اہل سنت و جماعت کے عقائد مکتوب نمبر67دفتر دوم

اہل سنت و جماعت کے عقائد اور اسلام کے پانچ ارکان اور اس امر پر ترغیب دینے کے بیان میں کہ کلمہ حق یعنی کلمہ اسلام کو بادشاہ وقت کے کانوں تک پہنچا دیں۔ خان جہاں کی طرف صادر فرمایا ہے:۔ 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ . اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی اللہ تعالیٰ  کے لیے حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو۔ 

آپ کا صحیفہ  شریفہ جواز روئے کرم و التفات کے فقراء نامراد کے نام پر لکھا تھا، پہنچا۔ اللہ تعالیٰ  کی حمد ہے کہ اس شبہ و اشتباه سے بھرے ہوئے زمانہ میں سعادرتمندغنی اپنے حسن خلق کے باعث باوجود بے مناسبتی کے فقراء دور از کار کے ساتھ عجز و نیاز سے پیش آتے ہیں اور اس طائفہ کے ساتھ ایمان و تصدیق رکھتے ہیں۔ یہ کس قدر اعلی دولت ہے کہ مختلف تعلقات اس دولت کے مانع نہ ہوں اور پراگنده توجہات ان کی محبت سے ہٹا نہ رکھیں۔ اس نعمت عظمی کا شکر بجا لانا چاہیئے اور امیدوار رہنا چاہیئے کہ ۔ الْمَرْءُ ‌مَعَ ‌مَنْ ‌أَحَبَّ (آدمی  اس کے ساتھ ہوگا جس کے ساتھ اس کی محبت ہوگی) حدیث نبوی ﷺ ہے۔ 

اے سعادت و نجابت کے نشان والے، آدمی  کے لیے ضروری ہے کہ اپنے عقائد کو فرقہ ناجیہ اہل سنت و جماعت جو سواد اعظم اور جم غفیر ہیں یعنی بڑا بھاری گروہ ہیں کے عقائد کے موافق درست کرے تا کہ آخرت کی نجات اورخلاصی متصور ہو سکے۔ خبث اعتقادیعنی بداعتقادی جو اہل سنت و جماعت کے مخالف ہے۔ زہر قاتل ہے جو دائمی موت اور ہمیشہ کے عذاب و عقاب تک پہنچادیتی ہے۔ عمل کی سستی اور غفلت پر مغفرت کی امید ہے لیکن اعتقادی سستی میں مغفرت کی گنجائش نہیں۔ إِنَّ اللَّهَ ‌لَا ‌يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ الله تعالیٰ  شرک کونہیں بخشا اور شرک کے سوا اور سب کچھ بخش دیتا ہے جس کے لیے چاہتا ہے)۔ 

اہل سنت و جماعت کے معتقدات مختصر طور پر بیان کیے جاتے ہیں۔ ان کے موافق اپنے اعتقاد کو درست کر لیں اور بڑی عاجزی اور زاری سے بارگاہ الہی میں دعا مانگنی چاہیئے کہ اس دولت(عقائد) پر استقامت عطا فرمائے۔ 

واضح ہو کہ الله تعالیٰ  اپنی قدیم( جو اپنے وجود میں ہمیشہ سے ہے اور جس کی ذات  تمام موجودات سے پہلے تھی  یہ سوائے ذات خداوند اور کوئی نہیں) ذات کے ساتھ موجود ہے اور تمام اشیاء اسی کی ایجاد سے  موجود ہوتی ہیں اور اسی کے پیدا کرنے سے عدم سے وجود میں آگئی ہیں ۔ حق تعالیٰ  قدیم وازلی ہے اور تمام اشیاء حادث اور نو پدید (بعد کی پیدا کی ہوئی)ہیں اور حق تعالیٰ قدیم وازلی ہے وہ باقی و ابدی ہے اور جو حادث اورنوپید (نئی پیدا شدہ)ہے وہ فانی اور نیست و نابود ہے اور زائل ہونے والا ہے۔ 

حق تعالیٰ  ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ نہ وجوب وجود میں اور نہ عبادت کے استحقاق میں، وجوب وجود اس کے سوا کسی اور کے لیے مناسب نہیں اور اس کے سوا عبادت کامستحق کوئی نہیں۔ 

حق تعالیٰ  کی صفات کا ملہ ہیں۔ جن میں سے حیات وعلم و قدرت و ارادت وسمع و بصر و کلام و تکوین ہیں جو قدم و ازلیت کے ساتھ متصف ہیں اور حق تعالیٰ  کی ذات کے ساتھ قائم ہیں۔ حوادث کا تعلق صفات کے قدم میں خلل نہیں ڈالتا اور متعلق کا حدوث ان کے ازلیت کا مانع نہیں ہوتا فلاسفہ اپنی بیوقوفی کے باعث اور معتزلہ نا بینائی کے سبب متعلق کے حدوث سے متعلق کے حدوث کے قائل ہیں اور صفات کاملہ کی نفی کرتے ہیں اور حق تعالیٰ کو جزئیات کا عالم نہیں جانتے۔ جس سے تغیر لازم آتا ہے۔ جو حدوث کا نشان ہے نہیں جانتے کہ صفات ازلی ہیں اور صفات کے وہ تعلقات جو اپنے حادثہ متعلقات کے ساتھ ہیں حادث ہیں۔ 

تمام ناقص صفتیں حق تعالیٰ  کی بارگاہ سے مسلوب ہیں ۔ حق تعالیٰ  جواہر واجسام واعراض کے صفات ولوازم سے منزہ ومبرہ ہے اس کی درگاہ میں مکان و زمان و جہت کی گنجائش نہیں۔ یہ سب اس کے مخلوق ہیں اور یہ بھی مناسب نہیں کہ حق تعالیٰ  کو عرش کے اوپر جانیں اورفوق کی طرف ثابت کریں۔ کیونکہ عرش اور اس کے ماسوا سب کچھ حادث اور اس کا پیدا کیا ہوا ہے۔ مخلوق وحادث کی کیا مجال ہے کہ خالق قدیم کا مکان اور جائے قرار بن سکے۔ البتہ اس قدر ہے کہ عرش اس کی تمام مخلوقات سے اشرف ہے اور تمام ممکنات سے بڑھ کر اس میں صفا ونورانیت ہے۔ اس لیے آئینہ بننے کاحکم رکھتا ہے۔ جس سے حق تعالیٰ  کی عظمت و کبریا کا ظہور ہوتا ہے۔ اس ظہور کے علاقہ کے باعث اس کو عرش الہی کہتے ہیں ور نہ عرش وغیرہ سب اشیاء اس کی مخلوق ہونے میں برابر ہیں ، لیکن عرش میں ظہور کی قابلیت ہے جو دوسروں میں نہیں ۔ آئینہ جوشخص کی صورت کو ظاہر کرتا ہے نہیں کہہ سکتے کہ وہ شخص آئینہ میں ہے بلکہ شخص کی نسبت آئینے اور تمام اشياء متقابلہ کے ساتھ برابر ہے۔ تفاوت قائل کی طرف سے ہے آئینہ صورت شخص کو قبول کرتا  ہے اور دوسروں میں قابلیت نہیں۔ 

حق تعالیٰ  نہ جسم ہے نہ جسمانی نہ جو ہر نہ عرض نہ محدودنہ متناہی نہ طویل نہ عریض نہ دراز نہ کوتاه نہ فراخ نہ تنگ ہے۔ بلکہ واسع ہے نہ اس وسعت کے ساتھ جو ہمارےفہم میں آ سکے اور محیط ہے نہ اس احاطہ سے جو ہمارے ادراک میں آ سکے اور قریب ہے نہ اس قرب سے جو ہماری عقل میں آ سکے اور وہ ہمارے ساتھ ہے نہ اس معیت سے جومشہور و معروف ہے ہم ایمان لاتے ہیں کہ حق تعالیٰ  واسع اور محیط اور قریب اور ہمارے ساتھ ہے لیکن ان صفات کی کیفیت ہم نہیں جانتے کہ کیا ہے اور جو کچھ ہم جانتے ہیں، جانتے ہیں کہ مذہب مجسمہ(جسم کا قائل ہونا) میں قدم رکھتا ہے۔ 

حق تعالیٰ  کسی چیز کے ساتھ متحد نہیں ہوتا اور نہ کوئی چیز اس کے ساتھ متحد ہوتی ہے اور نہ کوئی چیز اس میں حلول کرتی ہے نہ وہ کسی شے میں حلول کرتا ہے۔تبعض و تجزی یعنی بعض بعض اور جز جز ہونا اس کی بارگاہ میں محال ہے اور تر کیب وتحلیل(جڑنا اور پارہ پارہ ہونا) اس کی جناب سے دور ہے۔ 

حق تعالیٰ  کا کوئی مثل اور برابر نہیں، نہ اس کی عورت ہے نہ کوئی بیٹا حق تعالیٰ  کی ذات و صفات بیچون وبیچگون(بے مثل و بے کیف) اور بے شبہ و بے مانند ہیں۔ اس قدر ہم جانتے ہیں کہ حق تعالیٰ  ہے اور اپنی صفات کاملہ کے ساتھ جن سے اس نے اپنی تعریف کی ہے۔ متصف ہے لیکن جو کچھ ہمارے فہم و ادراک وعقل و تصور میں آسکے حق تعالیٰ  اس سے منزہ اور برتر ہے۔ 

دور بیناں. بار گاه الست جزدریں  پے نبرده اند کہ ہست

ترجمہ: بار گاه الست کے دانا کچھ نہیں جانتے ہیں ہست سوا( بارگاه الست کے محرم ہست سے آگے لے گئے نہ قدم) 

جاننا چاہیئے کہ حق تعالیٰ  کے اسماء  توقیفی ہیں یعنی صاحب شرع سے سننے پر موقوف ہیں۔ شرع میں حق تعالیٰ  کی ذات پر جس اسم کا اطلاق آیا ہے۔ اس اسم کا اطلاق کرنا جائز ہے اور جس اسم کا نہیں آیا اس کا اطلاق نہیں کرنا چاہیئے۔ اگر چہ اس اسم میں کمال کے معنی پائے جاتے ہوں ۔ مثلا جواد کا اطلاق کرنا چاہیئے کہ اس اسم کا اطلاق شرع میں آیا ہے اورسخی نہیں کہنا چاہیئے کیونکہ اس اسم کا اطلاق شرع میں نہیں آیا۔ 

قرآن: حق تعالیٰ  کا کلام ہے جس کو حرف اور آواز کا لباس دے کر ہمارے پیغمبر علیہ الصلوة والسلام پر نازل فرمایا ہے اور بندوں کو اس کے ساتھ امرونہی کا حکم کیا ہے جس طرح ہم اپنے نفسی کلام کو کام و زبان کے ذریعے آواز کے لباس میں لا کر ظاہر کرتے ہیں اور اپنے  پوشیدہ مقصدوں اور مطلبوں کو عرصہ ظہور میں لاتے ہیں۔ اسی طرح حق تعالیٰ  نے اپنے نفسی کلام کو کام و زبان کے وسیلہ کے بغیر اپنی قدرت کاملہ سے حرف وآواز کا لباس عطا فرما کر اپنے بندوں پر بھیجا ہے اور اپنے پوشیدہ امر و نواہی کو حرف و آواز کے ضمن میں لا کر ظہور کے میدان میں جلوہ گر کیا ہے۔ پس کلام کی دونوں قسمیں یعنی نفسی اورلفظی حق تعالیٰ  کے کلام ہیں اور دونوں قسموں پر کلام کا اطلاق کرنا حقیقت کے طور پر ہے جس طرح کہ ہمارے کلام کی دونوں قسمیں نفسی اورلفظی حقیقت کے طور پر ہمارے کلام ہیں نہ یہ کہ قسم اول حقیقت ہے اور دوسری مجاز ۔ 

کیونکہ مجاز کی نفی جائز ہے کلام لفظی کی نفی کرنا اور اس کو کلام خدا نہ کہنا کفر ہے۔ اسی طرح دوسری کتا ہیں اور صحیفے جو گزشتہ انبیا علیہم الصلوة والسلام پر نازل فرمائے۔ سب حق تعالیٰ  کے کلام ہیں اور جو کچھ قرآن اور ان کتابوں اور صحیفوں میں درج ہے سب حق تعالیٰ  کے احکام ہیں جن کے ساتھ اپنے بندوں کو وقت کے موافق تکلیف فرمائی ہے۔ 

مومنوں کا حق تعالیٰ  کو بہشت میں بے جہت سے مقابلہ و بے کیفیت و بے احاطہ دیکھنا حق ہے۔ اس آخرت کی رؤیت اور دیدار پر ہمارا ایمان ہے اور اس کی کیفیت ہم نہیں جانتے کیونکہ حق تعالیٰ  کی رؤیت بیچون  (بے مثل)ہے اور اس جہان میں اس کی حقیقت ارباب چون(مثل) پر ظاہرنہیں ہوتی۔ اس پر ایمان لانے کے سوا ان کے نصیب اور کچھ نہیں۔ فلاسفر اور معتزلہ اور تمام بدعتی گروہوں پر افسوس ہے جو حرمان اور کوری سے دیدار آخرت کا انکار کرتے ہیں اور غائب کا قیاس حاضر پر کرتے ہیں اور اس پر ایمان لانے کی دولت سے بھی مشرف نہیں ہوتے۔ 

حق تعالیٰ  جس طرح بندوں کا خالق ہے اسی طرح ان کے افعال کا بھی خالق ہے۔ وہ افعال خیر ہوں یا شرسب اس کی تقدیر سے ہیں، لیکن خیر سے راضی ہے اور شور سے راضی نہیں۔ اگر چہ دونوں اسی کے ارادہ اور مشیت سے ہیں، لیکن جاننا چاہیئے کہ صرف تنہا شر کو ادب کے باعث حق تعالیٰ  کی طرف منسوب نہ کرنا چاہیئے اور خالق شرنہ کہنا چاہیئے بلکہ خالق خیر وشر کہنا مناسب ہے۔ اسی طرح علماء نے کہا ہے کہ حق تعالیٰ  کو خالق کل شی کہنا چاہیئے۔ خالق القاذورات والخنازير(گندگیوں اور خنزیروں کا خالق) نہ کہنا چاہیئے کہ اس میں حق تعالیٰ  کی پاک جناب کی بے ادبی ہے۔ معتزلہ ثنویت یعنی دوئی اور بیگانگی کے باعث بندہ کو افعال کا خالق جانتے ہیں اور عمل کے خیر و شر کو بندہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ شرع و عقل ان کی تکذیب کرتی ہے۔ ہاں علمائے حق نے بندہ کی قدرت کو اس کے فعل میں داخل کیا ہے اور اس کا کسب بندہ میں ثابت کیا ہے۔ کیونکہ حرکت مرتعش یعنی بے اختیاری حرکت اور حرکت مختار(اختیار والی حرکت) میں فرق واضح ہے۔ حرکت ارتعاشی یعنی بے اختیاری حرکت میں بندہ کی قدرت اور کسب کا کچھ دخل نہیں اور حرکت اختیاری میں ہے۔ اسی قدر فرق مواخذہ کا باعث ہو جاتا ہے اور ثواب و عقاب کو ثابت کرتا ہے اکثر لوگ بندہ کی قدرت و اختیار میں تردد رکھتے ہیں اور بندہ کو بچارہ اور عا جز جانتے ہیں۔ انہوں نے علماء کی مراد کونہیں سمجھا۔ بندہ میں قدرت و اختیار کا ثابت کرنا اس معنی کے لحاظ سے نہیں ہے کہ جو بندہ جو کچھ چاہے کر لے اور جو نہ چاہے نہ کرے یہ بات بندگی سے دور ہے۔ بلکہ اس معنی کے اعتبار سے ہے کہ بندہ جس بات کے ساتھ مکلف ہے اس سے عہدہ برآ ہو سکتا ہے۔ مثلا نماز وقت ادا کر سکتا ہے۔ چالیسواں حصہ زکوة دے سکتا ہے اور بارہ مہینوں میں ایک مہینہ روزہ رکھ سکتا ہے اور اپنی عمر میں خرچ و سواری کے ہوتے ایک بار حج کر سکتا ہے۔ اسی طرح باقی احکام شرعی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ  نے کمال مہربانی سے بندہ کی ضعف و ناطاقتی کو دیکھ کر سہولت و آسانی کو مدنظر رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ  فرماتا ہے: ‌يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا ‌يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ

اللہ تعالیٰ  تم پر آسانی چاہتا ہے اورتنگی نہیں چاہتا اور فرماتا ہے۔  ‌يُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُخَفِّفَ عَنْكُمْ وَخُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا ( اللہ تعالیٰ  تم پر تخفیف کرنا چاہتا ہے اور انسان ضعیف پیدا کیا گیا ہے) انسان ضعیف شہوات سے صبرنہیں کر سکتا اور سخت تکلیف کو برداشت نہیں کر سکتا۔ 

انبیاءعلیہم الصلوة والسلام حق تعالیٰ  کے بھیجے ہوئے ہیں۔ تا کہ خلق کو حق تعالیٰ  کی طرف بلائیں اور گمراہی سے سیدھے راستہ پر چلائیں جو ان کی دعوت کو قبول کر لے اس کے لیے جنت کی خوشخبری ہے اور جو کوئی انکار کرے اس کے لیے دوزخ کے عذاب کی وعید ہے اور جو کچھ انبیاء علیہم الصلوة والسلام نے حق تعالیٰ  کی طرف سے پہنچایا اور بتایا ہے سب سچ اور برحق ہے اس میں کسی قسم کا خلاف نہیں۔ 

تمام انبیا علیہم الصلوۃ والسلام کے خاتم حضرت محمد رسول اللہ ﷺہیں اور آپ کا دین تمام گزشتہ دینوں کا ناسخ ہے اور آپ کی کتاب تمام گزشتہ کتابوں سے بہتر ہے آپ کی شریعت منسوخ نہ ہوگی۔ بلکہ قیامت تک باقی رہے گی ۔ حضرت عیسی علی نبینا و علیہ الصلوة والسلام نزول فرما کر آپ کی شریعت پرعمل کریں گے اور آپ کے امتی ہو کر رہیں گے۔ 

جو کچھ رسول اللہ ﷺنے آخرت کے احوال کی نسبت خبر دی ہے سب حق اورسچ ہے۔ یعنی قبر کا عذاب اور اس کی تنگی۔ منکر نکیر کا سوال، جہان کا فنا ہونا، آسمانوں کا پھٹ  جانا، ستاروں کا پراگندہ ہوا، زمین  و پہاڑوں کا ریزہ ریزہ ہونا اور مرنے کے بعد جی اٹھنا، روح کا جسم میں واپس ڈالنا، قیامت کا زلزلہ اور خوف عملوں کے حساب کیے ہوئے اعمال پر اعضا کی شہادت، نیک و بد اعمالنامہ کا دائیں بائیں ہاتھ میں اڑ کر آنا اور برے بھلے اعمال کے تولنے کے لیے میزان کا رکھنا اور اس کے ذریعے برائیوں، بھلا ئیوں کی کمی بیشی معلوم کرنا، اگر نیکیوں کا پلہ بھاری ہوا تو نجات کی علامت ہے اور اگر ہلکا ہوا تو خسارہ کا نشان ہے۔ اس میزان کا بھاری یاہلکا ہونا دنیا کی میزان کے بھاری ہلکا ہونے کے برخلاف ہے۔ وہاں جو پلہ اوپر کو جائے گا وہ بھاری ہوگا اور جونسانیچے ہوگا خفیف اور ہلکا ہوگا سب کچھ سچ اور راست ہے۔ 

انبیا علیہم الصلوۃ والسلام و صالحین کی شفاعت حق ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ  کے اذن سے اول پیغمبر گناہگار مومنوں کی شفاعت کریں گے، پھر صالحین، رسول الله ﷺنے فرمایا ہے شَفَاعَتِي لِأَهْلِ ‌الْكَبَائِرِ مِنْ أُمَّتِي میری شفاعت میری امت میں سے کبیرہ گناه کرنے والوں کے لیے ہوگی)

پل صراط حق ہے۔ اس کو دوزخ کی پشت پر رکھیں گے۔ مومن اس پل کو عبور کر کے 

بہشت میں جائیں گے اور کافر پھسل پھسل کر دوزخ میں گریں گے۔ 

بہشت جو مومنوں کے آرام کے لیے ہے اور دوزخ جو کافروں کے عذاب کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ دونوں مخلوق ہیں اور ہمیشہ باقی رہیں گے، فانی نہ ہوں گے، حساب و کتاب کے بعد جب مومن بہشت میں جائیں گے وہاں ہمیشہ کے لیے آرام سے رہیں گے اور کبھی باہر نہ نکالے جائیں گے ایسے ہی جب کافر دوزخ میں جائیں گے تو ہمیشہ تک عذاب میں رہیں گے اور ان کے عذاب میں بھی تخفیف نہ ہوگی۔ اللہ تعالیٰ  فرماتا ہے : فَلَا ‌يُخَفَّفُ عَنْهُمْ وَلَا هُمْ يُنْظَرُونَ (نہ ان کا عذاب ہلکا ہوگا، نہ ان کو مہلت ملے گی)۔ 

جس کے دل میں ذرہ ایمان ہو گا۔ اس کو دوزخ سے نکال لیں گے۔یعنی گناہوں کی زیادتی کے باعث اس کو دوزخ میں ڈالیں گے اور گناہوں کے موافق عذاب دے کر دوزخ سے اس کو نکال لیں گے اور اس کے ایمان کی برکت سے کفار کی طرح اس کے منہ کو سیاہ نہ کریں گے اور طوق وزنجیر اس کو نہ ڈالیں گے۔ 

فرشتے اللہ تعالیٰ  کے مکرم بندے ہیں۔ حق تعالیٰ  کے امر کی نافرمانی ان کے حق میں جائز نہیں جس کا ان کوحکم ہے اس کو بجا لاتے ہیں۔ عورت مرد ہونے سے پاک ہیں ۔ توالد و تناسل  ان کے حق میں مفقود ہے۔ یعنی ان کوحق تعالیٰ  نے رسالت کے لیے برگزیدہ کیا ہے اور وحی کی تبلیغ سے مشرف فرمایا ہے۔ پیغمبروں کی کتابوں اورصحیفوں کے پہنچانے والےیہی ہیں ۔ جوخطا و خلل سے محفوظ ہیں اور دشمن کے مکروفریب سے معصوم۔ جو کچھ انہوں نے حق تعالیٰ  کی طرف سے پہنچانا ہے۔ سب صدق وصواب ہے۔ اس میں کسی قسم کا احتمال و اشتباہ نہیں ۔ یہ بزرگوار حق تعالیٰ  کی عظمت و جلال سے ڈرتے اور اس کے امر بجالانے کے سوا کچھ کام نہیں کرتے۔ 

ایمان تصدیق قلبی اور اقرار زبانی ہے۔ ان احکام کے ساتھ جو دین سے تواتر وضرورت کے ساتھ مجمل ومفصل طور پر ہم تک پہنچے ہیں۔ اعضا کے اعمال نفس ایمان سے خارج ہیں، لیکن ایمان میں کمال کو بڑھاتے اور خوبی کو پیدا کرتے ہیں۔ 

امام اعظم کوفی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: کہ ایمان کم و بیش نہیں ہوتا، کیونکہ تصدیق قلبی قلب کے یقین اور مان لینے سے حاصل ہوتی ہے۔ جس میں کمی و زیادتی کی گنجائش نہیں۔ جس چیز میں تفاوت پایا جائے ۔ دائرہ ظن ووہم میں داخل ہے۔ ایمان میں کمی بیشی با اعتبار طاعات و حسنات کے ہے۔ جس قدر طاعت زیادہ ہوگی اسی قدر ایمان زیادہ کامل ہوگا۔ پس عام مومنوں کا ایمان انبیا علیہم الصلوۃ والسلام کے ایمان جیسا نہ ہو گا، کیونکہ وہ ایمان طاعات کے باعث کمال کے بلند درجہ تک پہنچا ہوا ہوتا ہے۔ جہاں تک عام مومنوں کا ایمان نہیں  پہنچ سکتا۔ اگر چہ یہ دونوں ایمان نفس ایمان میں مشترک ہیں، لیکن اس ایمان نے طاعات کی قوت کے باعث اور ہی حقیقت پیدا کر لی ہے گویا دوسروں کا ایمان اس ایمان کا فرد نہیں اور ان کے درمیان کوئی مماثلت اور مشارکت نہیں۔ عام انسان اگر چہ نفس انسانیت میں انبیا علیہم الصلوۃ والسلام کے ساتھ شریک ہیں، لیکن انبیا علیہم الصلوۃ والسلام کے اعلی کمالات نے ان کو درجہ بلند تک پہنچایا ہے اور ایک الگ حقیقت ثابت کر لی ہے۔ گویا حقیقت مشتر کہ سے  عالی و برتر ہیں ۔ بلکہ انسان یہی ہیں اور عوام لوگ نسناس یعنی بن مانس کا حکم رکھتے ہیں۔ امام اعظم علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں 

کہ أَنَا ‌مُؤْمِنٌ ‌حَقًّا میں تحقیق مومن ہوں اور امام شافعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ‌أَنَا ‌مُؤْمِنٌ ‌إِنْ ‌شَاءَ اللَّهُ تعالیٰ (میں مومن ہوں انشاء الله تعالیٰ ) ہر ایک کے لیے الگ الگ وجہ ہے۔ ایمان حال کے اعتبار سے کہہ سکتے ہیں کہ أَنَا ‌مُؤْمِنٌ ‌حَقًّا اوربا اعتبار خاتمہ اور انجام کے ‌أَنَا ‌مُؤْمِنٌ ‌إِنْ ‌شَاءَ اللَّهُ تعالیٰلیکن بہرصورت استثناء سے پرہیز کرنا بہتر ہے۔ یعنی ‌أَنَا ‌مُؤْمِنٌ ‌إِنْ ‌شَاءَ اللَّهُ نہ کہنا چاہیئے۔ مومن گناہ کرنے سے اگرچہ کبیرہ ہوں۔ ایمان سے خارج نہیں ہوتا اور دائرہ کفر میں داخل نہیں ہوتا منقول ہے کہ ایک دن امام اعظم علیہ الرحمتہ علماء کی ایک جماعت کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص نے آ کر پوچھا کہ اس مومن فاسق کے لیے کیا حکم ہے۔ جو اپنےباپ کوناحق مار ڈالے اور اس کے سرکوتن سے جدا کر کے اس کا کاسہ سر میں شراب ڈال کر پئے اور شراب پی کر اپنی ماں کے ساتھ زنا کرے۔ آیا مومن ہے یا کافر۔ ہر ایک عالم اس مسئلہ میں غلطی پر رہااوردورتک معاملہ کرنے گیا۔ 

امام اعظم علیہ الرحمۃ نے اس اثنا میں فرمایا کہ وہ مومن ہے۔ اس قدر گناہ کبیرہ کرنے کے باوجود سے اس کا ایمان دور نہیں ہوا۔امام اعظم کی یہ بات علماء کو بہت ناگوار گزری اور ان کے حق میں طعن وتشنیع کی زبان دراز کی۔ آخر جب امام علیہ الرحمۃ کی بات برحق تھی۔ سب نے مان لی۔ اگر مومن عاصی غرغرہ یعنی وقت نزع سے پہلے توبہ کی توفیق حاصل ہو جائے تو نجات کی بڑی امید ہے، کیونکہ اس وقت تک تو بہ کے قبول ہونے کا وعدہ ہے اور اگر توبہ انا بت سے مشرف نہ ہوا۔ تو اس کا معاملہ خدا تعالیٰ  کے حوالہ ہے۔ چاہے معاف کرے اور بہشت میں بھیج دے ۔ خواہ گناہ کے موافق عذاب کرے اور دوزخ میں ڈالے لیکن آخر کار اس کے لیے نجات ہے اور اس کا انجام بہشت ہے، کیونکہ آخرت میں رحمت خداوندی سے محروم ہونا کافروں کے ساتھ مخصوص ہے اور جو کوئی ذرہ بھر ایمان رکھتا ہے۔ رحمت کا امیدوار ہے۔ اگر گناہ کے باعث ابتدا میں رحمت نہ پہنچے تو انتہا میں اللہ تعالیٰ  کی عنایت سے میسر ہوجائے گی۔رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ (یااللہ تو ہدایت دے کر ہمارے دلوں کی ٹیڑھانہ کر اور اپنے پاس سے ہم پر رحمت نازل فرما۔ تو بڑا بخشنے والا ہے۔)

خلافت و امامت کی بحث اہل سنت و جماعت کے نزدیک اگرچہ دین کے اصول میں سے نہیں ہے اور نہ ہی اعتقاد کے ساتھ تعلق رکھتی ہے لیکن چونکہ شیعہ نے اس بارہ میں بڑی زیادتی اور افراط وتفریط کی ہے اس لیے علما حق نے اس بحث کوعلم کلام سے متعلق کیا ہے اور حقیقت حال کو بیان فرمایا ہے۔ 

حضرت خاتم الرسل علیہ الصلوة والسلام کے بعد امام برحق اور خلیفہ مطلق حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔ ان کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ۔ ان کے بعد حضرت عثمان ذوالنورین رضی الله عنہ۔ بعد ازاں حضرت علی بن ابی طالب رضی الله تعالیٰ  عنہ اور ان کی  فضيلت ان کی خلافت کی ترتیب پر ہے۔ 

حضرات شیخین رضی اللہ عنہ کی افضلیت صحابہ و تابعین کے اجماع سے ثابت ہو چکی ہے۔ چنانچہ اس کو ائمه بزرگواران کی ایک بڑی جماعت نے نقل کیا ہے۔ جن میں سے ایک امام شافعی علیہ الرحمتہ ہیں۔ شیخ ابولحسن اشعری جو اہل سنت کا رئیس ہے۔ فرماتا ہے کہ یقین کی افضلیت باقی امت پر قطعی ہے۔ سوائے جاہل یا تعصب کے اس کا کوئی انکارنہیں کرتا۔ حضرت امیر کرم اللہ فرماتے ہیں کہ جو کوئی مجھ کو حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ تعالیٰ  عنہما پرفضیلت دے وہ مفتری ہے۔ میں اس کو اسی(80) کوڑا لگاؤں گا جس طرح مفتری کو لگاتے ہیں۔ حضرت عبدالقادر گیلانی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب غنیۃ الطالبین میں فرماتے ہیں اور ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺنے فرمایا کہ مجھے عروج واقع ہوا۔ میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ میرے بعد میرا خلیفه علی ہو۔ فرشتوں نے کہا کہ اےمحمد ﷺجو کچھ خدا چاہے وہی ہو گا۔ تیرے بعد خلیفہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہے۔ 

نیز حضرت رحمتہ اللہ علیہ غنیۃ الطالبین میں فرماتے ہیں کہ : حضرت امیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ پیغمبر خدا ﷺ دنیا سے باہر نہیں گئے ۔ جب تک میرے ساتھ یہ عہد نہ کر لیا کہ میرے مرنے کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہو گا۔ بعدازاں عمر رضی اللہ عنہ بعد ازاں عثمان رضی اللہ عنہ اور بعد ازاں تو خلیفہ ہوگا۔ 

حضرت امام حسن رضی الله تعالیٰ  عنہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے افضل ہیں۔ 

علماء اہل سنت و جماعت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کوعلم و اجتہاد میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پر فضیلت دیتے ہیں۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بتول کہتے ہیں جو انقطاع میں مبالغہ کا صیغہ ہے اور حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ کتاب غنیۃ الطالبین میں حضرت فاطمہ کو مقدم سمجھتے ہیں، لیکن جو کچھ فقیر کا اعتقاد ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ علم و اجتہاد میں پیش قدم(آگے) ہیں اور حضرت فاطمہ زہد و انقطاع(مخلوق سے علیحدگی) میں بڑھ کر ہیں۔ اسی واسطے حضرت فاطمہ کو بتول کہتے تھے۔ جوانقطاع میں صیغه مبالغہ ہے اور حضرت عائشہ اصحاب کے فتاوے کا مرجع تھیں۔ پیغمبر علیہ الصلوة والسلام کے اصحاب کرام کو جو مشکل علم میں پیش آتی تھی۔ حضرت عائشہ کی خدمت میں اس کا حل طلب کرتے تھے۔ 

وہ لڑائی جھگڑے جو صحابہ کرام کے درمیان واقع ہوئے ہیں، جیسے کہ جمل اورصفین کی  لڑائی جھگڑا۔ ان کو نیک وجہ پرمحمول کرنا چاہیئے اور ہوا تعصب سے دور سمجھنا چاہیئے ، کیونکہ ان بزرگواروں کے نفوس حضرت خیر البشر علیہ الصلوة والسلام کی صحبت میں ہوا و ہوس سے پاک اور حرص و کینہ سے صاف ہو چکے تھے۔ اگر ان میں صلح تھی توحق  کے لیے تھی اور اگر لڑائی جھگڑا تھا تو حق کے لیے تھا۔ ہر ایک گروہ نے اپنے اپنے اجتہاد کے موافق عمل کیا ہے اور مخالف کورنج و تعصب کے بغیر اپنے سے دفع کیا ہے۔ جو اپنے اجتہاد میں مصیب (راستی پر)ہے۔ اس کو دو درجہ بلکہ ایک قول کے موافق دس درجہ کا ثواب ہے اور جومخطی (خطا پر)ہے۔ ایک درجہ ثواب کا اس کو بھی حاصل ہے۔ پس مخطی مصیب کی طرح ملامت سے دور ہے بلکہ در جات ثواب میں سے ایک درجہ ثواب کی امید رکھتا ہے۔ علماء نے فرمایا ہے کہ ان لڑائیوں میں حق بجانب حضرت امیر رضی اللہ عنہ تھے اور مخالفوں کا اجتہاد صواب سے دور تھا۔ مگر طعن کے لائق نہیں ہیں اور ملامت کی گنجائش نہیں۔ چہ جائے کہ ان کوفسق یا کفر کی طرف منسوب کیا جائے۔ حضرت امیر کرم اللہ وہ فرماتے ہیں کہ ہمارے بھائیوں نے ہم پر بغاوت کی۔یہ نہ کافر ہیں نہ فاسق، کیونکہ ان کےنزدیک تاویل ہے جو کفروفسق سے منع کرتی ہے۔ 

حضرت پیغمبر علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا ہے إيَّاكُم وَمَا ‌شَجَرَ ‌بَيْنَ أَصْحَابِي (جو اختلاف میرے اصحاب کے درمیان ہوا ہے تم اس سے بچو ) پس پیغمبر علیہ الصلوة والسلام کے تمام اصحاب کو بزرگ جاننا چاہیئے اور سب کو نیکی سے یاد کرنا چاہیئے اور ان میں سے کسی کےحق میں بدگمان نہ ہونا چاہیئے اور ان کے لڑائی جھگڑوں کو دوسروں کی صلح سے بہتر جاننا چاہیئے ۔ فلاح نجات کا طریق یہی ہے۔ کیونکہ اصحاب کرام کی دوستی پیغمبر علیہ الصلوة والسلام کی دوستی کے باعث ہے۔ کوئی بزرگ فرماتا ہے۔ لَمْ يُؤْمِنْ بِالرَّسُولِ مَنْ لَمْ ‌يوقّر ‌أصحابه (اس شخص کا رسول اللہ ﷺپر ایمان ہی نہیں جس نے آپ کے اصحاب کی عزت نہ کی) 

قیامت کی علامتیں جن کی نسبت مخبر صادق علیہ الصلوة والسلام نے خبر دی ہے سب حق ہیں۔ ان میں کسی قسم کا خلاف نہیں۔یعنی آفتاب عادت کے برخلاف مغرب کی طرف سے طلوع کرے گا۔ حضرت مہدی علیہ الرضوان ظاہر ہوں گے اور حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام نزول فرمائیں گے۔ دجال نکل آئے گا اور یاجوج ماجوج ظاہر ہوں گے۔ دابۃ الارض نکلے گا اور دھواں جو آسمان سے پیدا ہو گا اور تمام لوگوں کو گھیر لے گا اور دردناک عذاب دے گا اور لوگ بیقرار ہو کر کہیں گے اے ہمارے پروردگار۔ اس عذاب سے ہم کو دور کر، ہم ایمان لائے  اور اخیر کی علامت وہ آگ ہے جو عدن سے نکلے گی ۔ بعض نادان گمان کرتے ہیں کہ جس شخص نے اہل ہند میں نے مہدی ہونے کا دعوی کیا تھا وہی مہدی موعودہوا ہے پھر ان کے گمان میں مہدی گزر چکا ہے اور فوت ہوگیا ہے اور اس کی قبر کا پتا دیتے ہیں کہ فرہ میں ہے۔ احادیث   صحیحہ جو حد شہرت بلکہ حد تواتر تک پہنچ چکی ہیں۔ ان لوگوں کی تکذیب کرتی ہیں، کیونکہ آنحضرت ﷺنے جوعلامتیں حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کے لیے فرمائی ہیں۔ ان لوگوں کے معتقد شخص  کے حق میں مفقود ہیں ۔ احادیث نبوی میں آیا ہے کہ مہدی موعود آئیں گے ان کے سر پر ابر ہوگا، اس امر میں ایک فرشتہ ہو گا جو پکار کر کہے گا کہ یہ شخص مہدی ہے اس کی متابعت کرو۔

نیز رسول الله ﷺنے فرمایا ہے کہ تمام زمین  کے مالک چارشخص ہوئے ہیں۔ جن میں دومومن ہیں دوکافر۔ذوالقرنین اور سلیمان مومنوں میں سے ہیں اور نمرود وبخت نصر کافروں میں سے۔ اس زمین  کا پانچواں مالک میری اہل بیت سے ایک شخص ہوگا یعنی مہدی علیہ الرضوان۔ 

نیز رسول الله ﷺ نے فرمایا ہے کہ دنیا فنا نہ ہوگی جب تک الله تعالیٰ  میری اہل بیت میں سے ایک شخص کو مبعوث نہ فرمائیں گے۔ اس کا نام میرے نام کے موافق اور اس کے باپ کا نام میرے باپ کے نام کے موافق ہوگا۔ زمین  کو جور وظلم کے بجائے عدل وانصاف پر کر دے گا۔ 

اور حدیث میں آیا ہے کہ اصحاب کہف حضرت مہدی کے مددگار ہوں گے اور حضرت عیسی ان کے زمانہ میں نزول فرمائیں گے اور دجال کے قتل کرنے میں ان کے ساتھ موافقت کریں گے اور ان کی سلطنت کے زمانہ میں زمانہ کی عادت اور نجومیوں کے حساب کے برخلاف ماہ رمضان کی چودہویں تاریخ کو سورج گرہن اور اول ماه میں چاند گرہن لگے گا۔ نظر انصاف سے دیکھنا چاہیئے کہ یہ علامتیں اس مردہ شخص میں موجود تھیں یا نہیں اور بھی بہت سی علامتیں ہیں جو مخبر صادق علیہ الصلوة والسلام نے فرمائی ہیں۔ شیخ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ نے مہدی منتظر کی علامات میں ایک رسالہ لکھا ہے۔ جس میں دو سو تک علامتیں لکھی ہیں۔ 

بڑی نادانی اور جہالت کی بات ہے کہ مہدی موعود کا حال واضح ہونے کے باوجود لوگ گمراہ ہورہے ہیں ۔ هداهم الله سبحانه إلى السواء الصراط (الله تعالیٰ  ان کو سیدھے راستے کی ہدایت دے)۔ 

پیغمبر علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا ہے کہ بنی اسرائیل اکہتر فرقے ہو گئے تھے ایک کے سوا سب کے سب دوزخ میں ہیں اور عنقریب میری امت کے لوگ تہتر فرقے ہو جائیں گے جن میں سے ایک فرقہ ناجیہ ہے اور باقی سب دوزخ میں پوچھا گیا کہ وہ فرقہ ناجیہ کون ساہے۔ فرمایا کہ فرقہ ناجیہ وہ لوگ ہیں جو اس بات پر ہیں جس  میں میں ہوں اور میرے اصحاب۔ اور وہ ایک فرقہ ناجیہ اہل سنت و جماعت ہیں جنہوں نے آنحضرت ﷺاور اصحاب کرام رضی اللہ تعالیٰ  عنہم کی متابعت کو لازم پکڑا ہے۔ 

اللهم ثبتنا على معتقدات أهل السنة والجماعة و أمتنا في زمرتهم واحشرنا معهم (یا اللہ تو ہم کو اہل سنت و جماعت کے اعتقاد پر ثابت قدم رکھ اور ان کے گروہ میں مار اور انہی کے ساتھ اٹھا َبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ (یااللہ تو ہدایت دے کر ہمارے دلوں کی ٹیڑھانہ کر اور اپنے پاس سے ہم پر رحمت نازل فرما۔ تو بڑا بخشنے والا ہے۔)

عقائد کے درست ہونے کے بعد شرع کے اوامر کا بجالانا اورنواہی سے ہٹ جانا جوعمل سے تعلق رکھتا ہے۔ نہایت ضروری ہے۔پانچ  وقت نماز کو بلافتور تعدیل ارکان اور جماعت کے ساتھ ادا کرنا چاہیئے، کیونکہ کفر اور اسلام کے درمیان فرق نماز ہی کا ہے۔ جب نماز بطریق مسنون ادا ہو جائے اسلام کی مضبوط رسی ہاتھ آ جاتی ہے کیونکہ نماز اسلام کے پنجگانہ اصول میں سے دوسرا اصل ہے۔ پہلا اصل خدا اور رسول پر ایمان لانا ہے، اصل دوم نماز ہے، اصل سوم زکوة کا ادا کرنا، چوتھا اصل ماه رمضان کے روزے، پانچواں اصل بیت اللہ کاحج ہے۔ پہلا اصل ایمان سے تعلق رکھتا ہے باقی چار اعمال سے تعلق رکھتے ہیں۔ تمام عبادتوں کی جامع اور سب سے افضل تر نماز ہے۔ قیامت کے دن پہلے نماز کا حساب ہوگا۔ اگر نماز کا محاسبہ درست ہو گیا تو باقی محاسبے اللہ تعالیٰ  کی عنایت سے آسانی سے گزر جائیں گے جہاں تک ہو سکے۔ شرعی ممنوعات سے بچنا چاہیئے اور حق تعالیٰ  کی نامرضیات کو زہرقاتل سمجھنا چاہیئے اور اپنے قصوروں کو ہر وقت نظر میں رکھنا چاہیئے اور اپنی کارگزاریوں پر نادم اور شرمندہ ہونا چاہیئے اور ندامت و حسرت اٹھانی چاہیئے ۔ بندگی کا طریق یہی ہے۔ والله سبحانه الموفق (اللہ تعالیٰ  توفیق دینے والا ہے)اور جو بے تحاشا اپنے مولی کی نامرضی اور نافرمانی کا مرتکب ہو  اور اس فعل سے اس کو ذرا بھی ندامت و شرمندگی نہ ہو وہ شخص سخت سرکش ہے۔ عجب نہیں کہ یہ اصرار و سرکشی اس کو اسلام سے باہر نکال دے اور دشمنوں میں داخل کر دے۔۔ رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا (یا اللہ تو اپنے پاس سے ہم پر رحمت نازل فرما اور ہمارے کام سے بھلائی ہمارے نصیب کر) وہ دولت جس کے ساتھ حق تعالیٰ  نے آپ کو ممتاز فرمایا ہے اور لوگ اس سے غافل ہیں اور شاید آپ کو بھی یاد ہو یا نہ ہو۔ یہ ہے کہ بادشاہ وقت(جہانگیر) سات پشت سے مسلمان چلا آتا ہے اور اہل سنت و جماعت میں سے ہے اور حنفی مذہب پر ہے۔ چند سال ہوئے ہیں کہ اس زمانہ میں جو قرب قیامت اور عہد نبوت کے بعد کا زمانہ ہے۔ بعض طالب علموں نے اپنی طمع کی کم بختی سے جو باطن کی پلیدی سے پیدا ہوئی ہے امیروں اور بادشاہوں کے ساتھ تقرب حاصل کیا ہے اور خوشامد کر کے  دین متین میں تشکیکات اور اعتراض کیے ہیں اور شبہے نکالے ہیں اور سادہ لوح اور بیوقوفوں کو بہکار ہے ہیں۔ جب ایسا عظیم الشان بادشاہ آپ کی باتوں کو اچھی طرح سن سکتا اور قبول کر سکتا ہے تویہ اسقدر بھاری دولت ہے کہ آپ تصریح یا اشارہ کے طور پر کلمہ  حق یعنی کلمہ اسلام کو جو اہل سنت و جماعت کے معتقدات کے موافق ہو۔ اس کے گوش گزار کر دیں اور جہاں تک گنجائش ہو سکے اہل حق کی باتوں کو پیش کریں۔ بلکہ ہمیشہ امیدوار اورمتظر ر ہیں کہ کوئی ایسا موقع مل جائے، جس میں مذہب و ملت کی نسبت گفتگو شروع ہو جائے ۔ تا کہ اسلام کی حقیقت ظاہر کی جائے اور کفر و کافری کا بطلان کیا جائے ۔ کفر خود ظاہر البطلان ہے۔ کوئی عقلمند اس کو پسند نہیں کرتا۔ بے تحاشا اس کے بطلان کو ظاہر کرنا چاہیئے اور بلاتوقف ان کے جھوٹے خداؤں کی نفی کرنی چاہیئے اور معبود برحق بلاتر دد وشبه آسمان و زمین  کے پیدا کرنے والے کو ثابت کرنا چاہیئے۔ کیا کبھی سنا ہے کہ ان کے سب باطل خداؤں نے ایک مچھر کو بھی پیدا کیا ہو۔ اگر مچھر ان کو ڈنگ مارے یا تکلیف دے۔ اپنے آپ کو بچانہیں سکتے۔ کافر گویا اس امر کی برائی کو ملاحظہ کر کے کہتے ہیں کہ یہ معبودحق تعالیٰ  کے نزدیک ہمارے شفیع ہوں گے اور ہم کو خدا کے نزدیک کر دیں گے۔ ان بے عقلوں نے کہاں سے جانا ہے کہ ان جمادات کو شفاعت کی مجال ہوگی اور حق تعالیٰ  اپنے شریکوں کی شفاعت کو جو درحقیقت اس کے دشمن ہیں، اپنے دشمن بندوں کے حق میں قبول کر لے گا۔ ان کی مثال بعینہ ایسی ہے ہیں کہ باغی بادشاہ پر حملہ کریں اور چند بے وقوف ان باغیوں کی مدد کریں اس خیال فاسد سے کہ تنگ وقت میں یہ باغی بادشاہ کے نزدیک ہماری سفارش  کریں گے اور ان کے ذریعے ہم بادشاہ کا تقرب حاصل کریں گے۔ یہ عجب بے وقوف ہیں کہ باغیوں کی خدمت کریں اور باغیوں کی شفاعت سے بادشاہ سے معافی مانگیں اور اس کا قرب حاصل کریں۔ یہ لوگ سلطان برحق کی کیوں نہیں خدمت کرتے اور باغیوں کو کیوں نہیں شکست دیتے تا کہ اہل حق میں سے ہوں۔ یہ ہے عقل لوگ پتھر کو لے کر اپنے ہاتھ سے تراشتے ہیں اور کئی سال اس کی پرستش کرتے ہیں اور اس سے بڑی بڑی امیدیں طلب کرتے ہیں۔ غرض کافروں کا دین ظاہر البطلان ہے اور مسلمانوں سے جو راہ حق اور طریق مستقیم سے دور جا پڑا ہے۔ وہ اہل ہوا اوربدعتی ہے اور طریق مستقیم نبی ﷺاور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کا طریق ہے۔ 

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ کتاب غنیۃالطالبین میں فرماتے ہیں کہ بدعتیوں کے گروہ جن کے اصول یہ نو گروہ ہیں۔ خوارج، شیعہ، معتزلہ، مرجیہ، مشبہ، جہمیہ ،ضراریہ، نجاریہ ،کلابیہ، آنحضرت ﷺاور حضرت ابوبکر و عمرو عثمان وعلی رضی اللہ عنہم اجمعین کی خلافت کے زمانہ میں نہ تھے۔ یہ گروہ صحابہ اور تابعین اور فقہائے سبعہ رضی اللہ تعالیٰ  عنہم کے انتقال فرمانے سے کئی سال بعد پیدا ہوئے ہیں۔ آنحضرت ﷺنے فرمایا ہے کہ جو کوئی میرے بعد زندہ رہے گا بہت اختلاف دیکھے گا۔ پس تم میری سنت اور خلفاء راشدین کی سنت کو دانتوں کے ساتھ مضبوط پکڑے رکھنا اور نئے نئے امور سے اپنے آپ کو بچانا، کیونکہ ہر ایک بدعت ضلالت ہے اور جو کچھ میرے بعد پیدا ہو گا وہ رد ہے اور سنت سے دور ہے۔ 

پس جو مذہب آنحضرت ﷺاور خلفاء راشدین کے زمانہ کے بعد پیدا ہوا ہے۔ اعتبار اور اعتماد کے لائق نہیں۔ اس دولت عظمی کا شکر بجا لانا چاہیئے کہ کمال فضل و کرم سے ہم کو فرقہ ناجیہ یعنی اہل سنت و جماعت میں داخل فرمایا اور بدعتی اور ہوا پرست فرقوں میں سے نہ بنایا اور ان کے اعتقاد فاسد میں ہم کومبتلا نہ کیا اور ان لوگوں میں سے نہ بنایا جو بندہ کو مولا کی خاص صفات میں شریک بناتے ہیں اور بندے کو اپنے افعال کا خالق جانتے ہیں اور آخرت کے دیدار سے جو دنیا و آخرت کی سعادتوں کا سرمایہ ہے۔ انکار کرتے ہیں اور حق تعالیٰ  سے صفات کاملہ کی نفی کرتے ہیں اور نیز ان دو گروہوں(خوارج و روافض) میں سے نہ بنایا جو حضرت خیر البشر علیہ الصلوة والسلام کے اصحاب کبار کے ساتھ بغض رکھتے ہیں اور ان بزرگان دین پر بدظن ہیں اور ان کو ایک دوسرے کا دشمن تصور کرتے ہیں اور باطنی بغض و کینہ کے ساتھ تہمت لگاتے ہیں۔ 

 حق تعالیٰ  ان بزرگوں کے حق میں رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ (ایک دوسرے پر مہربان ہیں) فرماتا ہے اور یہ دونوں گروہ کلام حق کی تکذیب کرتے ہیں اور ان کے درمیان بغض و کینہ و عداوت ثابت کرتے ہیں ۔ الله تعالیٰ  ان کو توفیق دے تاکہ صراط مستقیم کو دیکھ لیں۔ 

اور اس گروہ میں سے بھی نہ بنایا جوحق تعالیٰ  کے لیے جہت و مکان ثابت کرتے ہیں اور جسم و جسمانی خیال کرتے ہیں اور حدوث و امکان کے نشان واجب قدیم جل شانہ میں ثابت کرتے ہیں۔ 

اب ہم اصل بات کو بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ کو معلوم ہے کہ بادشاہ روح کی مانند ہے اور تمام انسان جسد یعنی جسم کی طرح۔ اگر روح درست ہے تو بدن بھی درست ہے اور اگر روح بگڑ جائے تو بدن بھی بگڑ جاتا ہے۔ پس بادشاہ کی بہتری میں کوشش کرنا گویا تمام بنی آدم کی اصلاح میں کوشش کرتا ہے اور بادشاہ کی اصلاح اس امر میں ہے کہ بلحاظ وقت جس طرح ہو کلمہ اسلام کا اظہار کیا جائے ، کلمہ اسلام کے بعد اہل سنت و جماعت کے معتقدات بھی کبھی کبھی بادشاہ کے کانوں تک پہنچا دینے چاہئیں اور مذہب مخالف کی تردید کرنی چاہیئے ۔ اگر یہ دولت میسر ہو جائے تو گویا انبیا علیہم الصلوۃ والسلام کی وراثت عظمی ہاتھ آ گئی۔ آپ کو یہ دولت مفت حاصل ہے۔ اس کی قدر جاننی چاہیئے ۔ زیادہ کیا مبالغہ کیا جائے۔ حالانکہ جس قدر زیادہ مبالغہ کیا جائے۔ اسی قدر بہتر ہے۔ والله سبحانه الموفق (الله تعالیٰ  توفیق دینے والا ہے)۔ 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ233ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں