تضرع و نیاز اور ذکر اور قرآن کی تلاوت اور نماز میں طول قنوت یعنی قیام کے فائدہ میں سیادت پناه میر محمد نعمان کی طرف صادر فرمایا ہے:۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (الله تعالی کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو) )
برادرم سیادت پناه کاصحیفہ شریفہ پہنچا۔ بڑی خوشی ہوئی۔ آپ نے لکھا تھا کہ حق تعالی کی بارگاہ میں دعا اور تضرع اور زاری اور دوام التجا بہتر ہے۔ یا ذکر کرنا یایہ سب کچھ ذکر کے ساتھ ملا ہونا بہتر ہے۔ میرے عزیز ذکر کرنا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ جو کچھ جمع ہو جائے دولت و نعم ہے۔ وصول کا مدار ذکر پر موقوف ہے دوسری چیزیں ذکر کر کے ثمرات ونتائج ہیں۔ نیز آپ نے پوچھا تھا کہ ذکر نفی اثبات اور تلاوت قرآن اورطول قنوت کے ساتھ نماز ادا کرنا ان تینوں میں سے کونسا بہتر ہے۔ سونفی اثبات کا ذکر وضو کی طرح ہے جو نماز کی شرط ہے۔ جب تک طہارت درست نہ ہو ، نماز کا شروع کرنا منع ہے۔ اسی طرح جب تک نفی کا معاملہ انجام تک نہ پہنچ جائے۔ تب تک فرائض و واجبات اور سنتوں کے سوا عبادات نافلہ جس قدر کریں سب وہال میں داخل ہے۔ پہلے مرض کو دور کرنا چاہے جونفی اثبات کے ذکر وابستہ ہے بعد ازاں دوسری عبادات وحسنات میں جو بدن کے لیے اچھی غذا کی طرح ہیں مشغول ہونا چاہئے۔ مرض کے دور ہونے سے پہلے جو غذا کھائیں فاسد مفسد ہے۔
ہر چہ گرید علتی علت شود ترجمہ: جو کچھ مریض کھائے اس کی مرض بڑھائے
اس حالت کے انجام کا تعین کرنا لازم نہیں کیونکہ وہ حالت خوداپنے تمام و کمال ہونے کی خبر دیتی ہے۔ آپ نے لکھا تھا کہ تیسری جلد کسی کے نام پر مستجل کریں اس سے پہلے یعنی فقیر نے لکھا تھا کہ آپ کے نام پر مستجل کیا جائے۔ اب بھی آپ کے خط کے جواب میں وہی بات ہے۔ آپ سے بہتر کون ہے۔ ہمیشہ دل کی توجہ اور نگرانی آپ ہی کی طرف رہتی ہے۔ آگره میں آپ کے بیٹھنے کے لیے کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی۔ اگر چہ قرب و جوار میں ہے، لیکن جب ملاقات سے خالی ہے تو بے اعتبار ہے۔فقیر کی تقریب پر وہاں نہ رہیں۔ فقیر کو خدائے ارحم الراحمین کےسپرد کر کے وطن کی طرف چلے جائیں اور وہاں کے مشتاقوں کو خوش کریں اور اگر آپ نے وہاں رہنے کے لیے کوئی وجہ دل میں تصور کی ہو تو وہ امر دیگر ہے والدہ محمد امین کوخدا توفیق دے اور عصمت و آبرو کے ساتھ رکھے۔ اس کے دور دراز واقعات جو آپ نے لکھے تھے۔ سب کا مطالعہ کیا۔ اگر چہ سب میں کچھ کچھ وحشت و کدورت کا سامنا نظر آتا ہے۔ مگر امید ہے کہ ہر ایک کا انجام بخیر ہو گا۔ آپ اس کو فرمائیں کہ اس قسم کے واقعات سے آگاہ رہے اور توبہ و استغفار کے ساتھ ان کا تدارک کرے۔ دنیاوی مال و متاع اور فانی زیب و زینت لاشے محض ہےعقلمنداس پرمفتون اور مبتلا نہیں ہوتا۔ آخرت کے احوال کو مدنظر رکھ کر ذکر میں مشغول رہنا چاہئے۔ یہ کچھ ضروری نہیں کہ ذکر میں لذت تمام پیدا ہو اور چیزیں دکھائی دیں۔ یہ سب کچھ لہو ولعب اورکھیل کود میں داخل ہے۔ ذکر میں جس قدر مشقت ہو۔ بہتر ہے۔ نمازپنج وقتی کو ادا کر کے اوقات کو ذکر الہی کے ساتھ آبادی رکھے اور ذکر کی التذاذ سے بیکار نہ رہے۔ آپ کی صحبت کو غنیمت جان کر آپ کی رضا جوئی میں رہے۔ آپ کو بھی لازم ہے کہ آپ اس کے پاس اکثر جایا کریں اور بڑی نرمی اور محبت سے اس کو اپنی طرف کھینچیں اور نیکیوں کی طرف رہنمائی کریں۔ والسلام
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ403 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی