اللہ کا سچا وعدہ (باب اول)

اللہ کا سچا وعدہ حکمت نمبر07

اللہ کا سچا وعدہ کے عنوان سے  باب اول میں  حکمت نمبر07 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے گزشتہ بیان میں وعدے کا پورا ہونا، اور وعدہ کی ہوئی شے کا ملنا ثابت کیا ہے۔ لیکن اس طریقے اور اس وقت پر جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے اور اس معاملے میں تم کو سچائی اختیار کرنے ، اور اللہ تعالیٰ کے وعدہ پورا کرنے کی تصدیق کرنے کا حکم دیا۔ اور تردد سے تم کو منع کیا ۔ تا کہ تمہاری بصیرت پوری طرح کھل جائے۔ اور سر کے انوار روشن ہو جا ئیں ۔ چنانچہ فرمایا۔
7) لا يُشَكّكَنَّكَ في الوَعْدِ عَدَمُ وُقوعِ المَوْعودِ، وإنْ تَعَيَّنَ زَمَنُهُ؛ لِئَلّا يَكونَ ذلِكَ قَدْحاً في بَصيرَتِكَ وإخْماداً لِنُوْرِ سَريرَتِكَ.
وعدہ کی ہوئی شے کا واقعہ نہ ہونا ، وعدہ کی سچائی کے متعلق تم کو شک وشبہ میں نہ ڈالے۔ اگر چہ اس کا وقت مقرر ہو۔ تا کہ یہ شک تمہاری بصیرت میں نقص نہ پیدا کرے۔ اور تمہارے باطن کے نور کو نہ بجھادے

لطائف اور ان کے مقامات

جاننا چاہیئے کہ نفس ، اور عقل ، اور روح اور سر ایک شے ہے۔ لیکن مقاموں کے اختلاف سے نام جدا جدا ہے۔ پس جو کچھ خواہشات کے مقام سے ہے۔ اس کا ادراک کرنے والا نفس ہے۔ اور جو کچھ شرعی احکام کے مقام سے ہے۔ اس کا ادراک کرنے والی عقل ہے۔ اور جو کچھ تجلیات اور واردات کے مقام سے ہے۔ اس کا ادراک کرنے والی روح ہے۔ اور جو کچھ تحقیقات اور تمکنات کے مقام سے ہے۔ اس کا ادراک کرنے والا سر ہے۔ اور جگہ ایک ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ جب اللہ تعالیٰ نے تم سے کسی شے کا وعد ہ وحی یا الہام کی زبان پر نبی یاولی یا کسی خاندانی بزرگ کے ذریعے سے کیا ۔ تو اے مرید! اگر تم صدیق ہو، تو اس میں شک نہ کرو۔ پس اگر اس کا وقت مقرر نہیں ہوا ہے۔ تو وعدہ وسیع ہے۔ اور زمانہ کبھی لمبا ہوتا ہے۔ اورکبھی مختصر۔ لہذا اس کے واقع ہونے میں شک نہ کرو۔ اگر چہ زمانہ لمبا ہو جائے ۔ کیونکہ سیدنا حضرت موسیٰ و حضرت ہارون علیہا السلام کی بددعا فرعون کے حق میں، کلام الہٰی کے مطابق: رَبَّنَا اطمس عَلَى أَمْوَالِهِم اے ہمارے رب! تو ان کے مالوں کو برباد کر دے۔ اور عذاب نازل ہونے کا درمیانی وقفہ بیان کی ہوئی روایات کے مطابق چالیس سال ہے۔
اور اگر اس کا وقت مقرر ہے۔ لیکن وہ اپنے وقت پر پورا نہیں ہوا۔ تو بھی تم اس کے پورا ہونے میں شک نہ کرو کیونکہ کبھی یہ غیبی اسباب والتزامات پر مرتب ہوتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ نے اس نبی یا ولی سے پوشید ہ رکھا ہے۔ تا کہ اپنی طاقت کا غلبہ اور اپنی حکمت ظاہر کرے۔ سید نا حضرت یونس علیہ السلام کے معاملے میں غور کرو۔ انہوں نے اپنی قوم کو عذاب کی خبر دی۔ اور اس کے پاس سے چلے گئے۔ لیکن عذاب ان لوگوں کے اسلام نہ قبول کرنے پر موقوف تھا۔ لہذا جب ان لوگوں نے اسلام قبول کر لیا۔ تو عذاب ٹل گیا۔ اور اسی طرح سیدنا حضرت نوح علیہ السلام کا معاملہ۔ جب انہوں نے کہا
رَبِّ إِنَّ ٱبۡنِي ‌مِنۡ ‌أَهۡلِي وَإِنَّ وَعۡدَكَ ٱلۡحَقُّمیرا بیٹا میر ےاہل میں سے ہے۔ اور تیرا وعدہ حق ہے
پس وہ عموم کے ظاہر سے واقف تھے۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔
لَّهَ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ اللَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ وہ آپ کے اہل میں سے نہیں ہے۔ وہ صالح نہیں ہے۔
اور ہم نے آپ کے اہل میں سے صالح کی نجات کا وعدہ کیا تھا۔ا گر آپ نے اس دعوے کو عام سمجھ لیا۔ تو ہمارا علم بہت وسیع ہے۔
اور چونکہ یہ پوشیدہ اسرار سے ہے۔ اس لئے انبیاء و مرسلین علیہم السلام اور ا کابر صدیقین رضی الله عنہم ظاہر وعدے پر مطمئن نہیں ہو جاتے ہیں۔ بلکہ ان کی پریشانی اور بیقراری دور نہیں ہوتی ہے اور غیر اللہ کے ساتھ ان کو سکون قرار نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے علم کی وسعت اور اس کے قہر کے نافذ ہونے کی طرف نظر رکھتے ہیں۔
اور اسی طرح سید نا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کا یہ قول ہے:۔ وَلَا أَخَافُ مَا تُشْرِكُونَ بِهِ إِلَّا أَنْ يَّشَاءَ رَبِّي وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا جن چیزوں کو تم لوگ اللہ تعالیٰ کیساتھ شریک کرتے ہو میں ان سے نہیں ڈرتا ہوں مگر یہ کہ میرا رب
چاہے میرا پروردگار اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے۔
اور سید نا حضرت شعیب علیہ السلام کا یہ قول :-
وَمَا يَكُونُ لَنَآ أَن ‌نَّعُودَ فِيهَآ إِلَّآ أَن يَشَآءَ ٱللَّهُ رَبُّنَاۚ وَسِعَ رَبُّنَااور مجھ کو یہ اختیار نہیں ہے کہ میں کفر میں پھر لوٹوں ۔ مگر یہ کہ ہمارا رب اللہ تعالیٰ چاہے۔ ہمارا رب ہرشے کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔
اور اسی قسم میں سے ہمارے نبی کریم ﷺ کا معاملہ ہے۔ جب کہ آپ نے غزوہ بدر کے دن دعا فرمائی۔ یہانتک کہ آپ کی چادر مبارک گر گئی۔
آپ ﷺ نے فرمایا ۔ اللَّهُمَّ وَعَدَكَ وَعَهِدَاكَ. اللَّهم إِنْ تُهْلِكُ هَذِهِ الْعِصَابَةِ لَم تَعْبُدُ بَعْدَ الْيَوْمِ
اے میرے اللہ ! اپنا وعدہ اور عہد پورا کر۔ اے میرا اللہ اگر یہ جماعت ہلاک کر دی گئی ۔ تو آج کے بعدکبھی تیری عبادت نہیں کی جائے گی۔
حضرت ابو بکر صدیق نے آنحضرت ﷺ سے کہا : یا رسول اللہ ﷺ اور آپ کے لئے اتنا کافی ہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ نے آپ سے جو وعدہ فرمایا ہے۔ وہ پورا کرے گا۔ پس حضرت نبی کر یم ﷺ کی نظر ظا ہر وعدہ کے ساتھ نہ ٹھہرنے کی بناء پر زیادہ وسیع تھی ۔ اور حضرت ابوبکر صدیق ظاہر وعدہ کے ساتھ ٹھہر گئے تھے ۔ اور دونوں حق پر تھے۔ لیکن حضرت نبی کریم ﷺکی نظر زیادہ وسیع اور علم زیادہ کامل تھا۔
لیکن صلح حدیبیہ کا معاملہ تو اس میں وعدے کا وقت نہیں مقرر کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے قول کے مطابق
فَعَلِمَ مَالَمْ تَعْلَمُوا پس اللہ تعالیٰ کو اس کا علم ہے جو تم لوگ نہیں جانتے ہو۔
اور جب حضرت عمر نے کہا:۔
أَلَمْ تُخْبِرُنَا إِنَّا تَدْخُلُ مَكَمة کیا آپ نے ہم کو یہ خبر نہیں دی تھی کہ ہم مکہ میں داخل ہوں گے
تو حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا ۔ فقال له: أقلتُ لكَ هَذَا الْعَامَ ؟ فَقَالَ لَا ، فَقَالَ: إِنَّكَ دَاخِلُهَا وَ مُطَوّف بھا
کیا میں نے تم سے کہا تھا کہ اس سال داخل ہو گے؟ حضرت عمر نے کہا: نہیں ۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا ۔ بیشک تم کعبے میں داخل ہو گے ۔ اور اس کا طواف کرو گے ۔

اللہ کے وعدے پراعتماد

لہذا اے میرے بھائی! اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ تم سے کیا۔ تم یقین اور اعتماد کے ساتھ اس کی تصدیق کرو ۔ اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور اس کے اولیائے کرام کے ساتھ خصوصا اپنے شیخ کے ساتھ حسن ظن رکھو۔ اور دل میں پوشیدہ طور پر جھٹلانے یا شک وشبہ کرنے سے پر ہیز کرو۔ ورنہ یہ تمہاری بصیرت کو کمزور کر دے گا ۔ بلکہ کبھی اس کو اندھا ہی کر دے گا۔ اور تمہارے روحانی نور کو بجھا دے گا۔ پھر تم جہاں سے آئے ہو و ہیں لوٹ جاؤ گے۔ اور جو عمارت تم نے بنائی ہے وہ گر جائے گی ۔ لہذا اچھی تاویل کرو ۔ اور نکلنے کے لئے بہتر جگہ تلاش کرو۔ اور ہمارے شیخ الشیوخ سیدی علی رضی اللہ عنہ کا یہ قول پہلے گزر چکا ہے:۔ ہم نے جو کہا۔ اگر وہ ہو گیا۔ تو ہم ایک مرتبہ خوش ہوئے۔ اور اگر وہ نہیں ہوا۔ تو ہم دس مرتبہ خوش ہوئے ۔ ایسا ان کی نظر میں وسعت اور معرفت میں ثابت ہونے کی وجہ سے ہے۔
اور کبھی اللہ تعالیٰ اپنے اولیائے کرام کو قضا کے نازل ہونے کی خبر دیتا ہے۔ لیکن لطف کے نازل ہونے کی خبر نہیں دیتا ہے۔ تو یہ قضا لطف کے ساتھ نازل ہوتی ہے۔ اور اتنی ہلکی اور آسان ہو کر نازل ہوتی ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ کچھ نہیں نازل ہوا۔ اور ہم نے اس کا اور اس سے پہلے جو ہمارے ساتھ اور ہمارے شیوخ رضی اللہ عنہم کے ساتھ پیش آیا اس کا مشاہدہ کیا ہے۔ لہذا ہمارا صدق کم نہیں ہوا۔ اور ہمارا روحانی نور نہیں بھجا۔ یہ ہمارے رب اللہ تعالیٰ کی تعریف اور اس کا شکر ہے۔
تنبیہ: ہمارے شیخ فقیہ علامہ سیدی تا ؤ دی بن سودہ اس حکمت پر اعتراض کرتے تھے ۔ اور کہتے تھے۔ وقت مقرر کرنے کا تصور کیسے کیا جاسکتا ہے؟ اگر وحی کے ذریعے ہو تو وحی کا سلسلہ منقطع ہو چکا۔ اور اگر الہام کے ذریعے ہو تو الہام میں شک کرنے سے بصیرت میں کمی لازم نہیں ہوتی ہے۔ کیونکہ الہام پر ایمان لانا واجب نہیں ہے۔
میں نے جواب دیا۔ ہمارا کلام سچے مریدین کے لئے ہے۔ خواہ وہ سائرین ہوں یا واصلین اور ان لوگوں سے اپنے شیوخ کی ہر بات کی تصدیق کا اقرار (یعنی بیعت ) لیا گیا ہے۔ اور اس لئے کہ مشائخ کرام ، انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں۔ اور ان کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔ پس انبیاء علیہم السلام کے لئے احکام کی وحی ہے۔ اور اولیا ء رضی اللہ عنہم کے لئے الہام کی وحی ہے۔ کیونکہ قلوب جب غیر اللہ کی کدورتوں سے پاک وصاف ہو جاتے ہیں اور انوار واسرار سے بھر جاتے ہیں تو ان میں صرف اللہ تعالیٰ جلوہ گر ہوتا ہے۔ لہذا جب وہ وعدہ یا وعید کی کوئی بات کہیں۔ تو مرید پر اس کی تصدیق واجب ہے۔ کیونکہ اگر اس وعدے میں جواللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی زبان سے ، یا اس کے شیخ کی زبان سے کیا ہے۔ اس کو شک اور تر دد پیدا ہوگا۔ تو یہ اس کی بصیرت میں کمی کا سبب ہوگا اور اس کے روحانی نور کو بجھا دے گا۔
پس اگر اس کے لئے وقت نہ مقرر ہوا ہو تو اس کے واقع ہونے کا انتظار کرے۔ اگر چہ طویل زمانے تک انتظار کرنا پڑے۔ اور اگر اس وعدے کے لئے وقت مقرر کیا گیا ہو۔ لیکن وہ اپنے وقت پر پورا نہ ہوا ہو۔ تو اس کے بارے میں بہتر تاویل کرے۔ جیسا کہ انبیاء مرسلین علیہم الصلوۃ والسلام کے معاملات میں اسباب اور پوشیدہ التزامات کی بنا پر وعدے میں تا خیر اور توقف پہلے بیان کیا گیا ہے۔ اور صدیق اور صادق کے درمیان اس سے فرق و امتیاز کیا جاتا ہے۔ کیونکہ صدیق تردد اور تعجب نہیں کرتا ہے۔ اور صادق پہلے تردد کرتا ہے۔ بعد میں یقین کرتا ہے اور اگر خرق عادت یعنی کرامت دیکھتا ہے تو حیرت و تعجب کرتا ہے۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں