ایک معاملہ کےحل اور واقعہ کی تعبیر میں خواجہ جمال الدین حسین کی طرف صادر فرمایا ہے: ۔
حمد وصلوۃاورتبلیغ ودعوات کے بعد میرے فرزند عزیز کو واضح ہو کرصحیفہ شریفہ جوارسال کیا تھا پہنچا ظاہری و باطنی عافیت و جمعیت کا حال پڑھ کر بہت خوشی ہوئی ۔ تم نے ایک واقعہ(کشف) ظاہر شدہ ہوا لکھا تھا جس کی تعبیر طلب کی تھی۔ ( کہ میں وضو کرنے کے درپے تھا کہ یکدم بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ گویا جان بدن سے نکل گئی جب افاقہ ہوا میں نے ایک نور دیکھا جو آفتاب کی طرح چمکتا تھا جس نے نہایت لطافت سے مجھے بے ہوش کر دیا تھا جس طرح کوئی شخص اپنے محبوب کو دیکھتا ہے اور اس کے جمال کے پرتو میں محو ہو کر اس کا نام ونشان باقی نہیں رہتا۔) میرے فرزند کو واضح ہو کہ انسان سات لطائف مشہورہ سے مرکب ہے ہرلطیفہ کا کاروبار الگ ہے اور اس کے احوال ومواجید بھی جدا ہیں اب تک اس میرے فرزند کے احوال و اذواق لطیفہ قلب سے تعلق رکھتے تھے اور قلب کےتلوینات سے متلون تھے۔ اب یہ وارد قوی جس نے بے شعور کیا تھا لطیفہ روح پر اتر آیا ہے اور روح کو اپنے تصرف میں لایا ہے۔ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَهْلِهَا أَذِلَّةً (جب بادشاہ کسی گاؤں میں داخل ہو جاتے ہیں تو اس میں فساد برپا کر دیتے ہیں اور اس کے رئیسوں کو ذلیل کر دیتے ہیں) چونکہ دانش و شعور کا منشاء روح ہے اس لیے وارد سے مغلوب ہو کر بے ہوشی طاری ہوگئی ہے اب تمہارا کاروبار لطیفہ روح کے متعلق ہے۔ آج کے حلقہ میں اس نسبت کی تکمیل کیلئے تھوڑی سی امداد و اعانت بھی وقوع میں آئی یہ اور اس کے اثر کا ظہور بھی مشہود ہوا ہے اور معلوم ہوا ہے کہ اس نے وسعت پیدا کی ہے اور اثرو سرایت کرنے کے در پے ہے۔ حق تعالیٰ اس کو انجام تک پہنچائے ۔ دوسرا واقعہ جو لکھا تھا کہ پروین اوربنات النعش(ستاروں کے نام) کی ملا قات اپنی منزل میں معلوم کی ہے۔ اس کی تعبیری واقعہ اول کی تعبیر کے مناسب ہے کیونکہ نسبت قلبی ونسبت روحی کا جمع ہونا ان دونوں قسم کے ستاروں کی ملاقات میں ظاہر ہوا ہے۔ پروین میں چونکہ ستاروں کا انتظام اور اجتماع ہے اس لیے قلب کے مناسب ہے اور نبات النعش میں چونکہ ستارے پراگندہ ہیں اس لیے روح کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے۔ دوسرا واقعہ اگر پہلے واقعہ کے بعد ظاہر ہوا ہے تو درست ہے۔ اس میں دونوں نسبتوں کے حصول کو جمع کیا ہے اور اگر پہلے ہے تو بھی درست ہے کیونکہ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ نسبت حاصل ہوتی ہے لیکن ظاہر نہیں ہوتی لیکن اس کے حصول کو دکھایا ہے اور بعدازاں دوسرے واقعہ میں ظاہر کیا ہے۔ وَاللهُ سُبْحَانَهٗ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ ( اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے) سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا توپاک ہے ہمیں کوئی علم نہیں مگر جس قدر تونے ہم کو سکھایا ) والسلام۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ239ناشر ادارہ مجددیہ کراچی