تجرید
، تصوف کی اصطلاح کا مطلب ہے تعلقات منقطع کرنا اور دنیاوی لذتوں کو ظاہری طور پر چھوڑ دینا اور کسی بھی دنیاوی خواہشات کو باطنی طور پر جھٹلانا
تجرید کے لغوی معنی ہیں
کسی بھی قسم کی تراش خراش اور تصنع سے پاک ہونا، کسی بھی قسم کی زیادتی سے چھٹکارا پانا، ساکن اور پر سکون ہونا، روشن خیال ہونا اور پردے کے پیچھے سے باہر آنا، ہر قسم کے بیرونی خولوں سے نکلنا ،اصل مراد تنہائی اختیار کرنا ہے
تفرید کے لغوی معنی
تفرید ’فرد‘ سے مشتق ہے فرد کے معنی واحد کے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں طالب دوئی سے نکل کر وحدت میں قدم رکھتا ہے۔ بظاہر وہ عام لوگوں کی طرح رہتا ہے اور ان سے تعلق رکھتا ہے لیکن درحقیقت وہ مقام فردیت اور ربوبیت میں غرق ہوتا ہے۔
صوفیاء نے ان دونوں اصطلاحات کی تعریف مختلف طریقوں سے کی ہے، جن میں شامل ہیں: تجرید، جدائی، اور توحید ایک ہی معنی کے لیے مختلف الفاظ ہیں، اور جب دل انسانی گندگی سے پاک ہو جاتا ہے تو بندہ تجرید تک پہنچ جاتا ہے ظاہری صورت یہ ہے کہ انسان مادیت پسندی کو ترک کر دے اور باطنی تجرید یہ ہے کہ وہ تجرید کے عمل کے بدلے میں کچھ نہ مانگے، کیونکہ وہ اس فعل کے بدلے میں کچھ مانگتا ہے، وہ تاجر ہے اور اس درجہ کو نہیں پہنچا۔ وہ اختلاط نہیں کرتا
عام فہم زبان میں تجرید سے مراد یہ ہے کہ بندہ اپنے کسی بھی عمل میں دنیا و آخرت کی اغراض کو مدنظر نہ رکھے یعنی اس کے کسی فعل میں نہ کوئی دنیاوی غرض ہو اور نہ کوئی اُخروی غرض ہو، عظمت ِالٰہی سے اسے جو کشف حاصل ہو وہ اسے اللہ کی بندگی اور اطاعت میں صَرف کر دے اورتفرید کا مفہوم یہ ہے کہ اپنے اعمال کو اپنا کمال نہ سمجھے، یہ نہ سوچے کہ جو کچھ اس نے کیا ہے وہ اس کے نفس کی تحریک و ترغیب کا حاصل ہے بلکہ اسے اللہ کا احسان سمجھے۔یہاں یہ بات قابل ِ ذکر ہے کہ تجرید اور تفرید اختیاری نہیں ہیں بلکہ مرشد کامل اکمل جامع نورالہدیٰ کی عطا ہیں یعنی کوئی خود سے ان مقامات کی گرد تک بھی نہیں پہنچ سکتا جب تک مرشد کامل اکمل کی نظر ِ کرم نہ ہو۔ تجرید میں طالب فنا فی اللہ کے مراحل طے کر رہا ہوتا ہے اور اس حالت میں اکثر اوقات طالب عام لوگوں کی نظر میں مجنوں، پاگل یا دیوانہ ہوتا ہے کیونکہ وہ ہر وقت اللہ کے مشاہدہ میں ہوتا ہے اور اس کی خواہش و رضا پر عمل پیرا ہوتا ہے۔