ایمان والدین مصطفےٰﷺ.Eman e Walidain Mustafa

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ ﷺقَالَ بُعِثْتُ مِنْ خَیْرِ قُرُوْنِ بَنِیْ آدَمَ قَرْنًا فَقَرْنًا حَتّٰی کُنْتُ مِنَ الْقَرْنِ الَّذِیْ کُنْتُ فِےْہِ (صحیح بخاری : کتاب المناقب باب صفۃ النبی ﷺ۔مسند امام احمد بن حنبل)

حضرت ابو ہریرہ ص سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا میں بنی آدم کے عمدہ اور بہترین طبقوں میں پیدا کیا گیا ہوں ایک زمانے والوں کے بعد دوسرے زمانے والوں سے یہاں تک کہ میں اس زمانے والوں میں پیدا ہوا جس میں ہوں ۔

                اس حدیث میں اس طبقے کی پاگیزگی اور طہارت مراد ہے جس میں نبی مکرم ﷺ پیدا ہوئے اسی لئے قریش بھی آپ کے حسب و نسب کے متعلق متفق تھے کہ یہ ایسا ہے جس طرح ویران زمین میں کجھور کا درخت ہوتا ہے۔ حضرت آدم علی نبینا وعلیہ السلام سے لے کر آپﷺ کے والد محترم حضرت عبداﷲ صتک سب بہترین اور افضل ہیں اور یہ بھی صحیح روایت میں ہے کہ ہمیشہ دنیا میں سات لوگ مسلمان رہے جن کی وجہ سے عذاب نہ آیا جب رسول اﷲ ﷺکے والدین کریمین تھے ا ن سے بہتر کوئی دوسرا ہونا ممکن بھی نہیں تو ان کے ایمان کے متعلق کسی کو شک بھی نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ مشرک تو نص قرآنی سے ثابت ہے کہ ناپاک ہوتے ہیں انما المشرکون نجس(التوبۃ: 28)اور میرے پیارے آ قا ﷺ نے فرمایا:۔لم ازل انقل من اصلاب الطاہرین الی ارحام الطاہرات ( دلائل النبوۃ از علامہ اصفھانی :المطالب العالیہ ازابن حجر العسقلانی)

میں ہمیشہ پاک مردوں کی پشتوں سے پاک بیبیوں کے رحموں میں منتقل ہوتا رہا ۔

کعب بن احبار صنے فرمایا جب اﷲ تعالیٰ نے محمد عربی ﷺ کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایاتو حضرت جبریل امینں کو حکم دیا کہ ایسی مٹی میرے پاس لاؤجو میرے محبوب پاک ﷺکے جسم اطہر کی تخلیق کے لائق ہو تو وہ سفید مٹی کی ایک مٹھی روضہ اطہر والی جگہ سے لے کر بارگاہ خداوندی میں حاضر ہوئے تو اﷲد کے حکم سے اس مٹی کو تسنیم کے پانی سے گوندھا گیا جنت کی نہروں میں دھویا گیاپھر نور نبوت ڈال کر اسے آسمانوں اور زمینوں میں پھرایا گیا تب ملائکہ نے مصطفےٰﷺاور ان کے شرف و فضل کو پہچانا۔

 (کتاب الوفاازعلامہ ابن جوزی:دوسرا باب صفحہ نمبر 49 ۔تفسیرھمیان الزاد از سحنون بن عثمان الاباضی۔اور المدخل میں علامہ العبدری)

والدین مصطفےٰﷺ کے متعلق علمائے اہلسنت کا حکم یہ ہے کہ وہ ناجی ہیں اور دوزخی نہیں ہیں ۔

                 اس بارے میں علمائے اہل سنت کے تین مسالک ہیں سب سے پہلے مسلک کا خیال ہے کہ ابوین کریمین بعثت سے پہلے فوت ہو گئے اور اس پر عذاب نہیں ہے اور اہل کلام اور علمائے اصول کا یہ قول ہے من مات ولم تبلغہ الدعوۃ یموت ناجیا لا عقاب علیہ ولا ثواب لہ (جو شخص فوت ہو جائے اور اس تک کسی پیغمبر کی دعوت نہ پہنچی ہو وہ نجات یافتہ ہے نہ اسے ثواب ہے اور نہ کوئی عذاب ) اس ارشاد باری تعالیٰ کے مطابق کہ ہم جب تک رسول نہ بھیجیں کسی کو عذاب نہیں دیتے(وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِےْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلاً۔بنی اسرآئیل:15 )

                شیخ الاسلام شرف الدین المناوی سے کسی نے سوال کیا کیا رسول اﷲﷺ کے والدین دوزخ میں ہیں توآپ نے اسے بہت سخت جھڑک دی اور فرمایاکیا ان کا اسلام ثابت ہے ؟پھر فرمایا وہ زمانہ فترۃ(حضرت عیسیٰ ں اور نبی کریمﷺ کا درمیانی زمانہ الفترۃ سے مراد ایک نبی کے وصال سے لے کر دوسرے نبی کے ظہور تک کا درمیانی عرصہ ہے )میں تھے انہیں بعثت سے پہلے عذاب نہیں جبکہ آپ ﷺکی والدہ اور والد کو اسلام کی دعوت ہی نہیں پہنچی تو ان دونوں کا گناہ کیا ہے ؟اور فرمایا ہم امید کرتے ہیں کہ عبد المطلب اور ان کی ساری اولادنجات والی ہے سوائے ابو طالب کے کہ انہیں دعوت پہنچی اور ایمان نہ لائے اور ان کا عذاب بھی ثابت ہے ۔

                یہ بات کہ آپ ﷺ کے چچا ابو طالب کو باوجود کافر ہونے کے عذاب میں تخفیف ہوئی ہے اور صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ سب سے ہلکا عذاب ابوطالب کو ہے لہذا اس سے یہ بھی ثابت ہو اکہ والدین کریمین جہنم میں نہیں جن کودعوت اسلام ہی نہ ملی اور نہ زمانہ اسلام پایا۔

                دوسرا مسلک کہتا ہے کہ والدین کریمین سے شرک ثابت ہی نہیں بلکہ وہ دین حنیف اپنے جد امجد حضرت ابراہیمں کے دین پر تھے جس طرح اس وقت عرب کا ایک گروہ اس پر کاربند تھا جیسے زید بن عمرو بن نفیل اور ورقہ بن نوفل اورحضرت ابوبکر الصدیق صوغیرہم۔ امام الاشاعرہ الشیخ ابو الحسن الاشعری فرماتے تھے

ان ابابکر الصدیق کان مؤمنا قبل البعثۃ حضرت ابوبکر الصدیقص بعثت سے پہلے بھی مومن تھے اسی طرح آپ ﷺ کے والدین کریمین کی حالت کفر بھی ثابت نہیں ۔

                 اس مسلک کے قائل امام فخر الدین الرازی فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کے سارے آباؤاجداد اسی حکم میں آتے ہیں ۔

ایک احادیث مبارکہ میں آیا ہے کہ قیامت کے دن اہل فترت کے سامنے اسلام پیش کیا جائیگا جس نے اسے قبول کیاوہ جنت میں داخل ہو گا جس نے نافرمانی کی دوزخ میں ہوگا۔ مسند احمد بن حنبل اور مسند اسحاق بن راہویہ نے اس میں چار لوگوں کا ذکر کیا جنہیں اسلام پیش کیا جائیگا (1) بہرا (2)پاگل(3) بہت بوڑھا (4) زمانہ فترت میں پیدا ہونے والا.

اس موضوع سے متعلق سات احادیث امام سیوطیؒ نے اپنی کتاب ’’مسالک الحنفاء فی والدی المصطفےﷺ‘‘میں لکھیں جن محدثین نے اپنی کتب میں ذکر کیں ان کے نام یہ ہیں ۔

ابن مردویہ، امام بیہقی ،مسند البزار،مسند ابو یعلی،عبد الرزاق،ابن جریر،ابن المنذر ،ابن ابی الحاتم ،امام حاکم،امام الطبرانی اور امام ابو نعیم الاصفہانی رحمۃ اﷲ علیھم اجمعین۔

امام ابن حجر العسقلانیؒ فرماتے ہیں الظن بآل بیتہ کلھم ان یطیعواعند الامتحاناور گمان یہ ہے کہ اہل بیت تما م اس امتحان کے وقت اطاعت کریں گے(کامیاب ہوں گے)

                تیسرا مسلک کہتا ہے اﷲ تعالیٰ نے رحمت عالم ﷺ کے والدین کریمین کو زندہ فرمایاوہ آپﷺ پر ایمان لائے یہ آپ ﷺکا معجزہ ہے اور آپ ﷺ کے والدین کریمین کی خصوصیت ہے کہ انہیں مرنے کے بعد ایمان نے نفع دیا کیونکہ وہ زمانہ فترت میں تھے اس پر علمائے کرام نے تصنیف فرمائیں اور اکثر حفاظ المحدثین اسی مسلک پر ہیں جیسے ابن شاہین ،حافظ ابوبکر البغدادی السھیلی امام القرطبی اورامام الطبری وغیرھم۔ اﷲانہیں جزائے خیر عطا فرمائے۔

                ان کا استدلال یہ حدیث ہے جسے ابن شاہین نے خطیب بغدادی ،الدارقطنی اور ابن عساکر نے حضرت عائشۃ رضی اﷲ تعالیٰ عنھا سے روایت کیا کہ

                حج بنا رسول اﷲ حجۃالوداع فمر بی علی عقبۃ الحجون وھو باک حزین مغتم فنزل فمکث عنی طویلا ثم عاد الی وھو فرح متبسم فقلت لہ فقال ذھبت لقبر أمی فسألت اﷲ أن یحیھا فأحیاھا فآمنت بی وردھا اﷲ۔

( الروض الانف از امام السھیلیؒ فی ذکر شق الصدرجلد اول صفحہ296:سبل الھدی والرشاد شمس الدین الصالحی الشامی:جلد دوم صفحہ:122 : تفسیر روح البیان سورۃ البقرہ ذیل آیت نمبر119 از علامہ اسماعیل حقی: فتاویٰ الرملی جلد 6)

                 ہم رسول اﷲﷺ کے ساتھ تھے حجۃ الوداع کے موقع پر جب ہم عقبۃ الحجون کے مقام سے گذرے تو رسول اﷲﷺ بڑے غمگین اور رو رہے تھے وہاں پر ہم کافی دیرٹھہرے پھر جب آپ ﷺ واپس تشریف لائے تو بڑے خوش اور تبسم فرما رہے تھے ہم نے وجہ پوچھی تو فرمایا میں اپنی امی کی قبر اطہر پر گیا اﷲ تعالیٰ سے سوال کیا کہ انہیں زندہ فرما دے پس اﷲ نے انہیں زندہ فرمایا وہ مجھ پر ایمان لائیں اور اﷲ کے پاس واپس ہو گئیں ۔ اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں آپ ﷺکے والدین کا ذکر ہے

عن عائشۃ ان رسولﷺسأل ربہ أن یحیی أبویہ فأحیاھما لہ ثم آمنا بہ ثم أماتھما(شرح الجوھرۃ التوحید:شیخ ابراھیم الباجوری )

                 علامہ قرطبیؒ فرماتے ہیں اس حدیث اور اس حدیث میں کوئی تعارض نہیں جس میں آپ ﷺکو استغفار سے منع فرمایا گیا کیونکہ یہ بات حجۃ الوداع کے موقع پر ہے لہذا یہ حدیث اس کی ناسخ ہے اور امام قرطبی ؒفضائل النبی ﷺمیں فرماتے ہیں’’آپ ﷺ کے والدین کے زندہ ہونے اور ایمان لانے میں کوئی عقلی اور شرعی رکاوٹ نہیں کیونکہ قرآن میں بنی اسرائیل کے مقتول اور قاتل کا ذکر موجود ہے اور یہ بھی ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰں مردوں کو زندہ کرتے تھے ‘‘

                 علامہ ابن المنیر المالکی ’’المقتفی فی شرف المصطفے ﷺٰ‘‘ میں فرماتے ہیں :۔

                ’’اس موقع پر ہمارے نبی ﷺ سے مردوں کے زندہ کرنے کا معجزہ صادر ہو جس طرح حضرت عیسیٰ ں سے ہوا۔

 لما منع من الاستغفارللکفار دعا اﷲ أن یحیی لہ أبویہ فأحیاھما لہ فامنا بہ وصدقاہ وماتا مؤمنین

جب کفار کیلئے استغفار کی ممانعت ہوئی تو نبی کریمﷺ نے اﷲ سے دعا کی کہ میرے والدین کو زندہ فرما وہ دونوں زندہ ہوئے آپﷺ پر ایمان لائے آپ ﷺ کی تصدیق کی اور پھر دونوں ایمان کی حالت میں فوت ہوئے ‘‘

اما م جلا ل الدین السیوطیؒ’’ سبل النجاۃ‘‘میں فرماتے ہیں ۔

                ’’ان اﷲ تعالیٰ أحیاھما حتی آمنا بہ بے شک اﷲ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کے ابوین کریمین کو زندہ فرمایا یہاں تک کہ وہ آپ ﷺ پر ایمان لائے ‘‘۔

اعلیٰ حضرت عظیم البرکت الشاہ احمد رضا خانؒ ’’فتاویٰ رضویہ‘‘ میں فرماتے ہیں۔

’’ہم یہ نہیں کہتے کہ والدین کریمین رسول اﷲﷺ کو کفر کے بعد ایمان کیلئے زندہ کیا گیا بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ توحید پر انتقال فرمانے کے بعد محمدﷺ پر اور آ پﷺ کے دین اکرم کی تفاصیل پر ایمان کی دولت سے مشرف فرمانے کیلئے زندہ کیا گیا ‘‘

اور فرمایامیرا مسلک اس باب میں یہ ہے :۔

ومن مذھبی حب الدیار لاھلھا وللناس فیما یعشقون مذاھب

میرا مذہب تو شہر والوں کی وجہ سے شہر سے محبت کرنا ہے اور لوگوں کیلئے ان کی پسندیدہ چیزوں میں مختلف طریقے ہیں۔

اور شاعر نمیری السلوی نے کیا خوب کہا

وان ابن طلاع روی انّ احمدا رای ٰٔأبویہ بعد ذوق المنیۃ

فأحیاھما رب العباد فآمنا بہ ثم عاد ا مکرمین لتربۃ

والدین کریمین کو موت کے بعد زندگی عطا کی گئی اور اسلام کی عظمتیں سمیٹنے کے بعد باعزت واپس لوٹ گئے ۔

ملا علی قاری ؒفرماتے ہیں۔

ام النبی آمنہ من حر نار الاخرۃ أحیاھا بعد موتھا فأمنت فی الاخرۃ

رسول اﷲا کی والدہ حضرت آمنہ نے آخرت کی آگ سے آزادی حاصل کر لی موت کے بعد زندہ کی گئیں اور آخرت میں امن یافتہ ہو گئیں۔

 مندرجہ ذیل احادیث بھی اسی عنوان کی تائید کرتی ہیں

کل نسب وسبب منقطع یوم القیمۃ الا نسبی وسببی (مستدرک حاکم:کتاب معرفۃ الصحابۃ)

کل نسب وصھر منقطع یوم القیمۃ الا نسبی وصھر(المعجم الاوسط للطبرانی:باب العین)

قیامت کے دن صرف آپ ﷺ کا نسب اور سسرالی رشتہ باقی رہے گا اور ہر نسب اور سبب ٹوٹ جائیگا۔

                اگر ایمان نہ ثابت ہو تو طہارت نسب نہیں ہوتا جو نبوت و رسالت کا لازمی خاصہ ہے کہ آپ ﷺہر عیب اور نقصان سے پاک ہیں ۔

مالکیہ کے اما م قاضی ابوبکر ابن العربی سے کسی نے کہا فلاں شخص کا کہنا ہے کہ رسول اﷲﷺ کے آباء جہنمی ہیں تو آپ نے جواب دیا ایسا شخص لعنتی ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے:۔ (ان الذین یؤذون اﷲ و رسولہ لعنھم اﷲ فی الدنیا والاخرۃ) اور اس سے بڑی تکلیف اور کونسی ہو سکتی ہے کہ سرکار ابد قرارﷺ کو یہ کہا جائے کہ آپﷺ کے والدین جہنمی ہیں (مواہب الجلیل فی شرح المختصرالشیخ الخلیل)

اورکنزالعمال میں ہے لا تؤذواالاحیاء بشتم الاموات [مردوں کو برا کہہ کر زندوں کو ایذاء مت دیا کرو]

 اس طرح کی احادیث ابو جہل اور ابو لہب کے ضمن میں آئیں جن کے ایمان نہ لانے میں کسی قسم کا شک ہی نہیں۔

                 بعض نے مرنے کے بعد ایمان کو فائدہ مند نہیں بتایا لیکن یہ خصوصیت بھی نبی کریم ﷺکو حاصل ہے کہ سورج ڈوبا بھی آپ ﷺنے پلٹایااسی طرح والدین کو مرنے کے بعد زندہ کیا اور مسلمان کیا ۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؓ سے کسی نے کہا کہ رسول اﷲﷺ کے والدین بھی کافر تھے تو آپ سخت غصہ میں آگئے اور اس عامل کو معزول کر دیا(فیض القدیر:ذیل حدیث نمبر9722)

                علامہ آلوسی ؒاپنی تفسیر’’ روح المعانی ‘‘میں آیت وتقلبک فی الساجدین کی تفسیر میں فرمایا جو شخص ان روایات واحادیث سے واقف ہونے کے باوجودجن میں سرور انبیاء ﷺنے اپنے آباؤاجداد کی طہارت اور نکاح اسلام سے پیدا ہونے کی وضاحت فرمائی ہے پھر بھی والدین کریمین کے کفر کا قائل ہو تو اس کے کافر ہونے کا اندیشہ ہے ۔

شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ نے ’’اشعۃ اللمعات ‘‘میں ایک حدیث کے تحت آپﷺکے والدین کریمین سمیت تمام سلسلہ آباؤاجداد کا ایمان ثابت فرمایا ہے ۔

جب والدین کریمین نے زمانہ نبوت پایا ہی نہیں تو انہیں کافر کیسے کہا جائے گا انکار الوہیت توکہیں ثابت نہیں ( کسی جگہ پر یہ نہیں کہ وہ توحید کے منکر تھے) عبد اﷲ نام ہی اس دعویٰ کو باطل کرنے کیلئے کافی ہے دوسرا شبہ کہ روایات ضعیف ہیں تو اس کا ازالہ محدثین نے یہ فرمایاکہ روایات ضعیف جب کئی طریقوں سے مروی اور منقول ہوں توتو درجہ صحت اور حسن تک پہنچ جاتی ہیں۔

                اس موضوع پر محدثین اور علمائے کرام نے کافی مواد جمع کیا جن میں سے چند کتابوں کے نام بطور حوالہ لکھ رہا ہوں

                (1)امام جلا ل الدین السیوطی نے اس موضوع پر 6کتابیں تحریر فرمائیں(1)مسالک الحنفاء فی والدی المصطفےٰﷺ(2)سبل النجاۃ فی والدی النبیﷺ(3) المقامۃ السندیسیۃ فی أبوی النبی علیہ الصلاۃ والسلام(4)الفوائد الکامنۃ فی ایمان السیدۃ آمنۃ(5) التعظیم والمنۃ فی ان ابوی النبی ﷺ فی الجنۃ (6)الثغور الباسمۃ فی مناقب السیدہ آمنۃ

                (2)زین الدین محمدشاہ بن محمدالمعروف بزینی جلبی الفناری اور اسی نام سے علامہ الشماخی نے ’’رسالہ فی ابوی النبی ﷺ‘‘تحریر کیا

                (3)الشیخ نور الدین علی بن الجزار المصری نے ’’تحقیق آمال الراجین فی ان والدی المصطفےﷺبفضل اﷲ تعالیٰ فی الدارین من الخالدین‘‘ لکھی

                (4)ابو العباس احمد بن عمر الدیربی نے ’’القول المختار فیما یتعلق بأبوی النبی المختار ‘‘ تحریر کی

                (5)ابو الفیض مرتضیٰ الزبیدی صاحب تاج العروس نے ’’حدیقۃ الصفا فی والدی المصطفیٰﷺ‘‘ لکھی

                (6)علامہ سجاقلی زادہ نے ’’رسالۃ فی الایات المتشابھان شرح السرور والفرح فی ابوی النبی ﷺ‘‘

                (7)ابن الملاء نے ’’رسالۃ فی اسلام والدی النبی ﷺ‘‘

                (8)احمد بن عمر الدیربی نے ’’تحفۃ الصفا فیما یتعلق بابوی المصطفےﷺٰ‘‘

                (9)داؤد بن سلیمان البغدادی نے’’رسالہ فی اسلام أبوی المصطفےٰﷺ‘‘

                (10)علامہ وحدی الرومی نے’’ مرشدالھدی فی نجاۃ أبوی النبی ‘‘

                (11)علامہ الزبیدی نے ’’الانتصار لوالدی النبی المختار ‘‘

                رسول اﷲﷺ کے ابوین کریمین کے ایمان نہ لانے پر کوئی صحیح یا صریح حدیث موجود نہیں۔ (اعلیٰ حضرت )


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں