ایک مکتوب کی عبارت کے عمل میں جو اسرار پرمشتمل ہے۔ مرزا حسام الدین احمد کی طرف صادر فرمایا ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی ( اللہ تعالی کیلئے حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو آپ کا صحیفہ گرامی جو شفقت و مہربانی سے اس فقیر کے نام لکھا تھا۔ اس کے مطالعہ سے مشرف ہوا۔ اس میں لکھا تھا کہ ایک عزیز(غالبا شیخ عبد الحق) نے اس مکتوب (نمبر 87 دفتر سوم)کی عبارت پر جو اجمیر میں لکھا گیا تھا بہت اعتراض کئے ہیں ۔ ان کا حل لکھنا چاہیے اور چونکہ بعض یاروں نے اشتباه کی جگہوں کو مقرر کر کے لکھا تھا اس لئے اس کے اندازہ کے موافق اس اشتباه کے عمل میں چند مقدے لکھے جاتے ہیں۔ ۔ وَاللهُ سُبْحَانَهٗ الْهَادِيْ إِلىٰ سَبِيْلِ الرَّشَادِ ( اللہ تعالی ہی سیدھے راستے کی طرف ہدایت دینے والا ہے) میرےمخدوم و مکرم سیر مرادی اور سیر مریدی ایک ایسا امر ہے جو اس سیروالے کے وجدان سے تعلق رکھتا ہے اور کسی ایسے امر کا الزام نہیں جو غیر سے تعلق رکھتا ہو۔ پس اس کے اثبات پر حجت و برہان طلب کرنا گنجائش نہیں رکھتا۔ اس کے علاوہ جس شخص کو خدا تعالی نے قوت حدسیہ (سرعت فہم) دی ہے وہ اگر اس سیر والے شخص کے احوال و اوضاع میں اچھی طرح ملاحظہ کرے اور حق تعالی کے فیوض و برکات اور علوم و معارف جن کے ساتھ وہ ممتاز ہے۔ مشاہدہ کرے تو ہوسکتا ہے کہ اس کی سیر مرادی کا حکم کرے اور کسی دلیل کا محتاج نہ ہو جس طرح اس قرب و بعد و مقابلہ و اجتماع کے ملاحظہ کے بعد جو چاند کو سورج کے ساتھ ہےحکم کرے کہ چاند کا نور سورج کے نور سے حاصل ہوا ہے اگر چہ یہ امر ارباب حدس کے سوا کسی دوسرے پر حجت نہیں۔ نیز ہمارے خواجہ(باقی باللہ ) قدس سرہ نے ابتداء حال میں اس فقیر کے سیر کوسیر مرادی فر مایا۔ یاروں نے بھی شاید اس بات کو ان سے سنا ہوگا اور مثنوی کے ان ابیات کو فقیر کے حال کے مطابق جان کر پڑھا کرتے تھے۔ ابيات
عشق معشوقان نهان است وستیر عشق عاشق باد و صد طبل و نفير
لیک عشق عاشقان تن زه کند عشق معشوقاں خوش و فربه کند
ترجمہ: ابیات عشق معشوقاں ہے پردہ میں چھپا عشق عاشق دھوم دیتا ہےمچا عاشقوں کا عشق تن لاغر کرے . عشق معشوقاں بدن خوشتر کرے
اور مرادوں میں سے جو کوئی واصل ہوا ہے ۔ اجتباء ( برگزید ہونا)کے راستہ ہی سے گیا ہے۔ اجتباء کا راستہ انبیا علیہم الصلوة والسلام کے ساتھ مخصوص ہے۔ صاحب عوارف قدس سره نے مجذوب سالک اور سالک مجذوب کے بیان میں اس امر کی تصریح فرمائی ہے اور مریدوں کے راستے کو انابت کا راستہ اور مرادوں کے راستہ کو اجتباء کا راستہ کہا ہے اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ (اللہ تعالی برگزیدہ کرتا ہے جس کو چاہتا ہے اور جو شخص اس کی طرف رجوع کرے اس کو اپنی طرف ہدایت دیتا ہے) ہاں اجتباء(برگزیدہ ہونا) کا راستہ بالاصالت انبیا علیہم الصلوة والسلام کے ساتھ مخصوص ہے اور امتوں کو دوسرے کمالات کی طرح اس سے بھی ان کی تبعیت کے باعث حصہ حاصل ہے۔ یہ نہیں کہ اجتباء کا راستہ مطلق طور پر انبیاءعلیہم الصلوة والسلام ہی کے ساتھ مخصوص ہے اور امتوں کو اس سے ہرگز حصہ حاصل نہیں کیونکہ یہ غیر واقع ہے۔ میرے مخدوم سالک کو فیوض کا پہنچنا حضرت خیر البشر علیہ الصلوة والسلام کے توسط اور حیلولت سے اس وقت تک ہے۔ جب تک اس سالک محمدی المشرب کی حقیقت حقیقت محمدی سے منطبق نہیں ہوئی اور اس کے ساتھ متحد نہیں ہوئی۔ جب کمال متابعت بلکہ محض فضل سے مقامات عروج (عروج سے مراد سالک کا حق تعالی کی ذات و صفات عالیہ کے مشاہدہ میں مستغرق ہو جانا اور مخلوق سے منقطع ہونا ہے) میں اس حقیقت کو اس حقیقت کے ساتھ اتحاد حاصل ہوا تو توسط دور ہوگیا کیونکہ توسط وحيلولت مغائرت میں ہے اور اتحاد میں توسط و متوسط و حاجب و محجوب کوئی نہیں۔ جہاں اتحاد ہے وہاں معاملہ شرکت کے ساتھ ہے۔ لیکن چونکہ سالک تابع اور الحاقی اور طفیلی ہے۔ اس لئے یہ شرکت ایسی ہے جیسے خادم کو اپنے مخدوم کے ساتھ ہوتی ہے اور یہ جو ہم نے کہا ہے کہ سالک کی حقیقت کو حضرت علیہ الصلوۃ والسلام کی حقیقت کے ساتھ انطباق و اتحاد پیدا ہو جاتا ہے۔ اس کا بیان یہ ہے کہ حقیقت محمدی تمام حقائق کی جامع ہے۔ اس کوحقیقت الحقائق کہتے ہیں اور دوسروں کے حقائق اس کے اجزاء کی طرح ہیں یا جزئیات کی طرح۔ کیونکہ اگر محمدی المشرب ہے۔ تو سالک کی حقیقت اس کلی کے لئے جزئی کی طرح ہے اور اس پر محمول ہے اورمحمدی المشرب کے سوا کسی غیر کی حقیقت اس کل کے لئے جزو کی طرح ہے اور اس پر غیر محمول ہے۔ غیرمحمدی المشرب کی اس حقیقت کو اگر عروج میں اتحاد پیدا ہوتو اس پیغمبر کی حقیقت کے ساتھ ہوگا۔ جس کے قدم پروہ ہے اوراسی حقیقت پر محمول ہوگی اور اس کے کمالات میں شرکت پیدا کر یگی۔ لیکن یہ شرکت خادم مخدوم کی شرکت کی قسم سے ہوگی جیسے کہ گزر چکا اور جب اس جزئی کو کمال متابعت کے علاقہ سے بلکہ محض فضل سے اپنی کلی کے ساتھ محبت خاص پیدا ہو جاتی ہے اور وہاں تک پہنچنے کا شوق اس کو دامنگیر ہو جاتا ہے تو وہ قید جوکلی کو جزئی میں لائی تھی ۔ خداوند تعالی کے فضل سے دور ہونے لگتی ہے اور آہستہ آہستہ زوال کے بعد اس جزئی کو اس کلی کے ساتھ انطباق والحاق حاصل ہو جاتا ہے اور یہ جو ہم نے کہا ہے کہ محبت خاص پیدا ہو جاتی ہے۔ جس طرح کہ محض فضل سے اس فقیر کو پیدا ہوئی تھی اور اس محبت کے غلبہ میں کہا کرتا تھا کہ میری محبت حق تعالی کے ساتھ اس لئے ہے کہ حق تعالی حضرت محمد رسول اللہ ﷺکا رب ہے اور میاں شیخ تاج اور دوسرے یار اس بات پر تعجب کرتے تھے میرے خیال میں شاید آپ کو بھی یہ بات یاد ہوگی ۔ غرض جب تک اس قسم کی محبت پیدا نہ ہو۔ الحاق و اتحادمتصورنہیں ہوتا۔ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ( یہ الله تعالی کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور الله تعالی بڑے فضل والا ہے۔)
اب تو سط و عدم توسط کی حقیقت کو بیان کرتا ہوں ۔ غور سے سنیں ۔ طریق جذبہ میں چونکہ مطلوب کی طرف سے کشش ہے اور الله تعالی کی عنایت طالب کے حال کی متکفل ہے۔ اس لئے واسطہ اور وسیلہ کوقبول نہیں کرتا اور طریق سلوک میں چونکہ طالب کی انابت و رجوع ہے اس لئے اس میں وسیلہ اور واسطہ کا ہونا ضروری ہے۔ نفس جذبہ میں اگرچہ وسیلے درکار ہیں لیکن جذبہ کا تمام ہونا سلوک پر وابستہ ہے کیونکہ جب تک سلوک جو شریعت کے بجالانے یعنی توبہ و زہد وغیرہ سے مراد ہے۔ جذبہ کے ساتھ نہ ملے تب تک جذبہ نا تمام وا بتر رہتا ہے۔ ہم نے بہت سے ہنوداورملحدوں کو دیکھا ہے کہ جذبہ رکھتے ہیں لیکن چونکہ صاحب شریعت علیہ الصلوۃ والسلام کی متابعت سے آراستہ نہیں ہیں۔ اس لئے خراب و ابتر ہیں اور جذب کی صورت کے سوا کچھ نصیب نہیں۔
سوال: جذب کا حاصل ہونا ایک قسم کی محبوبیت چاہتا ہے پس کفار کے لئے جو اللہ تعالی کے دشمن ہیں جذبہ کا نصیب کس طرح تصور کیا جاتا ہے۔ جواب: ہوسکتا ہے کہ بعض کفار ایک قسم کی محبوبیت رکھتے ہوں جو ان کے جذب کے حاصل ہونے کا باعث ہوئی ہو۔ لیکن چونکہ ان کو صاحب شریعت علیہ الصلوة والسلام کی متابعت سے آراستہ نہیں کیا۔ خوار اور زیاں کار رہے ہیں اور اس جزو میں حجت کے سوا اور کچھ ان پر درست نہیں کیا کیونکہ ان کی استعداد کو جتلا دیا ہے جس کو وہ جہل و عداوت کے باعث قوت سے فعل یعنی پوشیدگی سے ظہور میں نہیں لائے وَمَا ظَلَمَهُمُ اللَّهُ وَلَكِنْ أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ الله تعالی نے ان پر ظلم نہیں کیا۔ بلکہ وہ تو اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے ) طریق جذبہ میں اگر صاحب شریعت علیہ الصلوة والسلام کی متابعت کے وسیلہ سے جو کہ سلوک سے مراد ہے مطلوب تک پہنچنا میسر ہو جائے تو کسی امر کے واسطے اور حیلولہ کے بغیر ہوگا ۔ بزرگوں نے فرمایا ہے۔ ولو دلیتم بدلو لوقعتم علی الله یعنی اگر تم حق تعالی کی طرف کھینچے جاؤ اور باطنوں کے باطن کی طرف پہنچائے جاؤ تو تمہارے اور حق تعالی کے درمیان کسی امر کا حیلولہ اور حجاب نہ ہوگا شاید آپ کو بھی یاد ہوگا کہ ہمارے حضرت خواجہ قدس سرہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر اس معیت کے راستے سے جوحق تعالی کو بندہ کے ساتھ ہے وصول میسر ہو جائے تو کسی امر کے وسیلہ کے بغیر ہوگا کہ معیت کے مناسب ہے کیونکہ واسط تربیت کے سلسلہ میں ضروری ہے جو سلوک سے مراد ہے اور راہ معیت جذبہ کے راستوں میں سے ایک راستہ ہے اور حدیث الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ ( آدمی اسی کے ساتھ ہوگا جس کے ساتھ اس کو محبت ہے) بھی اسی مضمون کی تائید کرتی ہے کیونکہ انسان کو جب اپنے محبوب کے ساتھ معیت ثابت ہو جاتی ہے تو واسطہ درمیان سے اٹھ جاتا ہےذرا غور سے سنیں کہ ہر ایک ظل کو اپنے اصل کی طرف ایک شاہراہ ہے اور کوئی چیز ان کے درمیان حائل نہیں۔ اگر اللہ تعالی کی عنایت سے ظل کو اپنے اصل کی خواہش پیدا ہو جائے اور اس کی طرف کشش ظاہر ہو جائے تو صاحب شریعت علیہ الصلوة والسلام کی متابعت کی بدولت اس ظل کو اس اصل کے ساتھ وصل اور الحاق حاصل ہو جائے گا اور وہ کسی امر کے واسطے اور حیلولہ کے بغیر ہوگا چونکہ وہ اصل اسماء الہی جل شانہ میں سے ایک اسم ہے اس لیے اسم اور اس کےمسمی میں کوئی حائل نہ ہوگا پس ظل کا اس راستے سے اصل الاصل تک جو اس اسم کا مسمی ہے پہنچنا کسی امر کے وسیلہ کے بغیر ہوگا ۔ نیز جو شخص بیچونی وصول کے ساتھ حضر ت ذات تعالی کاواصل ہے اس کے حق میں کسی امر کا واسطہ اور حیلولہ مفقود ہے جب حضرت ذات تعالی کے وصول کی صورت میں حق تعالی کی صفات کا حجاب اور حیلولہ ہونا دور ہو جاتا ہے تو پھر صفات کے سوا کسی اور امر کا حجاب اور حیلولہ ہونا کب گنجائش رکھتا ہے۔
سوال: جب حضرت ذات تعالی سے صفات واجبی جل شانہ کا جدا ہونا جائز نہیں تو پھر اصل اور موصول الیہ کے درمیان سے صفات کے حیلولہ کا دور ہو جانا کس طرح ہے؟
جواب: جب سالک کو اپنے اصل کے ساتھ (جواسماء الہی میں سے ایک اسم ہے اور وہ سالک اس کا ظل ہے )وصل وتحقق حاصل ہو جائے تو سالک اور حضرت ذات تعالی کے درمیان کوئی واسطہ اور حیلولہ نہ ہوگا جس طرح کہ اسم اور اس کے مسمی میں کسی امر کا حیلولہ ثابت نہیں ۔ پس نہ ارتفاع لازم آیا اور نہ انفکاک۔ اسی قسم کی تحقیق حقیقت سالک اور حقیقت محمدی کے اتحاد میں اوپر گزر چکی ہے۔ اس تحقیق کا تھوڑا ساحال ظل کے اپنے اصل تک پہنچنے کے بیان میں گزر چکا ہے۔
تنبیہ : اس عدم توسط یعنی واسطہ کے نہ ہونے سے جو طریق جذبہ وغیرہ میں کہا گیا ہے کوئی بیوقوف یہ گمان نہ کرے کہ حضرت خیر البشر علیہ الصلوة والسلام کی بعثت کی کچھ حاجت نہیں اور ان کی تبعیت و متابعت کی کچھ پرواہ نہیں کیونکہ یہ کفر و الحاد وزندقہ اور شریعت حقہ کا انکار ہے حالانکہ اوپر گزر چکا ہے کہ جذبہ سلوک کے واسطے کے بغیر جو شریعت کے بجالانے سے مراد ہے ابتر و نا تمام اور سراسرنقمت اور عذاب ہے جو نعمت کی صورت میں ظاہر ہوا ہے اور جذبہ ناتمام کے صاحب پر حجت کو پورا کیا ہے ۔ عرض کشف صحیح اور الہام صریح سے یقینی طور پر معلوم ہو چکا ہے کہ اس راہ کے دقائق میں سے کوئی دقیقہ اور اس گروہ کے معارف میں سے کوئی معرفت آنحضرت علیہ الصلوة والسلام کی متابعت کے واسطہ اور وسیلہ کے بغیر میسر نہیں ہوتی اور مبتدی اور متوسط کی طرح منتھی کو بھی اس راہ کے فیوض و برکات آنحضرت کی طفیل و تبعیت کے بغیر حاصل نہیں ہوتے۔ بیت۔
محال است سعدی که راه صفا تو اں رفت جز درپے مصطفی
ترجمہ: اطاعت نہ ہو جب تک مصطفی کی کبھی حاصل نہ ہو دولت صفا کی
افلاطون بے وقوف نے اس صفائی کے باعث جو ریاضتوں اور مجاہدوں سے اس کے نفس کو حاصل ہوئی اپنے آپ کو انبیاء علیہم الصلوة والسلام کی بعثت سے مستغنی جانا اور کہا کہ نَحْنُ قَوْمٌ مَّهْدَیُّوْنَ لَاحَاجَةَ بِنَا إِلىٰ مَنْ يَّهْدِيْنَا ہم ہدایت یافتہ لوگ ہیں ہم کو ایسے شخص کی حاجت نہیں ہے جو ہم کو ہدایت دے۔ اس بیوقوف نے یہ نہ جانا کہ یہ صفائی جو انبیاء کی متابعت کے بغیر ریاضتوں اور مجاہدوں سے حاصل ہوئی ہے ایسی ہے جیسی سیاه تابنے پر سونا چڑھا دیں۔ زہر کو شکر سے غلافی کریں وہ انبیاء کی متابعت ہی ہے جو تا ہنے کی حقیقت کو بدل کر خالص سونا بنادیتی ہے اور نفس کو اماره پن سے نکال کر اطمینان میں لے آتی ہے ۔ حکیم مطلق جل شانہ نے انبیاءعلیہم الصلوة والسلام کی بعثت اور شرائع کو امارہ کے عاجز اور خراب کرنے کے لیے مقرر کیا ہے اور اس کی خرابی بلکہ اس کی اصلاح کو ان بزرگواروں کی متابعت کے سوا اور کسی چیز میں نہیں رکھا۔ ان بزرگواروں کی متابعت کے بغیر اگر ہزاروں ریاضتیں اور مجاہد ے کیے جائیں اس کا اماره پن بال بھربھی کم نہیں ہوتا بلکہ اس کی سرکشی اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ ع
ہر چہ گیر دعلتی علت شود ترجمہ جوکچھ مریض کھاۓ اس کا مرض بڑھ جائے ۔
اس کے ذاتی مرض کا دور ہونا انبیا علیہم الصلوۃ والسلام کی شرائع پر موقوف ہے۔ وَبِدُونِهَا خَرْطُ الْقَتَادِ ( اور اس کے سوا بے فائد ه رنج و تکلیف ہے) جاننا چاہیئے کہ جذبہ کے لیے اگر چہ سلوک کا ہونا ضروری ہے خواہ جذبہ سلوک پر مقدم ہو یا مؤخر لیکن جذبہ کے مقدم ہونے میں فضیلت ہے کیونکہ اس صورت میں سلوک اس کا خادم ہے اور جذبہ کے مؤخر ہونے میں سلوک اس کا مخدوم ہے۔
کیونکہ وہ اس کی بدولت اس کو جذب میسر ہوا ہے لیکن جذبہ کے مقدم ہونے میں ایسا نہیں کیونکہ وہ بالذات مطلوب ومدعو ہے۔ اسی واسطے یہ مراد ہوا اور وہ مرید۔ مرادوں کے سردار اورمحبوبوں کے رئیس حضرت محمد رسول اللہ ﷺ ہیں کیونکہ اس دعوت سے مقصود ذاتی اور مدعواولی (سب سے اول بلایا ہوا) آنحضرت ﷺہی ہیں اور دوسروں کو خواہ مراد ہوں یا مرید حضور ہی کی طفیل بنایا ہے۔ لو لاہ لما خلق الله الخلق ولما أظهر الربوبية (اگر وہ نہ ہوتے تو الله تعالی خلقت کو پیدا نہ کرتا اور نہ اپنی ربوبیت ظاہر کرتا) چونکہ دوسرے سب ان کے طفلی ہیں اور وہ اس دعوت کے اصل مقصود ہیں۔ اس لیے سب ان کے محتاج ہیں اور انہیں کے ذریعہ سے فیوض و برکات اخذ کرتے ہیں ۔ اس لحاظ سے اگر سب کو ان کی آل کہیں تو بجا اور درست ہے کیونکہ سب ان کے پیچھے چلنے والے ہیں اور ان کے وسیلہ کے بغیر کامل وصول نہیں کر سکتے جب ان سب کا وجود ان کے وجود کے وسیلہ کے بغیرمتصور نہیں ہوسکتا تو دوسرے کمالات جو وجود کے تابع ہیں ان کے وسیلہ کے بغیر کس طرح متصور ہو سکتے ہیں ہاں محبوب رب العالمین ایسا ہی ہونا چاہیئے ذرا کان لگا کر سنیں مکشوف ہوا ہے کہ آنحضرت ﷺکی محبوبیت حق تعالی کی اس محبت کے ساتھ ثابت ہے جو شیون و اعتبارات کے بغیر حق تعالی کی ذات بحت سے تعلق رکھتی ہے اور جس محبت کے سبب حق تعالی کی ذات محبوب ہے برخلاف دوسروں کی محبوبیت کے جو اس محبت کے ساتھ ثابت ہے جس کا تعلق شیون و اعتبارات کے ساتھ ہے اور اسماء و صفات با اسماء وصفات کے ظلال کے ساتھ درجہ بدرجہ متلبس ہے۔
فإن فضل رسول الله ليس له حد فيعرب عنه ناطق بفم
ترجمہ: بیت رسول پاک کی شان وفضیلت بے نہایت ہے کر سے ظاہر زبان کیونکر کہاں اس میں یہ طاقت ہے
اس مقام کی تحقیق یہ ہے کہ آنحضرت ﷺکا توسط یعنی واسطه و وسیلہ ہونا دو وجہ پر ہوسکتا ہے۔ ایک یہ کہ آنحضرت ﷺسالک اور اس کے مطلوب کے درمیان حائل وحاجب ہوں ۔ دوسرے یہ کہ سالک آنحضرت کے طفیل اور آنحضرت کی تبعیت و متابعت کے واسطہ سے مطلوب تک واصل ہو۔ طریق سلوک میں حقیقت محمدی تک پہنچنے سے پہلے دونوں طرح کا واسطہ ثابت ہے بلکہ میں خیال کرتا ہوں کہ اس طریق میں جوشیخ در میان آیا ہے شہود سالک کا متوسط و حاجب ہے۔ اگر آخر میں جذبہ کے ساتھ اس کا تدارک نہ کریں اور اس کا معاملہ پردہ سے بے پردگی تک نہ پہنچے تو اس کا حال قابل افسوس ہے کیونکہ طریق جذبہ میں حقیقت الحقائق یعنی حقیقت محمدی تک پہنچنے کے بعد دوسری وجہ کا واسطہ ثابت ہے جو طفیلیت اور تبعیت ہے نہ کہ حیلولت و حجاب جوشہود و مشاہدہ وغیرہ کا پردہ ہو۔ کوئی یہ نہ کہے کہ اس واسطے کے نہ ہونے سے اگر چہ ایک ہی وجہ سے ہو۔ حضرت خاتمیت علیہ الصلوة والسلام کی جناب پاک میں قصور لازم آتا ہے کیونکہ میں کہتا ہوں کے واسطے کا نہ ہونا آنجناب علیہ الصلوة والسلام کے کمال کو مستلزم ہے نہ قصور کو کیونکہ قصور وسیلہ و واسطہ کے ہونے میں ہے۔ اس لیے کہ متبوع کا کمال یہ ہے کہ یہ طبع اس کی طفیل و تبعیت سے کمال کے تمام درجات تک پہنچ جائے اور کوئی دقیقہ نہ چھوڑے یہ امر واسطہ کے نہ ہونے میں ثابت ہے نہ کہ واسطہ کے ہونے میں کیونکہ وہاں شہود بے پردہ ہے جو درجات کمال کی نہایت ہے اور یہاں در پرده پس کمال وسیله و واسطہ کے نہ ہونے میں ہے اورقصور واسطہ کے ہونے میں یہ مخدوم کی عظمت و شوکت کا باعث ہے کہ اس کا خادم کسی مقام میں اس سے پیچھے نہیں رہتا اور اس کی تبعیت سے سب کی دولت میں شریک ہوتا ہے اسی واسطے آنحضرت نے فرمایا ہے کہ عُلَمَاءُ أُمَّتِي كَأَنْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَ میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہیں)رویت اخروی کسی امر کے واسطہ اور حیلولہ کے بغیر ہوگی۔ حدیث میں آیا ہے کہ جب بندہ نماز میں داخل ہوتا ہے تو وہ حجاب جو بندہ اور خدا کے درمیان ہے دور ہو جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ نماز مومن کی معراج ہے اور اس سے بہت ساحصہ منتہی واصل کو حاصل ہوتا ہے کیونکہ حجاب کا دور ہونا اس فقیر کی خاص لدنی معرفتوں میں سے ہے جومحض فضل و کرم سے اس فقیر کو عطا فرمائی ہے اور اس کی حقیقت سے متحقق کیا ہے۔ بیت
من آں خاکم که ابر نو بهاری کنداز لطف بر من قطره باری
ترجمہ بیت . وہ مٹی ہوں کہ ابر نو بہاری کرے جس پر کرم سے قطره باری
کسی نے اچھا کہا ہے۔ بیت
اگر پادشہ بردر پیر زن بیاید تو اے خواجہ سبلت مکن
ترجمہ: اگر بڑھیا کے در پر آئے سلطان تو اے خواجہ نہ ہو ہرگز پریشان
آنحضرت ﷺکے توسط و عدم توسط میں مشائخ طریقت قدس سرہم کا بہت اختلاف ہے ۔ بعض توسط کی طرف گئے ہیں اور بعض عدم توسط کی طرف لیکن کسی نے توسط وعدم توسط کی تحقیق نہیں کی اور کمال قصور کی نسبت کچھ بیان نہیں کیا ۔ نزدیک ہے کہ ارباب ظواہریعنی علماء ظاہر عدم توسط کو کہ کمال ایمان ہے ۔کفر جانیں اور بے سوچ سمجھے اس کے قائل کو گمراہی کی طرف منسوب کریں اور تو سط کو کمال ایمان تصور کریں اور اس کے قائل کو کامل تابعداروں سے جانیں حالانکہ عدم توسط متابعت کے کامل کی خبر دیتا ہے اور تو سط متابعت کے تصور کو ظاہر کرتا ہے جیسے کہ گزر چکا ان کا یہ کہنا حقیقت حال سے ناواقف ہونے کے سبب سے ہے اللہ تعالی فرماتا ہے۔ بَلْ كَذَّبُوا بِمَا لَمْ يُحِيطُوا بِعِلْمِهِ وَلَمَّا يَأْتِهِمْ تَأْوِيلُهُ كَذَلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ بلکہ جھٹلایا انہوں نے اس سبب سے کہ اس کے علم کا احاطہ نہ کیا حالانکہ ابھی اس کی تاویل ان کے پاس نہیں آئی اسی طرح ان سے پہلے لوگوں نے جھٹلایا) میرے مخدوم ! اویسی کہنے میں پیر ظاہر کا انکار نہیں کیونکہ اویسی وہ شخص ہے جس کی تربیت میں روحانیوں کا دخل ہوحضرت خواجہ احرار قدس سرہ کو پیر ظاہر کرنے کے باوجود چونکہ حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ کی روحانیت سے امداد بھی تھی اس لیے اویسی کہتے تھے اسی طرح حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ نے باوجود پیر ظاہر کے چونکہ حضرت خواجہ عبدالخالق قدس سرہ کی روحانیت سے مدد پائی تھی اس لئے وہ بھی اویسی تھے خصوصا وہ شخص جواویسی ہونے کے باوجود پیر ظاہر کا اقرار رکھتا ہے اس زبردستی پیر کا انکار اس کے ز مے لگاتا عجب انصاف ہے۔ میرے مخدوم ۔ لفظ عبدالباقی کی ترکیب سے مراد اضافی معنی ہیں ۔ نہ علمی معنی بھی اگر چہ علمی معنی بھی اس سے بخوبی ظاہر ہوتے ہیں لیکن میرا پیرا گرچه بنده باقی کا ہے یعنی اللہ تعالی کا بندہ ہے لیکن میری تربیت کا متکفل اور ذمہ دار الله باقی ہے۔ اس میں کونسی تحریف اور بے ادبی ہے۔ اللہ تعالی انصاف دے میرے مخدوم وہ قصور جو معنی سبحانی میں کہ غلبات سکر(مستی) میں حضرت بسطامی قدس سرہ سے صادر ہوا ہے کہ کہا ہے اس سے لازم نہیں آتا کہ وہ تصور اس کے کہنے والے میں دائمی ہوتا کہ دوسرا اس سے افضل ہو کیونکہ بہت سے ایسے معارف ہیں جو ایک وقت میں اس قوت کےحال کے موافق صادر ہوتے ہیں اور دوسرے وقت میں اللہ تعالی کی عنایت سے جب ان کا قصور معلوم ہوا ہے تو ان سے گزر کر اوپر کے مقام میں پہنچے ہیں۔ آپ کے مکتوب شریف میں لکھا تھا کہ اگر ارباب سکر(مستی) اس قسم شطح آمیز (وہ اقوال جو حالت مستی اور ذوق میں بے اختیار صادر ہوں،بظاہر خلاف شریعت)باتیں لکھیں تو بجا ہے لیکن ارباب صحو (ہوشیاری) سے اس قسم کی باتوں کا ظاہر ہونا تعجب کا باعث ہے میرے مخدوم جس کسی نے ان باتوں کو لکھا ہے سکر ہی کے باعث لکھا ہے ۔ سکر کی آمیزش کے بغیر اس بارہ میں کوئی قلم نہیں پکڑتا۔ حاصل کلام یہ ہے کہ سکر میں بہت سے مرتبے ہیں جس قدر سکر زیادہ ہوگا اسی قدر شطح غالب ہوگا بسطامی جیسا شخص ہونا چاہیئے کہ قول لوائي ارفع من لواء محمد (میرا جھنڈا حضرت محمد ﷺکے جھنڈے سے برتر ہے ) اس سے بے تحاشا سرزد ہو۔ پس جو کوئی صحو رکھتا ہے گمان نہ کریں کہ سکر اس کے ہمراہ نہیں کیونکہ یہ عین قصور ہے ۔صحو خالص عام کا نصیب ہے جس نے صحو کو ترجیح دی ہے اس کی مراد غلبہ صحو ہے نہ صرف صحواسی طرح جس نے سکر کو ترجیح دی ہے اس کی مراد غلبه سکر ہے نہ سکر خالص کہ وہ سراسر آفت ہے حضرت جنید قدس سره جوار باب صحو کے رئیس ہیں اورصحو کوسکرپرترجیح دیتے ہیں۔ ان کی اس قدر سکر آمیز عبارتیں ہیں جن کا شمارنہیں ہوسکتا۔ فرماتے ہیں۔ هو العارف والمعروف (وہی عارف ہے اور وہی معروف ) اور فرماتے ہیں لون الماء لون انائہ ( پانی کا رنگ اس کے برتن کا رنگ ہے) اور فرماتے ہیں۔ المحدث إذا قورن بالقديم لم يبق له اثر (حادث جب قدیم کے ساتھ مل جاتا ہے تو اس کا کوئی اثر باقی نہیں رہتا) صاحب عوارف جوکاملین ارباب صحو میں سے ہے اس کی کتاب میں اس قدر معارف سکر یہ ہیں جن کا بیان نہیں ہوسکتا۔ اس فقیر نے اس کے معارف سکر یہ کو ایک ورق میں جمع کیا ہے ۔ سکر کے بقیہ کا سبب ہے کہ اسرار کا ظاہر کرنا جائز سمجھتے ہیں اور سکر ہی کا باعث ہے جو فخر و مباہات کرتے ہیں ۔ سکر ہی سے ہے کہ دوسروں پر اپنی زیادتی ظاہر کی جاتی ہے جہاں صحو خالص ہے وہاں اسرار کا ظاہر کرنا کفر ہے اور اپنے آپ کو دوسرے سے بہتر جاننا شرک ہے صحو میں سکر کا بقیہ نمک کی طرح ہے جو طعام کا اصلاح کرنے والا ہے اگر نمک نہ ہو۔ طعام معطل و بیکار ہوتا ہے۔ بیت
اگر عشق نبودے وغم عشق نبودے چندیں سخن نغزنه گفتے ونشنو دے
ترجمہ بیت . گر نہ ہوتاعشق اورہوتانہ اس کا دردوغم ایسی ایسی عمده باتیں پھر نہ کہتے سنتے ہم
صاحب عوارف قدس سرہ نے قول قدم هذه على رقبة كل ولی کو(میرا قدم ہر ایک ولی کی گردن پر ہے ) جوشیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ سے صادر ہوا ہے ۔سکر(مستی) کے بقیہ پر محمول کیا ہے اس کی مراد اس قول کا قصور نہیں ۔ جیسے کہ بعض نے وہم کیا ہے بلکہ عین مدحت و تعریف ہے اور واقع کا بیان کیا ہے یعنی اس قسم کی باتوں کا صادر ہوتا جو فخر و مباہات کی خبر دیتی ہیں سکر(مستی) کے بقیہ کے بغیر ثابت نہیں کیونکہ صحو خالص میں اس قسم کی باتوں کا سرزد ہونا دشوار ہے۔ اس فقیر نے جو یہ دفتروں کے دفتر اس گروہ کے علوم و اسرار میں لکھے ہیں کیا آپ سمجھتے ہیں کہ سکر کی آمیزش کے بغیرصحوخالص سے لکھے ہیں ہرگز نہیں کیونکہ وہ حرام و منکر اور گزاف و سخن بافی (باتیں بنانا)ہے سخن باف یعنی بیہودہ باتیں بنانے والے جو خالص صحو سے متصف ہیں بہت ہیں وہ اس قسم کی باتیں کیوں نہیں بناتے اور لوگوں کے دلوں کو اس طرف کیوں نہیں مائل کرتے۔ بیت
فریاد حافظ این ہم آخر بہر زه نیست ہم قصہ غریب وحدیث عجیب است
ترجمہ بیت نہیں حافظ کی یہ بیہودہ فریاد عجب ہے ماجر ا اس کا سراسر
میرے مخدوم اس قسم کی باتیں جو اسرار کے اظہار پر مبنی ہیں اور ظاہر کی طرف سے مصروف اور پھری ہوتی ہیں ہر وقت مشائخ طریقت قدس سرہم سے سرزد ہوتی رہی ہیں اور ان بزرگواروں کی عادت مستمرہ ہوگئی ہے۔ کوئی نیا امرنہیں جس کو اس فقیر نے شروع کیا ہے یا اس کا اختراع کیا ہے۔
وليس هذا أول قارورة كسرت في الإسلام (یہ پہلی شیشی نہیں جو اسلام میں توڑی گئی ہو)پر یہ سب شور و غوغا کیا ہے ۔ اگر کوئی ایسا لفظ صادر ہوا ہے جس کا ظاہر علوم شریعہ کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا تو تھوڑی سی توجہ کے ساتھ اس کو ظاہر سے پھیر کر مطابق کرنا چاہیئے اور ایک مسلمان کو متہم نہ کرنا چاہیئے جب شریعت میں فاحشہ کا رسوا کرنا اور فاسق کا خوار کرنا حرام و منکر ہے تو پھر صرف اشتباه ہی سے ایک مسلمان کا خوار کرنا کیا مناسب ہے اور شہر شہر اس کی منادی کرنا کونسی دینداری ہے۔ مسلمانی اور مہربانی کا طریق یہ ہے کہ اگر کسی شخص سے کوئی ایساکلمہ صادر ہو جو بظاہر علوم شرعیہ کے مخالف ہو تو دیکھنا چاہیئے کہ اس کا کہنے والا کون ہے اگر ملحدوزندیق (بے دین) ہوتو اس کو رد کرنا چاہیئے اور اس کی اصلاح میں کوشش نہ کرنی چاہیئے اور اگر اس کلمہ کا کہنے والا مسلمان ہو اور خدا اور رسول پر ایمان رکھتا ہو تو اس کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیئے اور اس کے واسطےمحمل صحیح (صحیح معنی) پیدا کرنا چاہیئے یا اس کے کہنے والے سے اس کا حل طلب کرنا چاہیئے اور اگر اس کے حل کرنے میں عاجز ہو تو اس کو نصیحت کرنی چاہیئے اور نرمی کے ساتھ امر معروف اور نہی منکر کرنا چاہیئے کیونکہ اجازت وقبولیت کے نزدیک ہے او اگر مقصود اجابت نہ ہو اور خوار کرنا ہی مطلوب ہو تو یہ الگ بات ہے اللہ تعالی توفیق دے ۔ زیادہ تر تعجب کی بات یہ ہے کہ آپ کے مکتوب شریف سے مفہوم ہوا ہے کہ اس عزیز نے اس فقیر کے مکتوب کو سننے کے بعد آپ کے ملازموں میں بھی اشتباه و انحراف طاری ہو گیا تھا ۔ مانا کہ انعکاسی ہوگا آپ کو چاہیئے تھا کہ اشتباہ کے مقامات کو خودحل کردیتے اور اس فقیر پر نہ ڈالتے اور فتنہ کو فرو کر دیتے۔ فقیر دوسرے یاروں کا گلہ کرے جن میں سے بعض یار اس اشتباه کے دفع کرنے کی طاقت بھی رکھتے تھے۔ کچھ نہ کر سکے اور خامو ش رہے
مازیا راں چشم یاری و اشتیم خود غلط بود آنچه مانپداشتیم
: ترجمہ بیت ہم کو تھایا روں سےیاری کا خیال پرسراسروہ غلط نکلا خیال
رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا يا الله تو اپنے پاس سے ہم پر رحمت نازل فرما اور ہمارے کام سے بھلائی ہمارے نصیب کر) والسلام اولا واخرا۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ365ناشر ادارہ مجددیہ کراچی