انبیاء نے اللہ تعالی کی ذات وصفات کی خبر دی مکتوب نمبر23 دفتر سوم

 اس بیان میں کہ حق تعالی نے انبیاءعلیہم الصلوة والسلام کے ذریعے اپنی ذات و صفات اور بندوں کے پسندیدہ اور ناپسندیدہ اعمال کی نسبت خبر دی ہے جن میں عقل کا کچھ دخل نہیں ۔ خواجہ ابراہیم قبادیانی کی طرف صادر فرمایا ہے:۔ 

الحمد لله الذي انعم علينا و هدانا إلى الإسلام و جعلنا من أمة محمد عليه وعلى اله الصلوة والسلام (اللہ تعالی کی حمد ہے۔ جس نے ہم پر انعام کیا اور ہم کو اسلام کی ہدایت دی اور حضرت محمد ﷺکی امت میں سے بنایا) انبیاء علیہم الصلوة والسلام اہل جہان کے لیے سراسر رحمت ہیں جن کی بعثت کے ذریعے حق تعالی نے اپنی ذات و صفات سے ہم ناقص عقلوں اور کم فہموں کو خبر دی ہے اور ہمارے کوتاہ فہم کے موافق اپنے ذاتی صفاتی کمالات پر اطلاع بخشی ہے اور اپنی رضامندی کو اپنی ناراضگی سے جدا کیا ہے اور ہمارے دنیا اور آخرت کے نفعوں کو ہمارے نقصانوں سے ممتاز فرمایا ہے۔ اگر ان کے وجود شریف کا وسیلہ نہ ہوتا تو انسانی عقلیں حق تعالی کے اثبات میں عاجز رہتیں اور اس کے کمالات کے ادراک میں ناقص اور قاصر ہوتیں۔ متقدمین اہل فلسفہ(حکماء یونان) جو اپنے آپ کو ارباب عقول فرض کرتے ہیں صانع جل شانہ کے منکر تھے اور اپنی کم عقلی کے باعث اشیاء کو دہریعنی زمانہ کی طرف منسوب کرتے تھے۔ نمرود جو روئے زمین کا بادشاہ ہو گزرا ہےزمینوں اور آسمانوں کے خالق کے اثبات میں حضرت خلیل کے ساتھ اس کا جھگڑنا مشہور ہے اور قرآن مجید میں بھی مذکورہ ہے۔ فرعون بد بخت کہا کرتا تھا۔ مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِنْ إِلَهٍ غَيْرِي (میں اپنے سوا تمہارا کوئی معبودنہیں جانا)نیز فرعون نے حضرت موسی کومخاطب کر کے کہا تھا۔لَئِنِ ٱتَّخَذۡتَ إِلَٰهًا غَیۡرِی لَأَجۡعَلَنَّكَ مِنَ ‌ٱلۡمَسۡجُونِینَ (گر تو میرے سوا اور کوئی معبود پکڑے گا تو تجھے قید کر دوں گا)نیز اس بدبخت نے ہامان(فرعون کا وزیر) کو کہا يَاهَامَانُ ابْنِ لِي ‌صَرْحًا لَعَلِّي أَبْلُغُ الْأَسْبَابَ (٣٦) أَسْبَابَ السَّمَاوَاتِ فَأَطَّلِعَ إِلَى إِلَهِ مُوسَى وَإِنِّي لَأَظُنُّهُ كَاذِبًا (اے ہامان ایک بڑا اونچا مکان بنوا تا کہ میں آسمانوں پر چڑھ کر موسی کے خدا کی خبر لوں۔ میرا گمان ہے کہ وہ جھوٹا ہے)

غرض عقل اس اعلی دولت (توحید)کے اثبات میں کوتاہ ہے اور ان بزرگواروں کی ہدایت کے بغیر اس دولت سراسے گمراہ ہے جب انبیاءعلیہم الصلوة والسلام نے متواتر طور پرمخلوقات کو خدا کی طرف جو زمین و آسمان کا خالق ہے دعوت فرمائی اور ان بزرگواروں کا بول بالا ہوا۔ تو ہر زمانہ کے جابل و بیوقوف لوگ جو صانع کے ثبوت میں متردد تھے اپنی برائی پر مطلع ہوکر بے اختیار صانع کے وجود کے قائل ہو گئے اور اشیاء کو حق تعالی کی طرف منسوب کیا۔ یہ وہ نور ہے (یعنی وجود صانع کا قائل ہونا)جو انبیاءعلیہم الصلوة والسلام کے انوار سے حاصل ہوا ہے اور یہ وہ دولت ہے جو انبیاء کے دستر خوان سے ملی ہے۔ اسی طرح تمام سمعیات یعنی سنی ہوئی باتیں جو انبیاء کی تبلیغ سے ہم تک بھی ہیں۔ یعنی حق تعالی کی صفات کمال کا وجود۔ انبیاء کی بعثت، فرشتوں کی عصمت، حشرونشر، بہشت و دوزخ اور ان کا دائمی رنج و راحت وغیرہ وغیرہ جو شریعت نے بیان کی ہیں ۔

عقل ان کے ادراک سے قاصر ہے اور ان بزرگواروں سے سنے بغیر ان کے اثبات میں ناقص اور غیرمستقل ہے جس طرح طورعقل طور حس  سے ماوراء ہے کہ جو چیز حس سے مدرک نہ ہو سکے ۔ عقل اس کا ادراک کر سکتی ہے۔ اسی طرح طور نبوت بھی طورعقل کے ماوراء ہے۔ جوچیز عقل سے مدرک نہ ہو سکے۔ نبوت کے ذریعے ادراک میں آجاتی ہے۔ جوشخص طورعقل کے ماسوا اور کوئی طریقہ صانع کی معرفت کے لیے ثابت نہیں کرتا وہ درحقیقت طور نبوت کا منکر اور بداہت (واضح حقیقت)وصراحت کا مخالف ہے۔ پس انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کا وجود ضروری تھا تا کہ منعم جل شانہ کے شکر پر جوعقل کی رو سے واجب ہے۔ دلالت کریں اور نعمتوں کے دینے وانے  مولا جل وعلا کی تعظیم جو علم وعمل سے تعلق رکھتی ہے اسی کی طرف سے معلوم کر کے ظاہر کریں۔ کیونکہ حق تعالی کی وہ تعظیم جواس کی طرف سے حاصل نہ ہو وہ اس کے شکر کے لائق نہیں۔ اس لیے کہ قوت انسانی اس کے ادراک میں عاجز ہے۔ بسا اوقات اس کی بےتعظیمی کوتعظیم سمجھتا ہے اور شکر سے ہجو میں آ جاتا ہے۔ حق تعالی سے اس کی تعظیم کے استفادہ کا طریق نبوت اور انبیاءعلیہم الصلوة والسلام کی تبلیغ پر موقوف ہے۔ اولیاء اکرام کا الہام بھی انوار نبوت سے مقتبس ہے اور انبیاءعلیہم الصلوة والسلام ہی کی متابعت کے فیض و برکت کا نتیجہ ہے۔

 اگر اس امر میں عقل کافی ہوتی۔ تو یونان کے فلاسفر جنہوں نے عقل کو اپنا مقتدا بنایا ہے گمراہ نہ رہتے اور حق تعالی کو سب سے زیادہ پہچان لیتے۔ حالانکہ حق تعالی کی ذات و صفات کے بارہ میں تمام لوگوں سے بڑھ کر جاہل یہی لوگ ہیں۔ جنہوں نے حق تعالی کو بیکار معطل جانا ہے اور ایک چیز کے سوا (اور وہ بھی ایجاب و اضطرار کے ساتھ نہ اختیار کے ساتھ ) کچھ بھی   حق تعالی کی طرف منسوب نہیں کیا ہے۔ عقل فعال اپنے پاس سے بنا کر حوادث کو زمین و آسمان کے خالق کی طرف سے ہٹا کر اس کی طرف منسوب کرتے ہیں اور اثر کوموثر حقیقی جل شانہ سے ہٹا کر اس کو اپنا بنایا ہوااثر جانتے ہیں، کیونکہ معلول ان کے نزدیک علت قریبہ کا اثر ہے اور معلول کے حاصل ہونے میں علت بعیدہ کی کچھ تاثر نہیں جانتے اور اشیاء کو حق تعالی کی طرف منسوب نہ کرنے کی جہالت کو حق تعالی کا کمال جانتے ہیں اور اس کے معطل رہنے کو بزرگی سمجھتے ہیں۔

 حالانکہ حق تعالی زمین  و آسمان کے پیدا کرنے سے اپنی تعریف کرتا ہے اور اپنی مدح میں رَبُّ ‌الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ فرماتا ہے۔ ان کو چاہئے کہ اضطرار و احتیاج کے وقت بھی اپنی عقل فعال کی طرف رجوع کریں اور اپنی حاجتیں اس سے طلب کریں، کیونکہ اپناسب کاروبار اسی کے حوالہ کرتے ہیں۔ بلکہ عقل فعال بھی ان کے خیال میں موجب ہے نہ مختار۔ اس سے بھی قضائے حاجت طلب کرنا پسندیدہ نہیں ۔ وَأَنَّ الْكَافِرِينَ ‌لَا ‌مَوْلَى لَهُمْ ( کافروں کا کوئی مددگار نہیں) عقل فعال کیا ہے۔ جو اشیاء کو سرانجام دے سکے اور حوادث اس کی طرف منسوب ہو سکیں۔ اس کے نفس وجود اور ثبوت میں ہزاروں اعتراض ہیں، کیونکہ اس کا تحقق اورحصول فلسفہ کے چندملمع مقدمات پرمبنی ہے۔ جو اسلام کے اصول حقہ کے مقابلہ میں ناتمام اور ادھورے ہیں وہ بہت ہی بیوقوف ہے۔ جو اشیاء کو قادرمختار جل شانہ کی طرف سے ہٹا کر ایسے موہوم امر کی طرف منسوب کرے ۔ بلکہ اشیاء کے لیے ہزار ہا ننگ و عار کا موجب ہے کہ فلسفہ کے تراشیده  اور وضع کردہ امر کی طرف منسوب ہوں۔ اشیاء کا اپنے عدم پر راضی وخوش رہنا اور ہر گز وجود کی خواہش نہ کرنا ان کےحق میں اس امر سے بہتر ہے کہ ان کے وجود کوفلسفی اور مجعول یعنی بنائے ہوئے اور موضوع امر کی طرف منسوب کریں اور قادر مختارجل شانہ کی قدرت کی طرف منسوب ہونے کی سعادت سے محروم رہیں۔ كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ ‌أَفْوَاهِهِمْ إِنْ يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا  (بڑی بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے اور جو بولتے ہیں سب جھوٹ ہی بولتےہیں ۔

دارالحرب کے کفار باوجود بت پرستی کے ان لوگوں سے اچھے ہیں جوتنگی کے وقت حق تعالی کی بارگاہ میں التجا کرتے ہیں اور بتوں کو حق تعالی کے آ گے سفارش کا وسیلہ بناتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض لوگ ان بیوقوفوں کو حکماء اور دانا کہتے ہیں اور ان کو حکمت کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ ان کے اکثر احکام خاص کر الہیات میں جو ان کا اعلی مقصد ہے۔ سراسر جھوٹے اور کتاب وسنت کے مخالف ہیں۔ یہ لوگ جو سراسرجہل مرکب ہیں۔ ان پر حکماء کا اطلاق کس طرح کیا جائے۔ ہاں اگرمذاق و استہزاء کے طور پر کہا جائے یا نا بینا پربینا کے اطلاق کرنے کی قسم سے شمار کیا جائے تو زیبا ہے۔ ان بیوقوفوں میں سے بعض نے انبياءعلیہم الصلوة والسلام کے طریق کو چھوڑ کر ان صوفیاء الہیہ کی تقلید پر جو ہر زمانہ میں انبیاءعلیہم الصلوة والسلام کے تابعدار رہے۔ ریاضیات ومجاہدات کا طریق اختیار کیا اور اپنی صفائے وقت پر مغرور ہو کر اپنے خواب و خیال پر اعتماد کیا ہے اور اپنے خالی کشقوں کو مقتدا بنا کر خود بھی گمراہ ہو گئے اور لوگوں کو بھی گمراہ کیا ہے۔ ان نادانوں نے نہ جانا کہ یہ صفائی نفس کی صفائی ہے۔ جو گمراہی کو زیادہ کرتی ہے نہ کہ قلب کی صفائی جو ہدایت کا دروازہ ہے، کیونکہ قلب کی صفائی انبیا ء علیهم الصلوة والسلام کی متابعت پروابستہ ہے اور نفس کا تز کیہ  قلب کی صفائی اور اس کی سیاحت پر موقوف ہے۔ وہ صفائی جو قلب کی سیاہی کے ہوتے ہوئے جو انوار وقدم کے ظہور کامحل ہے۔ نفس کو حاصل ہو۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ چراغ روشن کر دیں تا کہ پوشیدہ دشمن یعنی ابلیس لعین اس کی روشنی میں بخوبی لوٹ مار کر لے۔ غرض ریاضت و مجاہدہ کا طریق نظرو استدلال کے طریق کی طرح اس وقت اعتبار و اعتماد کے لائق ہوتا ہے۔ جبکہ انبیاء علیہم الصلوة والسلام کی تصدیق کے ساتھ مل جائے۔ جو حق تعالی کی طرف سے تبلیغ کرتے ہیں اور حق تعالی کی تائید سے مؤید ہیں۔ ان بزرگوں کا کارخانہ پاک فرشتوں کے نزول کے باعث دشمن لعین کے مکروفریب سے محفوظ ہے۔ إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ ‌سُلْطَانٌ (میرے بندوں تیرا کوئی غلبہ نہیں) ان کا نقد وقت ہے۔ دوسروں کو یہ دولت میسر نہیں ہوئی اور شیطان لعین کے مکروفریب سے نہیں بچ سکے۔ جب تک کہ ان بزرگواروں کی متابعت کو لازم نہ پکڑا اور ان کے قدم بقدم نہیں چلے ۔ 

محال است سعدی که راه صفا تواں رفت جز درپے مصطفی

ترجمہ بیت: سمجھ لو بخوبی که راه صفاء نہیں ملی ہر گز نبی کے سوا 

سبحان اللہ افلا طون جو فلاسفہ کا رئیس ہے۔ حضرت عیسی کی بعثت کی دولت کو پائے اور اپنے آپ کو نادانی کے باعث مستغنی جا ن کر ان پر ایمان نہ لائے اور نبوت کے برکات سے حصہ حاصل نہ کرے۔ اس کی بڑی بدبختی اور نادانی ہے۔ وَمَنْ لَمْ يَجْعَلِ اللَّهُ لَهُ نُورًا فَمَا لَهُ ‌مِنْ ‌نُورٍجس کے لیے اللہ تعالی نے کوئی نور نہیں بنایا اس کے لیے کوئی نور نہیں اللہ تعالی فرماتا ہے وَلَقَدْ ‌سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِينَ  إِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنْصُورُونَ وَإِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغَالِبُونَ (ہمارے اپنے مرسل بندوں کے ساتھ ہمارا وعدہ ہو چکا ہے کہ یہی فتح مند رہیں گے اور بیشک ہمارالشکر غالب رہے گا) عجب معاملہ ہے کہ فلاسفہ کی ناقص عقلیں مبدأ  میں بھی اور معاد میں بھی طور نبوت کی نقیض ہیں اور ان کے احکام انبیاءعلیہم الصلوۃ والسلام کے احکام کے مخالف ہیں۔ نہ ان کا ایمان اللہ تعالی کے ساتھ درست ہے نہ آخرت کے ساتھ۔ قدم عالم کے . قائل ہیں۔ حالانکہ بڑا مضبوط اجماع ہے۔ اس بات پر کہ عالم بمع اپنے تمام اجزاء کے حادث ہے۔ ایسے ہی آسمانوں کے پھٹ جانے اور ستاروں کے اڑ جانے اور پہاڑوں کے ریزه ریزه ہونے اور دریاوں کے پھوٹنے کے جن کا قیامت کے دن وعدہ ہے قائل نہیں ہیں اور حشراجساد کے منکر ہیں اور نصوص قرآنی کا انکار کرتے ہیں۔

 ان میں سے متاخرین جو اہل اسلام میں داخل ہیں اسی طرح اپنے فلسفی اصول پرراسخ ہیں اور آسمانوں اور ستاروں وغیرہ کے قدم اوران کے فناء اور ہلاک نہ ہونے کے قائل ہیں۔ نصوص قرآنی کی تکذیب ان کی خوراک اور دین کی ضروریات کا انکار ان کا رزق ہے۔ یہ عجب قسم کے مومن ہیں کہ خدا اور رسول پرتو ایمان لاتے ہیں لیکن جو کچھ خدا اور رسول نے فرمایا ہے اس کو قبول نہیں کرتے۔ اس سے بڑھ کر سفاہت اور بیوقوفی کیا ہوگی۔ بیت 

فلسفه چوں اکثرش باشدسفہ  پس کل آن ہم سفہ باشد که حکم کل اکثر است

. فلسفہ کا جبکہ اکثر ہے سفہ پھر اس کا کل بھی سفہ ہوگا کہ حکم کل ہے اکثر کا حکم

 ان لوگوں نے اپنی عمر کو ایک آلہ جوان کے نزدیک خطا فکری سے محفوظ ہے۔ یعنی علم منطبق کی تعلیم وتعلم میں برباد کردیا اور اس بارہ میں بڑے باریک اور دقیق مسائل نکالے اور بڑی بڑی موشگافیاں کیں، لیکن جب حق تعالی کی ذات و صفات و افعال کے اعلی مقصد تک پہنچے تو ان کے ہوش و حواس جاتے رہے اور ان کا وہ آلہ عاصمہ بھی کام نہ آیا اور خبط میں پھنس کر گمراہی کے جنگل میں بھٹکتے رہے۔ جس طرح کوئی شخص سالوں تک لڑائی کے آلات تیار کرتا ہےمگرلڑائی کے وقت اس کے ہاتھ پاؤں بیکار ہو جائیں اور آلات کو کام میں نہ لاسکیں۔

 لوگ فلسفہ کے علوم کو بڑے نظم ونسق والا جانتے ہیں اور غلط و خطا سے محفوظ سمجھتے ہیں ۔ اگر اس بات کو مان بھی لیں تو یہ علم ان علوم میں صادق آتا ہے۔ جن میں عقل کا استقلال اور استحکام ہے جو اس بحث سے خارج اور دائرہ مالا یعنی میں داخل ہیں اور آخرت کے ساتھ جس کا معامله دائمی ہے کچھ تعلق نہیں رکھتے اور نہ ہی آخرت کی نجات ان پر وابستہ ہے۔ گفتگو ان علوم میں ہے۔ جن کے ادراک میں عقل عاجز اور قاصرے اور طور نبوت پر موقوف ہیں اور جن پرآخرت کی نجات منحصرہے ۔ حجت الاسلام امام غزالی رسالہ المنقذ عن الضلال میں فرماتے ہیں کہ اہل فلسفہ نے علم طب اورعلم نجوم گزشتہ پیغمبروں کی کتابوں سے چرا لیے ہیں اور دواؤں کی خاصیتیں جن کےسمجھنے سے عقل قاصر ہے۔ انبیاء کی آسمانی کتابوں اورصحیفوں سے اقتباس کی ہیں اورعلم تهذیب اخلاق کو صوفیاء الہیہ کی کتابوں سے جو ہر زمانہ میں کسی نہ کسی پیغمبر کی امت رہے ہیں۔ اپنی بیہودہ باتوں کے رواج دینے کے لیے چرالیا ہے۔ غرض ان کے یہ تینوں علم اوروں کے علوم سے چرائے ہوئے ہیں۔ علم الہی میں حق تعالی کی ذات و صفات و افعال اور ایمان بالله و ایمان بآخرت کے بارہ میں جو خبط انہوں نے ظاہر کیے ہیں۔ وہ سب کے سب نصوص قرآنی کے مخالف ہیں۔ جن کا تھوڑا سا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔

باقی رہا علم ہندسہ جوخاص طور پران کے ساتھ مخصوص ہے۔ اگریہ علم کامل اور سچا بھی ہو گا تو کس کام آئے گا اور آخرت کے کون سے عذاب و وبال کو دور کرے گا۔ ‌عَلَامَةِ إِعْرَاضِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ‌عَنِ ‌الْعَبْدِ أَنْ يَجْعَلَ شُغْلَهُ فِيمَا لَا يَعْنِيهِ بندہ سے حق تعالی کی روگردانی کا نشان بندہ کا بیہودہ کاموں میں مشغول ہونا ہے جو کچھ آخرت میں کام نہ آئے وہ لا یعنی اور بیہودہ ہے۔ ان کاعلم منطق علم آلی یعنی غلط اورصحیح فکر میں تمیز کرنے کا آلہ ہے اور جس کو خطا سے محفوظ بتلاتے ہیں۔ جب ان کے اپنے کام نہ آیا اور مقصد اعلے کے حاصل کرنے میں ان کوغلطی اور خطا سے نہ بچا سکا۔ تو پھر اوروں کے کام کس طرح آئے گا اور دوسروں کو خطا سے کس طرح بچا سکے گا۔ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ (یا اللہ تو ہدایت دے کر ہمارے دلوں کوٹیڑھانہ کر اور اپنے پاس سے ہم پر رحمت نازل فرما تو بڑا بخشنے والا ہے)بعض لوگ جو علوم فلسفی سے تعلق رکھتے ہیں اورفلسفی تسویلا ت (ڈھکوسلوں) پر فریفتہ ہیں۔ ان لوگوں کو حکماء جان کر انبیاءعلیہم الصلوۃ والسلام کے برابر بجھتے ہیں۔ بلکہ ان کے جھوٹے علوم کو سچا جان کر انبیاء کی شرائع پر مقدم بکھتے ہیں۔ اعاذنا الله سبحانہ عن الإعتقاد السؤء (اللہ تعالی ہم کو اس برے اعتقاد سے بچائے)ہاں جب ان کوحکماء جانتے ہیں اور ان کے علم کو حکمت کہتے ہیں تو پھر کیونکر اس بلا میں مبتلا نہ ہوں کیونکہ حکمت سے مراد کسی شے کا وہ علم ہے جونفس الامر کے مطابق ہو، لیکن وہ علوم جو ان کے مخالف ہوں وہ نفس امر کے غیر مطابق ہوں گے۔ غرض ان کی اور ان کے علوم کی تصدیق سے انبیاء اور ان کے علوم کی تکذیب لازم آتی ہے، کیونکہ یہ دونوں علم ایک دوسرے کی نقیض ہیں اور ایک کی تصدیق میں دوسرے کی تکذیب ہے۔ اب جو چاہے انبیا علیہم الصلوۃ والسلام کے مذہب کو لازم پکڑ لے اور حق تعالی کے گروہ سے ہو جائے اورنجات پا جائے اور جو چاہے فلسفی بن جائے اور شیطان کے گروہ میں داخل ہو جائے اور ہمیشہ کے لیے زیاں کار اور نا امید بن جائے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَارًا أَحَاطَ بِهِمْ ‌سُرَادِقُهَا وَإِنْ يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاءٍ كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوهَ بِئْسَ الشَّرَابُ وَسَاءَتْ مُرْتَفَقًا (جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے کافر ہو جائے ۔ ہم نے ظالموں کے لیے ایسی آگ تیار کی ہے جس 

کے خیمے ان کو گھیر لیں گے اور اگر فریاد کریں گے تو پگھلے ہوئے تانے کی طرح گرم پانی دیا جائے گا۔ جو چہروں کو جلا دے گا۔ یہ بہت ہی برا پانی اور بہت ہی بری جگہ ہے) والسلام على من اتبع الهدی و التزم بمتابعة المصطفی عليه وعلى جميع إخوانه من الأنبياء الكرام والملائكة العظام الصلوات والتسليمات اتمها و اکملها (سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایت اختیار کی اور حضرت ﷺکی متابعت کو لازم پکڑا) والسلام۔ 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ76ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں