم دیں ۔ تو میں دونوں پہاڑوں کو اس شہر پر الٹ کر سب کو ہلاک کر دوں لیکن حضرت رسول کریم ﷺ نے برداشت فرمایا اور ستانے والوں کو معاف کر دیا۔ اور فرمایا:-
لَعَلَّ اللَّهُ أنْ تُخْرِجَ مِنْ أَصْلَابِهِم مَنْ يَقُولُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے پشتوں سے ایسے لوگوں کو پیدا کرے۔ جولا الہ الا اللہ کا اقرار کریں۔والله تعالیٰ اعلم


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں