اسقاط

توحید شہودی

ذرائع کے مطابق توحیدِ شہودی (جسے توحیدِ عینی یا وجدانی بھی کہا گیا ہے) سے مراد وہ کیفیت ہے جس میں ایک موحد ذوق اور مشاہدے کے ذریعے حق تعالیٰ کی وحدانیت کو پاتا ہے۔ اس مقام پر سالک پر یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ تمام اشیاء اپنی ہستی میں اللہ کے وجود کے ساتھ قائم ہیں اور وہ اللہ کی واحدانیت کے مشاہدے میں اس طرح مستغرق ہوتا ہے کہ اسے کائنات کی بکھری ہوئی اشیاء میں بھی وحدتِ الہیٰ کا جلوہ نظر آتا ہے۔

ذرائع میں توحیدِ شہودی کے تین بنیادی درجات یا اقسام بیان کی گئی ہیں:

۱. توحیدِ افعال: اس درجے میں سالک حق تعالیٰ کے فعل کو غیر کے فعل سے الگ کر کے دیکھتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات میں ہونے والے تمام کاموں کا حقیقی فاعل صرف اللہ تعالیٰ کو مانا جائے اور یہ مشاہدہ کیا جائے کہ تمام افعال اسی کی قدرت اور ارادے سے ظہور پذیر ہو رہے ہیں،۔

۲. توحیدِ صفات: اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی صفات کو غیر کی صفات سے ممتاز کرنا ہے۔ اس مقام پر سالک یہ مشاہدہ کرتا ہے کہ تمام کمالات اور صفات (جیسے علم، قدرت، سماعت و بصارت وغیرہ) درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کی ہیں اور کائنات کی دیگر اشیاء میں جو صفات نظر آتی ہیں، وہ اسی کی صفات کا پرتو ہیں،۔

۳. توحیدِ ذات: یہ توحید کا سب سے بلند مرتبہ ہے جس میں سالک اللہ کی قدیم ذات کو تمام دیگر ذوات سے الگ اور اکیلا پاتا ہے۔ اس حالت میں سالک پر جب اللہ کی ذات کی تجلی ہوتی ہے، تو اسے تمام ذوات، صفات اور افعال اللہ کی ذات میں فنا ہوتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ اس مقام پر اسے اللہ کے سوا کچھ نظر نہیں آتا اور وہ فنا فی اللہ کی کیفیت میں ہوتا ہے،۔

ذرائع کے مطابق، ایک ماہر مرشد سالک کا روحانی علاج پہلے توحیدِ افعال سے کرتا ہے، پھر اسے توحیدِ صفات کے مشاہدے تک لے جاتا ہے اور آخر میں توحیدِ ذات کے نور سے اس کے دل کو منور کرتا ہے تاکہ اس کے حجابات اٹھ جائیں اور وہ قربِ الہیٰ پا سکے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں