امام ربانی مجدد الف ثانی اور رفع سبابہ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّیْ وَنُسَلِّمُ عَلٰی رَسُوْلِهِ الْکَرِیْمِ

امام ربانی مجدد الف ثانی اور رفع سبابہ

علا مہ محمد عبدالحکیم شرف قادری شیخ الحدیث، جامعہ اسلامیہ، لاہور

امام ربانی مجدد الف ثانی قدس سرہ العزیز کے خلیفہ میرمحمد نعمان رحمۃ الله تعالی نے ملا محمود رحمہ اللہ تعالی کے ہاتھ ایک عریضہ ارسال کیا اور امام ربانی سے دریافت کیا کہ التحیات میں کلمہ شہادت پڑھتے وقت انگشت شہادت کا اٹھانا جائز ہے یانہیں؟ ساتھ ہی مولاناعلیم اللہ رحمۃ اللہ تعالی کا رسالہ بھجوایا جس میں انہوں نے اس اشارے کو جائز قرار دیا تھا۔

امام ربانی رحمۃ الله تعالی نے اس سوال کاتفصیلی جواب عنایت فرمایا ۔ جس کا خلاصہ یہی ہے کہ اشاره نہیں کرنا چاہیے۔ تفصیلا ت آئنده سطور میں ملاحظہ ہو۔

امام ربانی کا موقف یہ ہے کہ جس طرح حدیث شریف کو چھوڑ کر قرآن پاک پر عمل نہیں کیا جاسکتا، اسی طرح فقہائے کرام کے فتاوٰی اور تشریحات کو چھوڑ کر حدیث پرعمل نہیں کیا جا سکتا۔ سورة فاتحہ میں جو دعا سکھائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں صراط مستقیم کی ہدایت عطا فرما، صراط مستقیم کیا ہے؟ صِرَاطَ ٱلَّذِينَ أَنۡعَمۡتَ عَلَيۡهِمۡ ان لوگوں کا راستہ ہے جن کو رب کریم جل شانہ نے انعام سے نوازا ہے اور انعام یافتہ لوگ کون ہیں؟ انبیاء، صدیقین اور شہداء کے بعد صالحین امت ہیں ۔ ہماری کامیابی اور ہدایت یہی ہے کہ ہم امت مسلمہ کے صالحین کے تسلسل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں ورنہ آوارگی اور خواہش نفس کی پیروی کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔

مولا نا علیم اللہ رحمۃاللہ  ا تعالی نے اشارے کے جواز پر جو دلائل دیئے تھے ، ان کا خلاصہ حسب ذیل تھا:

1۔ احادیث پیش کیں۔

2۔فقہ حنفی کی روایات پیش کیں۔   

3۔امام محمد بن حسن شیبانی رحمۃاللہ تعالی کے حوالے سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ اشارہ کیا کرتے تھے اور ہم بھی اسی طرح کریں گے، جس طرح نبی اکرم ﷺ کرتے تھے۔ اس کے بعد امام محمد نے فرمایا: ” یہی میرا قول ہے اور یہی امام ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کا قول ہے امام ربانی نمبر دو اور تین کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:۔

’’جب فقہ حنفی کی کتابوں میں اچھی طرح غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اشارے کے جائز ہونے کی روایات نہ تو اصول کی روایات ہیں اور نہ ہی ظاہر مذہب کی، جہاں تک امام محمد شیبانی کے ارشاد کا تعلق ہے تو وہ بھی روایات نو ادر میں سے ہے۔ اصول کی روایات میں سے نہیں ہے‘‘۔(مکتوبات امام ربانی فارسی دفتر اول حصہ پنجم مکتوب 312)

اس ارشاد کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ معلوم کیا جائے کہ مذہب حنفی کے مسائل کے تین طبقے ہیں:

1۔ وہ مسائل جو امام محمد رحمہ اللہ تعالی کی چھ کتابوں میں بیان کیے گئے ہیں:

جامع صغیر (3) جامع کبیر (3) سیرصغیر (4) سیرکبیر (5) مبسوط اور (6) زیادات

یہ چھ کتابیں امام محمد سے بطریق شہرت روایت کی گئی ہیں، ان مسائل کو مسائل اصول کہتے ہیں اور ان ہی کوظاہر الروایۃبھی کہتے ہیں۔

2۔ وہ مسائل جو ظاہرالروایۃ کی ان چھ کتابوں کے علاوہ امام کی دوسری کتابوں میں بیان کیےگئے ہیں۔

3۔ مسائل الفتاوی ، ان ہی کو ’’الواقعات ‘‘بھی کہتے ہیں، یہ وہ مسائل ہیں جو امام کے شاگردوں یا ان کے شاگردوں کے شاگردوں یا بعد کے علماء نے استنباط کیے اور ان کے بارے میں تین اماموں ( امام ابوحنیفہ، امام ابو یوسف اور امام محمد) سے کوئی روایت نہیں ہے۔ (حاشیہ مکتوبات بحو الہ مقدمہ شرح وقایہ)

امام ربانی فرماتے ہیں کہ مولانا علیم اللہ نے اشارے کے جائز ہونے کے بارے میں فقہ حنفی کی جو روایات پیش کی ہیں اور امام محمد کا جو حوالہ دیا ہے یہ سب غیر ظاہر الروایت سے تعلق رکھتی ہیں، اس لیے ان پر فتوی نہیں دیا جائے گا۔ اس دعوے کی تائید میں فتاوی غرائب سے محیط کے حوالے سے نقل کرتے ہیں۔

’’کیا نمازی اپنے دائیں ہاتھ کی انگشت شہادت سے اشارہ کرے گا؟ امام محمد نے یہ مسئلہ اصل (مبسوط ) میں بیان نہیں کیا ، مشائخ  کا اس میں اختلاف ہے، بعض فرماتے ہیں: اشارہ نہ کرے ، بعض کہتے ہیں : اشارہ کرے، امام محمد نے غیر اصول کی روایت میں ایک حدیث نبی اکرم ﷺسے بیان کی ہے کہ آپ اشارہ کیا کرتے تھے۔ اس کے بعد امام محمد نے فرمایا: یہ میرا قول ہے اور یہی امام ابو حنیفہ علیہ الرحمہ کا قول ہے۔ بعض علماء نے فرمایا کہ اشارہ سنت ہے اور بعض نے فرمایا مستحب ہے‘‘۔ (مکتوبات امام ربانی صفحہ سابقہ)

اس کے بعد امام ربانی نے فقہ حنفی کی ان کتابوں کے حوالےنقل کیے ہیں جن میں اشارے کو حرام، مکروہ اور ممنوع کہا گیا ہے۔ ملاحظہ ہوں:

1 ۔  صحیح یہ ہے کہ اشارہ حرام ہے۔ (فتادی غرائب)

2۔ نماز میں’’ اشهد ان لا اله الا الله“ کہتے وقت انگشت شہادت کے ساتھ اشارہ کرنا مکروہ ہے اور یہی مختار ہے۔ (فتاوی سراجیہ)

3۔ اس پرفتوی ہے، کیونکہ نماز کی بنا سکون اور وقار پر ہے۔ ( فتاوی کبریٰ)

4۔ کلمہ شہادت ادا کرتے وقت انگشت شہادت کے ساتھ اشارہ نہ کرے

، یہی مختار ہے اور اسی پر فتویٰ ہے۔ (فتاویٰ غیاثیہ)

5۔ نہ تو اشارہ کرے اور نہ ہی انگلیاں بند کرے ،یہی ہمارے اصحاب (احناف) کے ظاہر اصول کا قول ہے، جیسے زاہدی میں ہے، اسی پر فتوی ہے جیسے کے مضمرات، فتاویٰ ولواجی اور فتاوی خلاصہ وغیرہ میں ہے، ہمارے اصحاب (ائمہ احناف)سے یہ روایت بھی ہے کہ یہ سنت ہے۔(فتاویٰ غیاثیہ)

6۔ پھر جب تشہد شروع کرے اور “لا الہ الا الله ‘‘ تک پہنچے تو کیا دائیں ہاتھ کی انگشت شہادت سے اشارہ کرے؟ امام محمد نے اصل( مبسوط ) میں یہ مسئلہ بیان نہیں کیا، مشائخ کا اس میں اختلاف ہے، بعض نے فرمایا: اشارہ نہ کرے

، فتاوی کبریٰ میں ہے کہ اسی پر فتوی ہے، اور بعض نے فرمایا کہ اشارہ کرے ، فتاوی غیاثیہ میں ہے کہ تشہد کے وقت انگشت شہادت سے اشارہ نہ کرے ، یہی مختار ہے۔(خزانۃ الروايات بحوالہ تاتارخانیہ)

ان روایات کے پیش کرنے کے بعد امام ربانی رحمۃ الله تعالی و افاض علينا فيوضہ و برکاتہ فرماتے ہیں:

’’جب معتبر روایات میں اشارے کا حرام ہونا بیان کیا گیا ہے، اشارے کے مکروہ ہونے کا فتوی دیا گیا ہے، اشارے اور انگلیوں کے بند کرنے کی ممانعت کی گئی ہے اور اس ممانعت کو ظاہر اصول احناف کہتے ہیں تو ہم مقلدین کو حق نہیں پہنچتا کہ احادیث کے مقتضاپر عمل کرتے ہوے اشارہ کرنے کی جرات کریں اور اتنے علماء مجہتدین کے فتووں کے مطابق حرام مکروہ اور ممنوع کام کے مرتکب ہوں‘‘۔ (وہی حوالہ سابقہ)

غور فرمائیں کہ امام ربانی کیا فرمارہے ہیں؟ وہ فرماتے ہیں کہ ہم مقلد ہیں ، ہمارا یہ مقام نہیں کہ ائمہ مجتہدین کو چھوڑ کر براہ راست حدیث شریف سے استدلال کریں، وہ اپنے علم و تقوی اور زمانہ نبوت کے قرب کی وجہ سے ہم سے کہیں زیادہ دین کا فہم رکھتے تھے، یہ امام ربانی جیسے عالم و عارف فرمارہے ہیں تو ہم کس شمار قطار میں ہیں کہ مجتہد ہونے اور مجتہدین کا مقابلہ کرنے کا دعوی ٰکریں۔

اشارے کو جائز قرار دینے والوں کے خلاف امام ربانی کا استدلال ملاحظہ ہو فرماتے ہیں کہ جوحنفی ہو پھر اشارے کو جائز قرار دے وہ دو حال سے خالی نہیں ہے یا تو اس کے نزدیک

(1) ان علماء مجتہد ین کو (جنہوں نے اشارے سے منع کیا ہے ) اشارے کے جائز ہونے سے متعلق معروف احادیث کا علم نہیں تھا۔ یا

(2) ان علماء کو ان حادیث کا علم تو تھا، لیکن انہوں نے ان احادیث کے مقتضاپر عمل نہیں کیا، بلکہ احادیث کے خلاف اپنی آراء کے مطابق حرام اور مکروہ ہونے کا حکم دیا۔

یہ دونوں شقیں غلط اور فاسد ہیں ، کوئی بے وقوف یا معاند ہی ان کو جائز قرار دے سکتا ہے۔ (وہ ہم سے کہیں زیادہ وسیع علم رکھتے تھے، جب ہمیں علم ہے تو انہیں کیوں نہیں ہو گا؟ اس لیے پہلی شق باطل ہے،دوسری شق کا باطل ہونا اور بھی زیادہ واضح اور ان کے علم و تقوی کے منافی ہے)۔

اس سے پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ اشارے کے مجوز ین نے تین طرح استدلال کیا ہے، پہلا استدلال احادیث سے تھا، بیان مذکور میں احادیث سے استدلال کا جواب بھی ہے کہ کیا ائمہ علماء کو ان احادیث کا علم نہ تھا یا علم تو تھا لیکن انہوں نے دیدہ و دانستہ احادیث کی مخالفت کی اور اپنی رائے سے فتویٰ صادر کر دیا؟ مزید گفتگو آئنده آرہی ہے۔

صاحب ترغیب الصلو ۃنے اشارہ نہ کرنے کی ایک اور وجہ  یہ بیان کی تھی ،امام ربانی اسے نقل کر کے رد فرماتے ہیں، ترغيب الصلوۃ میں ہے

’’تشہد میں انگشت شہادت کا اٹھا نا علماء متقدمین کی سنت ہے (یعنی ان کا معمول تھا لیکن علماء متاخرین نے اس سے منع کیا ہے، کیونکہ رافضیوں نے اس مسئلے میں غلو کیا تو سنیوں نے اسے ترک کر دیا تا کہ سنیوں پر رافضی ہونے کی تہمت نہ لگے‘‘۔

امام ربانی فرماتے ہیں کہ یہ توجیہ کتب معتبرہ کے خلاف ہے، کیونکہ ہمارے ائمہ کے ظاہر اصول کا حکم یہ ہے کہ نہ تو اشارہ کیا جائے اور نہ ہی انگلیاں بند کی جائیں، لہذا اشارہ نہ کرنا علماء متقدمین کی سنت (طریقہ) ہے، ترک کرنے کی یہ وجہ نہیں کی تہمت کی نفی کی جائے۔

اس مقام پرپہنچ کر امام ربانی ایک سوال کا جواب دیتے ہیں اور وہ یہ کہ ائمہ مذکور ین نے اشارے کو حرام اورمکروہ قرار دیا ہے تو اس کی دلیل کیا ہے؟ امام ربانی فرماتے ہیں:

ان اکابر دین کے بارے میں ہمارا حسن ظن یہ ہے کہ جب تک ان پر حرمت یا کراہت کی دلیل واضح نہیں ہوئی، انہوں نے حرمت یا کراہت کا فتوی نہیں دیا، اشارے کے سنت اور مستحب ہونے کے اقوال بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ یہ وہ ہے جو علماء نے بیان کیا اور صحیح یہ ہے کہ اشارہ حرام ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اشارے کے سنت اور مستحب ہونے کے دلائل ان بزرگوں کے نزدیک درجہ صحت کونہیں پہنچے، بلکہ ان کے نزدیک اس کے خلاف ہر دلیل صحت کو پہنچی ہے، زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ ہمیں اس دلیل کا علم نہیں ہے، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اکابر کی بات رد کر دی جائے ۔

ایک دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں اس فتوے کی خلاف دلیل کا علم ہے۔ ( مثلا وہ احادیث جو اشارے کے جائز ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔) امام ربانی اس سوال کا جواب دیتے ہوے فرماتے ہیں: ۔

حلت اور حرمت کے ثابت کرنے میں مقلد کا علم معتبر نہیں ہے، اس سلسلے میں مجتہد کاظن معتبر ہے۔

مخالفین پر رد

اشارے کو جائز قرار دینے والے بعض حضرات نے ممانعت کے دلائل کو مکڑی کے جالے سے زیادہ کمزور قرار دیا تھا، امام ربانی ان پر رد کرتے ہوے فرماتے ہیں: ۔

مجتہدین کے دلائل کو مکڑی کے جالے سے زیادہ کمزور قرار دینا بڑی جرأت ہے، اسی طرح اپنے علم کو ان اکابر کے علم پرترجیح دینا ، احناف کے ظا ہر اصول کو باطل قرار دینا اور جن روایات پرفتوی ہے ان کو رد کرنا اور انہیں شاذ کہنا بڑی بے باکی ہے۔

 رہا یہ سوال کے اشارے کے جائز بلکہ مستحب ہونے کے بارے میں احادیث وارد ہیں ، تو اس کا جواب دیتے ہوے امام ربانی فرماتے ہیں:

 ان اکابر کا زمانہ نبی اکرم ﷺکے زمانے کے قریب تھا، ان کا علم وسیع تھا، یہ اصحاب تقوی و ورع تھے اس لیے یہ حضرات ہم دور پڑے ہوے لوگوں کی نسبت احادیث کو بہتر جانتے تھے، احادیث کے صحیح یا غیرصحیح ، منسوخ یا غیر منسوخ ہونے کو ہم سے بہتر پہچانتے تھے، انہوں ان احادیث کے مقتضاء  پر عمل  نہیں کیا تو ضرور ان کے پاس کوئی معتبر دلیل ہوگی ۔

اس کے بعد خودان احادیث پر عمل نہ کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوے فرماتے ہیں کہ اشارے کی کیفیت اور انگلیوں کے بند کرنے کے بارے میں احادیث میں بکثرت اختلاف ہے، اس اختلاف نے نفس اشارہ میں اضطراب پیدا کر دیا ہے۔ اور جس حدیث میں اضطراب ہووہ ضعیف ہوتی ہے۔ روایات کا اختلاف دیکھئے :

1۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم ﷺنے انگلیاں بند کیے بغیر اشارہ کیا ۔ جن حضرات نے انگلیاں بند کرنے کا تذکرہ کیا ہے ان میں بھی اختلاف ہے۔ 

2۔بعض حضرات نے ۵۳ کے اشارے کے انداز میں انگلیاں بند کر نے کا تذکرہ کیا ۔ اور وہ یوں کہ چھنگلی، اس کے ساتھ والی انگلی اور درمیانی انگلی کو بند کر لیا جائے اور انگشت ہادت کو پھیلائے رکھا جائے اورانگوٹھے کا کنارہ اس کی جڑ پر رکھ دیا جائے۔

3۔بعض نے یہ روایت کیا کہ ۲۳ کے اشارے کی طرح انگلیاں بند فرمائیں۔ (یعنی انگوٹھا درمیانی انگلی پر رکھا جائے) ۔

4۔ بعض نے بتایا کہ چھنگلی اور اس کے ساتھ والی انگلی بند کر لی، درمیانی انگلی اور انگوٹھے کے ساتھ دائرہ بنالیا اور انگشت شہادت سے اشارہ فرمایا۔

5۔ ایک روایت میں ہے کہ صرف انگوٹھا درمیانی انگلی پر رکھ کر اشارہ فرماتے تھے۔

 6۔ایک روایت میں ہے کہ دایاں ہاتھ بائیں ران پر اور بایاں ہاتھ دائیں پاؤں پر کھ کر اشارہ فرماتے 7۔ ایک روایت میں ہے کہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی پشت پر پنجہ پنجے پراور کلائی   کلائی پر رکھ کر اشاره فرماتے تھے۔

8۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ تمام انگلیاں بند فرمالیتے اور اشارہ کرتے۔

9۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ انگشت شہادت کو حرکت دئیے بغیر اشارہ فرماتے تھے۔

10۔ بعض روایات میں انگشت شہادت کو حرکت دینے کا ذکر بھی آتا ہے۔

11۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ تشہد کے پڑھنے کے وقت اشارہ فرماتے تھے، اس روایت میں تعین  نہیں ہے کہ کس وقت اشارہ فرماتے تھے۔

12۔ بعض احادیث میں آیا ہے کہ کلمہ شہادت (اشهدان لا اله الا الله ) کے ادا کرتے وقت اشاره فرماتے تھے۔

13۔ بعض روایات میں ہے کہ دعا کے وقت اشارہ فرماتے تھے۔ جب یہ دعامانگتے: . يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ، ‌ثَبِّتْ ‌قَلْبِيَ عَلَى دِينِكَ

اے دلوں کو پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر پختگی عطا فرما) جب علماءاحناف  نے اشارہ کرنے میں راویوں کا پر اضطراب (اختلاف) د یکھا تو انہوں نے کہا کہ چونکہ نماز کی بنا سکون اور وقار پر ہے اس لیے نماز میں زائد فعل  خلاف قیاس ثابت نہیں کیا جائے گا۔

نیز نماز میں جہاں تک ممکن ہو انگلیوں کا قبلہ شریف کی طرف متوجہ کرنا سنت ہے، جیسے نبی کریم ﷺنے فرمایا

‌فَلْيُوَجِّهْ مِنْ أَعْضَائِهِ الْقِبْلَةَ مَا اسْتَطَاعَ (جہاں تک ممکن ہوا پنے اعضا کو قبلہ کی طرف متوجہ کرے)

سوال: کثرت اختلاف سے حدیث اس وقت مضطرب (اور ضعیف) ہوتی ہے جب روایات کے در میان تطبیق ممکن نہ ہو، اور جس مسئلے میں ہم گفتگو کر رہے ہیں اس میں تطبیق دی جاسکتی ہے، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ تمام روایات کا تعلق مختلف اوقات سے ہو۔

جواب :بہت سی روایات میں لفظ ‘ کان واقع ہوا ہے اور یہ لفظ منطقیوں کے علاوہ دوسرے علماء کے نزدیک قضا یا کلیہ کے حروف میں سے ہے، (جس کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ ہمیشہ یہ کام کیاکرتے تھے اس لیے تطبیق نہیں دی جاسکتی۔

سوال: امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالی سے منقول ہے کہ اگر کوئی حدیث میرے قول کے خلاف پاؤ تو میرا قول چھوڑ دو اور حدیث پرعمل کرو۔ (پھر کیا وجہ ہے؟ کہ آپ ائمہ احناف کے فتوی پرعمل کرتے ہیں اور حدیث پر عمل نہیں کرتے۔)

جواب : حدیث سے وہ حدیث مراد ہے جو امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالی کو نہ پہنچی ہو، اور امام اعظم نے اس حدیث کا علم نہ ہونے کی بناء پر حدیث کے خلاف فتوی دیا ہو، جبکہ اشارے سے متعلق احادیث ایسی حدیثیں نہیں ہیں کہ امام اعظم کو ان کا علم نہ ہو، یہ احادیث معروف ومشہور ہیں، ان کے بارے میں یہ احتمال قابل قبول نہیں ہے کہ ان کا علم نہ ہو۔

 سوال: علماءاحناف نے اشارے کے جواز پر بھی فتوی دیا ہے، جب فتوے مختلف ہیں (بعض کے مطابق اشارہ جائز اور بعض کے مطابق ناجائز) تو جس فتوے پربھی عمل کرلیا جائے جائز ہے۔

جواب : اگر فتاوی میں جواز اور عدم جواز یا حلال اور حرام ہونے کا واقع ہو جائے تو نا جائز اور حرام ہونے کی جانب کوترجیح دی جائے گی۔

نیز شیخ ابن ہمام (صاحب فتح القدیر وشارح ہدایہ )رفع یدین کے مسئلے میں کہتے ہیں کہ ہاتھ اٹھانے اور نہ اٹھانے کی احادیث میں تعارض ہے، ہم ہاتھ نہ اٹھانے کی روایات کو قیاس کے ذریعہ ترجیح  دیتے ہیں، کیونکہ نماز کی بنیاد سکون اور خشوع پر ہے جو بالاجماع مطلوب اور پسندیدہ ہے۔

ابن ہمام سے اختلاف

شارح ہدایہ محقق على الاطلاق شیخ کمال الدین امام محمد بن عبد الواحد معروف به ابن ہمام رحمة الله تعالی نے فتح القدیر میں فرمایا:

بہت سے مشائخ سے اشارہ نہ کرنا منقول ہے اور یہ روایت اور درایت کے خلاف ہے۔ یہ بات امام ربانی رحمۃ اللہ تعالی کے موقف کے خلاف ہے، اس لیے فرماتے ہیں:

علامہ ابن ہمام نے ان علماء مجتہد ین کی طرف جہالت کی نسبت کیسے کر دی؟ جوشریعت کے چوتھے اصل (چوتھی دلیل) قیاس سے استدلال کرنے والے ہیں ، یہی احناف کے نزدیک ظاہر مذہب اور یہی ظاہر الروایت ہے۔

 اسی (ابن ہمام رحمتہ اللہ تعالی نے راویوں کے کثرت اختلاف کے سبب پیدا ہونے والے اضطراب کی وجہ سے حدیث قلتین کو ضعیف قرار دیا ہے۔

فرزند ارشد سعید (ابن حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمة ) اس سلسلے میں ایک رسالہ لکھ رہے ہیں، جب صاف کر کے لکھ لیا جائے گا تو ان شاء الله تعالی آپ کو بھجوا دیا جائے گا۔

استدراک

التحیات میں انگلی سے اشارہ کرنے کے بارے میں امام ربانی مجدد الف ثانی قدس سرہ العزیز کا موقف گزشتہ صفحات میں آپ نے ملاحظہ فرمایا، وہ اسے متعدد فقہاء کرام کی تصر یح کے مطابق ناجائز اور ممنوع قراردیتے ہیں، اس کتاب کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ امام ربانی صرف ذکر وفکر اور مراقبات میں مصروف رہنے والے صوفی نہیں تھے، بلکہ قرآن و حدیث اور فقہ کے عظیم عالم اورمتبحر فاضل تھے، ور نہ وہ کسی بھی مسئلے میں جائز یا ناجائز کہنے پر اکتفا کرتے، حالانکہ آپ ابھی ملاحظہ کر چکے ہیں کہ انہوں نے کس طرح اپنا موقف پیش کیا، اس سے پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ وہ قرآن و حدیث کے ساتھ ساتھ علماء اسلام کی عظمت و ناموس کے تحفظ کے بھی قائل تھے، وہ اس بات کے حق میں نہیں تھے کہ کوئی بھی شخص خواہ وہ ناقص مقلد ہی ہو اٹھ کر ائمہ مجتہدین کا مقابلہ کرنا شروع کر دے۔ انزلو الناس منازلهم ہر شخص کو اس کے مقام پر بٹھانا چاہیے۔

آپ دیکھ چکے ہیں کہ انہوں نے کس طرح فقہ حنفی کی کتب میں سے اشارے کی ممانعت کے حوالے پیش کیے، مجوزین کی پیش کردہ احادیث کا اضطراب واضح کیا، ان کے پیش کرد فقہی حوالوں کا جواب دیا اور مخالفین کی طرف سے اٹھائے جانے والے سوالوں کا عالمانہ جواب دیا۔ رحمه الله تعالی ورضی عنہ۔

فقہی مسائل میں اختلاف کوئی نئی بات نہیں، امام ابو یوسف اور امام محمد نے بہت سے مسائل میں اپنے استاد امام اعظم سے اختلاف کیا، امام ربانی نے اشارے کو جائز قرار دینے والوں سے اختلاف کیا ، اس لیے اگر کوئی عالم اس مسئلے میں دلائل کے ساتھ امام ربانی سے اختلاف کر دے تو اس پر کوئی قدغن نہیں لگائی جاسکتی۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ بزرگوں کے ادب اور احترام میں کوئی فرق نہیں آنا چاہیئے۔

حضرت ملا مراد حنفی مجددی رحمۃالله تعالی وہ نقشبندی مجددی بزرگ ہیں جنہوں نے مکتوبات امام ر بانی‘‘ کا عربی میں ترجمہ کیا ہے، انہوں نے حضرت امام ربانی کے بیانات پر اختلافی نوٹس لکھے ہیں ، ذیل میں ان کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے۔  

1۔ امام محمد بن حسن شیبانی رحمہ اللہ تعالی نے موطا امام محمد میں بیان کیا کہ نبی اکرم ﷺ اشاره فرمایا کرتے تھے۔ اس کے بعد فرمایا ہم رسول اللہ ﷺ کے عمل کو اختیار کرتے ہیں اور یہی امام ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ کا قول ہے۔ اس کے جواب میں امام ربانی نے فرمایا: اصول کی روایت نہیں بلکہ نوادر کی روایت ہے۔

اس پر ملا مرادعرض کرتے ہیں کہ:

یہ نوادر کی روایات میں سے ہے جیسے کہ امام ربانی قدس سرہ نے اس کا اعتراف کیا ہے، لیکن اشارہ نہ کرنے کی روایات نہ تو اصول کی روایات ہیں اور نہ نوادر کی۔ بلکہ یہ واقعات اور فتاوی کے قبیلے سے ہیں اور ان کا مرتب نوادر سے بھی کم ہے۔ اسی لیے اکثر متاخرین نے فتوی دیا ہے کہ اشارہ کرنا سنت ہے اور یہی وہ حق ہے جس کو ترک نہیں کیا جاسکتا اورحق زیادہ لائق ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ (حاشیہ مکتوبات امام ربانی دفتر اول حصہ پنجم ص 163)

خلاصہ یہ ہے کہ نوادر کی روایات کے مقابل اگر ظاہر الروایت کی روایت ہوتی تو اسی کو ترجیح دی جاتی، لیکن یہاں تو نوادر کے مقابل فتوی کی روایت ہے اس صورت میں تو نوادر کی روایت کوترجیح دی جائے گی۔

2۔ امام ربانی رحمۃاللہ تعالی نے فتاوی غرائب وغیرہ سے اشارے کی ممانعت اور حرمت کے بارے میں  فتوے نقل کیے ہیں، اس پر ملا مرادنے نوٹ لکھا ہے: .

مخفی نہ ر ہے کہ یہ روایات معتبر نہیں ہیں، بلکہ یہ روایات ہی نہیں ہیں، یہ تو ان مشائخ کے اقوال ہیں اور یہ مشائخ اصحاب ترجیح اور اصحاب فتاوی نہیں ہیں، جیسے کے قواعد سے واقفیت رکھنے والے حضرات جانتے ہیں۔

3۔ امام ربانی نے فرمایا کہ اشارے کے جائز ہونے کے بارے میں بہت سی حدیثیں وارد ہوئی ہیں، اس پر ملامرادحاشیہ لکھتے ہیں:

 بہت سے محدثین نے اپنی کتابوں میں بہت سے صحابہ کرام سے احادیث بیان کی ہیں، ملا علی قاری نے ان احادیث کا کچھ حصہ اپنے رسالہ’’ تزیین العبارة فی تحسين الاشارة‘‘ میں نقل کیا ہے اور بہت سے احناف نے خصوصا متاخرین نے اس موضوع پرمستقل رسائل لکھے ہیں۔ ( حاشیہ ص 193) ۔

4۔ امام ربانی نے فرمایا: ہم مقلدوں کا یہ کام نہیں ہے کہ احادیث کے مقتضاپر عمل کر کے اشارہ کرنے کی جرأت کریں اور اتنے علماء مجتہدین کے فتاوی کے مطابق حرام، مکروہ اور ممنوع امر کے مرتکب ہوں۔ اس پر علامہ مرادنے نوٹ لکھا ہے کہ:

یہ علماء ( جن کا حوالہ امام ربانی نے نقل کیا ہے )نہ تو مجتہد ہیں اور نہ ہی اصحاب ترجیح میں سے ہیں (تو مجتہدین کے فتووں کی مخالفت کہاں سے لا زم آئی ؟)

5۔ امام ربانی نے فرمایا : جوحنفی اشارہ کرتا ہے وہ دو حال سے خالی نہیں یا تو اس کے نزدیک علماء مجتہدین کو ان معروف احادیث کا علم نہیں تھا؟ یاعلم تھا لیکن انہوں نے احادیث پرعمل کرنے کے بجائے اپنی آراء پرعمل کیا۔ یہ دونوں شقیں فاسد ہیں اور ان کو جائز قرار دینے والا یا تو بے وقوف ہوگا یا معاند ۔ اس پر علامہ مراد نے باادب گزارش کی ہے۔

جوشخص اشارے کا قائل ہے وہ کہہ سکتا ہے کہ ان علماء کو احادیث اشاره کا علم تھا( تاہم انہوں نے اضطراب کی بناپر ان احادیث پرعمل نہیں کیا) لیکن میرے نزدیک اشارے کی احادیث کوترجیح ہے، لہذا اس شخص کونہ تو بے وقوف کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی معاند. (حاشیہ ص164)

6۔ امام ربانی رحمۃ اللہ تعالی نے فرمایا: حلت و حرمت کے ثابت کرنے میں مقلد کاعلم معتبر نہیں ہے، اس سلسلے میں مجتہد کاظن معتبر ہے۔ اس پر علامہ مرادحنفی کا معروضہ ملاحظہ ہو، وہ فرماتے ہیں:

یہ بات سر آنکھوں پر (یعنی  ہمیں تسلیم ہے لیکن امام مجتہد سے تو اشاره کرنا ثابت ہے (جیسے کہ موطا امام محمد کے حوالے سے گزر چکا ہے) اشارے سے منع کرنا اور اس کا ترک کرنا امام مجتہد سے ثابت نہیں ہے، اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے پاس عقلی اورنقلی دلیل موجود ہے جو جامع شرائط ہے لیکن اس کی ممانعت پر کوئی دلیل نہیں ہے۔

7۔ امام ربانی نے فرمایا: اشارے کی حدیثوں میں اضطراب ہے (اور مضطرب ضعیف کی قسم ہے)

اس پر مولانا نور احمد امرتسری مجددی (محشی مکتوبات امام ربانی مطبوعہ امرتسر) نے حاشیہ لکھا ہے:

شیخ عبدالحق (محدث دہلوی) فرماتے ہیں غالبا نبی اکرم ﷺ كاعمل بھی مختلف تھا، کبھی اس طرح کبھی اس طرح، جیسے کہ مختلف روایات میں اکثر مقامات پر اسی طرح تطبیق دی گئی ہے۔

8۔ ایک جگہ امام ربانی نے فرمایا: لفظ کان منطقیوں کے علاوہ دوسرے علماء کے نزدیک قضیہ کلیہ کا حرف (سور) ہے۔ اس پرمحشی نے نوٹ لکھا ہے:

فن حدیث کے ماہر پرمخفی نہیں کہ حدیث شریف کی عبارات میں لفظ ’’کان‘‘ ہمیشہ قضیہ کلیہ کے لیے نہیں آتا، ورنہ بہت سے مقامات میں تعارض پیدا ہو جائے گا۔

9۔ امام ربانی نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوے فرمایا: اشارے کی احادیث اس قبیلے سے نہیں ہیں کہ امام صاحب کو ان کا علم نہ ہو بلکہ معروف ہیں۔ اس پر علامہ مرادحنفی نے حاشیہ لکھا ہے

اسی لیے تو امام محمد نے فرمایا کہ اشاره میرا قول ہے اور امام ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ کا قول ہے، اسی طرح امالی میں امام ابوحنیفه علیہ الرحمہ کا قول بیان کیا گیا ہے۔ (حاشیہ نمبر1، ص166) اس تفصیل سے یہ بات سامنے آ گئی کہ اس مسئلے میں حضرت علامہ مراد حنفی مجددی ، حضرت ملاعلی قاری،  شیخ محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی، مولانا نور احمد نقشبندی مجددی اس مسئلے میں امام ربانی کے ساتھ متفق نہیں ہیں۔

مزید دیکھئے

مسئلہ اشارہ سبابہ

اشاره سبابہ کی تحقیق مکتوب نمبر 312 دفتراول


ٹیگز

3 تبصرے “امام ربانی مجدد الف ثانی اور رفع سبابہ

اپنا تبصرہ بھیجیں