شیخ کا اپنی قوت ارادی اور قلبی طاقت سے طالب کے دل پر اثر ڈال کر اس کی باطنی حالت میں تبدیلی پیدا کردیناتوجہ کہلاتا ہے
توجہ شیخ دھیان دینا ،کسی چیز کو مرکز نگاہ بنانا تصوف بالخصوص سلسلہ نقشبندیہ میں استعمال ہونے والی اصطلاح ہے
صوفیائے کرام نے توجہ و تصّرف کی مختلف اقسام بیان فرمائی ہیں جن میں سے تین اقسام زیادہ معروف ہیں۔
توجّہِ انعکاسی
جیسے کسی چیز پر شیشے یا روشنی کا عکس اور پَرتو پڑنا یا اہلِ مجلس کا عطر وغیرہ کی خوشبو پانا انعکاسیِ توجہ کے مشابہ ہے۔ یہ توجہ وقتی اور عارضی ہوتی ہے اس قسم کا اثر بھی تھوڑی دیر کیلئے ہوتا ہے۔ اس لیے یہ توجّہ اگرچہ ضعیف ہوتی ہے لیکن فائدے سے خالی نہیں۔
توجّہِ القائی
اس توجہ کی مثال یوں ہے جیسے کوئی شخص دئیے میں بتّی اور تیل ڈال کر لایا تو دوسرے نے آگ لگا کر روشن کردیا۔ یہ تاثیر کچھ طاقت رکھتی ہے اور کچھ دیر اسکا اثر باقی رہتا ہے لیکن جب کوئی بیرونی صدمہ پہنچے مثلاً آندھی، بارش وغیرہ تو اسکا اثر جاتا رہتا ہے اس لئے یہ توجہ کسی حد تک مفید ضرور ہے لیکن لطائف کی مکمل اصلاح نہیں کرسکتی۔ اس لئے مُرید کو مجاہدہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
توجّہِ اتحّادی
یہ توجہ سب سے زیادہ قوی ہوتی ہے اس میں شیخ اپنی پوری ہمت صرف کرکے اپنی رُوح کے کمالات طالب کی روح میں القاء کردیتا ہے اس طرح کہ دونوں روحیں باہم جذب ہوجاتی ہیں جیسے کہ حضرت خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک نانبائی کو توجّہ اتحادی دے کر اس کےظاہر و باطن کو اپنے جیسا بنا دیا جس کو وہ جبط نہ کرکے وصال پا گیا تفسیرِ عزیزی (سورۃ علق)
اولیائے کرام سے ازالہ گناہ، القائے توبہ، حل مشکلات، سلبِ امراض اور احیائے اموات کیلئے بھی توجہ ڈالنا چابت ہے اور یہ معاملہ ان کی کرامات کے زُمرے میں آتا ہے۔
طریقِ توجہ
شیخ مرید کو سامنے بٹھا کر اپنے قلب کو اسکے قلب پر غالب کرے اور کطرہِ غیر کو اسکے قلب پر آنے سے روک کر جذبہِ قلبی کے ساتھ مُرید کے دل پر اپنی نسبت القاء کرے اور اپنے آپ کو ہر قسم کے خیالات سے خالی کرکے اپنے نفسِ ناطقہ کی طرف اس نسبت میں متوجہ ہوجائے جس کو طالب کے دل میں ڈالنا منظور ہو اور اپنی پوری باطنی ہمّت کے ساتھ یہ تصور کرے کہ میرے دل سے فیوض و انوار طالب یا مرید کے دل میں سرائیت کررہے ہیں اِنْ شآء اللہ طالب کی قابلیت اور استعداد کے مطابق اس کو فیوض و برکات حاصل ہونگے اسی طرح مُرید کے جس لطیفہ میں ذکر جاری کرنا مقصود ہو اپنے اسی لطیفہ کو مُرید کے لطیفہ کے مقابل سمجھ کر ہر قسم کے خیال کو دونوں طرف سے روک کر مُرید کے دل کو اپنے دل کیطرف کھینچے اور اسمِ ذات کی ضرب لگائے تاکہ اس توجہ اور ضرب کے اثر سے مُرید کے اس لطیفہ میں جنبش پیدا ہو کر ذکر جاری ہوجائے اسی طرح دیر تک متوجہ رہے اور روزانہ اس عمل کا تکرار جاری رکھے تاکہ توجہ کی تاثیرات راسخ ہوجائیں اور مُرید کے دل میں حرارت اور نفیِ خائفہ کی کیفیت پیدا ہوجائے اگر مُرید غیر حاضر ہو تو اسکی صورت کا تصور کرکے گائبانہ توجہ بھی دی جاسکتی ہے جیسا کہ بعض مشائخ کا معمول منقول ہے۔
صَرفِ ہمّت کا مطلب یہ ہے کہ دل میں جمیعت اور یکسوئی رہے اور ارادہ مضبوط رہے تاکہ دل میں اس مراد کے سوا کوئی دوسرا خیال نہ آسکے۔
توجّہِ شیخ
شیخ کا اپنی قوتِ ارادی اور قلبی طاقت سے طالب کے دل پر اثر ڈال کر اس کی باطنی حالت میں تبدیلی پیدا کردینا توجہ کہلاتا ہے۔
سلوک کی منزلوں میں شیخ ہر سبق کیلئے توجہ کے ذریعے طالب کے لطائف پر فیض القاء کرتا ہے اس کو تصرّف یا ہمّت بھی کہا جاتا ہے۔
توجّہ کا ثبوت قرآن و حدیث سے
توجہ کے اس مفہوم کی قرآن و حدیث سے تائید ہوتی ہے۔ جیسے کہ حضرت یعقوب علیہ السّلام کی توجہ اولاد کیلئے اصلاحِ احوال کا ذریعہ ثابت ہوئی۔
*ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
يَخْلُ لَكُمْ وَجْهُ أَبِيكُمْ وَتَكُونُوا۟ مِنۢ بَعْدِهِۦ قَوْمًۭا صَـٰلِحِينَ [یوسف ۹](ترجمہ: تمہارے باپ کی توجہ تمہاری طرف ہوگی تو اسکے بعد تم صالحین بن جاو گے)
یہاں صالحیّت سے مُراد صلاحیتِ دینیّہ بھی ہے اور دنیویہ بھی (فافہم)
*دوسری جگہ ارشادِ قرآنی ہے:
إِذْ يُوحِى رَبُّكَ إِلَى ٱلْمَلَـٰٓئِكَةِ أَنِّى مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا۟ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ [الانفال ۱۲](ترجمہ: یادکرو جب تمہارا ربّ فرشتوں کو حُکم دیتا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں پس تم اہل ایمان کو ثابت قدم رکھو یعنی انکی ہمت بڑھاو)
فرشتوں کے ایمان والوں کو ثابت قدم رکھنے اور انکی ہمّت بڑھانے کی یہی صورت ہے کہ ان کے دلوں میں ایسی قوت اور جذبہ القاء کریں کہ وہ کفّار کے مقابلے میں مضبوطی دکھائیں اور ڈٹ کر لڑیں یہ عمل بھی توجہ ہی کہلائے گا۔
*اسی طرح پہلی وحی کے نزول کے وقت جبرئیل امین علیہ السلام کا حضور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سینے سے لگا کر دبانا قوّتِ توجّہ اور صرفِ ہمت کا واضح ثبوت ہے جیسا کہ حضور علیہ الصّلوٰۃ و السّلام نے فرمایا:
فَغَطَّنِیْ حَتّیٰ بَلَغَ مِنّیِْ الْجُھْدُ [بخاری ص ۲ ج ۱، مسلم ص ۸۸ ج ۱](ترجمہ: جبرائیل ع نے مجھے یہاں تک دبایا کہ مجھے مشقت پہنچی)
اس حدیث کی شرح میں عارفِ کامل حضرت عبداللہ بن ابی جمرہ رح نے فرمایا:
جَرْمُ الْغَطِّ بِالْمُغَطَ وَضَمُّہ اِلَیْہِ وَھُوَ لِحْدٰی لِطُّرُقِ الْاِفَاضَۃِ یَحْدُثُ بِہ فِی الْبَاطِنِ قُوَّۃُُ نُوْرَانِیَّۃُُ [بہجۃ النفوس](ترجمہ: اس حدیث میں اس امر پر دلیل ہے کہ دبانے والے کا اتصال اس کے جسم سے ہوا جس کو دبایا گیا ہے تو یہ اتصال حصولِ فیض کا ایک طریقہ ہے جس سے باطن میں ایک قوتِ نورانیہ پیدا ہوجاتی ہے)
*اسی طرح احادیثِ مبارکہ میں حضور علیہ السلام کا حضرت سیّدنا عُمر، حضرت علی المُرتضیٰ، حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابومحذورہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاتھ پکڑ کر، سینے پر ہاتھ رکھ کر،سر سے ناف تک ہاتھ پھیر کر، نظرِ خاص فرما کر، توجہ کے ذریعے احوال و کیفیات بدل دینا تواتر کیساتھ ثابت ہے۔[مستدرک حاکم مسند احمد بن حنبل] اسی طرح اولیاء کرام کی توجہات اور تصرفات سے بیشمار انسانوں کے دلوں اور دماغوں میں انقلاب پیدا ہونا ، توبہ کی توفیق ملنا اور فیضِ ولایت حاصل ہونا بھی تسلسل کیساتھ ثابت ہے جس سے کسی بھی اہلِ عقل و فہم کو انکار نہیں ہوسکتا۔