بہترین پھل چننے کی کوشش کر

حضرت شیخ المشائخ، قطب ربانی، غوث صمدانی ، محبوب سبحانی، سیدنا عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے تصوف و طریقت پر مشتمل کتاب” آداب السلوک والتواصل الی منازل الملوک“ میں فرمایا :

یوں سمجھئیے کہ نیکی اور برائی دوپھل ہیں جو ایک ہی درخت کی دو مختلف شاخوں پر لگے ہیں ایک شاخ کا پھل میٹھاجب کہ دوسری کا پھل ترش اور کڑواہے۔ جہاں جہاں اس درخت کا پھل لے جایا جاتا ہے ان شہروں، ملکوں اور علاقوں سے کہیں اور چلا جا۔ ان سے ان میں رہنے والے لوگوں سے دور چلا جا۔ خود اس درخت کے نزدیک جا۔ اس درخت کا نگہبان اور خادم بن جا۔ تواسے نزدیک سے دیکھ اور پہچان کہ دو ٹہنیوں میں سے کونسی ٹہنی ترش پھل دیتی ہے۔ کس سمت کا پھل ترش ہے اور وہ کونسا پھل ہے جو کڑوا ہے۔ اس کی پہچان کیا ہے شیریں پھل والی شاخ کی طرف مائل ہو جا، تیری خوراک اور غذاشیریں اور میٹھا پھل ہو گا دوسری طرف والی شاخ کے قریب جانے سے اجتناب کر۔ کیونکہ اگر تو اس شاخ کا پھل کھائے گا تو اس کی ترشی تجھے ہلاک کر دے گی۔ پس اگر تو اس احتیاط سے اور ہوشیاری سے زندگی گزارے گا تو تمام آفات و بلیات سے امن و سلامتی اور عافیت وراحت سے رہے گا۔ کیونکہ تمام آفات و بلیات اس ترش پھل سے پیدا ہوتی ہیں۔ 

اور جب تو اس درخت سے دور ہو گا۔ اور آفاق میں گھومتے پھرتے تیرے سامنے یہ پھل آئیں گے جبکہ ان میں میٹھے بھی ہو گئے اور ترش بھی ہو سکتا ہے تو ترش پھل اٹھالے۔ اسے منہ کے قریب لے جائے۔ تھوڑا سا کھائے۔ اسے چبائے تو پھر تجھے معلوم ہو کہ یہ توترش ہے۔ مگر اب تو اس کی ترشی تیرے گلے تک پہنچ چکی۔ تیرے حلق اور دماغ اور ناک کے بانسے میں بھی اس کا اثر ظاہر ہو چکا۔ اس میوہ ترش نے تیرے اندر اپنا کام کر دکھایا۔ یہ تو تیری رگوں تک اور جسم کے روئیں روئیں تک پہنچ چکا۔ اب اگر تو تھوکے گا۔ منہ دھوۓ گا بھی تو کیا فائدہ جو حلق میں یا جسم میں ترشی پہنچ چکی ہے اسے کسی صورت واپس نہیں لایا جاسکتا۔ 

اگر تیرے ہاتھ میں اتفاقامیٹھا پھل آگیا۔ تونے اسے بڑے شوق سے کھالیا۔ اس کی حلاوت تیرے جسم کے ایک ایک حصے میں سرایت کر گئ تجھے اس سے بہت فائدہ ہوا تو بھی اتنا کافی نہیں یہ نہ سوچ کہ ہمیشہ تیرے ہاتھ میں میٹھا پھل آئے گا۔ کبھی ترش پھل بھی آسکتا ہے اگر تو نے اسے کھا لیا تو تیرے ساتھ وہی ہو گا جس کا ابھی ابھی میں نے ذکر کیا ہے۔ درخت سے دوری اور اس کے پھل سے لا علمی میں کوئی فائدہ نہیں۔ سلامتی اس کے قرب اور ساتھ رہنے میں ہے۔ ( پہچان ضروری ہے)

خیر وشر دونوں اللہ عزوجل کا فعل ہے۔ دونوں کا فاعل اور جاری کرنے والا اللہ ہے۔ رب قدوس فرماتا ہے۔ 

وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ حالانکہ اللہ نے تمہیں بھی پیدا کی اور جو کچھ تم کرتے ہو“ 

نبی کریمﷺ   کا ارشاد ہے۔ 

والله خلق الجازروجزوره . . ”اللہ تعالی نے قصاب اور اس کے ذبح شدہ جانور کو پیدا فرمایا 

بندوں کے اعمال اللہ تعالی کے پیدا کردہ ہیں ہاں انسان انہیں کسب کرتے ہیں۔ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ 

ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ داخل ہو جاؤ جنت میں ان نیک اعمال کے باعث جو تم کیا کرتے تھے ۔

اللہ پاک کتنا کریم اور کتنا رحیم ہے کہ اعمال کی نسبت اپنےبندوں کی طرف فرمارہا ہے اور اعمال صالحہ کی وجہ سے انہیں جنت کا مستحق قرار دے دیا ہے حالانکہ یہ نیک اعمال اس کی توفیق اور رحمت کے رہین ہیں۔ 

اور نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے۔ 

مَا مِنْ أَحَدٍ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ بِعَمَلِهِ “کوئی شخص اپنے عمل کی بدولت جنت میں نہیں جا سکے گا“

 عرض کیا گیا۔ یا رسول الله! آپ بھی نہیں ؟ فرمایا : 

وَلا أَنَا إِلا أَنْ يَتَغَمَّدَنِي اللَّهُ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ ” وَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى رَأْسِهِ میں بھی نہیں۔ ہاں یہ کہ مجھے اللہ اپنی رحمت سے ڈھانپ لے۔ آپ نے اپنا دست مبارک اپنے سر مبارک پررکھا“ 

یہ الفاظ حدیث عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا میں مروی ہیں۔ جب تو اللہ 

تعالی کا فرمانبردار بن جائے گا اس کے حکم پر عمل پیرا ہو گا، اس کی مناہی سے رک جائے گا اور اس کی فیصلے کے سامنے سر جھکا دے گا تو تجھے اپنے شر سے بچائے گا اور اپنی بھلائی سے سرفراز کرے گا اور دنیا اور دین کی خرابیوں سے خود تیری نگہداشت فرمائے گا۔  

دنیاوی حفاظت کے بارے فرمایا : 

كَذَلِكَ ‌لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ

یوں ہوا تا کہ ہم دور کر دیں یوسف سے برائی اور بے حیائی کو بیشک وہ ہمارے ان بندوں میں سے تھاجو چن لیے گئے ہیں ۔

دینی حفاظت کے بارے ارشاد ہوا: ۔

 مَا يَفْعَلُ اللَّهُ بِعَذَابِكُمْ إِنْ شَكَرْتُمْ وَآمَنْتُمْۚ وَكَانَ اللَّهُ شَاكِرًا عَلِيمًا کیا کرے گا اللہ تعالی تمہیں عذاب دیکر اگر تم شکر کرنے لگو اور ایمان لے آؤ اور اللہ تعالی بڑاقدر دان ہے سب کچھ جاننے والاہے” 

شکر کرنے والے مومن کو مصیبت کوئی نقصان نہیں دیتی۔ وہ مصیبت کی نسبت عافیت کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ شاکر ہے اور اس کے بارے اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ 

لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ اگر تم پہلے احسانات پر شکر ادا کرو تومیں مزید اضافہ کر دوں گا“ 

تیر ایمان آخرت میں جہنم کی آگ کے شعلوں کو بجھا سکتا ہے جو عاصیوں کو 

سزادینے کے لیے تیار کی گئی ہے تودنیامیں مصیبت کی آگ کو کیوں نہیں بجھاسکتا 

ہاں اگر کوئی مجذوب، مختار ولایت، یا اصفیاء اور اجتباء کے مرتبہ پر فائز ہے تو اس کے لیے ابتلاء و آزمائش ضروری ہے تا کہ یہ ابتلاء و آزمائش اس کی خواہشات، میلان طبع، نفانی شہوات و لذات کی طرف جھکاؤ مخلوق سے اطمینان ، ان کے قرب سے خوشی ہم جنسوں سے سکون، ان کے ساتھ رہنے کی تمناور اس جیسے دوسرے علائق دنیا کے خبث کو جلادے۔ اور ان بندگان خدا کو اس وقت تک ابتلاء و آزمائش کی بھٹی میں رکھا جاتا ہے جب تک یہ سب چیزیں جل کر خاکستر نہیں ہو جاتیں ۔ اور دل ان تمام سے کندن کی طرح صاف و شفاف نہیں ہو جاتا۔ جب دل ہر قسم کے غش و غل سے پاک ہو جاتا ہے تو توحید باری تعالی کا مخزن معرفت حق کامہبط اورغیبی اسرار و علوم اور انوار قرب کا موردبن جاتا ہے۔ کیونکہ دل وہ گھر ہے جس میں دونہیں سما سکتے۔ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ 

مَا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ نہیں بنائے اللہ تعالی نے ایک آدمی کیلئے دو دل اس کے شکم میں“ 

إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَهْلِهَا أَذِلَّةً اس میں شک نہیں کہ بادشاہ جب داخل ہوتے ہیں کسی بستی میں تو اسے برباد کر دیتے ہیں اور بنادیتے ہیں وہاں کے معزز شہریوں کوذلیل“ 

پس بادشاہ معزز شہریوں کو ان کی خوشگوار منازل اور عیش و عشرت کی زندگی چھوڑنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ 

دل پر شیطان، حرص وہوا  اور نفس کی حکومت ہے۔ جوارح انہیں کے حکم سے طرح طرح کے گناہوں، اباطیل و ترهات میں مبتلا ہیں۔ پس ابتلاء و آزمائش سے دل پر ان کی ولایت اور حکومت ختم ہو جاتی ہے۔ جوارح گناہوں سے رک جاتے ہیں اور بادشاہ حقیقی کا گھریعنی دل خالی ہو جاتا ہے اور اس گھر کا صحن یعنی سینہ ہر قسم کی غلاظت سے صاف ہو جاتا ہے۔ 

دل صاف ہوتا ہے تو توحید اور علم و معرفت کا مسکن بن جاتا ہے اور سینہ صاف ہوتا ہے تو میں غیبی عجائب اور موارداسے اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں۔ 

یہ سب ابتلا و مصیبت کا نتیجہ اور ثمرہ ہے۔ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا: 

نَحن ‌معاشر ‌الْأَنْبِيَاء أَشد النَّاس بلَاء ثمَّ ‌الأمثل فالأمثل ہم گروہ انبیاء لوگوں میں سب سے زیادہ آزمائے جاتے ہیں پھر دوسرے لوگ درجہ بدرجہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے۔

 أَنَا أَعْرَفُكُمْ باللَّه، وَأَخْوَفُكُمْ مِنْهُمیں تم سب سے زیادہ اللہ تعالی کی معرفت رکھتا ہوں اور تم سب کی نسبت اس سے زیادہ ڈرتا ہوں“ ۔ 

جو شخص بادشاہ کے جتنا قریب ہو گا اتناہی اس سے خطرہ محسوس کرے گا اور احتیاط برتے گا۔ کیونکہ وہ ایسی جگہ پر ہے جہاں بادشاہ ہر وقت اسے دیکھتا ہے۔ اس کی حرکات و سکنات اور اٹھنا بیٹھنا اور دوسرے کام بادشاہ سے پوشیدہ نہیں۔ 

اگر تو یہ کہے کہ تمام انسان اللہ تعالی کے سامنےشخص واحد کی مانند ہیں۔ ان کی کوئی حرکت اللہ سے پوشیدہ نہیں لہذا اس گفتگو سے فائدہ ؟ تو میں کہوں گا۔ یہ گفتگو اس شخص کے متعلق کی جارہی ہے جو بلند مرتبے پر فائز ہے۔ جسے اللہ تعالی کی بارگاہ میں بڑی قدرو منزلت اور شرافت حاصل ہے۔ ایسےشخص کو واقعی زیادہ ڈرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اللہ تعالی نے جتنی بڑی نعمتوں سے اسے نوازا ہے اور جتنا زیادہ اس پر فضل و احسان فرمایا ہے اسی قدر اس پر شکر واجب ہے۔ اللہ تعالی کی عبادت سے ذرا سا التفات شکر میں کمی کا باعث اور اللہ کی اطاعت میں نقصان ہو گا۔ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ 

يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ مَنْ يَأْتِ مِنْكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ يُضَاعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَيْنِ ۔ اے نبی کریم کی بیویو! جس کسی نے تم میں سے کھلی بیہودگی کی تو اس کے لیے عذاب کو دوچند کر دیا جاۓ گا ۔

‘‘ نبی کریم ﷺکی ازواج مطہرات کو یہ وعید اس لیےسنائی گئی کہ اللہ تعالی نے نبی کریم ﷺکی زوجیت کا شرف عطا فرما کر ان پر اپنی نعمت تمام کر دی۔ بھلا وہ جسے اللہ کا قرب اور وصال کی نعمت میسر ہے اسے کیوں نہیں آزمایا جائے گا۔ اللہ تعالی مخلوق سے مشابہت نہیں رکھتا۔ وہ اس سے بلند و بالا ہے کہ مخلوق سے اس کو تشبیہ دی جائے۔ اس جیسی کوئی چیز نہیں۔ وہ سب کچھ سننے والا سب کچھ دیکھنے والا ہے۔

آداب السلوک شیخ عبد القادر الجیلانی صفحہ 101 ،مکتبہ دارالسنابل دمشق شام


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں