توجہ اور اس کی اقسام
توجہ کے معنی دھیان دینا ،کسی چیز کو مرکز نگاہ بنانا تصوف بالخصوص سلسلہ نقشبندیہ میں استعمال ہونے والی ایک اصطلاح ہےشیخ کا اپنی قوت ارادی اور قلبی طاقت سے طالب کے دل پر اثر ڈال کر اس کی باطنی حالت میں تبدیلی پیدا کر دینا توجہ و تصرف اور ہمت کہلاتا ہے۔ سلوک کی منزلوں میں شیخ ہر سبق کے لئے توجہ کے ذریعے طالب کے لطائف پر فیض القاء کرتا ہے اس کو تصرف یا ہمت بھی کہا جاتا ہے۔
اللہ والوں کی توجہ چار قسم کی ہوتی ہے۔
توجہ انعکاسی
جیسے کسی چیز پر شیشہ پا روشنی کا عکس یایا جاتا ہے یا ایل مجلس کا عطر وغیرہ کی خوشبو پائی جاتی ہے یہ وقتی اور عارضی ہوتی ہے اس تو جہ کااثر بھی تھوڑی دیر کے لئے ہوتا ہے۔ مرشد اپنے مرید با توجہ کرتا ہے یہ اثر مرشد کے موجودر ہنے تک رہتا ہے ۔
توجہ القائی
اس توجہ کی مثال یوں ہے کہ جیسے کوئی شخص دیئے میں بتی اور تیل ڈال کر لایا تو دوسرے نے آگ لگا کر روشن کر دیا اس توجہ کی تاثیر کچھ طاقت رکھتی ہے اور کچھ دیر اس کا اثر باقی رہتا ہے لیکن جب کوئی پیرونی صدمہ پہنچے مثلا آندھی اور بارش وغیر ہ تو اس کا اثر جاتا رہتا ہے اس لئے یہ توجہ کسی حد تک مفید ضرور ہے۔ لیکن لطائف کی مکمل اصلاح نہیں کرسکتی اس لئے مرید و مجاہدہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اس میں مرشد کے جانے سے بھی اثر زائل نہیں ہوتا مگر گناہ کی نحوست سے اثر زائل ہو جاتا ہے ۔
توجہ اصلاحی
اس میں مرید جب خود بھی ذکر اذکار کا پابند ہو، اس پر مرشد کی توجہ اتنی طاقتور ہوتی ہے کہ مرید کی نافرمانیوں سے بھی توجہ کا اثر اورلذت ختم نہیں ہوتی بلکہ مستقل جاری رہتی ہے۔ یہ توجہ بہت قوی ہے۔
توجه اتحادی
یہ تو جہ سب سے زیادہ قوی ہوتی ہے اس میں شیخ ، پی پوری ہمت صرف کر کے اپنی روح کے کمالات طالب کی روح میں اتحاد کر دیتا ہے اس طرح کہ دونوں روحیں باہم جذب ہو جاتی ہیں جیسا کہ حضرت باقی باللہ دہلوی نے نانبائی کو توجہ اتحادی دے کر اس کے ظاہر و باطن کو اپنے جیسا بنا دیا تھا جس کو وہ برداشت نہ کر سکا اور اس کا انتقال ہو گیا۔ اس میں مرشد مرید پر زور دار توجہ ڈالتا ہے کہ مرید بالکل مرشد جیسا بن جاتا ہے۔ واقعہ کچھ یوں ہے حضرت باقی باللہ دہلوی کے ہاں چند مہمان آئے مہمان نوازی کے لئے کچھ نہیں تھا۔ نانبائی کو پتہ لگا وہ اپنے گھر سے کھانا لے آیا اور مہمانوں کو پیش کر دیا۔ حضرت بہت خوش ہوئے۔ فرمایا! اب کچھ مانگ لو۔ مرید نے کہا کہ میں آپ جیسا بن جاؤں۔ انہوں نے کہا کہ اور مانگو یعنی اس کے علاوہ کوئی اور چیز مانگو۔ اس نے اسی پر اصرار کیا۔ حضرت اس کو کمرے میں لے گئے اور اس پر اتنی زور دار توجہ ڈالنی شروع کی یہاں تک کہ مرید اور حضرت باقی باللہ کی شکل و شباہت ایک جیسی ہو گئی۔ جب باہر نکلے تو یہ نہیں پتہ چلتا تھا کہ حضرت باقی باللہ کون سے ہیں اور نانبائی کون ہے۔ صرف اتنا فرق تھا کہ حضرت باقی باللہ ” ہوش میں تھے اور مرید مد ہوش تھے۔ تین دن بعد ان کا انتقال ہو گیا وہ توجہ کو برداشت نہیں کر سکے ۔ اس کو توجہ اتحادی کہتے ہیں۔
توجہ شیخ کا اثر
حضرت سری سقطی رحمتہ اللّٰه علیہ اپنے اِبتدائی ایام میں نماز روزے کی پابندی نہیں کرتے تھے اور جب لوگوں نے حضرت معروف کرخی رحمتہ اللّٰه علیہ کے پاس جا کر ان کی شِکایت کی تو ایک دِن حضرت معروف کرخی رحمتہ اللّٰه علیہ ان کی دُکان پر گئے اور پوچھا کہ:
ہم دیکھتے ہیں کہ آپ نماز نہیں پڑھتے۔
اس پر حضرت سری سقطی رحمتہ اللّٰه علیہ نے کہا کہ:
آپ دیکھتے ہیں کہ یہاں نماز پڑھنے کی کوئی صورت موجود ہے؟ جب کہ بے تحاشہ لوگ ہر وقت سودا سلف لینے میں مجھے مصروف رکھتے ہیں۔ ”
حضرت معروف کرخی رحمتہ اللّٰه علیہ نے فرمایا:
تو پِھر آپ رفع حاجت بھی دُکان کے اندر ہی کرتے ہوں گے۔
جب آپ رحمتہ اللّٰه علیہ نے یہ کہا اور ساتھ ہی ان کے باطن پر اپنی توجہ سے لبریز نِگاہ ڈالی تو حضرت سری سقطی رحمتہ اللّٰه علیہ پر وجد طاری ہو گیا اور اس سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ایک دم تمام دُکان لُٹا دی اور اس کے بعد عِبادت میں مصروف ہو گئے۔اہلِ علم جانتے ہیں کہ کچھ عرصہ بعد ہی طریقت میں آپ رحمتہ اللّٰه علیہ نے بہت بڑا مقام پایا۔حضرت جُنید بغدادی رحمتہ اللّٰه علیہ انہی کے بھانجے اور مُرِید تھے۔حضرت سری سقطی رحمتہ اللّٰه علیہ کی ہی محنتوں اور تربیت کا نتیجہ تھا کہ حضرت جُنید بغدادی رحمتہ اللّٰه علیہ کو سیّد الطائفہ جیسا اعلٰی رُتبہ حاصل ہُوا۔
جب کوئی شیخ اپنے مُرِید کی طرف توجہ کرتا ہے تو اس کے باطن پر ایسے اثرات مرتب ہوتے ہیں کہ اگر مُرِید میں اس توجہ کو حاصل کرنے کی صلاحیت موجود ہو تو جس قِسم کی توجہ دی جائے اسی قِسم کے اثرات مُرِید کے باطن پر چھا جاتے ہیں اور جو عمل بھی مُرِید سے کروانا چاہتے ہے اس کا ذوق اس میں پیدا ہو جاتا ہے اور وہ وہ فوراً اس کی طرف رغبت حاصل کرنے لگتا ہے۔