تجلی ذات کی خاص تحقیق مکتوب نمبر 74دفتر سوم

 صاحب فصوص کی اس کلام کی شرح میں جوتجلی ذات کے بارہ میں فرمائی ہے اور اس بارہ میں حضرت ایشاں قدس سرہ کی خاص تحقیق ورائے کے بیان میں حضرت مخدوم زادہ خواجہ محمد معصوم قدس سره کی طرف لکھا ہے لیکن حوادث ایام کے باعث یہ مکتوب شریف ناتمام رہا ہے 

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی ( اللہ تعالیٰ کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہوشیخ محی الدین ابن عربی قدس سرہ نے فرمایا ہے کہ تجلی ذات متجلی لہ(جس پر تجلی ہوتی ہے) کی صورت میں ہوتی ہے۔ کیونکہ متجلی لہ حق کے آئینہ میں اپنی ہی صورت کو دیکھتا ہے نہ کہ حق کو اور نہی حق کو دیکھ سکتا ہے۔حق کے آئینہ سے مراد وہ شان ذاتی ہے جس کاظل واسم زائد ہے جو متجلی لہ کا مبدتعین ہے کیونکہ ہر ایک اسم زائد کے لیے جومخلوقات کے تعینات میں سے ہر ایک تعین کا مبدء ہے۔ مرتبہ ذاتیہ میں اس کا اصل ثابت ہے اور یہ شان وہ ہے جوذات میں مجرد اعتبار ہے جیسے کہ کئی جگہ اس کی تحقیق ہو چکی ہے اور اس سے مراد مطلق ذات نہیں کیونکہ مطلق مقید کا آئینہ نہیں ہوسکتا چونکہ آئینہ بھی اس صورت کی طرح جو اس میں ثابت ہے مقید ہے اور اس صورت کا اصل الاصل ہے۔ اس لیے آئینہ متجلی لہ کی نظر میں اس کی اپنی ہی صورت کے موافق جو آئینہ میں موجود ہے۔ تجلی کرتا ہےنہ صورت سے کم ہوتا ہے نہ زیادہ کیونکہ اس مرتبہ میں کہ جس میں تجلی واقع ہوئی ہے۔ اس شان کی تجلی اور اس کا ظہور سوائے اس صورت کے کہ جس پر متجلی لہ ہے نہیں ہوتا لیکن اس صورت میں اس شان کا ظہور اس کی غنا اور عالم کے ساتھ عدم تعلق کے باعث اس اسم ظلی کے وسیلہ پر وابستہ ہے جو صورت متجلی لہ کا مبدءتعین ہے یہ آئینہ مقدسہ تمام آئینوں سے الگ ہے کیونکہ ان آئینوں میں صورت کا ظہور ان کے گوشوں میں سے کسی گوشے میں ہوتا ہے اور آئینے ان صورتوں میں جوان میں حلول کرتی ہیں بعینہ اور پورے طور پر ظاہر نہیں کرتے اس لیے کہ دونوں میں مخالفت ہوتی ہے۔ برخلاف اس آئینہ مقدسہ کے کہ نہ اس میں صورت حلول کرتی ہے اور نہ اس کے کونوں میں سے کسی کونے میں حاصل ہوتی ہے کیونکہ اس بارگاہ میں کوئی حالیت(اس کا کسی میں سرائیت کرنا ) ومحلیت( اس میں کسی کا سرایت کرنا ) نہیں اگر چہ حسی ہو اور اس مرتبہ مقدسہ میں کوئی تبعض و تجزی(بعض ہونا اور جزو جزوہونا) نہیں اگر چہ وہمی ہو بلکہ یہ آئینہ مقدسہ کلی طور پر متجلی لہ کی صورت پر ظہور کرتا ہے اسی واسطے یہ آئینہ اس وقت آئینہ بھی ہوتا ہے اور صورت بھی پس متجلی لہ نےحق کے آئینہ میں جس سے مراد وہ شان ذات ہے جس نے متجلی لہ کی صورت میں ظہور کیا ہے۔ اپنی صورت کے سوا کچھ نہیں دیکھا اور اس نےحق مطلق اور شان خاص کوتنزیہی اور تقدیسی طور پرنہیں دیکھا اور نہ ہی اس کو دیکھ سکتا ہے۔ یہ ہےشیخ کی رائے اور تحقیق جس میں اس نے تنزیہی رؤیت کے امکان کی نفی کی ہے اور ان ظہورات میں جو جامہ لطیفہ کی مانند ہیں تمثل (مشابہ)و مثال کے طور پر رؤیت کو ثابت کیا ہے حالانکہ یہ تحقیق اس تحقیق کے مخالف ہے جس پرعلماء اہل سنت و جماعت کا اتفاق ہے کہ حق تعالیٰ کی رؤیت دنیا میں جائز ہے لیکن غیر واقع ہے اور آخرت میں بلا کیف حق اور واقع ہے کسی تمثل و مثال میں نہ ہوگی۔ بیت 

يَرَاهُ الْمُؤْمِنُوْنَ بِغَيْرِ كَيْفٍ                                وَ إِدْرَاکٍ وَ ضَرْبٍ مِنْ مِّثَالٍ

مومن خدادیکھیں گے جنت میں خوش خصال بے کیف وبے شباہت و بے شبہ وہ بے مثال ۔

کیونکہ مثل کی رؤیت کیف کی رؤیت ہے حق تعالیٰ کی نہیں بلکہ مخلوق کی رؤیت ہے جس کو حق تعالیٰ نے تمثل و مثال کے طور پر ایجاد اور ظاہر کیا ہے کیونکہ تمثل و مثال اور تو ہم وخیال سب اس کی مخلوق ہیں۔ حق تعالیٰ ان سے وراء الوراء ہے۔ ان بڑے بڑے عارفوں پر تعجب آتا ہے جو تنزیہ کو چھوڑ کر تشبیہ پر اور قدیم کی طرف سے ہٹ کر حادث پرتسلی کئے بیٹھے ہیں اور مثال وتمثل پرکفایت کی ہے۔ میرے خیال میں یہ سب کچھ اس مرض کا نتیجہ ہے جو ان کو توحید و اتحاد کے قائل ہونے اور عالم کو حق تعالیٰ کا عین کہنے سے پیدا ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افراد عالم میں سے ہر ایک فرد کی رؤیت کو اسی اتحاد کے باعث حق تعالیٰ کی رؤیت جانتے ہیں ۔ ان میں سے بعض اس طرح کہتے ہیں ۔ بیت 

امروز چوں جمال تو بے پردہ ظاہراست در حیرتم که وعده فرد ابراۓ چیست

ترجمہ بیت ظاہر ہے جب جمال ترابے حجاب آج حیرت ہے پھر کہ دعده فردا کیوں ہوا۔

لیکن شیخ نے ان افراد عالم میں سے خاص جامع فرد کو خاص کیا ہے جو تمثل کے طور پر حاصل ہوا ہے مگر یہ بھی بے سود ہے۔ گویا شیخ قدس سرہ کتاب وسنت اور علماء کے اقوال سے واقف ہونے کے باعث رؤیت کے اطلاق کرنے اور ان کی رؤیت کو مطلق طور پر حق تعالیٰ کی رؤیت جاننے کی برائی سے آگاہ ہو کر اس طرف گیا ہے لیکن پھر بھی سکر(مستی) اور توحید کے غلبہ حال کے باعث تشبیہ کی تنگی سے مطلق طور پرنہیں نکلا اور مفرد طور پر تنبیہ کے کمالات کو حاصل نہیں کر سکا۔ بلکہ شیخ نے خیال کیا ہے کہ مشبہ یعنی تشبیہ والے کی طرح منزہ صرت یعنی تنزیہ( ذات حق کو امکانی نقائص سے پاک جاننا) والا بھی قاصر اور ناقص اور حق تعالیٰ کومحدود کرنے والا ہے۔ اس لیے تنز یہ محض کی طرف سے ہٹ کر اس امر کا یقین کیا کہ کمال تشبیہ وتنزیہ کے جمع کرنے اور ایک کو دوسرے کا عین کہنے میں ہے تا کہ تحدید(حد مقرر کرنا) اور تقیید(پابند کرنا) مطلق طور پر رفع ہو جائے لیکن ظاہر ہے کہ شیخ کے نزدیک تشبیہ خارج میں معدوم ہے اس کے نزدیک صرف تنزیہ ہی خارج میں موجود ہے۔ پس وجود خارجی (وجود جس کا خارج میں ادراک ہو سکے) عدم خارجی کے قیاس پر ایک دوسرے کا محدود مقیدنہ ہوگا کیونکہ عدم وجود کا محددیعنی محدود کرنے والا نہیں اور نہ ہی وجود عدم کو محدود کرنے والا ہے کیونکہ وجودمع العدم اسی طرح اپنے اطلاق پر ہے اورعدم مع الوجود بھی اپنے اطلاق پر ہے اور کوئی ایک دوسرے کا مقید نہیں۔ اگر عدم وجود کا محدد ہوتا تو چاہیئے تھا کہ اس طرح کام کرتا کہ کمال وجود و عدم کے جمع ہونے اور ایک دوسرے کے عین ہونے میں ہے اور یہ سفسطہ ظاہرہ یعنی نکما اور باطل خیال ہے۔ پس ثابت ہوا کہ تنزیہ صرف قائل ہونا حق تعالیٰ کے لیے محددنہیں اور نہ ہی تنزیہ وتشبیہ کے جمع کرنے میں کچھ کمال ہے بلکہ اس میں سراسرنقص ہے اور ناقص کو کامل کے ساتھ ملانا ہے اور معلوم ہے کہ ناقص وکامل سے مرکب بھی ناقص ہوتا ہے۔ باقی رہا یہ امر کہ وہ معلومہ صورتیں جن کو شیخ اعيان ثابتہ کہتے ہیں ۔ وہ حق تعالیٰ کے علم میں ثابت ہیں ۔ اس سے بھی موجود خارجی کی تحدید لازم نہیں آتی تاکہ دونوں کے درمیان(یعنی حق تعالیٰ اور معلومہ صورتوں کے درمیان )اتحاد عینیت کاحکم کیا جائے کیونکہ موجود خارجی کی تحدیدویساہی موجود خارجی کرسکتا ہے لیکن موجودعلمی موجود خارجی کی تحدید اور اس کی مزاحمت نہیں کرسکتا کیونکہ ہر دو مراتب مختلف ہیں کیا نہیں جانتے کہ علم میں شریک باری تعالیٰ کا تصور اور ثبوت ہونا تا کہ اس پر محال ہونے کا حکم کیا جائے ۔ باری تعالیٰ کا جو خارج میں موجود ہے ہرگز مزاحم و محدود و مقیدنہیں، جس کے دفع کرنے میں نامناسب حیلے بہانے کیے جائیں اور کہا جائے کہ ایک دوسرے کا عین ہے۔ اب ہم شیخ کی کلام کی طرف جو اس نے تجلے ذاتی میں کہی ہے رجوع کرتے اور کہتے ہیں کہ شیخ نے اس تجلی کے ذکر کے بعد جو کچھ بیان کیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ یہ بھی تمام تجلیات کی نہایت اور تمام عروجات کی غایت ہے۔ اس کے آگے سوائے عدم کے کچھ نہیں ۔ اس سے اوپر عروج  حاصل کرنے اور اس سے آگے پہنچنے کا طمع نہ کر اورناحق اپنے آپ کو تکلیف میں نہ ڈال کیونکہ تجلی ذاتی کے درجہ سے بڑھ کر اعلے اور کوئی مقام نہیں۔ 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ208ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں