تمکین اور تلوین کی اصطلاح

تمکین اور تلوین کی اصطلاح

تمکین کے معنی جگہ پکڑنا، قرار پکڑ نا،قدر و مرتبہ حاصل کرنا سالکین کے ایک مقام کا نام ہے اور اہل تصوف کی اصطلاح میں اس سے مراد قرب الہی میں دل کے اطمینان کے ساتھ کشف وحقیقت کا دائمی حاصل ہونے کا نام تمکین ہے۔اس میں سالک ابو الحال اور صاحب مقام ہوتا ہے۔

حسب استعداد کسی حالت محمودہ پر استمرار نصیب ہوجاتا ہے اس کو تمکین کہتے ہیں اس وقت تمام اشیاء کے حقوق خوب ادا ہوتے ہیں۔ اسی کو توسط اور اعتدال بھی کہتے ہیں صاحب تمکین حق شناس ہوتا ہے اور واصل ہوتا ہے اس لیے قابل تقلید اور مقتدا بننے کا اہل ہوتا ہے۔

تلوین احوال کا بدلنا تلوین کہلاتا ہے۔ اہل تصوف کی اصطلاح میں مقامات فقر میں سے ایک مقام کا نام ہے چونکہ مریدکی جب تربیت ہوتی ہے تو اس پر عجیب عجیب انکشافات ہوتے ہیں جس سے اس کے احوال تبدیل ہوتے رہتے ہیں اسی لئے اسے مغلوب الحال کہلاتا ہے۔ چونکہ یہ ناپختگی کی علامت ہوتی ہے اس لیے سالک اس سے پناہ مانگتا ہے اور تمکین کی تلاش میں رہتا ہے۔ لیکن تمکین کے لیے تلوین لازمی ہے جیسا کہ منزل کے لیے راستے کا قطع کرنا۔ چونکہ دوران تلوین مختلف احوال کا غلبہ ہوتا ہے اس لیے سالک گو کہ اس میں معذور ہے اور یہ لوازم طریق میں سے ہے اس لیے ماخوذ نہیں ہوتے۔ لیکن اس حال میں وہ قابل تقلید بھی نہیں ہوتے بلکہ ابھی راہ میں ہوتے ہیں اس لیے مشائخ بھی ان کے لیے تمکین کے انتظار میں ہوتے ہیں۔
تلوین کئی طرح کا ہوتا ہے اور اہل تصوف کی اصطلاح میں فکر کے ایک مقام کا نام ہے جاننا چاہیے کہ مشائخ طریقت کے نزدیک تلوین سے مراد سالک کے دل کا ان احوال میں پھرنا جو اس پر گزرتے ہیں اور بعض نے کہا کہ دل کابوجہ غیبت صفات نفس اور اس کے ظہور کے کشف احتجاج کے درمیان پھرنا حضرت شیخ قدس سرہ اپنی اصظلاحات میں فرماتے ہیں کہ اکثر مشائخ کے نزدیک تلوین ایک ناقص مقام ہے لیکن ہمارے نزدیک سب مقامات سے افضل اکمل ہے اور بندہ کا حال اس میں وہی ہے جیسا کہ حق سبحانہ و تعالی خود ہی فرماتے ہیں كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ اورتمکین ہمارے نزدیک تمکین در تلوین ہے(رشحات)

نیز جاننا چاہئےکہ تلوین ارباب احوال کی صفت ہے اور تمکین ارباب حقائق کی صفت ہے۔

اصطلاحات صوفیہ :خواجہ شاہ محمد عبد الصمد صفحہ 28،مطبوعہ دلی پرنٹنگ ورکس دہلی

سورج اور چاند کی مثال

تلوین اور تمکین کی مثال چاند اور سورج سے دی جاتی ہے چاند سے حال(تلوین) کیطرف اشارہ ہے کیونکہ حال چاند کیطرح بدلتا رہتا ۔ اور صاحب مقام(تمکین) سورج کی طرح اپنی حالت پر قائم رہتا ہے اسلیئے اہل حال مرتبہ تلوین میں اور ابل مقام مرتبہ تمکین میں ہوتے ہیں سالک جب تک رستے میں ہے صاحب تلوین ہے کیونکہ وہ ایک حال سے دوسرے حال کی طرف نقل کرتا رہتا ہے اور جب واصل ہوتا ہے تو صاحب تمکین ہو جاتا ہے 

  سورج سے ولایت شمسیہ اور چاند سے ولایت قمریہ مراد ہے   تمام انبیاء نور نبوت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مشکوۃ سے حاصل کرتے ہیں اسی طرح تمام اولیاء نور ولایت خاتم الاولیاء(حضرت علی کرم اللہ وجہ) کے آفتاپ ولایت سے لیتے ہیں، اس لئے خاتم  الاولیا کی ولایت کا نام ولایت شمسیہ ہے اور تمام اولیاء کی ولایت کا نام ولایت قمریہ ہے پس تمام اولیاء  نور ولایت  خاتم الاولیاء کی ولایت مطلقہ ے لیتے ہیں جیسا کہ چاند سورج سے نور حاصل کرتا ہے

زلیخا اور زنان مصر کی مثال

ایک حالت سے دوسری حالت کی جانب تبدیلی اور تنزل یا ترقی کرتے رہنا تلوین ہے  اس سفر کے دوران ایک گونہ اطمینانی کیفیت پیدا ہوجانے کو طمانیت

سے تعبیر کیا جاتا ہے ، اس کے بعد سالک انتہائی مرتبے پر فائز  ہوجاتا ہے اور کوئی حالت منتظرہ باقی نہیں رہ جاتی تو درجہ تمکین حاصل ہو جاتا ہے دیکھو  مصر کی عورتیں زلیخا پر طعنہ زن تھیں  جب یوسف علیہ السلام پر ان کی نگاہیں پڑیں تو سب فریفتہ ہو کر ہوش و حواس کھو بیٹھیں ، زلیخا ان کی حالت پر ہنستی رہیں، یہ  سب خواتین تلوین میں مبتلا تھیں اور زلیخا پر تمکین کی کیفیت طاری تھی،  

،


ٹیگز

تمکین اور تلوین کی اصطلاح” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں