اللہ کریم کی چراگاہ سے بچ

 حضرت شیخ المشائخ، قطب ربانی، غوث صمدانی ، محبوب سبحانی، سیدنا عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے تصوف و طریقت پر مشتمل کتاب” آداب السلوک والتواصل الی منازل الملوک“ میں فرمایا :

ہر صاحب ایمان اس بات کا مکلف ہے کہ جب اسے دنیاوی نعمتیں میسر آئیں تو وہ تحقیق و تفتیش کرے کہ آیا شریعت میں یہ مباح و مشروع ہیں یا حرام و غیر مشروع۔ اور دیکھے کہ کیا ان سے اس کا لطف اندوز ہوناصحیح ہے یا نہیں ۔ نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں۔

  المؤمن فتاش، والمنافق لقاف والمؤمن وقاب  

مومن ہر کام بڑی احتیاط سے کرنے والا ہو تا ہے اور منافق جلد باز ہوتا ہے۔ اور مومن ہر کام میں توقف کرنے والا ہو تا ہے۔

 حضور ﷺ کی ایک اور حدیث ہے۔ فرمایا : دَعْ ‌مَا ‌يَرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكَ

جو چیز تجھے شک میں ڈالے اسے چھوڑ کر اس چیز کو اختیار کرلے جو تجھے شبہ میں نہ ڈالتی ہو“ 

مومن کو جب بھی کوئی نعمت میسر آتی ہے کھانے پینے ، لباس، نکاح اور دوسری تمام اشیاء کی صورت میں تو وہ غور و خوض کر تا ہے اور اس وقت تک اسے حاصل نہیں کرتا جب تک یہ یقین نہیں ہو جاتا کہ اس کا لینا اور قبول کرنا اس کے لیے جائز ہے۔ اور شریعت کے علم کے عین موافق ہے۔ جبکہ وہ حالت ولایت میں ہو۔ اگر وہ حالت بدلیت اور غوثیت میں ہے تواس وقت تک قبول نہیں کر تاجب تک اسےعلم الہی حکم نہیں دیتا۔ اور اگر وہ حالت فنا میں ہے تو اس وقت تک اسے قبول نہیں کرتا جب تک تقدیر محض یعنی فعل الہی سے حکم صادر نہیں ہوتا۔ 

پھر ایک دوسری حالت آتی ہے کہ انسان ہر چیز جو اسے میسر آتی ہے اور اس کو بہم پہنچتی ہے اور اسے مطلق قبول کر لیتا ہے جب تک کہ کوئی حکم ، امریاعلم معارض نہیں آتا۔ اور جب ان میں سے کوئی ایک چیز بھی معارض آجاتی ہے تووہ رک جاتا ہے اور اسے لینے سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے۔ یہ حالت پہلی حالت کے برعکس ہے۔ پہلی  حالت میں توقف اور حقیقت کا پہلو غالب تھا اور دوسری حالت میں اخذو قبول کا پہلو غالب ہے۔ پھر ایک تیسری حالت بھی ہے۔ کہ جس میں ہر میسر اور دستیاب چیز کو حاصل کیا جاتا ہے اور ہر چیز سے لطف اٹھایا جاتا ہے اور تینوں چیزوں میں سے کسی چیز کے معارض آنے کا اعتبار نہیں کیا جاتا اور یہ حقیقت فنا ہے۔ اس حالت میں مومن تمام آفات سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اور اس سے شریعت کی حدود کی پامالی کا ارتکاب نہیں ہوتا اور وہ برائی سے محفوظ رہتا ہے جیسا کہ رب قدوس کا ارشاد گرامی ہے۔ 

كَذَلِكَ ‌لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ

یوں ہوا تا کہ ہم دور کر دیں یوسف سے برائی اور بے حیائی کو بیشک وہ ہمارے ان بندوں میں سے تھاجو چن لیے گئے ہیں ۔

پس مو من حدود شرع کو توڑنے سے محفوظ کر کے اس شخص کی مانند بنا دیا جاتا ہے جس کو کھلی چھٹی دے دی گئی ہو۔ تمام مباح اشیاء کے استعمال کی اسے رخصت مل جاتی ہے۔ بھلائی اس کے لیے آسان ہو جاتی ہے۔ دنیاکی نعمتیں اسے تمام دنیاوی اور اخروی کدورتوں اور تاریکیوں سے پاک و صاف میسر آتی ہیں بندے کا ہر فعل حق تعالی کے ارادے، رضا اور فعل کے موافق ہو جاتا ہے۔یہی  انتہاء ہے۔ اس سے بڑا اور جہ اورنہیں۔ یہ مقام اولیاء کبار اور چنیدہ اصحاب اسرار کی جماعت کے لیے خاص ہے جو انبیاء علیہم السلام کے احوال کے آستانہ سے واقف اور مطلع ہوتے ہیں۔ صلوات اللہ علیھم اجمعین

آداب السلوک شیخ عبد القادر الجیلانی صفحہ 165 ،مکتبہ دارالسنابل دمشق شام


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں