اطاعت سے معصیت افضل (باب  دہم)

اطاعت سے معصیت افضل کے عنوان سے  باب  دہم میں  حکمت نمبر 96 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
تو اس قسم کی غیر مقبول طاعت سے وہ معصیت افضل ہے جس کے ساتھ عاجزی و انکساری ہو۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کو اپنے قول میں بیان فرمایا ہے:
96) مَعْصِيَةٌ أَورَثَتْ ذُلاً وافْتِقاراً خَيرٌ مِنْ طاعَةٍ أوْرَثَتْ عِزّاً وَاسْتِكْباراً.
وہ معصیت جو ذلت اور محتاجی پیدا کرے، اس طاعت سے بہتر ہے۔ جو شوخی اور تکبر پیدا کرے ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتاہوں : حقیقتاً، جو معصیت عاجزی کا سبب ہو۔ اس طاعت سے افضل ہے، جو فخر اور تکبر کا سبب ہو۔ حضرت نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا ہے۔
انا عِندَ الْمُنْكَسِرَةِ قُلُوبُهُمْ مِنْ أَجْلِى میں ان لوگوں کے قریب ہوں جنکے قلوب میری وجہ سے عاجزی کرتے ہیں۔
اور طاعت سے مقصود: خشوع و خضوع ، فرماں برداری ، اور عاجزی ہے۔ تو جب طاعت صفات سے خالی ہو جاتی ہے۔ اور ان کے مخالف بری صفات سے موصوف ہو جاتی ہے۔ تو جوگناہ ان بہترین صفات کا سبب ہوتا ہے۔ اور ان خوبیوں کو پیدا کرتا ہے۔ وہ اس طاعت سے افضل ہے اس لئے کہ نہ طاعت کی ظاہری شکل کا کوئی اعتبار ہے۔ نہ معصیت کی ظاہری شکل کا۔ بلکہ در حقیقت اعتبار صرف اس نتیجہ کا ہے۔ جو ان دونوں (طاعت اور معصیت) سے حاصل ہوتا ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:
إِنَّ اللَّهَ لَا يَنظُرُ إِلى صُورِكُمْ وَلَا إِلى اِعْمَالِكُمْ، وَإِنَّمَا يَنظُر إلى قُلُوبِكُم بے شک اللہ تعالیٰ نہ تمہاری صورتوں کی طرف دیکھتا ہے، نہ تمہارے اعمال کی طرف دیکھتا ہے۔ بلکہ وہ صرف تمہارے قلوب کی طرف دیکھتا ہے۔
پس طاعت کا نتیجہ عاجزی ہے۔ اور معصیت کا نتیجہ تکبر ہے۔ نتائج بدل جاتے ہیں۔ توحقیقتیں بھی بدل جاتی ہیں۔ اور طاعت معصیت ہو جاتی ہے۔اور معصیت طاعت بن جاتی ہے۔
اس لئے حضرت محاسبی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: اپنے بندوں سے اللہ تعالیٰ کا مقصود سےدر حقیقت ان کے قلوب ہیں ۔ تو جب عالم یا عابد نے تکبر کیا۔ اور جاہل یا گناہ گار نے عاجزی کیا ۔ اور اللہ عزوجل کے خوف سے ذلت اور شرمندگی اختیار کی۔ تو وہ اپنے قلوب کے ساتھ اللہ عزوجل کا زیادہ طاعت گزار وفرماں بردار ہے۔ حضرت شیخ ابو العباس مرسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: جس بے ادبی کا نتیجہ ادب ہو ، وہ ہےادبی نہیں ہے۔
اور حضرت شیخ ابو العباس رضی اللہ عنہ، اللہ تعالیٰ کے بندوں کے لئے زیادہ امید رکھنے والے تھے۔ اور ان کے اوپر رحمت کی وسعت کا مشاہدہ غالب تھا اور حضرت شیخ رضی اللہ عنہ آدمیوں کی عزت و تعظیم اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کے مرتبہ کے موافق کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ اکثر اوقات ان کے پاس کوئی طاعت گزار آتا تھا تو اس کی بالکل پرواہ نہیں کرتے تھے ۔ اور اکثر اوقات ان کے پاس کوئی گناہ گار آتا تھا، تو اس کی عزت و تعظیم کرتے تھے۔ اس لئے کہ وہ اطاعت کرنے والا اس حالت میں آتا تھا۔ کہ وہ اپنے عمل پر متکبر ہوتا تھا۔ اور اس کی نظر اپنے فعل پر ہوتی تھی۔ اور وہ گناہگار اپنے گناہ کی کثرت اور شرمندگی و عاجزی کے ساتھ ان کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا۔ اس واقعہ کو مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنی کتاب لطائف المنن میں بیان فرمایا ہے۔
حضرت ابو یزید رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: مجھے میرے سر میں آواز دی گئی: میرے خزانے خدمت سے بھرے ہوئے ہیں۔ تو اگر تم ہم کو چاہتے ہو، تو ذلت اور عاجزی اپنے اوپر لازم کرو۔
حضرت رسول اللہ ﷺنے فرمایا ہے: الَوْ لَمْ تُذْنبُوا الخَشِيتُ عَلَيْكُمْ مَا هُوَ اشَدُّ مِنْ ذَالِكَ الْعُجْبُ كَذَا فِي الصَّحِيحَيْنِ
اگر تم لوگوں نے گناہ نہں کیا تو مجھے یہ خوف ہے، کہ تم لوگ گناہ سے بھی زیادہ سخت برائی میں نہ مبتلا ہو جاؤ۔ اور وہ عجب (فخر اور خود پسندی) ہے یہ حدیث صحیحین یعنی بخاری و مسلم میں وارد ہے
اور دوسری حدیث میں حضرت نبی کریم ﷺنے فرمایا ہے۔
لَو لَا أَنَّ الذَّنْبَ خَيْرٌ مِّنَ الْعُجْبِ مَا خَلَا اللَّهُ بَيْنَ الْمُؤْمِنِ وَالذَّنْبُ اَبَدًا
اگر گناہ عجب سے بہتر نہ ہوتا تواللہ تعالیٰ مومن اور گناہ کے درمیان کبھی نہ ہوتا
حضرت شیخ ابومدین رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: گناہگار کی انکساری، اطاعت گزار کی عظمت اور رعب سے بہتر ہے۔ ہمارے شیخ الشیوخ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے اللہ تعالیٰ کے ساتھ معصیت نفس کے ساتھ ، ہزار طاعت سے بہتر ہے۔ حضرت شیخ کے کلام کا مفہوم یہ ہے: جب بندے پر کوئی ایسی لغزش جاری کر دی جاتی ہے جس کا وہ اپنے دل میں ارادہ نہیں کرتا ہے بلکہ قدرت اس کو اس لغزش کی طرف اس کی ناگواری کے باوجود کھینچ لے جاتی ہے۔ پھر وہ نادم ہوتا اور عاجزی کرتا ہے۔ تو وہ لغزش اس کے حق میں ان ہزاروں طاعتوں سے بہتر ہے جن میں وہ اپنے نفس کا مشاہدہ کرے اور جس کی وجہ سے وہ اللہ کے بندوں پر فخر کرے۔
عینیہ کے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے کیا خوب اشعار فرمائے ہیں:
وَاسْلَمْتُ نَفْسِي حَيْثُ أَسْلَمَنِي الْهَوَى وَمَا لِي عَنْ حُكْمِ الْحَبِيبِ تَنَازُعُ
میں نے اپنے نفس کو اس کے سپرد کر دیا۔ جس کے سپر د مجھے عشق نے کیا۔ اور مجھ کو دوست کے حکم سے کوئی اختلاف نہیں ۔
فَطَورًا تَرَانِي فِي الْمَسَاجِدِ رَاكِعاً وَإِنِّي طَوْراً فِي الْكَنَائِسِ رَائِعُ
پس تم مجھ کو بھی مسجدوں میں رکوع کرتے ہوئے اورکبھی کنیسوں میں مقیم دیکھتے ہو۔
ارَانِي كَالأَلَاتِ وَهُوَ مُحَركي أَنَا قَلَمْ وَالْإِقْتِدَارُ أَصَابِعُ
میں اپنے کومشین کی طرح دیکھتا ہوں ۔ اور وہی مجھ کو حرکت دینے والا ہے ۔ میں قلم ہوں اورطاقت واختیار انگلیوں میں ہے۔
وَلَستُ بِجَبْرَي وَلَكِنْ مُشَاهِدٌ فِعَالُ مُرِيدٌ مَا لَهُ مِنْ یُدَافِعُ
اور میں جبریہ نہیں ہوں۔ لیکن ارادہ کرنے والے مختار مطلق کے افعال کو مشاہدہ کرتا ہوں ۔جس کے ارادے کی مدافعت کوئی نہیں کر سکتا ہے ۔
فَاوِنَةٌ يَقْضِي عَلَى بِطَاعَةٍ وَحِينًا بِمَا عَنْهُ نَهَتْنَا الشَّرَائِعُ
پس اکثر اوقات وہ میرے اوپر طاعت کے لئے حکم جاری کرتا ہے۔ اورکبھی اس چیز کے لئے حکم دیتا ہے جس سے شریعت نے ہم کو منع کیا ہے۔
لِذَاكَ تَرَانِي كُنتُ اتْرُكُ امْرَہ وَاتِي الَّذِي أَنْهَاهِ وَالْجَفْنُ دَامِعُ
اسی لئے تم مجھ کو دیکھتے ہو کہ میں اس کے حکم کو چھوڑ دیتا ہوں۔ اور جس چیز سے اس نے منع کیا ہے اس کو کرتا ہوں حالانکہ ناگواری کی وجہ سے میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں۔
وَلِى نُكْتَةٌ غَرَّاءُ سَوفَ أَقُولُهَا وَحُقَّ لَهَا أَنْ تَرْعَوِيُّهَا الْمَسَامِعُ
اور میرے سامنے ایک روشن نکتہ ہے جس کو میں عنقریب بیان کروں گا اور وہ اس لائق ہے کہ کان اس کو توجہ سے سنیں
هِيَ الْفَرْقُ مَا بَيْنَ الْوَلِيِّ وَفَاسِقِي تَنَبَّهُ لَهَا فَالْأُمُرُ فِيهِ فَظَائِعُ
ولی اور فاسق کے درمیان وہی نکتہ فرق ہے۔ اس سے ہوشیار رہو کیونکہ اس معاملہ میں حد سے زیادہ خرابیاں ہیں۔
وَمَا هُوَ إِلَّا أَنَّهُ قَبْلَ وَقْعِهِ يُخَبرُ قَلْبِي بِالَّذِي هُوَ وَاقِعُ
اور وہ نکتہ یہ ہے کہ کسی امر کے واقع ہونے سے پہلے، جو کچھ واقع ہونے والا ہے، اس کی خبر میرےقلب کو دی جاتی ہے۔
فَاجْنِي الَّذِي يَقْضِيهِ فِي مُرَادِهَا وَعَيْنِى لَهُ قَبْلَ الْفِعَالِ تُطَالِعُ
تو جس چیز کا وہ میرے بارے میں فیصلہ کرتا ہے میں اسے مراد سمجھ لیتا ہوں اور میری آنکھ اس کے فعل سے پہلے اس کو دیکھ لیتی ہے۔
فَكُنْتُ أَرَى مِنْهَا الْإِرَادَةَ قَبْلَ مَا أَرَى الْفِعْلَ مِنِّي وَالْآسِيرُ مُطَاوِعُ
تو اپنی طرف سے فعل کے صادر ہونے سے پہلے میں اس کے ارادے کو دیکھتا ہوں ۔ کیونکہ قیدی فرماں بردار ہوتا ہے۔
فَاتِي الَّذِي تَهْوَاهُ نَفْسِى وَمُهْجَتِي لِذَالِكَ فِي نَارِ حُوْتِهَا الْأَضَالِعُ
پس میں اس کے پاس آتا ہوں یعنی وہ کرتا ہوں ، جو میر انفس چاہتا ہے۔ اور میری روح ایسی آگ میں ہے جو میرے سینہ میں بھری ہوئی ہے۔
إِذَا كُنتُ فِي حُكْمِ الشَّرِيعَةِ عَاصِیاً فَإِنِّي فِي عِلْمِ الْحَقِيقَةِ طَائِعُ
جب میں شریعت کے حکم میں نا فرمان ہوتا ہوں تو بے شک میں حقیقت کے علم میں فرمان بروار ہوتا ہوں ۔
پس عینیہ کے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے ولی کی معصیت ، اور فاسق کی معصیت میں فرق کی طرف اشارہ فرمایا ہے: اور یہ فرق تین وجوہ سے ہے۔
پہلی وجہ ولی معصیت کا ارادہ نہیں کرتا ہے ۔ دوسری وجہ وہ معصیت سے خوش نہیں ہوتا ہے۔ تیسری وجہ: وہ معصیت پر اصرار نہیں کرتا ہے یعنی دوبارہ نہیں کرتا ہے۔
اور فاسق ،تینوں وجوہ میں اس کے برعکس ( الٹا ) ہوتا ہے۔
حضرت جنید سے دریافت کیا گیا: کیا عارف زنا کر سکتا ہے؟ انہوں نے جواب دیا
وَ كانَ اَمرُ اللَّهِ قَدَراً مَّقْدُورًا اور اللہ تعالیٰ کا حکم پہلے سے تجویز کر کے مقدر کیا ہوا ہے۔ لیکن ولی کی معصیت تو اس کی حد صرف ظاہری ہے۔
اس لئے حضرت ابن عطاء اللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: اے کاش مجھے معلوم ہوتا: اگر اس سے دریافت کیا جائے: کیا عارف کی ہمت غیر اللہ کی طرف متعلق ہوتی ہے؟ تو وہ جواب دےنہیں۔ اور چونکہ نعمتیں بندے سے شکر کا تقاضا کرتی ہیں۔ اور نعمتوں کا شکر : ان میں اللہ کی طاعت کے ساتھ عمل کرنا ہے۔
حضرت جنید رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: شکر یہ ہے کہ نعمتوں کی ناشکری کر کے اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی نہ کرے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں