اهل تصوف کے بیان میں فصل6

اہل تصوف کی وجہ تسمیہ یا تو یہ ہے کہ وہ نور معرفت و توحید سے اپنے باطن کا تصفیہ کرتے ہیں۔ یا یہ کہ وہ اصحاب صفہ (وہ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم جو سب کچھ چھوڑ کر دعوت و ارشاد کے ہو کر رہ گئے تھے اسلامی تعلیمات کا بہت سا حصہ انہیں کے ذریعے روایت ہوا) جیسی (فقیرانہ) زندگی گزارتے ہیں یا پھر یہ کہ وہ صوف (اون) کا لباس زیب تن کرتے ہیں۔ مبتدی(وہ سالک  جو ابھی راہ سلوک کی ابتداء میں ہو)  بھیڑ کی اون کا لباس پہنتا ہے۔ متوسط بکری کی اون کا اور منتہی(وہ سالک  جو راہ سلوک کی انتہاء  پر پہنچ چکا ہو) پشم کا لباس پہنتا ہے۔ حسب مراتب احوال ان کے باطن کی حالت بھی ایسی ہی ہوتی ہے۔ کھانے پینے میں بھی باہم تفاوت ہوتا ہے۔ تفسیر مجمع البيان کے مصنف لکھتے ہیں : اہل زہد کو چاہیئے کہ وہ لباس اور کھانے پینے میں سخت چیزوں کا استعمال کریں۔ اصل معرفت کے لیے مناسب یہ ہے کہ وہ نرم چیزیں استعمال میں لائیں۔ لوگوں کا اپنے مراتب و منازل سے فروتر ہو کر رہنا سنت ہے تاکہ کسی طریقے میں حد سے تجاوز نہ ہو جائے۔ اہل تصوف کی چوتھی وجہ تسمیہ یہ ہوسکتی ہے کہ وہ حضرت احدیت ( اللہ تعالی کی ذات یکتا) میں پہلی صف کے لوگ ہیں۔ 

تصوف کا لفظ چار حروف پر مشتمل ہے۔ تاء ، صاد، وا ؤ، فا۔ 

تا:۔توبہ کو ظاہر کرتی ہے۔ اس کی دو قسمیں ہیں ، ظاہر کی توبہ اور باطن کی توبہ ظاہر کی توبہ یہ ہے کہ انسان اپنے تمام ظاہری اعضاء کے ساتھ گناہوں اور اخلاق رذیلہ سے اطاعت و انقیاد کی طرف لوٹ آئے اور قولاً و فعلاً مخالفات کو ترک کر کے موافقات کو اپنائے۔ 

باطنی توبہ یہ ہے کہ انسان باطن کے تمام اطوار کے ساتھ مخالفات باطنیہ سے موافقات کی طرف آجائے اور دل کو صاف کر لے۔ جب اخلاق ذمیمہ ، اخلاق حسنہ میں تبدیل ہو جائیں تو تاء کا مقام( اس سے مراد بندے کا دہ مرتبہ ہے جو وہ توبہ ، زهد ، عبادات ، ریاضات اور مجاہدات کے ذریے بارگاہ خداوندی میں حاصل کرتا ہے۔ جب تک وہ ایک مقام کے احکام پر پورا نہیں اتر تا دوسرے مقام کی طرف ترقی نہیں کر سکتا) مکمل ہو جاتا ہے۔ اور ایسے شخص کو تائب کہتے ہیں۔

 صاد :۔ صفاء کو ظاہر کرتا ہے۔صفاکی دو قسمیں ہیں۔ صفاء قلبی اور صفاء سری۔ 

صفاء قلبی تو یہ ہے کہ انسان بشری کدورتوں سے اپنے دل کو صاف کر کے مثلا کثرت اكل وشرب، کثرت کلام، کثرت نوم جیسی دل سے تعلق رکھنے والی کدورتیں اور اسی طرح ملاحظات دنیوی مثلا زیادہ کھانے کی فکر ، زیادہ جماع، اہل و عیال کی زیادہ محبت اور اسی طرح کی دوسری نفسانی کدورتیں جن سے اللہ تعالی نے روک دیا ہے۔ 

ان کدورتوں سے دل کو صاف کرنا ملازمت ذکر بغیر ممکن نہیں۔ 

شروع میں مرشد اپنے مرید کو ذکر بالجبر کی تلقین کرے تا کہ وہ مقام حقیقت تک پہنچ جائے جیسا کہ رب قدوس کا ارشاد گرامی ہے۔ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ

(الانفال:2( صرف وہی سچے ایماندار ہیں کہ جب ذکر کیا جاتا ہے اللہ تعالی کا تو کانپ اٹھتے ہیں ان کے دل“ 

یعنی ان کے دلوں میں خشیت پیدا ہو جاتی ہے تو ظاہر ہے خشیت صرف اسی صورت میں پیدا ہو سکتی ہے کہ دل غفلت کی نیند سے بیدار ہو جائیں۔ اور ذکر خداوندی سے اس کا زنگ اتر جائے۔ خشیت کے بعد خیر وشر جوانی تک مخفی ہوتا ہے اس کی صورت دل پر نقش ہو جاتی ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے عالم نقش اٹھاتا ہے اور عارف اسےصیقل کرتا ہے۔ 

رہی صفائے سری تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان ماسوا اللہ کو دیکھنے سے اجتناب کرے اور اس کو دل میں جگہ نہ دے۔ اور یہ وصف اسمائے توحید( اللہ تعالی کے اصلی نام سات ہیں۔ ان سات سے پھر چھ اور نام نکلتے ہیں۔ ان تمام اصلی اور فرعی اسماء کے مجموعے کو اسماء توحیدی کہتے ہیں۔ اصلی نام یہ ہیں۔ (لا الہ، الا الله ،هو،حی ، واحد، عزیز، ودود) فر عی چھ نام ۔ ( حق ،قھار، قیوم ، وھاب، مهیمن، باسط) کا لسان باطن سے مسلسل ورد کرنے سے حاصل ہو تا ہے۔ جب یہ تصفیہ حاصل ہو جائے توصاد کا مقام پوراہو جاتا ہے۔

واؤ :۔واؤ ولایت کو ظاہر کرتی ہے۔ اور ولایت تصفیہ پر مرتب ہوتی ہے۔ جیسا کہ الله تعالی کا ارشاد گرامی ہے۔ أَلا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ (یونس:62( خبردار ! بیشک اولیاء اللہ کو نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے“ 

ولایت کے نتیجے میں انسان اخلاق خداوندی کے رنگ میں رنگ جاتا ہے 

جیسا کہ رسول اللہ ﷺکا ارشاد گرامی ہے۔ 

‌تَخَلَّقُوا ‌بِأَخْلَاقِ ‌اللَّهِ تَعَالَى اخلاق خداوندی کو اپنالو“ 

یعنی صفات خداوندی سے متصف ہو جاؤ۔ ولایت میں انسان صفات بشری کا چولہ اتار پھینکنے کے بعد صفات خداوندی کی خلعت زیب تن کر لیتا ہے۔ حدیث قدسی میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ 

إِذا أَحبَبْتُ عَبْداً كنتُ لهُ سَمعاً وبصراً ويداً ولساناً ، فبِي يسمَعُ وبِي يُبْصرُ وبِي يَبْطشُ وبِي ينطِقُ وبي يَمشيِ جب میں کسی بندے کو محبوب بنا لیتا ہوں تو اس کے کان، آنکھ ، ہاتھ اور زبان بن جاتا ہوں۔ (اس طرح) وہ میری سماعت کے ذریعے سنتا ہے۔ میری بصارت کے ذریعے دیکھتا ہے۔ میری قوت سے پکڑتا ہے میری زبان قدرت سے گفتگو کرتا ہے اور میرے پاؤں سے چلتا ہے 

جو آدمی اس مقام پر فائز ہو جاتا ہے وہ ماسوای اللہ سے کٹ جاتا ہے ۔ 

جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے۔ 

وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ (الاسراء:81( 

اور آپ (اعلان فرما دیجئے آگیا ہے حق اور مٹ گیا ہے باطل۔ بیشک باطل تھاہی مٹنے والا۔

یہاں واؤ کا مقام مکمل ہو جاتا ہے۔ 

یہ حرف فناء فی اللہ کو ظاہر کرتا ہے۔یعنی غیر سے اللہ تعالی میں فناء ہو جانا جب بشری صفات فناء ہو جاتی ہیں تو خدائی صفات باقی رہ جاتی ہیں۔ اور خدائی صفات نہ فناء ہو تی ہیں نہ فساد کا شکار اور نہ زائل ہوتی ہیں۔ 

پس عبد فانی رب باقی اور اس کی رضا کے ساتھ باقی بن جاتا ہے اور بنده فانی کا دل سر ربانی اور اس کی نظر کے ساتھ باقی ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ 

كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلا وَجْهَهُ” (القصص:88( ہر چیزہلاک ہونے والی ہے سوائے اس کی ذات کے ۔

یہاں یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد اللہ کی رضا اور خوشنودی لی جائے۔ یعنی ساری چیزیں فانی ہیں سوائے ان اعمال صالحہ کے جن کو صرف اللہ تعالی کی رضاء اور خوشنودی کے لیے سرانجام دیا جائے۔ پس وہ راضی برضا ہو جاتا ہے اور یہی بقا ہے۔ 

عمل صالح کا نتیجہ حقیقت انسان کی زندگی ہے جسے طفل معانی (انسان حقیقی ، عالم لاہوت میں روح کی پہلی صورت جس میں اللہ نے پیدا کیا) کہتے ہیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے۔ 

إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ (فاطر:10( اسی کی طرف چڑھتا ہے پاکیزہ کلام اور نیک عمل پاکیزہ کلام کو بلند کر تاہے ۔

ہر وہ کام جو غیر اللہ کے لیے ہو شرک ہے اور شرک کا مرتکب ہلاک ہونے والا ہے۔ جب انسان فناء فی اللہ کے مقام پر فائز ہو جاتا ہے تو اسے عالم قربت(یہ عالم لاہوت میں انبیاء و اولیاء کا مقام ہے ۔ اس کی تشر یح میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد محل وصال ہے جہاں انسان و اصل بحق ہو تا ہے۔ اس کے متعلق ایک تیسرا قول بھی ہے کہ عالم حقیقت سے مراد عالم احسان میں دخول ہے۔ اس کو عالم قربت کانام بھی دیا جاتا ہے۔) میں بقا حاصل ہو جاتی ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ 

فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِندَ مَلِيكٍ مُّقْتَدِرٍ (القمر:55(

میری پسندیدہ جگہ میں عظیم قدرت والے بادشاہ کے پاس (بیٹھے ( ہوں گے“ عالم لاہوت(روحوں کا پہلا وطن جہاں وہ تخلیق ہو گئیں۔ اسی عالم میں محو فناء ہے۔ کیونکہ فانی کو اس عالم میں قرب خداوندی حاصل ہو تا ہے۔ اس عالم تک ملا ئکہ نہیں پہنچ سکتے) میں یہی انبیاء و اولیاء کے ٹھہرنے کی جگہ ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ 

وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ (التوبہ:119( اور ہو جاسچے لوگوں کے ساتھ“ جب حادث(مخلوق) قدیم سے مل جاتا ہے تو حادث کا اپنا وجود نہیں رہتا کسی شاعر نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے۔ 

‌صِفَاتُ ‌الذَّات والأَفْعَالِ طُرًّا                                  قَدِيمَاتٌ مَصُونَاتُ ‌الزَّوالِ

اللہ تعالی کی تمام صفات اور افعال قدیم ہیں جو زوال پذیر ہونے سے محفوظ ہیں۔ 

جب فناء(بشریت کی صفات ذمیمہ کو الله تعالی کی صفات سے بدل دینا) تمام ہو جائے تو صوفی حق کے ساتھ ہمیشہ کیلئے باقی بن جاتا ہے، قرآن کریم میں ہے : 

أَصْحَاب الْجَنَّة هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (البقرہ:82( وہی جنتی ہیں۔ وہ اس جنت میں ہمیشہ رہنے والے ہیں“ 

سرالاسرار ،شیخ عبد القادر جیلانی صفحہ56 سلطان الفقر پبلیکیشنز لاہور


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں