آداب السلوک  والتوصل الی منازل الملوک شیخ عبد القادر جیلانی

آداب السلوک  والتوصل الی منازل الملوک

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

 مقدمه

اسی ذات پر مجھے بھر وسہ ہے

مجھے میرے جد بزرگوار امام وقت عالم ربانی ، عارف حقانی صاحب زہدو تقوی ، عابد و زاہد ، قدوة المشائخ ، قطب الاسلام ، علم الزهاد دلیل العباد، قامع البدعة ، ناصر السنة حضرت أبو محمد عبد القادر بن ابی صالح الجیلی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاه و جمعناوایاہ  فی مستقر رحمة نے اپنی ایک تحریر کے ذریعے بتایا جو انہوں نے میری خاطر تحریر فرمائی اور اس تحریر کی روایت کی مجھے اجازت دی۔ جبکہ صفر کا مہینہ اور سن ہجری 561ھ تھا۔ 

 اور ان سے یہ خبر ہمیں ہمارے والد گرامی امام و عالم، زاهد و عابد صاحب زهد و ورع زیب دین و شرع یکتائے روزگار حضرت ابو بکر عبد الرزاق بن عبد القادر بن ابی صالح بن عبد الله الجیلی نے دی۔ آپ نے فرمایا یہ کتاب میرے والد گرامی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ کے سامنے پڑھی گئی اور میں خود سن رہا تھا۔ منگل کا دن تھا۔ ربیع الاول شریف کا مہینہ تھا اور سن ہجری 553ھ تھا۔ آپ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ ارشاد فرمایا ہے۔ 

میرے والد نے جو یکتائے روزگار تھے، جنہیں تائید ایزدی میسر تھی۔ جو اماموں کے امام تھے سید الطوائف ابو محمد عبد القادر بن ابی صالح بن عبد اللہ الجیلی قدس الله روحه ونور ضريجہ نے فرمایا۔ 

اول و آخر ، ظاہر و باطن سب تعریفیں اللہ رب العالمین کیلئے ہیں۔ اتنی تعریفیں جتنی اس کی مخلوق کی تعداد ہے۔ جتنا اس کے عرش کاوزن ہے۔ جتنی اس کے اسماء و صفات کی مقدار ہے۔ جتنی اس ذات اقدس کی رضا ہے۔ ہر جفت اور طاق عدد کے برابر۔ ہر رطب ویابس اور جتنی چیزیں اس نے مقدر فرمائی ہیں اور جتنی چھوٹی بڑی چیزیں تخلیق ہو چکی ہیں اتنی تعریفیں اللہ کے لیے ہیں ہمیشہ ہمیشہ بلاانقطاع۔ (مطلب یہ ہے کہ بے شمار و بے انداز تعریفیں اللہ رب العالمین کو سزاوار ہیں) اللہ تعالی وہ ہے جس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور کسی قسم کا تفاوت نہیں رکھا۔ اس نے ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر فرمایا۔ ہر چیز کو راہ دکھائی اور زندہ و مردہ گردانا جس نے انسانوں کو خوشیاں بخشیں اور غم دیئے۔ بعض کو قرب سے نواز اور بعض کو اس دولت سے محروم رکھا۔ اپنے بعض بندوں پر رحم فرمایا۔ اور بعض کو رسوا کر دیا۔ کچھ کو سعادت مندٹھہر ایا اور کچھ کو شقی اور بدبخت بنادیا۔ کچھ ایسے ہیں جنہیں بخش دیا اور کچھ ایسے ہیں جنہیں محروم کر دیا۔ اس کےحکم سے سات محکم آسمان ایستادہ ہیں۔ اس کے امرسے کو ہسار کو گویا لنگر انداز کر دیا گیا اور میخوں سے زمین میں جڑ دیا گیا ہے۔ اس کے فضل و کرم اور حکم سے زمین کا فرش بچھا ہے۔ کوئی اس کی رحمت سے مایوس نہیں اور کوئی اس کی سزاسے مامون نہیں۔ کوئی نہیں جس کے بارے اس کا فیصلہ نافذ نہ ہو سکے اور ایک بھی نہیں جو اس کے حکم کے بغیر حرکت کر سکے ۔ کسی کو اس کی بندگی سے عار نہیں اور کوئی اس کی نعمت سے خالی دامن نہیں۔ وہ اپنی نعمت و عطا کی بدولت محمود ہے اور محروم کرنے کی وجہ سے مشکور ہے۔

درود و سلام ہوں اللہ تعالی کے نبی محمد مصطفی ﷺ پر جس کے دین کی پیروی کرنے والا منزل پا گیا اور روگردانی کرنے والا ہلاک اور گمراه ٹهہرا۔ 

راست گو پیمبر ﷺ جن کی سچائی مسلم ہے۔ جنہوں نے دنیا سے کنارہ کشی اختیار کی۔ اپنے رفیق اعلی کے طالب ہوئے اوراسی ذات اقدس کو چاہا جنہیں اللہ نے اپنی مخلوق پر بزرگی عطا کی اور کائنات سے منتخب فرمایا لیا۔ جن کے تشریف لانے سے باطل نا پید ہو گیا اور حق کا ظہور ہوا اور جن کے نور سے زمین چمکائی۔ 

ایک بار پھر یعنی ہمیشہ درودہائے تمام، طيب و مبارک اور ستوده برکتیں ہوں آپ پر ، آپ کی آل اطہار پر ، صحابہ کرام پر اور نیکی میں ان کی پیروی کرنے والوں پر جو اپنے کردار کے لحاظ سے اپنے رب کے نزدیک نیک ترین اور گفتار کے اعتبار سے صادق ترین لوگ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا چال چلن شریعت مطہرہ کے عین مطابق ہے۔ اس حمد وصلاۃ کے بعد ہم حضور باری تعالی میں نہایت عاجزی و انکساری سے دعا اور التجا کرتے ہیں اے ہمارے پروردگار ، ہمارے خالق، ہمیں عدم سے وجودنے والے ، ہمارے رازق ، ہمیں کھلانے پلانے والے۔ ہمیں نفع دینے والے ہمارے محافظ و نگهدار، ہمیں نجات بخشنے والے مصیبتوں سےبچانے والے اور ہر ایذاء و تکلیف دہ چیز سے دور رکھنے والے ! یہ سب نعمتیں اس ذات پاک کی رحمت ، فضل و کرم اور احسان کی بدولت ہیں۔ اقوال و افعال میں ظاہر و مخفی ہر دو صورتوں میں شدت ورخاء میں اور کتمان و اظہار ہر صورت میں اس کے اقوال و افعال میں ہمیشہ حفاظت فرمائی (اسی لیے یہ نعمتیں میسر آئیں) وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے جو اس کی مشیت ہوتی ہے کام کر تا ہے۔ ہر پنہاں چیز کو جاننے والا تمام شیون واحوال سے واقف ، زلات و طاعات اور قربات سے آگاو تمام آوازوںکو سننے والا ان تمام دعاؤوں کو قبول کرنے والا جن کے چاہے اور جس کے لیے چاہے اور ارادہ فرمائے۔ اس کے بعد میں کہتا ہوں اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے۔ رات ، دن برابر ، لحظه بہ لحظہ، ہر سماعت اور ہر وقت تمام حالات میں اس کی رحمتوں کی بارش جاری ہے۔ 

رب قدوس کا ارشاد ہےوَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا اگر تم شمار کرنا چاہو اللہ تعالی کی نعمتوں کو تو تم انہیں گن نہیں سکو گے  ‌وَمَا ‌بِكُمْ مِنْ نِعْمَةٍ فَمِنَ اللَّهِ اور تمہارے پاس جتنی نعمتیں ہیں وہ تو اللہ تعالی کی دی ہوئی ہیں۔

بھلا مجھ میں یہ طاقت کہاں۔ دل و زبان کو یہ یاراکہاں کہ اللہ تعالی کی عطاکردہ ان نعمتوں کو گن سکے ۔ ان کا احصاء کر سکے۔ ان کو گننا انسانی بس میں نہیں۔ نہ عقول ان کا اندازہ لگا سکتے ہیں اور نہ  اذہان ان کو ضبط کر سکتے ہیں۔ یہ نعمتیں عقل سے ماوراء ہیں زبان ان کے بیان سے قاصر ہے۔ 

پس ان جملہ نعمتوں میں سے جن کی تعبیر کی زبان کو طاقت بخشی جن کے اظہار کی کلام کو طاقت دی۔ جنہیں انگلیوں کے پوروں نے لکھا بیان نے جن کی تفسیر کی ان جملہ نعمتوں میں سے یہ کلمات بھی ہیں جو میرے لیے غیب کے راستے سے ظاہر وباہر ہوئے۔ پس یہ دل میں وارد ہوئے اور اس میں جاگزیں ہو گئے پھر انہیں صدق حال نے عیاں اور آشکارا کر دیا۔ (یعنی صدق حال و مقال اکٹھے ہو گئے) پس لطف خداوندی نے خود انہیں ظاہر وباہر فرمادیا۔ اللہ کا کرم ہوا اور اس کی تعبیر میں کوئی خطا نہیں ہوئی۔ یہ کلمات طالبان حق اور ارباب علم و معرفت کی رہنمائی کا سامان ہیں۔

دلوں کی غذا اور زادراه

بندہ مومن کے لیے ہر حال میں تین امور کی پابندی کرنا ضروری ہے۔ 

1۔ اللہ تعالی کے اوامر کی پیروی کرے۔ 

2۔ اس کی مناہی (جن چیزوں سے اس نے روکا ہے) سے اجتناب برتے۔

3۔ اور قضاء و قدر کے سامنے سر تسلیم خم کر دے اوربخوشی اسے قبول کرلے۔ 

ادنی سے ادنی کیفیت ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ بندہ کسی حال میں ان تین امور سے غافل نہ رہے اور کسی صورت اسے ہاتھ سے نہ جانے دے۔ 

ان تینوں امور کو دل میں جگہ دے۔ اپنے نفس کو ان کا پابند کرے اور اپنے اعضاء و جوارح کو ان کی ادائیگی میں مشغول رکھے۔

مرغوبات کا حصول عمل کے بغیر نا ممکن ہے

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے فرمایا : 

سنت کی پیروی کرو اور بد عتوں سے بچو ۔ اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺکی فرمانبرداری کرو اور نافرمانی سے اجتناب کرو۔ اللہ تعالی کو ذات و صفات میں یکتا یقین کرو اور شرک نہ کرو اس ذات اقدس کو ہر عیب سے پاک سمجھو اور اس کے بارے غیر مناسب گفتگو نہ کرو۔ اس کی بارگاہ میں سوال کرو اور مایوسی کا اظہار مت کرو۔ اس کی رحمتوں اور مہربانیوں کے امید وار رہو انتظار کرو اور شک نہ کرو۔ صبر سے کام لو اور جزع فزع سے بچو۔ ثابت قدم رہو اور راہ حق سے نہ بھاگو۔ آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو اور عداوت کا رویہ نہ اپناؤ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت پر ایک ہو جاؤ اور الگ الگ فرقے نہ بناؤ۔ باہم محبت و مودت رکھو اور بغض و عناد سے دور رہو۔ گناہوں سے مجتنب اور پاک ر ہو اور نافرمانی کی گندگی سے عصمت کو آلودہ نہ ہونے دو۔ اپنے پروردگار کی اطاعت و فرمانبرداری سے حقیقی زیب و زینت حاصل کرو اور اس کے در رحمت سے منہ نہ پھیرو۔ اسی کی چوکھٹ پر سر نیاز رکھ دو۔ توبہ کرنے میں دیر نہ کرو اور رات دن اپنی خطاؤں اور لغزشوں کی معافی مانگتے رہو۔ 

شاید تم پر رحم ہو جائے۔ تم سعادت حاصل کر لو۔ آگ سے دور کر دئیے جاؤ جنت میں داخل کیے جاؤ۔ وصال حق کی دولت پاؤ اور سلامتی کے گھر(جنت) میں نعمتوں سے لطف اندوز ہو سکو اور جوان باکرہ عورتوں کے ساتھ مجامعت کی نعمت سے سرفراز کیے جاؤ جنت کے اس گھر میں تمہیں خلود نصیب ہو۔ عمده گھوڑوں پر سواری کرو۔ سروقدماه جبیں صاف و شفاف بدن والی غیر مدخولہ آہو چشم حوروں سے لطف حاصل کرو۔ وہاں تمہیں طرح طرح کی خوشبوئیں حاصل ہوں، ان نعمتوں کے ساتھ ساتھ خوش گلو جوان عورتوں کے نغمہائے کیف و سرور سے لطف اندوز ہو سکو اور انبیاء صدیقین ، شہداء و صالحین کی معیت میں رہو اور اعلی علین تک بلند کیے جاؤ۔

 ابتلاء و آزمائش میں روحانی بالیدگی اور بصیرت کی بیداری ہے 

آپ رضی اللہ تعالی عنہ و ارضاہ نے فرمایا : جب انسان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ اس مصیبت سے نکلنے کی پہلے خود کو شش میں کامیاب نہ ہو تو پھر دوسروں سے مدد طلب کرتا ہے۔ مثلا فقر و افلاس میں سلاطین امراء و منصب داروں کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔ بیمار ہو تو طبیب کے پاس جاتا ہے۔ اگر یہاں بھی کام نہ بنے اور مایوسی ہو پھر باگاہ خداوندی میں عاجزی و انکساری سے التجا کر تا ہے۔ اللہ کریم کی بارگاہ میں سر نیاز جھکا دیتا ہے۔ جب تک اپنی مدد آپ کے تحت کچھ کر سکتا ہے مخلوق کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔ جب تک مخلوق سے تائید ملتی رہتی ہے خالق کی طرف رجوع نہیں کرتا اور جب مخلوق سے اور اپنے آپ سے مایوس ہو جاتا ہے تو پھر امیدوبیم کی کیفیت میں خالق تعالی کی بارگاہ میں عرض کناں ہو تا ہے۔ 

لیکن اللہ کریم ا سے دعا سے درمانده کر دیتا ہے(یعنی وه د عامانگ مانگ کر تھک جاتا ہے) اور اس کی دعا قبول نہیں فرماتا۔ حتی کہ انسان تمام اسباب سے تعلق توڑ دیتا ہے۔ ایسے میں بندے میں اللہ کا حکم جاری ہو تا ہے۔ اور خالق اپنا فعل صادر فرماتا ہے۔ پھر بند ہ روح محض بن جاتا ہے (یعنی شریت دم توڑ دیتی ہے اور روحانیت کار فرما ہو جاتی ہے) بندہ ہر طرف اللہ کریم کے فعل کو دیکھتا ہے۔ پس وہ صاحب یقین اور موحد بن  جاتا ہے اسے یقین ہو جاتا ہے کہ حقیقی فاعل تو اللہ عزوجل ہے۔ اس کے سوانہ کوئی حرکت دینے والا ہے اور نہ حرکت کو روکنے والا۔ 

خیر و شر، نفع و نقصان، منع و عطا، بسط و کشاد ، موت و حیات، عزت وذلت، غنی و فقر سب اللہ عزوجل کے دست قدرت میں ہے۔ انسان کو جب یہ یقین ہو جاتا ہے تو وہ اپنے آپ کو تقدیر کے ہاتھ میں دے دیتا ہے جس طرح شیر خواربچہ دایہ کے ہاتھ میں ، میت غسال کے ہاتھ میں اور گیند کھلاڑی کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ وہ اسے اپنی مرضی سے ادھر ادھر ۔ دائیں بائیں ، اوپر نیچے جیسے چاہتا ہے الٹ پلٹ کر تا ہے۔ جس طرح میت ، گیند اور بچے کی کوئی حرکت اپنی نہیں ہوتی اسی طرح انسان کی کوئی حرکت اس کی اپنی نہیں رہتی وہ اپنے آپ کو کلیتاً اللہ تعالی اور اس کے فعل کے سپرد کر دیتا ہے اور اپنے آپ سے غائب ہو جاتا ہے۔ نہ وہ کچھ سنتا ہے اور نہ کچھ سمجھتا ہے۔ 

اور اگر دیکھتا ہے تواسی کے دکھائے دیکھتا ہے۔ سنتا اور جانتا ہے تو اسی کے کلام کو سنتا اور اس کے بتائے سے جانتا ہے۔ وہ اسی ذات اقدس کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ اس کے قرب کی سعادت سے بہرہ ور کیا جاتا ہے۔ حضوری کی نعمت سے مزین و مشرف ہو تا ہے۔ اللہ کریم کے وعدہ سے خوش ہوتا ہے اور سکون حاصل کرتا ہے۔ اسکی ذات سے مطمئن اس کے کلام سے مانوس ہو تا ہے۔ غیر اللہ سے وحشت و نفرت کرتا ہے۔ اللہ کے ذکر سے نجات اور پناه چاہتا ہے۔ اس پر بھروسہ ، اس پر توکل کرتا ہے۔ اس ذات اقدس کے نور معرفت سے ہدایت حاصل کرتا ہے۔ اپنے ظاہر وباطن کو منور کر تا ہے۔ اسی کے عطا کردہ علوم لدنی سے بہرہ ور ہوتا ہے۔ اس کی قدرت کے اسرار پر جھانکتا ہے۔ اسی سے سنتا ہے۔ اس سے یاد کرتا ہے۔ اسی کی حمد و ثنا کرتا ہے صرف اس کی نعمتوں کا شکر ادا کر تا ہے اور اس کے ہاتھ اللہ کی بارگاہ کے علاوہ کسی کے آگے بند نہیں ہوتے۔ 

حرص و ہوا کی کانٹے دار جھاڑیاں اکھاڑ دے تاکہ شجر کمال کے سائے میں آرام ملے

 حضرت شیخ محبوب سبحانی قطب ربانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاه نے فرمایا۔ جب تو مخلوق سے مر جائے گا تو تجھے کہا جائے گا کہ اللہ تعالی نےتجھ پر رحم فرما دیا ہے۔ اور تیری خواہش سے تجھے موت دے دی ہے۔ اور جب تو اپنی خواہشات سے مر جائے گا تو تجھے کہا جائے گا۔ اللہ تعالی نے تجھ پر رحم کیا ہے اورتجھے تیرے ارادے اور تمنا سے موت دے دی ہے۔ اور جب تو اپنے ارادے سے مر جائے گا تو تجھ سے کہا جائے گا اللہ تعالی نےتجھ پر رحم کیا اور تجھے حقیقی زندگی عطا کی ہے۔ اس کے بعد تجھے اس دنیا میں وہ زندگی عطا ہو گی جس کے بعد موت نہیں۔ ایسی نعمت سے نوازا جائے گا جس کے بعد محرومی نہیں۔ ایسی غنی عطاہوگی جس کے بعد کوئی فقر نہیں۔ ایسی عطا سے سرفراز ہو گا جس کے بعد محرومی نہیں۔ ایسی راحت ملے گی جس کے بعد مشقت نہیں ایسا علم پائے گا جس کے بعد جہالت نہیں۔ ایساامن نصیب ہو گا جس کے بعد خوف نہیں۔ ایسی سعادت حاصل ہو گی جس کے بعد شقاوت نہیں۔ وہ عزت دی جائے گی جس کے بعد ذلت نہیں۔ قرب الہی کاوه در جہ ملے گا جس کے بعد تمام دوریاں نا پید ہو جائیں گی۔وہ رفعت و بلندی ملے گی کہ جس کے بعد پستی نہیں ہو گی۔ عظمت پائے گا اور تیری کسی قسم کی تحقیر نہیں ہو گی۔تجھے پاک کیا جائے گا اور ہر قسم کی آلائش سے دور کر دیا جائے گا۔ تجھ میں آرزوئیں متحقق ہو گی۔ تیرے بارے سب اچھی باتیں پوری ہو گی۔ تو کبریت احمر بن جائے گا تو سمجھ سے بالاتر مقام کا حامل ہو جائے گا۔ تجھ جیسا دوسرا کوئی نہیں ہو گا۔ تو ایسا یکتائے روزگار ہو گا کہ کوئی تیرا شریک نہیں ہوگا تو ایسافرد مزید اور واحد وحید قرار پائے گا کہ تیرا کوئی ہم مرتبہ نہیں ہو گا۔ غیب الغيب سراسر ہو جائے گا (یعنی اسرار غیبیہ اور مخفیہ پر یوں مطلع ہو گا کہ خودلوگ تیری باتوں کو نہیں سمجھ سکیں گے اور تیرے کمالات تک رسائی حاصل نہیں کر سکیں گے) ایسے میں تو ہر رسول اور نبی و صدیق کاوارث ٹھہرے گا۔ تجھ پرولایت کے کمالات ختم ہو جائیں گے۔ تیری جناب میں ابدال حاضری دیں گے۔ تیرے وسیلے سے مشکلات آسان ہونگی۔ تیرے صدقے سے بارشیں برسیں گے۔ تیرے طفیل کھیتیاں اُگیں گی تیری وجہ سے رنج ومحن دور ہو نگے۔ خاص و عام تجھ سے  فائدہ پائیں گے۔ سرحدوں پر رہنے والےراعی ، رعایا، آئمہ امت اور اللہ کی سب مخلوق تجھ سے فیض یاب ہو گی۔ تو شہروں اور شہروں میں بسنے والے لوگوں کیلئے کوتوال ہو گا۔ لوگ قطع مراحل کر کے دور دور سے تیری خدمت میں حاضر ہو گئے۔ تیری بارگاہ میں خالق كل اللہ رب العزت کے اذن سے انواع و اقسام کے تحفے اور نذرانے پیش کریں گے۔ زبانیں تیری مدح و ستائش کریں گی۔ اہل ایمان تیرے بارے متفق ہو گئے اور کہیں گے۔ اے ستودہ صفات۔ اے وہ جو آبادیوں اور جنگلوں میں رہنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔ یہ محض اللہ کا فضل ہے اور ذوالفضل الامتنان جسے چاہتا ہے اپنے فضل سے نوازتا ہے۔ 

وہ سراب جسے پیاسایانی گمان کرتاہے ۔

حضور شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ کا ارشاد ہے : 

جب تو ارباب دنیا اور ابنائے وقت کو دیکھے کہ وہ دنیا کی زیب و زینت، اس کے جھوٹے فریب اور ہم رنگ زمین جال میں پھنسے ہیں، بے وفا، عہد شکن، بظاہر خوش گوار اور  بہ باطن مکروہ و نا پسندیدہ۔ گناہ کی آماجگاه دنیا ان کے مطمع نظر اور مقصود ہے تو ایسا خیال کر کہ کوئی شخص جائے ضر ورت پر بیٹھا رفع حاجت کر رہا ہے۔ اس کا ستر ننگا ہے۔ ماحول میں غلاظت کی بو پھیل رہی ہے۔ یقینا ایسے شخص کو دیکھ کر تو اپنی نگاہیں نیچی کر لے گا اور بدبو سے بچنے کیلئے منہ ڈھانپ لے گا۔ 

دنیا کو اس گندگی کی طرح ناپسند کر۔ جو اس پر نظر پڑے تو اس کی زیب و زینت سے آنکھیں نیچی کر لے۔ اس کی لذات و شہوات کی بدبو سے اپنی ناک کو ڈھانپ لے تا کہ تو دنیا اور اس کی آفات سے بچ جائے اور مقدر میں لکھا رزق بے منت غیر تجھے  مل جائے 

رب قدوس نے اپنے محبوب نبی محمد مصطفیﷺ سے فرمایا :

 وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَأَبْقَى

آپ مشتاق نگاہوں سے نہ دیکھے ان چیزوں کی طرف جن سے ہم نے لطف اندوز کیا ہے کافروں کے چند گروہوں کو یہ محض زیب و زینت ہیں دنیوی زندگی کی اور انہیں اس لیے دی ہیں تاکہ ہم آزمائیں انہیں ان سے اور آپ کے رب کی عطا بہتر اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔

 میں تیرا قرب چاہتا ہوں اور تیری خوشنودی کا طالب ہوں

حضرت غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے فرمایا : خلق خداسےبحکم خداوندی خواہش سےبتقدیرالہی اور اپنے ارادے سےبہ فعل ربانی فنا ہو جاتا کہ تو علم الہی کے لیے ظرف کا کام دے سکے (یعنی تجھے علم لدنی حاصل ہو) 

مخلوق سے فناء ہونے کی علامت یہ ہے کہ تو ان سے قطع تعلق کر لے۔ ان کے پاس آمدورفت موقوف کر دے اور جو کچھ ان کے ہاتھوں میں ہے اس سے مایوس ہو جا۔اپنی ذات اور اپنی خواہش سے فناء ہونا یہ ہے کہ توحصول منفعت اور دفع ضرر میں دنیاوی اسباب سے تعلق اور سب کو ترک کر دے۔ اپنے سود و زیاں کے لیے تو بذات خود اپنے ارادے سے کوئی حرکت نہ کرے اور اپنی ذات کی خاطر اپنی خواش و تقدیر پر اعتماد نہ کرے ۔ نہ تو اپنے آپ سے مضرات دور کرے اور نہ اپنے نفس کی مدد کرے ۔ بلکہ ہر چیز اس ذات کے سپرد کر دے جو پہلے بھی تیرا کارساز تھا اور بعد میں بھی تیرا کارساز ہوگا۔ جس طرح کہ تیرا سب کچھ اللہ کریم کے سپرد تھاجبکہ تو اپنی والدہ کے رحم میں اور پھر اپنے پنگھوڑے میں شیر خوار بچہ تھا۔ 

تیرے ارادے کی بفعل خداوندی فناء یہ ہے کہ کبھی کسی چیز کا ارادہ نہ کرے تیری کوئی غرض و غایت اور حاجت و طلب نہ ہو کیونکہ اللہ تعالی کے ارادے سے ہوتے ہوئے تو اور کسی چیز کا ارادہ کر ہی نہیں سکتا۔ بلکہ فعل خداوندی تجھ میں جاری و ساری ہے۔ تو خود عین اللہ تعالی کا ارادہ اور اس کا فعل ہے۔ تیرے اعضاء ساکن ، دل مطمئن، سینہ کشادہ، چہرہ منور ، باطن آباد اور تو اپنے خالق کی محبت میں اس طرح سرشار ہے کہ ہر چیز سے غنی ہے اللہ کے دست قدرت کے تو سپرد ہے۔تجھے وہ حر کت دے رہا ہے۔ لسان ازل تجھے بلاتی ہے۔ تیرا پروردگار تجھے سکھاتا ہے۔تجھے اپنےنور خاص اور اجلال کا لباس اور عزت کی قبائیں پہناتا ہے سو تو سلف صالحین کے مرتبے پر فائز ہو جائے گا جو کہ علم کے مینار تھے۔ جب توان نعمتوں سے بہرہ ور ہو جائے گا تو تو شکستہ قلب بن جائے گا۔ پھر تیرے دل میں شہوت اور ارادہ نہیں ٹھہر سکے گا جس طرح ٹوٹے ہوئے برتن میں مائع اور مائع میں موجود کثافت نہیں ٹھہر سکتی۔ تیر ادامن رذائل بشری سے پاک ہو جائے گا۔ تیرا باطن غیر کو قبول ہی نہیں کرے گا۔ اللہ تعالی کے سواء یہاں کسی اور کا بسیرا نہیں ہو گا امور تکوینیہ تیرے سپرد ہو گئے۔ کرامات تیرے ہاتھ پر صادر ہوگی۔ ان کرامات اور خرق عادت امور کے پیچھے جن کا صدور تیرے ہاتھ سے ہو گا در حقیقت قدرت خداوندی کار فرما ہوگی اور یہ اس کے فعل اور علم وارادہ کی کرشمہ سازی ہوگی۔ تیرا شمار شکستہ قلب لوگوں میں ہونے لگے گا ۔

جن کے بشری ارادے ناپید اور شہوات طبعیہ زائل ہو چکی ہوتی ہیں۔ اور بشری ارادوں کی جگہ مشیت ربانی اور ارادۀ خداوندی کار فرما ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ 

‌حُبِّبَ ‌إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا ‌ثَلَاثٌ: الطِّيبُ، وَالنِّسَاءُ، وَجُعِلَتْ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِمیرے لیے دنیا کی تین چیزیں محبوب بنائی گئی ہیں۔ عورتیں، خوشبو اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھ 

دی گئی ہے۔

حضور نبی کریم ﷺنے ان چیزوں کی محبت کو اپنی طرف منسوب کیا 

اس کے بعد کہ ارادہ بشری کی دسترس سے آپ نکل چکے تھے اور انسانی خواہش آپ سے زائل ہو چکی تھی۔ جیسا کہ ہم مذکورہ گفتگو میں اشارہ کر آئے ہیں۔ 

حدیث قد کی ہے۔أَنَا عِنْدَ الْمُنْكَسِرَةِ قُلُوبُهُمْ ‌مِنْ ‌أَجْلِي

میں ان لوگوں کے پاس ہو تا ہوں جن کے دل میرے لیے شکستہ ہوتے ہیں ۔

تجھے اس وقت تک اللہ تعالی کی معیت خاصہ حاصل نہیں ہو سکتی جب تک شکستہ ذات نہیں ہو جاتا۔ یعنی تیری خواہش اور ارادہ ٹوٹ پھوٹ نہیں جاتے۔ پس جب تیری ذات مکمل طور پر ٹوٹ جائے گی تجھ میں کوئی چیز قرار پذیر نہیں ہو سکے گی اور تو اللہ تعالی کے سواء کسی اور کے لائق نہیں رہے گا تو اللہ تعالی تجھے ایک نئی زندگی عطا فرما دے گا۔ تجھ میں ایک نیا ارادہ پیدا فرمادے گا پھر تواسی ارادہ سے ارادہ کرے گا۔ پس جب تو اللہ تعالی کے پیدا کردہ اس ارادے میں پایا جائے گا تو پروردگار عالم اس ارادے کو توڑ دے گا کیونکہ اس میں تیرپورا وجود پایا جا رہا ہے پس تو ہمیشہ کیلئے منکسر القلب ہو جائے گا۔ پھر اللہ تعالی تیرے اندر ہر لمحہ ایک ارادہ پیدا فرمائے گا اور پھر مجھے اس میں موجود پا کر اس ارادہ کو تجھ سے دور کر د ے گا حتی کہ تقدیر کا لکھا پورا ہو جائے گا اور مجھے بارگاہ خداوندی میں حضور ی کی نعمت میسر آجائے گی۔ میں معنی ہے اس حدیث پاک کا کہ میں ان لوگوں کے پاس ہو تا ہوں جن کے دل میرے لیے شکستہ ہو جاتے ہیں۔ 

ہمارے قول (عند وجود نھا) کا مطلب یہ ہے کہ جب تو اس ارادے سے مطمئن ہو جائے گا اور اس کی طرف متوجہ ہو جائے گا۔ حدیث قد کیا ہے۔ 

وَمَا ‌يَزَالُ ‌عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ: كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ، وَيَدَهُ الَّتِي ‌يَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَادوسری روایت میں بی یسمع وبي يبصر وبى يبطش وبى يعقل کے الفاظ ہیں۔ 

میر ابندہ یعنی مؤمن نوافل کے ذریعے میرا قرب پا تارہتا ہے حتی کہ وہ میرا محبوب بن جاتا ہے۔ پس جب وہ میرا محبوب بن جاتا ہے تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے۔ میں اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے۔ میں اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے وہ چھوتا ہے۔ میں اس کی ٹانگیں بن جاتا ہوں  جس سے وہ چلتا   ہے   دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں پس وہ میرے ساتھ سنتا ہے۔ میرے ساتھ دیکھتا ہے، میرے ساتھ پکڑتا ہے۔میرے ساتھ سوچتا ہے۔

 اور فنایہ ہے کہ تو اپنی ذات سے فانی ہو جائے۔ جب تو اپنی ذات اور دوسری مخلوق سے فانی کر دیا گیا تو اللہ وحدہ لاشریک کے ساتھ باقی ہو جائے گا۔ پھرتجھے مخلوق سے نہ کوئی امید رہے گی اور نہ خوف۔ کیونکہ مخلوق ہی خیر وشر ہے۔ خیر و شر کا تعلق اللہ تعالی کی تقدیر سے ہے۔ پس وہ تجھے شر سے محفوظ رکھے گا اور خیر کے سمندر میں غرق کر دے گا۔ یوں تو ہر بھلائی کیلئے ظرف ہر نعمت و سرور ، زیب و زینت، نوروضیاء اور امن و سکون کا منبع و سرچشمہ بن جائے گا۔ 

میں فنا طالبان راه حقیقت کی آرزو، مطلوب و منتہا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جس پر اولیاء اللہ کی سیر انتہاء کو پہنچتی ہے۔ اسی کا دوسرانام استقامت ہے اولیاء و ابدال متقدمین اسی کے طالب رہے ہیں۔ ان کی تمام کوششوں کا محور و مرکز یہی تھا کہ وہ اپنے ارادہ سے فانی ہو کر حق تعالی کے ارادے کے ساتھ باقی ہو جائیں۔ اور مرتے دم تک وہ اللہ تعالی کے ارادے کے ساتھ ارادہ کریں۔ انہیں ابدال کہنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ ان کا ارادہ اللہ تعالی کے ارادے سے بدل جاتا ہے۔ ان نفوس قدسیہ کے نزدیک گناہ یہ ہے کہ سہو، نسیان، غلبہ حال دہشت میں ان کا ارادہ اللہ تعالی کے ارادے کے ساتھ شریک ہو جائے۔ اگرکبھی ایسا ہو جائے تو اللہ تعالی انہیں یاد دلا کر اور تنبیہ فرما کر اپنی رحمت کے طفیل انہیں اس کو تاہی کا ادراک دے دیتا ہے وہ اس سے رجوع کر لیتے ہیں اور اپنے پروردگار کی جناب میں معافی کی درخواست کرتے ہیں۔ کیونکہ معصوم عن الارادہ تو صرف فرشتے ہیں۔ ملا ئکہ کو ارادہ سے پاک پیدا کیا گیا ہے۔ جبکہ انبیاء علیھم السلام خواہش سے معصوم ہیں۔ ملائکہ و انبیاء کے علاوہ باقی تمام مخلوق جن وانس جو مکلف ہے وہ ارادہ اور خواہش سے معصوم نہیں ہے۔ ہاں اولیاء کرام حرص و ہواسے محفوظ ہیں جبکہ ابدال ارادہ سے محفوظ ہیں مگر ارادہ اور خواہش سے معصوم نہیں مقصد یہ ہے کہ کبھی کبھار ان کا میلان ارادے اور خواہش کی طرف ہو جاتا ہے۔ پھر اللہ تعالی اپنی رحمت خاص سے انہیں اس کوتاہی پر آگاہی عطا فرما دیتا ہے۔ اور وہ اس سے باز آجاتے ہیں۔

خواہش نفسانی دل کیلئے آفت ہے

حضرت شیخ رضی اللہ تعالی عنہ وارضاه نے فرمایا : ہوائے نفسانی کے چنگل سے باہر نکل اس سے دور ہو اور مملکت وجود سے رخت سفر باندھ کر سب کچھ اللہ تعالی کے سپرد کر دے۔ پھر اپنے دل کے دروازے پر بیٹھ کر نگہبانی کا فریضہ سرانجام دے۔ اللہ تعالی کی فرمانبرداری کر۔ جسے وہ اندر آنے کا حکم دے اسے اندر آنے دے اور جسے وہ اندر آنے سے روکے تو بھی اسے اندر آنے سے روک دے۔ ایک بار جب خواہش نفسانی دل سے باہر نکل چکی ہے تو اسے پھر اندر مت آنے دے۔ اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ تو ہوائے نفسانی کی مخالفت کرے اور تمام حالات میں اس کی متابعت ترک کر دے۔ اس کی متابعت و مطابقت سے خواہشات دل میں گھر کر جاتی ہیں۔ پس اللہ تعالی کے ارادے کے بغیر کسی غیر کا ارادہ نہ کر۔ کسی اور کا ارادہ خواہش نفسانی ہے اوریہی احمقوں کی جنت 

ہے۔ اسی میں تیری ہلاکت ،ذلت ورسوائی، نگاه خداوندی میں گر نا اور اس سے محجوب ہونا ہے۔ ہمیشہ اس کے امر و نہی کی حفاظت کر۔ اور اس کے فیصلوں کے سامنے سر تسلیم خم کر مخلوق کو اس کا شریک مت بنا۔ (یاد رکھ) تیر ارادہ ، تیری خواہش اور تیری چاہت سب مخلوق ہے۔ پس کسی چیز کا ارادہ نہ کر۔ حرص و ہواکی پیروی نہ کر ورنہ مشرک ٹھہرے گا۔ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ 

فَمَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًاپس جو شخص امید رکھتا ہے اپنے رب سے ملنے کی تو اسے چاہیئے کہ وہ نیک عمل کرے اور نہ شریک کرے اپنے رب کی عبادت میں کسی کو“ 

صرف بت پرستی ہی شرک نہیں خواہش نفس کی اتباع اور دنیاوآخرت میں اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور کو بزرگ و بر تر خیال کرنا بھی شرک ہے۔ اللہ تعالی کے علاوہ جو کچھ ہے وہ غیر ہے۔ جب تو غیر کا ہوا تو مشرک ٹھہرا۔ احتیاط کر اور صرف اللہ کا ہوکررہ۔ خوف خدا رکھ اور اس کی پکڑ سے بے خوف نہ ہو جا۔غور و فکر کر اور غفلت کا شکار نہ ہو ۔کسی مقام اور حال کی نسبت اپنی ذات کی طرف نہ کر اور مدعی ولایت نہ بن جا۔ 

اگر کچھ عطا ہو۔ کوئی مقام حاصل ہو یا کسی مخفی راز سے مطلع ہو تو کسی اور کو خبر نہ دے۔ کیونکہ اللہ تعالی تفسیر و تبدیل میں روزانہ ایک الگ شان میں ہوتا ہے۔ اللہ تعالی بلاشبہ انسان اور اس کے دل کے در میان حائل ہے۔ ہو سکتاہے اللہ تعالی نے تجھے جس چیز سے آگاہ فرمایا ہے اور تو نے اس کی خبر دوسرے کو دی ہے وہ تجھ سے زائل کر دے ۔ اور جس کو تو محکم اور باقی خیال کر رہا تھا وہ متغیر ہو جائے۔ پس اس طرح تو اس شخص کے سامنے نادم ہوگا۔ راز کو دل میں محفوظ رکھ اور کسی کو اس پر مطلع نہ کر۔ اگر اس میں ثبات و بقاء ہے تو موہبت ربانی(اللہ کی بخشش) ہے۔ اللہ تعالی کا شکر ادا کر تاکہ یہ نعمت تجھے اور عطا ہو اور اگر ثبات وبقاء نہیں تو بھی یہ ایک نعمت ہے کیونکہ اس میں علم و معرفت، نورو بصیرت اور تادیب تو ہے ہیں۔ رب قدوس ارشاد فرماتا ہے۔ 

مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ 

جو آیت ہم منسوخ کر دیتے ہیں یا فراموش کرادیتے ہیں تو لاتے ہیں دوسری بہتر اس سے یا کم از کم اس جیسی کیا تجھے علم نہیں کہ الله تعالی سب کچھ کر سکتا ہے“۔ 

اللہ تعالی کو اپنی قدرت میں عاجز خیال نہ کر۔ تقدیر و تقریر میں اسے تہمت نہ دے اور اس کے وعدہ میں شک نہ کر۔ رسول خدا میں تیرے لیے نمونہ ہےاسی اسوہ حسنہ کی پیروی اختیار کر۔ 

کئی سورتیں اور آیتیں جو آپ ﷺپر نازل ہوئیں ان پر عمل ہوتارہا۔ نمازوں میں تلاوت ہوتی رہیں۔ مصاحف میں لکھی گئیں پھروہ اٹھالی گئیں احکام بدل گئے اور ان کی جگہ دوسرے احکام نازل ہوئے۔ یہ سب کچھ ظاہری شریعت مطہرہ میں ہوتارہا باطن علم خاص اور وہ حال جو بندے اور اللہ کے درمیان کا معاملہ ہے تو اس سلسلے میں رسول خدا فرمایا کرتے تھے۔ نَّهُ ‌لَيُغَانُ ‌عَلَى قَلْبِي، وَإِنِّي أَسْتَغْفِرُ اللهَ فِي كُلِّ يَوْمٍ مِئَةَ مَرَّةٍحضور ﷺ کو ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل کیا جاتا تھا۔ کبھی آپ ایک حال میں ہوتے توکبھی دوسرے حال میں۔ یوں آپ منازل قرب اور میادین غیب میں ہمیشہ محو سفر رہتے اورخلعتیں اور انوار تغیر پزیر رہتے آپ کی ہر دوسری حالت پہلی حالت کے مقابلے میں ارفع واعلی ہوتی۔ جب آپ دوسری حالت پر فائز ہوتے اور پہلی حالت پر نگاہ پڑتی تووہ عیب و نقصان محسوس ہوتی اور آپ خیال کرتے کہ اللہ تعالی کی شایان شان حدود کی حفاظت نہیں کر سکا۔ در حقیقت یہ آپ کی کمال تواضع وعاجزی ہے۔ای لیے آپ کو تلقین کی جاتی کہ آپ استغفار کریں۔ 

کیونکہ یہ بندے کی بہترین حالت ہے اور تمام احوال میں اس کے شایاں شان ہے کہ وہ بارگاہ خداوندی میں اعتراف گناہ کرتار ہے۔یہی دو چیزیں ہیں جو حضور نبی کریمﷺ کو ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام سے وراثت میں ملیں۔ جب آدم علیہ السلام عہد خداوندی کو بھول گئے ۔ جنت میں ہمیشہ رہنے۔ محبوب حقیقی رحمان و منان کے قرب اور فرشتوں کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کے ارادے نے انگڑائی لی۔ اللہ کریم کے ارادے کے ساتھ ان کا ارادہ بھی شریک ہوا تو ان کے ارادے 

کو توڑ دیا گیا۔ یہ حالت زائل ہو گئی ولایت کا منصب چھن گیا۔ انہیں اس بلند ترین مقام 

سے نیچے اتار دیا گیا۔ انوار کی جگہ ظلمتوں نے لے لی۔ اور صفاء مکدر ہو گئی۔ پھر آپ علیہ الصلوۃ والسلام کو آگاہ فرمادیا گیا اور رحمن ور حیم ذات کی دوستی کی یاد دہانی کرادی گئی۔ انہیں حکم ملا کہ نسیان و لغزش کا اعتراف کریں اور آپ کو تلقین کی گئی کہ اپنے قصور کا اقرار کریں۔ اس لیے آپ علیہ الصلوة والسلام نے بارگاه خداوندی میں عرض کیا۔ 

رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ “اے ہمارے پروردگار ! ہم نے ظلم کیا اپنی جانوں پر اور اگر نہ بخشش فرمائے تو ہمارے لیے اور نہ رحم فرمائے تو یقینا ہم نقصان اٹھانے والوں سے ہو جائیں گے۔ 

پس اس طرح  انوار ہدایت علوم و معارف توبہ اور وہ مخفی مصالح جو آج تک غائب تھے وہ حضرت آدم علیہ السلام کے ہاتھ آئے۔ اور یہ سب کچھ اس لغزش و نسیان کے بغیر ممکن نہ تھا۔ پس آدم علیہ السلام کے ارادے کو ایک دوسرے ارادے کے ساتھ ۔ ایک حالت کو دوسری حالت کے ساتھ بدل دیا گیا۔ ولایت صغری کے بعد آپ کو ولایت کبری کا منصب عطا ہوا۔ دنیا آپ کی جائے سکونت ٹھہری۔ پھر آپ عقبی میں منتقل ہوئے۔ پس دنیا آپ کیلئے اور آپ کی اولاد کیلئے منزل اور عقبی مرجع، اور ہمیشہ رہنے کی جگہ قرار پائے۔ 

رب قدوس نے فرمایا : مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا جو آیت ہم منسوخ کردیتے ہیں یا فراموش کرادیتے ہیں تو لاتے ہیں دوسری بہتر اس سے یا کم از کم  اس جیسی“ 

اے مخاطب !  آپ کیلئے اللہ تعالی کے حبیب محمد مصطفی کی زندگی اور حضرت آدم صفی اللہ علیہ السلام کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔ جس طرح انہوں نے قصور کا اعتراف کیا اور ہر حالت میں استغفار کرتے رہے۔ ہمیشہ عاجزی و انکساری کو شیوہ بنایا اور بندگی کو اپنایا آپ بھی گناہوں کا اعتراف کریں۔ اللہ تعالی سے استغفار کریں۔ ہمیشہ بندگی کا اظہار کریں اور عاجزی و انکساری کی روش اختیار کریں۔ 

خالق جس سے راضی ہو وہی افضل ترین منزل ہے

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاه ارشاد فرماتے ہیں۔ تجھے جو (روحانی) حالت عطا ہو اس کے علاوہ کسی اور حالت کو اختیار نہ کر۔ خواہ دوسری منزل اعلی ہو یا  ادنی۔ (اسے ایک مثال سے یوں واضح کیا جا سکتا ہے کہ) جب تو بادشاہ کے گھر کے دروازے پر کھڑا ہو تو اندر جانے کی کوشش نہ کر یہاں تک کہ تجھے جبراًنہ کہ اختیاراًداخل کر دیا جائے مقصد یہ ہے کہ تجھے حکم دیا جائے۔ تجھ پرسختی کی جائے اصرار کیا جائے اور کہا جائے کہ دروازے پر کھڑا ہونا تیرے لیے مناسب نہیں اندر داخل ہو جا۔ محض اذن و اجازت کو کافی نہ سمجھ۔ کیونکہ ہو سکتا ہے تجھے دھوکے سے بلایا جارہا ہو اور تجھ سے فریب کیا جارہا ہو۔ تو دروازے پر صبر کر حتی کہ تجھے اندر جانے پر مجبور کیا جائے۔ اب میراجانا محض جبر اور بادشاہ کے حکم سے ہو گا تو توبادشاہی عتاب سے محفوظ رہے گا۔ کیونکہ تجھ سے باز پرس تواس وقت ہوتی جب تو اپنے اختیار کو کام میں لاتا۔ اندر جانے کی خواہش و تمناکرتا۔ بے صبری اور سوئے ادبی کا مرتکب ہو تا اور جس حالت پر تجھے رکھا گیا تھا اس حالت پر راضی نہ ہو تا۔ اب جبکہ تجھے باصر اربادشاہ کے حکم سے اندر بلایا گیا ہے تو سر جھکا دے۔ آنکھیں نیچی کر لے اور سراپا ادب بن جا ۔ جس کام کا حکم ملے اسے سرانجام دے جس خدمت کا مطالبہ کیا جائے اسےبجالا۔کبھی ترقی اور کسی بلند مذہب کا مطالبہ نہ کر۔ اللہ کریم نے اپنے نبی محمد مصطفی ﷺ سے فرمایا : 

وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَأَبْقَى  اور آپ مشتاق نگاہوں سے نہ دیکھے ان چیزوں کی طرف جن سے ہم نے لطف اندوز کیا ہے کافروں کے چند گروہوں کو۔ یہ محض زیب و زینت ہیں دنیوی زندگی کی اور انہیں اس لیے دی ہیں تا کہ ہم آزمائیں انہیں ان سے اور آپ کے رب کی عطا بہتر اور ہمیشہ رہنے والی ہے“ 

اللہ تعالی اپنے نبی مصطفی مختارﷺ کو ادب سکھارہا ہے۔یعنی اپنے حال کی حفاظت کیجئے اور اللہ تعالی کی عطا پر خوش رہیئے۔ کیونکہ آپ کے رب کی عطا بہتر اور ہمیشہ رہنے والی ہے“ 

لیکن آپ کے رب نے آپ کو بھلائی اور نبوت کے جس نور سے سر فراز کیا ہے۔ آپ کو علم ، قناعت اور صبر کی جو دولت عطا فرمائی ہے۔ آپ کو دین کی ولایت اور اسوۂ حسنہ کی جس نعمت سے سرفراز فرمایا ہے وہ ہر اس نعمت سے اولی ہے جو کسی اور کو عطا کی گئی ہے۔ 

حفظ حال، رضا بالعطاء اور ماسواء کی طرف سے اعراض سب بھلائیوں کی بنیاد ہے۔ کیونکہ دنیاوی چیزیں یا تو تیرے مقدر میں لکھی جا چکی ہونگی یا کسی دوسرے کے مقدر میں ہو نگی یا پھر نہ یہ تیری قسمت کا نوشتہ ہو گی اور نہ کسی دوسرے کی قسمت میں مقرر ہونگی بلکہ وہ محض فتنہ و آزمائش کیلئے پیدا کی گئی ہو نگی۔ 

جو چیز تیری قسمت کا نوشتہ ہے وہ تجھے مل کر رہے گی۔ چاہے تو انکار کرے یا اس کو طلب کرے۔ ایسی چیز کیلئے بے صبری۔ مشرکانہ طریق اختیار کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ عقل و فہم اسے روا نہیں سمجھتے۔ اور اگر اس چیز کا ملنا کسی دوسرے کے مقدر میں لکھا جا چکا ہے تو تجھے کسی صورت نہیں مل سکتی۔ تو اس کے لیے جتنے جتن کرے۔ جتنی کوششیں کرے کامیاب نہیں ہو گا۔ توایسی چیزکیلئے مشقتیں کیوں برداشت کر تا ہے۔ اور اگر اس کی تخلیق محض آزمائش کیلئے ہے۔ اگر یہ فتنہ ہے اور کسی انسان کے مقدر میں نہیں تو کوئی عقل مند فتنے کو گلے سے نہیں لگا سکتا۔ اس لیے بھلائی اور سلامتی حفظ حال میں ہی ہے۔ 

(پھر مذکوره تمثیل کی طرف آئیے ) اگر تجھے بادشاہ کے دربار تک رسائی حاصل ہو جائے تو تجھے چاہیئے کہ پہلے سے زیادہ آداب بجالا۔ عاجزی و انکساری سے کام لے۔ کیونکہ بادشاہ کے قریب ہونے کی وجہ سے تو زیادہ خطرے میں ہے۔ کسی اعلی یا ادنی منصب کی خواہش نہ کر۔ اور نہ ہی موجودہ منصب پرثابت وباقی رہنے کی کو شش کر۔ اسی حالت پر قناعت کر۔ اختیار کو کام میں نہ لا۔ کیونکہ یہ بادشاہ کی عطا کا انکار ہو گا۔ اور کفران نعمت دنیا و آخرت میں ذلت و رسوائی کا موجب بنتا ہے۔ 

ہمیشہ ہماری ان نصیحتوں پر عمل پیرا رہے حتی کہ تیراحال مقام میں بدل جائے اور پھر تو بھی اس نعمت سے محروم نہ ہو۔ پس جب آیات و کرامات کا صدور ہو گا تو تجھے معلوم ہو جائے گا کہ یہ مقام عطیہ ربانی ہے تو تو ہمیشہ اس سے تمسک کرے گا اور الگ نہیں ہو گا کیونکہ احوال اولیاء کیلئے اور مقامات ابدال کیلئے ہیں۔ 

خوف ورجا

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ و ارضاہ نے فرمایا : اولیاء و ابدال کے لیے اللہ تعالی کے افعال میں سے جو محیر العقول اور خارق العادة امور ظاہر پذیر ہوتے ہیں ان کی دو قسمیں ہیں جلال اور جمال۔ 

جب جلال کا ظہور ہو تا ہے تو خوف و دہشت چھا جاتی ہے۔ اور دلوں پر ایک رعب و غلبہ کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے جس کا اظہار جوارح کے ذریعے بھی ہو تا ہے۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺکے متعلق روایت کیا جاتا ہے کہ آپ جب نماز ادا فرماتے تو شدت خوف سے آپ کے سینہ اقدس سےہنڈیا کے ابلنے کی سی آواز سنائی دیتی کہ کیونکہ آپﷺ جلال خداوندی کا مشاہدہ کر رہے ہوتے۔ اور عظمت الہی کو عیاں دیکھ رہے ہوتے تھے۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام اور امیر المومنین عمر فاروق کے بارے بھی ایسی ہی کیفیات کا تذکرہ ملتا ہے۔ 

رہا مشاہده جمال تو یہ دلوں پر صفات خداوندی کی تجلی کے سبب ہوتا ہے۔ اور اس تجلی میں انوار خداوندی، سرور والطاف ، كلام لذیذ وحدیث انیس ہوتی ہے۔ انسان کو بڑی بخششوں ، منازل عالیہ اور قرب الہی کی بشارت ملتی ہے۔ اور اسے بتایا جاتا ہے کہ یہ سب نعمتیں تیرے مقدر میں لکھ دی گئی ہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور یہ محض اللہ کا فضل ورحمت ہے۔ اللہ تعالی دنیا میں انسان کو ثابت قدم رکھتا ہے تا کہ انسان زندگی بھر نافرمانی کاراستہ اختیار نہ کرے۔ اور فرط شوق اور محبت الہی کی شدت کی وجہ سے قوتیں اور طاقتیں ماند نہ پڑ جائیں اور عبودیت کے حق کو ادا کرنے سے کمزور نہ ہو جائیں۔ اور یہ ثبات انہیں اس وقت تک حاصل رہے جب تک یقین کی منزل نہیں آجاتی یعنی دنیا سے کوچ کا وقت نہیں آجاتا۔ پس اللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے جمال تجلی فرماتا ہے اور اس طرح ہمیشہ اپنے بندوں کے قلوب کی تربیت فرماتارہتا ہے۔ کیونکہ وہ دانا ہے علیم ہے اور اپنے بندوں پر لطف و کرم کرنے والا بہت مہربان اور رحیم ہے۔ اس لیے نبی کریم ﷺ کے متعلق مروی ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے قُمْ يَا بِلَالُ، فَأَرِحْنَا بِالصَّلَاةِاے بلال اٹھواور نماز سے ہمیں راحت باہم پہنچا، کیونکہ نماز میں آپﷺکو جمال خداوندی کا مشاہدہ ہو تا تھا۔ 

اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا۔ وَجُعِلَتْ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِاور میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے

 حرص و ہوا کی مخالفت کیجئے اور ان کے نقصانات سے محفو ظ رہئے 

ایک طرف اللہ عزوجل ہے، دوسری طرف تیرا نفس اور تو در میان میں مخاطب و مکلف ہے۔ نفس اللہ تعالی کا مخالف اور دشمن ہے۔ اس کے علاوہ دنیاکی ہر چیز الله تعالی کی فرمانبردار ہے۔نفس بھی اللہ عزوجل کی مخلوق اور اس کی ملکیت ہے۔ لیکن اس میں ادعاء ، خواہش، شہوت و لذت کاداعیہ بھی ہے۔جب تو مخالفت و عدوات نفس میں حق تعالی کی موافقت کر لے گا تو نفس کے خلاف اللہ تعالی کی مدد کرنے والا ٹھہرے گا۔ جیسا کہ رب قدوس نے اپنے نبی حضرت داؤد علیہ السلام سے فرمایا۔ 

ا ے داؤد ! عبودیت یہ ہے کہ نفس کے مقابلے میں تو میرا مدد گاربن جا مخالفت نفس کے ذریعے ہی تجھے اللہ تعالی کی سنگت نصیب ہوگی اور عبودیت معتبر ہو گی۔ جب تو اس کی بندگی اور سنگت اختیار کر لے گا تو پھر دنیا کی نعمتیں خودبخود تیری طرف کھچی چلی آئیں گی اور تو عزیز و مکرم ٹھہرے گا۔ مخلوق تیری خادم ہو گی۔ دنیا تیری عزت و توقیر کرے گی کیونکہ کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے تابع فرمان ہے۔ مخلوق کا ہر فرداس کے موافق ہے کیونکہ وہ ہر چیز کا خالق ہے۔ اور ہر چیز اللہ کی عبودیت کا اقرار کرنے والی ہے۔ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ 

وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا 

اوراس کائنات میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں مگر وہ اس کی پاکی بیان کرتی ہے اس کی حمد کرتے ہوئے۔ لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھ نہیں سکتے۔ بیشک وہ بہت بر دبار ، بہت بخشنے والا ہے 

یعنی ہر چیز اللہ تعالی کاذ کر کرتی ہے اور بندگی بجا تی ہے۔ فرمایا۔ 

فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا ‌طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ  پس فرمایا آسمان کو اور زمین کو کہ آجاؤ تعمیل حکم اور لوائے فرائض کیلئے خوشی سے یا مجبور اًدونوں نے عرض کی ہم خوشی خوشی دست بستہ حاضر ہیں ۔

عبادت ہے ہی یہ کہ تو اپنے نفس اور خواہش کی مخالفت کر۔ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ 

وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ اور نہ پیروی کیا کرو ہوائے نفس کی۔ وہ بہکادے گی تمہیں راہ خدا سے“ 

رب قدوس نے حضرت داؤد علیہ السلام سے فرمایا : حرص و ہوا کو چھوڑ دے کہ اس کے علاوہ کوئی نہیں جو میری مملکت میں مجھ سے جھگڑے۔ 

حضرت بایزید بسطامی رضی اللہ عنہ کے متعلق مشہور ہے کہ جب آپ نے خواب میں رب العزت کی زیارت کی تو بارگاہ خداوندی میں عرض کی۔ 

بار الہ! تیری قربت کا راستہ کونسا ہے ؟ رب قدوس نے فرمایا نفس کا 

ساتھ چھوڑ دے اور چلا آ، حضرت ابو یزید رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نفس 

سے یوں دور ہوا جیسے سانپ اپنی کینچلی سے الگ ہوتا ہے ۔

اس گفتگو سے ثابت ہوا کہ ساری بھلائی ہر حال میں مخالفت نفس میں ہے۔ اگر تو حالت تقوی میں ہے تو اس کی مخالفت یوں کر کہ حرام و مشکوک اور خلق کے عطیات کو ترک کر دے۔ اور ان پر کسی طرح بھروسہ نہ کر۔ نہ تیرے دل میں مخلوق کا خوف ہو اور نہ ہی اس سے کسی قسم کی امید اور طمع دنیا کے اس ایندھن کو ان کے ہاتھوں سے قبول نہ کر۔ نہ تحفہ کی صورت میں اور نہ زکوة و صدقہ کی صورت میں نہ کفارہ کی صورت میں اور نہ ہی نیاز کی صورت میں۔ مخلوق سے ہر قسم کی توقعات منقطع کر دے حتی کہ تیرے دل میں کسی آدمی کی موت کا خیال اس وجہ سے نہ آئے کہ تجھے اس کی وراثت سے کچھ حصہ ملنے والا ہے۔ 

خلق سے تعلق توڑ دے اور انہیں ایسا دروازہ یقین کر جو بند کیا جاتا ہے اور کھولا جاتا ہے اور ایسادر خت خیال کر جس کا پھل کبھی تو ہاتھ لگ جاتا ہے اور کبھی اس کا حصول محال بن جاتا ہے۔ ہر کام ایک ذات کے فعل اور ایک مدبر کی تدبیر سے واقع ہو رہا ہے۔ اور وہ فاعل اور مدبر اللہ عزوجل ہے۔ اگر یہ بات تیرے دل میں بیٹھ گئی تو تو اللہ رب العزت کو ایک یقین کرنے والا ہے۔ 

لیکن اس کے ساتھ ساتھ کسب انسانی کو مت بھول۔ تا کہ مذہب جبریہ سے نجات پائے۔ اعتقاد رکھ کہ افعال محض انسان کےکسب سے صادر نہیں ہوتے بلکہ ان کے صدور میں مشیت ایزدی کار فرما ہوتی ہے۔ ورنہ اللہ تعالی کو بھول کر انسانوں کو معبود سمجھ بیٹھے گا۔ اور کبھی نہ کہہ فلاں کام انسانوں کا فعل ہے اور اس میں اللہ تعالی کی مشیت کو دخل نہیں۔ ایساکہنا کفر ہے اور یہ قدریہ کا عقیده ہے بلکہ یوں کہہ کہ تمام افعال کا خالق اللہ ہے۔ ان کا صدور انسانی کسب سے ہوتا ہے۔ جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے۔ اسی لیے نیکی و بدی پر ثواب یا عقاب مرتب ہوتا ہے۔ 

خلق سے تعلقات کے سلسلے میں اوامر خداوندی کی پیروی کر اور انسانوں سے اللہ تعالی کے عطیہ کو لیتے وقت بھی اس کے حکم کو ملحوظ خاطر رکھ اور کسی لمحے حد سے تجاوز نہ کر۔ تیرے اور دوسرے انسانوں کے بارے حکم اللہ تعالی کابر پا ہو گا۔ اس لیے خود حاکم نہ بن بیٹھ۔ مخلوق کے بارے علم اللہ تعالی کا ہی برپا ہو گا۔ اس لیے خود حاکم نہ بن بیٹھ ۔ مخلوق کے بارے تیرا یہ اعتقاد رکھنا کہ افعال انہیں کی قدرت سے صادر ہوتے ہیں وجہ شرک ہے۔ پس اس ظلمت میں چراغ کے بغیر مت داخل ہو۔ اور چراغ اللہ تعالی کا علم، کتاب و سنت ہے۔ کتاب و سنت سے باہر مت جا۔ اگر دل میں کوئی خیال ابھرے، الہام ہو تو اسے کتاب و سنت پر پیش کر۔ اگر قرآن و سنت کی روسے وہ فعل حرام ہے مثلا زنا، سود ، اہل فسق و فجور کی دوستی اور اس جیسے دوسرے گناہ تو ان کے قریب تک نہ جا۔ نافرمانی کے ایسے کام سے دور ہو جا۔ اسے ترک کر دے اسے کسی صورت قبول نہ کرو اور ایسے خیالات کو عملی جامہ نہ پہنا۔ یقین کر لے کہ یہ الہام نہیں شیطان لعین کی طرف سے وسوسہ اندازی ہے۔ اگر قرآن و سنت میں وہ کام مباح ہے۔ مثلا کھانے پینے کی چیزیں۔ لباس، نکاح تو بھی ان سے احتراز کر اور انہیں قبول نہ کر۔ اور جان لے کہ یہ خیال بھی نفس کا الہام اور خواہش ہے۔ اگر قرآن وسنت میں نہ اس کی مذمت پائی جارہی ہے اور نہ ہی اس کی اباحت بلکہ وہ ایسا معاملہ ہے جسے تو سمجھنے سے قاصر ہے مثلا تجھے کہا جاتا ہے کہ فلاں جگہ حاضر ہو۔ فلاں نیک شخص کی خدمت میں حاضری دے۔ تو بھی تجھے کوئی ضرورت نہیں کہ اس خیال پر عمل پیرا ہو۔ کیونکہ تیر اوہاں جانا ایک آدمی سے ملنا ضروری نہیں۔ علم و معرفت کی صورت میں اللہ تعالی کی عطا کردہ نعمتوں نے تجھے اس سے مستغنی کر دیا ہے۔ توقف اختیار کر اور جلدی نہ کر۔ بلکہ یوں کہہ کہ اگر یہ حق تعالی کی طرف سے الہام ہے تو میں اس پر عمل کروں گا۔ پھر بھلائی اور فعل خداوندی کا انتظار کر کہ یہ بات تیرے دل میں دوبارہ ڈالی جائے اور تجھے جانے کا حکم دیا جائے یااہل معرفت کے لیے کوئی علامت ظاہر ہو جسے اولیاء وابدال سمجھ جائیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ دلی خیالات کو فورا عملی جامہ پہنانے کی کوشش نہ کرے کیونکہ تو نہیں جانتا اس کا انجام کیا ہو گا۔ ممکن ہے اس کامال بہتر ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ فتنہ و آزمائش اور ہلاکت و فریب ہو۔ صبر کر حتی کہ اللہ تعالی خود ترے اندرفاعل بن جائے۔ 

جب تو دلی خیالات پر عمل کرنے سے رک جائے گا اور معاملہ اللہ تعالی کے سپرد کر دے گا اور پھر کسی آزمائش سے سامنے ہو گا تو دست قدرت تیری دستگیری فرمائے گا اور تجھے لغزش سے محفوظ رکھے گا۔ کیونکہ یہ عمل اللہ کا ہو گا اور اللہ تعالی اپنے فعل پر تجھے سزا نہیں دے گا۔ تجھے سزا تو اس وقت ملتی کہ تیر اس کام میں ارادہ شامل ہوتا۔ اگر تو حالت حقیقت یعنی حالت ولایت میں ہے تو خواہش نفسانی کی مخالفت کر اور تمام امور میں حکم خداوندی کی اتباع کر۔ 

اتباع کی دو صورتیں ہیں۔ 

ایک صورت تو یہ ہے کہ دنیا سے قوت لا يموت حاصل کر یعنی جو تیرے نفس کا حق ہے لذائذ دنیا کو ترک کر دے فرائض کو ادا کر اور ظاہری وباطنی تمام گناہوں کو ترک کر دے۔ 

دوسری صورت امر باطنی کی ہے۔ اللہ تعالى باطن کے متعلق بھی حکم صادر فرماتا ہے۔ بعض چیزوں کا حکم دیتا ہے بعض چیزوں سے منع فرماتا ہے۔ القاء والہام مباحات کے بارے ہوتا ہے۔ جن امور کے بارے شریعت مطہر ہ میں کوئی حکم نہیں ہوتا۔ یعنی نہ توممنوع ہوتے ہیں اور نہ ہی واجب اور فرض۔ ایسے امور میں بندہ اپنے اختیار سے تصرف کرنے کا مجاز ہوتا ہے۔ مباح امور کے بارے اپنی طرف سے کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہیئے بلکہ انتظار کرنا چاہیئے۔ جب بھی بذریعہ الہام والقاء اللہ تعالی کی طرف سے کوئی حکم صادر ہو تو عمل پیرا ہو ۔ اس طرح ده اپنی تمام حرکات و سکنات میں اللہ تعالی کا تابع فرمان ہو جائے گا۔یعنی امور مشروعہ میں شریعت کی پیروی اور مباحات میں الہام والقاء کی پیروی اور جن کے بارے نہ حکم شرع ہونہ الہام ہو تو اس سے مجتنب ہو کر سر تسلیم خم کر دے گا اور اگر تو حالت حق الحق یعنی حالت محو وفنا میں ہے۔ جوابدال، شکستہ دل ، اہل معرفت و توحید ، ارباب علم و عقل سید الامراء ، پیشوان خلق تائبین حق، خاصان بارگاہ اور محبوبان ایزد تعالی کی حالت ہے تو اس حالت میں حکم خداوندی کی اتباع اس طرح کر کہ تو اپنے نفس کی مخالفت کر رہا ہو اور ہر قوت و طاقت سے اپنے آپ کو خالی یقین کر رہا ہو۔ اور دیار عقبی کی کسی شے کا تیرے دل میں ارادہ اور خواہش نہ ہو۔ اگر تو یوں اللہ تعالی کی فرمانبرداری کرے گا بادشاہ حقیقی کا بندہ بن جائے گا اور دنیا کی بندگی سے محفوظ رہے گا۔ تیرا ہر قدم اللہ تعالی کے حکم سے اٹھے گا خواہش نفس کی وجہ سے نہیں۔ اور تیری مثال اس شیر خوار بچے کی ہوگی جو دایہ کے ہاتھوں میں ہوتا ہے یا اس میت کی مانند جو غسال کے ہاتھوں میں بے حس و حرکت یا پھر پہلو کے بل لیٹے ہوئے اس مرض کی طرح جو خود سپردگی کی حالت میں طبیب کے سامنے لیٹا ہوتا ہے۔ یہ جس پہلو پر جیسے چاہتے ہیں اے حرکت دیتا ہے۔ امرونہی میں  بندہ یونہی اپنے مالک کی فرمانبرداری کر تا ہے۔ 

شہوت کی آگ بجھادے ورنہ یہ آگ خور تجھے خاکستر کر دے گی

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاه نے فرمایا : حالت فقر میں جب تجھے نکاح کی ضرورت پیش آئی اورتجھ میں اس بوجھ کو اٹھانے کی سکت نہ تھی۔ تو نے اس پر صبر کیا اور باری تعالی کی طرف سے کشائش کا انتظار کیا تو وہ ضرور آسانی باہم پہنچائے گا۔ یا تو نکاح کی ضرورت اور شہوت کو جس طرح پیدا کیا اور اس کا خیال تیرے دل میں ڈالا ہے اس طرح اس کو دور فرمادے گا یا پھر تجھے نکاح پر قدرت دے کر تیری دستگیری فرمائے گا اور دنیا کے جتنے بوجھ ہونگے خود اٹھائے گا اور تیری اپنے فضل سے کفالت کرے گا اور شادی کو تیری اخروی بہتری کیلئے رکاوٹ نہیں بنائے گا۔ 

صبر کی صورت میں اللہ تعالی تجھے صابر کے لقب سے موسوم فرمائیگا۔ اور تیری عصمت و قوت میں اضافہ فرمائے گا اور اگر نکاح کرنا تیرے مقدر میں ہوا اور تو نے نکاح کر لیا تو تجھے سب آسانیاں باہم پہنچائے گا اور صبر و شکر سے بدل دے گا۔ کیونکہ اس نے وعدہ فرمارکھا ہے کہ شکر کرنے والوں کی نعمتوں کو میں اور بڑھاؤں گا۔ ارشاد ربانی ہے۔ 

لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْاگر تم پہلے احسانات پر شکر ادا کرو تو میں مزید اضافہ کر دوں گا“

 اور اگر نکاح مقدر میں نہیں تو تیرے دل سے نکاح کے خیال کو دور کر کے تجھے مستغنی فرمادے گا۔ نفس چا ہے یا انکار کرے۔ 

ہر حال میں صبر لازم ہے۔حرص ہوا کی مخالفت ضروری ہے۔حکم خداوندی کو گلے سے لگا لے اور اس کے فیصلے پر راضی ہو جا۔ اور پھر اس سے فضل و عطا کا امیدوار بن جا. الله جل وعلا کا ارشاد گرامی  ہے۔ 

إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَاب صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا“ 

دنیا کی نعمتیں تجھے منعم سے غافل نہ کردیں

حضرت شیخ رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے ارشاد فرمایا : جب تجھے اللہ تعالی نے مال و دولت سے نوازا اور تو دنیا میں مشغول ہو کر اللہ تعالی کی اطاعت سے غافل بن بیٹھا تو دنیاوعقبی میں تجھے اپنے سے دور اور محجوب کر دے گا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تجھ سے ساری نعمتیں چھین لے۔ اور اس جرم کی پاداش میں تجھ پر فقر و افلاس کو طاری کر دے۔ اس کے بر عکس اگر تو مال و دولت سے اللہ تعالی کی اطاعت میں مشغول ہو گیا تو دنیا کی یہ نعمتیں عطیہ خداوندی بن جائیں گی اور ایک ذرہ بھی فرمانبرداری کی وجہ سے دولت کم نہیں ہو گی۔ اب مال ودولت تیرے چاکر اور توان کا آقا ہو گا۔ تو دنیا میں راحت و سکون کی زندگی بسر کرے گا اور آخرت میں مکرم و معظم ہو گا۔ جنت الماوی تیر اٹھکانا ہو گی اور صدیقین، شہداء اور صالحین تیرے ہم جلیس ہونگے۔ 

حقیقی بھلائی وہ ہے جسے اللہ پسند کرے .

حضرت شیخ عبد القادر رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے فرمایا حصول نعمت اور دفع شر کو اپنے اختیار میں نہ لے۔ اگر تیری قسمت میں نعمتوں کا حصول مقدر ہو چکا ہے تو تجھے لا محالہ تو پسند کرے یانا پسند کرے نعمتیں میسر ہونگی اسی طرح اگر مصیبت مقدر میں ہے تو بھی اس سے سامنا ہو گا چاہے تو اسے ناپسند کرے۔ بچنے کی دعا کرے یا صبر کرے اور رضائے مولا کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔ ہر چیز خیر و شر اسی ذات احد کے سپرد کر دے تا کہ وہ تجھ میں اپنا فعل صادر فرمائے۔ 

اگر اس کی بارگاہ سے نعمتیں عطا ہوں تو شکر کر۔ مصیبت آئے توبہ تکلف. صبر کر یا بے تکلف صبر کر یا تسلیم و رضا کا شیوہ اختیار کر یا مصائب و آلام سے لطف اندوز ہو یا مصائب و آلام میں فناء ومحو ہو جا پس ایسے میں تجھے ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقل کیا جائے گا۔ اور اس مولا کی راہ میں تجھےسیر کرائی جائے گی جس کی اطاعت و دوستی کا تجھے حکم دیا گیا ہے۔ تجھے کئی جنگلوں اوربیابانوں سے گزارا جائے گا۔ کئی بیابانوں کی سیر کرائی جائے گی تاکہ تو اپنے مالک حقیقی کا قرب حاصل کر سکے۔ : اور اپنے پیش رو صدیقوں، شہیدوں اور نیک لوگوں کے ساتھ تیرا ٹھکانا ہو۔یعنی تجھے اس ذات کا قرب عطا ہو جو بلند مرتبہ اور سب سے اعلی ہے اور ان لوگوں کے مقام و مرتبہ کا مشاہدہ کر سکے جورب قدوس کے مقرب ہیں اورتجھ سے پہلے اس منزل تک بن چکے ہیں۔ اور جنہوں نے ہر تازه نعمت، لذت و سرور ، امن و راحت اور کرامت و بزرگی پائی ہے۔ 

جو مصیبت آتی ہے آنے دے اور اس کا راستہ روکنے کی کوشش نہ کرنہ اس کے راستے میں دعا کا تازیانہ لیکر کھڑا ہو اور نہ ہی اس کے آنے پر آہ و بکا کر۔ دیکھ جہنم کی آگ سے بڑھ کر کوئی آگ نہیں اس کی تپش ہرتپش سے کہیں زیادہ ہے۔ کیونکہ سرور کائنات زمین میں بہنے والوں اور آسمان کی چھت کے سائے میں زندگی بسر کرنے والوں میں سب سے بہتر اللہ کے چنیدہ جن کا اسم گرامی محمد ﷺکا ارشاد گرامی ہے۔ 

تَقُولُ النَّارُ لِلْمُؤمِن يَوْمَ الْقِيَامَةِ: ‌جُزْ ‌يَا ‌مُؤمِنُ؛ فَقَدْ أَطْفَأَ ‌نُورُكَ ‌لَهَبِى جنم کی آگ مؤمن سے کہے گی جلدی گزر جا تیرے نور ایمان نے میرے شعلوں کو بجھادیا ہے“ 

جہنم کے گھر کے شعلوں کو بجھانے والا یہ نور ہی نور بصیرت ہے جو دنیا میں بندہ مومن کو عطا ہوتا ہے اور جس کے ذریعے وہ اطاعت گزار اور عصیاں شعار میں تمیز کر سکتا ہے یقینا یہ نور مصیبت کے شعلوں کو ٹھنڈا کر دے گا اور تیرا صبر اور موافقت مولا کی ٹھنڈک مصیبت کی تپش کو ختم کردیں گے۔ 

مصیبت تیری ہلاکت کیلئے نہیں آئی بلکہ اس لیے آئی ہے کہ تجھے آزمائے تیرے ایمان کی صحت کو ثابت کرے، تیرے یقین کی بہار کو تقویت دے اور تجھے یہ بشارت دے کہ یہ مصیبت تیرے پروردگار کی طرف سے ہے اور تیرے صبرسے اس ذات کو فخر ہے۔ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجَاهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّابِرِينَ اور ہم ضرور آزمائیں گے تمہیں تا کہ ہم دیکھ لیں تم میں سے جو مصروف جہادرہتے ہیں اور صبر کرنے والے ہیں“۔ 

جب حق کے ساتھ تیرا ایمان ثابت ہو گیا اور تونے فعل خداوندی کی اپنے یقین کے ذریعے موافقت کرلی اور یہ سب اللہ کی توفیق سے ہے اور محض اس کا فضل و احسان ہے تو اب ہمیشہ صبر و موافقت اور تسلیم و رضاکا مظاہرہ کر اپنے اور کسی دوسرے کے حق میں کوئی ایسا کام نہ کر جوامر و نہی خداوندی سے تجاوزکاباعث ہو۔ پس تھے جب بھی اللہ کا کوئی حکم پہنچے تو اس کی تابعداری کر۔ فرمانبرداری میں جلدی کر۔ تڑپ جا، حرکت میں آجا اور کسل مندی کو چھوڑ دے۔ قضا و قدر پر نہ چھوڑ بلکہ اپنی پوری سعی و کوشش کو کام میں لاتا کہ حکم خداوندی کی بجا آوری ہو سکے۔ ہاں اگر کسی وجہ سے حکم کی بجا آوری سے عاجز و درماندہ ہے تو الگ بات ہے۔ ایسے میں بارگاہ خداوندی میں التجا کر۔ اس سے پناہ مانگ و زاری کر اور اپنی تقصیروں پر عذر خوانی کر اور دیکھ وہ کوئی وجہ ہے کہ تو اپنے رب کے حکم کو بجا لانے سے عاجز ہے اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کے شرف و سعادت سے محروم ہے۔ ہو سکتا ہے یہ عجزو درماندگی تیرے دعاوی(دعوے) ، اطاعت میں سوئے ادبی، رعونت۔اپنی قوت و طاقت پر بھروسے ، اپنے عمل پر عجب ، اور اپنے نفس اور خلق خدا کو اللہ کا شریک ٹھہرانے کی وجہ سے ہو۔ اور اللہ کریم نے خود پسندی، سوئے ادبی، غرور و تکبر اور مخفی شرک کی وجہ سےتجھےاپنے دروازے سے دھتکار دیا ہو۔ تجھے اپنے اطاعت سے الگ کر دیا ہو اور اپنی عبادت کی توفیق تجھ سے چھین کر تجھے مصائب و آلام دنیوی، حرص و ہو ارادے اور آرزو میں مشغول کر دیا ہو۔ کیا تجھے معلوم نہیں کہ دنیا کی یہ سب چیزیں مولا سے غافل کرنے والی ہیں۔تجھےتیرے خالق کی نگاہ کرم سے گرانے والی ہیں۔ جس خالق نے تجھے وجود بخشنے کے بعد مرتبہ کمال تک پہنچایا ہے، مال و متاع سے نوازا ہے اور دوسری کئی طرح طرح کی نعمتوں سے تیر ادامن مراد بھر دیا ہے۔ خبر دار کہ دنیا کی یہ نعمتیں تجھے تیرے مولا سے غافل کر دیں اور تیری ساری توجہ غیر کی طرف مبذول ہو جائے۔ میرے پروردگار کے علاوہ جو کچھ ہے سب غیر ہی تو ہے۔ غیر کو اس کریم پر ترجیح نہ دے۔ وہی تو تیراخالق ہے۔ اپنی جان پر ظلم نہ کر کہیں ایسانہ ہو کہ تو اس کے حکم سے غافل ہو کر غیر میں مشغول ہو اور اس آگ کا ایندھن بن جائے جس میں انسان اور پتھر جلیں گے۔ پھر تو نادم ہو اور اس وقت کی پشیمانی تجھے کچھ فائدہ نہ دے تو مدد کا طالب ہو مگر تیری مدد نہ کی جائے۔ 

تو رضا کا طالب ہو مگرتجھ سے راضی نہ ہو تو دنیا میں واپس آنا چاہے کہ تلافی مافات کرے اور اصلاح کرے مگر تجھے واپس نہ کیا جائے۔ اپنے آپ پر رحم کر اور اپنی جان پر ترس کھا۔ تجھے جتنے اسباب میسر ہیں۔ جتنی نعمتوں سے تو نوازا گیا ہے ان سب کو اپنے مولا کی اطاعت میں صرف کر اور ان اشیاء کے نور سے قضا و قدر کی ظلمتوں میں روشنی کا سامان بہم پہنچا۔ امر و نہی کو مضبوطی سے پکڑ اور انہی کے مطابق اپنے پروردگار کے راستے میں چل امرونہی کے علاوہ ہر چیز اس ذات کے سپرد کر دے جس نے تجھے پیدا کیا اور تجھے وجود بخشا۔ اللہ کریم کے ساتھ کفر نہ کر جس نے تجھے مٹی سے پیدا کیا۔ پروان چڑھایا۔ پھر نطفہ سے پیدا کیا پھر تجھے معتدل و مناسب ساخت انسان بنایا اس کے حکم کے علاوہ کسی اور کے حکم پر عمل پیرا ہونے کا ارادہ نہ کر اور اس کی نہی کے علاوہ کسی اور چیز سے نفرت نہ کر۔ دنیاو آخرت میں صرف اسی مراد پر قناعت کر اور صرف اس مکروہ کو نا پسندیدہ خیال کر۔ باقی سب اسی مراد اور اسی مکروہ کے تابع ہیں۔ 

جب تو اپنے پروردگار جل وعلا کی فرمانبرداری کرے گا تو کائنات تیرا حکم بجالائے گی اور جب تو اس کی ممنوع کردہ چیزوں کو ناپسند کرے گا توجہاں ہوگا اور جس جگہ قیام کرے تجھ سے دور بھاگیں گے۔ 

اللہ تعالی نے اپنی کسی کتاب میں فرمایا : اے آدم کے بیٹے ! میں اللہ ہوں۔ میرے سوا کوئی معبود نہیں۔ میں ایک چیز سے کہتا ہوں ہو جا تو وہ چیز عدم سے وجود میں آجاتی ہے۔ میری اطاعت کرتا کہ میں تکوینی امور تیرے سپرد کر دوں پھر تو بھی ایک چیز سے کہے ہو جا اور وہ ہو جائے۔ رب قدوس نے فرمایا۔ اے دنیا !جو میری خدمت کرے تو بھی اس کی خد مت بجالا۔ اور جو تیری خد مت کرے اسے تھکا دے۔ 

جب اللہ تعالی کی طرف سے کسی کام سے روکا جارہا ہو تو یوں مان جا کہ تیرے اعضاء میں طاقت ہی نہیں کہ تو اس کام کو کر سکے۔ تیرے حواس مختل(خلل پذیر) ہیں۔تیرادل سست و دیوانہ ہے تو عاجز و در ماندہ ہے۔ تیرا جسم مردہ اور خواہش نفسانی اور تقاضاء بشری سے محروم ہے۔ تجھ میں طبعیت کار حجان باقی نہیں ہے۔ تیرے جسم کے گھر کا من گویا بے نور ، بنیادیں ویران اور چھت بو سید ہ ہے تو حس و حرکت سے خالی ہے۔ تیرے کان گویا بہرے حالانکہ ان کو شنوا(سننے والے) پیدا کیا گیا تھا۔ تیری آنکھوں پر حجاب ہیں۔ یا تیری آنکھیں آشوب چشم کی وجہ سے کچھ دیکھ نہیں سکتیں۔ یا تجھے کچھ نظر نہیں آتا کہ تو شروع سےبصارت سے محروم ہے۔ تیرے ہونٹ گویا زخمی ہیں اور بات کرنے کے قابل نہیں۔ تیری زبان گونگی ہے اور توہکلا ہے۔ تیرے دانتوں میں سخت درد ہے اور شدید تکلیف کی وجہ سے بول نہیں سکتا۔ تیرے ہاتھ شل ہو چکے ہیں اور ان میں پکڑنے کی سکت نہیں۔ تیری ٹانگوں میں لرزش ہے۔ وہ زخمی ہیں اور تو قدم اٹھانے سے قاصر ہے۔ تیری قوت شہوانی زائل ہو چکی ہے اور اب تجھے اس کو پورا کرنے سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ تیرا پیٹ بھرا ہے۔ بھوک مٹ چکی ہے کھانے پینے کی ضرورت ہی نہیں۔ تیرے عقل میں فتور ہے۔ تو مخبوط الحواس ہو چکا ہے اور گویا تیرا جسم ایک لاشہ ہے جو قبر میں رکھا جا چکا ہے۔ . پس علم الہی پر ہمہ تن گوش ہو جا۔ اسے پورا کرنے میں دیر نہ کر اور جس چیز سے وہ روک دے اس سے رک جاء احتراز کر بیٹھ جا اور ہاتھ کھینچ لے۔ قضاءو قدر کے سامنے مردہ،فانی اور معدوم ہو جا۔ 

ان شربتوں کو پی اس دواء کو استعمال کر اور یہ غذا کھاتا کہ تو شفا پائے۔ گناہوں اور خواہشات کے امراض سے باذن اللہ بچ جائے۔ 

اس کیلئے سبقت لے جانے والے سبقت لے جانے کی کوشش کریں

 حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے فرمایا : اے بنده نفس و ہوا واصلان حق کی حالت کا ادعاء نہ کر۔ توبندہ حرص و ہوا ہے اور وہ بندہ مولا۔ تو دنیا کا طالب اور وہ عقبی کی بھلائی کے متلاشی۔ تیری نظر دنیاپر اور ان کے نظر ارض و سماء کے رب پر۔ تو خلق سے مانوس اور وہ حق تعالی کی محبت کے گرفتہ، تیرا دل دنیا کی زیب و زینت میں انکا ہے اور ان کے دل عرش کے مالک کی محبت میں اسیر ہیں۔ تو ہر نظر آنے والی چیز کا نخچیر اور وہ ہر چیز سے بے نیاز صرف جمال خداوندی کے مشاہدہ میں مشغول۔ اللہ تعالی کےیہ بندے دونوں جہان میں کامیاب و کامران ہیں۔ تو دنیا کے لذائذو حظوظ کا قیدی ہے جبکہ اللہ کے یہ بندے خلق ، حرص ، ارادہ اور آرزو سے فانی ہیں۔ وہ بادشاہ حقیقی کے مقرب ہیں۔ اللہ تعالی نے انہیں اپنے مطلوب یعنی اطاعت اور حمدو ثناکا ادراک بخش دیا۔ یہ الله کا فضل ہے جسے چاہتا ہے اپنے فضل سے نوازتا ہے۔ انہوں نے اسے لازم پکڑا۔ اس پر اللہ کی توفیق سے مواظبت اختیار کی۔ 

سواطاعت خداوندی ان کی روح اور غذا بن  گئی اور یہ دنیا ان کے حق میں نعمت اور جزا ٹھہری۔ گویا یہی ان کی جنت الماوی ہے کیونکہ ہر چیز میں وہ فعل خداوندی کو عیاں دیکھتے ہیں جس نے اس دنیا کو تخلیق کیا اور وجودبخشایہی وہ اللہ تعالی کےبندے ہیں جن کے صدقے زمین اور آسمان کو ثبات حاصل ہے۔ انہی کے طفیل مرنے والوں اور زندوں کو سکون و قرار نصیب ہے کیونکہ یہ لوگ زمین کے اوتاد ہیں جن کی وجہ سے زمین قائم ہے۔ ان میں سے ہر شخص ایک مضبوط پیڑ کی مانند ہے۔ ان کے راستے میں نہ آاور مزاحمت نہ کر کہ اس راہ میں وہ اپنے آباء اور اولاد کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔ وہ زمین پر پھیلی اللہ تعالی کی سب مخلوق سے بہتر لوگ ہیں ان پراللہ تعالی کی طرف سے سلامتی اور برکتیں ہوں جب تک کہ آسمان اور زمین باقی ہیں۔ 

خوف ورجاء ایمان کے گویادو پر ہیں

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاه نے فرمایا : میں نے خواب دیکھا کہ مسجد جیسی کوئی جگہ ہے جس میں دنیاو مافیھاسے بے نیاز کچھ لوگ بیٹھے ہیں۔ میں نے سوچا اگر فلاں شخص یہاں ہوتا توان درویشوں کو آداب شریعت سکھاتا اور وعظ و تلقین کرتا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ درویش میرے ارد گردجمع ہو گئے۔ ایک بولا۔ عبد القادر ! آپ خود کچھ کیوں نہیں فرمادیتے ؟ میں نے کہا۔ اگر تم چاہو تو میں ہی کچھ بیان کر دیتا ہوں۔ 

پھر میں نے انہیں نصیحت کی اور کہا : جب تم دنیا سے لا تعلق ہو کر اللہ تعالی کے ہو کر رہ گئے ہو تو پھر اپنی زبانوں سے لوگوں سے کسی چیز کے بارے مت پوچھو۔ اور جب تم زبان سے ترک سوال کر چکے ہو تو پھر اپنے دل کے ذریعے بھی سوال نہ کرو بلاشبہ دل کے ساتھ سوال زبان کے ساتھ سوال کرنے کی طرح ہے۔ جان لو کہ مخلوق کو سنوارنے اور بگاڑنے اور بلند و پست کرنے میں وہ ہر روز ایک نئی شان سےتجلی فرماتا ہے۔ بعض کو اعلی علیین کے مرتبے پر فائز کر تا ہے اور بعض کو اسفل السافلین کی حد تک پست کر دیتا ہے۔ 

جنہیں وہ اعلی علیین تک بلند کرتا ہے انہیں ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہےکہ  کہیں وہ اسفل السافلین میں نہ دھکیل دئیے جائیں اور ساتھ یہ امید بھی ہوتی ہے کہ اللہ کریم انہیں بلند مقام پر قائم وثابت رکھے گا۔ 

اور جنہیں اللہ تعالی اسفل السافلین کی حد تک پست فرمادیتا ہے انہیں یہ خوف بھی ہوتا ہے کہ کہیں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس پستی کے سزاوار نہ ٹھہرائے جائیں اور یہ امید بھی ہوتی ہے کہ ہو سکتا ہے اللہ کریم کرم فرمائے اور اپنے فضل و احسان سے اعلی علیین کے مرتبے پر فائز کر دے۔ (یہ خواب دیکھنے کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔ 

اللہ تعالی پر توکل کا میابی کی دلیل ہے

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ و ارضاه نے فرمایا : تواللہ تعالی کی نعمتوں اور ان میں افزونی سے اس لیے محجوب و محروم ہے کہ تو نے مخلوق اور اسباب و ذرائع پر بھروسہ کر لیا ہے۔ مخلوق اكل بالسنت (سنت کے طریقے کے مطابق کھانا) کیلئے حجاب ہے۔ جب تک تو مخلوق کے عطیات اور ان کی داد ودہش کا خوگر رہے ان کے آگے ہاتھ پھیلائے گا اور ان کے پاس چکر لگائے گا اللہ تعالی کے فضل سے محروم رہے گا کیونکہ تو خلق کو اللہ کا شریک سمجھتا ہے۔ اس لیے اس نےتجھےاكل بالسنت سے محرومی کی سزا دی ہے۔ اکل بالسنت سے مراد دنیا کی حلال چیزوں کو حلال طریقے سے حاصل کرنا ہے۔ 

پھر جب تو نے مخلوق پر بھروسہ کرنے اوراللہ تعالی کے ساتھ انہیں شریک سمجھنے سے توبہ کی اور سب کی طرف لوٹا تو اب بھی اکل باسنت کی نعمت سے محروم ہے کیونکہ تیرابھر وسہ کسب پر ہے اور تو اس سے آرام پاتا ہے اور اللہ کے فضل و کرم کو توبھولا ہوا ہے۔ اس لیے تو مشرک ہے۔ ہاں یہ شرک خفی ہے اور پہلے سے اس کی نوعیت مختلف ہے۔ اس پر بھی اللہ تعالی تجھے سزادے گا اور اپنے فضل سے محروم رکھے گا۔ اگر تو کسب پر بھروسہ کرنے سے توبہ کر لے اور در میان سے شرک کو ختم کر دے اور کسب پر بھروسہ کرنے اور اپنی قوت و طاقت پر اعتماد کرنے کے بجائے اللہ تعالی کو رزاق یقین کرے اس کو مسبب اور آسانیاں پیدا کرنے والا یقین کرے اور یہ خیال کرنے لگے کہ وہی ذات ہے جو کسب کی قوت اور ہر بھلائی کی توفیق سے نوازتی ہے۔ رزق اسی کے ہاتھ میں ہے کبھی لوگوں کے سامنے دریوزہ گری  (بھیک مانگنا) کی سزا سے دوچار کر کے دیتا ہے۔کبھی محنت و مشقت میں مبتلا کر کے دیتا ہے۔ کبھی اپنی بارگاہ کا فقیر بنادیتا ہے اورکبھی بغیر کسی واسطہ کے محض اپنے فضل و کرم سے عطا کر تا ہے۔ تیرے اور اللہ تعالی کے فضل و احسان کے درمیان کوئی حجاب نہیں رہے گا۔ وہ تجھے اپنے فضل و کرم سے نوازے گا۔بے منت غير تجھے عطا کرے گا۔ تیری ہر ضرورت تیری چاہت کے مطابق پوری کرے گا۔ تیرے ساتھ اس کا بر تاؤمشفق ومہربان طبیب کا ہوگا۔ جس طرح وہ اپنے مریض سے دوستانہ انداز سے پیش آتا ہے۔ اس کی پوری دیکھ بھال کرتا ہے اللہ تعالی تیری نگہداشت فرمائے گا اور تجھے کسی کا محتاج نہیں بنائے گا۔ ماسوا اللہ کے خیال سے میرا دل پاک کر دے گا اور اپنے فضل و کرم سے تجھے خوش کر دے گا۔ 

جب تیرا دل ہر ارادے، ہر شہوت، ہر لذت، ہر مطلوب اور محبوب سے پاک ہو جائے گا اور اراده خداوندی کے علاوہ اور کچھ اس میں باقی نہیں رہے گا تو اللہ تعالی تیرے دل میں تیرے مقسوم و مقدور کو حاصل کرنے کی طلب پیدا کر دے گا اور پھر تیری قسمت میں جو نعمتیں رب قدوس نے پہلے سے لکھ دی ہیں تجھے ضرورت کے وقت بآسانی میسر ہو گئی اور پھر ان نعمتوں پر الله تعالی کی طرف سے شکر کی توفیق بھی ارزانی ہو گی۔ اور تجھے یہ یقین بھی حاصل ہو جائے گا کہ یہ سب اس کا کرم ہے۔ اسی کی دین ہے اور وہی تیر ارازق ہے۔ 

تب تو شکر بجالائے گا۔ معرفت حق حاصل ہو گی اور علم سے نوازا جائے گا۔ یہ جاننے کے بعد توخلق سے اور دور ہو گا۔ لوگوں سے بے نیاز ہو گا اور اللہ کے سواء سے باطن کو خالی کرے

گا۔  پھر جب تیرا علم اور یقین قوی ہو جائیں گے۔ تجھے شرح صدر کی دولت مل جائے گی، تیر ادل منور ہو جائے گا، تجھے قرب کی نعمت مل جائے گی تجھے ایک خاص مقام مل جائے گا اور حفظ اسرار کی وجہ سےتیری اہلیت اور امانت داری واضح ہو جائے گی تو قبل از وقت تجھے معلوم ہو جائے گا کہ میرارزق مجھ تک پہنچنے والا ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالی تیری عزت و توقیر میں اضافہ کرنا چاہتا ہے اور تجھ پر اپنے فضل و احسان کو اور بڑھانا چاہتا ہے۔ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ 

وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً ‌يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ  اور ہم نے بنایا ان میں سے بعض کو پیشوا، وہ رہبری کرتے ہے ہمارےحکم سے جب تک وہ صابر رہے اور جب تک وہ ہماری آیتوں پر پختہ یقین رکھتے تھے۔ وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا

اور جو بلند ہمت) مصروف جہاد رہتے ہیں ہمیں راضی کرنے کے لیے ہم ضرور دکھا دیں گے انہیں اپنے راستے وَاتَّقُوا اللَّهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللَّهُ

اور ڈرا کرو اللہ سے اور سکھاتا ہے تمہیں اللہ ( آداب معاشرت)“

 پھر تجھے امور کو نیہ سونپ دیئے جائیں گے۔ تو کائنات میں تصرف کرے گا۔ اللہ تعالی کااذن واضح ہو گا۔ جس میں کوئی شک نہیں ہو گا۔ تجھے تکوین کے اختیار میں ایسے واضح نشانات دیئے جائیں گے جو چمکتے سورج کی طرح ظاہر و باہر ہو گئے۔ تو کائنات میں لذیذ ترین کلام اور ہر جھوٹ ، ہواوہوس نفسانی سے اور  وساوس شیطانی سے پاک الہام کے ذریعے تصرف کرے گا اللہ تعالی نے اپنی کسی کتاب میں فرمایا : اےابن آدم میں اللہ ہوں۔ میرے سواء کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ میں ایک چیز کو کہتا ہوں ہو جا تووہ ہو جاتی ہے۔ میری اطاعت کر میں یہ مقام دوں گا کہ جب تو کسی چیز کے بارے کہے گا ہو تووہ ہو جائے گی۔ 

اور ایسے معجزات کئی انبیاء و اولیاء اور خواصان بار گاہ کے ہاتھوں صدور ہوئے ہیں۔ عليهم الصلوة والسلام. 

خلق سے خالق اور دنیا سے دنیا پیدا کرنے والے کی طرف سفر کر

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ و ارضاه نے فرمایا : جب تجھے وصول الی اللہ کی دولت مل گئی تو اللہ کی توفیق اور اس کے قریب کرنے سے تجھے قرب خداوندی کا مقام حاصل ہو گیا۔ 

: وصول الی اللہ کا مطلب یہ ہے تو خلق سے ، حرص و ہوا سے اور خواہش وارادہ سے نکل جائے اور اللہ تعالی کے فضل اور اس کے ارادہ کے ساتھ ثابت ہو جائے۔ بلکہ اس کے حکم،امر اور فعل کے ساتھ تھے ثبات مل جائے۔ اس حالت کوفتاء یا وصول الی اللہ کہتے ہیں۔ 

وصول الی اللہ وہ عادی اور معقول وصول نہیں کہ ایک جسم دوسرے تک پہنچ گیا کیونکہ اللہ تعالی کی تو یہ شان ہے۔ 

لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ نہیں ہے اس کی مانند کوئی چیز اور وہی سب کچھ سنے والا دیکھنے والا ہے 

اللہ تعالی اس بات سے کہیں بلند ہے کہ اسے اس کی مخلوق کے مشابہ ٹهہرایا جائے یا اس کی تخلیق کردہ اشیاء پراسے قیاس کیا جائے۔ 

وصول الى اللہ اہل وصول کے نزدیک معروف چیز ہے۔ اللہ تعالی اپنے بندوں کو خود اس کیفیت سے آگاہ فرما دیتا ہے۔ ہر ایک کا اس میں مقام جداجدا ہے۔ اور کسی کو دوسرے کے ساتھ شریک نہیں کرتا۔ یہ اللہ اور اس کے رسولوں، نبیوں اور ولیوں کے درمیان راز ہے۔ جس کی حقیقت کو بیان نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اور اس سے یا تو اللہ تعالی آگاہ ہے اللہ تعالی کے یہ محبوب بند ے ۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ مرید کے راز سے شیخ بے گانہ ہوتا ہے اور شیخ اور اللہ تعالی کے در میان راز سے مرید بے گانہ ہوتا ہے۔ حالانکہ مرید سلوک میں شیخ کی حالت کے دروازے کی چوکھٹ تک  پہنچ چکا ہو تا ہے۔ پس جب مریدی کی حالت کو پہنچ جاتا ہے تو اسے شیخ سے الگ کر لیا جاتا ہے اور اس کی روحانی کفالت سے واپس لے لیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالی اپنے بندے کو اپنے کرم و عنایت کی گود میں لے لیتا ہے اور دنیا سےوہ کلی لا تعلق ہو کر اللہ کابن جاتا ہے۔ گویا شیخ کی حقیقت اس دایہ کی تھی جو دو سال تک دودھ پلانے کا فریضه سرانجام دیتی ہے اور جب دو سال کا عرصہ بیت جاتا ہے تو اب بچے کو دودھ نہیں پلایا جاتا۔ اسی طرح اب خلق کے ساتھ اس کا کوئی تعلق باقی نہیں رہا۔ اس لیے کہ حرص و ہواب زائل ہو چکی۔ اور شیخ کا فریضہ خواہش و اراده کو توڑنا تھا اب جبکہ خواہش و ارادہ زائل ہو گئے تو کوئی کدورت اور نقص باقی نہیں رہا اس لیے شیخ کی ضرورت نہیں رہی۔ 

جب تواصل بحق ہو گیا جیسا ہم نے بیان کیا تو ماسوا اللہ سے احتراز کر۔بجز حق کے اور کوئی وجود نہ دیکھے ۔ نہ نفع و نقصان میں نہ منع و عطا میں اور نہ ہی خوف ور جاء میں۔ بلکہ خدائے عزوجل کو تقوی و مغفرت کا ابل یقین کرے۔ تیری نظر ہمیشہ اس کے فعل پر ہے لمحہ بہ لمحہ اس کے حکم پر متوجہ رہے۔ ہمیشہ اس کی تابعداری کر اور دنیا اور آخرت میں سب سے کٹ کر اسی کا ہور ہے۔ 

دل خلق خدا کو نہ دے۔ ان کو اس طرح بےبس سمجھ جس طرح کہ ایک آدمی جس کے ہاتھ ایک جابر ، عظیم مملکت فرمانروا، سطوت کے مالک بادشاہ نے پیٹھ پیچھے باندھ دئیے ہوں۔ اس شخص کے گلے میں قلادہ اور پاؤں میں بیڑی پڑی ہو۔ پھر اسے صنوبر کے ایک بڑے درخت کے ساتھ لٹکا دیا جائے جو ایک وسیع و عمیق نہر کے کنارے کھڑا ہو۔ نہر سے منہ زور موجیں اٹھ رہی ہوں۔ پانی تیزی سے چل رہا ہو۔ بادشاہ اپنی کرسی پر بڑے تمکنت کے ساتھ بیٹھا ہو۔ اور کرسی بھی وہ کہ اس کی اونچائی آسمان تک پہنچی ہو۔ بادشاہ عظیم ہو۔ مطلق العنان ہو۔ جو چاہے کرے جیسے چاہے تصرف کرے۔ اور بادشاہ کی کرسی کے نزدیک ہرقسم کا اسلحہ تیر و کمان، نیزے،بھالے، تلواریں سب کچھ موجود ہو۔ بادشاہ جس چیز سے چاہے اسے قتل کرے۔ جتنے تیر چاہے اس کے جسم پر برسائے۔ کیا اس بادشاہ کو چھوڑ کر مصلوب شخص سے بہتری کی امید رکھنا، بادشاه سے بے خوف ہو کر مصلوب سے ڈرنا مناسب ہے ؟ ہرگز ہرگز نہیں۔ 

مخلوق سے لوگ اور بادشاہ حقیقی کو چھوڑ دینا قرین دانشمندی نہیں۔ کیا ایسے شخص کو پاگل ، مجنون اور فاترالعقل نہیں کہا جائے گا۔ 

 ہم بصیر ت کے بعد اندھے پن سے وصول کے بعد دوری سے اللہ تعالی کی پناہ چاہتے ہیں۔ اور دعا کرتے ہیں کہ مالک حقیقی! ہمیں قرب کے بعد دوری سے ہدایت کے بعد ضلالت و گمراہی سے اور ایمان کے بعد کفر سے محفوظ رکھ۔ 

دنیا اس بڑی نہر کی مانند ہے جس کا ابھی ہم نے ذکر کیا ہے۔ روز بروز اس کا پانی بڑھ رہا ہے۔ یعنی دنیا میں بنی آدم کی شہوات و لذات جن میں روز بروز اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ نوع بنوع اسلحہ سے مراد آلام و مصائب ہیں۔ اور اس کی قسمت میں کئی مسائل کا سامنا لکھا ہے جو نعمتیں اسے میسر ہیں وہ بھی آفات سے محفوظ نہیں۔ یوں عقلمند کیلئے دنیا کی زندگی میں راحت و آرام کا کوئی سامان نہیں۔ عیش و عشرت تو در حقیقت آخرت کی چیز ہے۔ مگر اس کے حصول کے لیے ایقان کی دولت درکار ہے۔ صرف اہل ایمان ہی اخروی نعمتوں سے لطف اندوز ہوں گے۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا : لَا عَيْشَ إِلَّا عَيْشُ الْآخِرَةِ آخرت کی راحت کے سواء کوئی راحت نہیں۔ ایک اور حدیث ہے۔ لَا رَاحَةَ لِلْمُؤْمِنِ دُونَ لِقَاءِ رَبِّهِ مؤمن کے لیے اپنے رب کی ملا قات کے علاوہ کوئی چیز راحت نہیں۔ پھر فرمایا۔ الدُّنْيَا سِجْنُ المُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الكَافِرِ اس دنیا مومن کیلئے زندان اور کافر کیلئے جنت ہے‘ایک حدیث میں فرمایا : 

 التَّقِيُّ مُلْجَمٌ متقی کے منہ میں لگام ہوتی ہے ۔

ان احادیث اور واضح دلائل کے ہوتے ہوئے کو ئی دنیا میں راحت و سکون کی زندگی کا دعوی کیسے کر سکتا ہے۔ ساری راحت تو مخلوق سے الگ ہونے اور اللہ کریم سے موافقت اور خود سپردگی میں ہے پس بندہ مو من تو دنیا سے نکل چکا۔پس ایسی صورت میں اس دنیا کی نعمتیں رافت و رحمت لطف و کرم اور صدقہ و خیرات ہیں۔

پیاروں کے لگائے ہوئے زخم تکلیف دہ نہیں ہوتے

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی الله تعالی عنہ فرماتے ہیں : میں تمہیں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی تکلیف کا شکوہ کسی سے نہیں کرنا۔ کوئی بھی ہو۔ دوست ہو یا دشمن۔ یہ تکلیف تیرے رب کی طرف سے ہے اس پر اسے الزام نہ دے۔ بلکہ بھلائی کا اظہار کر اور شکر بجا لائے بغیر نعمت کے جھوٹا شکر اس سچے شکوے سے بہتر ہے جو تونے مصیبت کے آنے پر کیا ہے۔ کیونکہ یہ اس ذات کا شکوہ ہے جس نے پہلے تجھے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔ ۔ 

رب قدوس کا ارشاد ہےوَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا اور اگر گنناچاہو تو اللہ کی نعمتوں کو تو تم ان کا شمار نہیں کر سکتے 

اللہ تعالی کی تم پر کتنی نوازشیں ہیں۔ اور تو ہے کہ انہیں جانتا ہی نہیں ہے۔ خلق سے لومت لگا۔ کسی فرد مخلوق سے مانوس نہ ہو۔ اپنی حالت سے کسی کو مطلع نہ کر۔ بلکہ تراانس اللہ عزوجل سے ہو اور تجھے صرف اس سے سکون ملے۔ تیرا گلہ و شکوہ صرف اس کے سامنے ہو۔ دوسرا کوئی تجھے نظر بھی نہ آئے۔ کیونکہ دوسرا کوئی نہ نفع دے سکتا ہے اور نہ نقصان نہ کچھ دے سکتا ہے اور نہ چھین سکتا ہے۔نہ کسی ذلت کامالک ہے اور نہ عزت کا۔ نہ بلند کر سکتا ہے اور نہ پست نہ کسی کے ہاتھ میں فقر و افلاس ہے اور نہ دولت و غنی۔ نہ کوئی کسی کو حرکت دے سکتا ہے اور نہ کسی متحرک کو ساکن کر سکتا ہے۔ سب چیزیں اللہ تعالی کی پیدا کردہ ہیں اور سب کی باگ ڈور اس کے ہاتھ میں ہے۔ ہر چیز اس کے اذن اورحکم سے جاری ہے اور ہر ایک نے اس کے ہاتھ ایک مدت معینہ تک چلنا ہے۔ ہر چیز کا اس کے ہاں اندازہ مقرر ہے جو پہلے ہوا ہے وہ بعد میں اور جو بعد میں ہوتا ہے وہ پہلے نہیں ہوسکتا۔ 

رب قدوس کا ارشاد گرامی  ہے۔وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ وَإِنْ يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ يُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ  

اور اگر پہنچائے تجھے اللہ تعالی کوئی تکلیف تو نہیں کوئی دور کرنے والا اسے بجز اس کے۔ اور اگر ارادہ فرمائے تیرے لیے کسی بھلائی کا تو کوئی رد کرنے والا نہیں اس کے فضل کو۔ سرفراز فرماتا ہے اپنے فضل و کرم سے جس کو چاہتا ہے اپنے بندوں سے اور وہی بہت مغفرت فرمانے والاہمیشہ رحم کرنے والا ہے۔ 

اگر تو نے شکوہ کیا حالانکہ تو خیر و عافیت سے ہے اور تیرے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے محض اس لیے کہ اور نعمتیں عطا ہوں اور تو نے اللہ کے فضل و کرم سے آنکھیں موند لیں تو تو نے اللہ تعالی کی نعمتوں کی ناقدری کی۔ خیر و عافیت کو حقیر خیال کیا۔ اللہ تعالی تجھ سے ناراض ہو گا اور تجھے ان نعمتوں سے محروم کر دے گا۔ سب کچھ چھین کر تیرے گلے اور شکوے کوسچ ثابت کر دے گا۔ تو اور زیادہ مصیبتوں میں مبتلا ہو گا۔ اس کی عقوبت میں شدت آجائے گی۔ اپنی نظر سے تجھے گرا کر ذلیل و رسوا کر دے گا۔ 

شکوہ سے پوری طرح احتراز کر ٹکڑےٹکڑے ہو جائے تیرا گوشت قینچیوں سے کاٹ دیا جائے پھر بھی شکوہ کی زبان نہ کھول۔ اپنے آپ کو (شکوه و شکایت سے دور رکھ اور خوف خداکر۔ اللہ تعالی سے ڈر۔ اس ذات سے حذر کر، چھوڑ دے چھوڑ دے۔ شکوے کی روش کو چھوڑ دے۔ پرہیز کر پرہیز اگر مصائب صرف اس وجہ سے آتے ہیں کہ انسان اپنے رب کا شکوہ کر تا ہے۔ بھلا اس ارحم الراحمین کا شکوہ بھی ہو سکتا ہے۔ وہ جو خیر الحاکمین، حلیم اور رؤوف رحیم ہے اس کی شکایت میں زبان کھلے حاشا وکلا۔ وہ تو اپنے بندوں پر بڑا لطف و کرم کرنے والا ہے کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ وہ حلیم و مشفق طبیب کی مانند اپنے بندوں 

سے محبت کرنے والا اور انہیں رحمت کی نظر سے دیکھنے والا ہے۔ کیا شفیق ومہربان والد اور مہربان ورحیم والدہ کو تہمت دی جاسکتی ہے۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا۔ 

اللَّهُ أَرْحَمُ بِعَبْدِهِ مِنْ هَذِهِ الْمَرْأَةِ بِوَلَدِهَا اللہ تعالی اپنے بندے پر اس سے زیادہ مہربان ہے جتنی ماں اپنے بچے پر مہربان ہوتی ہے“ 

حسن ادب سے کام لے۔ اے انسان مصیبت آئے اور صبر کایارہ نہ ہو توبہ تکلف صبر کر۔ اگر رضاء و موافقت کی ہمت نہیں تو صبر سے کام لے۔ اگر فناء و نیستی حاصل نہیں تو موافقت کر۔ اگر مفقود کر دیا گیا ہے تو فنا اختیار کر۔ اے کبریت احمر ! تو کہاں ہے تو کہاں پایا اور دیکھا جارہا ہے؟ 

کیا تو نے اللہ تعالی عزوجل کا یہ ارشاد گرامی نہیں سنا: 

کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الۡقِتَالُ وَہُوَ کُرۡہٌ لَّکُمۡ  وَعَسٰۤی اَنۡ تَکۡرَہُوۡا شَیۡـًٔا وَّہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ  وَعَسٰۤی اَنۡ تُحِبُّوۡا شَیۡـًٔا وَّہُوَ شَرٌّ لَّکُمۡۗ وَاللّٰہُ یَعۡلَمُ وَاَنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ فرض کیا گیا ہے تم پر جہاد اور وہ نا پسند ہے تمہیں۔ اور ہو سکتا ہے کہ تم ناپسند کرو کسی چیز کو حالانکہ وہ تمہارے لیے بہتر ہواور ہو سکتا ہے کہ تم پسند کرو کسی چیز کو حالانکہ وہ تمہارے حق میں بری ہو اور (حقیقت حال)اللہ ہی جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔

حقیقت اشیاء کاعلم مخفی رکھا گیا ہے اور تجھے اس سے محجوب کر دیا گیا ہے۔ سوئے ادبی نہ کر۔ کوئی چیز تجھے پسند ہے یانہ پسند حکم خداوندی پر نظر رکھ ۔ اگر تو تقوی کی حالت میں ہے جو کہ راہ سلوک کا پہلا قدم ہے تو مصیبت ہویا نعمت شرع کی اتباع کر۔ اگر حالت ولایت میں ہے جو راہ سلوک میں دوسرا قدم اور تجھ میں ابھی خواہش باقی ہے توامر کی اتباع کر اور اس سے تجاوز نہ کر۔ فعل خداوندی سے موافقت کر اور شیوه تسلیم ورضا اختیار کر۔ اگر بدلیت ، غوثیت اور صدیقیت کی حالت میں ہے جو راہ سلوک کی انتہاءہے تو فناو محو ہو جا۔ 

تقدیر کے راستے سے ہٹ جا اور اس کی راہ میں نہ آ، خواہش نفسانی اور حرص و ہوا کو ختم کر دے اور شکوہ کی زبان پر مہر لگادے۔ 

(حسب حالت) اگر تو نے ایسا کیا :  یعنی شریعت کی پابندی کی۔ امر باطن کی پابندی کی یافنا کو اختیار کیا تو اگر وہ خیر ہے تو اللہ تعالی تجھے خوشگوار زندگی دے گا اور لذت و سرور میں اضافہ فرمائے گا اور اگر وہ شر ہے تو اس میں اپنی اطاعت میں اللہ تعالی تیری حفاظت فرمائے گا۔ تجھ سے ملامت دور کرے گا۔ مصیبت میں تجھ کو مغفور کر دے گا  یعنی تجھ پر یہ حالت طاری کر دے گا کہ تجھے مصیبت کا احساس بھی نہیں ہو گا حتی کہ اپنے وقت پر مصیبت ٹل جائے گی اور شر دور ہو جائے گا جس طرح رات گزرتی ہے تودن کو چھوڑ کر چلی جاتی ہے اور موسم سرمامیں سردی ختم ہوتی ہے تو گرمی آجاتی ہے۔ 

یہ گردش لیل و نہار اور موسموں کی تبدیلی اہل علم کیلئے قدرت خداوندی کے دلائل ہیں ان سے نصیحت پکڑو۔ پھر انسان میں گناه، خطا اور جرم کا داعیہ ہے۔ اسی وجہ سے وہ اللہ تعالی کی نافرمانی کرتا ہے اور عصياں شعار ہو جاتا ہے لیکن یاد رکھ کریم کی بارگاہ میں تو صرف وہ حاضر ہو سکتا ہے جو ان گناہوں اورلغزشوں سے پاک ہو۔ اللہ تعالی کے آستانہ کی چوکھٹ پر بوسہ صرف وہی دے سکتا ہے جو دعاوی(دعوے) کے میل کچیل سے پاک ہو۔ جس طرح کہ بادشاہ کاہمنشین صرف وہ ہو سکتا ہے جو ہر قسم کی ناپاکی میل کچیل اور گندگی سے پاک صاف ہو۔ یہ مصیبتیں گناہوں کو مٹانے والی اور انسان کو پاک کرنے کا ایک ذریعہ ہیں۔ نبی کریم کا ارشاد ہے۔ 

حُمَّى يَوْمٍ كَفَّارَةُ سَنَةٍ ایک دن کابخار سال بھر کے گناہوں کا کفارہ ہے۔

وعدہ وفا کر اور دیکھ تو کس ذات سے معاہدہ کر چکا ہے؟

حضرت  شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ دار ضاہ نے فرمایا : اگر تو ضعیف العقیده ہے اور تیرے یقین میں کمی ہے اور تو نے وعدہ کر رکھا ہے تو اسے پوراکر اور وعدہ خلافی نہ کر کہ کہیں تیرا یقین نہ ڈگمگا جائے اور ایمان رخصت ہو جائے۔ اور اگر تو صاحب یقین ہے اور تیرا عقیدہ مضبوط ہے تو پھر اللہ تعالی کے تو اس خطاب کا مصداق ہے۔ 

إِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِينٌ أَمِينٌ آپ آج سے ہمارے ہاں بڑے محترم  اور   قابل اعتماد ہیں ۔

یہ خطاب تجھ سے بار بار ہو گا اور تیر اشعار خاصان بارگاہ میں بلکہ خاص الخاص میں ہو گا۔ تیر اپنانہ کوئی ارادہ رہے گا اور نہ مطلب کہ تو اس پر اترائے اور تیری نظروں میں نہ کوئی مقام ہو گا اور نہ منزل کہ جسے دیکھے اور خوش ہو۔ پس تو لمحہ بہ لمحہ  بلندیوں کی طرف پر کشارہے گا اور ٹوٹے ہوئے اس برتن کی طرح ہو جائے گا جس میں کوئی مائع نہیں ٹھہر تا۔ سو تیرے دل میں بھی کوئی ارادہ ، کوئی خصلت اور دنیا و آخرت کی کسی چیز کا قصد نہیں ٹھہر سکے گا۔ توماسو اللہ سے پاک ہو کر اللہ تعالی کی رضا و خوشنودی سے بہرہ مند ہو جائے گا۔ جب اللہ تعالی کی طرف سے کوئی بھلائی یا برائی آئے گی تو تو اس فعل خداوندی سے لطف و سرور حاصل کرے گا۔ 

ایسے میں تجھ سے ایک وعدہ کیا جائے گا اور جب اس وعدہ سے تجھے طمانیت ہو گئی اور تجھ میں کسی قسم کا ارادہ پائے جانے کی علامت پائی گئی تو تجھے اس سے اعلی اور اشرف وعدہ کی طرف منتقل کیا جائے گا۔ پھر پہلے وعدہ کے عوض تجھے اس سے غنا حاصل ہو گی علوم و معارف کے دروازے تیرے لیے کھول دیئے جائیں گے اور اس منتقلی میں جو حقائق، جو حکمتیں اور مصلحتیں پوشیدہ ہیں تجھے معلوم ہو جائیں گے۔ 

اور جب معارف و حقائق کے دروازے کھول دیئے جائیں گے تو حفظ حال پر حفظ مقام  اسرار میں تیری امانتداری کو بڑھا دیا جائے گا۔تجھےشرح صدر سے فصاحت لسان سے اور حکمت بالغہ سے پہلے سے بڑھ کر نوازا جائے گا۔ تجھ پر اللہ تعالی اپنی محبت کا پر تو ڈالے گا۔ تو پوری مخلوق کا محبوب بن جائے گا۔ جن وانس اور ان کے علاوہ سب مخلوق دنیاو آخرت میں تیری محبت کا دم بھرنے والے ہوں گے۔ کیونکہ تو حق تعالی کا محبوب بن جائے گا۔ اور خلق ساری حق کی تابع ہے۔ ان کی محبت حق تعالی کی محبت میں داخل ہے جس طرح مخلوق کی دشمنی اللہ تعالی کی دشمنی کا سبب ہے۔ 

جب تو اس مقام و مرتبے کو پائے گا کہ کسی چیز کی خواہش تیرے دل میں نہیں رہے گی تو اس وقت تیرے دل میں کسی چیز کا ارادہ پیدا کر دیا جائے گا۔ پس جب اس چیز کی خواہش تیرے دل میں متحقق ہو گی تو اس چیز کو دور کر دیا جائے گا، وہ معدوم ہو جائے گی اور تجھے اس سے برگشتہ کر دیا جائے گا۔ یوں دنیامیں تجھے اس چیز سے محروم کر کےآخرت میں اس کاوہ معاوضہ دیا جائے گا جو قربت خداوندی میں تیرے اضافے کا سبب ہو گا اور اللہ جل وعلا کے نزدیک جس کی بڑی قدرت و منزلت ہو گی۔ یعنی دنیا کی اس معمولی چیز کے عوض تجھے قربت خد اوندی۔ جنت الفردوس اور جنت الماوی کی ابدی نعمتیں دی جائیں گی جن سے تیری آنکھیں ٹھنڈی ہونگی۔ اور اگر اس فانی دنیامیں جو دکھوں کا گھر ہے تو اس چیز کو جس کی خواہش تیرے دل میں پیدا کر دی گئی ہے طلب نہیں کرے گا۔ اس کی تمنا اور آرزو نہیں کرے گا بلکہ تیرا مقصود دنیا میں بھی ذات الہی ہو گا جو خالق، عدم سے وجود میں لانے والا۔ زمین کوبچھانے والا اور انسان کو بلند کرنے والا ہے تو ہو سکتا ہے تجھے اس دنیا میں بھی اس کی مثل یا اس سے کم معاوضہ دے دیا جائے۔ مگر ضروری ہے کہ پہلے انسان دل شکستگی اختیار کرے۔ مطلوب و مراد اور خواہش 

سے منہ موڑے اور دل میں اس یقین کوراسخ کرے کہ اصل معاوضہ تو آخرت 

میں ملے گا(یعنی مشاهده جمال حق)

ایمان نام ہےعزیمت اور یقین کا

نبی کریم ﷺکی حدیث دَع مَا يَريبُك إِلَى مَا لَا يَريبُك ؟ مشکوک ومشتبہ چیز کو چھوڑ کر غیر مشکوک و غیر مشتبہ چیز کو اختیار کر کے متعلق حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاه فرماتے ہیں۔ 

جب مشتبہ اور غیر مشتبہ دونوں پہلو کسی چیز میں پائے جارہے ہوں تو عزیمت پر عمل کرنا چاہیئے اور وہ پہلو اختیار کرنا چاہیئے جس میں کسی قسم کا اشتباه اور شک نہ ہو اور مشکوک اور مشتبہ پہلو کو ترک کر دینا چاہیئے۔ 

اگر مشتبہ اور مشکوک چیز ایسی ہو جو دل میں شک پیدا نہ کرے جیسا کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا : الْإِثْمُ حَوَّازُ الْقُلُوبِ گناہ وہ ہے جو دلوں میں کھٹکتا ہے“ 

تو بھی توقف کرے اور امر باطنی (الہام)کا انتظار کرے۔ اگر (بذریعہ الہام )حکم مل جائے تواسے قبول کر لے اور اگر روک دیا جائے تودستکش ہو جائے اور اس طرح کا رویہ اختیار کرے کہ گویا کہ وہ چیز معدوم ہے اس کا دین میں کوئی وجود ہی نہیں۔ پھر اپنے پروردگار کے دروازے پر واپس آجا اور اسی کی بارگاہ سے رزق کا طالب ہو۔ اللہ کریم یاد دہانی کی احتياج نہیں رکھتاوہ تجھ سے یا کسی اور سے غافل نہیں۔ وہ تو کفار و منافقین اور اس کی رحمت سے اعراض کرنے والوں کو بھی کھلاتا ہے۔ بھلا بنده مؤمن کو کیسے بھول سکتا ہے جو اس کی توحید کا اقرار کرتا ہے، اس کی اطاعت بجا لاتا ہے اور رات دن اس کے حکم کی بجا آوری میں کوشاں رہتا ہے۔ 

اس حدیث پاک کا ایک اور مفہوم بھی مشتبہ کو چھوڑ دے اور غیر مشتبہ اختیار کر “ یعنی جو چیز لوگوں کے ہاتھ میں ہے اسے چھوڑ دے۔ اسے طلب نہ کر اور دل کو اس سے نہ لگا۔ مخلوق سے نہ کوئی امید و توقع وابستہ کر اور نہ ہی ان سے اندیشہ رکھ اور اللہ عزوجل کے فضل و کرم کو قبول کر جس میں کوئی شک نہیں تو التجا کرے تو صرف ایک ہی ذات ہے۔ امید رکھے تو صرف ایک سے۔ ڈرے تو صرف ایک سے اور کوشش ہو تو بھی صرف ایک کیلئے یعنی وہ جو تیرارب ہے۔ اس کے ہاتھ میں بادشاہوں کی پیشانی کے بال ہیں۔ اس کے دست قدرت میں مخلوق کے وہ دل نہیں جو جسموں پر حکمرانی کرتے ہیں۔ مخلوق کے پاس جو کچھ ہے اس کی ملکیت ہے۔ مخلوق ، اس کی توقعات اور تمنائیں اور تجھے دینے میں ان کے ہاتھ کی حرکت اس کے اذن، امر اور تحریک کی بدولت ہے۔ اور اگر کسی کا ہاتھ تیرے حضور کوئی چیز پیش کرنے سے رکتا ہے تو بھی اس مالک کے روکے سے رکتا ہے۔ رب قدر کا ارشاد ہے۔ 

وَاسْأَلُوا اللَّهَ مِنْ فَضْلِهِ اور مانگتے ہو اللہ تعالی سے اس کے فضل و کرم ) کو“

إِنَّمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْثَانًا وَتَخْلُقُونَ إِفْكًاۚ إِنَّ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوا عِنْدَ اللَّهِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوهُ وَاشْكُرُوا لَهُ  إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ بیشک جن کو تم پوجتے ہو اللہ تعالی کو چھوڑ کر وہ مالک نہیں تمہارے رزق کے ۔ پسں طلب کیا کرو اللہ تعالی سے رزق کو اور اس کی عبادت کیا کرو اور اس کا شکر ادا کیا کرو۔ اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے“

 وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ

اور جب پو چھیں آپ سے اے میرے حبیب!  میرے بندے میرے متعلق تو  انہیں بتاؤ میں ان کےنزدیک ہوں۔ قبول کر تا ہوں دعا کرنے والے کی دعا کو جب وہ دعامانگتا ہے مجھ سے“

ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ تجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا

 إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ  بلاشبہ اللہ تعالی ہی سب کو  روزی دینے والا ، قوت والا  اور  زوروالا ہے“ 

 إِنَّ اللَّهَ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍبیشک اللہ تعالی رزق دیتا ہے جسے چاہتا ہے بے حساب ۔

عقیده جبر شیطانی وسوسہ ہے

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ و ارضا نے فرمایا : 

خواب میں میں کیا دیکھتا ہوں کہ انسانوں کا ایک جم غفیر ہے۔ اپنے قریب میں شیطان لعین کو دیکھتا ہوں۔ فوراً اسے قتل کرنے کا ارادہ کرتا ہوں۔ وہ لعین مجھ سے مخاطب ہوتا ہے اور کہتا ہے آپ مجھے کیوں قتل کرتے ہیں۔ آخر میراگناہ کیا ہے۔ میرے مقدر میں اگر برائی تھی تو میں نیکی کیسے کر سکتا تھا۔ اگر میری قسمت میں نیکی کرنا لکھا ہوتا تو میں قسمت کو تبدیل کر کے برائی تو نہیں کر سکتا تھا۔ میرے ہاتھ میں کیا تھا کہ مجھے سزا کا حکم سنادیا گیا۔ 

اس لعین کی صورت مخنثوں جیسی تھی۔ چہرہ لمبوتر، ناک پتلی اورلمبی، ٹھوڑی پر تھوڑے سے بال اور شکل صورت نادم سی اور حقیر سی تھی۔ اس کی گفتگو میں کمال نرمی تھی۔ شیطان یہ گفتگو کر کے ندامت اور خوف کی ہنسی ہنسا۔ یہ خواب گیارہ ذی الحجہ561ھ کی رات کا ہے۔

ابتلاء و آزمائش بقدر مقام و مرتبہ ہوتی ہے

حضرت شیخ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایابندہ مو من بقدر ایمان و یقین آزمایا جاتا ہے۔ جس قدر اس کا ایمان راسخ اور یقین کامل ہو گا اسی قدر اس پر مصیبت اور آزمائش آئے گی۔ 

رسول کی آزمائش نبی کی آزمائش سے زیادہ ہوتی ہے کیونکہ رسول ایمان اور یقین کے جس مرتبہ پر فائز ہو تا ہے اس پرنبی فائز نہیں ہوتا۔ اسی طرح نبی کی مصیبت ابدال کے مقابلے میں سخت ہوتی ہے اورا بدال کی مصیبت اولیاء کی مصیبت کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ ہر ایک کو ایمان و یقین کے مطابق ابتلاء و آزمائش کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس پر نبی کریمﷺ کی یہ حدیث دلیل ہے۔ نَحْن معاشر الْأَنْبِيَاء أَشد النَّاس بلَاء ثمَّ الأمثل فالأمثل ہم گروہ انبیاء سب لوگوں سے زیادہ مصیبت کا سامنا کرتے ہیں۔ پھر اسی طرح درجہ بدرجہ آزمائش کم ہوتی جاتی ہے“ 

اللہ تعالی اپنےبندوں کو آزماتا رہتا ہے تا کہ وہ ہر وقت بار گاہ ایزدی میں حاضر باش رہیں اور ایک لمحے کیلئے اس سے غافل نہ ہوں۔ ابتلاء و آزمائش زحمت نہیں بلکہ رحمت ہے۔ اس سے مطلوب اپنے دوستوں کو اپنا اور صرف اپنا بنانا ہے۔ یہ لوگ الله تعالی کے محبوب ہوتے ہیں۔ انہیں اللہ کریم سے محبت ہے،اور رب کریم اپنے ان محبوبوں کے دور ہونے کو پسند نہیں کرتا۔ ابتلاء و آزمائش ان کے پاؤں کی گویازنجیر ہے جو انہیں غیر کی طرف جانے سے روکتی ہے اور کسی اور کی محبت اور خیال سے محفوظ رکھتی ہے۔ 

نزول بلا جب ان کے حق میں دوام اختیار کرتی ہے تو ان کی خواہشات نفسانی زائل ہو جاتی ہیں اور ان کے نفس کی سرکشی ٹوٹ جاتی ہے۔ اس طرح ان کے سامنے حق اور باطل واضح ہو جاتے ہیں۔ سب شہوات نفسانی، ارادے اورالذات و راحات کی طرف میلان ختم ہو جاتا ہے۔ دنیا میں نفس جس جس کی طرف مائل ہوتا ہے مصیبت کی وجہ سے یہ میلان بالکل ناپید ہو جاتا ہے اور وعده حق سکون و طمانیت حاصل ہو جاتی ہے۔ انسان میں اللہ تعالی کے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کرنے اور اس کی اطاعت پر قناعت کرنے اور مصیبت پر صبر کرنے کی اہلیت پیدا ہو جاتی ہے۔ پس وہ مخلوق سے دل وابستگی سے محفوظ ہو جاتا ہے اور اس کے عزم و یقین میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس کا اثر اس کے پورے جسم پر ظاہر ہوتا ہے۔ کیونکہ بلا و مصیبت قلب ویقین کو پختہ کرتی ہے۔ ایمان و صبر کوثبات بخشتی ہے۔ نفس و ہوا کی سرکشی ختم کرتی ہے۔ کیونکہ دل کو جب تکلیف پہنچتی ہے اور انسان اس پر صبر کر تا ہے اور فضل خداوندی کے آگے سر جھکا دیتا ہے تو اللہ تعالی اس سے راضی ہو جاتا ہے۔ اور اسے شکر کی توفیق عطا کر تا ہے۔ اللہ تعالی کی مدد سے اس کی نعمتوں اور اس کے ایمان میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ 

 لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ اگر تم سابقہ نعمتوں پر شکر کرو گے تو میں تمہارے لیے ان میں اور اضافہ کروں گا ۔

جب نفس میں تحریک ہوتی ہے اور وہ دل سے شہوت ولذت کا تقاضا کر تا ہے۔ اگر دل اللہ تعالی کے اذن اور امر کے بغیر اس کی بات مان جاتا ہے اور اس کی خواہش پوری کر دیتا ہے۔ اور اس طرح اللہ تعالی سے غافل ہو کر اور نفس کی بات مان کر شرک و معصیت کا ارتکاب کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کو ذلیل ورسوا کر دیتا ہے مصائب و آلام اور دکھوں اور بیماریوں میں اس کو مبتلا کر دیتا ہے۔ دنیا کے ہاتھوں ذلیل ہو تا ہے اور اس طرح نفس اور دل دونوں اس تکلیف سے حصہ پاتے ہیں۔ اگر دل نفس کی خواہشات کو پورا نہ کرے جب تک کہ انبیاومر سلین کو بذریعہ وحی صریح اور اولیاء بذریعہ الہام اذن نہ مل جائے وہ نفس کے تقاضا کو پورا نہ کریں اور اللہ تعالی کی منع و عطاکا خیال ر کھیں تو اللہ تعالی ان پر اپنی رحمتوں اور بر کتوں کی بارش فرماتا ہے۔ انہیں عافیت، رحمت اور علم و معرفت سے نوازتا ہے۔ قرب و غنی کی دولت سے فیض یاب کرنے کے ساتھ ساتھ آفات سے سلامتی اور دشمنوں کے مقابلے میں مدد و نصرت عطا کرتا ہے۔ اس نصیحت کو یاد رکھئیے اور دل میں جگہ دیجئے ۔ نفس و خواہش کی پیروی کر کے مصیبت میں نہ پڑئیے۔ بلکہ اپنے پروردگار کے اذن اور امر باطنی کا انتظار کیجئے۔ اس طرح دنیاو عقبی میں آفات سے محفوظ دمامون رہیئے گا۔ انشاء الله تعالی۔

اس کا قلیل کثیر، سختی فیض اور محروم کر نا عطاہے

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ و ارضا نے فرمایا : تھوڑے سے رزق کو کافی خیال کر قناعت کر حتی کہ نوشتہ تقدیر اپنی مدت کو پہنچے۔ پھر خودبخود پہلی سے بہتر اور بلند تر کی طرف تجھےمنتقل کیا جائے گا۔ اور اللہ تعالی کی عطاپر خوش و خرم ہو گا۔ مبارک باد پائے گا۔ اور محفوظ مامون رہے گا۔ نہ دنیا کا کوئی غم ہو گا اور نہ آخرت کا خوف نہ عاقبت خراب ہو گی اور نہ حدود خداوندی سے تجاوز کا مرتکب ہو گا۔ پھر اس سے بھی آگے کی منزل کی طرف ترقی پائے گا جو پہلی منزل سے کہیں زیادہ آنکھوں کی ٹھنڈک اور راحت کاباعث ہو گی۔ 

یقین رکھ کہ ترک طلب سے تیری قسمت میں لکھی ہوئی روزی بند نہیں ہوگی۔ اور نہ ہی حرص و ہو اور محنت و کوشش سے جو مقدر میں نہیں تیرے ہاتھ آسکے گی صبر کر اپنی حالت پر قناعت کر اور اللہ تعالی نے جو دیا ہے اس پر خوش ہو جا۔ اپنے آپ کوئی چیز مت لے اور اپنے ارادے اور خواہش سے کسی کو کچھ مت دے۔ صبر کر حتی کہ تجھےحکم مل جائے۔ اپنے ارادے سے نہ حرکت کر اور نہ آرام کرورنہ شومی اختیار سے مصیبت میں مبتلا ہو گا۔ کیونکہ اپنے اختیار اور ارادے سے کوئی کام کرنا شرک ہے اور مشرک سے کبھی غفلت نہیں برتی جاتی۔ 

رب قدوس کا ارشاد ہے۔

 وَكَذَٰلِكَ نُوَلِّي بَعْضَ الظَّالِمِينَ بَعْضًا اور یو نہی ہم مسلط کرتے ہیں بعض ظالموں کو بعض پر“ 

کیونکہ تو ایک ایسے بادشاہ کے گھر میں ہے۔ جس کی شان بلند ہے، قوت بے انداز اور لشکر بے شمار ہے۔ وہ جو چاہتا ہے ہوتا ہے۔ جو حکم دیتا ہے اس پر عمل ہوتا ہے۔ اس کے ملک کو زوال نہیں۔ اس کی بادشاہی دا ئمی ہے۔ علم بے انداز ہے۔ حکمت و دانائی لامتناہی ہے۔ اس کا ہر فیصلہ عدل پر مبنی۔ اس سے زمین و آسمان کا ایک ذرہ بھی پوشیدہ نہیں اور کسی ستم گر کا ستم اس سے تجاوز نہیں کر سکتا۔ 

اے انسان!) تو سب سے بڑا ظالم اور سب سے بڑا مجرم ہے کیونکہ تو اپنے تصرف و اختیار کے ذریعے شر ک کامرتکب ہوا ہے اور خواہش نفسانی پر عمل کر کے حق نے مخلوق کو اللہ تعالی کا شریک بنادیا ہے۔ 

رب قدوس کا ارشاد ہے۔ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ  إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ

کسی کو الله کا شریک نہ بنانا۔ یقیناً شرک ظلم عظیم ہے“

 إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ بیشک اللہ تعالی نہیں بخشتا اس (جرم عظیم) کو کہ شریک کر لیا جائے اس کے ساتھ اور بخش دیتا ہے اس کے سوا جتنے جرائم ہوں جس کے لیے چاہتا ہے۔ 

شرک سے پوری طرح احتیاط کر اور اس کے قریب تک مت جا۔ اپنی حرکات و سکنات، لیل و نہار،خلوت و جلوت میں شرک سے اجتناب کر۔ ہر طرح کی نافرمانی سے احتراز کر۔ نہ ظاہری اعضاء سے معصیت کا ارتکاب ہو اور نہ باطن سے۔ ظاہر و مخفی ہر گناہ کو چھوڑ دے ۔ اللہ تعالی سے مخالفت کر کے اس سے بھاگنے کی کوشش نہ کر وہ (قادر مطلق) تجھے بھاگنے نہیں دے گا۔ اس کے فیصلوں میں اس سے جھگڑانہ کر ورنہ وہ تجھے ریزہ ریزہ کر دے گا۔ اس کے فیصلوں میں اسے الزام نہ دے ورنہ تجھے رسواء کر دے گا۔ اس سے غافل نہ ہو ورنہ تجھے غفلت کی سزا دے گا۔ اس کے گھر میں رہتے ہوئے اپنی قدرت و طاقت کا مظاہرہ نہ کر ورنہ وہ بادشاہ حقیقی تجھےنیست و نابود کر دے گا۔ اس کے دین میں اپنی خواہش سے کوئی بات نہ کرور نہ تجھے وہ ہلاک کر دے گا۔ تیرے دل کو تاریک بنادے گا۔ تیرے ایمان اور معرفت کو سلب کر لے گا اور تجھ پر شیطان اور نفس، حرص شہوات کو مسلط کر دے گا۔ تیرے اہل و عیال، پڑوسیوں ، دوستوں، ہمنشینوں اور تمام مخلوق کو تیرے لیے جری بنادے گاحتی تیرے گھر کے بچھو ، سانپ جنات اور دوسرے موذی جانور بھی تجھ پر مسلط ہو جائیں گے۔ دنیا میں تیری زندگی تجھ پر بوجھ بن جائے گی اور آخرت میں عذاب کی مدت طویل ہو جائے گی۔

اس کی چوکھٹ کو نہ چھوڑ جس کا دروازہ بند نہیں ہوتا

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاه نے فرمایا: اللہ تعالی کی نافرمانی سے اور صرف اس کی دریوزہ گری  (بھیک مانگنا) کر۔ اپنی ساری طاقت ساری کوشش اس کی فرمانبرداری میں خرچ کر دے۔ اس طرح اس کی بندگی کر کہ تیری آنکھیں اشکبار ہوں۔ تجھ پر خضوع و خشوع کی کیفیت طاری ہو۔ اعضاء سے اظہار بندگی اور درویشی عیاں ہو۔ نگاہ جھکی ہو اور مخلوق سے نظریں ہٹائے حرص و ہوا کو ترک کیے۔ اعراض دنیاو آخرت سے دست کشی کرتے ہوئے محض اپنے رب کی عبادت میں مشغول ہو نہ تجھے منازل عالیہ اور مقامات بلند کی طلب ہو اور نہ کسی اور منصب کی خواہش۔ اس لیے کہ تو اس کا بندہ ہے۔ اور بندہ خود اور اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اس کے آقاکا ہے۔بندہ کسی چیز پر حق نہیں رکھتا۔ آداب خداوندی بجالائے اور اپنے آقا کو الزام نہ د ے ۔ ہر چیز کا اس کے ہاں اندازہ مقرر ہے۔ جو مقدم ہے وہ موخر نہیں ہو سکتا ہے اور جو مؤخر ہے وہ مقدم نہیں ہو سکتا۔ تیری قسمت کا نوشتہ اپنے مقررہ وقت پر تجھے بہر حال ملے گا۔ چاہے تو اسے لے یا اس کے لینے سے انکار کرے ۔ جو چیز عنقریب تجھے ملنے والی ہے اس کے حصول کیلئے حرص و لالچ کو دل میں جگہ نہ دے اور جو چیزیں تیرے پاس نہیں اور نہ ان کا ملنا تیرے مقدر میں ہے اس کی طلب میں سر گرداں نہ ہو اور اپنی محنت ضائع نہ کر۔ کیونکہ جو تیرے پاس نہیں یا تو تیرا مقدر ہوگی یا دوسرے کا یا پھر کسی کی تقدیر میں نہیں ہوگی۔ اگر اس کا ملنا تیرے مقدر میں ہے تو تجھے مل کر رہے گی۔ گویا تو اس کی طرف اور وہ تیری طرف بڑھ رہی ہے۔ عنقریب تیرا مقدر تجھے مل جائے گا۔ اور اگر وہ تیری قسمت میں ہی نہیں تو تجھے کسی صورت نہیں ملے گی۔ پس ایسی چیز کیلئے مار امارا کیوں پھر تا ہے۔ 

ان گھڑیوں کو غنیمت جان اور اپنے رب کی اطاعت میں حسن ادب کے ساتھ مشغول ہو جا سر نہ اٹھااور گردن دائیں بائیں نہ پھیر۔ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ 

وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَأَبْقَى  اور مشتاق نگاہوں سے نہ دیکھے ان چیزوں کی طرف جن سے ہم نے لطف اندوز کیا ہے کافروں کے چند گروہوں کو۔ یہ محض زیب و زینت ہیں دنیوی زندگی کی اور انہیں اس لیے دی ہیں تاکہ ہم آزمائیں انہیں ان سے۔ اور آپ کے رب کی عطا بہتر اور ہمیشہ رہنے والی ہے ۔

اللہ کریم نے تجھے روک دیا ہے کہ اس ذات کے علاوہ اور کسی کی طرف تیری توجہ مبذول نہ ہو جس نے تجھے یہ سب نعمتیں عطا فرمائیں۔ اپنی اطاعت کی توفیق بخشی اور فضل و کرم سے نوازا اور بتایا کہ خبردار ! اللہ کے علاوہ سب کچھ آزمائش اور امتحان ہے۔ اپنی قسمت کے لکھے پر راضی رہنا بہتر ہے۔یہی ہمیشہ رہنے والا ، پڑھنے والا ، اور تیرے لیے مناسب اور موزوں ہے۔ 

اطاعت خداوندی ہی تیری عادت اور مرکز و محور ہونا چاہیئے۔ بس تیرا شعار، عادات و اطوار مطلوب و مقصود ، تمنا و آرزو اللہ کی خوشنودی اور اللہ کی عبادت گزاری قرار پائے۔ اس سے ہر مراد بر آئے گی اور تو جس مقام پر فائز ہونا چاہے گا فائز ہو گا ہر بھلائی تک پہنچنے کا یہی زینہ ہے۔ ہر نعمت ہر خوشی اور ہر گرانمایہ چیز کے حصول کا یہی راستہ ہے۔ 

رب قدوس کا ارشاد ہے۔ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

پس نہیں جانتا کوئی شخص جونعمتیں چھپا کر رکھی گئی ہیں ان کے لیے جن سے آنکھیں ٹھنڈی ہونگی۔ یہ صلہ ہے ان اعمال حسنہ کا جو وہ کیا کرتے تھے“ 

ارکان خمسہ (کلمہ ، نماز ، روزہ ، حج ، زکوة) پر عمل پیرا ہونے اور تمام گناہوں سےبچنے سے بڑا اور عند اللہ محبوب اور کوئی دوسرا عمل نہیں۔یہی سب سے بڑے شرف و کرامت کے حامل اعمال ہیں یہی اللہ تعالی کی رضا کا سب سے اہم ذریعہ ہیں۔ اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو ایسے کام کرنے کی توفیق دے جواسے پسند ہیں اور جن سے وہ خوش ہوتا ہے۔ 

محبت خداوندی سب سے بڑی نعمت ہے

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ دارضاہ نے فرمایا : اے خالی ہاتھ دنیاوابنائے دنیاکاٹھکرایا ہوا بے نام و نشان بھوکا پیاسا انسان اے وہ کہ جس کے جسم پر کپڑے ہیں اور نہ سر چھپانے کے لیے چھت میسر ہے۔ تشنہ جگر، ہر دروازے سے دھتکارا ہوا۔ حسرت و یاس کا مارا، شکستہ دل یہ نہ کہنا کہ مجھے اللہ نے محتاج بنا دیا۔ دنیا کی نعمتوں کی بساط کو مجھ سے لپیٹ دیا۔ مجھے لوگوں کی ٹھوکروں میں بٹھایا مجھے بکھیر دیا اور میری پراگندگی کو جمع نہیں کیا۔مجھے دنیاا تنی بھی نہیں دی کہ کفایت کرے۔ مخلوق میں اور دوستوں میں میرے ذکر کو بلندنہیں کیا۔ دوسروں پر اپنی رحمتوں کی بارش کی۔ وہ صبح و شام ان سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ انہیں مجھ پر اور میرےاہل دیار پر فضیلت دی۔ حالانکہ ہم دونوں مسلم ، دونوں مومن ہیں۔ دونوں ایک ہی باپ آدم اور حواء کی اولاد ہیں۔ آپ علیہ السلام جو خیر الانام تھے ہم دونوں کی رگوں میں اسی ایک باپ کا خون دوڑ رہا ہے۔ 

ہاں ہاں!یہ سب حقیقت ہے۔ توتہی دست و فقیر ہے اور دوسرا مالدار اور ہم جنسوں میں عزت دار ہے۔ یہ سب اس لیے ہے کہ تیری سرشت میں حریت ہے۔ اور اللہ تعالی کی رحمت کی بارش رضا، یقین، موافقت اور علم کی صورت میں موسلادهار تجھ پر برس رہی ہے۔ ایمان و توحید کے انوار تجھ پر برس رہے ہیں۔ تیرے ایمان کا درخت، تیرے دل کی زمین میں اس کی پیوستگی اور اس کا بیچ  ثابت و قائم ہیں۔ ایمان کا یہ درخت شاداب بھی ہے اورپھلدار بھی اس کا سایہ راحت بخش اور شاخیں بلند ہیں۔ اور ایمان کا یہ درخت روزبروزبڑھ رہا ہے اور نشوونماپار ہا ہے۔ اسے نہ کھاد کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی دوسرے کوڑے اور گوبر کی۔ اس کی نموان چیزوں سے نہیں ہو سکتی۔ اللہ تعالی نے تجھے دنیا میں محروم رکھا۔ لیکن داربقا کی نعمتیں عطا کر دیں۔  نہ صرف عطا کیں بلکہ تجھے ان کا مالک بنا دیا۔ اور تجھے وہ کچھ دیا کہ نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں ان کا خیال تک گزرا۔ 

رب قدوس کا ارشاد ہے۔ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

پس نہیں جانتا کوئی شخص جونعمتیں چھپا کر رکھی گئی ہیں ان کے لیے جن سے آنکھیں ٹھنڈی ہونگی۔ یہ صلہ ہے ان اعمال حسنہ کاجووہ کیا کرتے تھے“ 

لیکن دنیامیں انہوں نے جو نیک اعمال کیے۔ احکام بجالائے، ترک مناہی پر صبر کیا، قضاء وقدر کے سامنے سر جھکایا اور تمام امور میں (فعل خداوندی کی) موافقت کی۔ انہیں ان کا پورا پور اجر ملے گا۔ 

لیکن وہ جسے دنیا کی یہ فانی نعمتیں دی گئیں۔ وہ ان سے لطف اندوز ہو ان کامالک بنارہا اور اللہ تعالی نے اسے خوب نواز تودہ صرف اس لیے کہ اس کے ایمان کا عمل یعنی دل کی زمین شوروالی اور پتھر یلی ہے۔ اس میں نہ تو پانی ٹھہر سکتا ہے اور نہ درخت آگ سکتے ہیں۔ نہ اس میں کھیتی باڑی ممکن ہے اور نہ میوں کے حصول کی کوئی امید۔ اسی لیے اس زمین پر کوڑا کرکٹ ڈال دیا جو نباتات واشجار کی نشوونما کے کام آتا ہے۔ اور کوڑا کرکٹ دنیا اور اس کا ایندھن ہے۔ اس کوڑے کرکٹ اور کھاد کو اس شوریدہ اورپتھریلی زمین میں ڈالنے کا مقصد یہ ہے کہ ایمان کا درخت اگر اگے تو وہ زمین کے ناکارہ ہونے کی وجہ سے مر جھانہ جائے۔ اگر اس زمین میں گندگی نہ ڈالی جائے تو نباتات اور درخت خشک اور پھل ختم ہو جائیں۔ اور پورا علاقہ بیابان بن جائے۔ حالانکہ اللہ تعالی چاہتا ہے کہ یہ علاقہ بھی آبادر ہے۔ 

مالدار کے ایمان کا درخت مضبوط نہیں ہوتا۔ اس کی جڑ کو اس شوریده زمین میں پیوستگی حاصل نہیں ہوتی۔ اور اے فقیر جو چیز تیرے شجر ایمان میں ہے وہ اس سے خالی ہے۔ اس کے ایمان کی خوراک اور بقاء صرف دنیا کی دولت اور نعمتوں سے ممکن ہے۔ اگر یہ دولت دنیا اس کمزور درخت کو میسر نہ ہو تو وہ بالکل خشک ہو جائے اور وہ کفر و الحاد کی روش اختیار کرے اور منافقین، مرتدین اور کافروں کے ساتھ مل جائے۔ ہاں اگر اللہ تعالی اپنے اس غنی بندے کی صبر، رضا، یقین کے لشکر سے مدد کرے اور اسے علم و معرفت کی توفیق دے تو اس کا ایمان مضبوط ہو جائے گا اور پھر اسے دنیا کے مال و دولت کے انقطاع و محرومی سے کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ 

دل وہ گھر ہے جس میں دو نہیں سماسکتے

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ کا ارشاد ہے :اپنے چہره سے حجاب اور پردہ نہ  اٹھا حتی کہ تو خلق سے نکل جائے (جلوت میں بھی خلوت کی کیفیت حاصل ہو جائے) اور تمام احوال میں اپنے دل کی پیٹھ ان سے پھیر لے۔ اگر تو خلق سے لا تعلق ہو گیا اور دل سے انہیں نکال باہر کرنے میں کامیاب ہوا تو خواہش نفسانی زائل ہوئی۔ ارادے اور تمناؤں نے ساتھ چھوڑ دیا اور تو دنیاو آخرت کی ہر چیز سےفانی ٹھہرا۔

 اب تو گویا ایک شکستہ بر تن ہے کہ تجھ میں اللہ عزوجل کے ارادے کے بغیر کوئی ارادہ نہیں ٹھہر سکتا۔ یوں تیرا دل تیرے رب سے بھر گیا کہ اس کے سواء کسی دوسرے کے لیے اس میں جگہ ہی نہیں۔ تجھے دل کے دروازے پر دربان بنادیا گیا ہے۔ تیرے ہاتھ میں توحید اور جرات کی تلوار تھما دی گئی۔ پس جو سینے کےصحن میں قدم رکھے اس کا سر قلم کر دے اور اپنے نفس ، خواہش، ارادے اور دنیا و آخرت کی کسی چیز کو سر نہ اٹھانے دے۔ کسی کی بات نہ سن، کسی کی رائے کی اتباع نہ کر اپنے رب کے حکم کی پیروی کر، اسی کی اتباع میں استقلال پیدا کر جو فیصلے وہ کر دے اس کے آگے سر جھکا دے بلکہ قضاو قدر کے سامنے فنا ہو جا۔ اس طرح تو اپنے رب کا بندہ اس کےحکم کاپابند بن جائے گا۔ مخلوق کی غلامی اور ان کی رائے کی اتباع کا قلادہ گلے سے اتر جائے گا۔ اگر اس میں تجھے دوام و مداومت حاصل ہو گئی تو تیرے دل کے ارد گرد غیرت خداوندی کی دیواریں بلند ہو جائیں گی۔ عظمت کی خندقیں کھد جائیں گے ، غلبہ و قہرالہی کے پہرے بٹھادیئے جائیں گے۔ حقیقت اور توحید کے لشکر اس کو ڈھانپ لیں گے۔ اور حق کے پہرہ دار کھڑے کر دیئے جائیں گے۔ اس طرح،ہواوہوس۔ اراده و تمنا ادعاء باطلہ و . ہوائے نفسانی اور دوسری گمراہیاں تیرے دل تک نہیں پہنچ سکیں گی۔ اگر مقدر میں یہ ہے کہ خلق خدا تیرے پاس آئے، یکے بعد دیگرے تیری زیارت کریں اور تیرے فضل و ولایت پر اتفاق و یک زبان ہو جائیں تاکہ تیرے انوار معرفت نشانہائے روشن و تاباں اور حکمتہائے نیکی ورساں سے مستفیض ہوں۔ تیری کرامات اور خرق العاده امور کو دیکھیں جو تیرے ہاتھ پر مسلسل ظہور پذیر ہورہے ہیں تا کہ اس طرح ان کی اطاعت گزار اور قربتوں میں اضافہ ہو۔ اللہ تعالی کی عبادت کا ذوق و شوق فزوں تر ہو تو اللہ تعالی ان تمام لوگوں سے تجھے محفوظ فرما دے گا۔ تیر انفس حرص و ہوا کی طرف مائل نہیں ہو گا۔ توعجب، فخر و مباہات اور اس ازدحام پر غرور سے بچ جائے گا۔ ان کی عقیدت اور توجہ تیرے لیے نقصان دہ ثابت نہیں ہو گی۔ 

اسی طرح اگر تیرے مقدر میں کسی حسین و جمیل عورت کی شادی ہوئی جو تجھ پر بوجھ نہ ہو اور خود ہی اپنی کفیل ہو تو اللہ تعالی تجھے اس کے شر سے محفوظ فرمادے گا۔ اللہ تعالی اس کے بوجھ اور اس کی قرابت داروں کے بوجھ کو اپنے ذمہ کرم پرلے لے گا۔ اور وہ عورت تیرے لیے عطیہ ربانی ثابت ہو گی۔ نہ تجھے اس کی کفالت کی مشقت اٹھانا پڑے گی اور نہ اس کے کسی تعلق دار کی ضرورت کا خیال رکھنا پڑے گا۔ وہ بھی تیری لیے باعث خیر وبرکت، لطیف و پاکیزہ ہر خیانت سے پاک ہر خبث سے مصفی فساد ، حسد، غضب اور بدکرداری سے پاک بیوی ثابت ہو گی۔ وہ تیری فرمانبردار ہو گی۔ اس کے تعلق دار تیرے سامنے سر جھکا دیں گے پر تجھ پر سے اپناو جھ اور ذمہ داریاں لیکر خود اٹھائے گی۔ اورتجھے ہر قسم کی اذیت 

سے بے خوف کر دے گی۔ اگر اس کے بطن سے بچہ مقدر میں ہوا تو وہ بھی صالح 

آنکھوں کی ٹھنڈک اور ہر قسم کی برائی سے پاک ہوگا۔ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ 

وَأَصْلَحْنَا لَهُ زَوْجَهُ اور ہم نے تندرست کر دیا ان کی خاطر ان کی اہلیہ کو“

 رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا اے ہمارے رب !مرحمت فرماہمیں ہماری بیویوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک اور بنا ہمیں پرہیز گاروں کے لیے امام“۔

 وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا  اور بنادے اسے اے رب !پسندیدہ(سیرت والا) 

پس یہ دعائیں جو ان آیات میں ہیں معمول بھا اور اس کے حق میں قبول ہو جائیں گی۔ چاہے اس نے یہ دعائیں کی ہوں یانہ کی ہوں۔ کیونکہ ان دعاؤں کایہی محل ہے اور ان کا اصل اہل یہی ہے۔ جسے یہ باطنی نعمت میسر ہو وہ زیادہ حقدار ہے کہ اسے ان نعمتوں سے بھی سرفراز کیا جائے۔ 

اسی طرح اگر دنیا کی نعمتیں اس کے مقدر میں ہیں تو دنیاداری اسے کوئی نقصان نہیں دے سکتی کیونکہ وہ فانی عن الدنیاکی صفت سے متصف ہو چکا ہے۔ پھردنیاکی جونعمتیں تیرے مقدر میں لکھی ہوئی ہیں وہ تجھے ملیں گی اور اللہ تعالی کے فضل اور ارادے سے وہ تیرے لیے ہر کدورت (آرزو، طلب ، مشقت)سے پاک ہونگی۔ اور تو انہیں اپنی مرضی سے نہیں اللہ کے حکم کی تعمیل میں لے گا اور تجھے اس کے حصول پر اسی طرح ثواب ملے گا جس طرح نماز اور روزے کی ادائیگی پر ملتا ہے جو فرض ہیں۔ اور دنیا کی وہ چیزیں جو تیرے مقدر میں نہیں ان کے بارے تجھےحکم باطن مل جائے گا کہ وہ فلاںمستحق کو پہنچا دو۔یعنی دوستوں پڑوسیوں، بھائیوں کو جو ضرورت مند اور تیرے مال میں استحقاق رکھتے ہوں گے۔یا دوسرے مستحقین جو مصارف زکوة شمار ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان کے حال کا یہ تقاضا ہے کہ ان کی مدد کی جائے اور اس کا اندازہ تجھے ان کے احوال سے ہو گا۔ ان کی حالت خود تجھےبتادے گی کہ یہ مستحق ہیں۔ 

. بہر حال خبر مشاہدہ کے برابر نہیں ہو سکتی۔ تب تیرا معاملہ صاف و شفاف ہو جائے گا اور اس میں کوئی شک و شبہ کا غبار نہیں رہے گا۔ وہ ظاہر وباہر ہر قسم کے شک وارتیاب سے پاک ہو جائے گا۔ 

اتباع ہوائے نفس سے  صبر کر اور امتثال امر حق پر صبر کر۔ تعلیم و رضا کی خواپنالے حال کی حفاظت کر اور باطنی کیفیات پر پردہ ڈال۔ شہرت و نامور ی کو چھوڑ اور گمنامی اختیار کر آرام، آهستگی، سکوت اور خاموشی اختیار کر۔ 

بچ اور پرہیز کر تسامح و درگزر کر ہاں ہاں خیال کر کہ عذاب الہی کا سزاوار نہ ہو جائے) اللہ تعالی سے ڈر، اس کے احکام کی پیروی کر۔ اس کی بارگاہ میں التجا کر۔ سر جھکادے اور اغماض برت حتی کہ لکھا ہوا اپنی مدت کو پہنچے۔ تیرے ہاتھ سے پکڑ کر تجھے آگے لے جایا جائے اور ہر قسم کی سختی تجھ سے دور کر دی جائے۔ پھر تجھے فضیلتوں کے سمندروں میں سیر کرائی جائے. فضل و رحمت سے تجھے بہره مند کیا جائے۔ پھرتجھے نکال کر انوار ، اسرار علوم لدنی کی خلعتیں پہنائی جائیں۔ 

تجھے قرب بخشاجائے،تجھ سے راز و نیاز کی باتیں ہوں، تجھے نعمتیں عطا کی جائیں اور تیرا دامن مراد بھر دیا جائے۔تجھے جرأت بخشی جائے۔ تیرےمرتبے کو بلند کیا جائے اور تجھے ہمکلامی خدا کا شرف بخشاجائے ۔ کہ آج سے آپ ہمارے پاس بڑے محترم اور قابل اعتماد ہیں۔ 

ایسے میں اپنی حالت کو یوسف علیہ السلام کی حالت پر قیاس کر کہ جب بادشاه مصر نے آپ سے کہا تھا کہ اے یوسف آج سے آپ ہمارے پاس بڑے محترم اور قابل اعتماد درباری ہیں۔ تو اس گفتگو کا معبر اور گفتگو کرنے والا تو بادشاه تھا لیکن حقیقت میں مخاطب اللہ تعالی خود تھا۔ 

ظاہری بادشاہی یعنی مصر کی بادشاہی بھی آپ کے حوالے کر دی گئی اور علم و معرفت قربت و مخصوصیت اور اللہ کے ہاں بلند مقام بھی انہیں عطا کر دیا گیا۔ رب قدوس نے ظاہری بادشاہی کے بارے فرمایا : 

وَكَذَٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ یوں ہم نے تسلط (واقدار)بخشا یوسف کو سرزمین مصر میں“ 

يَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَاءُ تا کہ رہے اس میں جہاں چاہے“ باطن کی بادشاہی کے بارے فرمایا۔

 كَذَلِكَ ‌لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ 

یوں ہوا تا کہ ہم دور کر دیں یوسف سے برائی اور بے حیائی کو بیشک وہ ہمارے ان بندوں میں سے تھاجو چن لیے گئے ہیں ۔

  علم و معرفت کی بادشاہی یوسف علیہ السلام کو دی تو اس کے بارے قدرت نے فرمایا۔ 

ذَٰلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِي رَبِّي ۚ إِنِّي تَرَكْتُ مِلَّةَ قَوْمٍ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَهُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ یہ ان علموں میں سے ہے جو سکھایا ہے مجھے میرے رب نے۔ میں نے چھوڑ دیا ہے دین اس قوم کا جو نہیں ایمان لاتے اللہ تعالی پر نیز وہ آخرت کا انکار کرنے والے ہیں“۔ 

اے صدیق اکبر ! (بندہ مومن) جب تجھے بھی اسی طرح خطاب کیا گیا توتجھے علم لدنی سے حظ وافر عطا کیا گیا۔تجھے توفیق، قدرت ، ولایت عامہ ، ضبط نفس اور امور تکونیہ سے نوازا گیا اور بہرہ مند کیا گیا۔ یہ سب عطا اور توفیق قادر مطلق اور خالق کائنات کی طرف سے ہے۔ اور یہ دنیوی نعمتیں ہیں۔ رہا آخرت میں یعنی سلامتی کے گھر جنت العلیاء میں تو وہاں دیدار جمال خداوندی کی نعمت عطا کر کے تجھ پر لطف و کرم کیا جائے اور یہی وہ آرزو ہے جس کی کوئی غایت و انتہاء نہیں ہے۔ 

بہترین پھل چننے کی کوشش کر

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ و ارضاه نے فرمایا : یوںسمجھئیے کہ نیکی اور برائی دوپھل ہیں جو ایک ہی درخت کی دو مختلف شاخوں پر لگے ہیں ایک شاخ کا پھل میٹھاجب کہ دوسری کا پھل ترش اور کڑواہے۔ جہاں جہاں اس درخت کا پھل لے جایا جاتا ہے ان شہروں، ملکوں اور علاقوں سے کہیں اور چلا جا۔ ان سے ان میں رہنے والے لوگوں سے دور چلا جا۔ خود اس درخت کے نزدیک جا۔ اس درخت کا نگہبان اور خادم بن جا۔ تواسے نزدیک سے دیکھ اور پہچان کہ دو ٹہنیوں میں سے کونسی ٹہنی ترش پھل دیتی ہے۔ کس سمت کا پھل ترش ہے اور وہ کونسا پھل ہے جو کڑوا ہے۔ اس کی پہچان کیا ہے شیریں پھل والی شاخ کی طرف مائل ہو جا، تیری خوراک اور غذاشیریں اور میٹھا پھل ہو گا دوسری طرف والی شاخ کے قریب جانے سے اجتناب کر۔ کیونکہ اگر تو اس شاخ کا پھل کھائے گا تو اس کی ترشی تجھے ہلاک کر دے گی۔ پس اگر تو اس احتیاط سے اور ہوشیاری سے زندگی گزارے گا تو تمام آفات و بلیات سے امن و سلامتی اور عافیت وراحت سے رہے گا۔ کیونکہ تمام آفات و بلیات اس ترش پھل سے پیدا ہوتی ہیں۔ 

اور جب تو اس درخت سے دور ہو گا۔ اور آفاق میں گھومتے پھرتے تیرے سامنے یہ پھل آئیں گے جبکہ ان میں میٹھے بھی ہو گئے اور ترش بھی ہو سکتا ہے تو ترش پھل اٹھالے۔ اسے منہ کے قریب لے جائے۔ تھوڑا سا کھائے۔ اسے چبائے تو پھر تجھے معلوم ہو کہ یہ توترش ہے۔ مگر اب تو اس کی ترشی تیرے گلے تک پہنچ چکی۔ تیرے حلق اور دماغ اور ناک کے بانسے میں بھی اس کا اثر ظاہر ہو چکا۔ اس میوہ ترش نے تیرے اندر اپنا کام کر دکھایا۔ یہ تو تیری رگوں تک اور جسم کے روئیں روئیں تک پہنچ چکا۔ اب اگر تو تھوکے گا۔ منہ دھوۓ گا بھی تو کیا فائدہ جو حلق میں یا جسم میں ترشی پہنچ چکی ہے اسے کسی صورت واپس نہیں لایا جاسکتا۔ 

اگر تیرے ہاتھ میں اتفاقامیٹھا پھل آگیا۔ تونے اسے بڑے شوق سے کھالیا۔ اس کی حلاوت تیرے جسم کے ایک ایک حصے میں سرایت کر گئ تجھے اس سے بہت فائدہ ہوا تو بھی اتنا کافی نہیں یہ نہ سوچ کہ ہمیشہ تیرے ہاتھ میں میٹھا پھل آئے گا۔ کبھی ترش پھل بھی آسکتا ہے اگر تو نے اسے کھا لیا تو تیرے ساتھ وہی ہو گا جس کا ابھی ابھی میں نے ذکر کیا ہے۔ درخت سے دوری اور اس کے پھل سے لا علمی میں کوئی فائدہ نہیں۔ سلامتی اس کے قرب اور ساتھ رہنے میں ہے۔ ( پہچان ضروری ہے)

خیر وشر دونوں اللہ عزوجل کا فعل ہے۔ دونوں کا فاعل اور جاری کرنے والا اللہ ہے۔ رب قدوس فرماتا ہے۔ 

وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ حالانکہ اللہ نے تمہیں بھی پیدا کی اور جو کچھ تم کرتے ہو“ 

نبی کریمﷺ   کا ارشاد ہے۔ 

والله خلق الجازروجزوره . . ”اللہ تعالی نے قصاب اور اس کے ذبح شدہ جانور کو پیدا فرمایا 

بندوں کے اعمال اللہ تعالی کے پیدا کردہ ہیں ہاں انسان انہیں کسب کرتے ہیں۔ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ 

ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ داخل ہو جاؤ جنت میں ان نیک اعمال کے باعث جو تم کیا کرتے تھے ۔

اللہ پاک کتنا کریم اور کتنا رحیم ہے کہ اعمال کی نسبت اپنےبندوں کی طرف فرمارہا ہے اور اعمال صالحہ کی وجہ سے انہیں جنت کا مستحق قرار دے دیا ہے حالانکہ یہ نیک اعمال اس کی توفیق اور رحمت کے رہین ہیں۔ 

اور نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے۔ 

مَا مِنْ أَحَدٍ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ بِعَمَلِهِ “کوئی شخص اپنے عمل کی بدولت جنت میں نہیں جا سکے گا“

 عرض کیا گیا۔ یا رسول الله! آپ بھی نہیں ؟ فرمایا : 

وَلا أَنَا إِلا أَنْ يَتَغَمَّدَنِي اللَّهُ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ ” وَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى رَأْسِهِ میں بھی نہیں۔ ہاں یہ کہ مجھے اللہ اپنی رحمت سے ڈھانپ لے۔ آپ نے اپنا دست مبارک اپنے سر مبارک پررکھا“ 

یہ الفاظ حدیث عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا میں مروی ہیں۔ جب تو اللہ 

تعالی کا فرمانبردار بن جائے گا اس کے حکم پر عمل پیرا ہو گا، اس کی مناہی سے رک جائے گا اور اس کی فیصلے کے سامنے سر جھکا دے گا تو تجھے اپنے شر سے بچائے گا اور اپنی بھلائی سے سرفراز کرے گا اور دنیا اور دین کی خرابیوں سے خود تیری نگہداشت فرمائے گا۔  

دنیاوی حفاظت کے بارے فرمایا : 

كَذَلِكَ ‌لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ 

یوں ہوا تا کہ ہم دور کر دیں یوسف سے برائی اور بے حیائی کو بیشک وہ ہمارے ان بندوں میں سے تھاجو چن لیے گئے ہیں ۔

دینی حفاظت کے بارے ارشاد ہوا: ۔

 مَا يَفْعَلُ اللَّهُ بِعَذَابِكُمْ إِنْ شَكَرْتُمْ وَآمَنْتُمْۚ وَكَانَ اللَّهُ شَاكِرًا عَلِيمًا کیا کرے گا اللہ تعالی تمہیں عذاب دیکر اگر تم شکر کرنے لگو اور ایمان لے آؤ اور اللہ تعالی بڑاقدر دان ہے سب کچھ جاننے والاہے” 

شکر کرنے والے مومن کو مصیبت کوئی نقصان نہیں دیتی۔ وہ مصیبت کی نسبت عافیت کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ شاکر ہے اور اس کے بارے اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ 

لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ اگر تم پہلے احسانات پر شکر ادا کرو تومیں مزید اضافہ کر دوں گا“ 

تیر ایمان آخرت میں جہنم کی آگ کے شعلوں کو بجھا سکتا ہے جو عاصیوں کو 

سزادینے کے لیے تیار کی گئی ہے تودنیامیں مصیبت کی آگ کو کیوں نہیں بجھاسکتا 

ہاں اگر کوئی مجذوب، مختار ولایت، یا اصفیاء اور اجتباء کے مرتبہ پر فائز ہے تو اس کے لیے ابتلاء و آزمائش ضروری ہے تا کہ یہ ابتلاء و آزمائش اس کی خواہشات، میلان طبع، نفانی شہوات و لذات کی طرف جھکاؤ مخلوق سے اطمینان ، ان کے قرب سے خوشی ہم جنسوں سے سکون، ان کے ساتھ رہنے کی تمناور اس جیسے دوسرے علائق دنیا کے خبث کو جلادے۔ اور ان بندگان خدا کو اس وقت تک ابتلاء و آزمائش کی بھٹی میں رکھا جاتا ہے جب تک یہ سب چیزیں جل کر خاکستر نہیں ہو جاتیں ۔ اور دل ان تمام سے کندن کی طرح صاف و شفاف نہیں ہو جاتا۔ جب دل ہر قسم کے غش و غل سے پاک ہو جاتا ہے تو توحید باری تعالی کا مخزن معرفت حق کا مہبط اورغیبی اسرار و علوم اور انوار قرب کا موردبن جاتا ہے۔ کیونکہ دل وہ گھر ہے جس میں دونہیں سما سکتے۔ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ 

مَا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ نہیں بنائے اللہ تعالی نے ایک آدمی کیلئے دو دل اس کے شکم میں“ 

إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَهْلِهَا أَذِلَّةً اس میں شک نہیں کہ بادشاہ جب داخل ہوتے ہیں کسی بستی میں تو اسے برباد کر دیتے ہیں اور بنادیتے ہیں وہاں کے معزز شہریوں کوذلیل“ 

پس بادشاہ معزز شہریوں کو ان کی خوشگوار منازل اور عیش و عشرت کی زندگی چھوڑنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ 

دل پر شیطان، حرص وہوا  اور نفس کی حکومت ہے۔ جوارح انہیں کے حکم سے طرح طرح کے گناہوں، اباطیل و ترهات میں مبتلا ہیں۔ پس ابتلاء و آزمائش سے دل پر ان کی ولایت اور حکومت ختم ہو جاتی ہے۔ جوارح گناہوں سے رک جاتے ہیں اور بادشاہ حقیقی کا گھریعنی دل خالی ہو جاتا ہے اور اس گھر کا صحن یعنی سینہ ہر قسم کی غلاظت سے صاف ہو جاتا ہے۔ 

دل صاف ہوتا ہے تو توحید اور علم و معرفت کا مسکن بن جاتا ہے اور سینہ صاف ہوتا ہے تو میں غیبی عجائب اور موارداسے اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں۔ 

یہ سب ابتلا و مصیبت کا نتیجہ اور ثمرہ ہے۔ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا: 

نَحن ‌معاشر ‌الْأَنْبِيَاء أَشد النَّاس بلَاء ثمَّ ‌الأمثل فالأمثل ہم گروہ انبیاء لوگوں میں سب سے زیادہ آزمائے جاتے ہیں پھر دوسرے لوگ درجہ بدرجہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے۔

 أَنَا أَعْرَفُكُمْ باللَّه، وَأَخْوَفُكُمْ مِنْهُمیں تم سب سے زیادہ اللہ تعالی کی معرفت رکھتا ہوں اور تم سب کی نسبت اس سے زیادہ ڈرتا ہوں“ ۔ 

جو شخص بادشاہ کے جتنا قریب ہو گا اتناہی اس سے خطرہ محسوس کرے گا اور احتیاط برتے گا۔ کیونکہ وہ ایسی جگہ پر ہے جہاں بادشاہ ہر وقت اسے دیکھتا ہے۔ اس کی حرکات و سکنات اور اٹھنا بیٹھنا اور دوسرے کام بادشاہ سے پوشیدہ نہیں۔ 

اگر تو یہ کہے کہ تمام انسان اللہ تعالی کے سامنےشخص واحد کی مانند ہیں۔ ان کی کوئی حرکت اللہ سے پوشیدہ نہیں لہذا اس گفتگو سے فائدہ ؟ تو میں کہوں گا۔ یہ گفتگو اس شخص کے متعلق کی جارہی ہے جو بلند مرتبے پر فائز ہے۔ جسے اللہ تعالی کی بارگاہ میں بڑی قدرو منزلت اور شرافت حاصل ہے۔ ایسےشخص کو واقعی زیادہ ڈرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اللہ تعالی نے جتنی بڑی نعمتوں سے اسے نوازا ہے اور جتنا زیادہ اس پر فضل و احسان فرمایا ہے اسی قدر اس پر شکر واجب ہے۔ اللہ تعالی کی عبادت سے ذرا سا التفات شکر میں کمی کا باعث اور اللہ کی اطاعت میں نقصان ہو گا۔ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ 

يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ مَنْ يَأْتِ مِنْكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ يُضَاعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَيْنِ ۔ اے نبی کریم کی بیویو! جس کسی نے تم میں سے کھلی بیہودگی کی تو اس کے لیے عذاب کو دوچند کر دیا جاۓ گا ۔

‘‘ نبی کریم ﷺکی ازواج مطہرات کو یہ وعید اس لیےسنائی گئی کہ اللہ تعالی نے نبی کریم ﷺکی زوجیت کا شرف عطا فرما کر ان پر اپنی نعمت تمام کر دی۔ بھلا وہ جسے اللہ کا قرب اور وصال کی نعمت میسر ہے اسے کیوں نہیں آزمایا جائے گا۔ اللہ تعالی مخلوق سے مشابہت نہیں رکھتا۔ وہ اس سے بلند و بالا ہے کہ مخلوق سے اس کو تشبیہ دی جائے۔ اس جیسی کوئی چیز نہیں۔ وہ سب کچھ سننے والا سب کچھ دیکھنے والا ہے۔

پھل کو شاخ پر رہنے دے تاکہ پک چکے تو تو توڑ سکے

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاه نے فرمایا کیا تجھے راحت و سرور چاہیئے تو سکون و استقرار کا خواہاں ہے۔ امن آشتی کی خواہش رکھتا ہے۔ نعمتوں اور برکتوں کے حصول کا ارادہ رکھتا ہے۔ حالانکہ تو چلنے اور پگھلنے ، نفس کو مارنے اور مجاہدہ کی بھٹی سے دور ہے۔ دنیا و آخرت کی مرادیں اور اعواض ابھی زائل نہیں ہوئے اور تیرے اندر ہزاروں خواہشیں ہزاروں تمنائیں زندہ ہیں ؟ 

ٹھہر جا۔ اے عجلت پسند جلدی کا ہے کی۔ بھاگنے سے کیا فائدہ۔ اے جھانکنے والے آہستہ آہستہ ، دروازہ اس وقت تک بند رہے گا جب تک خواہش دم توڑ نہیں دیتیں حالانکہ تیرے اندر تو ابھی بہت کچھ باقی ہے۔ جب تک ذرہ ذرہ پگھل کردل پاک نہیں ہو جا تا دروازہ بند رہے گا۔ مکاتب کے ذمے جب تک ایک درہم بھی ہے وہ غلام ہے۔ تیرے دل میں دنیا کی خواہشات کا ایک ذرہ بھی ہے تو تب بھی توراہ نہیں پاسکتا۔ 

دنیا تیرا مطلوب و مقصود ہے۔ تو دنیا کی آرزو اور مراد کو اپنے دل میں بسائے ہے۔ ہر چیز کو خواہش کی نظر سے دیکھتا ہے۔ دنیاو آخرت کی ہر نعمت کا خواہش مند ہے۔ جب تک تجھ میں دنیاوی خواہشات باقی ہیں تو ہلاکت کے دروازے پر ہے۔ یہیں ٹهہر جا حتی کہ تجھے بتمام و کمال ان سے فنا حاصل ہو جائے۔ پھر تو بهٹی سے کندن بن کر نکلے گا۔ پھر تو آراستہ و پیراستہ، خوشبو لگا کر بادشاہ حقیقی کی بارگاہ میں پیش کیا جائے گا اور وہ تجھ سے مخاطب ہو کر کہے گا آج سے آپ ہمارے ہاں معزز و مکرم مہمان ہیں۔ پس توانس و آرام پائے گا اور تجھ سے نرمی اور نیکی کا برتاؤ ہو گا۔ اللہ کے فضل و کرم سےتجھے کھلایا پلایا جائے گا۔ تجھے قرب بلکہ کمال قرب سے نوازا جائے گا۔ پھر تو اسرار و رموز غیبیہ پر مطلع ہوگا۔ اور حقائق تجھ سے مخفی نہیں رہیں گے۔ اس طرح اللہ تعالی کی عطا تجھے دنیا کی تمام چیزوں سے بے نیاز کردے گی۔ 

. سونے کی ان پتریوں کو نہیں دیکھتا جو بکھری ہوئی ہوتی ہیں۔ ان کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی وہ دست بدست پھرتی ہیں۔ دن کو یہاں اور رات کو وہاں۔ کبھی عطر فروشوں کے ہاتھ میں اورکبھی سبزی والوں کے پاس کبھی قصابوں کی جیب میں اور کبھی رنگریزوں کے پاس۔ کبھی روغن بیچنے والوں کے ہاتھ میں اور کبھی خاکروبوں کے پاس کبھی جو ہر یوں کے پاس اور کبھی ذلیل پیشہ کسی فرد کے پاس۔ 

پھر یہ پتریاں اکٹھی کر لی جاتی ہیں۔ سنار انہیں بھٹی میں ڈال دیتا ہے۔ اور آگ کی تپش سے وہ پگھل جاتی ہیں۔ پھر ان پگھلی ہوئی پتریوں کو نکالا جاتا ہے۔ انہیں کوٹ کرنرم کیا جاتا ہے اور اس سے زیور بنادیا جاتا ہے۔ پھر اس زور کو پالش کرکے خوشبو لگا کر بہترین جگہ احتیاط سے رکھا جاتا ہے۔ ان کی قیمت اور حیثیت بڑھ جاتی ہے سو جس الماری یا صندوق میں یہ زیور ہواسے تالا لگا دیا جاتا ہے۔ پھریہی زیور دلہنوں کے گلے کی زینت بنتا ہے۔ اس زیور کی بڑی تکریم  ہوتی ہے۔ اسےسجایا جاتا ہے اور زیادہ سے زیادہ آراستگی پیدا کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ زیور بادشاہ کی دلہن کے گلے کی زینت بنتا ہے۔ سونے کی پتریوں کو لوگوں کے ہاتھوں سے نکل کر بادشاہ کے حرم تک پہنچنے کیلئے کتنے مدارج 

طے کرنا پڑے۔ یہ صرف اسی وقت ممکن ہوا جب انہیں بھٹی میں پایا گیا اور پھر 

ضرب لگا کر اسےنرم کیا گیا۔ . 

اے بند ه مو من تیرا معا ملہ بھی ایسا ہے۔ اگر تو خدائی فیصلوں پر راضی رہا اور اللہ تعالی تیرے اندر جو تصرف کر رہا ہے اس پر تو صبر کرے گا تو اسی دنیامیں اپنے مولا کا قرب پائے گا۔ علم و معرفت اور اسرار و حقائق کی نعمت سے سرفراز ہو گا۔ اور آخرت میں انبیاء، صدیقین ، شہداء اور صالحین کے ساتھ سلامتی کے گھر میں رہائش پذیر ہو گا۔ تجھے ان نفوس قدسیہ کی معیت میں اللہ کاپڑوس نصیب ہو گا۔ حریم ذات تک تیری رسائی ہو گی۔ وہاں تیرا ٹھکانا ہو گا اور اسکی ذات عزوجل سے تجھے انس حاصل ہو گا۔ صبر کر اور عجلت کا شکار نہ ہو۔ اللہ تعالی کے فیصلوں پر سر تسلیم ورضاخم کردے۔ اور حق کو الزام نہ دے۔ تاکہ اللہ تعالی کے عفو کی ٹھنڈک ، اس کی بخشش کی حلاوت، اس کی رحمت، لطف اور کرم واحسان تجھے حاصل ہوں۔ 

کبھی فقرسے غنی حاصل ہوتی ہے

حضرت شیخ رضی اللہ تعالی عنہ و ارضا نے فرمایا : نبی کریم ﷺکی حدیث : كَادَ الْفَقْرُ أَنْ يَكُونَ كُفْرً  “۔ قریب ہے کہ فقر کفر کا سبب ہو جائے گا مطلب یہ ہے کہ : ایک انسان اللہ عزوجل پر ایمان لاتا ہے۔ پھر تمام امور اس کے سپرد کر دیتا ہے اور اعتقاد رکھتا ہے کہ رزق صرف اسی کی درگاہ سے بآسانی مل سکتا ہے۔ اور یہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ اسے مل گیا ہے (یا جو مصیبت اس پر نازل ہو گئی ہے اس کاٹلنا ممکن نہیں تھا۔ اور جو نہیں ملا وہ کسی صورت مل نہیں سکتا تھا۔ اور وہ بندہ اللہ تعالی کے اس ارشاد گرامی پر یقین رکھتا ہے۔ 

وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ  وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ  ”اور جو (خوش بخت) ڈرتا رہتا ہے اللہ تعالی سے بنا دیتا ہے اللہ اس کے لیے نجات کا راستہ اور اسے وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوتا۔ اور جو (خوش نصیب اللہ پر بھروسہ کر تا ہے تو اس کے لیے وہ کافی ہے“

بندہ مومن اس بات کا اقرار بھی کرتا ہے اور تصدیق بھی تو وہ عافیت و بے نیازی کی حالت میں ہے۔ پھر اللہ تعالی اسے مصیبت اور فقر میں مبتلا کر دیتا ہے۔بنده التجا کرتا ہے اور آہ و زاری کرتا ہے لیکن اللہ تعالی مصیبت اور فقر سے اے نجات نہیں دیتا۔ تو ایسے میں الله تعالی کے محبوب کایہ ارشاد گرامی متحقق ہو جاتا ہے کہ فقر بھی کفر کا موجب بن جاتا ہے۔ 

جس پر اللہ کریم لطف و کرم فرمادے اس کی مصیبت ٹل جاتی ہے اور اسے عافیت اور غنی عطا کر دیتا ہے۔ اور اسے توفیق بخشتا ہے کہ وہ اللہ کی حمد و ثنا کرے اور نعمتوں پر اس کا شکر بجا لائے۔ سواسے اللہ تعالى لقاء کی گھڑی تک اسی طرح رکھتا ہے۔ یہ پہلا آدمی ہے۔ 

اور جسے اللہ کریم آزمانا چاہے تو اس کی مصیبت اور فقر کو دوام دے دیتا ہے۔ ایمان کی مدد اس سے دور کر دیتا ہے۔ وہ حق تعالی پر تہمت لگاتا ہے اور اعتراض کرتا ہے۔ اللہ کریم کے وعدہ پر شک کرتا ہے اور کافر ہو کر اللہ کی آیات کا منکر بن کر اپنے رب سے ناراض ہو کر مرتا ہے۔ یہ دوسرا آدمی ہے۔ رسول کریم نے اسی قبیل کے آدمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : . 

إِنَّ أَشْقَى الأَشْقِيَاءِ  مَنِ اجْتَمَعَ عَلَيْهِ فَقْرُ الدُّنْيَا وَعَذَابُ الْآخِرَةِ قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب دیا جانے والا شخص ده ہو گا جس کو اللہ تعالی نے دنیا میں فقر میں مبتلا رکھا اور آخرت میں (جہنم کے عذاب میں مبتلا کیا 

نعوذ بالله من ذالك یہی وہ فقر ہے جس سے نبی کریم ﷺنے اللہ تعالی کی پناہ مانگی ہے۔ تیسرا آدمی وہ ہے جسے اللہ تعالی مقام اصطفاء اور منزل اجتباء پر فائز کر نا چاہتا ہے۔ اس کا شمار اللہ کے خاص محبوب بندوں اور دوستوں میں ہوتا ہے۔ وہ انبیاء و اولیاء کا وارث ہے۔ اللہ تعالی کے عظیم بندوں ، علماء و علماء امت ، شفعاء و مشائخ، معلم و هادی، مرشد و متنوع انسانوں میں وہ گنا جاتا ہے۔ اور لوگوں کو سنن هدیٰ کی تلقین کرتا ہے اور برائی سے اجتناب کی نصیحت فرماتا ہے۔ 

ایسے بندے کو الله تعالی صبر کے پہاڑ، رضا کے سمندر اور فعل مولی میں فنا و موافقت کی سعادت عطا فرمادیتا ہے۔ اور پھر اسے طرح طرح کی نعمتوں اور برکتوں سے نوازتا ہے۔ رات دن خلوت و جلوت میں اس پر خصوصی کرم فرماتا ہے۔ ظاہری وباطنی کئی لحاظ سے اس پر لطف و کرم کرتا ہے۔ طرح طرح کی اے نعمتیں دیتا ہے۔ اور اس وقت تک اسے نوازتا رہتا ہےجب تک کے وصال حق نہیں آجاتا۔ 

صبر کاذائقہ ترش ہے لیکن ہے یہ شہد .

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنه و ارضاه فرمایا : کتنے تعجب کی بات ہے کہ تو اکثر کہتا ہے۔ میں کونسا عمل کروں۔ اور کونسا حیلہ اختیار کروں کہ منزل مقصود پرپہنچ جاؤں۔ 

پس تجھے کہا جاتا ہے۔ اپنی جگہ ٹھہر جا اور اس وقت تک اپنی جگہ سے آگے نہ بڑھ کہ اس ذات کی طرف سے کشائش کی کوئی صورت پیدا نہیں ہو جاتی جس نے تجھے ٹھہر جانے کا حکم دیا ہے۔ 

رب قدوس کا ارشاد ہے: 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ. اے ایمان والو! صبر کرو اور ثابت قدم رہو (دشمن کے مقابلے میں) اور کمر بستہ رہو (خدمت دین کے لیے) اور (ہمیشہ) اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جا ؤ۔

اے بندہ مومن ! اللہ تعالی نے اس آیت کریمہ میں تجھے صبر کا حکم دیا پھر ثابت قدمی کا۔ پھر خدمت دین میں کمر بستہ رہنے کا۔ پھر ہمیشہ نیکی پر اور صبر پر کاربند رہنے اور اس کی حفاظت کرنے کا۔ پھر اس کے بعد تنبیہ کی کہ صبر کو ترک نہیں کر دینا۔ اور اللہ تعالی کا خوف دل سے نکال باہر نہ کرنا کیونکہ بھلائی اور سلامتی صبر میں ہے۔ 

نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا : 

الصَّبْرُ مِنَ الإِيمَانِ بِمَنْزِلَةِ الرَّأْسِ من الْجَسَد ‘‘۔صبر کے ساتھ ایمان ایسے ہی ہئ جیسے جسم کے ساتھ سر 

 کہتے ہیں کہ ثواب بقدر عمل ہوتا ہے لیکن صبر کا ثواب اس کلیہ سے مستثنی اس کا ثواب بے حساب ہے اس کا اندازہ نہیں ہو سکتا۔ جیسا کہ رب قدوس کا ارشاد گرامی ہے۔ 

إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَاب صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا“ 

جب تجھے خوف ہو گا کہ اللہ تعالی تجھے صبر کی حفاظت پر قائم رکھے اور حدود کی محافظت میں تیری حفاظت فرمائے تو وہ اپنا وعدہ پورا کرے گا۔ جیسا کہ 

کلام مجید میں ہے۔ 

.. وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ  اور جو (خوش بخت ڈرتا ہے اللہ تعالی سے بنا دیتا ہے اللہ تعالی اس کیلئے نجات کا راستہ۔ اور اسے وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہو تا 

تو صبر کی وجہ سے متوکلین میں سے ہو جائے گا۔ میرے تمام مصائب زائل ہو جائیں گے اور اللہ تعالی تیرے ساتھ کیے گئے کفایت کے وعدہ کو پورا فرمائے گا۔ ارشاد باری تعالی ہے۔ 

وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ  :3) اور جو (خوش نصیب ) اللہ پر بھروسہ کر تا ہے تو اس کے لیے وہ کافی ہے“ 

تواپنے صبر اور توکل کی وجہ سے احسان کرنے والوں میں سے ہو جائے گا اور اللہ تعالی تجھ کو اپنا محبوب بندہ بنائے گا۔ کیونکہ ارشاد خداوندی ہے۔ 

إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ بیشک اللہ تعالی محبوب رکھتا ہے احسان کرنے والوں کو“ 

صبر دنیا و آخرت میں بھلائی اور سلامتی کی بنیاد ہے۔ اس کی دولت بند ه مو من حالت تسلیم و رضا تک ترقی کرتا ہے۔ پھر بتدریج اسے ظاہر و غیب میں فنا فی اللہ کا مقام نصیب ہوتا ہے۔ 

خبردار ! صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے۔ ورنہ دنیا و آخرت میں ذلیل و 

رسوا ہو جائے گا اور دارین کی بھلائی سے محروم ہو جائے گا۔

محبت کاترازو خواہش ہے

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ و ارضا نے فرمایا : اپنے دل میں جب کسی شخص کی محبت یا نفرت پائے تو اس شخص کے اعمال کو کتاب و سنت پر پیش کر اگر وہ قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں قابل نفرت ہے تو پھر مژدہ کہ تو نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ موافقت کی ہے۔ اگر اس کے اعمال کتاب و سنت کی روسے قابل محبت ہیں اور تیرے دل میں اس کی نفرت پائی جاتی ہے تو سمجھ جا کہ تو خواہش کا بندہ ہے۔ اس شخص سے اپنی خواہش کی وجہ سے نفرت کر رہا ہے۔ اور اس سے کینہ اور بغض رکھ کر ظلم کر رہا ہے۔ اور یوں اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کر کے معصیت کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اپنے بغض سے اللہ تعالی کے دربار میں توبہ کر اور اس شخص کے علاوہ دوسرے محبوبان بارگاه الہی ، اولیاء و اصفیاء اور صالحین امت کی محبت کا سوال کر تا کہ تو ان سے محبت کر کے اللہ تعالی سے موافقت اختیار کرلے۔ 

اسی طرح جس سے محبت کر تا ہے اس کے اعمال کو قرآن و سنت پر پیش کر۔ اگر قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق وہ قابل محبت ہے تو اس سے محبت کر۔ قابل نفرت ہے تو نفرت کر۔ تاکہ تیری اس کے ساتھ محبت اور نفرت اپنی خواہش کی وجہ سے نہ ہو کیونکہ اللہ تعالی مخالفت نفس کا حکم دیتا ہے۔ 

وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَىٰ فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ اور نہ پیروی کیا کرو ہوائے نفس کی وہ بہکا دے گی تمہیں راه خداسے“ 

محبت صرف ایک ہی محبوب سے ہوتی ہے

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا : تعجب ہے تو اکثر کہتا ہے میں جس کو پسند کر تا ہوں اس کی صحبت ہمیشہ میسر نہیں رہتی۔ کوئی نہ کوئی چیز ہماری جدائی کا سبب بن جاتی ہے۔ یا تو محبوب غائب ہو جاتا ہے یا موت یا عداوت اسے مجھ سے الگ کر دیتی ہے۔ میرا پسندیدہ مال تلف ہو جاتا ہے اور میرے ہاتھ سے چھن جاتا ہے۔ (نہ کسی انسان کا وصال میسر رہتا ہے اور نہ پسندیدہ مال کا) پس اس کا جواب یہ ہے کہ کیا تو نہیں جانتا کہ تو حق تعالی کا محبوب و مطلوب اور منظور نظر ہے۔ اسے غیرت آتی ہے کہ تو دوسروں سے مراسم رکھے۔ جانتا نہیں کہ اللہ تعالی غیور ہے اس نےتجھے اپنے لیے پیدا کیا اور تو غیر کا بننا پسند کرتا ہے؟ . 

کیا تو نے اللہ تعالی کا یہ فرمان نہیں سنا : يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ

محبت کرتا ہے اللہ ان سے اور وہ محبت کرتے ہیں اس سے۔

 وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ اور نہیں پیدا فرمایا میں نے جن وانس کو مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں کیا تو نے نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد گرامی نہیں سنا: 

إِذا أحب الله عبدا ابتلاه، فَإِذا أحبه الْحبّ الْبَالِغ اقتناه» قيل: وَمَا اقتناه قَالَ لم يتْرك لَهُ أَهلا وَلَا مَالاجب اللہ تعالی کسی انسان سے محبت کرتا ہے تو اسے آزمائش میں ڈال دیتا ہے۔ اگر وہ صبر کرے تو اسے ہر چیز سے بے نیاز کر کے اپنا بنا لیتا ہے عرض کیا گیا یا رسول اللہ بے نیاز کر کے اپناکیسےبنالیتا ہے۔ فرمایا اس کے مال کو باقی چھوڑتا ہے اور نہ بچے کو زندہ چھوڑتا ہے 

اور یہ اسے لئے کر تا ہے کہ مال و دولت اور اولاد ہو گی تو میرابندہ ان کی محبت میں پھنس جائے گا اور اس طرح اپنے رب کے ساتھ اس کی محبت بٹ جائے گی۔ کم ہو جائے گی اور پارہ پارہ ہو جائے گی۔ وہ بیک وقت اللہ اور غیر اللہ کی محبت کا دم بھرنے لگے گا۔ حالانکہ اللہ تعالی شر یک کو قبول نہیں کر تا۔ وہ غیور اور قاہر ہے۔ ہر چیز اس کے قبضہ قدرت میں ہے۔ ہر چیز اس کے حکم کے سامنے ! سرافگندہ ہے۔ پس وہ شرک کو اولاد کی صورت میں ہو یا مال کی صورت میں ہلاک اور تلف کر دیتا ہے تا کہ اس کےبندہ کے دل میں کسی اور کی محبت نہ رہے اور وہ خالصتا اپنے رب کی محبت میں سرشار رہے۔ پس یوں اللہ تعالی کا یہ ارشاد پورا ہو جاتا ہے کہ وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں اور اللہ ان سے۔ جب دل تمام شرکا ءو اندادسے خالی ہو جائے گا یعنی بندہ مومن کے دل میں نہ اہل و عیال کی محبت رہے گی اور نہ مال و دولت کی چاہت نہ لذات و شہوات کی طلب رہے گی اور نہ حکومت ریاست کا شوق نہ کرامات احوال کی تمنارہے گی اور نہ منازل و مقامات کی آرزو نہ جنت و درجات جنت کی خواہش اور نہ قرب وصول الی اللہ کا خیال۔ پس بند ه مومن کا دل ہر ارادے اور ہر خواہش سے جب اس طرح پاک ہو جائے جیسے ٹوٹا ہوابرتن کہ جس میں کوئی مائع نہیں ٹھہر سکتا کیونکہ اللہ کےفعل اور اللہ کی غیرت اور ہیبت کی دیوار یں بلند کر دی جاتی ہیں اور کبریائی اور سطوت کی خندقیں کھود دی جاتی ہیں۔ دل میں نہ کسی چیز کا ارادہ پیدا ہو سکتا ہے اور نہ کسی چیز کی خواہش سر اٹھا سکتی ہے۔ ایسے میں دل کو مال دولت ، اہل و عیال ، دوست احباب جیسے اسباب اور کرامات و حاکم اور عبادات کوئی نقصان نہیں دے سکتیں۔ کیونکہ یہ تمام چیزیں دل سے باہر ہوتی ہیں۔ ول پرالہی پہرے ہوتے ہیں پس اللہ تعالی غیرت نہیں فرماتا۔ بلکہ یہ سب چیزیں اللہ تعالی کی طرف سے بندے کیلئے باعث عزت و کرامت لطف، کرم اور نعمت بن جاتی ہیں۔ اللہ کے اس بندے کی خدمت میں حاضر ہونے والے ان سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی کے ہاں چونکہ اس بندے کا خاص رتبہ اور مقام ہو تا ہے اس لیے اس کے طفیل آنے والے بھی عزت و تکریم سے نوازے جاتے ہیں ۔ ان کی بھی مصائب و آلام سے حفاظت کی جاتی ہے۔ یوں یہ بندہ مومن بندگان خدا کا نگہبان، کفایت کند و، اور ملجاو ماوی بن جاتا ہے۔ اس کے صدقے لوگوں کی تمنائیں پوری ہوتی ہیں مصائب سے خلاصی پاتے ہیں اور یہ بندہ  خدادنیا اور آخرت میں اللہ تعالی 

کے حضور ان کی شفاعت کرتا ہے۔ 

مقامات خلق اور منازل رجال

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ و ارضاه نے فرمایا : آدمی 

چار قسم کے ہوتے ہیں۔ 

ایک وہ آدمی جس کے پاس نہ زبان ہوتی ہے اور نہ دل۔ اس سے مراداللہ کا نافرمان مغرور ،غبی اور بے کار آدمی ہے۔ اللہ تعالی ایسے شخص سے کوئی سروکار نہیں رکھتا ۔ اس میں کوئی بھلائی اور خیر کا پہلو نہیں ہوتا۔ ایسے لوگ خس و خاشاک کی مانند ہیں جن کا کوئی وزن نہیں ہوتا۔ ہاں اگر اللہ تعالی ایسے لوگوں کو اپنی رحمت سے ڈھانپ لے۔ ان کے دلوں میں ایمان کا چراغ روشن کر دے اور ان کے جوارح کو اپنی اطاعت پر لگادے تو الگ بات ہے۔ 

خبر دارکہیں ان میں سے ہو جاؤ۔ ان کی پناہ نہ لے۔ ان کا اعتبار نہ کر اور نہ ان کی سنگت اختیار کر۔ اللہ تعالی کی نظر میں یہ مغضوب و معتوب ہیں انہیں عذاب دیا جائے گا۔ ایسے لوگوں کیلئے دوزخ کی آگ ہے۔ ہم ایسے لوگوں سے اللہ تعالی کی پناہ مانگتے ہیں۔ 

ہاں اگر تو عالم باللہ ہے۔ خیر کا معلم، دین کا ہادی قائد اور رہنما ہے تو پھر ان کے پاس ضرور جا۔ انہیں اطاعت خداوندی کی طرف بلا انہیں معصیت کے ہولناک انجام سے خبر دار کر تا کہ اللہ تعالی کے نزدیک تو مرد میدان لکھا جائے اور تجھے انبیاء ورسل جیسا ثواب عطا کیا جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا : – 

وَالله لَأَنْ يُهْدى بهُداكَ رجلٌ واحِدٌ خَيْرٌ لَكَ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ. 

یقینا تیری دعوت سے اللہ تعالی کا ایک شخص کو ہدایت دےدینا تیرے لیے ہر اس چیز سے بہتر ہے جس پر سورج طلوع ہوتا ہے“ 

دوسرا وہ آدمی ہے جس کے پاس زبان تو ہے لیکن دل نہیں۔ وہ حکمت بھری باتیں کر تا ہے لیکن عمل سے عاری ہے۔ لوگوں کو اللہ تعالی کی طرف بلاتا ہے لیکن خود اس ذات سے دور بھاگتا ہے۔ دوسروں کے عیبوں کی قباحت بیان کرتا ہے لیکن خودان قباحتوں کو اپنے دل میں ہمیشہ پروان چڑھاتا ہے۔ لوگوں کے سامنے پر ہیز گار بنتا ہے جس کے جسم پر انسانی لباس ہے۔ 

ایسے لوگوں سے نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کو خبردار کیا اور فرمایا ہے۔ 

إِنَّ أَخوفَ ما أَخافُ على أُمتى كُلُّ منافقٍ عليمُ اللسان اپنی امت کے بارے میں سب سے زیادہ جس چیز سے ڈرتاہوں وہ ہر منافق شخص ہے جو بات کرنا خوب جانتا ہے“ دوسری حدیث میں یوں ہے:

أخوفُ ما أخافُ على أمَّتى الأئمةُ المُضلُّون اپنی امت کے بارے سب سے زیادہ خوف مجھے برے علماء کا ہے“ 

ایسے لوگوں سے دور رہئے اور ان سے بھاگ جائے ورنہ اپنی لذت گفتار کے ذریعے تمہیں شکار کر لیں گے تو بھی ان کی نافرمانیوں کی آگ میں جلایا جائے گا۔ 

تیسرا آدمی وہ ہے جس کا دل تو ہے لیکن زبان نہیں۔ اس سے مراد وہ بنده مؤمن ہے جسے اللہ تعالی لوگوں سے مستور رکھتا ہے۔ اس کی پردہ پوشی فرماتا ہے۔ اور اسے اپنے عیبوں پر مطلع کر دیتا ہے۔ ایسے انسان کے دل کو اللہ تعالی منور فرما دیتا ہے۔ لوگوں کے ساتھ ملنے جلنے میں جو خرابیاں ہیں گفتگو میں جو برائیاں اور نقصان ہیں ان سے مطلع کردیتا ہے اور اسے یقین ہو جاتا ہے کہ بھلائی خاموشی اور گوشہ نشینی میں ہے۔ 

جیسا کہ نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے : مَنْ صَمَتَ نَجَا

جو خوموش رہا نجات پا گیا اور کہا جاتا ہے کہ عبادت کے دس اجزاء ہیں۔ ان میں سے تین خاموشی میں پوشیدہ ہیں۔ 

یہ آدمی اللہ تعالی کا ولی ہے۔ وہ اللہ تعالی کی پردہ پوشی میں محفوظ ہے۔ اسے سلامتی کے ساتھ عقل اور فراست کا نور حاصل ہے۔ وہ خدائے رحمان کاہمنشین ہے اللہ کے اس پر بے شمار انعامات ہیں۔ وہ ایسا شخص ہے کہ ہر قسم کی بھلائی اس کے پاس موجود ہے۔ ایسے شخص کی سنگت اختیار کر۔ اس سے تعلقات قائم کر اس کی خدمات بجالا۔ اس کی ضروریات کو پوراکرنے کی سعادت حاصل کرنے کی کوشش کر۔ اور جن انعامات سے اللہ نے اسے نوازا ہے ان سے نفع اندوز ہو نیکی سعی کر۔ اگر تو اللہ کے اس بندے کی صحبت اختیار کرے گا اور ان کی خد مت بجا لائے گا تو اللہ تعالی تجھ سے محبت فرمائے گا اورتجھے اپنابنا لے گا۔تجھے اپنے محبوب اور نیک بندوں کی صف میں شامل فرمادے گا۔انشاء اللہ تعالی

چوتھا آدمی وہ ہے جس کے پاس دل بھی ہے اور زبان بھی اس سے مرادوہ آدمی ہے جسے فرشتوں میں عظیم انسان کے نام سے بلایا جاتا ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے۔ 

مَنْ عَلِمَ وَعَمِلَ وَعَلَّمَ؛ يُدْعَى فِي الْمَلَكُوتِ عَظِيمًا جس نے علم حاصل کیا۔ پھر اس پر عمل پیرا ہو اور دوسروں کو بھی تعلیم دی وہ ملکوت میں عظیم کے لقب سے بلایا جائے گا ۔

ایسا شخص در حقیقت اللہ تعالی اور اس کی قدرتوں کا عرفان رکھتا ہے۔ اللہ تعالی اس کے دل میں نادر و نایاب علوم ودیعت فرمادیتا ہے اور اسے ایسے اسرار پر مطلع کرتا ہے جو دوسروں سے مخفی ہوتے ہیں۔ اسے چن لیتا ہے۔ اپنا بنالیتا ہے۔ اپنا عشق دے دیتا ہے۔ اپنی طرف ہدایت کر دیتا ہے۔ اور اپنی حضوری میں ترقی دے دیتا ہے۔ اس کا سینہ ان اسرار و علوم کے لیے کھول دیتا ہے۔ اسے بزرگ، متقی ، حجت، مہدی ہادی شافع ومشفع صادق، مصدق اور اپنے رسولوں اور نبیوں کا خلیفہ اور جانشین بنادیتا ہے۔علیہم صلوتہ و تحیاتہ دبر كاتہ بنی آدم میں یہ بنده غایت و منزل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سےبڑامر تبہ صرف نبوت کا ہے۔ 

اس بندہ خدا کی صحبت اختیار کر کسی حالت میں اس کی مخالفت ، اس سے منافرت، دوری اور دشمنی نہ رکھ۔ اس کی نظر میں اپنی پذیرائی، اسے بات کا جواب دینے اور نصیحت کرنے کو ترک کر دے۔ سلامتی اسی میں ہے جو وہ بند خدا فرماتا ہے یا جواس کے پاس نصیحت ہے دوسرے لوگوں کے پاس جو کچھ ہے وہ ہلاکت اور گمراہی ہیں۔ اگر دیکھ سکتا ہے تو اپنے فائدے کے لیے دیکھ۔ اگر احتیاط کرنے والا ہے تو احتیاط کر اگر اپنی ذات پر شفت رکھتا ہے اور اپنی بھلائی چاہتا ہے تو میری بات مان۔ 

هدانا الله وإياك لما يحبه ويرضاه . ناو أخرى برحمته 

ہر ایک مدت لکھی ہوئی ہے

حضرت رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے فرمایا : کتنے تعجب کی بات ہے کہ تو اپنے پروردگار سےنالاں ہے۔ اسے الزام دیتا پھرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس نے مجھ پر ظلم کیا۔ مجھے روزی نہیں دی۔ غنی نہیں بنایا۔ مجھے مصائب و آلام سے نجات نہیں دی۔ 

کیا تجھے یہ بات معلوم نہیں کہ ہر کام کیلئے ایک مقرر وقت ہے جسے پہلے سے لکھا جا چکا ہے۔ ہر ایک مصیبت اور دکھ نے آخر مٹنا ہے۔ ہر تکلیف کی انتہاء ہے اپنی مدت پر اسے ختم ہونا ہے سو اس تکلیف سے نجات نہ پہلے ہو سکتی ہے اور نہ ہی مقررہ وقت کے بعد۔ 

مصیبت کے اوقات میں عافیت نہیں ہوسکتی اور سختی کا وقت آسانی کے وقت کے ساتھ نہیں بدل سکتا۔ اور محال ہے کہ فقر کی حالت غنی میں بدل جائے۔ 

ادب کو ملحوظ خاطر رکھ ۔ خاموشی، صبر ، رضا اور موافقت کو اختیار کرے۔ اللہ سے نالاں رہنے اور اسے تہمت دینے سے توبہ کر ۔ بارگاہ خداوندی میں انسانوں کی طرف تقاضائے طبیعت بشری بغیر کسی گناہ کے انتقام اور بلاوجه گرفت نہیں۔ 

اللہ کریم ازل سے یکتا ہے۔ وہ ہمیشہ سے ہے اس کی ابتداء نہیں۔ اسی نے ہر چیز تخلیق کی۔ اور ہر چیز کے فوائد اور نقصانات پیدا کیے ۔ وہ ہر چیز کی ابتداء کو بھی جانتا ہے اور انتہاء کو بھی۔ اس کے اختتام کو بھی جانتا ہے اور انجام کو بھی۔ وہ اپنے فعل میں مقیم ہے۔ اپنی صنعت گری میں مضبوط ہے۔ اس کے فعل میں تناقض نہیں۔ کسی چیز کو فضول پیدا نہیں کرتا۔ اس کا کوئی کام عبث نہیں۔ وہ ہر عیب اور نقص سے پاک ہے۔ اسے اس کے افعال میں ملامت نہیں کیا جاسکتا۔ 

اگر صبر ورضا اور اللہ کے فعل سے موافقت اور غنی کی ہمت نہیں تو فراخی اور کشائش کا انتظار کر حتی کہ مصیبت کے دن پورے ہوں اور مرور وقت کے ساتھ ساتھ اللہ کریم حالت میں تبدیلی فرما دے۔ جس طرح سردی گرمی میں اور رات دن میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اگر تو مغرب اور عشاء کے در میان دن کی روشنی تلاش کرے تو ممکن نہیں۔ بلکہ یہ کہ اس کی تاریکی میں اضافہ ہوتا جائے گا حتی کہ تاریکی اپنی انتہاء کوپہنچ جائے گی۔ پھر فجر طلوع ہو گی اور ہر طرف دن کی روشنی چھاجائے گی۔ تو چاہے یانہ چاہے یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ اگر توعین دوپہر کے وقت رات کی واپسی طلب کرے تو تیری دعا قبول نہیں ہوتی اور دوپہر کی روشنی میں تاریکی کا خواب پورا نہیں ہو گا کیونکہ یہ طلب بے وقت ہے۔ سو تو خائب و خاسر ،بےنیل و بے مرام رہے گا سب کچھ چھوڑ دے۔ سر تسلیم خم کر۔ اپنے رب کے بارے حسن ظن رکھ اور صبر سے کام لے جو تیرا ہے تجھ سے چھینانہیں جائے گا اور جو تیر انہیں تجھے دیا نہیں جائے گا۔

بخد توطلب کر اللہ تعالی کی بارگاہ میں آہ وزاری کرے گڑ گڑا کر دعا کر اطاعت وانقیاد کے جذبہ سے اور اس کی فرمانبرداری کی نیت سے۔ کیونکہ اس کا حکم ہے۔ 

ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ”مجھے پکارو۔ میں تمہاری دعا قبول کروں گا

 وَاسْأَلُوا اللَّهَ مِنْ فَضْلِهِ اور مانگتےر ہو الله تعالی سے اس کے فضل و کرم کو۔

 اور دوسری کئی آیات و احادیث اس حقیقت پر گواہ ہیں۔ 

تو اس کی بارگاہ میں دست سوال دراز کر۔ وہ ضرور کرم فرمائے گا لیکن اس کی قبولیت کے لیے ایک وقت ، ایک مدت مقرر ہے۔ جب اللہ تعالی اراده فرمائے گا دعا قبول ہو جائے گی۔ یا پھر دعا کی قبول نہ ہونے میں کوئی دنیاوی یا اخروی مصلحت پوشیدہ ہو گی۔ یا تیری دعا اور اللہ کے فیصلے اور اس کی مدت کے پورے ہونے میں موافقت ہو جائے گی۔ (ادھر تو دعا کرے گا ادھر اس کی قبولیت اور تیرے مقصود کے بر آنے کا وقت آچکا ہو گا) قبولیت میں تاخیر کی وجہ سے اسے الزام نہ دے اور مایوس نہ ہو دعا کرنے میں بہر حال فائدہ ہے نقصان نہیں۔ اگر تجھے فوری فائدہ نہیں پہنچا تو کوئی نقصان بھی تو نہیں پہنچا۔ اگر فوری نجات نہیں ہوئی تو کل کو اس کا ثواب توملے گا۔ حدیث مبارکہ ہے۔ 

إن العبد يرى في صحائفه يوم القيامة حسنات لم يعرفها فيقال له إنها بدل سؤالك في الدنيا. الذي لم يقدر قضاء فيها له 

قیامت کے روز بندہ اپنے نامہ اعمال میں ایسی نیکیاں دیکھے گا جن سے وہ ناواقف ہو گا۔ اس سے کہا جائے گا یہ دنیا میں کی گئی تیری دعا کا بدلہ ہے جس کے بارے اللہ کا فیصلہ پورا نہیں کیا گیا تھا او كما قال رسول الله “ 

دعا کرنے سے اور کچھ بھی حاصل نہ ہو تو کم از کم اللہ وحدہ لاشریک کی یاد کی سعادت تو حاصل ہو ہی جائے گی۔ اس میں اللہ کی وحدانیت کا اقرار بھی ہے۔ کیونکہ تو صرف اللہ تعالی سے دعا کر رہا ہے اور اس کے سواء کسی اور کے دروازے پر دستک نہیں دے رہا۔ تیرے لیل و نہار ، صحت و تندرستی غنی و فقر کی حالت اورتنگی کی حالت بلکہ تیری پوری زندگی دو حالتوں میں منقسم ہے۔ 

با تو دعا ہی نہیں کر رہا بلکہ اللہ کے کیے پر راضی ہے۔ اور اس کے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کے موافقت فعل ربی کی راہ پر گامزن ہے۔ اور غسال کے ہاتھوں میں میت اور دائیہ کے ہاتھوں شیر خوار بچے کی مانند بے حس و حرکت ہے۔ یا پھر گھڑ سوار کے ہاتھوں گیند کی مانند ہے کہ وہ جس طرف چاہتا ہے لے جاتا ہے۔ جس سمت چاہتا ہے الٹتا پلٹتا ہے۔ پس اللہ تعالی خود تجھ میں کام کر رہا ہے اور تو اس کے سامنے کوئی حرکت نہیں کر رہا۔ اپنے آپ کو اس کے سپرد کر دیا ہے۔ 

اگر اللہ تعالی کی طرف سے تمہیں نعمتیں میسر ہوں تو تیری طرف سے شکر اور حمد و ثنا کی جاتی ہے۔ اور اس کے بدلے اللہ تعالی اپنی عطائیں اضافہ فرماتا ہے۔ 

جیسا کہ اس کا ارشاد ہے: ‘ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْاگر تم سابقہ نعمتوں پر شکر کرو گے تو میں تمہارے لیے ان میں اور اضافہ کروں گا۔

 اگر دکھ اور تکلیف ہو تو اللہ کی توفیق ثابت قدمی، نصرت، نماز اور رحمت کی وجہ سے تو صبر ورضا کو اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالی تجھ پر اپنا فضل فرماتا ہے۔ جیسا کہ اس کا ارشاد گرامی ہے۔ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے“

 یعنی اللہ ان کی مدد فرماتا ہے اور انہیں ثابت قدم رکھتا ہے۔ اور کیوں نہ ہو بندہ صبر کر کے اپنے نفس خواہش اور شیطان کے خلاف اللہ تعالی کی مدد کرتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے۔ 

إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ اگر تم اللہ (کے دین)کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد فرمائے گا اور میدان جہاد میں تمہیں ثابت قدم رکھے گا ۔

جب اللہ پر اعتراض اور تسخط(ناراضگی) کی روش ترک کر کے اپنے نفس کی مخالفت میں اللہ تعالی کی مدد کرے گا اور اپنے نفس کے خلاف اللہ کا مددگار بن جائے گا اور اللہ کی رضا کی خاطر تلوار ہاتھ میں لیے نفس پر پہرہ دے گا اور جب بھی نفس کفر ، شرک اور اپنی رعونت سے حرکت کرے گا تو تواپنے صبر ، رب کی موافقت اس کے فعل پر طمانیت اور وعدہ خداوندی  پررضا کے ذریعے اس کا سر قلم کر دے گا تو اللہ تعالی تیرا معاون اور مددگار بن جائے گا۔ 

صبر ہی پراللہ تعالی کی طرف سے انسان پر شفقت و مہربانی کی نظر ہوتی ہے۔ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ 

وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ (١٥٥) الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ  أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ ۔ اور خوشخبری سنایئے ان صبر کرنے والوں کو جو کہ پہنچتی ہے انہیں کوئی مصیبت تو کہتے ہیں بیشک ہم صرف اللہ ہی کے ہیں اور یقینا ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ہیں وہ (خوش نصیب)ہیں جن پر ان کے رب کی طرح طرح کی نوازشیں اور رحمت ہے اور یہ لوگ سیدھی راہ پر ثابت قدم ہیں۔

 دوسری حالت یہ ہے کہ تو اللہ عزوجل کی بارگاہ میں گڑ گڑا کر عاجزی و انکساری سے دعا کرے۔ اور نیت یہ رکھے کہ وہ عظیم ذات ہے اور مجھ پر لازم ہے کہ اس کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے اس کی بارگاہ میں سوال کروں اور وہ اس لائق ہے کہ اس کی جناب میں دست سوال دراز کیا جائے۔ کیونکہ وہ کائنات کا مالک ہے اور اس کا حکم ہے کہ مجھ سے مانگو اور مجھ سے رجوع کرو۔ اللہ کریم نے دعا کو وجہ سکون ، اللہ اور بندے کے در میان رابطہ اور اپنے قرب کا ذریعہ اور وسیلہ بنایا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ تاخیر کی وجہ سے اسے تہمت نہ دے۔ اس سے نالاں نہ ہو۔ کیونکہ ہر کام اپنے وقت پر انجام پاتا ہے۔

ان دو حالتوں میں سے ایک حالت کو اپنانے اور دونوں حالتوں سے تجاوز کرنے والوں سے نہ ہو جا۔ کیونکہ کوئی تیسری حالت ہے ہی نہیں۔ 

حد سے تجاوز کرنے والوں اور ظالموں سے نہ ہو جا۔ ورنہ اللہ تمہیں ہلاک کر دے گا اور تیری ہلاکت کی اللہ کو کوئی پرواہ نہیں۔ جیسے کہ پہلی امتوں کو دنیا میں بھی سخت عذاب سے دوچار کیا اور آخرت میں انہیں دردناک عذاب کا مستحق ٹھہرایا۔

سبحان الله العظيم. یاعالما بحالي عليك اتکالی

 چراگاہ کے اردگردگھومنے والا کسی وقت بھی چراگاہ کے اندر آسکتاہے 

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ و ارضاه نے فرمایا : زہد و تقوی اختیار کر ورنہ ہلاکت کا پھندا تیری گردن میں ہو گا اور تو اس سے بھی نجات نہیں پا سکے گا۔ ہاں اللہ تعالی فضل و کرم فرمائے تو الگ بات ہے۔ نبی کریم ﷺ کی حدیث ہے۔ 

إن ملاك الدين الورع. وهلاكه الطمع وان  من حام حول الحمى يوشك أن يقع فيه کاالراتع إلى جنب الزرع 

يوشكان یمد فاه إليه لا يكاد أن يسلم الزرع منہ 

دین کا مدار زہدو ورع ہے اور اس کی ہلاکت لالچ ہے۔ بلاشبہ جو چراگاہ کے اردگرد گھومتا ہے کسی وقت بھی اس میں داخل ہو سکتا ہے۔ کھیتی کے کنارے چرنے والے جانور کی مانند قریب ہے کہ اس کا منہ اس تک پہنچ جائے۔ ممکن نہیں کہ کھیتی اس سے محفوظ رہے ۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا ارشاد ہے کہ ہم دس میں سے نو چیزیں اس خوف سے ترک کر دیتے ہیں کہ حرام کا ارتکاب نہ کر بیٹھیں۔ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا، ہم ستر مباح دروازے اس خوف سے چھوڑ دیتے ہیں کہ کہیں گناہ نہ کر بیٹھیں۔

حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی یہ احتیاط صرف اس وجہ سے ہے کہ کہیں حرام کا ارتکاب نہ کر بیٹھیں۔ کیونکہ نبی کریم ﷺکی یہ حدیث مبار کہ ان کے پیش نظر تھی۔ 

أَلَا إنَّ لِكُلِّ ‌مَلِكٍ ‌حِمًى وَحِمَى اللَّهِ ‌مَحَارِمُهُ فَمَنْ ‌حَامَ ‌حَوْلَ ‌الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يَقَعَ فِيهِہر بادشاہ کی ایک محفوظ چراگاہ ہوتی ہے۔ اللہ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔ جو اس چراگاہ کے اردگرد گھوما قریب ہے کہ اس میں واقع ہو جائے 

جو شخص بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا۔ پہلے دروازے سے آگے گزر گیا۔ پھر دوسرے دروازے کو عبور کیا اور تیسرے دروازے پر جا کر ٹھہر گیاوہ بہتر ہے اس شخص سے جو پہلے دروازے پر ہے۔ کیونکہ باہر والا دروازہ صحراء کے قریب ہے اگر تیسرا دروازہ اس پربند بھی کر دیا گیا تو بھی اسے کوئی نقصان نہ ہو گا کیونکہ اس کے پیچھےمحل کے دو دروازے اور ہیں۔ اور ان دو دروازوں کے باہر بادشاہ کی فوج کا پہرہ ہے۔ 

لیکن پہلے دروازے پر ٹھہرنے والا محفوظ نہیں۔ اگر یہ دروازہ بند کر دیا جائے تووہ صحراء میں اکیلا رہ جاۓ گااور بد معاش اور دشمن اسے پکڑ کر ہلاک کر دیں گے۔ 

یوں ہی جو عزیمت کی راہ اختیار کرتا ہے اور اسے نہیں چھوڑتا۔ اگر توفیق اور حفاظت کی صورت میں کی جاتی مد دروک بھی لی جائے تو تب بھی اسے رخصت پر عمل کی توفیق تو حاصل رہے گی۔ اور اس طرح وہ عزیمت کو چھوڑ کر شریعت کی حدود سے باہر نہیں آئے گا۔ اور اس حالت میں اگر اسے موت آگئی تو اطاعت کی حالت میں آئے گی اور اس کے حق میں بہترین عمل کی گواہی دی جائے گی۔ 

لیکن جو رخصت پر عمل پیرا ہو اور عزت کی طرف قدم نہیں بڑھایا تو اس سے اگر توفیق چھن جائے اور اللہ تعالی اس سے اپنی مدد واپس لے لے تو اس پر حرص و ہوا غالب آجائے گی۔ شہوات نفس اس پر مسلط ہو جائیں گی۔ وہ حرام میں پڑ کر شریعت کی حدوں سے باہر آجائے گا اور اللہ تعالی کے دشمنوں شیاطین کے زمرے میں آجائے گا۔ اگر توبہ سے پہلے اسے موت آگئی تو ہلاکت اس کا مقدر ٹھہرے گی ہاں رحمت و فضل خداوندی اسے ڈھانپ لے تو الگ بات ہے۔ بہر حال رخصت میں خطرہ ہے۔ اورعزیمت کی راہ اپنانے میں ہر قسم کی سلامتی ہے۔ 

دنیا کو طلاق دینا جنت کا مہر ہے

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے فرمایا : 

آخرت کو راس المال اور دنیا و نفع خیال کر اپنا پور اوقت آخرت کے حصول میں صرف کرنے کی کو شش کر۔ اگر اس سے کچھ وقت بچ جائے تو اسے اپنی دنیا اور معاش میں صرف کر دنیاکوراس المال اور آخرت کو اس سے حاصل ہونے والا نفع نہ بنا۔ کہ دنیا کمانے سے جو وقت بچے اسے آخرت کی بھلائی حاصل کرنے میں صرف کرنے لگے۔ پانچوں نمازیں جھٹ پٹ ادا کرے کہ بس ارکان کی ادائیگی پوری ہو جائے۔ رکوع و سجود کرتے ہوئے نہ واجبات نماز کا خیال رہے اور نہ ارکان کو سکون سے ادا کر سکے۔ یا پھر تھکاوٹ کی وجہ سے سو جائے اور ایک نماز بھی ادانہ کرے۔ رات کو بھی مردار کی طرح سویا رہے اور دن کے وقت بھی بے کار لیٹا رہے۔ نفس اور شیطان کی پیروی میں آخرت کو دنیا کے بدلےبیچ ڈالے۔ نفس کا بند ہ و غلام اور سواری بن جائے۔ حالانکہ حکم تو تجھے یہ دیا گیا تھا کہ اس پر سواری کرے۔ اسے سدھائے اسے رام کرے اور اس پر سوار ہو کر سلوک کی راہ طے کرے جو آخرت اور مولا کی اطاعت کی راہ ہے۔ اگر تو نے اس کی غلامی کو قبول کر کے اس پر ظلم کیا۔ اور اپنی باگ اس ظالم سرکش کے ہاتھ میں دے دی اور اس کی شہوتوں، لذتوں کا پیرو ہو گیا۔ اس کا دوست بن بیٹھا۔ شیطان اور خواہش سے تعلقات رکھے۔ دنیا بھی گئی اور آخرت بھی ہاتھ نہ آئی۔ دارین کی رو سیاہی مقدربن گئی۔ اور قیامت کو لوگوں میں سے غریب ترین اور دین و دنیا کے اعتبار سے خائب و خاسر ٹھہرانہ نفس کی پیروی کی وجہ سے مقدر سے زیادہ دولت ہاتھ آئی اور نہ آخرت کی بھلائی نصیب ہوئی۔ اگر تو نے اسے آخرت کی راہ پر چلایا ہو تا اور آخرت کو راس المال اور دنیا کو اس کا نفع تصور کیا ہوتا تو بآسانی خوشی خوشی دنیا میں اپنے مقدر کو بھی پالیتا اور آخرت کی بھلائی سے محروم بھی نہ ہوتا۔ نبی کریم ﷺنے جیسے ارشاد فرمایا : 

إِنَّ اللَّهَ ‌يُعْطِي الدُّنْيَا عَلَى نِيَّةِ الْآخِرَةِ وَأَبَى أَنْ ‌يُعْطِيَ الْآخِرَةَ عَلَى نِيَّةِ الدُّنْيَا

بلاشبہ الله تعالی آخرت کی فکر پردنیا عطا فرماتا ہے مگر دنیا کی فکر پر آخرت عطا نہیں فرماتا ۔

اور ایسا کیوں نہ ہو آخرت کی فکر الله تعالی کی اطاعت ہے کیونکہ فکر اور نیت عبادت کی روح اور اس کی اصل ہے۔ 

جب دنیا میں زہد اختیار کر کے اور آخرت کو طلب کر کے تو نے اللہ عزوجل کی اطاعت کی تو تو اللہ کے خاص بندوں اور اہل طاعت و محبت میں شمار ہوا۔ اور تجھے آخرت حاصل ہو گئی یعنی جنت اور الله تعالی کا پڑوس۔ اور دنیا نے بھی تیری خدمت گزاری کی۔ اور جو مقدر میں لکھا تھا۔ اس کا ایک ایک دانہ مل گیا۔ کیونکہ دنیا کازرہ زرہ و مالک و خالق کا تابع ہے۔ اگر تو دنیا میں مشغول رہا اور آخرت سے اعراض برتتار ہا تو اللہ تعالی بھی ناراض ہوا اور آخرت کی بھلائی بھی گئی۔ دنیا کی خوشنودی بھی حاصل نہ ہوئی اور تھک کر چور چور ہو گیا۔ وجہ یہ ہے کہ دنیا اللہ تعالی کی مملوک ہے جو اللہ کی نافرمانی کرتا ہے دنیا اس کی اہانت کرتی ہے اور جو اس کریم کی اطاعت فرمانبرداری کرتا ہے دنیا اس کی عزت و تکریم بجا لاتی ہے۔ پس اس پر نبی کریم کا یہ ارشاد گرامی صادق آتا ہے: مَثَلُ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ كَمَثَلِ رَجُلٍ لَهُ ‌ضَرَّتَانِ، إِنْ أَرْضَى إِحْدَاهُمَا أَسْخَطَ الْأُخْرَى

دنیا اور آخرت سوکنیں ہیں۔ اگر ان میں سے ایک کو راضی کرے گا تودوسر کی ناراض ہو جائے گی“ 

رب قدوس کا ارشاد پاک ہے مِنْكُمْ مَنْ يُرِيدُ الدُّنْيَا وَمِنْكُمْ مَنْ يُرِيدُ الْآخِرَةَ بعض تم میں سے طلبگار ہیں دنیا کے اور بعض تم میں سے طلبگار ہیں آخرت کے ۔

لیکن کچھ لوگ ابنائے دنیا ہیں اور کچھ طالبان آخرت دیکھ تو ان میں سے کس زمرے میں آتا ہے۔ اور دنیا میں ان دو فریقوں میں سے کس فریق میں شمولیت پسند کر تا ہے۔ مخلوق دو فریقوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک فریق طالب دنیا ہے اور دوسرا فریق طالب آخرت۔ 

قیامت کے روز بھی ان کے دو گروہ ہوں گے۔ ایک فریق جنتی ہو گا اور دوسرادوزخی۔ ایک فریق کو اپنے اعمال کا حساب دینے کیلئے طویل عرصہ کھڑارہنا پڑے گا جہاں ایک دن پچاس ہزار سال کے برابر ہو گا جن کو آج تم شمار کرتے ہو۔ جیسا کہ رب قدوس کا ارشاد ہے۔

فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِي السَّعِيرِ ایک فریق جنت میں اور دوسرا فریق بھڑکتی آگ میں ہو گا“ 

نبی کریم ﷺ بھی یہی فرماتے ہیں: إنكم تكونون يوم القيامة في ظل العرش عاکفون على الموائد عليها أطيب الطعام والفواكه والشهد ابيض من الثلج، ينظرون إلى منازلهم في الجنة حتى إذا فرغ من حساب الخلق دخلوا الجنة يهتدون إلى منازلهم كما يهتدي أحد الناس إلى منزلہ

روز قیامت تم عرش کے سایہ میں ہو گے۔ تمہارے سامنے دستر خوان بچھے ہوں گے جن پر بہترین کھانے، پھل اور شہدرکھا ہو گا۔ اور یہ شہد برف سے زیادہ سفید ہو گا۔ تم جنت میں موجود اپنے گھروں کو دیکھو گے حتی کہ جب مخلوق اپنے حساب سے فارغ ہو گی تو تم جنت میں چلے جاؤ گے۔ تم سیدھے اپنے جنتی گھروں میں پہنچو گے جیسے کوئی شخص اپنے گھر پہنچ جاتا ہے۔ 

یہ سب کچھ انہیں ترک دنیا اور طلب آخرت اور طلب مولی میں مشغولیت کی وجہ سے ملے گا۔ اور حساب کی طوالت اور طرح طرح کے عذاب اور ذلت ورسوائی صرف دنیا کی محبت ورغبت اور آخرت سے بے پرواہی برتنے کے سبب ہوں گے۔ اپنے نفس پر نظر رکھ اور اس کیلئے بہترین فریق کا انتخاب کر۔ اسے شیاطین یعنی برے لوگوں اور جنوں کی دوستی سےبچا کتاب و سنت کو اپنا رہنما بنا۔ اس کی تعلیمات پر نظر رکھ اور انہی کے مطابق عمل پیراہو، قیل و قال اور ہوس کا شکار نہ ہو۔ 

رب قدوس کا ارشاد ہے

: وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ

اور رسول کریم جوتمہیں عطا فرمادیں وہ لے لو۔ اور جس سے تمہیں روکیں تو رک جائے اور ڈرتے رہا کرو اللہ سے، بے شک اللہ تعالی سخت عذاب دینے والا ہے۔ 

یعنی اللہ تعالی سے ڈرو اور اس کی مخالفت نہ کرو کہ اللہ کے رسول کے لائے ہوئے دین کو چھوڑ کر اپنے لیے عبادت اور عمل کی نئی راہیں پیدا کر لو۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے ایک گمراہ قوم کے بارے فرمایا : 

وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ ۔ اور رہبانیت کو انہوں نے خود ایجاد کیا تھا۔ ہم نے اسے ان پر فرض نہیں کیا تھا ۔

اللہ تعالی نے اپنے محبوب نبی محمد ﷺ کی پاکیزگی کو بیان کیا اور باطل اور جھوٹ سے ان کی تنزیہ فرمائی اور کہا۔ وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى  إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى  اور وہ توبولتاہی اپنے خواہش سے نہیں ہے یہ مگروحی جوان کی طرف کی جاتی ہے ۔

یعنی جو کلام مجید آپ لائے ہیں وہ میری طرف سے نازل کردہ ہے۔ ان کی خواہش یانفس کو اس میں دخل نہیں۔ اس لیے اس کی اتباع کرو۔

قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ اے محبوب! آپ فرمائیے انہیں کہ اگر تم  واقعی  محبت کرتے ہو اللہ سے تو میری پیروی کرو  تب  محبت فرمانے لگے گا تم سے اللہ“

 بتا دیا کہ محبت کا راستہ نبی کریم ﷺ کی قولاً اور فعلاً اتباع ہے۔ نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے۔ 

الاكتساب سنتی و التوكل حالتی او كماقال له 

”کتاب میری سنت ہے اور توکل میری حالت ہے . 

پس آپ کی سنت اور حالت دونوں کو اختیار کر۔ اگر تیرے ایمان میں کمزوری ہے تو سب کو اختیار کر اور اگر ایمان قوی ہے تو دوسری حالت یعنی توکل کو اختیار کر رب قدوس ارشاد فرماتا ہے۔ 

وَعَلَى اللَّهِ فَتَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ اور اللہ پر بھروسہ کرواگر ہو تم ایماندار“ 

وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ”اور جو  خوش نصیب اللہ پر بھروسہ کر تا ہے تو اس کےلیے وہ کافی ہے“ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ بیشک اللہ تعالی محبت کرتا ہے توکل کرنے والوں سے“ 

اللہ تعالی تجھے توکل کا حکم دے رہا ہے تجھے اس بارے تنبیہ فرمارہاہے جیسا کہ اس نے اپنے محبوب ﷺ کو متنبہ فرمایا۔ 

تمام کاموں میں اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺکی پیروی کر۔ ورنہ یہ کام تیرے منہ پر دے مارا جائے گا۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی  ہے۔ 

مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ ‌أَمْرُنَا، ‌فَهُوَ ‌رَدٌّ جس نے کوئی ایسا کام کیا جس کے بارے ہمارا حکم نہیں توده کام مردود ہے”

یہ حکم عام ہے۔ کسب رزق، دوسرے اعمال اور اقوال میں آپ کی پیروی ضروری ہے۔ کیونکہ آپ کے علاوہ ہمارا کوئی نبی نہیں جس کی ہم اتباع کریں۔ اور نہ قرآن کریم کے علاوہ کسی دوسری کتاب سے رہنمائی ہمارے لیے جائز ہے۔ پس قرآن و سنت کے دائرے سے باہر نہ جاورنہ ہلاک ہو جائے گا اور خواہش اور شیطان تجھے گمراہ کر دیں گے۔ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ  

اور نہ پیروی کیا کرو ہوائے نفس کی وہ بہکا دیگی تمہیں راہ خداسے ۔

سلامتی قرآن و سنت پر عمل پیرا ہونے میں ہے۔ اور انہیں چھوڑ کر کسی اور کی پیروی ہلاکت ہے۔ قرآن و حدیث کی بدولت ہی انسان ولایت ، بدلیت اور غوثیت کی حالت تک بتد ریج ترقی کر تا ہے۔

حاسد گویاناراض رہنے کیلئے پیدا کیا گیاہے

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ و ارضاه نے فرمایا : اے بندہ  مو من ! تو اپنے پڑوسی سے اس کے کھانے پینے ، لباس، عورت، گھر ، دولت و ثروت اور مولا کی دی گئی دوسری نعمتوں کی وجہ سے کیوں حسد کر تا ہے۔ اللہ کریم نے اس پر اپنے فضل و کرم فرمایا ہے تو اس پر کیوں جلتا ہے۔ . 

کیا نہیں جانتا کہ حسد تیرے ایمان کو کمزور کر دے گا اور پروردگار کی نگاہ میں تجھے گرادے گا اور وہ کریم تجھ سے ناراض ہو جائے گا۔ کیا تو نے نبی کریم ﷺکی بیان کردہ یہ حدیث قدسی نہیں سنی۔

  الْحَسُودُ ‌عَدُوُّ نِعْمَتِيحاسد میری  عطا کردہ نعمت کا دشمن ہے۔

 اور کیا تو نے نبی کریم ﷺکا یہ ارشاد مبارک نہیں سنا

إِنَّ الْحَسَدَ يَأْكُلُ الْحَسَنَاتِ كَمَا تَأْكُلُ ‌النَّارُ ‌الْحَطَبَپھر اے مسکین ! تو کس لیے حسد کرتا ہے۔ کیا تو دوسرے کےنصیبے پر جلتا ہے یا اپنے نصیبے پر؟ 

اگر تو اپنے بھائی کے مقدر پر حسد کرتا ہے جو اللہ کی دین ہے۔ 

جیسا کہ اس کا ارشاد گرامی ہے: 

نَحْنُ ‌قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ہم نے خود تقسیم کیا ہے ان کے در میان سامان زیست کو اس دنیوی زندگی میں ز

تو تو اپنے بھائی پر ظلم کر رہا ہے۔ 

ایک آدمی عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہا ہے۔ اسے طرح طرح کی نعمتیں میسر ہیں اللہ تعالی کا اس پر بڑا فضل و کرم ہے۔ اس کے نصیب میں خیر ہی خیر ہے۔ ایسا مقدر کسی کو عطا نہیں ہوا۔ اے بندہ مؤمن بھلا تجھ سے ظالم اور جاہل ، غبی اور بے وقوف بھلا اور کون ہے جو اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کی وجہ سے جل رہا ہے ۔

 اگرتجھے اپنی قسمت پر حسد ہے تو تو کمال جاہل اور بے وقوف ہے۔ تیری قسمت میں لکھا کسی دوسرے کو تومل نہیں سکتا اور نہ تجھ سے کسی دوسرے کی طرف منتقل ہو سکتا ہے۔ رب قدوس کا ارشاد گرامی ہے۔ 

مَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ میرے ہاں علم بدلا نہیں جاتا اور نہ میں اپنے بندوں پر ظلم کر تا ہوں“ 

اللہ تعالی ظلم نہیں کر تا تیرے مقدر اور نصیبے میں لکھی نعمتیں تجھ سے لیکر کسی دوسرے کو دے دے۔ ایسا سوچنا جہالت ہے اور اپنے بھائی سے زیادتی کے مترادف ہے۔ 

” مؤمن یافاجر پڑوسی سے حسد کرنے سے زیادہ بہتر تو یہ ہے کہ تو زمین سے حسد کرے جو سونے، چاندی اور دوسرے کنوز و ذخائر اور جواہر کا معدن ہے جس کے اندر سے عاد، ثمود، کسری، قیصر نے خزانے نکال کر جمع کیے۔ تیرے پڑوسی کے پاس تو اس دولت کا کروڑواں حصہ بھی نہیں ہو گا۔ 

تیر اپنے پڑوسی سے حسد کرنا ایسے ہے جیسے کوئی آدی ایک بادشاہ کو دیکھے۔ جس کی مملکت وسیع ہو۔ لشکر لا تعداد ہو۔ خدام و حشم اشارة ابرو کے منتظر گوش بر آواز ہوں۔ اس کی ہیبت و طاقت سے مرغوب دوسرے ممالک اسے خراج دیتے ہوں۔ اسے طرح طرح کی نعمتیں، آسائشیں اور سامان عیش و علم حاصل ہو۔ وہ شخص بادشاہ کی دولت و ثروت اور عیش و عشرت پر حسد نہ کرے۔ پھر اسے ایک صحرائی کتا نظر آئے۔ جو بادشاہ کو اپنے کتوں میں سب کتوں سے زیادہ عزیز ہو۔ جس کی یہ خوب خاطر مدارت کر تا ہو۔ دن رات اسے ساتھ رکھتا ہو۔ اسے اپنے ساتھ سلاتا ہو۔ اپنے ساتھ لیکر اٹھتا ہو۔ بادشاہ اپنے مطبخ سے اسے بہترین کھانا کھلاتا ہو۔ اور اس کابچا ہوا دوسرے کتوں کے آگے ڈالا جاتا ہو۔ وہ 

تم اس کتے کو اس طرح پیتے دیکھ کر حسد کی آگ میں جلنے لگے۔ اس سے دشمنی پالنے اور آرزو کرنے لگے کہ یہ کتا ہلاک ہو جائے۔ اور وہ اس کی جگہ لے لے۔ اور یہ سب خیال کمینگی اور خست کی وجہ سے ہونہ کہ زهد قناعت اور دین داری کی وجہ سے۔ کیا زمانے میں اس سے بھلا احمق نادان اور جاہل کوئی اور ہو گا۔ پھر اے مسکین اگرتجھے علم ہوتا کہ کل تیرے پڑوسی کو ان نعمتوں کا کتنا کڑا حساب دینا ہے۔ قیامت کے روز ان نعمتوں کی وجہ سے اسے بارگاہ خداوندی میں کس قدر مسئولیت کا سامنا کرنا ہے۔ اور اللہ تعالی کی ان نعمتوں کو اگر اس نے ذر یعہ اطاعت وانقیاد نہ بنایا اور ان کی وجہ سے بندے پر اللہ تعالی کی طرف سے جو فرائض عائد ہوئے وہ اس نے پورے نہ کئے حکم خداوندی کی پیروی نہ کی مناہی سے اجتناب نہ کیا۔ اور ان نعمتوں کو عبادت خداوندی اور اطاعت الہی میں کام میں نہ لایا تو اس کو جس سختی کا سامنا ہوگا کہ وہ تمنا کرے گا کاش ہمیں اس دولت سے ایک ذرہ بھی نہ دیا جاتا اے کاش ان نعمتوں سے ہمیں ایک دن کے لیے بھی نہ نوازا جاتا۔ اگر توان حالات سے آگاہ ہو تا تو دولت اور دنیوی نعمتوں کی بھی آرزو نہ کرتا۔ 

کیا تو نے نبی کریم کی یہ حدیث پاک نہیں سنی کہ آپ نے فرمایا

يَوَدُّ أَهْلُ الْعَافِيَةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَنَّ لُحُومَهُمْ قَدْ قُرِضَتْ ‌بِالْمَقَارِيضِ لِمَا يَرَوْنَهُ لِأَهْلِ الْبَلَاءِ مِنْ جَزِيلِ ‌الثَّوَابِقیامت کے روز کچھ لوگ اہل بلا کو ملنے والے ثواب کو دیکھ کر یہ آرزو کریں کہ کاش دنیامیں ہمارے گوشت قینچیوں سے کاٹے جاتے“ 

كل (قیامت کے روز  تیر اپڑوسی آرزو کرے گا کہ کاش میں دنیا میں اس شخص کی طرح غریب اور مفلس اور ابتلاء و آزمائش میں ہوتا توتجھے اس قدر حساب نہ دینا پڑتا اور پچاس ہزار سال تک قیامت کی گرمی میں یوں کھڑانہ ہونا پڑتا۔ کاش میں دنیامیں دنیاوی نعمتوں سے لطف اندوز نہ ہوتا تو آج اس شخص کی طرح عرش 

کے سائیے میں کھاتے پیتے، فرحت و سرور میں بڑے آرام سے اللہ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتا۔ یہ سب نعمتیں اس لیے ہیں کہ تونے دنیا کے شدائد ، تنگی ، آفات فقر اور مشکلات پر صبر کیا۔ اور اپنےنصیبے پر راضی اللہ کے فیصلے کے سامنے سرافگنده رہا۔ اورکبھی شکایت نہیں کی کہ مجھے فقیر پیدا کیا۔ دوسرں کو غنی بنادیا۔ مجھے بیماری دی اور دوسروں کو عافیت بخشی۔ مجھے مصائب و آلام میں مبتلا کیاجب کہ دوسروں کو فراخی دی۔ مجھے ذلیل کیا دوسروں کو عزت دی۔ 

جعلنا الله وإياك ممن صبر على البلاء وشکر علی النعماء واسلم وفوض الأمور إلى رب الأرض والسماء 

صدق دلیل تقوی، جمال باطن اور کمال دین ودنیاہے 

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ و ارضا نے فرمایا : جو شخص اللہ تعالی سےسچائی اور اخلاص برتتا ہے وہ ہر وقت غیر سے متوحش رہتا ہے۔ 

اے میری قوم ! جو تمہارا نہیں اس کی خاطر دعانہ کرو۔ اللہ کو یکتا یقین کرو اورشرک نہ کرو بخداتقدیر کے تیر زخمی کرتے ہیں جان لیوا نہیں ہوتے۔ جو اللہ کی راہ میں جان تلف کر دے اللہ تعالی اسے اس کا بہترین اجر دیتا ہے۔

حرص ہر باطنی بیماری کا گھر ہے

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے فرمایا کسی چیز کو 

امر ربی کے بغیر محض خواہش نفس سے قبول کرنا گمراہی اور معصیت ہے۔ اور خواہش نفس کو ترک کر کے حکم خداوندی کی بناء پر کسی چیز کو لینا اور قبول کرنا فرمانبرداری اور حق سے موافقت ہے۔ اور اس کا چھوڑنا اور قبول نہ کرتاریاء اور نفاق ہے۔ 

اللہ تعالی کے علاوہ باقی سب کچھ باطل ہے

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے فرمایا :جب تک تو اپنے پورے جسم کا دشمن نہیں بن جاتا۔ اپنے تمام اعضاء اور جوارح سے مخالفت نہیں کر لیتا۔ اپنے وجود، حرکات و سکنات ، سننے ، دیکھنے، بولنے پکڑنے، عقل و فکر اور سعی و کوشش سے الگ نہیں ہو جاتا۔ جب تک تو ہر اس چیز کو چھوڑ نہیں دیتا جو نفخ روح کے بعد تجھ میں پیدا کی گئی یا اس پہلے پیدا کی گئی  روحانی و جسمانی تواولیاء اللہ کی جماعت میں داخل ہونے کی تمنا اور آر زدنہ کر۔ کیونکہ یہ سب کچھ رب قدوس کے سامنے حجاب ہیں۔ جب تو روح محض بن جائے گا اور سراسر اور غیب الغیب ہو جائے گا باطن کی ہر چیز سے مباین ، اور ہر چیز کودشمن، حجاب اور تاریکی خیال کرے گا جیسا کہ رب قدوس نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے بارے فرمایا : 

فَإِنَّهُمْ ‌عَدُوٌّ ‌لِي إِلَّا رَبَّ الْعَالَمِينَ پس وہ سب میرے دشمن ہیں سوائے رب العالمین کے“ 

پس اب تو دوسری مخلوق کے ساتھ اپنے پورے جسم اور جسم کے تمام اجزاء کو بت خیال کر اور ان کی ذرہ برابر اطاعت وانقیاد نہ کر تو ایسے میں تجھے اسرار و علوم لدنی اور معارف غیبیہ پر امین بنادیا جائے گا۔ تکوینی امور تیرے سپرد کر دئیے جائیں گے اور کرامات کا تیرے ہاتھ پر ظہور ہوگا اور یہ سب چیزیں اس قدرت سے تعلق رکھتی ہیں جو اہل ایمان کو جنت میں عطا ہو گی۔ اس حالت میں تیری حیثیت مرنے کے بعد آخرت میں زندہ ہو جانے والے کی ہو گی۔ تو سراپا قدرت بن جائے گا۔ اللہ سے سنے گا۔ اللہ کے ذریعے دیکھے گا اللہ کے ذریعے کلام کرے گا۔ اللہ کے ذریعے پکڑے گا۔ اللہ کے ذریعے چلے گا اللہ کے ذریعے سوچے گا۔ اللہ کے ساتھ اطمینان اور آرام پائے گا۔ اور اللہ تعالی کے علاوہ ہر چیز سے اندھا اور بہرہ بن جائے گا۔ اللہ کے اوامر و نواہی کی پابندی اور حدود کی حفاظت تو کرے گا 

لیکن اللہ تعالی کے علاوہ تیری نظروں میں کوئی اور وجود ہی نہیں ہو گا۔ اور جب کہ حکم کی بجا آواری اور حد کی پاسداری میں تجھ سے کوئی کوتاہی ہو گی تو مفتون ہو گا اور شیطان کابازیچہ بن چکا ہو گا۔ 

پس ایسے میں شریعت کے حکم کی پاسداری کر اور حرص و ہو ا چھوڑدے۔ کیونکہ جس حقیقت کی گواہی شریعت سے نہ ملے وہ الحاد اور زندقہ ہے۔

ولایت کی راہ بڑی کٹھن ہے

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنه وارضاه نے فرمایا : غنی کی حقیقت کو واضح کرنے کیلئے ایک مثال بیان کرتا ہوں۔ تو نے دیکھا ہو گا کہ ایک بادشاہ اپنی رعایا میں سے کسی شخص کو ایک علاقے کا والی مقرر کر تا ہے۔ اسے خلعت فاخرہ پہنائی جاتی ہے۔ بادشاہوں جیسے جھنڈے اور دوسری علامات اسے عطا کر دی جاتی ہیں۔ وہ لگان وصول کرتا ہے۔ لشکر اس کے حکم کا پابند ہوتا ہے۔ وہ بڑے کروفر سے اس علاقے پر بھی فرض شناسی سے حکومت کرتا ہے۔ لیکن تھوڑا عرصہ گزرنے کے بعد وہ اپنی اوقات بھلادیتا ہے۔ مطمئن ہو جاتا ہے کہ یہ حکومت اب مجھ سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ میں اس کا بلا شرکت غیرے مالک ہوں وہ فخر و غرور ، عجب و خود پسندی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اپنی پہلی حالت کو بھول جاتا ہے۔ فقر و فاقہ اور ذلت و رسوائی میں گزری زندگی اسے یاد نہیں رہتی پھر اچانک بادشاہ کی طرف سے اسے معزولی کا پروانہ ملتا ہے۔ اسے دربار میں پیش کیا جاتا ہے ایک ایک جرم گنا جاتا ہے۔ اس کی بے انصافیاں طشت ازبام ہو جاتی ہیں۔ بادشاہ اسے سخت سزا کا حکم سناتا ہے۔ اسے پابہ زنجیر قید کوٹھڑی میں قید کر دیا جاتا ہے۔ ایک عرصہ گزر جاتا ہے۔ عزت و وقار خاک میں مل جاتی ہے۔ وہ کوڑی کوڑی محتاج ہو جاتا ہے۔ انا مجروح ہو جاتی ہے۔نخوت و تکبر جاتا رہتا ہے۔ اس کی سرکشی ٹوٹ جاتی ہے۔ ہوس کی آگ بجھ جاتی ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر بادشاہ کو ترس آجاتا ہے۔ وہ اس پر نظر التفات فرماتا ہے۔ پہلے سے کہیں زیادہ اسے نوازتا ہے۔ اس علاقہ کی فرمانروائی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کے سپرد کر دیتا ہے۔ 

یہی حال ایک بنده مؤمن کا ہے۔ جب اللہ کریم اسے اپنا قرب بخشتا ہے۔ اور اپنے لیے چن لیتا ہے تو اس کے دل کی آنکھ کی روشنائی رحمت، احسان اور انعام کا دروازہ کھول دیتی ہے۔ وہ اپنے دل سے وہ کچھ دیکھتا ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کان نے سنا ہے اور نہ کسی دل میں اس کا خیال گزرا ہے۔ انسانوں اور زمین کی بادشاہوں میں چھپےغیبی  اسرار ، عجائب و غرائب کشف روحانی ، اجابت دعاء تقوی، محبوبیت ، قلب میں کلمات حکمت کا نزول اور مداومت ذکر وغیرہ۔ اس کے علاوہ اسے ظاہری نعمتوں سے بھی نوازا جاتا ہے۔ اسے صحت و تندرستی عطاکی جاتی ہے۔ ماکولات و مشروبات، ملبوسات، حلال و مباح نکاح کی اسے توفیق دے دی جاتی ہے۔ لیکن عرصہ تک اللہ کریم اپنے اس بندہ خاص پر اپنی نعمتوں کی بارش کرتا رہتا ہے۔ حتی کہ جب بندہ ان سے اطمینان پانے لگتا ہے۔ سمجھتا ہے کہ 

یہ نعمتیں ابدی ہیں اور غرور میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالی ابتلاء و آزمائش کے دروازے کھول دیتا ہے۔ اسے طرح طرح کی جانی اور مالی مصیبتیں گھیر لیتی ہیں۔ وہ اپنے اہل خانہ کی طرف سے پریشان رہتا ہے۔ ساری نعمتیں چھن جاتی ہیں اور بنده حسرت و ندامت میں حیران و پریشان ہو کر شکستہ دل تنہارہ جاتا ہے۔ اپنے اور بیگانے سب ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ 

اگر ظاہری جسم پر نظر ڈالتا ہے تو خرابی کے سواء کچھ نظر نہیں آتا۔ دل اور باطن میں جھانکتا ہے تو حزن و ملال میں مبتلا کرنے والی حالت پاتا ہے۔ اللہ تعالی سے نجات کی دعا کرتا ہے۔ اللہ تعالی دعا قبول نہیں فرماتا۔ اللہ تعالی سے خوش کن و عدہ کے پورے کرنے کا سوال کرتا ہے تو اس کو فورا پورا ہوتے نہیں دیکھتا۔ اگر اس سے کوئی وعدہ کیا جاتا ہے تو اس کے پورا ہونے کی اطلاع نہیں پاتا۔ اگر کوئی خواب دیکھتا ہے تو فورا اس کی تعبیر سامنے نہیں آتی۔ اگر مخلوق سے رجوع کرنے کا مقصد کر تا ہے تو پھر کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی۔ اگر اللہ تعالی کی طرف سے دی گئی کسی رخصت پر عمل کرتا ہے تو فورا اس کی طرف سے سزاپاتا ہے۔ اور لوگوں کے ہاتھ اس کے جسم پر ، زبانیں اس کی عزت پر مسلط ہو جاتی ہیں اگر اللہ تعالی سے دعا کرتا ہے کہ اسے اس حالت سے نجات دے اور پہلے جیسی زندگی عطا فرمائے تو دعا قبول نہیں ہوتی۔ اگر مصیبت میں رضا خوشنودی اور تسلیم و رضا کا سوال کرتا ہے تو اسے یہ نعمت بھی نہیں دی جاتی۔ 

پس  ایسی حالت میں نفس کی سرکشی دم توڑنے لگتی ہے۔ حرص وہوا زوال پذیر ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ ارادے اور تمنائیں رخصت ہونے لگتی ہے۔ ہستی نیسی میں تبدیل ہونا شروع کر دیتی ہے۔ یہ حالت دوام اختیار کر لیتی ہے بلکہ اس کی شدت اور سختی میں لمحہ بہ لمحہ بھی اضافہ اور زیادتی ہوتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ بندہ اخلاق انسانی اور صفات باری سے فانی ہو جاتا ہے۔ اور روح محض ره جاتا ہے۔ اس وقت وہ اپنے باطن سے یہ آواز سنتا ہے :”اپنا پاؤں زمین پر مارو۔ یہ نہانے کیلئے ٹھنڈا پانی ہے اور پینے کیلئے جیسا کہ حضرت ایوب علیہ السلام کو حکم ملا تھا۔ اللہ کریم اس کے دل پر رافت ورحمت اور لطف و احسان کے دریا بہادیتا ہے۔ اپنے کرم سے اسے ایک نئی زندگی بخشتا ہے۔ اپنی معرفت اور علم لدنی سے اس کے سینے کو منور کر دیتا ہے۔ اپنی نعمتوں اور برکتوں کے دروازے اس پروا کر دیتا ہے۔ لوگوں کے ہاتھوں کوبذل وعطا اور خدمت کے لیے کھول دیتا ہے۔ زبانیں اس کی تعریف و توصیف کرنے لگتی ہیں۔ لوگ اس کے ذکر خیر میں لذت محسوس کرتے ہیں۔ اس کی خدمت میں چل کر جانا سعادت دارین خیال کیا جاتا ہے۔ گردنیں اس کے سامنے فرط عقیدت سے جھکتی چلی جاتی ہیں۔ ملوک اور ارباب دول اس کے سامنے سر افگنده حاضر ہوتے ہیں۔ اللہ کریم اپنی ظاہری اور باطنی نعمتوں سے اسے خوب خوب نواز تا ہے۔ اپنی نعمتوں اور برکتوں کے ساتھ اس کی ظاہری نشوونما کا بھی ذمہ لیتا ہے اور اپنے لطف و کرم کے ساتھ اس کے باطن کی تربیت بھی خود کرتا ہے۔ لقاء ربی تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ پھر بنده جب دنیا سے کوچ کر تا ہے تو اللہ تعالی اسے ایسے گھر میں قیام بخشتا ہے جونہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے۔ نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی  انسان کے دل میں اس کا خیال گزرا ہے جیسا کہ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ . 

فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ ‌مَا ‌أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ پس نہیں جانتا کوئی شخص جو نعمتیں چھپا کر رکھی گئی ہیں ان کے لیے جن سے آنکھیں ٹھنڈی ہو گی یہ صلہ ہے ان اعمال حسنہ   کاجو وہ کیا کرتے تھے 

شہد اور حنظل دونوں میں دواء ہے

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ و ارضا نے فرمایا : نفس کی صرف دوحالتیں ہیں۔ تیسری نہیں۔ ایک حالت عافیت کی ہے اور دوسری بلاء و مصیبت کی۔

جب نفس آلام و مصائب کا شکار ہوتا ہے تو آہ و زاری کرتا ہے۔ شکوه و شکایت کی زبان دراز کرتا ہے۔ خفگی اور اعتراض کرنے لگتا ہے۔ اللہ کریم کی شان میں نازیبا کلمات کہتا ہے۔ صبر ورضا اور موافقت ترک کر دیتا ہے۔ سوئے ادبی کا مرتکب ہو جاتا ہے۔ مخلوق اور اسباب کو اللہ کا شریک ٹھہراتا ہے اور کفر کا مرتکب ہو جاتا ہے۔ 

اور جب عافیت کی حالت میں ہوتا ہے تواس کی شرارت اور سرکشی پہلے سے کہیں زیادہ ہو جاتی ہے۔ شہوات و لذات کی پیروی کرتا ہے۔ ایک خواہش پوری ہوتی ہے تو دوسری سر اٹھاتی ہے۔ یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔ اللہ تعالی کی عطا کردہ نعمتوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ کھانے پینے کی چیزوں، لباس، نکاح اور سواری کی صورت میں اللہ کی عطا کردہ نعمتوں پر استہزاء کر تا ہے۔ ان میں عیب اور نقص نکالتا ہے اور چاہتا ہے کہ ان سے بہتر اور زیادہ نعمتیں میسر ہوں حالانکہ مطلوبہ نعمتیں اس کے مقدر میں نہیں ہوتیں۔ وہ اپنی قسمت پر راضی نہیں ہوتا اسی لیے مشقت اور تھکاوٹ کا شکار رہتا ہے۔ اللہ تعالی کی دی ہوئی نعمتوں پر اکتفا نہیں کر تا اسی لیے پریشان اور سر گرداں رہتا ہے۔ مقرر سے زیادہ طلب کر کے جہالت کا ثبوت دیتا ہے۔ اس لیے اسے بڑی شدت اور مشقت کا سامنا رہتا ہے۔ جس کی نہ انتہاء ہے اور نہ اختتام زندگی بھر ذلت ورسوائی اٹھانے کے بعد جب آنکھ بند ہوتی ہے کہ اعمال بد کی وجہ سے سخت سزا کا سامنا ہوتا ہے۔ جیسا کہ کہاگیا ہے۔ سب سے بڑی مصیبت دوسروں کی قسمت کے پیچھے سر گرداں رہتا ہے۔

لیکن جب نفس بلا و مصیبت میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اس کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح یہ مصیبت ختم ہو۔ کسی اور نعمت کی طرف اس کا دھیان ہی نہیں جاتا۔ وہ دنیا کی نعمتوں سے نابلد صرف اس مصیبت سے نجات کی تمنا کرتا رہتا ہے۔ مگر جب اسے مصیبت سے چھٹکارا مل جاتا ہے تو اس کی رعونت عود (واپس)کر آتی ہے۔ شرو فساد میں اور اطاعت و انقیاد (فرمانبرداری)سے اعراض میں بہت آگے نکل جاتا ہے۔ سر تا پا معصیت میں ڈوب جاتا ہے۔ گذشتہ آلام و مصائب اسے یاد ہی نہیں تھے۔ ہلاکت و بربادی جو اس پر نازل ہوئی تھی اسے بھول جاتا ہے۔ اللہ تعالی ان گناہوں اور نافرمانیوں کی وجہ سے اسے پھرسزادیتا ہے۔ پہلے سے زیادہ مصیبت اور تکلیف اٹھاتا ہے۔ 

تاکہ وہ گناہوں سے باز آجائے اور آئندہ معاصی سے اجتناب کرے۔ کیونکہ عافیت اور نعمت اسے راس نہیں آتی اس لیے بلاء اور مصیبت کے ذریعے اس کی حفاظت کی جاتی ہے۔ 

اگر فراخی اور عافیت کے دنوں میں ، وہ حسن ادب کا لحاظ رکھے۔ اطاعت و شکر اور صبر و رضا کو اختیار کرنے اور مقسوم پر اکتفا کرے تو اس کی دنیا و آخرت دنوں بہتر ہو جاتے ہیں۔ بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ اس پر لطف و کرم ہو تا ہے اور پہلے سے بہتر نعمتیں اسے عطا ہوتی ہیں۔ 

جو دنیا و آخرت میں سلامتی کا خواہاں ہے اسے چاہیئے کہ صبرو ر ضاسے کام لے۔ مخلوق سے شکوہ نہ کرے۔ اپنے رب کریم سے اپنی ضرورتوں کیلئے التجا کر تار ہے اور ہمیشہ اس کی اطاعت و فرمانبرداری پر کمر بستہ رہے۔ اور انتظار کرے کہ کب اللہ کریم مصائب و آلام سے نجات دیتا ہے۔ کب مصیبت کی کالی گھٹائیں چھٹتی ہیں۔ کیونکہ وہ کریم ہے۔ اس کے در کی غلامی کسی اور کی دریوزہ گری(بھیک مانگنا) اور غلامی سے بہتر ہے۔ اس کا محروم کر نا بھی عطا ہے۔ اس کی عقوبت نعمت ہے۔ اس کی بلا دوا ہے اس کا وعدہ جلد یابدیر پورا ہونے والا ہے۔ اس کا کہا بہر حال پورا ہو تا ہے۔ کیونکہ اس کا ارشاد پاک ہے۔ 

إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ(یٰسٓ:82) 

جب وہ کسی چیز کا ارادہ کر تا ہے تو صرف اتنا ہی ہے کہ وہ فرماتا ہے اس کو ہو جا۔ پس وہ ہو جاتی ہے ۔

اللہ تعالی کے تمام افعال اچھے ، حکمت اور مصلحت پر مبنی ہوتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض اوقات بندہ ان مصلحتوں اور حکمتوں سے نابلد ہو تا ہے۔ . بہر حال بنده مؤمن کیلئےمناسب اور بہتر یہ ہے کہ وہ صبر و تحمل سے کام لے۔ اس کی عبادت میں مشغول رہے۔ اوامر کو ادا کرے۔ نواہی سے اجتناب برتے۔ جو فیصلے وہ کریم کرے اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔ ربوبیت میں مشغول نہ ہو جو تقدیر کی علت بنیاد اور اصول ہے۔ کیوں، کیسے اور کب سے خاموشی اختیار کرے۔ اللہ تعالی کو اپنی تمام حرکات و سکنات میں تہمت نہ دے۔ 

ان تمام نصیحتوں کی بنیاد حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کی حدیث ہے۔ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺکے پیچھے سواری پر سوار تھا۔ آپ نے مجھ سے فرمایا اے بچے: 

احْفَظِ اللَّهَ يَحْفَظْكَ، احْفَظِ اللَّهَ تَجِدْهُ أَمَامَكَ، تَعَرَّفْ إِلَيْهِ فِي الرَّخَاءِ، يَعْرِفْكَ فِي الشِّدَّةِ، وَإِذَا سَأَلْتَ، فَاسْأَلِ اللَّهَ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ، فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ، قَدْ جَفَّ الْقَلَمُ بِمَا هُوَ كَائِنٌ، فَلَوْ أَنَّ الْخَلْقَ كُلَّهُمْ جَمِيعًا أَرَادُوا أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَكْتُبْهُ اللَّهُ عَلَيْكَ، لَمْ يَقْدِرُوا عَلَيْهِ، وَإِنْ أَرَادُوا أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَكْتُبْهُ اللَّهُ عَلَيْكَ، لَمْ يَقْدِرُوا عَلَيْهِ، وَاعْلَمْ أنَّ فِي الصَّبْرِ عَلَى مَا تَكْرَهُ خَيْرًا كَثِيرًا، وَأَنَّ النَّصْرَ مَعَ الصَّبْرِ، وَأَنَّ الْفَرَجَ مَعَ الْكَرْبِ، وَأَنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا

حقوق اللہ کی حفاظت و نگہداشت کر۔ اللہ تعالی تیری حفاظت فرمائے گا۔ اللہ کو حاضر و ناظر یقین کر تو اسے اپنے سامنے موجود پائے گا۔ جب سوال کرنا مقصود ہو تو اس سے سوال کر۔ احتیاج اور ضرورت ہو تواسی سے مدد مانگ جو کچھ ہوتا تھا اسے قلم لکھ کر خشک ہو چکی ہے۔ اگر تمام انسان کوشش کریں کہ تجھے وہ کچھ دیں جو تیرے مقدر میں نہیں تو ان کی کوششیں رائیگاں جائیں۔ اور اگر وہ تجھے کچھ نقصان دینا چاہیں جو تیری قسمت میں نہیں لکھا گیا تو درماندہ ہو جائیں۔ اگر یقین میں اللہ تعالی سے سچائی برت سکتا ہے تو سچائی برت۔ اگر استطاعت نہیں تو ایسی چیز پر صبر کر جو تجھےناپسند ہے بہت بہتر ہے۔ جان لے کہ اللہ کی مدد صبر کے ساتھ ہے۔ اور کشائش اور نجات مصیبت کے ساتھ ہے۔ اور تنگی کے بعد فراخی ہے ۔

ہر مومن کو چاہیئے کہ اس حدیث کو ہمیشہ دل کے آئینہ کے سامنے رکھے۔ اپنے شعار، کردار اور گفتار میں اس کا لحاظ رکھے۔ اپنی تمام حرکات و سکنات میں اس پر عمل پیرا ہو۔ تا کہ دنیاو آخرت میں سلامت رہے اور دار ین کی عزت پائے۔

جو کچھ مانگنا ہے اللہ تعالی سے مانگ

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ وارضاہ نے فرمایا : انسان اللہ کو چھوڑ کر کسی اور سے جب بھی سوال کرتا ہے تو محض جہالت ضعیف ایمان و یقین اور قلت صبر و عمل کی وجہ سے کرتا ہے۔ اور جب بھی غیر کی دریوزہ گری  (بھیک مانگنا) سےبچتا ہے تو معرفت خداوندی کے زیادہ ہونے ایمان یقین کے پختہ ہونے کی وجہ سے بچتا ہے۔ وہ اس لیے اس ذلت سے محفوظ رہتا ہے کہ لمحہ بہ لمحہ اس کو حاصل عرفان ذات الہی بڑ ھتا ہے اور اسے کریم سے حیاء میں اضاف ہو تا رہتا ہے۔

خوف اور رجا قربت خداوندی کی طرف پرواز کرنے کیلئے دو پر ہیں

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ فرمایا : عارف باللہ کا ہر سوال پورا نہیں کیا جاتا اور اس کا ہر وعدہ وفا نہیں ہوتا کہ کہیں خوف پر امید غالب نہ آجائے اور وہ تباہ و برباد ہو جائے۔ کیونکہ ہر حال اور ہر مقام کیلئے خوف اور رجا دونوں ضروری ہیں۔ ان کی حیثیت پر ندے کے دوپروں کی ہے۔ جب تک دونوں پر سلا مت نہ ہوں اور ان میں توازن نہ ہوپرندہ نہیں اڑ سکتا۔ ایمان ان دو کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ اسی طرح حال اور مقام کیلئے بھی خوف و رجاضروری ہے ہاں ہر ایک کیلئے خوف اور رجاء اس کے حسب حال ہو گی۔ 

عارف مقرب بارگاه الہی ہوتا ہے۔ اس کا حال اور مقام یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی کو چھوڑ کر کسی چیز کا ارادہ نہ کرے۔ نہ کسی کی طرف مائل ہو۔ نہ کسی اور سے مطمئن اور مانوس ہو۔ بندے کا یہ مطالبہ کہ میرا سوال پورا ہو۔ مجھ سے جو وعدہ کیا گیا ہے وہ ایفاءمناسب نہیں۔ کیونکہ بعض اوقات وہ ایک ایسی چیز کا طالب ہوتا ہے جو اس کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے اور اس کے حسب حال نہیں ہوتی۔ اس کے سوال کے پورانہ ہونے کی بنیادی طور پر دو وجہیں ہوتی ہیں۔ 

پہلی یہ کہ دعا قبول نہیں ہوتی تاکہ خوف پرر جاء اور امید غالب نہ آجائے اور انسان اللہ تعالی کی سزا سے بے خوف اور غافل نہ ہو جائے اور آداب خداوندی کا لحاظ نہ رکھ کر تباہ وبرباد نہ ہو جائے۔ 

دوسری وجہ یہ ہے کہ بندہ اسباب پر اعتقاد اور یقین رکھ کر کہیں انہیں اپنے رب کا شریک نہ بنالے۔ کیو نکہ انبیاء علیہم السلام کے علاوہ دنیامیں اور تو کوئی معصوم نہیں ہے۔ 

اللہ تعالی اپنے بندے کی دعا قبول نہیں کرتا اور وعدہ پورا نہیں فرماتا تاکہ وہ عادتا نہ مانگے اور نہ طبعا کسی چیز کا ارادہ کرے بلکہ اس کا سوال اور ارادہ اطاعت فرمانبرداری کی بناء پر ہو۔ کیونکہ عادتاً مانگنا اور طبعا ارادہ کرنا شرک ہے۔ اور شرک تمام مقامات ، احوال اور سلوک کے تمام مدارج میں گناہ کبیرہ ہے۔ 

بندہ جب اطاعت و انقیاد کی نیت سے سوال کرتا ہے تو اللہ تعالی اسے اپنے اور زیادہ قریب کر تا ہے۔ جس طرح نماز ، روزہ و غیرہ فرائض و نوافل سے قرب خداوندی میں اضافہ ہوتا ہے۔ کیونکہ ان احکام کی بجا آوری میں اطاعت خداوندی مقصود ہوتی ہے۔

 محبوب سے تعلق رکھنے والی ہر چیز محبوب ہوتی ہے

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ دار ضاه نے فرمایا : جان لیجیئے کہ انسان دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ جنہیں ابتلاو آزمائش ، آلام و مصائب سے دوچار رہنا پڑتا  ہے

منعم علیہ کی زندگی بھی تیرگی اورتکدر سے کلیتاً خالی نہیں ہوتی۔ وہ نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہا ہوتا ہے تو اچانک اسے مصیبتوں، بلاؤں  ، بیماریوں نفس مال، اولاد اور اہل و عیال کی پریشانیوں میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔ اس کی زندگی بوجھ بن جاتی ہے۔ اور راحت و سکون غارت ہو جاتا ہے۔ مصائب و آلام کے جھکڑ چلتے ہیں تو سب نعمتیں، راحتیں اور آسائشیں قصہ پارنیہ بن جاتی ہیں۔ جب مال و دولت کی فراوانی ہوتی ہے۔ حشم وخدام حاضر باش ہوتے ہیں ، دشمن سے ہر طرح کا امن و سکون ہو تا ہے تو وہ سوچتا ہے کہ دنیاراحت و سکون کا گھر ہے۔ اس میں دکھ اور پریشانی کا وجود ہی نہیں لیکن جب دردو آلام گھیر لیتے ہیں۔ پریشانیوں میں مبتلا ہوتا ہے تو اسے یوں لگتا ہے گویادنیادار المحن ہے۔ یہاں نعمت کا نام و نشان تک نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ الله تعالی کی معرفت سے محروم ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ مالک حقیقی جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ دنیا تغیر پذیر ہے۔ کبھی دھوپ، کبھی چھاؤں۔ کبھی شیرینی اورکبھی تلخی۔ وہ اس حقیقت سے ناواقف ہوتا ہے کہ تونگر اور درویش بنانا اس کا کام ہے۔ وہی بلندی و پستی، عزت وذلت زندگی اور موت۔ تقدیم و تاخیر کا مالک ہے۔ اگر وہ اس حقیقت سے واقف ہوتا تو فانی اور تغیر پذیر دنیا سے دل نہ لگاتا۔ کبھی ان سے فریفتگی اور دلبستگی کا اظہار نہ کرتا۔ نہ حالت ابتلاء میں فراخی سے مایوس ہو تا اور نہ حالت تو نگری میں غافل اور جرات مند ہو تا۔ چونکہ وہ دنیا کی بے ثباتی سے ناواقف ہے اس لیے اس کا گرویدہ ہے۔ اور دائمی بےتکدر زندگی کا طالب ہے۔ وہ یہ بات بھول گیا ہے کہ دنیا غم و اندوه، تکلیفوں اور پریشانیوں کا گھر ہے۔ یہ سر تا سربلا اور اس کی نعمتیں عارضی ہیں۔ اس کی مثال صبر کے درخت جیسی ہے۔ جس کا میوہ پہلے ترش ہوتا ہے لیکن بعد میں شہد کی طرح میٹھا جاتا ہے۔ اور انسان حلاوت حاصل کر ہی نہیں سکتاجب تک ترشی کا گھونٹ پی نہ لے۔ شہد کھانے کیلئے زہریلی مکھیوں کے ڈنگ پر صبر کرنا پڑتا ہے۔ 

جو دنیا کی مصیبتوں پر صبر کر تا ہے اس پر اللہ تعالی کی نعمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ کیونکہ مزدور کو مزدوری صرف اس وقت دی جاتی ہے جب اس کی پیشانی عرق آلود ہوتی ہے۔ جسم تھک کر چور ہو جاتا ہے۔ روح میں کرب اور سینے میں تنگی محسوس کرتا ہے۔ طاقت جواب دے جاتی ہے۔ ابنائے جنس کی خدمت کی ذلت اٹھاتا ہے اور محنت و مشقت سے کمر دوہری ہو جاتی ہے۔

دنیاولین تلخ ہے۔ جیسے شہد کا چھتا۔ وہ اوپر سے تلخ ہو تا ہے۔ اس تلخی اور ترشی پر صبر کیے بغیر شہد کی مٹھاس ہاتھ نہیں لگتی۔ بندہ مومن جب تک امرونہی کی تلخیوں کو خندہ پیشانی سے قبول نہیں کرتا۔ خدائی فیصلوں کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرتا۔ اپنا آپ اللہ تعالی کے حوالے نہیں کر دیتا۔ تکالیف کو برداشت نہیں کرتا۔ خواہشات اور جھوٹی تمنائیں ترک نہیں کرتا۔ اس وقت تک نعمتہائے خداوندی اور غلبہ وارجمندی کا مستحق نہیں بن سکتا۔ اور جوان تلخیوں کوبرداشت کرتا ہے، عیش وطرب، نازونعم ، اور دولت و ثروت سے مالا مال ہوتا ہے۔ ایک شیر خوار بچے کی مانند اسے اپنی ضروریات کیلئے خود تگ و دو نہیں کرنا پڑتی غیب سے اس کی کفالت کے سامان ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالی اپنے اس بندے کو بے منت غیر اپنی نعمتوں سے نواز تا ہے خود اس کی نگہداشت فرماتا ہے۔ عاقبت بد سے بچاتا ہے اور چھتے کی تلخی برداشت کرنے والے کی طرح اسے اپنی نعمتوں سے حظ وافر عطا کر تا ہے۔ 

منعم علیہ کو چاہیئے کہ اللہ تعالی کی تدبیر اور استدراج سے غافل نہ رہے دولت دنیا پر غرور نہ کرے۔ دنیاوی نعمتوں کو پائیدار نہ سمجھے۔ شکر سے غافل نہ ہو کہ سب نعمتیں چھن جائیں۔ نعمت گویا شکار ہے جس پر قابو پانے کیلئے شکر ضروری ہے۔ نبی کریم کا ارشاد ہے۔ 

النعم وحشية؛ ‌فقيدوها بالشكرنعمت دشت کاوحشی جانور ہے اسے شکر کے ذریعے شکار کرو“ 

نعمت اگر دولت و ثروت کی صورت میں ہو تو شکر یہ ہے کہ انسان والی نعمت اور فضل و احسان کے مالک خدائے بزرگ و برتر کی وحدانیت کا اقرار کرے تمام حالات، قلت و کثرت، قبض و بسط اور جمع و تفرقہ میں تحدیث نعمت کرے اور اس حقیقت پر یقین رکھے کہ مولائے کریم اپنے فضل و کرم میں اور اضافہ فرمائے گا۔ اللہ تعالی کی عطا کردہ ان نعمتوں پر ملکیت نہ جتلائے۔ مالی حقوق و فرائض کو پس پشت نہ ڈالے۔ احکام خداوندی کی پاسداری کرے یعنی زکوة گناہوں کا کفارہ ، نذر و نیاز، صدقہ، غرباء کی مدد ضرورت مندوں کی اعانت مصیبت زدوں کی خبر گیری جیسے دوسروں کے حقوق کا خیال رکھے جبکہ احوال تبدیل ہو جائیں اور حسنات سیئات میں بدل جائیں لیکن کشائش و فراخی کی جگہ غربت و افلاس لے لے اور لوگ مشکلات کا شکار ہوں تو ان کی خبر گیری کرے۔ 

اگر نعمت اعضائے جسمانی کی تندرستی کی صورت میں ہو تو اس کے شکر کی صورت یہ ہے کہ انسان اعضائے جسمانی کو اللہ تعالی کی اطاعت و فرمانبرداری میں صرف کرے۔ اپنے آپ کو حرام چیزوں اور گناہ کے کاموں سے بچائے۔ نافرمانیوں اور معصیت شعاریوں سے دور رہے شکر نعمتوں کے چھن جانے اور ہاتھ سے چلے جانے کے لئے قید ہے گویا شکر پانی ہے اور نعمت درخت ہے۔ اور یہ پانی اس کی شاخوں اور بچوں کی نمی کو بر قرار رکھ سکتا ہے۔ اس سے اس پر پھولوں کی زیبائش ہے۔ ذائقہ کی حلاوت ہے اور اسی پانی کی وجہ سے درخت سلامت ہے۔ نعمت کے اس درخت کی گٹھلی میں جو لذت ہے۔ چبانے میں جو سہولت ہے وہ سب اسی شکر کے پانی کی وجہ سے ہے۔ اس درخت کا پھل تندرستی کا ضامن اور جسم کی نشو و نما کاذریعہ ہے۔ پھر شکر کی وجہ سے انسان کے تمام جوارح  میں برکت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ اطاعت و فرمانبرداری ذکر و اذ کار اور عبادت و ریاضت میں مشغول ہو جاتا ہے۔ شکر ہی کی وجہ سے انسان آخرت میں جنت النعیم میں داخل ہو تا ہے اور اسی کی بدولت انبیاء و صدیقین ، شہداء و صالحین کی معیت حاصل کر تا 

ہے۔ اور یہی لوگ بہترین دوست ہیں۔ اگر انسان ان نعمتوں پر شکر بجا نہ لائے اورمال و دولت کی کثرت، دنیا کی زیب و زینت پر اترانے لگے۔ اس سے دھوکہ کھا جائے۔ اس سراب کی چکا چوند سے ،بجلی کی اس چکا چوند سے دولت کے سانپ اور بچھووں کی نرم ملائم جلد کی خوبصورتی سے مفتون ہو جائے۔ اس زہر قاتل سے آنکھیں بند کرلے۔ اس کے مکر و فریب دام تزویر سے غافل وبے خبر ہو جائے تو اسے بربادی۔ فقر وفاقہ دنیا میں ذلت ورسوائی اور آخرت میں عذاب جہنم کا مژدہ سنادو۔ 

رہا وہ آدمی جو مبتلاۓ بلا و مصیبت ہے۔ توکبھی مصیبت کسی جرم اور معصیت کی عقوبت و سزا ہوتی ہے اورکبھی خطاو لغزش کے لیے ذریعہ بخشش ایک تیسری وجہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندے کو مصیبت میں مبتلا کر کے آخرت میں اعلی درجات اور بلند روحانی مناصب پر فائز فرماتا ہے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ میرا بنده احوال و مقامات کے حامل اولی العلم بندوں کے مقام تک رسائی حاصل کرے اور میرے خصوصی لطف و کرم کا مستحق ٹھہرے اور یہ بھی ان لوگوں میں شامل ہو جائیں جن پر رب ارض و سماء کی خصوصی عنایت ہو چکی ہیں اور جنہیں ان کے مولانے مصائب و آلام کے میدانوں میں اپنے لطف و کرم کی سواریوں پر سوار کر کے سیر کرائی ہے اور حرکات و سکنات میں اپنی نگہداشت میں رکھ کر اور لطف و کرم فرما کر انہیں راحت و آسائش بخشی۔ ایسے لوگوں کو مبتلائے مصیبت اس لیے نہیں کیا جاتا کہ وہ ہلاک ہو جائیں اور دوزخ میں پڑےسڑتےر ہیں۔ بلکہ مصائب و آزمائش کے ذریعے اللہ انہیں بزرگی عطا فرماتا ہے اور انہیں درجات عالیہ سے نواز تا ہے۔ ان کے ایمان کی حقیقت کو عیاں کر تا ہے۔ انہیں شرک ، دعاوی(دعوے) اور نفاق جیسی روحانی آلائش سے پاک و صاف فرماتا ہے۔ ان مصائب کی بھٹی میں ڈال کر انہیں کندن بناتا ہے اور پھر اسرار و علوم اور انوار و تجلیات سے ان کے سینوں کو مالامال کر تا ہے۔ جب ان کا ظاہر اور باطن صاف و شفاف اور اجلے ہو جاتے ہیں تو انہیں دنیا و آخرت میں اپنا مقرب بارگاه حاضر باش اور جلیس و ہم نشین بنا لیتا ہے۔ یعنی  دنیامیں دلی قرب بخشتا ہے اور آخرت میں جسمانی نبی کریم کاارشادگرامی ہے۔ الفقراء الصبر جلساء الرحمن يوم القيامة، صابر فقیر قیامت کے دن اللہ کے ہم نشین ہو گئے“ 

اللہ تعالی اپنے بندے کو مصائب و آلام میں مبتلا کر کے ان کے دلوں سے میل کچیل دور کرتا ہے۔ انہیں شرک، تعلق باللہ، اسباب پر بھر وسے، جھوٹی آرزوؤں، اور ارادوں سے پاک و صاف فرماتا ہے۔ مصائب د عاوی اور خواہشات نفسانی کے لیے بھٹی کا کام دیتے ہیں کہ سب غش و غل جل کر سونا اپنے اصل رنگ میں سامنے آجاتا ہے۔ انہی مصائب کے ذریعے انسان کے اندر سے یہ خرابی دور ہو جاتی ہے کہ وہ اللہ تعالی کی اطاعت محض اس لیے کرے کے اسے بلند درجات ، اعلى منازل اور آخرت میں جنت الفردوس کے ابدی نعمتیں میسر ہوں۔ 

رہا یہ مسئلہ کہ یہ کیونکر معلوم ہو کہ یہ مصیبت گناہوں کی سزا ہے۔ خطاؤوں کی بخشش کا ذریعہ ہے یابلندی درجات کا سبب ہے تو جب بندہ مصیبت پر صبر نہیں کر رہا۔ لوگوں کے سامنے اللہ تعالی کا شکوہ کر رہا ہے تو سمجھ لو کہ اسے گناہوں اور اللہ کی نافرمانیوں کی سزادی جارہی ہے۔اگر وہ مصائب و آلام کو صبر سے برداشت کر رہا ہے۔ شکوہ و شکایت کی زبان دراز نہیں کر رہا۔ دوستوں اور پڑوسیوں کے سامنے مصائب کارونا نہیں رورہا اور احکام خداوندی کی ادائیگی اور فرمانبرداری سے ملول نہیں ہوا تو سمجھ لودردو آلام کفارہ سیئات ہیں۔ اللہ تعالی اپنے بندے کو اس دنیامیں تکلیف دیکر خطاؤں سے اسے پاک کرنا چاہتا ہے۔ 

اگر مبتلائے مصیبت تسلیم ورضا کا پیکر ہے۔ ارض و سماء کے خالق اور اللہ کے فعل سے وہ طمانیت اور سکون محسوس کر رہا ہے اور آزمائش میں اپنے آپ کو فنا کر دیا ہے یہاں تک کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مصیبت دور ہو جائے اور اطاعت پر کمر بستہ ہے تو سمجھ لو کہ اسے اعلی درجات عطا کرنے کے لیے مصائب سے دوچار کیا گیا ہے۔

اللہ کویاد کر کہ یاد خداوندی تمام غموں سے نجات کا ذریعہ ہے

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاه نے فرمایا کہ 

رسول کریم ﷺکی بیان کردہ حدیث قدسی ہے۔

 ‌مَنْ ‌شَغَلَهُ ‌ذِكْرِي عَنْ مَسْأَلَتِي أَعْطَيْتُهُ فَوْقَ مَا أُعْطِي السَّائِلِينَ ” جسے میرےذکر نے مجھ سے کچھ مانگنے سے روک دیا۔ میں اسے مانگنے والوں سے بہتر عطا کروں گا“ 

اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالی جب کسی بندے کو اپنانا چاہتا ہے اور اسے کسی بلند مقام پر فائز کرنے کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے ایک حالت سے دوسری حالت کی راہ پر چلاتا ہے۔ اسے طرح طرح کی مشقتوں، مصیبتوں اور بلاؤں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ غنی کے بعد اس پر فقر مسلط ہو تا ہے اور وہ بتقا ضائے بشری لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ لیکن اللہ تعالی اس پر یہ دروازہ بند کر دیتا ہے اور اسے دریوزہ گری  (بھیک مانگنا) کی لعنت سے محفوظ فرمالیتا ہے۔ پھر اسے مجبور کر تا ہے کہ وہ لوگوں سے قرض لے پھر قرض لینے سے بھی اسےبچالیتا ہے۔ اور کسب کی راہ پر ڈال کر اس کیلئے اس راہ کو آسان کر دیتا ہے۔ وہ اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتا ہے جو کہ سنت طریقہ ہے پھر اس کیلئے کسب کو مشکل بنادیتا ہے اور یہ بات اس کے دل میں ڈال دیتا ہے کہ وہ لوگوں سے سوال کرے ۔ بذریعہ الہام یہ حکم دے کر بندے کیلئے دوسروں سے سوال کرنے کو عبادت اور اس کے ترک کو معصیت بنادیتا ہے۔ مخلوق سے سوال کرانے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس طریقے سے خواہشات زائل ہو جائیں اور نفس کی سرکشی ختم ہو جائے۔ یہ در حقیقت مرحلہ ریاضت میں ہے۔ اور اس مرحلے میں مخلوق سے سوال کرنا شرک نہیں بلکہ بندے کو یہ بتانا مقصود ہے کہ جو کچھ ہوتا ہے باذن الہی ہو تا ہے۔ پھر اللہ تعالی اپنے بندے کی حالت تبدیل فرمادیتا ہے اور اسے سوال کرنے سے بچالیتا ہے اور اسے حکم دیتا ہے (الہام کر تا ہے) کہ لوگوں سے قرض لے۔ اس امر باطنی کوبنده جانتا ہے۔ وہ آگاہ ہو تا ہے کہ یہ وسوسہ نہیں بلکہ حکم خداوندی ہے اس لیے ناممکن ہے کہ بندہ اس حکم کی خلاف ورزی کرے۔ جس طرح پہلے وہ مانگنے پر مجبور تھا اب قرض لینے پر مجبور ہوتا ہے پھر اللہ تعالی اسے قرض سے بھی بچا لیتا ہے اور اس کے ساری ضرورتوں کی خود کفالت کر تا ہے۔ بندہ دعا کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کی دعا قبول کرتا ہے۔ اگر دعا نہ کرے تو محروم رہتا ہے۔ پھر اسے اس حالت سے بہتر حالت کی طرف لے جاتا ہے۔ بند ہ بزبان قال سوال نہیں کرتا بلکہ دل کی زبان سے اپنی ضرورتوں کیلئے سوال کرتا ہے جب بھی بندوں کی زبان سے سوال کرتا ہے اس کی دعا قبول ہوتی ہے لیکن زبان قال سے کچھ مانگے تو محروم رہتا ہے اسی طرح مخلوق سے کچھ مانگے تو مخلوق اعراض برتتی ہے اور وہ محروم رہتا ہے۔ 

پھر اللہ تعالی اسے اس سےبھی غنی کر دیتا ہے۔ وہ ہر قسم کے سوال ظاہری و باطنی سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اور اس کی ساری ضرور تیں اللہ تعالی بن مانگے پوری فرماتا ہے۔ کھانا، پینا، لباس اور دوسری تمام بشری ضرورتوں کیلئے نہ اسے سوچناپڑتا ہے اور نہ محنت کرنا پڑتی ہے۔ سب ضرورتیں خود خود پوری ہوتی جاتی ہیں۔ اللہ تعالی بندے کا کار سازبن جاتا ہے اور اس کی کی ضرورت نہیں رہتی جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے۔

 إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ الَّذِي نَزَّلَ الْكِتَابَ وَهُوَ يَتَوَلَّى الصَّالِحِينَ یقینا میرا حمایتی اللہ ہے جس نے اتاری یہ کتاب ۔ اور وہ حمایت کیا کر تا ہے نیک بندوں کی“۔ 

 پس اس وقت اللہ تعالی کا یہ ارشاد متحقق ہوتا ہے۔ کہ جس کو میری یاد نے میری بارگاہ میں سوال کرنے سے مشغول رکھا میں اسے مانگنے والوں کو جو دیتا ہوں اس سے بہتر عطا کروں گا“۔ 

یہی  حالت فنا ہے جو اولیاء اور ابدال کے احوال کی غایت ہے پھرکبھی امور تکوینیہ بندے کے سپرد ہو جاتے ہیں اور وہ باذن خداوندی کلمہ کن سے جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اللہ کریم کا کسی آسمانی کتاب میں ارشاد گرامی ہے۔ اے ابن آدم میں اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں۔ میں کسی چیز کو کہتا ہوں ہو جا وہ ہو جاتی ہے۔ میری اطاعت کر۔ میں تمہیں وہ مر تبہ دونگا کہ جب تو کسی چیز کے بارے کہے گا ہو جا تو وہ ہو جائے گی۔ 

ہوس پرستی سے اجتناب لازم ہے

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وار دام نے فرمایا : 

خواب میں ایک بوڑھے شخص نے مجھ سے پوچھا۔ کوئی چیز بندے کو حق تعالی کے قریب کرتی ہے۔ میں نے جواب دیا کہ اس کی ایک ابتداء ہے اور ایک انتہاء اس کی ابتداء زہد وورع ہے جبکہ انتہا، تسلیم ورضا اور توکل ہے۔ 

سوچ اچھی ہو تو عمل کیلئے رہنمائی ملتی ہے

حضرت شیخ رضی اللہ تعالی عنہ دار ضاہ نے فرمایا : مومن کو چاہیئے کہ پہلے وہ فرائض کی ادائیگی میں مشغول ہو۔ جب فرائض کی ادائیگی سے سبکدوش ہو جائے تو پھر نوافل اور مستحبات کی فکر کرے ۔ جب تک اس پر عائد فرائض کی ادائیگی مکمل نہیں ہوتی اس کا سنن میں مشغول ہونا حماقت اور رعونت ہے اگر وہ فرائض کو چھوڑ کر سنن ونوافل میں مشغول ہوا تو یہ بھی مقبول نہیں ہونگے اور اس کی اہانت ہوگی۔ 

اس کی مثال اس آدمی کی کیا ہے جسے بادشاہ اپنی خدمت کا حکم دیتا ہے اور وہ شخص بادشاہ کی خد مت چھوڑ کر بادشاہ کے غلام کی خدمت میں جت جاتا ہے۔ یقیناً بادشاہ اس سے ناراض ہو گا کیونکہ اس نے اس کے خادم اور زیردست کی خدمت کو ترجیح دی۔ 

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے۔ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: 

إن مصل النوافل وعليه فريضة كمل إمرأة حملت فلما دنا نفاسها أسقطت ولاهى ذات حمل ولاهي ذات ولد. كذالك المصلى لايقبل الله له نافلة حتى يؤدى الفريضة 

فرض چھوڑ کر نوافل ادا کرنے والا اس حاملہ عورت کی مانند ہے جس کی مدت ولادت قریب آئے تو اس کا حمل ساقط ہو جائے۔ نہ وہ حاملہ شمار ہو اور نہ ہی بچے کی ماں۔ اسی طرح جب تک نمازی فرائض ادا نہیں کرتا اس کی نفلی عبادت بارگاہ خداوندی میں قبول نہیں ہوتی۔

 نمازی کی مثال تاجر کی ہے کہ جب تک وہ راس المال حاصل نہیں کر لینا نفع حاصل نہیں کر سکتا۔ 

اس طرح جو شخص سنت چھوڑ کر ان نوافل کی ادائیگی میں مشغول ہو جاتا ہے جن کی ادائیگی فرائض پر مرتب نہیں ہوتی۔ اور نہ انہیں چھوڑنے سے فرائض میں نقص آتا ہے اور نہ انہیں ادا کرنے کا تاکیدی حکم دیا گیا ہے تو اس کے نوافل قبول نہیں ہوتے۔ 

حرام اور شرک باللہ کر ترک کرنا۔ خدائی فیصلوں پر اعتراض نہ کرنا۔ مخلوق کی فرمانبرداری اور اطاعت سے اجتناب کرناور اللہ تعالی کے حکم اور اس کی اطاعت سے روگردانی کارویہ چھوڑ دینا فرض ہے۔ نبی کریم کا ارشاد گرامی ہے۔ 

لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي ‌مَعْصِيَةِ ‌الْخَالِقِخالق کی نافرمانی کر کے مخلوق کی فرمانبرداری کا کوئی جواز نہیں“ 

عاشق کی آنکھ کا سرمہ صرف بیداری ہے

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ ارشاد فرماتے ہیں۔ میں نے بیداری پر جو ہوشیاری کا موجب ہے نیند کو ترجیح دی اس نے نہایت ہی ناقص چیز کا انتخاب کیا۔ یوں سمجھیے کہ اس نے موت کا انتخاب کیا۔ اور تمام مصالح پر غفلت کو ترجیح دی۔ کیونکہ نیند موت کے مترادف ہے اس لیے اللہ تعالی سبحانہ نیند کے نقص سے پاک ہے۔ ملا ئکہ جو بارگاہ خداوندی کے حاضر باش ہیں وہ نیند سے پاک ہیں۔ اہل جنت جو بلند ترین مناصب ، پاک و نفیس اور بڑے رہنے والے مقام پر فائز ہوتے ہیں اس لیے انہیں بھی نیند سے پاک کر دیا گیا ہے۔ کیونکہ نیند نقص ہے۔ اور جنتی نقائص سے پاک و منزہ ہیں۔ 

ساری بھلائیاں بیداری میں ہیں۔ اور تمام شر نیند اور غفلت میں ہے۔ جس نے خواہش نفس کی تکمیل کی۔ زیادہ کھایا، زیادہ پیا اور پڑا سو تار ہاوہ بہت نادم ہوا اور بھلائی اس کے ہاتھ سے چھن گئی۔ جس نے حرام سے تھوڑا سا کھالیاده اس شخص کی مانند ہے جس نے خواہش نفس کے زیر اثر بہت کھایا۔ کیونکہ حرام ایمان کیلئے حجاب ہے اور باطن کیلئے تاریکی ہے۔ مثلا شراب عقل کو تاریک کر دیتی ہے اور اسے ڈھانپ لیتی ہے۔ پس جب ایمان ظلمت میں چلا گیا تو نہ نماز رہی نہ عبادت اور نہ ہی اخلاص کا وجود باقی رہا۔ 

مگروہ جس نے زیادہ کھایا مگر اللہ تعالی کےحکم سے تو وہ تھوڑا کھانے والے کی طرح ہے اور چاہتا ہے کہ عبادت میں نشاط و قوت حاصل رہے۔ حلال نور على نور ہے۔ اور حرام ظلمت ہی ظلمت حرام میں خیر کا کوئی پہلو نہیں۔ علم الہی کے بغیر ہوائے نفسانی کے زیر اثر حلال کا زیادہ کھانا یا حرام کھا لینا نیند کا موجب بنتا ہے اور نیند میں کوئی بھلائی نہیں۔

ہر شخص اپنے محبوب کا قرب چاہتا ہے

حضرت شیخ رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے فرمایا : الله تعالی سے تیرے تعلق کی صرف دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ تو اللہ تعالی سے غائب اور بعید ہو اور دوسرے یہ کہ تو اللہ تعالی سے واصل اور قریب ہو۔ 

اگر تو اللہ تعالی سے غائب اور دور ہے تو سوچ کہ آخر کیوں تو قرب حق کی نعمت سے محروم ہے۔ کیوں تجھے دائمی عزت،ابدی نعمت اور کفایت کبری حاصل نہیں۔ اور کیوں تواتنی بڑی نعمتوں کو حاصل کرنے میں سستی اور کاہلی کر رہا ہے کیوں تو دنیا و آخرت کی سلامتی، غنی اور بے دریغ نعمتوں کو حاصل کرنے سے غافل بیٹھا ہے۔ 

اٹھ اور اپنے دونوں پیروں کے ساتھ اس کی طرف محو پرواز ہو۔یعنی ایک تو حرام اور مباح لذات و شہوات اور راحتوں کو ترک کر دے اور دوسرے مصائب و آلام کو برداشت کر۔ دنیاو آخری کی آرزؤں، تمناؤں اور خواہشوں کو چھوڑ کر مخلوق سے قطع تعلقی اور عزت کی راہ اختیار کر اور اسی راہ پر اس وقت تک کار بند رہے جب تک اللہ کا قرب اور وصال حاصل نہیں ہو جاتا۔ : اللہ تعالی کا قرب اور وصال پا لیا تو گویا تیری ساری تمنائیں پوری ہو گئیں۔ اورا بدی بزرگی و کمال عزت حاصل ہو گئی۔ اور اگر تو مقربین بار گاہ اور خدا رسیدہ لوگوں میں سے ہے۔ یعنی وہ جو عنایت ربانی کے دریافتہ اور رعایت خداوندی کے نگہداشتہ ہیں۔ جنہیں جذبہ محبت نے اپنا بنا لیا ہے اور رحمت و رافت پروردگار نے پالیا ہے تو در گاه ربو بیت کے آداب کا خیال رکھ اور اس نعمت و حالت پر مغرور نہ ہو کہ کہیں حقوق خداوندی کی ادائیگی میں کوتاہی ہو جائے اور عبادت الہی میں غفلت کا شکارٹھہرے ۔ کہیں ایسانہ ہو کہ جہالت ، ظلم اورعجلت جیسی بشری کمزوریوں کی طرف مائل ہو کر سوئے ادبی کا مرتکب ٹھہرے۔ اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے۔ 

وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًااور اٹھالیااس کو انسان نے۔ بیشک یہ ظلوم بھی اور جہول بھی‘ 

وَكَانَ الْإِنْسَانُ عَجُولًا اور حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑ اجلدباز  واقع ہوا ہے“ 

اپنے دل کی حفاظت کر۔ ایسانہ ہو کہ تو پھر سے مخلوق، حرص وہوا۔ جھوٹی آرزؤں ، ارادوں ، اختیار اور تدبیر کی طرف مائل ہو جائے جسے تو چھوڑ چکا ہے اور مصائب و آلام پر بے صبری کرنے لگے اورفعل خداوندی پر موافقت اور رضا کو چھوڑ دے۔ اپنے آپ کو اللہ تعالی کے لیے سپرد کر دے جس طرح کہ چوگان کی بال گھڑ سوار کے سامنے بے اختیار ہوتی ہے وہ اسے جس سمت چاہتا ہے لے جاتا ہے۔ میت غسال کے ہاتھوں میں یا شیر خوار بچہ دایہ اور اپنی ماں کی جھولی میں بے حس و حرکت پڑا ہو تا ہے۔ غیر اللہ سے آنکھیں بند کر لے۔ تیری نظروں میں غیر کا وجود ہی نہ رہے۔ نہ وہ نفع و نقصان کا مالک ہو اور نہ منع و عطا کا مختار۔ مصائب و آلام کے وقت ساری مخلوق کو اللہ تعالی کی لا ٹھی خیال کر کہ یہ ضربات لاٹھی کے اختیار سے نہیں بلکہ اللہ کریم کے اختیار سے لگ رہی ہیں ۔ اور نعمت و عطا کے وقت خلق کو قدرت کا ہاتھ یقین کر کہ یہ لقمہ تجھے اس کے کرم سے مل رہا ہے نہ کہ مخلوق کی مہربانی سے۔ 

زہد ظاہر دنیا کا کمال اور باطن میں آخرت کا شرف ہے

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنه و ارضاه نے فرمایا : زاہد کو ترک دنیا لذت ہائے دنیاپر دو مرتبہ ثواب ملتا ہے۔ 

ایک تو اس وقت جب وہ دنیا کو ترک کر تا ہے۔ اور دنیا کی کسی چیز کو اپنی خواہش اور ارادے سے حاصل نہیں کرتا بلکہ اس کو صرف اللہ تعالی کے حکم کی اطاعت میں قبول کرتا ہے۔ پس جب وہ اپنے نفس کا دشمن بن جاتا ہے اور خواہش نفس کی مخالفت کرتا ہے تو اہل تحقیق اور ابل ولایت میں شمار ہونے لگتاہے۔ اور ابدال وعار فین کے زمرے میں شامل ہو جاتا ہے۔ ایسے میں اسے اخذ دنیا کا حکم ملتا ہے ۔ اور اس پر دنیاوی نعمتوں سے لطف اندوز ہونا لازم ہو جاتا ہے۔ کیونکہ بارگاہ خداوندی سے دنیا کی نعمتیں اس کی قسمت ٹھہرتی ہیں اور بندے پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ ان سے محظوظ ہو۔ کیونکہ کسی دوسرے کاان پر حق نہیں رہتا۔ اب اس کے بر عکس ہو ناممکن نہیں۔ کیونکہ قلم نے جو لکھنا تھا وہ لکھ چکی اور اللہ کریم کے علم سابق میں بندے کا حصہ اس کے لیے مقرر ہو چکا ہے۔ 

پس بندہ اللہ تعالی کے حکم کی بجا آوری کرتے ہوئے دنیا کی نعمتوں کو قبول کر تا ہے ا سے یہ علم دیا جاتا ہے اور وہ تقدیر کے ہاتھوں مجبور ان نعمتوں سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ وہ یہ سب کچھ اپنی خواہش اور ارادے سے نہیں کرتابلکہ فعل خداوندی اس میں جاری ہو تا ہے اس لیے اسے دگنا ثواب ملتا ہے۔ کیونکہ یا تو وہ اللہ کے علم کی پیروی کر رہا ہو تا ہے۔ یا فعل خداوندی کی موافقت کر رہا ہوتا ہے جو بندے میں جاری و ساری ہے۔

اگر کوئی یہ سوال کرے کہ اس آدمی کو دگنا ثواب کیسے مل سکتا ہے حالانکہ بقول آپ کے وہ بلند ترین مقام پر فائز ہے۔ اس کا شمار ابدال وعار فین میں ہوتا ہے۔ جن کے اندر فعل خداوند ی جاری و ساری ہے۔ جو خلق، ہوا وہوس اور ارادے، تمنادوں۔ آرزؤوں اور نیک اعمال پر کسی معاوضے سے فانی ہیں۔ جن کی نظر میں سب عبادتیں ساری اطاعتیں محض اللہ عزوجل کا فضل و کرم ، اس کی رحمت اور توفیق ہے۔ اور وہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ اللہ تعالی کے بندے ہیں اور بندہ اپنے آقا پر کوئی حق نہیں رکھتا۔ کیونکہ بندہ اپنی تمام حرکات و سکنات میں اور اپنے ہر عمل میں اپنے مالک کی ملکیت ہوتا ہے۔ ایسے شخص کے بارے یہ کہنا کیونکر صحیح ہو سکتا ہے کہ اس کو ثواب ملتا ہے حالانکہ وہ اپنے فعل پر کسی ثواب اور معاوضے کا طالب نہیں۔ اس کی اپنے عمل پر نظر ہی نہیں۔ بلکہ وہ اپنے آپ کو کار خلائق اور اعمال سے تہی دست خیال کرتا ہے؟

تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ کسی حد تک تو یہ صحیح ہے کہ بندہ کسی ثواب کا مستحق نہیں مگر اللہ تعالی کریم ہے وہ اپنے فضل و کرم سے بندے کو اپنا قرب بخشتا ہے۔ اسے نعمتوں سے نوازتا ہے۔ خود ہی اس کی تربیت فرماتا ہے اور لطف و کرم اور رحمت ورافت کرتے ہوئے اس کی نگہداشت کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ بندہ دنیاوی حا جتوں اور نفسانی مصلحتوں سے ہاتھ روک لیتا ہے اور آخرت کی نعمتوں کا طالب بن جاتا ہے اور شیر خوار بچے کی طرح اپنی ضروریات کے لیے تگ و دو نہیں کرتا اور دفع شر میں اپنی ذات پر بھروسہ نہیں کر تا تو اللہ تعالی محض اپنے فضل سے اس کی تمام ضرورتوں کو پورا کر تا ہے۔ اور جس طرح مخلوق کے دل میں اپنے اس بندے کی محبت ڈال دیتا ہے۔ ہر شخص اس پر مہربان ہو جاتا ہے۔ اس سے رافت و ر حمت کا سلوک کرتا ہے اس کی بھلائی کا خواہاں ہو تا ہے۔ 

اسی طرح دنیا کی ہر فانی چیز کو اللہ تعالی کے امر اور فعل کے بغیر حرکت نہیں ہوتی۔ اللہ کریم دنیا و آخرت میں اپنے بندے کو نواز تا ہے۔ اس سے تمام تکالیف کو اپنے فضل و کرم سے دور کر تا ہے۔ اور یہ سب بلا استحقاق محض فضل خداوندی سے ہو تا ہے۔ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ 

إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ الَّذِي نَزَّلَ الْكِتَابَ وَهُوَ يَتَوَلَّى الصَّالِحِينَ یقینا میرا حمایتی اللہ ہے جس نے اتاری یہ کتاب ۔ اور وہ حمایت کیا کر تا ہے نیک بندوں کی“۔ 

اسکانہ دینا عطا اور اس کی ابتلاء رحمت ہے

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاه نے فرمایا : الله تعالی اہل ایمان میں سے اپنے محبوب بندوں اولیاء و عارفین کو مصائب و آلام سے دوچار کر تا ہے تا کہ یہ لوگ اس کی بارگاہ میں دست سوال دراز کریں اور وہ کریم پروردگار ان کی دعاؤوں کو شرف قبولیت بخشے۔ پس جب یہ لوگ اللہ تعالی کی بارگاہ میں سوال کرتے ہیں تو اللہ تعالی ان کی دعا کی قبولیت کو پسند فرماتا ہے تاکہ صفت جودو کرم کو ان کا حق عطا کرے کیونکہ جب بنده مؤ من اللہ تعالی سے سوال کرتا ہے تو یہ دونوں صفتیں مطالبہ کرتی ہیں کہ ان کی دعا قبول ہو۔کبھی ایسا بھی ہو تا ہے کہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں اہل اللہ سوال کرتے ہیں لیکن فوری طور پر اس کی مقبولیت کا اندازہ نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ عدم قبولیت اور محرومی نہیں بلکہ تقدیر ایزدی اسے کسی دوسرے وقت کے لیے مخصوص کر چکی ہے۔ اس لیے مصیبت کے وقت بندے کو آداب خداوندی کا لحاظ رکھنا چاہیئے۔ اور اپنے گناہوں پر نظر رکھنی چاہیئے کہ کہیں ظاہر میں یاباطن میں اس سے کوئی خطا سرزد نہ ہو جائے۔ اور امر خداوندی کو ترک نہ کر بیٹھے اور اس سے مناہی کا ارتکاب نہ ہو جائے۔ اسے خیال رکھنا چاہیئے کہ اللہ تعالی کے فیصلے کے خلاف کوئی سوال نہ کر بیٹھے۔ کیونکہ بندہ اپنے گناہوں کے باعث مبتلائے مصیبت ہو تا ہے۔ پس اسے چاہیئے کہ دعا کرے۔ اگر مصیبت سے نجات مل جائے تو بہت اچھا ورنہ اس کی بارگاہ میں دست دعا دراز کیے رکھے کیونکہ ممکن ہے یہ مصیبت محض اس لیے ہو کہ بندہ اس کی بارگاہ میں سوال کرتا رہے۔ اگر دعا کی قبولیت میں تاخیر ہو جائے تو اس کو الزام نہیں دینا چاہیئے جیسا کہ ہم نے بالتفصیل بیان کیا ہے۔

اللہ تعالی کا شکر یہی بہتر ہے

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے فرمایا : اللہ تعالی سے مانگو کہ وہ تمہیں اپنے فیصلے پر سر تسلیم خم کرنے اور اپنے فعل میں فنا ہونے کی توفیق بخش دے۔ کیونکہ یہی سب سے بڑی راحت اور جنت عالیہ ہے جو فورا اس دنیا میں بندے کو عطا کر دی جاتی ہے۔ یہی درگاه خداوندی کا سب سے بڑادر وازہ اور بندہ مومن سے اللہ تعالی کی محبت کا ذریعہ ہے۔ پس جسے اللہ تعالی محبوب رکھتا ہے اسے دنیاو آخرت میں عذاب نہیں دیتا۔تسلیم ورضاہی میں قرب و وصال الہی ہے اس سے اطمینان کی دولت ملتی ہے۔ خواہشات نفس کی طلب میں مشغول نہ ہو جائے جو چیز تمہاری قسمت میں نہیں یا قسمت میں لکھی جا چکی ہے اس کے لیے سرگردان نہ پھرو۔ کیونکہ جو مقدر میں ہے ہی نہیں اس کی طلب میں سر گرداں رہنا حماقت رعونت اور جہالت ہے۔ جو چیز قسمت میں نہیں اس کی تلاش میں سرگردانی سب سے بڑی سزا ہے۔ اور جو چیز مقدر میں ہے اس کے لیے تگ و دو محض حرص وہوا اور عبودیت، محبت اور حقیقت میں شرک ہے۔ کیونکہ غیر اللہ میں مشغولیت شرک ہے۔ دنیاکا طالب اللہ کی محبت اور دوستی میں سچا نہیں ہو تا۔ کیونکہ محبوب کے ہوتے ہوئے جو کسی غیر کی سنگت اختیار کر تا ہے کذاب ہے۔ اپنے عمل پر معاوضہ طلب کرنے والا بھی مخلص نہیں۔ 

مخلص بندہ صرف وہ ہے جو اللہ تعالی کی عبادت صرف اس نیت سے کرتا ہے کہ ربوبیت کا حق ادا ہو جائے۔ اور اس خیال سے۔ کہ رب العزت مالک حقیقی ہے اور بندے کی عبادت اس کا حق ہے کیونکہ وہ جانتا ہے اللہ عزوجل اس کا مالک ہے وہ اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی اطاعت و فرمانبرداری کی جائے اور حق بندگی ادا کیا جائے۔ بندے کی ہر چیز ، اس کی حرکات و سکنات ، اس کے کسب و کمال حتی کہ بندہ خود اور اس کے پاس جو کچھ ہے اللہ تعالی کی ملکیت ہے۔ جیسا کہ ہم کئی مقامات پر بیان کر چکے ہیں کہ بندے کی تمام عبادات اللہ کے فضل و کرم اور توفیق سے ہیں اگر وہ قوت و طاقت عطانہ کرتا توبندہ ان عبادات کو کیسےبجالا سکتا تھا۔ پس اس کریم کا شکر کرنا دنیوی و اخروی عوض وجزاء سے زیادہ بہتر اولی ہے۔ تعجب ہے تو حظوظ دنیامیں مشغول ہے حالانکہ تو دیکھ رہا ہے کہ خلق کثیر کو جوں جوں حظوظ دیناو لذت ہائے دنیا زیادہ ملتے ہیں۔ جوں جوں دنیا کی نعمتیں اور دولت زیادہ ملتی ہے وہ اللہ رب العزت پر زیادہ ناراض ہوتے جاتے ہیں۔ ان کی بے آرامی اور بے چینی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ جوں جوں نعمتیں بڑھتی ہیں توں توں کفران نعمت میں اضافہ ہو تا ہے۔ ادھر دولت میں اضافہ ہوا اور ادھر 

هموم و غموم کے بادل گہرے ہو گئے ۔ جس قدر دولت دنیا اکٹھی ہوئی اسی قدر دوسروں کے مقدر کو حاصل کرنے کا حرص بڑھ گیا۔ دنیا دار سب کچھ ہونے کے باوجود اپنے آپ کو حقیر اور چھوٹے خیال کرتے ہیں اور ان کے پاس جو کچھ ہے اسے بے وقعت سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دنیا کی ساری دولت ان کی تجوریوں میں جمع ہو جائے۔ ان کے خیال میں دوسروں کی دولت زیادہ ہے۔ اسی لیے وہ دوسروں سے مرعوب ہوتے ہیں اور احساس محرومی انہیں پریشان رکھتا ہے۔ اسی لیے وہ دوسروں کے مقدر میں لکھے مال و دولت کے خواہاں ہوتے ہیں اور اسے حاصل کرنے میں اپنی عمریں ضائع کر دیتے ہیں۔ ان کی تمام بدنی استعداد میں دنیا کے ایندھن کو جمع کرنے میں صرف ہوتی ہیں۔ وہ ایک راستہ پر سرپٹ دوڑتے رہتے ہیں حتی کہ عمر تمام ہو جاتی ہے اور مال برے کاموں میں خرچ ہو جاتا ہے۔ دنیا کماتے کھاتے ان کے جسم تھک کر چور ہو گئے۔ جبین عرق آلود اور نامہ اعمال سیاہ ہو جاتے ہیں۔ گناہوں کی کثرت ہو جاتی ہے۔ مال کی طلب میں کبائر کا ارتکاب ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالی کے احکام کی پیروی کی سعادت سے محروم رہتے ہیں اور مفلس وبے نوا خالی ہاتھوں دنیا سے کوچ کرتے ہیں۔ نہ دنیا کی زیب و زینت سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں اور نہ ہی آخرت کی ابدی نعمتوں سے کچھ حصہ پاتے ہیں۔ دنیا بھی گئی اور آخرت بھی ہاتھ نہیں آتی۔ اللہ تعالی کی عبادت کر کے اس کے لکھے پر شکر نہ کیا اور دوسروں کی قسمت کے نوشتے سے بھی محروم خسیس رہے۔ یہی لوگ پوری مخلوق میں سب سے زیادہ جاہل ، احمق اور عقل و بصیرت سے محروم حسیس اور کمینے ہیں۔ اگر یہ اللہ تعالی کے فیصلے پر راضی رہتے۔ اللہ کی عطاپر قناعت کرتے اور اپنے مالک کی اطاعت و فرمانبرداری میں لگے رہتے توبے منت غیر بڑی آسانی سے اپنا مقصود پا لیتے اور جب دنیا سے دار آخرت کو جاتے تو بامراد اور کامیاب ہوتے۔ . 

اللہ تعالی ہمیں اور آپ سب کو صبر ورضا کی توفیق دے۔ ہم اس کی رضا کے طالب رہیں۔ اس سے حفظ و امان طلب کریں اور نیک کاموں کی توفیق چاہیں جن سے وہ راضی اور خوش ہو۔

اس کی طرف سفر کر کے وہاں وہ نعمتیں ہیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھی ہیں اور نہ کسی کان نے ان کے بارے سناہے:

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وار ضاہ نے فرمایا جو آخرت کا ارادہ رکھتا ہے اس پر لازم ہے کہ دنیا میں زہد اختیار کرے۔ اور جس کا مقصود اللہ تعالی ہے اس پر لازم ہے کہ وہ آخرت سے بھی قطع تعلقی برتے۔ وہ دنیا و آخرت کیلئے اور پھر آخرت کو اپنے رب کیلئے چھوڑ دے۔ 

جب تک اس کے دل میں دنیا کی شہوتوں اور لذتوں سے ایک لذت و شہوت بھی پائی جارہی ہے یا دنیا کی راتوں میں سے کوئی ایک راحت پائی جارہی ہے وہ حقیقی زاہد نہیں ہو سکتا۔ مثلا کھانے پینے ، لباس ، نکاح رہائش سواری، ولایت وریاست ، اور دوسرے علوم و فنون مثلا فقہ لیکن اس قدر کہ عبادات خمسہ کی ادائیگی ہو سکے ، روایت حدیث ، مختلف روایتوں سے قرأت قرآن۔ علم نحو، لغت ، فصاحت و بلاغت۔ زوال فقر ووجود غنی کا علم ۔ بلیات کے جانے اور عافیت کے آنے سے متعلقہ علم ۔ ان کے علاوہ سے نقصان سے بچنے اور نفع حاصل کرنے سے متعلق علم ان تمام لذت ہائے دنیا سے جب تک اپنے دل کو خالی نہیں کر لیتا اللہ تعالی کاطالب کہلوانے کا مستحق نہیں بن سکتا۔ کیونکہ ان تمام چیزوں سے نفس لذت محسوس کرتا ہے۔ انسان کی طبیعت ان سے موافقت اختیار کرتی ہے۔ طبعا اسے ان چیزوں سے راحت ملتی ہے۔ وہ ان میں اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ ان تمام کا تعلق دنیا سے ہے۔ انسان چاہتا ہے کہ یہ چیزیں ہمیشہ اسے میسر رہیں۔ وہ ان سے سکون اور طمانیت محسوس کرتا ہے۔ 

زاہد کو چاہیئے کہ وہ ان تمام چیزوں کا خیال دل سے نکال پھینکنے کی کوشش کرے اور نفس کو مائل کرے کہ وہ ان چیزوں کا ازالہ کرے عد م اور افلاس و فقر دائمی پر راضی رہے۔ اور دل میں ذرا برابر بھی دنیا کی خواہش باقی نہ رہے تا کہ وہ واقعی زاہد فی الدنیا کے مرتبے پر فائز ہو جائے۔ 

اگر وہ واقعی زاہد بن جائے گا تو دل غم واندوہ سے خالی ہو جائے گا اور اس کا باطن ہر قسم کی تکلیف سے محفوظ ٹھہرے گا۔ اسے پھر دنیا کی لذتوں سے کوئی تعلق خاطر نہیں رہے گا وہ صرف اللہ عزوجل سے مانوس ہو گا اور صرف اسی سے راحت و سکون محسوس کرے گا۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺکا ارشاد گرامی ہے۔ 

إِنَّ الزُّهْدَ فِي الدُّنْيَا ‌يُرِيحُ ‌الْقَلْبَ وَالْبَدَنَدنیا میں زہد قلب و جاں کیلئے باعث راحت ہے ۔

جب تک دل میں دنیا کی کوئی بھی خواہش ہے حزن و ملال اور خوف و ہراس سے مفر نہیں۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ دل میں دنیابسی ہو اور انسان ذلیل و خوار نہ ہو۔ یہ حجاب اکبر ہے۔ دنیا کی محبت قرب الہی سے مانع ہے۔ یہ ایسادبیز پردہ ہے جب تک اس کو ہٹایا نہیں جاتا الله تعالی کاوصال ممکن نہیں ہو سکتا۔ اور اس حجاب کے سرکنے کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ دنیا کی محبت کامل طور پر زائل ہو جائے اور سارے علائق ناپید ہو جائیں۔ 

پھر آخرت میں زہد کی باری آتی ہے۔ انسان کیلئے ضروری ہے کہ وہ در جات ، منازل عالیہ ، حور و قصور۔ مراکب وبساتین۔ بہترین گھر اور خوبصورت پاکیزہ خدام، خلعتیں اور زیورات کھانے پینے کی چیزیں اور دوسری کئی نعمتیں جواللہ تعالی نے اپنے ایماندار بندوں کے لیے تیار کر رکھی ہیں۔ انسان اپنے عمل پر کسی قسم کی جزا اور اجر کا طالب نہ ہو۔ نہ دنیامیں کسی صلہ کا خواہاں ہو اور نہ آخرت میں پس ایسے میں بندہ مو من اللہ تعالی کو پالیتا ہے۔ تب اللہ تعالی اپنے بندے پر رحم و کرم فرماتے ہوئے اسے پورا پورا اجر عطا فرماتا ہے۔ اپنا قرب و وصال بخشتا ہے۔ نظر التفات سے نوازتا ہے۔ اور انواع و اقسام کی نعمتوں سے مالا مال کر تا ہے جیسا کہ پروردگار عالم کی عادت ہے کہ اپنے رسولوں، نبیوں ولیوں ۔ دوستوں اور دین متین کے عالموں کو نوازتا ہے۔ پس بنده مؤ من اللہ تعالی کے علم سے پوری زندگی روحانی طور پر ترقی کرتا رہتا ہے اور روز بروز اس کی نعمتوں میں اضافہ ہو تا رہتا ہے۔ پھر اسے دار آخرت کی طرف منتقل کیا جاتا ہے تو وہاں وہ ایسی نعمتیں پاتا ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھی ہے۔ نہ کسی کان نے سنی ہیں اور نہ کسی انسان کے دل میں کھٹکی ہیں۔ ان نعمتوں کو سمجھنے سے عقلیں قاصر ہیں اور ان کی تعریف سے قلم درماندہ ہیں۔

اپنے نفس کو چھوڑ دے اور میری جناب میں حاضر ہو جا

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وار ضاہ نے فرمایا : حظوظ نفس کا ترک تین مرحلوں میں تکمیل پذیر ہو تا ہے۔ 

پہلا مرحلہ تو یہ ہے کہ بندہ اپنی طبیعت کے تاریک راستہ پر چل رہا ہو تا ہے۔ وہ ہاتھ پاؤں مارتا ہے لیکن کوئی راہ سجھائی نہیں دیتا۔ ہر کام طبیعت کے اقتضاء کے مطابق سرانجام دیتا ہے۔ اس کے سامنے نہ الله تعالی کی بندگی ہوتی ہے اور نہ کوئی دوسری حد جواے بھٹکنے سےبچالے۔ سرگردانی اور بے راہ روی کے عالم میں اللہ کریم اس پر نظر رحمت فرماتا ہے اور اپنے محبوب بندوں میں سے کسی کو اس کی رہنمائی کیلئے بھیج  دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس پر دوسرا کرم یہ ہوتا ہے کہ ضمیر اور وجدان کی صورت میں دوسرا واعظ اس کی رہنمائی کیلئے مامور ہو جاتا ہے۔ مرشد اور وجدان اسے راہ مستقیم پر چلنے میں مدد دیتے ہیں۔ نفس اور طبیعت کے خلاف اس کی مدد کرتے ہیں اور اس پر یہ بات عیاں کرتے ہیں کہ نفس کی موافقت اور شریعت کی مخالفت عیب ہے یوں بند ہ اپنے تمام تصرفات میں شریعت کی پابندی کرنے لگتا ہے اور اللہ تعالی کا فرمانبردار بندہ بن جاتا ہے۔ شریعت کے ساتھ قائم طبیعت سے فانی وہ دنیا کی حرام، مشتبہ اور خلق کے احسانات کو ترک کر دیتا ہے۔ اپنے کھانے پینے ، لباس، گھر ، نکاح اور دوسری تمام ضرورتوں میں شریعت کی حلال اور حق کے مباحات کو حاصل کر تا ہے اور وہ بھی اتنے کہ ان سے روح و جسم کا تعلق باقی رہے۔ اللہ تعالی کی اطاعت کی قوت حاصل رہے اور اپنے مقدر کو پالے اور اس سے تجاوز نہ کرے۔ 

دنیا کو حاصل کرنے ، اس سے لطف اندوز ہونے اور اس کو پورا کرنے سے پہلے دنیا سے کوچ کرنے کا کوئی راستہ نہیں۔ پس بنده مومن تمام احوال میں شریعت کی حلال اور مباح کردہ سواری پر سوار ہو کر آستانہ ولایت تک پہنچتا ہے اور اولیاء محققین میں جو خاصان بارگاه ، اہل عزیمت اور حق تعالی کے طالب ہوتے ہیں شمار ہوتا ہے۔ پس بنده اسی کےحکم سے کھاتا ہے۔ اور اس مقام پر گروہ حق تعالی کی طرف سے ایک ندا سنتا ہے جو اس کے باطن سے اٹھ رہی ہوتی ہے۔ اپنے نفس کو چھوڑ کر میری بارگاہ میں آجا اگر تو خالق کا طلبگار ہے تو حظوظ دنیا اور خلق کو ترک کر دے۔ دنیا و آخرت کے جوتے اتار پھینک۔ 

کائنات و موجودات سے خالی ہو جا۔ سب تمنائیں اور آرزوئیں ترک کر دے۔ ہر چیز سے قطع تعلقی کر لے۔ ہر ایک سے فانی ہو جابیگانگی حق اور ترک شرک سے خوشحال ہو جا اپنے آپ کوسچے ارادے سے آراستہ کر لے۔ پھر سر جھکائے حضور باری میں داخل ہو۔ نہ دائیں یعنی آخرت کی طرف دیکھ اور نہ بائیں یعنی دنیا کی طرف ملتفت ہو۔ نہ خلق سے تعلق رکھ اور نہ حظوظ دنیاسے سروکار۔ 

جب بندہ اس مقام پر فائز ہو جاتا ہے اور اسے قرب حق کا شرف حاصل ہو جاتا ہے تو حق تعالی کی طرف سے اسے خلعتیں ارزانی ہوتی ہیں ۔ بارگاه رب العزت سے اسے طرح طرح کے علوم و معارف ملتے ہیں اور نوع بنوع فضل و کرم اسے ڈھانپ لیتے ہیں۔ اسےحکم ملتا ہے ۔ اللہ کے فضل و نعمت سے لطف اندوز ہو۔ اور اسے رد کر کے اور انہیں ٹھکرا کر سوئے ادبی کا مرتکب نہ ہو۔ کیونکہ بادشاہ کے عطیے کو رد کر ناباد شاہ کی تحقیر اور اس کی بارگاہ کے استخفاف کے مترادف ہے۔ پس بندہ مؤمن اس مقام پر اللہ کی عطا کو قبول کر تا ہے مگر دنیا کی ان نعمتوں کو دل نہیں دیتا۔ جبکہ اس سے پہلے وہ ان نعمتوں سے حرص وہوا کے زیر اثر لطف اندوز ہو تا تھا مگر اب امر باطنی کی پیروی کر تا ہے اور مقصود ذات حق تعالی کی ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ احوال کی تبدیلی کے باعث ہوا۔ جب مقام و مرتبہ میں تبدیلی آئی تو لقمہ بھی بدل گیا۔ لہذا حظوظ ولذتہائے دنیا کو قبول کرنے میں بندے کی چار حالتیں ہیں۔ 

پہلی حالت تو یہ ہے کہ دنیااور حظوظ دنیا کو اپنی طبیعت کے زیر اثر قبول کرتا ہے۔ اور یہ حرام ہے۔ دوسری حالت یہ ہے کہ شریعت کی پابندی کرتے ہوئے اسے قبول کرتا ہے۔ یہ حالت مباح اور حلال ہے۔ تیسری حالت امر باطنی سے قبول کرنے کی ہے اور یہ حالت ولایت اور ترک ہوا کی ہے۔ چوتھی حالت یہ ہے کہ انسان دنیا کی لذتوں کو اس کے فضل و کرم سے قبول کرے اور یہ وہ حالت ہے جس میں سب ارادے معدوم ہو جاتے ہیں اور انسان ابدال کے مقام کو حاصل کر لیتا ہے۔ اس حالت میں انسان کی مراد سوائے مولا کریم کے کچھ نہیں رہتی۔ اور وہ اللہ کی قدرت یعنی فعل باری تعالی کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے۔ یہ حالت علم ہے۔ یہاں پہنچ کر انسان صفت صلاح سے متصف ہو جاتا ہے۔ اور کسی بندے کو اس وقت تک صالح نہیں کہا جا سکتا جب تک وہ اس مقام کو واقعی حاصل نہیں کر لیتا۔یہی ارشاد ربانی ہے۔

 إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ الَّذِي نَزَّلَ الْكِتَابَ وَهُوَ يَتَوَلَّى الصَّالِحِينَ یقینا میرا حمایتی اللہ ہے جس نے اتاری یہ کتاب ۔ اور وہ حمایت کیا کر تا ہے نیک بندوں کی“۔ 

یہی وہ بندہ ہے جس کے ہاتھ کو مصالح و منافع ذاتیہ کو قبول کرنے اور مفاسد و مضارہ کو دفع کرنے سے روک دیا گیا۔ وہ اس شیر خوار کے بچے کی مانند ہے جودایہ کی جھولی میں اپنے نفع و نقصان سے بے پرواہ پڑا ہو تا ہے یا میت کی مانند جو غسال کے ہاتھوں میں بے اختیار و بے ارادہ ہے۔ یہ بندہ اپنا سب کچھ رب ذوالجلال کے سپرد کر چکا ہے۔ اس کی تربیت دست قدرت کے ہاتھوں ہو رہی ہے۔ وہ کوئی اختیار و ارادہ نہیں رکھتا۔کبھی وہ حالت بسط و کشاد میں ہوتا ہے اورکبھی حالت قبض میں۔ کبھی غنی ہو تا ہے اور کبھی فقیر۔ اسے کچھ اختیار نہیں۔ وہ کچھ بھی طلب نہیں رکھتا اور نہ کسی حالت کے زوال اور تغیر کی تمنارکھتا ہے۔ بلکہ ہمیشہ تسلیم و رضا کا پیکربنے اللہ تعالی کی مشیت کے سامنے سرنگوں رہتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جس پر اولیاء اور ابدال کے احوال کی انتہاء ہوتی ہے۔

اپنے دل سے ہوس نکال دے تاکہ تیرے پاؤں سے بیڑیاں کھل جائیں

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ و ارضاه نے فرمایا : جب بندہ مخلوق سے ، اپنے نفس سے، خواہش ارادے سے اور دنیا و آخرت کی آرزؤں و تمناؤں سے فانی ہو جاتا ہے اور صرف وہی چاہتا ہے جو اللہ تعالی چاہتا ہے۔ غیر کو دل سے نکال دیتا ہے توواصل بحق ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالی اسے اپنا لیتا ہے۔ اسے بزرگی عطا کر دیتا ہے۔ خود بھی اس سے محبت کرتا ہے اور مخلوق کو بھی مائل بکرم کر دیتا ہے۔ وہ اللہ تعالی کا ہمراز بن جاتا ہے۔ وہ اللہ تعالی کی معیت اور قربت کا طالب ہو جاتا ہے۔ سو وہ اس کے فضل سے متمتع ہو تا ہے اور اس کے انعامات سےحظ وافر حاصل کرتا ہے۔ اللہ کریم اپنے بندے پر رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے اور وعدہ فرما دیتا ہے کہ رحمت کے یہ دروازے اس پر کبھی بند نہیں ہونگے۔ وہ الله تعالی کے اختیار کے سامنے گردن جھکا دیتا ہے۔ اس کی مشیت سے چاہتا ہے۔ اس کی رضا سے راضی ہو تا ہے۔ اس کے حکم کی اطاعت کرتا ہے۔ اس کے نزدیک ماسواء اللہ کانہ وجود ہو تا ہے اور نہ کائنات میں کوئی اور فاعل۔ 

یہ وہ مقام ہے جہاں یہ جائز ہوتا ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندے سے وعدہ کرے پھر اس کے ایفاء کو بند ے کیلئے ظاہر نہ کرے اور اس تک وہ چیز نہ پہنچائے جس کا وہ گمان رکھتا ہو۔ کیونکہ جب بندے نے خواہش نفسانی ارادے اور حظوظ دنیاوی کو ترک کر دیا تو غیر یت نہ رہی ۔ بندے کے اندر فعل خداوندی جاری و ساری ہوا۔ اس کا ارادہ الله کا ارادہ ٹھہر ا، کیو نکہ اس کا مقصود و مطلوب اللہ تعالی کے علاوہ کوئی اور نہیں رہا۔لہذا وعدہ اور وعدہ خلافی کی نسبت ہی صحیح نہیں رہی ۔ کیونکہ یہ کسی خواہش کا مالک ہی نہیں رہا۔ اور نسبت کی صحت کیلئے تو خواہش کا مالک ہونا ضروری ہے۔ گویا اس کی مثال اس شخص کی ہے جس نے ارادہ کیا اور پھر خود ہی ارادہ بدل لیا۔ اسے بے وفا نہیں کہا جا سکتا یا اس کی مثال ناسخ و منسوخ کی ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ہے۔ 

مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌجو آیت ہم منسوخ کر دیتے ہیں یا فراموش کرادیتے ہیں تو لاتے ہیں دوسری بہتر اس سے یا کم از کم اس جیسی۔ کیا تجھے علم نہیں کہ اللہ تعالی سب کچھ کر سکتا ہے ۔

رسول خداﷺ کا قلب اطہر ہر قسم کی خواہش اور ارادہ سے خالی تھا سوائے ان دو واقعات جن کا ذکر قرآن میں ہے ایک بدر کے بعد امیروں کو فدیہ لیکر چھوڑنے کے بارے اور دوسرا ایک اور واقعہ۔ آپ اللہ تعالی کی مراد تھے اور اللہ تعالی کے محبوب تھے۔ آپ کو اللہ تعالی نے ایک حالت ، ایک چیز اور ایک وعدہ پر نہیں رکھا بلکہ انہیں اپنی تقدیر کی طرف منتقل فرمایا۔ اور عنان تقدیر کو آپ ﷺکی طرف چھوڑ دیا۔ آپ کو ایک حالت سے دوسری حالت میں اور ایک  حکم سے دوسرے حکم کی طرف پھیرا  اور آگاہ فرمایا کہ کیا جانتےنہیں کہ اللہ تعالی ہر شے پر قادر ہے۔ لیکن آپ بحر قدرت میں ہیں جس کی موجیں آپ کو ادھر سے ادھر لے جارہی ہیں۔ جہاں ولایت کی انتہاء ہے وہاں سے نبوت کی ابتداء ہوئی ہے۔ ولایت اور بدلیت کے بعد نبوت کے علاوہ اور کوئی مقام نہیں۔

قضاء غالب ہے اور موت طالب ہے

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ و ارضاه نے ارشاد فرمایا : جملہ احوال قبض ہیں۔ کیونکہ صاحب ولایت کو ان کی حفاظت کا حکم دیا جاتا ہے۔ اور یہ بات مسلمہ ہے کہ جس چیز کی حفاظت کا حکم دیا جائے وہ قبض شمار ہوتی ہے۔ اور تقدیر خداوندی کے ساتھ قیام بسط ہی بسط ہے کیونکہ اس میں کوئی ایسی چیز نہیں جس کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہو۔ ہاں تقدیر میں اس کا موجود ہونا الگ بات ہے۔ اگر ایسا ہو تو اسے تقدیر میں جھگڑا نہیں کرنا چاہیئے۔ بلکہ حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں وہ موافقت کرے ۔ احوال کے لیے ایک حد مقرر ہے اس لیے ان کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے جبکہ فعل الہی یعنی تقدیر غیر محدود ہے اس لیے اس کی حفاظت کا حکم نہیں دیا گیا۔ اور اس بات کی علامت کہ انسان قدر وفعل خداوندی میں داخل ہو گیا ہے یہ ہے کہ انسان کو حظوظ کا حکم دیا جاتا ہے جبکہ احوال میں بامر باطنی اسے ترک حظوظ اور زهد فی الدنیا کا حکم دیا گیا تھا۔ اب جبکہ اس کا باطن میں اللہ تعالی بس گیا ہے اور غیر کا وجود مٹ گیا ہے تو اسے بامر باطنی حکم دیا گیا ہے کہ حظوظ سے لطف اندوز ہو اور ان چیزوں کو طلب کرے جو اس کی قسمت کا نوشتہ ہیں اس لیے ان چیزوں کا حاصل کرنا اور سوال کر کے اس تک پہنچنا ضروری ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالی کے نزدیک اس کی عزت و تکریم محقق ہو چکی ہے اور اللہ تعالی اس کی دعائیں قبول کر کے اس پر لطف و کرم فرماتا ہے۔ 

بندے پر اللہ کریم کا احسان کرنا۔ اسے اعطاۓ حظوظ کیلئے سوالی بنانا اور پھر اس کی دعا کو قبول کرنا قبض کے بعد بسط کی بڑی علامتوں میں سے ایک ہے۔ اس سے انسان اندازہ کر سکتا ہے کہ اسے احوال، مقامات اور حفظ حدود میں مکلف ہونے سے نکال کربسط کے مقام پر فائز کر دیا گیا ہے۔ 

اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ اس سے تو تکلیف سے بری الذمہ ہونا لازم آتا ہے اور ایسا عقیدہ کفر ، اسلام سے خروج ہے اور آیت قرآنی وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ  کارد ہے تو کہا جائے گا کہ اس سے زوال تکلیف کفر اور آیت قرآنی کا رد لازم نہیں آتا۔ اللہ بڑا کریم ہے۔ اسے اپنے بندوں سے کمال محبت ہے۔ وہ انہیں نقص والی جگہ قدم رکھنے سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس سے دین اور عصمت کی خود نگہداشت کرتا ہے اس سے ایسا کوئی فعل صادر نہیں ہونے دیتا جو اس کی قائم کردہ شریعت کے خلاف ہو اور جس سے کفر لازم آتا ہے۔ بلکہ اسے قبیح فعل سے دور کر دیتا ہے۔ 

حظوظ نفسانی سے لطف اندوز ہونے کے باوجود اس سے کوئی لغزش نہیں ہوتی ۔ عصمت حاصل رہتی ہے اور بغیر تکلف و مشقت کے حدود شریعت کی پاسداری کرتا رہتا ہے۔ وہ قرب خداوندی کی وجہ سے لغزشوں اور معاصی سے دور رہتا ہے۔ رب قدوس کا ارشاد گرامی ہے۔ 

كَذَلِكَ ‌لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ 

یوں ہوا تا کہ ہم دور کر دیں یوسف سے برائی اور بے حیائی کو بیشک وہ ہمارے ان بندوں میں سے تھاجو چن لیے گئے ہیں ۔

إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ ‌سُلْطَانٌ بیشک میرے بندوں پر تیرا کوئی بس نہیں چلتا۔

 إِلَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَ البتہ اللہ کے مخلص بندے  اس عذاب سے محفوظ رہیں گے

اے مسکین ! وہ پروردگار کے سپرد ہو چکا ہے۔ اللہ کریم کا وہ مطلوب و مراد بن چکا ہے۔ پروردگار اپنی قدرت اور لطف و کرم کی جھولی میں اس کی تربیت فرما رہا ہے۔ بھلا اس تک شیطان کیسے پہنچ سکتا ہے۔ اور قبائح  و مکارہ کا اس سے کیسے ارتکاب ہو سکتا ہے ؟ تو نے کھانا پینا چھوڑا اور قرب خداوندی کو عظیم خیال کیا اور پھر اپنے منہ سے اتنی بری بات کہہ ڈالی۔ ایسی خسیس، اور ناقص ہمتوں، ناقص اور دور از کار عقلوں اور فاسد و خلل پذیر آراء پر تف ہے۔ اللہ تعالی ہمیں اور ہمارے بھائیوں کو اپنی قدرت کاملہ الطاف شاملہ اور رحمت واسعہ کے ذریعے تمام گمراہیوں سے پناہ عطا کرے۔ اور اپنے کرم کے پردوں میں ہمیں چھپائے اور اپنی بے پایاں نعمتوں اور دائمی فضائل سے اپنی مہربانی اور کرم سے ہماری تربیت کرے۔ آمین۔

مشکاۃ الہی کے بغیر دنیا میں دوسرا کوئی نور نہیں

 حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے فرمایا : ہر طرف سے آنکھیں بند کرلے اور کسی چیز کو نہ دیکھ۔ جب تک ہر جہت سے اندھا نہیں بن جاتافضل و قرب خداوندی کا دروازہ  وا نہیں ہو گا۔ نظرہ توحید اور کامل یقین کے ذریعے ہر طرف سے اپنی آنکھیں بند کر لے۔ اور اپنے نفس کو پھر اپنی فنا کو ، اپنے محو ہونے کو اور اپنے علم کو بھی فنا کر دے۔ ایسے میں تیرے دل کی آنکھ میں اللہ تبارک و تعالی کے فضل کی ایک جہت کھل جائے گی اور تو اس جہت کو اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھ سکے گا۔ کیونکہ تیرادل ، ایمان اور یقین جب روشن ہو جائیں گے تو تو انہیں دیکھنے لگے گا۔ تیرے باطن سے ایک نور پھوٹے گا جس کی روشنی ترے ظاہر کو بھی منور کر دے گی۔ جس طرح تاریک رات میں  کسی گھر میں شمع روشن کی جاتی ہے تو وہ روشنی روزن اور روشندان سے گھر کے باہر کو بھی روشن کر دیتی ہے۔ پس جب تیرے نور باطن سے تیرا ظاہر بھی روشن ہو جائے گا تو تیر انفس اور تیرے جوارح کو اللہ کے وعدہ اور اس کی عطائیت پر زیادہ یقین اور اطمینان حاصل ہو جائے گا۔ 

پس اپنے نفس پر رحم کر۔ دل پر ظلم مت ڈھا۔ دل و جان کو اپنی حیات اور رعونت کی تاریکیوں کے سپرد نہ کر۔ ایسا نہ ہو کہ تیری نظریں ہر طرف لگی ہوں۔ کبھی تو نفس کے افعال اور اس کے حیلوں کو دیکھ رہا ہو اور کبھی اپنی قوت و طاقت اور اسباب و آلات پر بھروسہ کر کے حقیقت سے آنکھیں موندے بیٹھا ہو ۔ اور پھر تو غیر کو سزا اور عذاب کا مالک بنائے اللہ تعالی کے فضل و کرم کی جہت سے آنکھیں بند کیے ہو جب تیری نظر صرف اور صرف اللہ تعالی کے فضل و کرم پر ہوئی اور تو غیر اللہ سے اندھابن گیا اور غیر سے آنکھیں بند کر کے اللہ کا ہو رہا تو وہ تجھے اپنا قرب اور معیت بخش دے گا۔ تجھ پر رحم کرے گا۔ تیری نگہداشت کرے گا۔تجھے کھلائے پلائے گا۔ عافیت بخشے گا۔ خود دکھوں میں تیری شفا کے اسباب مہیا کرے گا۔ تیری جھولی بھر کرتجھے غنی کر دے گا۔تجھے بصیرت بخشے گا۔ تجھے حکمرانی عطا کرے گا۔ پھر تجھے مخلوق سے اپنے نفس سے محوو فانی کر دے گا۔ اور اس کے بعد تو اپنے فقر اور غنی کو نہیں دیکھ پائے گا۔ 

شکر ہی کے ذریعے نعمتوں کی بارش ہوتی ہے

حضرت شیخ رضی اللہ تعالی عنہ وارضانے فرمایا تجھے دوحالتوں سے مفر نہیں۔ مصائب و آلام میں مبتلا ہو گایا نعمت و آسائش میسر ہو گی۔ اگر حالت مصیبت میں ہے تو تجھ سےبہ تکلف صبر کا مطالبہ کیا جائے گا۔ اور یہ ادنی درجہ ہے۔ اور (بلا تكلف) صبر اس سے اگلا درجہ ہے۔ اس کے بعد تسلیم ورضاکا درجہ ہے۔ پھر محوو فنا ہے۔ اور یہی آخری حالت ابدال وعار فین کی ہے جو اللہ کریم کی معرفت رکھتے ہیں۔ . اگر حالت نعمت میں ہے توتجھ سے شکر کا مطالبہ کیا جائے گا۔ اور شکر زبان، دل اور اعضاء جسمانی کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ 

شکر لسانی یہ ہے کہ انسان نعمتوں کا اعتراف کرے اور انہیں اللہ کی عطا یقین کرے۔ مخلوق کی طرف ان کی نسبت نہ کرے۔ نہ ہی اپنے نفس، اپنی قوت و طاقت اپنے کسب و کمال کا نتیجہ سمجھے۔ اور نہ ہی ان لوگوں کی عطاخیال کرے جن کے ہاتھوں یہ نعمت اسےپہنچ رہی ہے۔ کیونکہ تیری اور ان کی حیثیت اسباب و آلات کی ہے اور ان کا قاسم، جاری کرنے والا ، موجد، فاعل اور سبب الله عزوجل ہے۔ اور جب قاسم، جاری کرنے والا اور پیدا کرنے والا اللہ ہے تو وہی ہے کہ اس کا شکر ادا کیا جائے۔ 

اس غلام کو نہ دیکھے جو تحفہ اٹھا کر لا رہا ہے۔ بلکہ مالک کو دیکھے جس کے حکم اور عطا سے یہ تحفہ تجھے مل رہا ہے۔ 

جو لوگ ایسی نظر سے محروم ہیں اللہ تعالی ان کے بارے ارشاد فرماتا ہے۔

يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ ۔ وہ جانتے ہیں دنیوی زندگی کے ظاہری پہلو کو اور وہ آخرت سے بالکل غافل ہیں“ 

پس جو ظاہر پر نظر رکھتا ہے اور سب کو دیکھتا ہے مگر موجد اور مسبب کو نہیں دیکھتا وہ جاہل، ناقص اور قاصر العقل ہے۔ عاقل کو عاقل صرف اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ وہ عواقب پر نظر رکھتا ہے۔ 

دوسرا ہے شکر قلبی ۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان ہمیشہ یہ اعتقاد کامل اور نہ زائل ہونے والا یقین رکھنے کے سب ظاہری اور باطنی نعمتیں۔ منافع اور حرکات و سکنات میں پوشیدہ لذات اللہ تعالی کی طرف سے ہیں کسی غیر کی طرف سے نہیں ۔ شکرلسانی شکر قلبی کی تعبیر ہوتی ہے۔ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ 

وَمَا بِكُمْ مِنْ نِعْمَةٍ فَمِنَ اللَّهِ اور تمہارے پاس جتنی نعمتیں ہیں وہ تو الله تعالی کی دی ہوئی ہیں“ 

وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً اور تمام کردی ہیں اس نے تم پر ہر قسم کی نعمتیں ظاہر ی بھی اور باطنی بھی‘‘ 

وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَااور اگر تم شمار کرنا چاہواللہ تعالی کی نعمتوں کو تو تم انہیں گن نہیں سکو گے“ 

اللہ تعالی کے علاوہ بندہ مومن کے نزدیک کوئی دوسرا نعمت عطا کرنےوالا کوئی نہیں بچتا۔ 

تیسری صورت ہے شکر بالجوارح کی ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اعضاء جسمانی کو اللہ تعالی کی اطاعت و فرمانبرداری میں استعمال کیا جائے اور اس کی رضاکے مطابق انہیں حرکت دی جائے۔ ایسا کوئی کام نہ کیا جائے جس میں مخلوق کی فرمانبرداری اور خالق کی نافرمانی ہو۔ یہ چیز نفس، خواہش، ارادہ، تمناؤں اور تمام مخلوق کو عام ہے۔ اللہ عزوجل کی اطاعت و فرمانبرداری کو اصل ، قابل اتباع اور رہنمابنا لے اور باقی ہر چیز کو فرع، تابع اور تقلید کندہ سمجھے۔ اگر اس کے الٹ کیا توظالم، ستم شعار اللہ کا نافرمان ، مخلوق کے علم کا تابع اور نیک لوگوں کی راہ کو چھوڑ کر دوسری راہ پر چلنے والا ٹھہرے گا۔ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ 

وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ اور جو فیصلہ نہ کریں اس (کتاب)کے مطابق جسے نازل فرمایا اللہ نے تو وہی لوگ کافر ہیں۔

 وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ اور جو فیصلہ نہ کریں اس کتاب کے مطابق جسے اتارا اللہ 

نے تو وہی لوگ ظالم ہیں

وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ اور جو فیصلہ نہ کریں اس کے مطابق جسے اللہ تعالی نے اتارا ہے تو وہی لوگ فاسق ہیں“

 نافرمانی کی صورت میں تیرا ٹھکانا جہنم ہو گا جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں اور توجو ایک گھڑی کے لیے دنیا میں بخار کی شدت پر صبر نہیں کر سکتا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اہل جہنم کے ساتھ آگ میں صبر کیسے کرے گا۔ حالانکہ بخار کی گرمی دنیاوی آگ کا ایک کمزور ترین شرارہ کے سوا کچھ نہیں۔ 

جلدی کیجئے جلدی بچئے اور اپنی ذات کو اس گرداب بلاسے محفوظ کیجئے۔ اللہ کریم سے پناہ طلب کیجئے اور اس کی جناب سے امان مانگئے۔ 

دونوں حالتوں اور ان کی شروط کا خیال رکھئے۔ اپنی ساری عمر میں لامحالہ ان دو میں سے ایک حالت سے واسطہ ضرور رہے گا۔ یا مصیبت میں مبتلا ہو گا یا نعمت سے لطف اندوز 

ہر حالت کا حق ادا کر۔ مصیبت پر صبر کر اور نعمت پر شکر بجا لا جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا ہے۔ 

مصیبت میں کسی سے شکایت نہ کیجئے اور کسی انسان کے سامنے بے صبری کا اظہار نہ کیجئے اور نہ ہی دل میں اپنے رب کریم پر تہمت دھرئیے۔ 

اس کی حکمت اور اختیار کا شکوہ بے جا ہے۔ کیونکہ دنیاو آخرت میں یہی تیرے لیے بہتر ہے۔ عافیت کیلئے مخلوق کا دروازہ نہ کھٹکھٹا کیونکہ یہ شرک ہے اور اس کی بادشاہی میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ کوئی نہیں جو نفع و نقصان کا مالک ہو۔ کوئی نہیں جو مصیبت سے نجات دے اور کشائش عطا کرے۔ صحت و تندرستی اس کے ہاتھ میں ہے۔ وہی ہے جو آزمائش میں مبتلا کر تا ہے۔ ظاہر اور باطن میں مخلوق میں مشغول نہ ہو۔ کیونکہ مخلوق اللہ تعالی کے مقابلے میں کوئی فائدہ نہیں دے سکتی۔ تعلیم ورضااور صبر و موافقت کی راہ اختیار کر۔ اور اللہ تعالی کے فیصلے کے سامنے اپنے آپ کو فنا کر دے۔ ہر نعمت سے محرومی کی صورت میں بھی عجز و نیاز ضروری ہے۔ اس کی چوکھٹ پر سر نیاز جھکائے رکھ ۔ اس کی جناب میں آہ و زاری کیے جا اپنے گناہوں کا اعتراف کر اور اس کی کارستانیوں پر آنسوبہا۔ اپنے رب کی پاکی بیان کر۔ اس کی توحید اور نعمتوں کا اعتراف کر۔ اسے شرک سے پاک یقین کر۔ اور اس کی جناب میں عرض کر کہ وہ تجھے صبر ورضاو موافقت عطا کرے حتی کہ مصیبت کے دن اختتام کو پہنچیں۔ غم و اندوہ کی تاریکیاں چھٹ جائیں۔ کرب وبلا کی گھٹائیں ناپید ہو جائیں اور نعمت و کشائش، فرحت و سرور کی بارش برسے جیسا کہ اللہ تعالی کے نبی حضرت ایوب علیہ السلام کے حق میں ہوا۔ جب رات کی تاریکی چھٹتی ہے تو صبح کا اجالا پھیلتا ہے۔ سردیوں کی برودت صبح بہاری کا پیغام لاتی ہے۔ کیونکہ ہر چیز کی ضد ہے۔ ایک غایت اور انتہاء ہے۔ صبر کشائش و نعمت کی کلید، ابتداء ، انتہاء اور جمال ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے۔

الصَّبْرُ ‌مِنَ ‌الْإِيمَانِ بِمَنْزِلَةِ الرَّأْسِ مِنَ الْجَسَدِ صبر ایمان کیلئے ایسے ہی اہم  ہے جیسے جسم کے لیے سراہم ہے “

دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں۔ 

الصبر الايمان كلہ صبر پورا ایمان ہے“ 

حدیث نعمت بھی شکر کا ایک طریقہ ہے یہ نعمتیں تیری قسمت کا چونکہ نوشتہ ہیں اس لیے تجھ پر ضروری ہے کہ شکر کے طور پر توان سے لطف اندوز ہو۔ مگر یہ صرف حالت فنا اور زوال حرص و ہوامیں جائز ہے جبکہ ایک انسان سب کچھ اپنی حفاظت اپنے بارے سوچناللہ تعالی کے سپرد کر دیتا ہے۔ یہ حالت ابدال کی ہے اور یہی انتہاء ہے۔ 

جو کچھ میں نے بیان کیا ہے اسے ملحوظ خاطر رکھ انشاء اللہ رہنمائی پائے گا۔ 

تیری تمناؤوں کے پورا ہونے سے بہتر  ہے کہ اللہ تعالی کے فیصلے پورے ہوں

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے فرمایا : سلوک کی ابتداء یہ ہے کہ انسان معہود(قول و قرار کے موافق) و معتاد(مقررہ)اور طبیعت کو چھوڑ کر مشروع کو اپنائے پھر مشروع سے مقدور کی طرف آئے۔ پھر حدود کی حفاظت کرتے ہوئے معہود کی طرف لوٹے۔ اس طرح تومعہود یعنی کھانے، پینے، نکاح کرنے، آرام و آسائش، طبع و عادت کے چنگل سے نکل کر مشروع کے امر و نہی کی طرف آجائے گا اور کتاب و سنت رسولﷺ کی اطاعت کرنے لگے گا جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے

 وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا اور رسول کریمﷺ جو تمہیں عطا فرما دیں وہ لے لو اور جس سے تمہیں روکیں تورک جا ۔

قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ ۔ اے محبوب!) آپ فرمایئے انہیں کہ اگر تم واقعی محبت کرتے ہو اللہ سے تو میری پیروی کرو تب محبت فرمانے لگے گا تم سے اللہ“ 

شریعت مطہرہ کی پابندی کر کے تو ہوا وہوس اور نفس اور اس کی رعونت سے ظاہری اور باطنی ہر دو لحاظ سے فنا ہو جائے گا اور تیرے باطن میں سوائے توحید کچھ نہ ہو گا۔ اور تیرے ظاہر پر اللہ تعالی کی اطاعت و فرمانبرداری اور امرونہی کی مطابقت ، اس کی عبادت کے رنگ کے علاوہ اور کوئی رنگ نہیں ہو گا۔ پھر اللہ تعالی کی اطاعت و فرمانبرداری تیری عادت و شعار بن جائے گی۔ تیری حرکات و سکنات سے اتباع خداوندی کا رنگ جھلکے گا۔ سفروحضر ، شدت و رخوت، صحت و بیماری ہر حالت میں تو اللہ تعالی کی بندگی میں جتارہے گا۔ 

اس کے بعد تجھے تقدیر کی وادی کی سیر کرائی جائے گی۔ تجھ میں تقدیر کا تصرف ہو گا۔ اور تو محنت و کوشش، قوت و طاقت سے فانی ہو جائے گا۔ پھر تجھے اللہ تعالی اپنی نعمتوں سے نوازے گا جو تیرے مقدر میں لکھی جا چکی ہیں اور اللہ کریم کے علم میں ہیں۔ توان نعمتوں سے لطف اندوز ہو گا۔ اللہ تعالی کی حفاظت میں رہے گا یعنی حدود شرع کی خلاف ورزی سےتجھے محفوظ رکھا جائے گا۔ تیر اہر کام اللہ تعالی کے کام کے موافق بن جائے گا اور شریعت کے کسی اصول کی خلاف ورزی کا تجھ سے ارتکاب نہیں ہو گا۔ نہ تجھ سے کفر و الحاد کا صدور ہو گا۔ نہ حرام کو حلال سمجھنے کی غلطی ہو گی اور نہ ہی حکم خداوندی کی حقیقت کو سمجھنے میں کوتاہی ہو گی۔ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ 

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ بیشک ہم ہی نے اتارا ہے اس ذکر (قرآن مجيد) کو اور یقینا ہم ہی اس کے محافظ ہیں“ 

كَذَلِكَ ‌لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ 

یوں ہوا تا کہ ہم دور کر دیں یوسف سے برائی اور بے حیائی کو بیشک وہ ہمارے ان بندوں میں سے تھاجو چن لیے گئے ہیں ۔

وصال خداوندی تک تو اللہ کریم کی رحمت سے اس کی حفظ و امان میں رہے گا۔ یہ نعمتیں تیرا مقدر ہیں۔ یہ صرف تیرے لیے تیار کی گئی ہیں جب تک تو طبیعت کے صحراء ، ہو او ہوس اور معہود کے جنگلوں میں سرگرداں تھا۔ یہ نعمتیں تجھ سے روک دی گئیں کیونکہ معہودات طبع ایک بھاری بوجھ ہیں جن کو ساتھ لیکر راہ سلوک کی منازل طے نہیں ہو سکتیں۔ اس بوجھ کو تجھ سے دور کرنے کی وجہ یہ ہے کہ توہلکا ہو کر منزل کی طرف رواں ہو اور اس وجہ سے درماندگی کا شکار نہ ہو۔ کہ کہیں منزل مقصود اور مطلوب تک پہنچنے سے قاصر رہے۔ اور اس بوجھ کو اس وقت تک دور رکھنا ضروری ہے جب تک تو فنا کی چوکھٹ تک نہیں پہنچ جاتا۔ اور فنا کی دہلیز تقرب حق اور معرفت الہی سے عبارت ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کو اسرار و علوم لدنیہ سے خصوصی طور پر نوازا جاتا ہے۔ انوار کے سمندوں میں تیر تا ہے۔ یہاں نہ طبیعت کی علامتیں نقصان دے سکتی ہیں۔ اور نہ ہی یہ انوار کمزور پڑتے ہیں۔ ہاں نعمت دنیا کی ضرورت اس وقت تک رہتی ہے جب تک طبیعت باقی ہے اور جب تک جسم و روح کا تعلق باقی ہے طبیعت باقی ہے۔ کیونکہ طبیعت زائل ہو جائے تو انسان فرشتہ بن جائے نظام ہستی درہم برہم ہو جائے اور تخلیق انسانیت کا مقصد فوت ہو جائے۔ پس تیرے اندر طبع انسانی باقی رہتی ہے ،تاکہ تو لذات و حظوظ کو پورا پورا حاصل کر سکے۔ مقصود طبع انسانی کی بقا نہیں بلکہ وظائف بندگی بجالانے کے ذرائع کو باقی رکھنا مقصود ہے۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺکا ارشاد گرامی ہے۔ 

حُبِّبَ ‌إِلَيَّ مِنْ ‌دُنْيَاكُمُ النِّسَاءُ، وَالطِّيبُ، وَجُعِلَ ‌قُرَّةُ ‌عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ

تمہاری دنیا سے تین چیزیں میرے لیے پسندیدہ بنائی گئی ہیں۔ خوشبو، عورتیں اور میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے“ 

جب حضور انور دنیا سے فانی ہو گئے تو ان مقدور نعمتوں کو آپ کی طرف لوٹا دیا گیا جو پہلے محبوس تھیں۔ کیونکہ آپ اللہ تعالی کی قربتوں کے سفر میں تھے۔ پس تسلیم و رضا اور اطاعت و انقیاد کی وجہ سے سب نعمتیں آپ کو عطا کر دی گئیں۔ اللہ کریم کے اسماء پاک ہیں۔ اس کی رحمت عام ہے۔ اور اس کا فضل و کرم اپنے اولیاء و انبیاء کو شامل ہے۔ 

پس اس طرح اللہ تعالی کا دوست فنا کے بعد حظوظ ولذائذ سے لطف اندوز ہوتا ہے جو در حقیقت اس کے مقدر میں لکھی جا چکی ہوتی ہیں۔ اور اس منزل پر نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کے باوجو وہ حدود شریعت کی حفاظت کرتا ہے۔ اور یہی رجوع ہے انتہاء سے ابتداء کی طرف۔ 

ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے۔ اللہ کریم کی چراگاہ سے بچ

 حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ و ارضاه نے فرمایا : ہر صاحب ایمان اس بات کا مکلف ہے کہ جب اسے دنیاوی نعمتیں میسر آئیں تو وہ تحقیق و تفتیش کرے کہ آیا شریعت میں یہ مباح و مشروع ہیں یا حرام و غیر مشروع۔ اور دیکھے کہ کیا ان سے اس کا لطف اندوز ہوناصحیح ہے یا نہیں ۔ نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں۔

  المؤمن فتاش، والمنافق لقاف والمؤمن وقاب  

مومن ہر کام بڑی احتیاط سے کرنے والا ہو تا ہے اور منافق جلد باز ہوتا ہے۔ اور مومن ہر کام میں توقف کرنے والا ہو تا ہے۔

 حضور ﷺ کی ایک اور حدیث ہے۔ فرمایا : دَعْ ‌مَا ‌يَرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكَ

جو چیز تجھے شک میں ڈالے اسے چھوڑ کر اس چیز کو اختیار کرلے جو تجھے شبہ میں نہ ڈالتی ہو“ 

مومن کو جب بھی کوئی نعمت میسر آتی ہے کھانے پینے ، لباس، نکاح اور دوسری تمام اشیاء کی صورت میں تو وہ غور و خوض کر تا ہے اور اس وقت تک اسے حاصل نہیں کرتا جب تک یہ یقین نہیں ہو جاتا کہ اس کا لینا اور قبول کرنا اس کے لیے جائز ہے۔ اور شریعت کے علم کے عین موافق ہے۔ جبکہ وہ حالت ولایت میں ہو۔ اگر وہ حالت بدلیت اور غوثیت میں ہے تواس وقت تک قبول نہیں کر تاجب تک اسےعلم الہی حکم نہیں دیتا۔ اور اگر وہ حالت فنا میں ہے تو اس وقت تک اسے قبول نہیں کرتا جب تک تقدیر محض یعنی فعل الہی سے حکم صادر نہیں ہوتا۔ 

پھر ایک دوسری حالت آتی ہے کہ انسان ہر چیز جو اسے میسر آتی ہے اور اس کو بہم پہنچتی ہے اور اسے مطلق قبول کر لیتا ہے جب تک کہ کوئی حکم ، امریاعلم معارض نہیں آتا۔ اور جب ان میں سے کوئی ایک چیز بھی معارض آجاتی ہے تووہ رک جاتا ہے اور اسے لینے سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے۔ یہ حالت پہلی حالت کے برعکس ہے۔ پہلی  حالت میں توقف اور حقیقت کا پہلو غالب تھا اور دوسری حالت میں اخذو قبول کا پہلو غالب ہے۔ پھر ایک تیسری حالت بھی ہے۔ کہ جس میں ہر میسر اور دستیاب چیز کو حاصل کیا جاتا ہے اور ہر چیز سے لطف اٹھایا جاتا ہے اور تینوں چیزوں میں سے کسی چیز کے معارض آنے کا اعتبار نہیں کیا جاتا اور یہ حقیقت فنا ہے۔ اس حالت میں مومن تمام آفات سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اور اس سے شریعت کی حدود کی پامالی کا ارتکاب نہیں ہوتا اور وہ برائی سے محفوظ رہتا ہے جیسا کہ رب قدوس کا ارشاد گرامی ہے۔ 

كَذَلِكَ ‌لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ 

یوں ہوا تا کہ ہم دور کر دیں یوسف سے برائی اور بے حیائی کو بیشک وہ ہمارے ان بندوں میں سے تھاجو چن لیے گئے ہیں ۔

پس مو من حدود شرع کو توڑنے سے محفوظ کر کے اس شخص کی مانند بنا دیا جاتا ہے جس کو کھلی چھٹی دے دی گئی ہو۔ تمام مباح اشیاء کے استعمال کی اسے رخصت مل جاتی ہے۔ بھلائی اس کے لیے آسان ہو جاتی ہے۔ دنیاکی نعمتیں اسے تمام دنیاوی اور اخروی کدورتوں اور تاریکیوں سے پاک و صاف میسر آتی ہیں بندے کا ہر فعل حق تعالی کے ارادے، رضا اور فعل کے موافق ہو جاتا ہے۔یہی  انتہاء ہے۔ اس سے بڑا اور جہ اورنہیں۔ یہ مقام اولیاء کبار اور چنیدہ اصحاب اسرار کی جماعت کے لیے خاص ہے جو انبیاء علیہم السلام کے احوال کے آستانہ سے واقف اور مطلع ہوتے ہیں۔ صلوات اللہ علیھم اجمعین 

محبوب کے بعد بھی کیا کوئی مطلوب باقی ہے؟

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے فرمایا : تعجب ہے کہ تو اکثر کہتا ہے فلاں عزت کے قریب ہوا اور میں دور کیا گیا۔ فلاں کو عطا گیا 

اور مجھے محروم ٹھہرایا گیا۔ فلاں کو دولت مند بنا دیا گیا اور مجھے فقیر۔ فلاں کو امن و عافیت سے نوازا گیا اور مجھےبیماری دی گئی۔ فلاں کی تعظیم کی گئی اور مجھے حقارت کی نظر سے دیکھا گیا۔ فلاں کی تعریف و توصیف ہوئی اور میری مذمت کی گئی۔ فلاں کی بات کو بھی مان لیا گیا اس کی تصدیق ہو گئی جب کہ مجھے جھوٹا گردانا گیا۔ : کیا تو نہیں جانتا کہ الله تعالی ایک ہے۔ اور وہ محبت میں بھی یکتائی کو پسند کرتا ہے۔ اور چاہتا ہے کہ مجھے چاہنے والے بھی کسی کی طرف نظر محبت سے نہ دیکھیں۔ 

جب وہ غیر کے واسطے سے تجھے قرب عطا کرے گا تو تیرے دل میں اللہ تعالی کی محبت کم ہو جائے گی۔ اور محبت تقسیم ہو جائے گی۔ اور عین ممکن ہے کہ جس شخص کے ہاتھ اور واسطے سے تجھے یہ نعمت مل رہی ہے تیرا باطن اس کی طرف مائل ہو جائے اور تیرے دل میں اللہ تعالی کی محبت کم ہو جائے۔ اللہ کریم غیور ہے۔ وہ شر یک کو پسند نہیں کرتا۔ اس لیے وہ دوسروں کے ہاتھ کو روک دیتا ہے کہ تجھے کچھ دیں۔ وہ ان کی زبان کو خاموش کر دیتا ہے کہ تیری تعریف و توصیف کریں۔ وہ ان کے پاؤں کو روک لیتا ہے کہ تیری طرف چل کر جائیں۔ کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ میرا بندہ کسی اور میں مشغول ہو کر مجھ سے ذرا بھی غافل ہو۔ کیا تونے نبی کریم ﷺکا ارشاد گرامی نہیں سنا۔ 

جُبِلَتِ ‌الْقُلُوبُ عَلَى حُبِّ مَنْ أَحْسَنَ إِلَيْهَا وَبُغْضِ مِنْ أَسَاءَ إِلَيْهَا ۔ 

”فطر تادل اس سے محبت رکھتے ہیں جو ان سے اچھا سلوک کرتا ہے اور اس شخص سے بغض رکھے ہیں جو ان سے برائی سے پیش آتا ہے ۔

اللہ تعالی مخلوق کو روک دیتا ہے کہ تیرے ساتھ کسی طرح کا حسن سلوک کریں۔ اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے یہاں تک کہ تو اسے واحد لاشریک سمجھنے لگتا ہے صرف اس سے محبت کرنے لگتا۔ اور ظاہر و باطن ہر لحاظ سے اپنی تمام حرکات و سکنات میں اسی کا ہو جاتا ہے۔تجھےسوائے اس کے کسی کی طرف سے نہ خیر دکھائی دیتی ہے اور نہ شر دکھائی دیتا ہے تو پوری خلق سے،نفس، حرص و ہوا، ارادوں اور تمناؤں سے بلکہ جمیع ماسواء اللہ سے فانی ہو جاتا ہے۔ پھر وہ لوگوں کے ہاتھ کو تیری طرف پھیلنے۔ تیری منت کرنے اور تجھے عطاکرنے کے لیے کھول دیتا ہے۔ زبانیں تیری تعریف و توصیف کرنے کے لیے آزاد ہو جاتی ہیں اور تو اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اللہ تعالی کی نعمتوں سے ہمیشہ کیلئے لطف اندوز ہونے لگتا ہے۔ 

سوئے ادبی کا ارتکاب نہ کر جوتجھے دیکھ رہا ہے تو بھی اسے دیکھ جو تیری طرف بڑھ رہا ہے توبھی اس کی طرف بڑھ۔ جوتجھے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے تو بھی اس سے محبت کر۔ جو تجھے دعوت دے رہا ہے اس کی دعوت کو قبول کر۔ جو تیری دستگیری کرنا چاہتا ہے اسے اپنا ہاتھ تھمادے۔ جو تجھے تیرے نفس کی جہالت کی تاریکیوں سے نکالنا چاہتا ہے تجھے بربادی سے بچانے کا خواہاں ہے اور چاہتا ہے کہ تجھے تیرے نفس کی نجاستوں سے پاک کرے اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے۔ جو شخض تجھے تیری گندگیوں سے پاک کرنا چاہتا ہے تیرے مردار اور بدبو سے خلاصی دینا چاہتا ہے۔ تیرے پست ارادوں سے، نفس امارہ سے ، گمراہ اور گمراه کن دوستوں سے شیطان اور حرص و ہواسے ، جاہل اور رب کے راستے سے روکنے والےہمنیشنوں سے ہر قیمتی نفیس اور عزیز چیز اور تیرے در میان حائل ہونے والوں سے نجات دینے کا ارادہ رکھتا ہے اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دے۔

رسوم اور طبیعت کی غلامی کب تک ؟کب تک تو حق کی مخالفت کرتارہے گاحرص و ہوا کی تابعداری کب تک۔ کب تک یہ رعونت رہے گی۔ دنیاپرستی کےتصور میں کب تک گم رہے گا۔ کب تک تیری محنت آخرت کی بہتری کیلئے نہیں ہو گی۔ کب تک تو اپنے مولا کے علاوہ غیروں سے محبت کرتا پھرے گا۔ 

تو کہاں ہے۔ دیکھ کون ہے اشیاء کا خالق کائنات کے ذرے ذرے کووجودبخشنے والا کون ہے اول و آخر ، ظاہروباطن، کون ہے مرجع و مصدر۔ کس کی یاد سے قلوب اور ارواح تسلی پاتے ہیں۔ کون زندگی کے بوجھ دور کر تا ہے۔ کون ہے جو احسان جتلائے بغیر عطا کرتا ہے؟ 

معرفت کی ایک بات

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے فرمایا : میں خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ میں کسی سے کہہ رہا ہوں۔ اے اپنے دل میں اپنی ذات کو رب کا شریک ٹھہرانے والے اور ظاہر میں مخلوق کو شریک خدابنانے والے اور عمل میں ارادے کو شریک بنانے والے۔ میرے پہلوسے کسی نے پوچھا یہ کیسی گفتگو ہے ؟ میں نے کہایہ معرفت کی گفتگو ہے۔

نفس کو موت کی نیند سلادے حتی کہ تجھے زندگی مل جائے

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ و ارضا نے فرمایا : ایک دن مجھے سخت مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ میر انفس اپنے بوجھ کے نیچے تڑپنے لگا۔ اور اس نے راحت و آرام، آزادی اور آسائش کا مطالبہ کیا۔ 

مجھ سے کسی نے کہا : کیا چاہتا ہے ؟ میں نے جواب دیا : وہ موت چاہتا ہوں جس میں کوئی زندگی نہیں اور میں وہ زندگی چاہتا ہوں جس میں کسی قسم کی موت نہیں۔ 

مجھ سے پوچھا گیا : ایسی کون سی موت ہے جس میں کوئی زندگی نہیں اور وہ کونسی حیات ہے جس میں کوئی موت نہیں؟ 

میں نے جوابا کہا : میرا اپنی جنس مخلوق سے مر جانا وہ موت ہے جس میں کوئی زندگی نہیں۔ یہ وہ موت ہے کہ میں مخلوق کو نفع نقصان میں معدوم دیکھوں۔ اس موت سے مراد میرے نفس سے، میری خواہش سے ، میرے ارادے اور تمنا سے دنیا و آخرت میں موت ہے اور یہ وہ موت ہے کہ جس میں ہمیں کوئی زندگی 

نہیں۔ اگر یہ موت حاصل ہو جائے تو پھر کسی چیز کا وجود باقی نہیں رہتا۔ 

رہی وہ زندگی کہ جس میں کوئی موت نہیں تو اس سے مراد میر افعل خداوندی کے ساتھ جینا ہے۔ کہ جس میں میرے وجود کو دخل نہ ہو۔ اور اس میں موت میرا اس کے ساتھ موجود ہونا ہے۔ اور یہ وہ نفیس ترین ارادہ جو میرے دل میں پیدا ہواجب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے۔

محبت کی نشانی تسلیم ورضاہے

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے فرمایا : تعجب ہے۔ اس قدر اپنے رب پر تیری ناراضگی کہ اس نے تیری دعا کو قبول نہیں فرمایا۔ تو کہتا پھرتا ہے کہ اللہ تعالی نے مخلوق سے سوال کرنے کو مجھ پر حرام کیا اور حکم دیا کہ میں صرف اس کی جناب میں سوال کروں۔ اب جبکہ میں اس کی بارگاه میں سوال کرتا ہوں تو وہ جواب نہیں دیتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ذرا بتا تو تو آزاد ہے یاغلام ؟اگر تو کہتا ہے کہ میں آزاد ہوں تو تو کافر ہے اور اگر کہتا ہے کہ میں غلام ہوں تو پھر یا تو اپنے پروردگار کو تاخیر اجابت دعا پر الزام دیتا ہے۔ اس کی حکمت رحمت پر شک کرتا ہے حالانکہ کہ اس کی رحمت تجھے اور تمام کائنات کو شامل ہے۔ وہ تمہارے حالات سے واقف ہے۔ یا تواللہ عزوجل کو الزام نہیں دیتا۔ 

اگر تو اللہ تعالی کو تہمت نہیں دیتا۔ اس کی حکمت، ارادے اور دعا کی قبولیت میں اس نے تیرے لیے جوفوائدر کھ دیئے ہیں ان کا اقرار کرتا ہے تو تجھ پر لازم ہے کہ اس کا شکر ادا کرے کیونکہ اس نے تیرے لیے زیادہ صحیح چیز اور نعمت کو اختیار کیا اور نقصان دہ چیز سے تجھےبچالیا۔ 

اگر تو تاخیر قبولیت دعا میں اسے الزام دیتا ہے تو اسے تمت دینے کی وجہ سے تو کافر ہے کیونکہ الزام دیکر تو الله تعالی کی طرف ظلم کی نسبت کر رہا ہے حالانکہ وہ کریم ہے اپنے بندوں پر ذرا بھی ظلم نہیں کرتا۔ اور نہ ہی وہ ظلم کو پسند فرماتا ہے۔ یہ ناممکنات میں سے ہے کہ اللہ کریم کسی پر ظلم کرے۔ کیونکہ وہ تیرا مالک ہے بلکہ ہر چیز کامالک۔ اور مالک اپنی ملک میں جیسے چاہے تصرف کر سکتا ہے۔ اسے ظالم کہنا صحیح نہیں کیونکہ ظلم یہ ہے کہ کسی دوسرے کی ملک میں اس کی اجازت کے بغیر تصرف کیا جائے۔ لہذا اللہ کریم کے فیصلے سے ناراض نہ ہو۔ اگرچہ یہ فیصلہ تیری طبع اور نفس کے خلاف ہے اور ظاہری طور پر نقصان دہ محسوس ہوتا ہے مگر تیری بھلائی کا ضامن ہے۔

تجھ پر لازم ہے کہ شکر کر اور صبر سے کام لے۔ اللہ کریم کو الزام نہ دے۔ اس سے ناراض نہ ہو۔ نفس کی رعونت اور خواہش کی پیروی نہ کر کیونکہ نفس اور خواہش کا تو کام ہی راہ خداوندی سے بھٹکادیناہے۔ 

ہمیشہ دعا کرتے رہئیے۔سچے دل سے اس کی بارگاہ میں التجاء کیجئے اور حسن ظن رکھئے کہ اللہ کریم ضرور مہربانی فرمائے گا۔ وہ ضرور اپناوعدہ ایفا کرے گا۔ مشکل آسانی میں بدل جائے گی۔ اللہ تعالی سے حیاء لازم ہے۔ اس کے علم کی موافقت کر۔ توحید پر قائم رہ۔ اس کے احکام کی پیروی کر۔ اطاعت بجالانے میں دیر نہ کر اور گناہوں کے قریب بھی نہ جا۔ جب اس کریم کا تیرے لیے کوئی فیصلہ صادر ہویاتجھ میں کوئی فعل جاری ہو تو مردہ بن جا۔ 

اگر تہمت اور سوئے ظن سے نہیں بچ سکتا تو یادر کھ نفس برائی کا حکم دیتا ہے۔ اپنے رب کا نافرمان ہے۔ بہتر یہ ہے کہ ظلم اور زیادتی کو نفس کی طرف منسوب کر۔ اس جفا شعار کی پیروی سے احتراز کر۔ اس کی سنگت سے بچ۔ اس کے قول و فعل پر خوش نہ ہو۔ ہر حال میں اس سے الگ رہ کیونکہ یہ اللہ تعالی کا دشمن ہے۔ تیرا دشمن ہے۔ اور شیطان کا دوست ، نائب جاسوس اور ہم نشین ہے جو اللہ تعالی کا دشمن اور تیرا دشمن ہے۔ اللہ سے ڈر۔ اس کی گرفت سے بچ۔ احتیاط کر احتیاط۔ نجات کی کوشش کر نفس کو الزام دے۔ اسی کو ظالم ٹهہرا اور اسے اللہ تعالی کا یہ ارشاد گرامی پڑھ کرسنا 

مَا يَفْعَلُ اللَّهُ بِعَذَابِكُمْ إِنْ شَكَرْتُمْ وَآمَنْتُمْ وَكَانَ اللَّهُ شَاكِرًا عَلِيمًا  کیا کرے گا اللہ تعالی تمہیں عذاب دیکر اگر تم شکر کرنے لگو اور ایمان لے آؤ اور اللہ تعالی بڑا قدر دان ہے۔ سب کچھ جاننے والا ہے“ 

ذَلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيكُمْ وَأَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ

یہ سزا ہے اس کی جو تیرے ہاتھوں نے آگے بھیجا اور بلاشبہ اللہ تعالی بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں“

 إِنَّ اللَّهَ لَا يَظْلِمُ النَّاسَ شَيْئًا وَلَكِنَّ النَّاسَ أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ  یقینا اللہ تعالی ظلم نہیں کر تا لوگوں پر ذرہ برابر لیکن لوگ ہی اپنے نفسوں پر ظلم کرتے ہیں ۔

اللہ تعالی کی خاطر اپنے نفس کا دشمن بن جا۔ اس سے کشتی کر۔ لڑ اور تلوار سونت کر میدان میں آجا۔ اللہ تعالی کی سپاہ اور لشکریوں کا ساتھ دے۔ کیونکہ وہی لوگ دشمن خدا کے سخت ترین دشمن ہیں رب قدوس نے فرمایا تھا اے داؤد ! اپنی خواہش کو چھوڑ دے کیونکہ میری بادشاہی میں خواہش نفس کے علاوہ اور کوئی مجھ سے مخالفت کرنے والا نہیں۔

پرندے وہاں اترتے ہیں جہاں دانے بکھرے ہوں

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وار ضاہ نے فرمایا : یوں مت کہہ کہ میں بارگاه الہی میں التجا نہیں کرتا۔ کیونکہ جو مقسوم ہے وہ بن مانگے مل جائے گا اور جو قسمت میں نہیں لکھادعا کرنے سے بھی نہیں ملے گا۔ 

دنیاو آخرت کی ہر بھلائی اور ضرورت کی ہر چیز کا سوال کر بشر طیکہ وہ حرام اور مفسد نہ ہو۔ کیونکہ اللہ کریم نے حکم دے رکھا ہے کہ مجھ سے مانگو اور یہ ترغیب دی ہے کہ میری جناب میں التجا کرو۔ فرمایا : 

ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ  مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔

 ایک اور جگہ فرمایا

 :وَاسْأَلُوا اللَّهَ ‌مِنْ ‌فَضْلِهِ اور مانگتے رہو اللہ تعالی سے اس کے فضل و کرم كو۔

 نبی کریم ﷺنے فرمایا : ادْعُوا اللَّهَ وَأَنْتُمْ ‌مُوقِنُونَ ‌بِالإِجَابَةِ اللہ تعالی سے اس حالت میں دعا کرو کہ قبولیت دعا کا تمہیں یقین ہو

“ ایک دوسری حدیث ہے۔ فرمایا : إِذَا سَأَلْتُمُ اللَّهَ فَاسْأَلُوهُ ‌بِبُطُونِ ‌أَكُفِّكُمْ اپنے ہاتھ پھیلا کر اللہ تعالی سے سوال کرو“ 

اس کے علاوہ اور بہت ساری احادیث اس ضمن میں پیش کی جاسکتی ہیں۔ 

یہ نہ کہنا کہ میں نے سوال کیا اور اللہ تعالی نے میرا مطلوب مجھے عطا 

نہیں فرمایا لہذااب میں سوال نہیں کروں گا۔ بلکہ ہمیشہ اس کی بارگاہ میں التجا کر۔ 

اگر یہ تیر امقسوم ہوا تو اللہ تعالی دعا کے بعدتجھے عطا فرمادے گا اور دعا کی وجہ سے تیرے ایمان ، یقین اور عقیدۂ توحید کو پختہ فرمادے گا۔ اس دعا کی برکت 

سے مخلوق سے سوال نہ کرنے اور تمام احوال میں اور ضروریات میں خلق سے لو نہ

لگانے کی نعمت میں اضافہ فرمادے گا۔ 

اور اگر مسئولہ چیز تیری قسمت میں نہیں تو دعا کی برکت سے اللہ کریم تجھے اس سے غنی کر دے گا۔ تو تقدیر پر راضی ہو جائے گا۔ اگر تو فقیر یا مریض ہے تو فقر اور مرض میں بھی تجھے آرام و سکون نصیب ہو جائے گا۔ قرض ہے تو قرض خواہ کے دل میں نرمی اور رفق پیدا کر دے گا اور تجھ سے تقاضا کرے گا بھی توسختی نہیں کرے گا بلکہ نہایت نرمی سے پیش آئے گا۔ اور کشائش تک تجھے مہلت دے دے گا یا پھر دعا کی بر کت سے تیسرا قرض معاف کر دے گا۔ یا قرض میں کمی کر دے گا۔ اگر دنیا میں اس نے قرض معاف نہ کیا تو آخرت میں تجھے اس دعا کی وجہ سے بہت زیادہ ثواب ملے گا کیونکہ اللہ تعالی کریم، غنی اور رحیم ہے۔ اپنی بارگاه کے مسائل کو دنیا و آخرت میں خائب وخاسر نہیں ٹھہراتا۔ 

دعا بہر حال مفید ہے۔ اس کا فائدہ یا تو فوری طور پر سامنے آجاتا ہے یا اس کے ظاہر ہونے میں کچھ دیر لگتی ہے حدیث پاک میں ہے۔

إن المومين يري في صحيفته يوم القيامة حسنات لم يعملها . ولم يدربها فيقال له . إنها بدل مسألتك التي سالتها في دار الدنيا 

وجہ یہ ہے کہ دعا کرنے والا الله تعالی کا ذکر کر تا ہے اس کی وحدانیت کا اقرار کرتا ہے۔ عدل وانصاف کو عملی جامہ پہناتا ہے۔ حقدار کاحق ادا کر تا ہے۔ 

تکبر ، خودپسندی اور نخوت و غرور کو چھوڑ کر عاجزی اپناتا ہے۔ اور یہ سب اعمال صالحہ عنداللہ ثواب کا موجب بنتے ہیں۔

اپنے نفس کو قابو میں لا اس سے پہلے کہ وہ تجھے پھاڑ دے

حضرت شیخ رضی اللہ تعالی عنه و ارضاه نے فرمایا : تو جب بھی کبھی اپنے نفس سے جہاد کرے گا۔ اس پر غالب آئے گا اور مخالفت کی تلوار سے اسے قتل کرے گا تو الله تعالی ہر بار اسے نئی زندگی عطا کر دے گا ۔ وہ تجھ سے جھگڑے گا۔ شہوات و لذات کا تقاضا کرے گا اور اس بات کا خیال نہیں رکھے گا کہ حلال کیا ہے اور حرام کیا ہے۔ اس کو بار بار زندہ اس لیے کیا جاتا ہے کہ تو مجاہدہ کر تار ہے۔ نفس کے خلاف تیری کوششیں جاری رہیں اور تو ہمیشہ اجر و ثواب سے نوازا جاتا ہے۔  یہی مفہوم حضور نبی کریم ﷺکی اس حدیث مبارکہ کا ہے۔ 

رَجَعْنَا ‌مِنَ ‌الْجِهَادِ الْأَصْغَرِ إِلَى ‌الْجِهَادِ الْأَكْبَرِ. ہم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف لوٹے ہیں“ 

آپ کے اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو ہمیشہ اپنے نفس کے خلاف جہاد کرنا پڑتا ہے۔ اسے ہر وقت لذات دنیوی اور نفس کے گناہوں میں منہمک رہنے کے خلاف برسر پیکار رہنا پڑتا ہے۔ اسی مفہوم کویہ آیت کریمہ بھی بیان کرتی ہے۔ 

وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ اور عبادت کیجئے اپنے رب کی یہاں تک کہ آجائے آپ کے پاس الیقین۔

 اللہ تعالی نے اپنے محبوب ﷺ کو عبادت کا حکم دیا۔ اور یہ عبادت مخالفت نفس ہے۔ کیونکہ نفس ہر قسم کی عبادت سے بھاگتا ہے اور اس کی ضد کو پسند کرتا ہے۔ الیقین سے مراد موت ہے یعنی مرنے تک نفس کے خلاف جہاد کرتے رہو۔ 

اگر کوئی یہ کہے کہ آیت میں خطاب حضور ﷺ کو ہے آپ کے نفس کا عبادت سے بھاگنا بعید از قیاس ہے کیونکہ آپ خواہش سے پاک تھے جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی  ہے۔ 

وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى  إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى اور وہ توبولتا ہی نہیں اپنی خواہش سے۔ نہیں ہے یہ مگروحی جو ان کی طرف کی جاتی ہے ۔

تو ہم کہیں گے کہ ہاں نبی کریم معصوم عن الخطاء ہیں مگر یہ حکم تعلیم امت اور تقرر شرع کیلئے ہے۔ یہ حکم خاص نہیں بلکہ عام ہے اور قیامت تک ساری امت کیلئے رہنمائی کا ذریعہ ہے۔ پھر ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے حبیب مکرم ﷺ کو نفس و خواہش پر غلبہ عطا فرمایا ہے تاکہ آپ کو نفس و خواہش نقصان نہ دے سکیں اور آپ کو مجاہدہ کی ضرورت نہ رہے۔ لیکن امت کو نفس و خواہش پر غلبہ نہیں دیا گیا۔ اور انہیں مجاہدہ کی ضرورت ہے۔ 

بندہ مو من اپنے نفس کے خلاف برسر پیکار رہتا ہے حتی کہ اسے موت آجاتی ہے۔ وہ اپنے رب کی بارگاہ میں جب پیش ہو تا ہے تو اس کے ہاتھ میں مجاہدہ کی ننگی تلوار خون سے لت پت دیکھ کر رب قدوس اسے جنت کی ابدی نعمتوں سے نواز دیتا ہے اور اسے خوشخبری سناتا ہے۔ 

وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى  فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى اور جو ڈرتا رہا ہو گا اپنے رب کے حضور کھڑا ہونے سے اور اپنے نفس کو روکتا رہا ہو گا (ہر بری) خواہش سے۔ یقینا جنت ہی اس کا ٹھکانا ہو گا ۔

جب بنده مؤمن کو اللہ تعالی جنت عطا فرماتا ہے اور جنت اس کا گھر ، جائے قرار لوٹنے کا مقام بن جاتا ہے۔ اور اللہ تعالی بندے کو اس بات سے محفوظ فرما دیتا ہے کہ وہ اسے اس گھر سے نکال کر کسی اور گھر میں جگہ دے۔ کسی اور ٹھکانے کو منتقل کرے اور دنیا کی طرف لوٹا دے تو روزبر و ز اور لمحہ بہ لمحہ اسے نئی نئی نعمتوں سے نوازتا ہے۔ رنگارنگ کے زیورات اورقسم قسم کی خلعتیں بخشتا ہے جن کی نہ انتہاء ہے ،نہ غایت اور نہ اختتام۔ جس طرح کہ بندہ مو من دنیامیں رہ کر روز بروز لمحہ بہ لمحہ نفس اور خواہش سے لڑتارہا تھا۔ 

رہا کافر، منافق اور اللہ کا نافرمان تو جب انہوں نے دنیا میں نفس اور خواہش کے خلاف مجاہد ہ ترک کیا۔ ان کی اتباع کی۔ شیطان کا کہامانا تو کفر ، شرک اور دوسری طرح طرح کی برائیوں میں مبتلا ہو گئے۔ یہاں تک کہ کفر اور معصیت کی حالت میں انہیں موت آگئی۔ نہ اسلام لانے کی توفیق ہوئی اور نہ توبہ کرنے کا موقع ملا۔ اللہ تعالی نے انہیں اس آگ میں پھینک دیا جو کافروں کیلئے تیار کی گئی ہے۔ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ 

وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي ‌أُعِدَّتْ ‌لِلْكَافِرِينَ اوربچو اس آگ سے جو تیار کی گئی ہے کافروں کیلئے ۔

جب اللہ تعالی ان نافرمانوں کو جہنم رسید کر تا ہے اور جہنم ان کا ٹھکانا ان کا گھر اور ان کے لوٹنے کی جگہ بنتی ہے اور آگ ان کی جلدوں اور گوشت کو کھا جاتی ہے تو انہیں نئی جلدیں اور نئے گوشت دے دیئے جاتے ہیں۔ جیسا کہ رب قدوس کا ارشاد گرامی ہے۔ كُلَّمَا ‌نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْنَاهُمْ جُلُودًا غَيْرَهَا جب کبھی پک جائیں گی ان کی کھالیں توبدل کر دیں گے ہم انہیں کھالیں دوسری۔

 اللہ تعالی انہیں ایسے دردناک عذاب سے دوچار کرے گا کیونکہ انہوں نے دنیا میں اللہ تعالی کی نافرمانی کرتے ہوئے اپنے نفسوں اور خواہشوں سے موافقت کی ہو گی۔ 

اہل دوزخ کی جلدیں اور گوشت ہر لحظہ لحظہ تازہ ہورہے ہو گئے تاکہ انہیں سخت سے سخت عذاب اور اہل جنت کو لمحہ بہ لمحہ نئی نئی نعمتوں سے نوازاجائے گا تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ ان نعمتوں سے لطف اندوز ہو سکیں۔ 

اس کامیابی کی اصل وجہ دنیامیں نفس سے مجاہد ہ اور ترک موافقت ہے 

یہی رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث طیبہ کا مفہوم ہے۔ 

دنیا آخرت کی کھیتی ہے ‌الدُّنْيَا ‌مَزْرَعَةُ ‌الْآخِرَةِ

مقادیر کو مواقیت کی طرف لے جانے والا کتنا منصف ہے

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے فرمایا : جب اللہ تعالی کسی بندے کی دعا قبول فرمالیتا ہے اور اس کی تمنا پوری کر دیتا ہے تواس سے اللہ تعالی کے ارادے، تقدیر اور علم سابق پر کوئی حرف نہیں آتا۔ بلکہ جب بندے کی دعا الله تعالی کی مراد اور متعینہ وقت کے موافق ہوتی ہے تو الله تعالی دعا قبول فرما لیتا ہے اور مقررہ وقت پر بندے کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالی کے علم سابق اور تقدیر میں اس ضرورت کے پورا ہونے کا ایک وقت تھا۔ ادھر وقت آپہنچا۔ ادھر بندے نے بارگاہ خداوندی میں دعا کردی۔ دعا اور قبولیت کے وقت میں موافقت ہو گئی اور بندے کی دعا کو قبول کر لیا گیا۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ بندے کی دعا سے اللہ تعالی کا ارادہ تبدیل ہو گیا۔ یا تقدیربدل گئی۔ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے۔ 

كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ہر روز وہ ایک نئی شان سےتجلی فرماتا ہے 

یعنی وہ مقادیر کو مواقیت کی طرف لے جاتا ہے۔ دنیا میں محض دعاسے اللہ 

تعالی کسی کو کچھ نہیں دے دیتا اور نہ ہی محض دعاسے کسی کی تکلیف کو دور کر تا ہے۔ 

اور وہ جو حدیث میں آیا ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا : . لَا ‌يَرُدُّ القَضَاءَ إِلَّا ‌الدُّعَاءُ

تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جس دعا کے بارے یہ فیصلہ ہو چکا ہو تا ہے کہ اس سے تقدیر بدل جائے گی صرف اسی سے تقدیر بدلتی ہے۔ ہر دعاسے نہیں۔ اسی طرح کوئی شخص اپنے عمل کی بناء پر جنت میں نہیں جائے گا بلکہ اللہ تعالی کی رحمت کے طفیل اسے یہ سعادت نصیب ہوگی لیکن بہر حال مسلم امر ہے کہ اللہ تعالی اپنوں کے درجات میں تفاوت ان کے اعمال کےتفاوت کی وجہ سے روارکھے گا۔ 

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں آیا ہے کہ : إنها سألت النبي صلى الله تعالى عليه وعلى آله واصحابه وسلم هل يدخل أحد الجنة بعمله؟ فقال .لا. بل برحمة الله تعالى قالت ولا أنت فقال ولا آنا إلا أن يتغمدني الله برحمته ووضع يده على هامته .

آپ رضی اللہ تعالی عنہا نے نبی کریم رسول اللہ ﷺسے دریافت کیا۔ کیا کوئی اپنے عمل کی بنا پر جنت جائے گا؟ حضور ﷺ نے فرمایا نہیں بلکہ اللہ کی رحمت کے طفیل حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے پوچھا۔ آپ بھی نہیں ؟ فرمایا۔ میں بھی نہیں۔ الا یہ کہ اللہ تعالی مجھے اپنی رحمت سے ڈھانپ لے۔ (یہ کہتے ہوئے) آپ نے اپنا ہاتھ مبارک اپنے سراقدس پر رکھا ۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کےذمے کسی کا حق واجب نہیں ہے اور نہ ہی اللہ تعالی پر لازم ہے کہ کیا سے عہد پورا کرے۔ بلکہ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ جسے چاہتا ہے عذاب دیتا ہے۔ جسے چاہتا ہے بخش دیتا ہے۔ جس پر چاہتا ہے رحمت فرماتا ہے۔  جسے چاہتا ہے نواز تا ہے۔ جو چاہتا ہے کر گذر تا ہے۔ اس سے پوچھا نہیں جا سکتا کہ کیا کہا۔ کیوں کہا۔ ہاں وہ پوچھتا ہے۔ جسے چاہتا ہے اپنے فضل و احسان سے بے حساب رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اپنےعدل کی بنا پر محروم کر دیتا ہے۔ 

اور ایسا کیوں نہ ہو عرش تا فرش سب اسی کی ملکیت ہے۔ اس کے علاوہ 

کوئی مالک وصانع نہیں ہے۔ فرمایا۔ 

هَلْ مِنْ ‌خَالِقٍ ‌غَيْرُ اللَّهِ کیا اللہ کے بغیر کوئی اور خالق بھی ہے؟

 أَإِلَهٌ ‌مَعَ ‌اللَّهِ. کیا کوئی اور خدا ہے الله تعالی کے ساتھ ؟ 

هَلْ تَعْلَمُ لَهُ ‌سَمِيًّا کیا تم جانتے ہو اس کا کوئی ہم مثل ہے ؟“ 

قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ  تُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَتُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَتَرْزُقُ مَنْ تَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ 

اے حبیب یوں) عرض کرو)۔ اے اللہ !مالک سب ملکوں کے توبخش دیتا ہے ملک جسے چاہتا ہے اور چھین لیتا ہے ملک جس سے چاہتا ہے۔ اور عزت دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور ذلیل کر تا ہے جس کو چاہتا ہے۔ تیرے ہی ہاتھ میں ہے ساری بھلائی۔ بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔ تو داخل کر تا ہے رات (کا حصہ ) دن میں اور داخل کر تا ہے دن (کا حصہ ) رات میں۔ اور نکالتا ہے تو زندہ کو مردہ سے اور نکالتا ہے مردہ کو زندہ سے۔ اور رزق دیتا ہے جسے چاہتا ہے بے حساب ۔

سختی سے کوئی قیمتی چیز ہی طلب کر

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ و ارضاه نے فرمایا : اللہ تعالی سے اس کے علاوہ اور کچھ نہ مانگ کہ وہ تیرے گذشتہ گناہ معاف فرمادے۔ آنے والے دنوں میں معصیت سے محفوظ رکھے۔ حسن عمل و فرمانبرداری کی توفیق دے۔ نواہی سے رکنے کا حوصلہ ، قضاء کی سختی پرصبر۔ مصائب و آلام پر برداشت ، عطا و بخشش پر شکر کی توفیق دے۔ پھر تیرا خاتمہ بالخیر کرے اور انبیاء ، صدیقین ، شہداء ، صالحین بہترین ساتھیوں کی سنگت کی نعمت سے نواز دے۔ 

دنیا کا سوال مت کر۔ یہ دعانہ کر کہ تیرے فقر و افلاس کوغناو فراخی میں بدل دے بلکہ اس کی تقسیم اور تدبیر سے راضی ہو۔ دعا مانگ کہ جس حالت میں جس مقام پر اور جس آزمائش میں تو ہے تجھے ثابت قدمی بخشے اور اس وقت تک تیرے پاؤں میں لغزش نہ آئے جب تک وہ خود تیری حالت نہ بدلے۔ خود ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف تجھے منتقل نہ کرے ۔ تو نہیں جانتا کہ اس فقر و افلاس اور ابتلاء و آزمائش میں کیا کیا مصلحتیں پوشیدہ ہیں۔ کیونکہ حقائق اشیاء کو وہی خوب جانتا ہے۔ مصالح و مفاسد کا حقیقی علم اس کی ذات سے خاص ہے۔ 

حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ کے بارے آیا ہے کہ آپ نے فرمایا : 

”مجھے اس سے غرض نہیں کہ میری صبح کس حالت میں ہوتی ہے۔ پسندیدہ حالت میں یا نا  پسندیدہ حالت میں۔ کیونکہ میں نہیں جاننا بہتر ی ان دو میں سے کس حالت میں ہے“۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ بات اس لیے فرمائی کہ آپ راضی برضا تھے اور اللہ تعالی کی قضاء قدر سے مطمئن تھے۔ 

رب قدوس کا ارشاد ہے : كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ ‌وَاللَّهُ ‌يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ فرض کیا گیا ہے تم پر جہاد اور وہ ناپسند ہے تمہیں اور ہو سکتا ہے کہ تم ناپسند کرو کسی چیز کو حالانکہ وہ تمہارے لیے بہتر ہو اور ہو سکتا ہے کہ تم پسند کرو کسی چیز کو حالانکہ وہ تمہارے حق میں بری ہو اورحقیقت حال  اللہ ہی جانتا ہے اور تم نہیں جانتے 

اس حالت پر قائم رہ یہاں تک کہ تیری خواہش زائل ہو جائے اور تیرے نفس کی سرکشی جاتی رہے۔ وہ ذلیل، مغلوب اور تیرا تابع ہو جائے۔ پھر وہ وقت بھی آئے کہ تیرا ارادہ، تیری آرزو نہ رہے۔ دنیا کی تمام چیزوں کا خیال تیرے دل سے نکل جائے۔ اور تیرے دل میں صرف اللہ کریم کا بسیرا ہوصرف اسی کی محبت کا چراغ روشن ہو۔ تیری طلب اور چاہت سچی ہو۔ جب تیر ادل غیر سے کلیتاًخالی ہو جائے گا تو تجھے ارادہ واپس مل جائے گا۔ اور حکم ملے گا کہ دنیا و آخرت کی نعمتوں سے حظ اٹھا۔ اب تو اللہ تعالی سے اس کی ذات کو مانگے گا۔ اس کے احکامات کی پیروی کی توفیق طلب کرے گا۔ تعلیم ورضا کا سوال کرے گا۔ 

اگر دنیاوی نعمتوں میں سے کچھ مل جائے گا تو شکر کرے گا اور ان سے حظ اٹھائے گا۔ محروم رہا تو ناراض نہیں ہو گا۔ اور تیرے باطن میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہو گی۔ تو اللہ تعالی کو الزام نہیں دے گا کیونکہ تیری طلب میں خواہش کو دخل نہیں تھا۔ اس میں تیر اذ اتی ارادہ شامل نہیں تھا۔ کیونکہ خواہش و ارادہ سے توتیرادل خالی ہو چکا تھا۔ دنیا تیرا مقصود و مراد ہی نہیں رہی تھی۔ بلکہ تو اللہ کا فرمانبردار تھا اور اس کی فرمانبرداری میں سوال کر رہا تھا ۔

وہ مشت خاک آپ نے نہیں بلکہ اللہ تعالی نے پھینکی

نیکیوں پر اترانا، خود پسندی اور اعمال صالحہ پر صلے کا تقاضا کرنا کیونکر بہتر ہو سکتا ہے۔ جبکہ ہر نیکی اللہ کی توفیق ، اس کی مدد ، اس کے فضل و کرم، اس کی مشیت اور قوت سے سرانجام پائی۔ اگر تو گناہوں سے محفوظ رہا تو بھی اس کی حفاظت ، حمایت اور اس کے بچانے سے محفوظ رہا۔ 

تو نے ان نعمتوں کا شکر ادا کہاں کیا؟ تجھے جن نعمتوں سے نوازا گیا کہاں ان نعمتوں کا اعتراف کیا ؟ جب تونے نہ شکر کیانہ اعتراف کیا تو پھر یہ رعونت کیسی یہ جہالت کیوں؟ 

جس شجاعت اور سخاوت پر تجھے غرور ہے وہ تیری نہیں کسی دوسرے کی ہے۔ تونے دشمن کو قتل کیا تو اپنی طاقت کے بل بوتے پر نہیں بلکہ کسی دوسرے کی معاونت، اس کی بہادر انہ ضرب اس میں شامل تھی۔ اگر وہ نہ ہوتا تو دشمن کی بجائے تو خود خون میں لت پت گرا پڑا ہو تا۔ 

تونے مال خرچ کیا تو اس وجہ سے کہ ایک کر یم، سچے امانتدار نےتجھے ضمانت فراہم کی۔ اس نے یقین دہانی کرائی کہ خرچ کرے گا توتجھے اس کا بہترین عوض اور بد لا ملے گا۔ اگر وہ ضمانت نہ دیتا۔ بہتر ین صلہ کا تجھے لالچ نہ دیتا۔ تیرے ساتھ وعدہ نہ کرتا تو تو ایک دانہ بھی خرچ نہ کرتا۔ پھر کیوں تو محض اپنے فعل پر فخروغرور کرتا ہے؟ 

اپنی حالت سنوارنے کی کو شش کر۔ اللہ کریم کا شکر اورثنا کر جس نے تیری مدد کی۔ وہی دائمی مدد کا مستحق ہے۔ نیک اعمال کو اسی کی طرف منسوب کر۔ شرو معاصی اور مذموم کاموں کو اپنے نفس کی طرف منسوب کر ظلم اور سوئے اوبی کا ارتکاب نفس کا کام ہے اسی کو الزام دے کہ یہی  اس کا سزاوار ہے۔ کیونکہ ہر شر کا منبع نفس ہے۔ بد کاری اور برائی کا حکم نفس دیتا ہے۔ اگرچہ تیرا اور تیرے فعل کا خالق اللہ ہے مگر برائی کا کا سب تو ہے۔ یہ تیرے کسب سے وقوع پذیر ہوتی ہے۔ کسی عارف کا ارشاد ہے ہر کام اگر چہ اللہ تعالی کی قدرت سے سر انجام پاتا ہے لیکن انسان کے کسب کو اس میں دخل ضرور ہے۔ نبی کریم رسول اللہ ﷺنے فرمایا : 

أعملوا وقاربوا وسددوا فكل ميسر لما خلق له

عمل کرو۔ اللہ کا قرب طلب کرو اور نیکی کرو۔ پس ہر کام اس کیلئے آسان ہو جاتا ہے جس کے لیے اسے پیدا گیا ہو“ 

تجھے جس حالت میں رکھا گیا ہے اسی میں تیری بھلائی ہے

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ و ارضاه نے فرمایا : لا محالہ تویا مرید ہو گایا مراد اگر تو مرید ہے تو بار بردار ہے۔ اور ہر سختی اور ہر قسم کا بوجھ اٹھانے کا مکلف ہے۔ کیونکہ تو طالب ہے اور طالب کو مشقت پر مشقت برداشت کرنا پڑتی ہے۔ اسے سخت جانی کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ تب کہیں جا کر وہ مطلوب کو پہنچتا ہے۔ اور اپنی محبوب و پسندیدہ چیز حاصل کرنے میں کامیاب ہو تا ہے۔ 

: جان و مال، اہل و عیال پر اگر مصیبت نازل ہو توتجھے اس سے بھاگنا نہیں چاہیئے بلکہ صبر کرنا چاہیئے یہاں تک کہ یہ مصیبت خود خود دور ہو جائے سارےثقل بوجھ اور درد و آلام اٹھ جائیں۔ ساری اذ بیتیں اور مصیبتیں ختم ہو جائیں۔ اور تمام رذائل، نجاستیں، گندگیاں۔ سب محنت و مشقت ، دردو غم دور ہو جائیں اور تو خلق اور اسباب کی احتیاج سے محفوظ و ماصون ہو کر محبوبان خدا اولياء وابدال کے گروہ میں شامل ہو جائے۔ 

اگر تو مراد ہے تو مصیبت کا شکوہ نہ کر۔ اللہ تعالی کو الزام نہ دے کہ تجھے مشکلات سے سامنا ہے۔ سب مصائب تجھے مردان جفاکیش کے مراتب عالیہ تک پہنچانے کیلئے ہیں۔ 

کیا تو پسند کرے گا کہ اس اعلی مقام کو کھودے اور محبوبان خدا کی فہرست میں تیرا نام شامل نہ ہو۔ کیا تو کسی ادنی مقام پر اکتفا کرنے کا خواہاں ہے۔ کہ تجھے ان بلندیوں سےمحروم رکھا جائے جن سے اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو نوازا ہے۔ اور ان خلوتوں اور نعمتوں سے تو محروم رہ جائے جن سے ان لوگوں کو نوازا گیا ہے۔ 

تو اگر پستی پر راضی ہے تو بھی وہ کریم تیرے لیے پستی کو پسند نہیں کرتا۔ ‌وَاللَّهُ ‌يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ

اللہ ہی جانتا ہے اور تم نہیں جانتے 

وہ تیرے لیے اعلی وار فع اصلح و اسنی کا اختیار کرتا ہے اور تو ہے کہ اس سے انکار کر تا ہے۔ 

اگر تو یہ کہے کہ مذکورہ تقسیم اور بیان کے مطابق مراد کومبتلائے مصیبت کرنا کیسے صحیح ہو سکتا ہے حالانکہ ابتلاء تو محبت کرنے والے کیلئے ہے۔ محبوب و مراد نوازا جاتا ہے نہ کہ آزمایا جا تا ہے۔ 

تو کہا جائے گا کہ ہمارا پہلا بیان اغلب نظرئیے کو بیان کرتا ہے۔ مشہور تویہی ہے کہ محب کو آزمایا جاتا ہے لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہو تا ہے کہ محبوب کو ابتلاء و آزمائش کے کٹھن مراحل سے گزارا جاتا ہے۔ 

اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ رسول اللہ ﷺ سید المحبوبین تھے۔ مگر آپ نے سب لوگوں سے زیادہ مصیبتیں جھیلیں۔ آپ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی اس کی توثیق کرتاہے

لَقَدْ ‌أُخِفْتُ ‌فِي ‌اللهِ وَمَا يُخَافُ أَحَدٌ،» وَلَقَدْ أُوذِيتُ فِي اللهِ وَمَا يُؤْذَى أَحَدٌ، وَلَقَدْ أَتَتْ عَلَيَّ ثَلَاثُونَ مِنْ بَيْنِ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ وَمَا لِي وَلِبِلَالٍ طَعَامٌ يَأْكُلُهُ ذُو كَبِدٍ، إِلَّا شَيْءٌ يُوَارِيهِ إِبْطُ بِلَالٍ میں اللہ کی راہ میں اس قدر خوف زدہ کیا گیا ہوں کہ اتنا خوف زدہ کوئی نہ ہوا ہو گا۔ مجھے راہ خدا میں اس قدر اذیتیں دی گئیں کہ اتنا کسی کو نہ ستایا گیا ہو گا۔ اور ایسا بھی ہوا کہ ) مجھ پر تیس دن اور راتیں گزر گئی مگر مجھے اور بلال کو کھانے کیلئے کوئی چیز میسر نہ آئی جسے کوئی جاندار کھا سکتا۔ سوائے اس چیز کے جسے بلال کی بغل نے چھپارکھا ہو تا تھا

 رسول اللہ ﷺ کا ایک اور ارشاد گرامی ہے۔ نَحن ‌معاشر ‌الْأَنْبِيَاء أَشد النَّاس بلَاء ثمَّ ‌الأمثل فالأمثل

سب سے زیادہ ہم گردہ انبیاء کو ابتلاء و آزمائش سے گزرنا پڑا۔ پھر درجہ بدرجہ دوسرے 

لوگ آزمائے گئے“ 

إني ‌أعرفكم بالله وأشدكم له ‌خوفامیں تم سب سے زیادہ اللہ کا عرفان رکھنے والا اور سب سے زیادہ اس سے ڈرنے والا ہوں“ 

اپنے محبوب کو کس قدر مشکلات کی بھٹی سے گزارا۔ اپنے مراد اور مطلوب کو کس قدر خوفناک حالات میں مبتلا رکھا۔ یہ سب کچھ بلاوجہ نہیں تھا۔ اس سے مقصود جنت میں اعلی و ارفع مقامات پر فائز کرنا تھا۔ جیسا کہ ہم اشارہ کر آئے ہیں۔ کیونکہ جنت میں اعلی درجات اور ارفع منازل دنیا میں نیک اعمال کی وجہ سے عطا کیے جاتے ہیں۔ 

دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ اوامر کی ادائیگی اور نواہی سے اجتناب کے بعد انبیاء و اولیاء کے اعمال صبر ورضا اور حالت بلا میں موافقت پر مبنی ہوتے ہیں۔ پھر انہیں ان مصائب و آلام سے نجات دیگر انعام و اکرام سے ابد الآباد تک نوازا جاتا ہے۔

روز قیامت کی فکر انسان کو دوسروں سے بیگانہ بنادے کی

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے فرمایا : دیندار طبقہ میں سے جو لوگ دینی ضروریات نماز جمعہ اور دوسری نمازپنجگانہ کیلئے یا ضروریات دنیوی کیلئے بازاروں میں جاتے ہیں۔ 

تو ان میں سے کچھ تو ایسے ہوتے ہیں جو بازار جا کر طرح طرح کی شہوات و لذات کو دیکھتے ہیں تو یہ چیزیں انہیں اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہیں وہ انہیں دل دے بیٹھتے ہیں اور فتنہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یہ چیز ان کی بربادی ، ترک دین، پاکبازی کا سبب بن جاتی ہے۔ وہ طبیعت کی موافقت پر اتر آتے ہیں۔ خواہشات کی اتباع کرنے لگتے ہیں ہاں اگر اللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے ان کی دستگیری فرمائے۔ انہیں محفوظ رکھے اور صبر و عمل کی توفیق دے دے توده محفوظ رہ جاتے ہیں اور بھٹکتے نہیں۔ 

دوسراگروہ ان لوگوں کا ہے جن کی دنیاوی نعمتوں پر جب نظر پڑتی ہے اور ہلاک ہونے کے قریب ہوتے ہیں اور اپنی عقل اور دین کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ دل کو مضبوط کر لیتے۔ تکلفاً استقامت اختیار کرتے ہیں اور دنیا کو ترک کرنے کا کڑوا گھونٹ پی لیتے ہیں طبیعت اور خواہش کے خلاف جنگ لڑتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے آخرت میں بڑا اجر لکھا جاتا ہے۔ 

حدیث مبارکہ میں ہے کہ آپ نے فرمایا : يكتب للمؤمن بترك الشهوة عند العجز عنها او عنه القدرة عليها سبعين حسنة۔

بندہ مومن کو ترک شہوت پر ستر نیکیاں ملتی ہیں۔ خواہ وہ ترک شہوت سے عاجز ہو یا اس پر قدرت رکھتا ہو۔ 

تیسراگروہ ان لوگوں کا ہے جو ان نعمتوں سے پوری طرح لطف لیتے ہیں اور اللہ تعالی کے فضل و کرم کے ساتھ انہیں حاصل کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کو اللہ تعالی نے دنیاوی مال و متاع سے حظ وافر عطا فرمارکھا ہوتا ہے۔ وہ ان نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور اس پر اس کریم کا شکر ادا کرتے ہیں۔ 

چوتھا گر وہ ان لوگوں کا ہے جو دنیوی چیزوں کو دیکھتے ہیں لیکن ان سے کوئی اثر قبول نہیں کرتے۔ وہ ماسواللہ سے اندھے بن جاتے ہیں۔ انہیں الله تعالی کے علاوہ اور کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ وہ بہرے ہو جاتے ہیں اور غیر کی آواز کو سن نہیں پاتے وہ اپنے مقصود و مطلوب میں اس طرح مشغول ہوتے ہیں کہ غیر کی طرف نگاہ کرنے کی فرصت ہی نہیں رکھتے۔ وہ خلق سے اس قدر لا تعلق ہو چکے ہوتے ہیں کہ دیکھ کر بھی کچھ نہیں دیکھتے۔ آپ پوچھیں کہ بازار میں کیا دیکھا تو کہیں گے کہ اس کے سواء تو ہمیں کچھ نظر ہی نہیں آیا۔ 

بے شک انہوں نے بازار میں بکھری دنیاوی نعمتوں کو دیکھا۔ مگر دل کی آنکھ سے نہیں ظاہری آنکھوں سے دیکھا۔ دل جمال یار کے مزے لوٹتا رہا۔ اس لیے وہ دیکھ کر بھی کچھ نہ دیکھ پائے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہنا چاہیئے کہ انہوں نے صورت کو دیکھا مگر معنی سے لا تعلق رہے۔ انہوں نے ظاہر کو دیکھا مگر اشیاء کے باطن سے اندھے بنے رہے۔ ظاہری طور پر توان کی آنکھیں بازار کی چیزوں کو دیکھ رہی تھیں لیکن در حقیقت نگاہوں میں اللہ کریم کے جلوے بسے ہوئے تھے۔ انہیں ہر طرف اللہ تعالی کا جلال و جمال نظر آرہا تھا۔ 

پانچواں گروہ ان لوگوں کا ہے جن کے دل میں اللہ کی مخلوق کا درد ہوتا ہے جب وہ بازار میں داخل ہوتے ہیں تو یہ جذبہ شفقت انہیں لذات دنیوی سے بیگانہ کر دیتا ہے۔ بازار میں داخل ہونے سے لیکر نکلنے تک وہ خلق خدا کیلئے دعاء استغفار ، رحمت ، شفاعت اور شفقت کا سوال کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالی کی مخلوق کو دیکھ کر ان کا دل جل اٹھتا ہے۔ آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں۔ زبان اللہ تعالی کی حمد و ثناکر نے لگتی ہے۔ اور وہ اللہ تعالی کی عطا کردہ ان نعمتوں پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو خلق خد اور بستیوں پر اللہ تعالی کی طرف سے کوتوال اور محافظ ہوتے ہیں۔ اگر آپ چاہیں تو انہیں عارف، ابدال ، زاہد عالم ، اعیاں، او تاد محبوب، مراد زمین میں اللہ کے نائب ، سفراء، حقیقت شناس ، ہادی ، مہدی، ماہر اور مرشد کہہ سکتے ہیں۔ ایسے لوگوں کبریت احمر اور نادر الوجود ہیں۔ رضوان الله وصلواته عليهم. وعلى كل مومن مريد لله عزوجل وصل الى انتھاء المقام

اللہ تعالی کی نعمتیں بھی ابتلاء و آزمائش ہیں اور اس کا محروم کر نا بھی امتحان ہے

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشاد فرمایا : الله تعالی کبھی اپنے کسی بندے کو دوسروں کے عیوب پر مطلع فرمادیتا ہے۔ جب وہ بنده دوسروں کے جھوٹ ، دعاوی(دعوے) ۔ افعال و اقوال اور باطن و نیت کے شرک سے آگاہ ہو جاتا ہے تو اپنے رب ، اس کے رسول اور دین کے بارے غیرت کا مظاہر ہ کر تا ہے۔ اس کا دل غیرت دینی سے جل اٹھتا ہے اور پھر وہ اس کا اظہار بھی کر بیٹھتا ہے۔ (اور وہ کہہ اٹھتا ہے)

شرک کے ساتھ توحید کا دعوی کیسے ہو سکتا ہے شرک کفر ہے اور قرب حق سے انسان کو دور کرنے کا موجب ہے۔ یہ شیطان لعین دشمن خدا کی صفت ہے۔ یہ منافقین کاوطیرہ ہے جنہیں جہنم کے سب سے نچلے درجہ میں ہمیشہ کیلئے جانا ہے۔ غیرت دینی کی وجہ سے اللہ تعالی کاولی ایسے بد بخت کی کارستانیوں کو عیاں کر تا ہے۔ اس کے عیوب ۔ افعال خبیثہ اور اس کے جھوٹے دعاوی(دعوے)  کی قلعی کھولتا ہے۔ اور لوگوں کو بتاتا ہے کہ صد یقین کے احوال اور فنا فی القدر کے اس کے تمام دعوے محض جھوٹ ہیں۔ یہ سب کچھ اس کے مکر و فریب کے جال کو تار تار کرنے اور اسے نصیحت کرنے کی غرض سے ہو تا ہے۔ اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ الله تعالی کے فعل کو اس پر غلبہ ہو تا ہے وہ اسی کے ارادے سے گفتگو کر رہا ہوتا ہے۔ وہ اس جھوٹ افتر پرداز پر اپنے غصے کا اظہار کر رہا ہو تا ہے۔ 

لوگ اسے غیبت خیال کر بیٹھتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ اللہ کا دوست لوگوں کی غیبت کر رہا ہے۔ حالانکہ یہ ممنوع ہے۔ کیا یہ شخص دوسروں کی پیٹھ پیچھے غیبت جوئی کر رہا ہے۔ 

لوگوں کے حق میں یہ اعتراض بہتر ثابت نہیں ہوتا بلکہ حسب ارشاد ربانی زیادہ نقصان کا موجب بنتا ہے۔ 

وَإِثْمُهُمَا ‌أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِمَا اور ان کا گناہ بہت بڑا ہے ان کے فائدے سے“ 

ظاہر میں تو یہ برائی سے نفرت کا اظہار ہے لیکن حقیقت میں الله تعالی کی ناراضگی کا سبب اور اس پر اعتراض ہے۔ پس منکر ولی کی حالت حیرت و توقف میں بدل جاتی ہے۔ اسے سکوت و بر داشت چاہیئے تھا اور اللہ تعالی کے اس ولی کی بات کی تاویل لازم تھی نہ کہ اعتراض اور اللہ کے ولی پر جھوٹا طعن۔ اور کبھی ایسا بھی ہو تا ہے کہ اللہ تعالی کے ولی کی ناراضگی اور غصہ اس شخص کی اصلاح کا سبب بن جاتا ہے۔ وہ توبہ واستغفار کر لیتا ہے۔ اخلاق رذیلہ سے مجتنب ہو جاتا ہے۔ اور جہالت و حیرت سے رجوع کر لیتا ہے۔ پس یہ چیز ولی اللہ کے حق میں جہاد اور مغرور و متکبر شخص کے لئے باعث بخشش ثابت ہوتی ہے۔ 

وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ ‌مُسْتَقِيمٍ اور الله تعالی پہنچاتا ہے جسے چاہتا ہے سیدھی راہ تک

روشنی چراغ کا پتہ دیتی ہے اور خوشبو کلیوں کا

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے فرمایا: ایک عقلمند انسان سب سے پہلے اپنی ذات اور جسمانی ترکیب میں غور و خوض کر تا ہے۔ پھر تمام مخلوقات اور موجودات میں فکر و تامل کر تا ہے۔ انفسی و آفاقی یہ دلائل اسے خالق و صانع کا پتا دیتے ہیں کیونکہ صنعت صانع پر اور قدرت محکمہ فاعل حکیم پر دلالت کرتی ہے۔ سب اشیاء کا وجود اللہ کریم کی قدرت کی مرہون منت ہیں۔ 

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے آیت کریمہ وَسَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ‌جَمِيعًا ‌مِنْهُ اور اس نے مسخر کر دیا تمہارے لیے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب کا سب اپنے حکم سے“ 

سے یہی معنی مراد لیا ہے۔ فرماتے ہیں۔ ہر چیز اللہ تعالی کے اسماء میں سے کسی اسم کی مظہر ہے۔ اور ہر چیز کا نام و نشان اس کے نام کے اثر سے ہے۔ اے انسان!) تو خود اللہ تعالی کے اسماء ، اس کی صفات اور اس کے افعال کا پرتو ہے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ قدرت حق میں پوشیدہ اور حکمت الہی سے ظاہر ہے۔ حق سبحانہ اپنی صفات کے ذریعے ظاہر ہے اور اپنی ذات کے اعتبار سے پوشیدہ ہے۔ذات صفات کے پردوں میں مخفی جب کہ صفات افعال کے پردوں میں پوشیدہ ہیں۔ وہ علم کو اپنے ارادہ سے ظاہر فرماتا ہے اور ارادہ کو حرکات سے عیاں کر تا ہے۔ اپنے کام کو اور کاریگری کو پوشیدہ فرمایا اور پھر اپنے ارادہ سے صنعت کو عیاں کر دیا۔ وہ اپنی ذات میں غائب اور حکمت اور قدرت میں ظاہر ہے۔ اس جیسی کوئی چیز نہیں۔ وہ سب کچھ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ حضرت ابن عباس نے اس کلام میں ان اسرار و معرفت کو بیان فرمایا ہے جو صرف ایسے دل پر ظاہر ہو سکتے ہیں جس میں الہی نور ضوفگن ہو۔ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما وه شخصیت ہیں جن کے بارے نبی مکرم ﷺنے بارگاہ خداوندی میں دعا فرمائی اور التجاکی ۔ اے اللہ ا نہیں دین کی سمجھ عطافرما اور انہیں تاویل کا علم عطا کر۔ 

اللہ تعالی ہمیں ان کے فیوض و برکات سے مستفیض فرمائے اور ہمارا حشر انہیں پاکان امت کے ساتھ ہو۔ آمین۔

 ہر امر کی ایک حقیقت ہوتی ہے اور ہر عمارت کے ستون 

حضرت شیخ رضی اللہ تعالی عنہ وارضاه نے فرمایا : میں تمہیں وصیت کر تا ہوں کہ اللہ تعالی سے ڈرتے رہنا۔ اس کی فرمانبرداری کرنا۔ ظاہری شریعت کو لازم پکڑنا اپنے دل سے ہر برائی نکال دینا۔ جو دوسخی اور خوش خلقی کا مظاہر ہ کرنا کسی کو تکلیف نہ دینا۔ فقر و افلاس اور تکالیف پر صبر کرنا۔ مشائخ کی عزت و تکریم کرنا۔ بھائیوں سے حسن معاشرت رکھنا۔ چھوٹوں اور بڑوں کو نصیحت کرنا عداوت اور نفرت کو ترک کرنا ۔ ایثار و قربانی اختیار کرنا۔ ذخیرہ اندازی سےبچنا۔ بروں کی صحبت سے احتراز کرنا۔ دین ودنیا کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنا۔ 

حقیقت فقر یہ ہے کہ تو اپنے جیسے کسی انسان کا محتاج نہ ہو۔ اور غنا کی حقیقت یہ ہے کہ اپنے ہم جنسوں سے بے نیازبن جا۔ 

تصوف کا تعلق قیل و قال سے نہیں۔ یہ نعمت ریاضت سے ہاتھ آتی ہے۔ اس کیلئے بھوک سہناپڑتی ہے۔مالوفات و مستحسنات ترک کرنے پڑتے ہیں۔ کسی درویش سے شروع میں علم و ادب کا مطالبہ نہ کر۔ اس سے نرمی اور محبت کا رویہ اختیار کر ۔ کیونکہ یہ مطالبہ اسے وحشت میں ڈال دے اور رفق و نرمی انس ومحبت کا نتیجہ ہوگی۔ 

تصوف آٹھ خصلتوں پر مبنی ہے۔ سخاوت ابراہیم علیہ السلام، رضائے اسحاق علیہ السلام 

صبر ایوب علیہ السلام، اشارہ زکریا علیہ السلام، غربت یحیٰ  علیہ السلام، خرقہ پوشی موسی علیہ السلام، سیاحت عیسی علیہ السلام اور فقر سیدنا و نبینا محمد ﷺ

لوگوں سے حسن خلق برتیے

 ۔ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے فرمایا : میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ اغنیاء سے ملنا تو خود داری برتنا۔ فقراء کے ساتھ عاجزی اور انکساری سے پیش آنا۔تذلل و اخلاص اختیار کرنا یعنی اللہ تعالی کو ہمہ وقت حاضر و ناظر یقین کرنا۔ اسباب کے پیدا کرنے میں اللہ کو الزام نہ دینا۔ ہمیشہ اس کے حضور اپنی نا توانی اور محتاجی کا اظہار کرتے رہنا۔ باہمی محبت پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے دوست کے حق کو ضائع نہ کرنا۔ 

فقراء کی صحبت میں تواضع، حسن ادب اور سخاوت کا خاص خیال رکھنا۔ نفس کشی میں لگے رہنا یہاں تک کہ تجھے زندگی مل جائے الله تعالی کے قریب ترین وہ شخص ہے جو لوگوں میں سب سے زیادہ حسن خلق رکھتا ہے۔ بہترین اعمال غیر اللہ سے دل کو خالی کرنا اور خالق کی طرف عدم التفات ہے۔ 

تجھ پر حق اور صبر کی تلقین لازم ہے۔ اور دنیا میں دو چیزیں تیرے لیے کافی ہیں۔ ایک فقیر کی صحبت اور دوسرے اللہ کے کسی دوست بندے کی خد مت فقیر سے مراد وہ شخص ہے جو لوگوں سے کچھ نہ چاہتاہو۔ اپنے سے کمتر پر سختی اور دبدبہ کمزوری ہے۔ اپنے سے بلند مرتبہ پرد بدبہ فخر اور اپنے جیسے کسی شخص پر سوئے خلقی ہے۔ 

: فقر اور تصوف کا لب لباب جہد مسلسل ہے۔ اس میں کسی لہوولعب کی 

گنجائش نہیں۔ اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو توفیق عطا فرمائے۔ 

( مرید کی تربیت میں مشائخ تربیت کا خاص خیال رکھتے۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ ہمارے شیخ  بیان کیا کرتے تھے کہ ایک ہندوستانی درویش مکہ مکرمہ میں ہمارےشیخ کی صحبت میں رہنے لگا۔ داڑھی نہ رکھنے کی وجہ سے دوسرے درویشوں نے اسے برا بھلا کہا۔ 

شیخ نے فرمایا ایسانہ کرو۔ تمہاری یہ باتیں اسے متوحش کر دیں گی اور وہ میری صحبت سے محروم ہو جائے گا۔ آپ نے اس سے بڑی محبت و رواداری کابرتاؤرکھااور ایک دن فرمایا کہ بیٹا! یہ کام برا ہے۔ میرے شیخ  طلبہ کی تربیت میں اس بات کا خاص لحاظ فرماتے۔ ترک سنت کو برا سمجھتے مگر کسی طالب علم اور مرید پر سختی نہ فرماتے۔ ہمیشہ پند و نصائح سے سنت کی اہمیت کو اجاگر فرماتے اور ایسےدل نشین اور محبت بھرے انداز میں نصیحت کرتے کہ ترک سنت پر ندامت محسوس ہوتی ۔ ایک بار کچھ لوگوں نے سختی کر نے کا مشورہ دیا۔ تارک سنت کو دارالعلوم سے نکال دینے کا مشورہ دیا کہ یہ چیز دین کے طلبہ کو زیبا نہیں مگر آپ نے یہ مشورہ قبول نہ کیا کہ یہاں سے نکلنے کے بعد یہ فرائض بھی ترک کرنے لگیں گے۔ )

ضبط نفس مسرتوں کاذر یعہ ہے

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ و ارضا نے فرمایا : اے اللہ کریم کے دوست تجھ پر اللہ تعالی کی یاد لازم ہے کیونکہ یہ عبادت ہر بھلائی کو جامع ہے۔ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لے کیونکہ یہ ہر نقصان سے بچنے کا ذریعہ ہے۔ اپنے آپ کو مصائب و آلام کیلئے تیار رکھ۔ تاکہ جب فیصلے کی گھڑی آئے اور کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہو تو توسر تسلیم و رضا جھکا سکے۔ زندگی میں بارہا مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے ایسے میں اللہ کے فیصلے پر راضی رہنا سود مند ثابت ہوتا ہے۔ 

جان لے کہ تجھ سے تیری حرکات و سکنات کے بارے پوچھا جائے گا۔ 

اب جو چیز بہتر ہے اسے اپنالے اور فضول و لایعنی امور سے اجتناب کر۔ 

تجھ پر اللہ تعالی، اس کے رسول اور حاکم کی اطاعت لازم ہے۔ فرمانروا کے تمام حقوق ادا کر اور اس سے اس کے فرائض کی ادائیگی کا مطالبہ نہ کر اور ہر حال میں اس کے لیے دعا گور ہے۔ 

مسلمانوں کے بارے حسن ظن رکھئیے۔ اور ان کے بارے اچھا سوچئیے۔ بھلائی کے ہر کام میں ان سے تعاون کیجئے۔ ایسی حالت میں تیری رات نہ گزرے کہ کسی کے بارے تیرے دل میں کدورت،بغض  یابری سوچ ہو۔ جو تجھ پر ظلم کرے اس کیلئے تو دعا کر اور نظر ہمیشہ اپنے پرور دگار پر رکھ۔ | اکل حلال کی کو شش کر۔ عرفان الہی سے تہی دامن ہے تو اس بارے اہل علم سے پوچھو اور اللہ عزوجل سے حیاء کر۔ 

ہمنشینی خدا اختیار کر۔ دوسروں سے تعلق بھی اسی کی رضا کی خاطر ہو۔ 

ہر صبح صدقہ و خیرات کر۔ شام ہو تو اس دن رحلت پانے والے مسلمانوں کیلئے دعائے مغفرت کر۔ نماز مغرب پڑھ کر استخارہ کی دعا کر اور دس بار صبح و شاماللَّهُمَّ ‌أَجِرْنَا ‌مِنَ ‌النَّارِ» کاور د کر۔ 

ان آیات کریمہ کا سورت کے اختتام تک درد ضروری ہے۔ أَعُوذُ ‌بِاللَّهِ ‌السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ هُوَ اللَّهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيم اللہ توفیق دینے والا اور مدد فرمانے والا ہے۔ کیونکہ اللہ علی و عظیم کے علاوہ کسی کے پاس قوت و طاقت نہیں کہ انسان نیکی کر ے یا برائی سے بچے۔ 

محبوب کے پاس اکیلے آ

حضرت شیخ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا : اللہ تعالی کے ساتھ اس طرح کا تعلق رکھ کہ گویامخلوق ہے ہی نہیں۔ اور خلق سے یوں تعلق ہو کہ گویا نفس کا وجود ہی نہیں۔ جب تو اللہ تعالی سے بلا خلق تعلق رکھے گا تو توحید میں کامل ہو جائے گا اور ہر ایک سےفانی بن جائے گا۔ اور جب خلق سے بلا نفس تعلق قائم کرے گا تو انصاف کرے گا تقوی کی راہ چلے گا اور مشقتوں سے بچ جائے گا۔ 

سب کو اپنی خلوت گاہ کے دروازے پر چھوڑ دے۔ اور اکیلے اندر جابیٹھ تاکہ اپنی خلوت میں اپنے مونس کو باطن کی آنکھ سے دیکھ سکے ۔ اعمال سے ماوراء عالم کا مشاہدہ کرے۔ نفسانی خواہشات زائل ہو جائیں اور اس مقام تک رسائی حاصل کرے جہاں اللہ کا حکم پایا جاتا ہے اور اس کی قربت میسر آتی ہے۔ تب تیری جہالت علم میں تبدیل ہو گئی۔ بعد قرب میں بدلے گا۔ خاموشی ذکر ین جائے گی اور وحشت کی جگہ انس لے لی گی۔ 

اے دوست!یہاں خلق ہے یاخالق ہے۔ خالق کو اختیار کر لیا ہے تو پھر کہہ۔ فَإِنَّهُمْ ‌عَدُوٌّ ‌لِي إِلَّا رَبَّ الْعَالَمِينَ پس وہ سب میرے دشمن ہیں سوائے رب العالمین کے“ 

میٹھاپھل

حضرت شیخ  رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے اس کے بعد یہ فرمایا : 

جس نے اللہ کی محبت کا مزہ چکھ لیا اسے اس کا عرفان نصیب ہو گیا کسی نے حضرت سے پوچھا۔ جس شخص پر تلخی صفراء غالب ہو وہ شیر ینی یعنی اللہ کی محبت کا مزہ کیسے محسوس کرے گا تو آپ نے فرمایا۔ 

وہ اپنے دل سے شہوتوں کو زائل کر دے۔ اے دوست !جب مؤمن عمل صالح کر تا ہے تو اس کا نفس قلب میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ پھر قلب سر بن جاتا ہے۔ سر فنا ہو تا ہے۔ اور فناوجود میں منقلب(الٹنے والا) ہو جاتا ہے۔

خود سپردگی اختیار کر محفوظ رہے گا

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ و ارضاه نے فرمایا : 

دوستوں کے لیے ہر دروازہ کھلا ہو تا ہے۔ 

اے دوست! فنایہ ہے کہ دیده شہود سے تمام خلق معدوم ہو جائے۔ تیری طبیعت طبع ملائکہ میں تبدیل ہو جائے۔ پھر یہ طبع ملائکہ بھی فنا ہو جائے پھر تو منہاج اول کے ساتھ مل جائے۔ اس مقام پر تیر ارب تجھے پلائے گا جو پلائے گا۔ اور تجھ میں بو ئے گاجوبوئے گا۔ 

اگر اس مقام تک رسائی چاہتا ہے تو اسلام قبول کر۔ پھر اللہ تعالی کے سامنے اپنی گردن جھکا دے۔ پھر اللہ کے بارے علم حاصل کر۔ اس کے بعد معرفت حق حاصل کر اور اس سے اگلے درجے میں اپنے وجود کو اس کی ذات کے ساتھ باقی کر لے۔  زہد ایک گھڑی کا عمل ہے۔ تقوی دو ساعتوں کا اور معرفت ہمیشہ کا۔

معارج کمال

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنه و ارضاه نے فرمایا : اہل مجاہدہ و محاسبہ اور اولو العزم ہستیوں کی دس خصلتیں۔ تم بھی انہیں اپناؤ۔ ان دس خصلتوں کو اختیار کرو گے اور باذن الله ان پر کار بند ہو جاؤ گے توبار گاه الہی سے منازل شریفہ پاؤ گے۔ 

1۔ ان دس خصلتوں میں سے پہلی خصلت یہ ہے کہ انسان اللہ تعالی کے نام کی سچی ہو یا جھوٹی قسم نہ اٹھائے۔ نہ ہی جان بوجھ کر اس گناہ کاار تکاب کرے اور نہ بھول کر کیونکہ جب وہ قسم نہ اٹھانے کا پختہ ارادہ کر لے گا اور اس کا اپنے آپ کو عادی بنا لے گا تو اس سے سہواً بھی یہ غلطی نہیں ہوگی۔ اور اللہ تعالی اس کے لیے اپنے انوار و تجلیات کے دروازے کھول دے گا۔ وہ اس کے فوائد کو اپنے دل میں محسوس کرے گا۔ اور زیادہ پرعزم ہو جائے گا۔ جاننے والے اس کی تعریف کریں۔ پڑوسی تکریم بجا لائیں گے۔ حتی کہ دوست و آشنا اقتداء کرنے لگیں گے اور دیکھنے والے مرعوب ہو جائیں گے۔ 

2۔ دوسری خصلت یہ ہے کہ جھوٹ سے اجتناب کرے۔ نہ کسی کو دھوکہ دینے کی غرض سے جھوٹ بولے اور نہ ہی مزاح کے طور پر۔ کیونکہ جب انسان جھوٹ سے مکمل اجتناب کر لیتا ہے۔ اور دل میں عہد کر لیتا ہے کہ خلاف واقع بات نہیں کرے گا تو وہ سچ کا عادی بن جاتا ہے۔ ہر صورت اس کے منہ سےسچ صادر ہو تا ہے۔ جس کی وجہ سے اللہ تعالی اس کے سینے کو کھول دیتا ہے۔سچائی . اس کے علم کو صاف و شفاف کر دیتی ہے۔ اور کذب سے یوں لا تعلق ہو جاتا ہے کہ گویا وہ اس برائی سے واقف ہی نہیں۔ جب وہ کسی دوسرے شخص سے جھوٹی بات سنتا ہے تو اسے بڑی معیوب لگتی ہے۔ اور دل میں اسے بہت برا سمجھتا ہے۔ اگر وہ جھوٹ سے احتراز کی دعا کر تا ہے تو اللہ تعالی اسے اس کابد لا عطا فرماتا ہے۔

3۔ تیسری خصلت یہ ہے کہ جب انسان کسی سے وعدہ کرے تو اسے پورا کرے اور وعدہ خلافی نہ کرے۔ یا پھر کسی سے وعدہ ہی نہ کرے ۔ ایفائے عہد ایک مفید خصلت ہے۔ اور یہ چیز بہترین روئیے کی غمازی کرتی ہے۔ وعدہ خلافی جھوٹ ہے۔ جب بندہ ایفائے عہد کی خصلت کو اپنالیتا ہے تو اس کیلئے سخاوت اور محبت کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ دوست اسے پسند کرتے ہیں اور اللہ تعالی اپنی زبان قدرت سے اس کی مدح و ستائش کرتا ہے۔ 

4۔ چوتھی خصلت یہ ہے کہ انسان خلق خدا کو ملامت نہ کرے۔ چھوٹی سے چھوٹی مخلوق کو بھی تکلیف نہ دے۔ کیونکہ ملامت سے اجتناب ابرار وصديقين کے اخلاق میں سے ہے ایسے شخص کا انجام اچھا ہو تا ہے۔ وہ دنیا میں الله کی امان میں رہتا ہے۔ اور آخرت میں اس کے لیے بڑے درجات تیار رکھے جاتے ہیں۔

اسے ہلاکت کے گڑھوں میں گر نے سے بچالیا جاتا ہے۔ مخلوق کے شر سے اللہ کریم اسے سلامتی عطا فرماتا ہے۔ اپنے بندوں پر مہربانی کرتے ہوئے اسے رزق عطا کر تا ہے۔ اور اسے اپنا قرب بخشتاہے۔

5۔ پانچویں خصلت یہ ہے کہ انسان کسی کیلئے بد دعانہ کرے۔ اگر وہ زیادتی کر دے تو بھی اس سے سلسلہ کلام بند نہ کرے۔ نہ اس سے انتقام لے۔ اللہ تعالی کی خاطر اس پر صبر و عمل کرے۔ اپنے قول و فعل سے اس سے بدلہ نہ لے۔ یہ خصلت انسان کو اعلى منازل پر فائز کرتی ہے۔ جب بندہ اس خصلت کو اپنا لیتا ہے تو وہ دنیا و آخرت میں بلند مرتبہ حاصل کر لیتا ہے۔ دور و نزدیک کے سب لوگ اس سے محبت و مؤدت کا سلوک کرتے ہیں اس کی دعا قبول ہوتی ہے۔مخلوق میں اسے سربلندی ملتی ہے اور دنیامیں وہ ایمان والوں کے دلوں میں عزت پاتا ہے۔ 

6۔ چھٹی خصلت یہ ہے کہ اہل قبلہ کو کافر، مشرک اور منافق نہ کہے۔ یہ خصلت رحمت کے بہت قریب اور درجہ میں بہت بلند ہے۔ یہ سنت کا کمال ہے۔ اور علم الہی میں دخل اندازی سے کمال پر ہیز ہے۔ اس ذریعہ سے انسان اللہ کی ناراضگی سے بچ جاتا ہے۔ اللہ کی رضا اور رحمت کے بہت قریب پہنچ جاتا ہے۔ یہ اللہ کریم تک پہنچانے کے لیے گویا دروازہ ہے جو انسان کو پوری مخلوق کی رحمت و محبت کا وارث بنادیتاہے۔ 

7۔ ساتویں خصلت یہ ہے کہ انسان گناہوں سےبچے۔ اپنے اعضاء کو غلط کاریوں سے باز رکھے۔ یہ وہ عمل ہے جس کا اس دنیا میں دل اور اعضاء کو فوری بدلا دیا جاتا ہے اور آخرت کیلئے بھی نیکیاں ذخیر ہ کی جاتی ہیں۔ ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہم سب پر احسان فرمائے۔ ہمیں یہ خصلتیں اپنانے کی توفیق دے اور ہمارے دلوں سے سب کدورتوں کو نکال باہر کرے۔ 

8۔ آٹھویں خصلت یہ ہے کہ انسان اپنا بوجھ کسی دوسرے کے کندھوں پر مت ڈالے یہ بوجھ تھوڑا ہو یا زیادہ اسے خود اٹھائے۔ بلکہ دوسری تمام مخلوق کے بوجھ بھی اٹھانے کی کوشش کرے ان کی ضروریات کا خیال رکھے اور ان سے کسی قسم کا لالچ نہ رکھے یہ چیز عبادت گزاروں کیلئے کمال عزت اور متقیوں کے لیے کمال شرف ہے۔ اس چیز سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے اور انسان کے نزدیک پوری مخلوق ایک جیسی بن جاتی ہے۔ جب بندے میں یہ وصف پیدا ہو جاتا ہے تو رب قدوس اس میں غنا، اور ایمان و یقین کا نور پیدا فرما دیتا ہے۔ وہ کسی کو کسی پر ترجیح نہیں دیتاسب مخلوق حق میں اس کے نزدیک برابر ہوتی ہے اسے اس بات پر کامل یقین ہو جاتا ہے کہ اسی میں اہل ایمان کی عزت اور اہل تقوی کا شرف ہے۔یہی اخلاص کا قریب ترین دروازہ ہے۔

9۔ نویں خصلت یہ ہے کہ انسانوں سے کسی قسم کالا لچ نہ رکھے۔ اور ان کے ہاتھوں میں جو کچھ ہے اسے حرص کی نگاہ سے نہ دیکھے۔ دنیا سے بے نیازی بہت بڑی عزت کی بات ہے۔ میں غناء خالص ہے۔ ایسا شخص بہت بڑا بادشاہ ہے۔اسی میں فخر ہے۔ اس سے صافی یقین حاصل ہو تا ہے۔ یہی کامل و صریح  توکل ہے۔ یہ اللہ تعالی پر یقین کا دروازہ ہے۔ زہد کے دروازوں میں سے ایک دروازہ یہ بھی ہے۔ ایک سے زہد و ورع حاصل ہو تا ہے اور بزرگی کی تکمیل ہوتی ہے۔ اور یہی علامت ہے ان لوگوں کی جو دنیا سے کٹ کر اللہ تعالی کے ہورہے ہیں۔

10۔ دسویں خصلت یہ ہے کہ انسان تواضع اختیار کرے۔ کیونکہ اس کے ذریعے عابد کا عمل پختہ ہو تا ہے اس کی قدرت و منزلت میں اضافہ ہو تا ہے اللہ تعالی اور مخلوق کے نزدیک اس کی عزت و رفعت کی تکمیل ہوتی ہے اور دنیاو آخرت کے معاملے میں سے جو چاہتا ہے اس کی قدرت پاتا ہے۔ یہ خصلت تمام خصائل حمیدہ کی اصل ہے۔ اسی ایک خصلت کی باقی تمام خصلتیں گویا شاخیں ہیں اور اس کی تکمیل سے تمام دو سری خصلتیں جنم لیتی ہیں۔ اسی خصلت تواضع کے ذریے بندہ ان منازل کو حاصل کر لیتا ہے جو منازل صالحین کی ہیں اور ان محبوبان خدا کی ہیں جوتنگی و فراخی میں اللہ تعالی سے راضی رہتے ہیں۔ یہ خصلت تقوی کا کمال ہے۔ 

تواضع 

تواضع یہ ہے کہ انسان جس انسان سے ملے اسے اپنے آپ سے بہتر خیال کرے۔ اور کہے کہ ہو سکتا ہے وہ عنداللہ مجھ سے بہتر اور بلند درجہ ہو۔ 

اگر چھوٹا ہے تو کہے اس نے اللہ تعالی کی نافرمانی نہیں کی۔ حالانکہ میں نے گناہ کیے ہیں للذابلاشبہ وہ اس لحاظ سے مجھ سے بہتر ہے۔ اگر بڑا ہے تو کہے اس نے مجھ سے زیادہ اللہ تعالی کی عبادت کی ہے۔ اگر عالم ہو تو کہے کہ اسے وہ نعمت دی گئی ہے جس سے میں محروم ہوں۔ اور جو دولت اسے میسر ہے مجھے حاصل نہیں اور جو وہ جانتا ہے میں اس سے جاہل ہوں۔ وہ اپنے علم کے مطابق عمل کر تا ہے۔ اگر جاہل ہے تو کہے اس نے جہالت کی وجہ سے اللہ تعالی کی نافرمانی کی جبکہ میں نے جانتے بوجھتے گناہ کیا۔ اور میں نہیں جانتا کہ ہم دونوں کا خاتمہ کس پر ہو گا۔ اگر ملنے والا کافر ہو تو کہے کہ کیا خبر کل کو وہ اسلام قبول کر لے اور اس کا خاتمہ بالخیر ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ میں کفر کر بیٹھوں اور میری موت بر ائی پر آئے۔ تواضع شفقت اور مہربانی کا دروازہ ہے۔ یہ بہترین خصلت ہے جسے انسان اختیار کر سکتا ہے اور اسی کااثر ہمیشہ دیرپا ثابت ہو تا ہے۔

جب بندہ اس خصلت کو اپنالیتا ہے تو اللہ تعالی اسے آفات نفسانی سےبچا لیتا ہے اور اسے اس بلند مرتبے تک پہنچادیتا ہے کہ بندہ اللہ تعالی کے بندوں کو اللہ تعالی کیلئے نصیحت کرتا ہے۔ اس کا شمار خاصان بارگاه اور محبوبان پرور دگار میں ہونے لگتا ہے۔ اور وہ دشمن خدا ابلیس لعین کا سخت ترین دشمن بن جاتا ہے۔یہی رحمت کا دروازہ ہے۔ 

اس کے علاوہ انسان کی زبان دوسروں کی غیبت اور لایعنی باتوں سے رک جاتی ہے۔ بس کوئی عمل تواضع کے بغیر تکمیل پذیر نہیں ہو تا۔ تواضع دل سے کبر و نخوت بغض و کینہ اور دوسری تمام برائیوں کو نکال دیتی ہے۔ جلوت و خلوت یکساں بن جاتی ہے۔ ظاہر وباطن ایک اور قلب و زبان میں یکسانیت آجاتی ہے۔ انسان خلق خدا کی بھلائی چاہنے لگتا ہے۔ کسی کو کسی پر فضیلت نہیں دیتا۔ کسی کو اس وقت تک نصیحت نہیں کرتا جب تک کسی ایک شخص کو بھی برے لفظوں سے یاد کر رہا ہو تا ہے۔ یا کسی کی عیب جوئی کو پسند کر رہا ہو تا ہے۔ عیب جوئی عبادت گزاروں کیلئے زہر قاتل ہے۔ اور زاہدوں کے لیے موت اور ہلاکت کا پیغام ہے۔ ہاں جس کی اللہ تعالی مدد فرمائے اور اس کے دل اور زبان کو اپنے فضل و کرم اور احسان سے محفوظ کر لے تو وہ ہلاکت سے بچ جاتا ہے۔

سیرابی صرف پانی سے ممکن ہے

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ ارضاہ نے فرمایا اور یہ 

نصیحت آپ نے مرض الموت میں فرمائی گویا اس کی حیثیت وصیت کی ہے۔ 

آپ کے بیٹے عبد الوهاب نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں عرض کی۔ حضور! ہمیں کوئی ایسی نصیحت فرمائے۔ جس پر آپ کے وصال کے بعد ہم عمل پیرا ہو سکیں۔ آپ نے فرمایا الله تعالی سے ڈرتے رہو۔ اس کے علاوہ دل میں کسی اور کا خوف نہ رکھو۔ صرف اسی سے امیدیں وابستہ کرو۔ ہر چیز اسی سے مانگو۔ تمام ضروریات کا اس کو کفیل سمجھو صرف اس پر توکل کرو۔ اس کی بارگاہ میں التجاکرو کسی اور پر بھروسہ نہ کرو۔ توحید پر قائم رہو۔ اور ہر طرح سے اللہ تعالی کو وحده لا شر یک یقین کرتے رہو۔ 

اے اللہ ! میں تیری ملا قات کو پسند کرتا ہوں تو بھی میری ملاقات کو پسند فرما

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنه و ارضاه نے فرمایا : جب دل کا معاملہ اللہ تعالی کے ساتھ جمع ہو جاتا ہے تو کوئی چیز اس سے نہیں نکلتی اور کوئی چیز اس سے خالی نہیں ہوتی۔ (یعنی علم و معرفت سے دل خالی نہیں ہو تا اور حکمت اس سے جدا نہیں ہوتی)

آپ رضی اللہ تعالی عنہ و ارضاہ نے فرمایا: میں ایسامغز ہوں جس کا چھلکا نہیں۔ اور اپنی اولاد سے فرمایا : مجھ سے دور ہو جاؤ ظاہر میں تمہارے ساتھ ہوں لیکن باطن کسی اور کی معیت مجھے حاصل ہے۔ 

فرمایا : میرے پاس کچھ اور لوگ آتے ہیں ان کے لیے جگہ چھوڑ دو۔ ان کا ادب کرو۔ رحمت عظیم یہاں ہے۔ ان کے لیے جگہ تنگ نہ کرو۔ 

آپ فرماتے جاتے تھے۔ السلام علیکم ورحمۃ الله و برکاته ! اللہ تعالی مجھے بھی اور آپ کو بھی بخش دے۔ اللہ تعالی مجھ پر اور آپ لوگوں پر رحمت فرمائے۔ بسم اللہ تشریف لائیے ۔ مگر مجھے چھوڑ کر جانے کیلئے نہیں(یعنی میں وصال خداوندی چاہتا ہوں)۔ ایک دن اور ایک رات تک آپ رضی اللہ تعالی عنہ یہی فرماتے رہے

یہ بھی فرمایا: تم پر افسوس ! مجھے کسی چیز کی پرواہ نہیں۔ نہ ملک الموت سے اور نہ کسی اور فرشتے سے۔ ہماری ذمہ داری اپنے سوا کسی اور پر مت ڈال۔ یہ کہہ کر آپ نے نعرہ بلند کیا اور اسی روز عشاء کے وقت آپ اپنے خالق سے جا ملے۔ 

آپ کے بیٹوں عبدالرزاق اور موسی رحمہما اللہ تعالی نے بتایا ہے کہ آپاپنے دونوں ہاتھ بلند کرتے پھر انہیں نیچے کر لیتے اور فرماتے ۔ وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ  برکا تہ توبہ کرو اور نیک لوگوں کی صف میں داخل ہو جاؤ۔ یہ تمہارے پاس بھی آیا چاہتا ہے۔ اور فرماتے۔ نری اختیار کرو۔ پھر اس کے پاس حق اور مستی موت آئے 

یہ اللہ تعالی کے اس ارشاد گرامی تلمیح (اشارہ)ہے وَجَاءَتْ ‌سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ) آپ رضی اللہ عنہ نے یہ بھی فرمایا : تمہارے اور میرے در میان اور تمام مخلوق کے در میان اس قدر بعد اور دوری ہے جس قدر بعد اور دوری زمین اور آسمانوں کے در میان ہے۔ مجھے دوسروں پر قیاس نہ کرو اور نہ دوسروں کو مجھ جیسا سمجھو۔ 

آپ کے بیٹے عبدالرزاق نے پوچھا۔  طبیعت کیسی ہے۔ جسم میں کہیں درد تو نہیں۔ آپ نے فرمایا : مجھ سے کچھ مت پوچھو۔ میں بحر عرفان میں غوطہ زن ہوں۔ آپ کے بیٹے عبدالعزیز نے بیماری سے متعلق پوچها تو فرمایا : میری مرضی کو کوئی نہیں جانتا۔ اور نہ کسی کی سمجھ میں آسکتی ہے۔ اس سے آگاہی انسان کے بس کا روگ نہیں۔ میری بیماری جن اور فرشتہ کی سمجھ سے بھی بالاتر ہے۔ اللہ کے حکم سے اللہ تعالی کا علم نا قص نہیں ہو جاتا۔ حکم بدلتا ہے اور علم لا تبدیل ہے۔حکم منسوخ ہو جاتا ہے مگر علم منسوخ نہیں ہو سکتا۔ 

‌يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتَابِ  مٹاتا ہے اللہ تعالی جو چاہتا ہے اور باقی رکھتا ہے  جو چاہتا ہے۔ ظاور اس کے پاس ہے اصل کتاب

 لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ نہیں پرسش کی جاسکتی اس کام کے متعلق جو وہ کر تا ہے اور ان تمام سے باز پرس ہوگی“ 

صفات الہی کی خبریں جو ہمیں کلام اللہ سےپہنچی ہیں وہ دنیا کے اندر اس طرح ظہور پذیر ہوتی رہتی ہیں۔ 

آپ کے بیٹے حضرت عبد الجبار نے پوچھا : کیا جسم میں کہیں درد ہے؟ 

فرمایا : دل کے سوا جسم کا انگ انگ میرے لیے باعث تکلیف ہے۔ دل محفوظ ہے اور اللہ تعالی کے ساتھ اس کا معاملہ ہے۔ 

پھر آپ کی زبان اقدس پر یہ کلمات جاری ہوئے : اس ذات سے مدد طلب کر تا ہوں جس کے سواء کوئی معبود نہیں۔ جو زندہ ہے اور جس کے لیے فنا نہیں۔ ہر عیب سے پاک ہے۔ بلند ہے۔ زندہ ہے۔ موت سے نہیں ڈرتا۔ اپنی قدرت سے ہر چیز پر غالب ہے۔ تمام کو موت دیکر فنا کرنے والا ہے۔ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ اور محمدﷺالله تعالی کے رسول ہیں۔ 

مجھے آپ کے فرزند موسی رحمۃ اللہ علیہ نے بتایا کہ آپ نے یہ بھی فرمایا : ( تعزز) غالب ہے۔ اگر آپ اس لفظ کو صحیح طریقے سے ادا نہ کر سکے۔ آپ یہی کلمہ بار بار دہراتے رہے پھر زبان صحیح ہو گئی ۔ اور ازیں بعد تین بار الله الله الله کہا۔ آواز پست ہو گئی۔ زبان تالو سے لگ گئی۔ اور روح مبارک قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ رضی اللہ تعالی عنہ ۔ 

اللہ تعالی ہمیں ان کی برکتوں سے مستفیض فرمائے ۔ ہمارا خاتمہ بالایمان کرے۔ اور تمام مسلمانوں کو ایمان کی دولت عطافرمائے۔ ان تمام کی موت اسلام پر ہو۔ اور ہم سب کو نیک بندوں سے ملائے۔ رسوائی اور عذاب سے محفوظ رکھے۔ تمام تعریف اللہ رب العالمین کیلئے ہیں۔ 


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں