اللہ کی راہ کے حجاب
خداوند تعالیٰ کی فرماں برداری اختیار کرنے میں انسان کی راہ میں جو رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں ان کو تصوف کی زبان میں ’حجاب‘ کہتے ہیں اور ان کی دو قسمیں ہیں ایک حجاب رینی اور دوسرا حجاب غینی۔
رینی حجاب
رینی حجاب ایک مستقل رکاوٹ ہے۔ یہ کبھی نہیں اُٹھے گا۔ کیونکہ اس کے لاحق ہو جانے کے بعد آدمی کے دل پر مہر ہو جاتی ہے۔ اس پر ٹھپہ لگ جاتا ہے۔ رین (زنگ چڑھ جانا)، خَتَم (مہر لگ جانا) اور طبع (ٹھپہ لگ جانا) تینوں الفاظ کو قرآن مجید نے اس بارے میں ایک ہی معنی میں استعمال کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: اِذا تُتلیٰ عَلَیہِ ایٰتُنَا قَالَ اَسَاطِیرُ الاَوَّلِینَ۔ کَلاَّبَل رَانَ عَلیٰ قُلُوبِھِمِ مّاَ کَانُو یَکسِبُونَ۔ (۸۳:۱۳۔۱۴) یعنی جب اس کے سامنے ہماری آیات پڑھی جاتی ہیں تو کہتا ہے، چھوڑو جی، پرانے قصے کہانیاں ہیں۔ نہیں، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ان لوگوں کی بد کرداریاں زنگ بن کر ان کے دلوں پر جم گئی ہیں۔ دوسری جگہ فرمایا: ۔۔۔اِنَّ الَّذِینَ کَفَرُواسَوَآءٌعَلیھِمءَاَنذَرتَھُم اَم لَم تُنذِرھُم لاَ یؤمِنُونَ۔خَتَمَ اللہُ عَلیٰ قُلُوبِہِم وَعَلیٰ سَمعِھِم۔وَعَلیٰ اَبصَارِھِم غِشَاَوۃٌ وَّ لَھُم عَذَابٌ عَظِیمٌ۔ (۲:۶۔۷) یعنی جن لوگوں نے (ان بنیادی حقائق کو) ماننے سے انکار کر دیا ہے، ان کے لیے یکساں ہے کہ انھیں ڈراؤ یا نہ ڈراؤ وہ ماننے والے نہیں۔ ان کے دلوں پر اور کانوں پر اللہ نے مہر کر دی ہے۔ اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیا ہے۔ ان کے لیے (تو اب) عذاب عظیم ہی ہے۔۔ اسی بات کو تیسری جگہ اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمایا: فَبِماَ نَقضِھم مِیثَاقَھُم وَکُفرِھِم بِاٰ یٰتِ اللہِ وَقَتلِھِمُ الاَنبِیَآءَ بِغَیرِ حَقِّ وَّقَولِھِم قُلُوبُنَا غُلفٌ۔بَل طَبَعَ اللہُ عَلَیھَا بِکُفرِھِم فَلاَ یُومِنُونَ اِلاَّ قَلِیلاً۔ (۴:۱۵۵) یعنی ان کی عہد شکنی سے اور اس وجہ سے کہ انھوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا اور متعدد پیغمبروں کو ناحق قتل کیا اور (حق کھل کر سامنے آ جانے پر اسے قبول کرنے کی بجائے الٹا یہ) کہا کہ ہمارے دل غلافوں میں محفوظ ہیں، (دل محفوظ نہ کہو) بلکہ ان کی باطل پرستی کے سبب اللہ نے ان کے دلوں پر ٹھپہ لگا دیا ہے۔ اس لیے شاذ و نادر ہی کوئی ایمان لاتا ہے۔
جن لوگوں کا اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ذکر فرمایا ہے، یہ ہیں وہ لوگ جن کے دلوں پر ۔رینی حجاب۔ ڈال دیا گیا ہے۔ لیکن جیسا کہ خود ان آیات سے ظاہر ہے۔ یہ صورت ان کے اپنے طرز عمل اور اپنے کرتوتوں کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے۔ یہ بات نہیں ہے کہ وہ خود تو صحیح راہ کے متلاشی تھے مگر اللہ نے ان کو ہدایت سے محروم کر دیا۔ چنانچہ حق تعالیٰ نے اس بات کو صاف طور پر واضع فرما دیا کہ: فَلَمّاَ زَا غُوازَاغَ اللہُ قُلُوبَھُم وَاللہُ لاَ یَھدِی القَومَ الفٰسِقِینَ۔ (۶۱:۵) یعنی جب انھوں نے خود ہی کج روی اختیار کر لی تو اللہ نے بھی ان کے دلوں کو ٹیڑھا کر دیا کیونکہ اللہ کا یہ دستور نہیں ہے کہ نافرمانی کی راہ اختیار کرنے لوگوں کو (زبردستی) راہ دکھائے۔ ورنہ جو شخص اخلاص کے ساتھ ہدایت اور راست روی کا طلبگار ہو، اسے اللہ ضرور راہ راست دکھاتا ہے۔ فرمایا: یَھدِی اِلَیہِ مَن یّنِیبُ۔ (۴۲:۱۳) اللہ تعالیٰ رہنمائی کرتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرے۔ وَمَا یُضِلُّ بِہٖ وَیَقطَعُونَ مَآ اَمَرَ اللہُ بِہ اَن یُّو صَلَ وَیُفٗسِدُونَ فِی الاَرضِ۔۔۔ (۲۔۶۲۔۲۷) گمراہی میں اللہ انہی لوگوں کو مبتلا کرتا ہے جو فاسق ہیں۔ جو اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ دیتے ہیں۔ اللہ نے جن روابط کو جوڑنے کا حکم دیا ہے، انھیں کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں۔ اللہ کا اس بارے میں اٹل قاعدہ یہ ہے کہ وَالَّذِیٗنَ جَا ھَدُو افِینَٗا لَنَھٗدِ یَنّھُم سُبُلَناَ۔(۲۱۔۳) یعنی جو لوگ ہماری راہ میں محنت اٹھاتے اور جدوجہد کرتے ہیں ان کو ہم ضرور اپنا رستہ دکھاتے ہیں۔ بلکہ اس بارے میں اللہ تعالیٰ کی شفقت اور مہربانی کا یہ عالم ہے کہ وَمَن یُؤْمِن بِاللَّهِ یَهْدِ قَلْبَهُ۔ (۶۴۔۱۱) یعنی کو شخص اللہ پر ایمان لے آئے اسے وہ راہ راست دکھا دیتا ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا عنایت ہو سکتی ہے کہ اپنی کتاب ہر طرح سے محفوظ کر کے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے ہاتھ میں دے دی اور بتا دیا ذَلِكَ الْكِتَابُ لاَ رَیْبَ فِیهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِین۔ (۲۔۲) یہ اللہ کی کتاب ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ یہ راہ دکھاتی ہے پرہیز گاروں (ہدایت کے طلب گاروں کو۔
حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی شخص گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر اس گناہ کی شامت سے ایک سیاہ داغ پڑ جاتا ہے۔ پھر اگر اس نے اس گناہ سے توبہ کر لی اور آئندہ گناہوں سے باز رہا تو وہ داغ مٹ جاتا ہے اور دل صاف ہو جاتا ہے۔ ورنہ یہ داغ بڑھتے بڑھتے تمام دل کو گھیر لیتا ہے اور اسے سیاہ کر دیتا ہے۔ اسی کو اللہ تعالیٰ نے کَلاَّ بَل رَانَ عَلیٰ قُلُوبھِمٗ مَّا کَانُوٗ یَکٗسِبُوٗنَ اور بَلٗ طَبَعَ اللہُ عَلَیٗھَا بِکُفٗرِھِم اور خَتَمَ اللہُ عَلیٰ قُلُوٗ بِھِمٗ کے الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ اس کا علاج سچی توبہ ہے جس کی تفصیل آگے آئے گی۔
غینی حجاب
رینی حجاب کے برعکس غینی حجاب ایک عارضی رکاوٹ ہے اور یہ تھوڑی سی محنت اور اللہ کی طرف رجوع کرنے سے دور ہو سکتی ہے۔ جیسا کہ اوپر درج کردہ آیات سے واضع ہے۔ یہ کم و بیش سبھی کو لاحق ہوتا رہتا ہے۔ اس کے دور کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی سچے دل کے ساتھ اللہ سے رجوع کرے۔ جن چیزوں کے بارے میں وہ خود بھی جانتا ہے کہ یہ خدا کی نافرمانی کے کام ہیں ان کو ترک کرے اور جن کے عاید کردہ فرائض اور پسندیدہ کام جانتا ہے انکے لیے کمربستہ ہو۔ ورنہ ظاہر بات ہے کہ کو جو شخص نہ راہ ہدایت کا خواستگار ہو، نہ اس کی ضرورت محسوس کرے اور نہ اس کے لیے کوئی محنت اور کوشش کرنے کے لیے تیار ہو، اسے ہدایت کیسے حاصل ہو؟ جس شخص کو نہ اپنی بیماری کا احساس ہو، نہ اس کے برے انجام کی کوئی پرواہ ہو اور نہ وہ اس سے شفا یابی کا طلبگار ہو، اس کے گھر کے سامنے بہترین شفا خانہ بھی کھلا موجود ہو تو اسے اس سے کیا فیض پہنچ سکتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: كَیْفَ یَهْدِی اللّهُ قَوْمًا كَفَرُواْ بَعْدَ إِیمَانِهِمْ وَشَهِدُواْ أَنَّ الرَّسُولَ حَقٌّ وَجَاءهُمُ الْبَیِّنَاتُ وَاللّهُ لاَ یَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِین۔ (۳: ۸۶)یعنی ان لوگوں کو اللہ کیسے ہدایت بخشے جنھوں نے نعمت ایمان پا لینے کے بعد پھر کفر کا رویہ اختیار کیا حالانکہ وہ یہ بھی شہادت دے چکے ہیں کہ رسول سچا ہے اور سب باتیں ان پر واضع ہو چکی ہیں (جان لو) ایسے ظالم اور بے ڈھب لوگوں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا۔ پس ایمان کی نعمت اور دین کی راہ پا لینے بعد غفلت میں مبتلا رہنا خدا کی اطاعت کو عملاً اختیار نہ کرنا انسان کے لیے سخت خطرے کی حالت ہے۔ اگر آدمی اپنی اس حالت کو بدلنے کی کوشش نہ کرے گا تو اس کے متعلق اندیشہ ہے کہ یہ غینی حجاب آہستہ آہستہ رینی حجاب کی صورت اختیار کر لے گا۔
ان دونوں حجابوں کا فرق اس طرح سے سمجھئے، جیسے ایک تو فی الاصل پتھر ہے اور اس سے آئینہ بن ہی نہیں سکتا اور دوسرا دراصل آئینہ ہے جو زنگ آلود ہو گیا ہے اور صیقل کرنے سے صاف ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ یاد رکھیے کہ جو دل پتھر کی صورت اختیار کرتے ہیں ان کو اللہ زبردستی پتھر نہیں بنا دیتا۔ بلکہ آدمی خود ایسی راہ اختیار کرتا ہے جو اسے اس منزل پر پہنچانے والی ہوتی ہے اور اس راہ پر بڑھتے بڑھتے وہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ ورنہ اصل حقیقت تو یہی ہے کہ کُلُّ مَولُودٍ یُولَدُ عَلیٰ فِطرَۃٍ الاِسلاَمِ (مؤطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ) یعنی ہر بچہ فطرت اسلام (خدا کی مخلصانہ اور بے آمیز بندگی کی راہ) پر پیدا ہوتا ہے۔
حجاب کی اقسام اور وقوف سالک
سالک وہ ہے جو راہ چلے اور واقف وہ ہے جو بیچ میں اٹک جائے اور اگر سالک سے عبادت میں کوتاہی ہو جائے اگر وہ جلدی ہی توبہ و استغفار کر کے پھر بدستور سرگرم ہوگیا تو دوبارہ سالک بن جائے گا اور اگر خدانخواستہ وہی غفلت رہی تو اندیشہ ہے کہ کہیں راجع یعنی واپس نہ ہوجائے اس راہ کی لغزش کے سات درج ہیں
اعراض
شروع میں اعراض ( منہ موڑنا)ہوتا ہے
حجاب
اگر اعراض کے بعد معذرت و توبہ نہ کی تو حجاب ہوجائے گا
تفاصل
اگر پھر بھی اصرار رہا تو تفاصل ہو جائے گا
سلب مزید
اگر اب بھی استغفار نہ کیا تو عبادت میں جو ذوق و شوق کی ایک زائد کیفیت تھی وہ سلب ہو جائے گی اور یہ سلب مزید ہے
سلب قدیم
اگر اب بھی اپنی بےہودگی نہ چھوڑی تو زیادتی یعنی تقصیر سے پہلے عبادت میں جو راحت وحلاوت تھی وہ بھی سلب ہوجائے گی اس کو سلب قدیم کہتے ہیں
تسلی
اگر اس پر بھی توبہ میں تقصیر کی تو جدائی کو دل گوارا کرنے لگے گا یہ تسلی ہے
عداوت
اگر اب بھی وہ غفلت میں رہے تو محبت عداوت میں بدل جائے گی