اعتبارات اربعہ
تصوف میں لفظ اعتبار کا استعمال عموماً حقیقت کے مقابلہ میں ہوتاہے۔ ہر وہ چیز جو حقیقی نہیں اعتباری ہے۔ ہر وہ چیز جو ظنّی وہمی اور فرضی ہے اعتباری ہے۔ ہرتنزل، ہر تعین، ہر تقید اعتباری ہے۔ ساری کائنات اعتبارات ہی کا مجموعہ ہے
کائنات کے جس پہلو پر بھی نظر ڈالی جائے تو مفروضات وموہومات وظنیات واعتبارات اور نظری مغالطوں کا ایک سلسلہ ہر طرف پھیلا ہوا نظر آئے گا اور ثابت ہوجائے گا کہ یہ ساری کائنات ایک عظیم الشان خواب ہے
لفظ اعتبار تصوف کی اصطلاح میں انتقال ذہنی کو کہتے ہیں کبھی ایسا ہوتاہے کہ عارف کسی وقت کوئی آیتِ قرآنی یا حدیثِ نبوی سنتاہے تو اس کا ذہن کسی معرفت کی جانب منتقل ہوتاہے اگرچہ بظاہر عبارتِ نص اور اشاراتِ نص اور ایمائے نص سے اس معرفت کی جانب دلالت وضعی نہ پائی جاتی ہواس انتقالِ ذہنی کو اعتبار کہتے ہیں۔
تصوف میں ‘ وجود، علم، نور اور شہود ‘ کو اعتبارات اربعہ کہا جاتا ہے
وجود ، علم ، نور اور شہود چار اعتبارات جو محض صلاحیت ذات ہیں اور تعدد وجود نہیں رکھتے ملحوظ ہوتے ہیں۔ ۔ حق تعالیٰ نے انا فرما کر جانا ، یہ جاننے والی ذات ہی تو وجود ہے ، اور یہ جاننا ، علم ۔ پھر دیکھو خود پر ظاہر ہوا تو جا نا لہذا یہ ظہورہی تو نور ہے۔
خود کو دیکھا تو جانا لہذا یہ دیکھنا شہود ہوا ۔ اس طرح وحدت میں یہ چار ذاتی اعتبارات ثابت ہوئے ۔ یہاں یہ وہم نہیں ہونا چاہیئے کہ یہ وجود و علم اور نور و شہود ، پہلے نہ تھے بعد ہوئے کیونکہ یہ مراتب ازلیہ ہیں نہ کہ کونیہ (عالمِ موجودات، دنیائے مخلوقات)حادثیہ حق تعالی حدوث سے منزہ ہے اس کے علم سے قبل جہل نہیں ، اس کے نور سے قبل استتار نہیں ۔ اس کے وجود سے پہلے عدم اور اس کے شہود سے پہلے غیبت نہیں ۔ یہاں بات صرف اعتبارات کی ہے ۔ یہاں یہ ذات کے اعتبارات ہیں، صفات نہیں ۔
(1)وجود : اگر وجود کو صفت قرار دیا جائے تو لازم آئے گا کہ ذات وجود پر مقدم ہے کیونکہ موصوف ، صفت سے مقدم ہوتا ہے ۔ ذات کا وجود پر مقدم ہونا یہ معنی رکھتا ہے کہ ذات بغیر وجود کے موجود تھی جو ہداہتاً محال ہے لہذا صاف ظاہر ہے کہ وجود عین ذات ہے نہ کہ صفت ذات .
(2)- علم بھی عین ذات ہے ، کیونکہ علم صفائی کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنے علوم کا احاطہ کرے، مگر ذات الہی غیر متناہی ہے ، اگر وہ علم صفاتی کے احاطہ میں آجائے توپھر غیر متناہی نہ ر ہے گی ، اس لیے علم کو عین ذات مانتا ہی پڑے گا ۔ اس میں شک نہیں کہ علم صفاتی بھی تنزلات و حوادث کی بہ نسبت غیر متناہی ہے مگر ذات بحت کی نسبت کرتے ہوئے اس کو غیر متناہی نہیں مانا جا سکتا۔
(3)- نور : یہ بھی عین ذات ہے نہ کہ صفت ذات جس کو امور نسبیہ میں سے سمجھا جا سکے۔
(4) مشہود : یہ بھی عین ذات ہے ۔ اس طرح ذات اس مرتبہ میں :
خود واجد ، خود موجود اور خود وجود
خود عالم ، خود معلوم اور خود علم
خود منوِر ، خود منوَر اور خود نور
خود شاہد، خود مشہوداور خود شهود
اس مرتبہ میں ذات ، مع صفات و اسماء و افعال ہے جس کی طرف ذات وجود ، صفت علم ، اسم نور اور فعل شہود کہہ کر لطیف اشارہ ہوتا ہے۔
لاندراج الكل في بطون الذات كا لمفصل في المجمل اوكالشجر في النواة
کل ذات میں اسی طرح مندرج ہے جس طرح مفصل مجمل میں یا جیسے درخت گٹھلی میں ہوتا ہے ۔
یا جیسا کہ مور ہمہ رنگا رنگی اور خوش آوازی کے ساتھ انڈے میں ہوتا ہے یا آگ اپنی قہر سامانیوں کے ساتھ چقماق میں ہوتی ہے ۔ اسی وجہ سے صوفیہ کرام کہتے ہیں
خلق پیش از ظهور عین حق بود وحق بعد از ظهور عین عالم
یعنی خلق ، ظہور سے قبل عین حق اور حق ، ظہور کے بعد عین عالم