تیرے قرب اورخوشنودی کا طالب ہوں

حضرت شیخ المشائخ، قطب ربانی، غوث صمدانی ، محبوب سبحانی، سیدنا عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے تصوف و طریقت پر مشتمل کتاب” آداب السلوک والتواصل الی منازل الملوک“ میں فرمایا :

خلق خداسےبحکم خداوندی خواہش سےبتقدیرالہی اور اپنے ارادے سےبہ فعل ربانی فنا ہو جاتا کہ تو علم الہی کے لیے ظرف کا کام دے سکے (یعنی تجھے علم لدنی حاصل ہو) 

مخلوق سے فناء ہونے کی علامت یہ ہے کہ تو ان سے قطع تعلق کر لے۔ ان کے پاس آمدورفت موقوف کر دے اور جو کچھ ان کے ہاتھوں میں ہے اس سے مایوس ہو جا۔اپنی ذات اور اپنی خواہش سے فناء ہونا یہ ہے کہ توحصول منفعت اور دفع ضرر میں دنیاوی اسباب سے تعلق اور سب کو ترک کر دے۔ اپنے سود و زیاں کے لیے تو بذات خود اپنے ارادے سے کوئی حرکت نہ کرے اور اپنی ذات کی خاطر اپنی خواش و تقدیر پر اعتماد نہ کرے ۔ نہ تو اپنے آپ سے مضرات دور کرے اور نہ اپنے نفس کی مدد کرے ۔ بلکہ ہر چیز اس ذات کے سپرد کر دے جو پہلے بھی تیرا کارساز تھا اور بعد میں بھی تیرا کارساز ہوگا۔ جس طرح کہ تیرا سب کچھ اللہ کریم کے سپرد تھاجبکہ تو اپنی والدہ کے رحم میں اور پھر اپنے پنگھوڑے میں شیر خوار بچہ تھا۔ 

تیرے ارادے کی بفعل خداوندی فناء یہ ہے کہ کبھی کسی چیز کا ارادہ نہ کرے تیری کوئی غرض و غایت اور حاجت و طلب نہ ہو کیونکہ اللہ تعالی کے ارادے سے ہوتے ہوئے تو اور کسی چیز کا ارادہ کر ہی نہیں سکتا۔ بلکہ فعل خداوندی تجھ میں جاری و ساری ہے۔ تو خود عین اللہ تعالی کا ارادہ اور اس کا فعل ہے۔ تیرے اعضاء ساکن ، دل مطمئن، سینہ کشادہ، چہرہ منور ، باطن آباد اور تو اپنے خالق کی محبت میں اس طرح سرشار ہے کہ ہر چیز سے غنی ہے اللہ کے دست قدرت کے تو سپرد ہے۔تجھے وہ حر کت دے رہا ہے۔ لسان ازل تجھے بلاتی ہے۔ تیرا پروردگار تجھے سکھاتا ہے۔تجھے اپنےنور خاص اور اجلال کا لباس اور عزت کی قبائیں پہناتا ہے سو تو سلف صالحین کے مرتبے پر فائز ہو جائے گا جو کہ علم کے مینار تھے۔ جب توان نعمتوں سے بہرہ ور ہو جائے گا تو تو شکستہ قلب بن جائے گا۔ پھر تیرے دل میں شہوت اور ارادہ نہیں ٹھہر سکے گا جس طرح ٹوٹے ہوئے برتن میں مائع اور مائع میں موجود کثافت نہیں ٹھہر سکتی۔ تیر ادامن رذائل بشری سے پاک ہو جائے گا۔ تیرا باطن غیر کو قبول ہی نہیں کرے گا۔ اللہ تعالی کے سواء یہاں کسی اور کا بسیرا نہیں ہو گا امور تکوینیہ تیرے سپرد ہو گئے۔ کرامات تیرے ہاتھ پر صادر ہوگی۔ ان کرامات اور خرق عادت امور کے پیچھے جن کا صدور تیرے ہاتھ سے ہو گا در حقیقت قدرت خداوندی کار فرما ہوگی اور یہ اس کے فعل اور علم وارادہ کی کرشمہ سازی ہوگی۔ تیرا شمار شکستہ قلب لوگوں میں ہونے لگے گا ۔

جن کے بشری ارادے ناپید اور شہوات طبعیہ زائل ہو چکی ہوتی ہیں۔ اور بشری ارادوں کی جگہ مشیت ربانی اور ارادۀ خداوندی کار فرما ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ 

‌حُبِّبَ ‌إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا ‌ثَلَاثٌ: الطِّيبُ، وَالنِّسَاءُ، وَجُعِلَتْ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِمیرے لیے دنیا کی تین چیزیں محبوب بنائی گئی ہیں۔ عورتیں، خوشبو اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے۔

حضور نبی کریم ﷺنے ان چیزوں کی محبت کو اپنی طرف منسوب کیا 

اس کے بعد کہ ارادہ بشری کی دسترس سے آپ نکل چکے تھے اور انسانی خواہش آپ سے زائل ہو چکی تھی۔ جیسا کہ ہم مذکورہ گفتگو میں اشارہ کر آئے ہیں۔ 

حدیث قد سی ہے۔ أَنَا عِنْدَ الْمُنْكَسِرَةِ قُلُوبُهُمْ ‌مِنْ ‌أَجْلِي

میں ان لوگوں کے پاس ہو تا ہوں جن کے دل میرے لیے شکستہ ہوتے ہیں ۔

تجھے اس وقت تک اللہ تعالی کی معیت خاصہ حاصل نہیں ہو سکتی جب تک شکستہ ذات نہیں ہو جاتا۔ یعنی تیری خواہش اور ارادہ ٹوٹ پھوٹ نہیں جاتے۔ پس جب تیری ذات مکمل طور پر ٹوٹ جائے گی تجھ میں کوئی چیز قرار پذیر نہیں ہو سکے گی اور تو اللہ تعالی کے سواء کسی اور کے لائق نہیں رہے گا تو اللہ تعالی تجھے ایک نئی زندگی عطا فرما دے گا۔ تجھ میں ایک نیا ارادہ پیدا فرمادے گا پھر تواسی ارادہ سے ارادہ کرے گا۔ پس جب تو اللہ تعالی کے پیدا کردہ اس ارادے میں پایا جائے گا تو پروردگار عالم اس ارادے کو توڑ دے گا کیونکہ اس میں تیرپورا وجود پایا جا رہا ہے پس تو ہمیشہ کیلئے منکسر القلب ہو جائے گا۔ پھر اللہ تعالی تیرے اندر ہر لمحہ ایک ارادہ پیدا فرمائے گا اور پھر مجھے اس میں موجود پا کر اس ارادہ کو تجھ سے دور کر د ے گا حتی کہ تقدیر کا لکھا پورا ہو جائے گا اور مجھے بارگاہ خداوندی میں حضور ی کی نعمت میسر آجائے گی۔ میں معنی ہے اس حدیث پاک کا کہ میں ان لوگوں کے پاس ہو تا ہوں جن کے دل میرے لیے شکستہ ہو جاتے ہیں۔ 

ہمارے قول (عند وجود نھا) کا مطلب یہ ہے کہ جب تو اس ارادے سے مطمئن ہو جائے گا اور اس کی طرف متوجہ ہو جائے گا۔ حدیث قد کیا ہے۔ 

وَمَا ‌يَزَالُ ‌عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ: كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ، وَيَدَهُ الَّتِي ‌يَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَادوسری روایت میں بی یسمع وبي يبصر وبى يبطش وبى يعقل کے الفاظ ہیں۔ 

میر ابندہ یعنی مؤمن نوافل کے ذریعے میرا قرب پا تارہتا ہے حتی کہ وہ میرا محبوب بن جاتا ہے۔ پس جب وہ میرا محبوب بن جاتا ہے تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے۔ میں اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے۔ میں اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے وہ چھوتا ہے۔ میں اس کی ٹانگیں بن جاتا ہوں  جس سے وہ چلتا   ہے   دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں پس وہ میرے ساتھ سنتا ہے۔ میرے ساتھ دیکھتا ہے، میرے ساتھ پکڑتا ہے۔ میرے ساتھ سوچتا ہے۔

 اور فنایہ ہے کہ تو اپنی ذات سے فانی ہو جائے۔ جب تو اپنی ذات اور دوسری مخلوق سے فانی کر دیا گیا تو اللہ وحدہ لاشریک کے ساتھ باقی ہو جائے گا۔ پھرتجھے مخلوق سے نہ کوئی امید رہے گی اور نہ خوف۔ کیونکہ مخلوق ہی خیر وشر ہے۔ خیر و شر کا تعلق اللہ تعالی کی تقدیر سے ہے۔ پس وہ تجھے شر سے محفوظ رکھے گا اور خیر کے سمندر میں غرق کر دے گا۔ یوں تو ہر بھلائی کیلئے ظرف ہر نعمت و سرور ، زیب و زینت، نوروضیاء اور امن و سکون کامنبع دسر چشمہ بن جائے گا۔ 

میں فنا طالبان راه حقیقت کی آرزو، مطلوب و منتہا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جس پر اولیاء اللہ کی سیر انتہاء کو پہنچتی ہے۔ اسی کا دوسرانام استقامت ہے اولیاء و ابدال متقدمین اسی کے طالب رہے ہیں۔ ان کی تمام کوششوں کا محور و مرکز یہی تھا کہ وہ اپنے ارادہ سے فانی ہو کر حق تعالی کے ارادے کے ساتھ باقی ہو جائیں۔ اور مرتے دم تک وہ اللہ تعالی کے ارادے کے ساتھ ارادہ کریں۔ انہیں ابدال کہنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ ان کا ارادہ اللہ تعالی کے ارادے سے بدل جاتا ہے۔ ان نفوس قدسیہ کے نزدیک گناہ یہ ہے کہ سہو، نسیان، غلبہ حال دہشت میں ان کا ارادہ اللہ تعالی کے ارادے کے ساتھ شریک ہو جائے۔ اگرکبھی ایسا ہو جائے تو اللہ تعالی انہیں یاد دلا کر اور تنبیہ فرما کر اپنی رحمت کے طفیل انہیں اس کو تاہی کا ادراک دے دیتا ہے وہ اس سے رجوع کر لیتے ہیں اور اپنے پروردگار کی جناب میں معافی کی درخواست کرتے ہیں۔ کیونکہ معصوم عن الارادہ تو صرف فرشتے ہیں۔ ملا ئکہ کو ارادہ سے پاک پیدا کیا گیا ہے۔ جبکہ انبیاء علیھم السلام خواہش سے معصوم ہیں۔ ملائکہ و انبیاء کے علاوہ باقی تمام مخلوق جن وانس جو مکلف ہے وہ ارادہ اور خواہش سے معصوم نہیں ہے۔ ہاں اولیاء کرام حرص و ہواسے محفوظ ہیں جبکہ ابدال ارادہ سے محفوظ ہیں مگر ارادہ اور خواہش سے معصوم نہیں مقصد یہ ہے کہ کبھی کبھار ان کا میلان ارادے اور خواہش کی طرف ہو جاتا ہے۔ پھر اللہ تعالی اپنی رحمت خاص سے انہیں اس کوتاہی پر آگاہی عطا فرما دیتا ہے۔ اور وہ اس سے باز آجاتے ہیں۔

آداب السلوک شیخ عبد القادر الجیلانی صفحہ 56،مکتبہ دارالسنابل دمشق شام


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں