اپنی مرادوں سے نکل کر حق تعالی کی مرادوں کے موافق ہونا مکتوب نمبر 27دفتر سوم

اس بیان میں کہ بندہ کو چا ہے۔ کہ اپنی تمام مرادوں سے نکل کر حق تعالی کی مرادوں کے موافق ہو جائے اور ذاتی اور عارضی بیماری کے بیان میں ملا علی کشمی 

کی طرف صادر فرمایا ہے:۔ 

بندہ کو چاہیئے کہ اپنے مولا جل شانہ کے سوا اس کا کچھ مراد و مطلب نہ ہو اور مولی کی مراد کے سوا بندہ کی کوئی مرادنہ رہے۔ ورنہ اس کا سر بندگی کی رسی سے اور اس کا پاؤں غلامی کی قید سے نکلا ہوا ہوگا۔ وہ بندہ جو اپنی مرادوں میں گرفتار ہے اور اپنی ہوا ہوس پر فریفتہ ہے۔ وہ اپنے نفس کا بندہ ہے اور شیطان لعین کی اطاعت کر رہا ہے۔ یہ دولت (یعنی اپنی مرادوں کو حق تعالی کی مرادوں میں فانی کرنا) دلالت کے خاصہ کے حاصل  ہونے پر وابستہ ہے۔ جوفناء و بقائے اتم واکمل پر موقوف ہے۔

 سوال: کبھی کبھی خواہشیں اور ضروریات کا ملوں سے بھی ظاہر ہوتی ہیں اور مختلف مطالب کے حاصل ہونے کی خواہش ان بزرگواروں سے بھی محسوس ہوتی ہے۔ امام انبیاء و سلطان اولیاء علیہ الصلوة والسلام سردوشیریں چیز کو دوست رکھتے تھے اور وہ حرص جو حضور علیہ الصلوة والسلام کوامت کی ہدایت پر تھا۔ قرآن مجید میں ظاہر ہے۔ ان بزرگواروں میں اس قسم کی خواہشات کے باقی رہنے کا باعث کیا ہے؟

 : جواب: بعض خواہشیں جن کا منشاء طبیعت ہے تا کہ طبعی مزاج قائم رہے۔ ضروری ہیں گری کے وقت طبیعت بے اختیار سردی کی طرف مائل ہے اور سردی کے وقت گرمی کی طرف راغب ہے۔ اس قسم کے خواہشیں عبودیت (بندگی)  کے منافی اور نفسانی خواہشات کے ساتھ گرفتاری کا سبب نہیں، کیونکہ طبعی ضروریات دائرہ تکلیف سے خارج اورنفس امارہ  (برائی کی طرف بہت امر کرنے والا)  کی خواہش سے باہر ہیں، 

 کیونکہ نفس کی خواہشات یافضول مباح ہیں یا مشتبه وحرام اور جو کچھ ضروری ہے اس کو اس کے ساتھ مس و تعلق نہیں۔ پس گرفتاری اور بدکرداری کا موجب فضول افعال ہیں۔ اگرچہ مباح کی قسم سے ہوں، کیونکہ فضول مباح محرم کے قرب و جوار میں ہے کہ اگر دشمن لعین کے بہکانے سے وہاں سے قدم اٹھائیں تو بے اختیارحرام میں جا پڑیں۔ پس مباح ضروری پر کفایت کرنا ضروری ہے کہ اگر وہاں سے قدم پھسلےگا تو فضول مباح ہی میں پڑے گا اور اگر فضول مباحات میں قیام کیا جائے تو اس سے پہلے قدم چلتے ہی جھٹ محرم میں جا پڑیگا۔ بعض خواہشیں اس قسم کی ہیں جن کا حاصل ہونا خارج اور باہر کی طرف سے ہے۔ باوجود یکہ شخص في نفسہ مرادوں سے خالی ہو اور خارج میں یا حضرت رحمن واعظ ہے۔ جو خیرات کا القاء کرتا ہے۔ ان لله سبحانہ و اعظا في قلب كل مؤمن ( کیونکہ ہر ایک مومن کے دل میں اللہ تعالی کی طرف سے ایک واعظ ہے) یا شیطان ہے جو شر وعداوت کا القاء کرتا ہے۔ ‌يَعِدُهُمْ وَيُمَنِّيهِمْ وَمَا ‌يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا (شیطان ان کو وعدہ اور امیدیں دلاتا ہے۔ مگر شیطان کا دعده سراسر دھوکا اور فریب ہے) قلعہ کی سکونت کے ایام میں فقیر ایک دن فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد اس طریقہ عالیہ کی طرز دطرح پر خاموش بیٹھا ہوا تھا کہ بیہودہ آرزووں کے ہجوم نے بے مزہ کر دیا اور جمعیت (دل کو طمینان حاصل ہونا) کو کھودیا۔ ایک لمحہ کے بعد جب اللہ تعالی کی عنایت سے پھر جمعیت حاصل ہوئی تو دیکھا کہ وہ آرزوئیں بادل کے ٹکڑوں کی طرح القاء کرنے والے کے ہمراہ باہر نکل گئی ہیں اور خانہ دل کو خالی چھوڑ گئی ہیں۔ اس وقت معلوم ہوا کہ یہ خواہشیں باہر کی طرف سے آئی تھیں اندر سے نہ گئی تھیں جو بندگی کے منافی ہیں۔ غرض جس فسادکامنشا نفس امارہ (برائی کی طرف بہت امر کرنے والا)  ہے دومرض ذاتی اور زہر قاتل اور مقام بندگی کے منافی ہے اور جو فساد کے باہر کی طرف سے آئے۔ اگرچہ القاء شیطانی ہو۔ وہ عارضی مرض ہے جو بہت آسان علاج سے دور ہو سکتی ہے۔ الله تعالی فرماتاہے۔ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ‌ضَعِيفًا (بیشک شیطان کامکر ضعیف ہے)ہماری بلا ہمارا اپناہی نفس ہے اورہمارا جانی دشمن ہمارا اپناہی براہمنشین ہے۔ اس کی مدد سے بیرونی دشمن ہم پرغلبہ پاتے ہیں اور ہم کو اسی کی مدد سے مغلوب کرتے ہیں۔ تمام اشیاء میں سے زیادہ جاہل نفس اماره ہے جو اپناہی دشمن اور بدخواہ ہے اور اس کا ارادہ اپنے آپ کو ہلاک کرتا ہے۔ اس کی خواہش و آرزو ہمہ تن حضرت رحمن جل شانہ (جو اس کا اور اس کی نعمتوں کا مولی ہے) کی نافرمانی اور شیطان کی اطاعت ہے جو اس کا جانی دشمن ہے۔

 جاننا چاہیئے کہ ذاتی اور عارضی مرض اور داخلی اور خارجی فساد کے درمیان فرق و تمیز کرنا بہت مشکل ہے۔ مبادا کوئی ناقص اس خیال سے اپنے آپ کو کامل فرض کرے اور اپنی مرض ذاتی کو مرض عارضی خیال کرے اور خسارہ کھاۓ فقیر اسی ڈر کے مارے اس سرکے لکھنے کی جرات نہیں کرتا تھا اور اس مطلب کا ظاہر کرنا مناسب نہیں جانتا تھا۔ میں سترہ سال تک اسی اشتباه میں رہا اور فسادذاتی کو فساد عارضی کے ساتھ ملا ہوا پاتا رہا۔ اس وقت اللہ تعالی نے حق کو باطل سے جدا کر دیا اور مرض ذاتی کو مرض عارضی سے الگ کر دیا۔ الحمد لله والمنة على ذلك وعلى جميع نعمائه (اس نعمت پر اور اللہ تعالی کی تمام نعمتوں پر اللہ تعالی کی رحمت اور اس کا احسان ہے) اس قسم کے اسرار کے ظاہر کرنے کی حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ کوئی کوتاہ نظر کسی کامل کو اس قسم کی بیرونی آرزووں کے باوجود ناقص نہ سمجھے اور اس کی برکات سے محروم نہ رہے کفاراسی قسم کی صفات کے باعث انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی تصدیق کی دولت سے محروم رہے اور اس طرح کہتے رہے۔ ‌أَبَشَرٌ يَهْدُونَنَا فَكَفَرُوا کیا ہم جیسا انسان ہم کو ہدایت دیتا ہے۔ پس کافر ہو گئے اور یہ جو فرمایا ہے کہ حق تعالی عارف کو اس کی مرادوں اور خواہشوں کے دور ہو جانے کے بعد صاحب ارادہ بنا دیتا ہے اور اس کے ہاتھ میں اختیار دے دیتا ہے۔ اس مضمون کی تفصیل انشاء اللہ تعالی کسی اور جگہ اللہ تعالی کی عنایت سے کی جائے گی کیونکہ اب وقت پوری یاوری نہیں کرتا۔ والسلام على من اتبع الهدى والتزم متابعة المصطفى عليه وعليهم من الصلوة والتسليمات اتمها وادومها اور سلام ہو آپ پر اوران  لوگوں پر جو ہدایت کے رستہ پر چلے اور جنہوں نے حضرت محمدﷺکی متابعت کو لازم پکڑا۔

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ99 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں