کفرحقیقی و اسلام حقیقی مکتوب نمبر95دفتر دوم

کفرحقیقی و اسلام حقیقی کے سوال کے جواب میں مقصودعلی تبریزی کی طرف صادر فرمایا ہے:۔ 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ . اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (الله تعالیٰ  کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو) آپ کاصحیفہ شریفہ پہنچا۔ جس میں صوفیاء کی بعض باتوں کی نسبت استفسار درج تھا۔ 

میرے مخدوم ! وقت و مکان اگر چہ گفت ونوشت کا تقاضا نہیں کرتا، لیکن سوال کا جواب دینا ضروری ہے۔ اس لیے چند کلمے لکھے جاتے ہیں۔ 

ان تمام سوالوں کے حق میں مجمل کلام یہ ہے کہ جس طرح شریعت میں کفرواسلام ہے۔ طریقت میں بھی کفرواسلام ہے۔ جس طرح شریعت میں کفر سراسر شرارت و نقص ہے اور اسلام سراسر کمال ہے۔ طریقت میں بھی کفر سراسرنقص ہے اور اسلام سراسرکمال ہے۔ کفر طریقت مقام جمع سے مراد ہے۔ جواستتار یعنی پوشیدہ ہونے کامحل ہے۔ اس مقام میں حق و باطل کی تمیز مفقود ہوتی ہے، کیونکہ اس مقام میں سالک کا مشہود(مشاہدہ)  اچھے برے آئینوں میں وحدت محبوب(حق جل و علا) کا جمال ہوتا ہے۔ پس خیر وشر نقص و کمال کو اس وحدت کے ظلال اور مظاہر کے سوا نہیں پاتا۔ اس لیے انکار کی نظر جو تمیز سے پیدا ہوتی ہے اس کےحق میں معدوم ہے جس کے باعث سب کے ساتھ مقام صلح میں ہے اور سب کو راہ راست پر معلوم کرتا ہے اور اس آیت کے مضمون کے مطابق گیت گاتا ہے مَا مِنْ ‌دَابَّةٍ إِلَّا هُوَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا إِنَّ رَبِّي عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ ( کوئی جانور روئے زمین  پر چلنے والا نہیں ہے۔ جس کو اس نے پیشانی سے پکڑا ہوا نہیں۔ بیشک میرارب سیدھے راستہ پر ہے) کبھی مظہر کوعین ظاہر جان کر خلق کو عین حق خیال کرتا ہے اور مربوب کو عین رب جانتا ہے۔ اس قسم کے سب پھول مر تبہ ہی سے کھلتے ہیں ۔ منصوراسی مقام میں کہتا ہے۔ 

‌كفرت ‌بدين الله والكفر واجب                    لدي وعند المسلمين قبيح

 ترجمہ: ہوا کافر میں دین حق سے مجھ کو کفر بہتر ہے ۔ اگر چہ سب مسلمانوں کے ہاں وہ کفر بدتر ہے

یہ کفر طریقت کفر شریعت کے ساتھ بڑی مناسبت رکھتا ہے لیکن شریعت کا کافر مردود اور عذاب کا مستحق ہے اور کافر طریقت مقبول اور اعلی درجات کے لائق ہے، کیونکہ یہ کفر و استتار محبوب حقیقی کے غلبہ محبت سے پیدا ہوا ہے۔ جس کے باعث محبوب حقیقی کے سوا سب کچھ فراموش ہو جاتا ہے۔ اس لیے مقبول ہے اور وہ کفر چونکہ تمردیعنی سرکشی اورجہل کے غلبہ سے پیدا ہوتاہے۔ اس لیے مردود ہے اور اسلام طریقت مقام فرق بعد الجمع سے مراد ہے جو تمیز کا مقام ہے جہاں حق باطل سے اور خیر شر سے متمیز ہے۔ اس اسلام طریقت کو اسلام شریعت کے ساتھ بڑی مناسبت ہے۔ جب اسلام شریعت کمال تک پہنچ جاتا ہے تو اس اسلام طریقت کے ساتھ اتحاد کی نسبت پیدا ہو جاتی ہے۔ بلکہ ہر دوا سلام اسلام شریعت ہیں۔ اس کے درمیان فرق ظاہر شریعت اور باطن شریعت اور صورت شریعت اور حقیقت شریعت کا ہے۔ کفر طریقت کا مرتبہ صورت شریعت کے اسلام سے بلند تر ہے۔ اگرچہ حقیقت شریعت کے اسلام کی نسبت کمتر ہے۔ 

آسمان نسبت بعرش آمد فرود ورنہ بس عالی ست پیش خاک تود

 ترجمہ : عرش  سے نیچے ہے بیشک آسمان  ہے مگر اس زمیں سے بہت بلند

مشائخ قدس اسرار ہم سے جنہوں نے شطحیات(وہ کلمات جو واصلین کاملین سے حالت مستی و غلبہ شوق میں  بے اختیار نکلےظاہر شریعت کے خلاف ) نکالی ہیں اورمخالف شریعت باتیں کہی ہیں سب کفر طریقت کے مقام میں رہے۔ جو سکر(مستی) و بے تمیزی کا مقام ہے، لیکن وہ بزرگ جوحقیقی اسلام کی دولت سے مشرف ہوئے ہیں۔ اس قسم کی باتوں سے پاک وصاف ہیں اور ظاہر و باطن میں انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی اقتداء کرتے ہیں اور انہی کے تابع رہتے ہیں۔ پس جوشخص کلام شطحيات کرتا ہے اور سب کے ساتھ صلح  رکھتا ہے اور سب کو راہ راست پر خیال کرتا ہے اور حق و خلق کے درمیان تمیز نہیں کرتا اور دوئی کے وجود کا قائل نہیں ہوتا۔ اگر ایساشخص مقام جمع تک پہنچ چکا ہے اور کفر طریقت سےمتحقق ہو چکا ہے اور ماسوی کا نسيان حاصل کر چکا ہے تو وہ مقبول ہے اور اس کی باتیں جو سکر سے پیدا ہیں،ظاہر کی طرف سے پھری ہوئی ہیں اور اگر وہ شخص اس حال کے حاصل  ہونے اور درجہ کمال اول تک پہنچنے کے بغیر اس قسم کی کلام کرتا ہے اور سب کو حق اور صراط مستقیم پر جانتا ہے اور حق و باطل میں تمیز نہیں کرتا۔ تو ایسا شخص زندیق (بے دین)  وملحد ہے۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ شریعت باطل ہو جائے اور انبیا علیہم الصلوۃ والسلام جو رحمت عالمیان ہیں ان کی دعوت رفع ہو جائے پس اس قسم  کے خلاف شریعت کلمات سچے سے بھی صادر ہوتے ہیں اور جھوٹے سے بھی سچے کے لیے آب حیات ہیں اور جھوٹے کے لیے زہر قاتل۔ جس طرح کہ دریائے نیل کا پانی بنی اسرائیل کے حق میں آب خوشگوار تھا اورقبطی کے  حق میں خون۔ 

اس مقام پر اکثرسالکوں کے قدم پھسل جاتے ہیں۔ بہت سے مسلمان ارباب سکر(مستی)  کی باتوں کی تقلید کر کے راہ راست سے ہٹ کر گمراہی اور خسارہ میں جا پڑے ہیں اور اپنے دین کو برباد کر بیٹھے ہیں۔ یہ نہیں جانتے کہ اس قسم کی باتوں کا قبول ہونا چند شرائط پرمشروط ہے۔ جو ارباب سکر(مستی)  میں موجود ہیں اور ان میں مفقود۔ ان شرائط میں سے اعلی شرط ماسوی اللہ کا نسيان ہے۔ جو اس قبولیت کی دہلیز ہے۔سچے اور جھوٹے کے درمیان شریعت کی استقامت اور عدم استقامت سے فرق ظاہر ہوسکتا ہے یعنی جوسچاہے وہ باوجودسکرو مستی کے اور بے  تمیزی کے بال بھر بھی شریعت کے برخلاف نہیں کرتا۔ منصور باوجودقول اناالحق کے قید خانہ میں زنجیروں کے ساتھ جکڑا ہوا ہر رات پانچ سو رکعت نماز نفل ادا کرتا تھا اور وہ کھانا جو اس کو ظالموں کے ہاتھ سے ملتاتھا۔ اگر چہ وجہ حلال سے ہوتا ہے۔ نہ کھاتا تھا اور جو شخص جھوٹا ہے اس پراحکام شریعہ کا بجالانا کوہ قاف کی طرح بھاری ہوتا ہے۔ ‌كَبُرَ ‌عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ (مشرکوں پردہ  امر بہت بھاری ہے۔ جس کی طرف تو ان کو بلاتا ہے ان کے حال کا نشان ہے۔ 

رَبَّنَا ‌أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ یا اللہ ہمارے نور کو کامل کر اور ہم کو بخش۔ تو سب شے پر قادر ہے) وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى (سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایت اختیار کی )

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ305ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں