شیخ روز بہان بقلی قدس سرہ کے کلام کی شرح اور توحید وجودی کے بعض دقائق کے بیان میں قاضی اسماعیل فرید آبادی کی طرف صادر فرمایا ہے: ۔
ولی روز بھان بقلی قدس سرہ نے متصوفہ کی غلطیوں کے بیان میں فرمایا ہے کہ دوسری غلطی یہ ہے کہ ہمہ اوست (سب کچھ وہی ہے) کہتے ہیں اور ان تمام متفرقہ اور حادثہ جزئیات سے ایک ہی ذات چاہتے ہیں اور رمز کے ساتھ ایک دوسرے کو کہتے ہیں کہ ہم خود ہی ہیں پس ان کافروں کے سینکڑوں خدا ہیں اور خدا تعالیٰ محدثات کے جمع وتفرقہ سے منزہ ہے وہ واحد ہے جس کی طرف جزو کو راستہ نہیں۔ وہ حلول کوقبول نہیں کرتا متلون نہیں ہوتا۔ یہ لوگ اس بات سے کافر ہیں نہ اپنے آپ کو جانتے ہیں نہ خدا کو اگر ان میں سے کوئی حق ہوتا توفنانہ ہوتا بعض لوگوں نے روح میں غلطی کھائی ہے اور انہوں نے جسم کے بارہ میں قَاتَلَهُمُ اللَّهُ سُبْحَانَهُ ( الله تعالیٰ ان کو ہلاک کرے) انتہی (یہاں تک شیخ روز بھان قدس سرہ کا مقولہ ہے)۔
پوشیدہ نہ ر ہے کہ عبارت ہمہ اوست (سب کچھ وہی ہے) اگرچہ متقدمیں صوفياء قدس سرہم میں متعارف نہ تھی لیکن اَنَا الْحَقُّ (میں حق ہوں)اور سُبْحَانِي (میں پاک ہوں)اور لَيْسَ فِي ْجُبَّتِيْ سَوِى اللهِ (میرے جبہ میں اللہ کے سوا کچھ نہیں)وغیرہ وغیرہ کی مانند بہت باتیں سرزد ہوئی ہیں اس کلمے اور ان کاموں کا مطلب غالباً ایک ہی ہے۔
آب از سرچوںگزشت است چہ یک نیزه چه یک دست
ترجمہ سر سے پانی جب بڑھا نیزہ بھر کیا ہاتھ بھر کیا
متاخرین صوفياء میں بھی یہ عبارت شائع اور عام ہے اور بے تکلف ہمہ اوست کہتے ہیں اور اس قول پر اصرار کرتے ہیں ان میں سے بہت ہی کم لوگ ہیں جو اس قسم کی عبارتوں میں ترددر کھتے ہیں اور انکار ظاہر کرتے ہیں جو کچھ اس فقیر نے ان کے اطلاقات سے ہمہ اوست کے معنی سمجھے ہیں یہ ہیں کہ یہ تمام متفرقہ حادثہ جزئیات ایک ہی ذات تعالیٰ کا ظہور ہیں جس طرح کہ زید کی صورت بیشمار اور متعددآئینوں میں منعکس ہو جائے اور وہاں ظہور پیدا کرلے اور ہمہ اوست کہہ دیں لیکن یہ تمام صورتیں جنہوں نے بے شمارآئینوں میں نمود ظہور پیدا کیا ہے زید کی ایک ذات کا ظہور ہیں ۔ یہاں کئی جزئیت اور اتحاد ہے اور کون سا حلول وتلون ہے زید کی ذات با وجود ان تمام صورتوں کے اپنی صرافت اور اصلی حالت پر ہی ہے ان صورتوں نے اس میں نہ کچھ زیادہ کیا ہے نہ کچھ کم بلکہ جہاں زید کی ذات ہے وہاں ان صورتوں کا نام ونشان تک بھی نہیں تا کہ ان جزئیت اور اتحاد اورحلول وسریان کی نسبت پیدا کریں۔ اَلْاٰنَ کَمَا كَانَ(وہ اب بھی ایسا ہے جیسا کہ پہلے تھا) کا سراس جگہ ڈھونڈنا چاہیئے کیونکہ جس مرتبہ میں حق تعالیٰ ہے وہاں جس طرح ظہور سے پہلے عالم کی گنجائش نہ تھی۔ ظہور کے بعد بھی وہاں عالم کی کوئی گنجائش نہیں۔ فَلَا جَرَمَ يَكُوْنُ اَلْاٰنَ کَمَا كَانَ (پس وہ بالضرور اب بھی ویسا ہی ہے جیسے کہ تھا )عجب معاملہ ہے کہ متقدمین صوفياء میں سے بہت سے بزرگوار اس توحید آمیز عبارت سے حلول و اتحاد سمجھتے ہیں اور اس عبارت کے کہنے والوں کو کافر اور گمراہ کہتے ہیں ۔ ان میں سے بعض اس قسم کی عبارتوں کی توجیہ اس طرح کرتے ہیں کہ کہنے والوں کے مذاق سے اس کو کچھ نسبت و مناسبت نہیں ہوتی۔ صاحب عوارف فرماتا ہے کہ منصور کا أَنَا الْحَقُّ اور بایزید رحمۃ الله علیہ کا سُبْحَانِي کہنا حق تعالیٰ کی طرف سے حکایت کے طور پر تھا اور اگر حکایت کے طریق پر نہ ہو بلکہ حلول و اتحاد کی آمیزش درمیان ہو تو پھر ہم ان اقوال کے کہنے والوں کو رد کرتے ہیں جس طرح کہ نصاری کو رد کرتے ہیں جو حلول و اتحاد کے قائل ہیں حالانکہ تحقیق سابق سے واضح ہو چکا ہے کہ اس قسم کی شطحیہ عبارتوں (ایسی عبارات جس کے ادراک سے ظاہراً عقل عاجز ہے)میں کوئی حلول و اتحاد نہیں ہے۔ اگرحمل ہے تو باعتبارظہور کے ہے نہ کہ باعتبار وجود کے جیسے کہ انہوں نے سمجھا ہے اور حلول و اتحاد کی طرف لے گئے ہیں ۔ مانا کہ یہ مسئلہ توحيد متقدمین صوفياء میں صاف اور واضح نہیں ہوا تھا ان میں سے جو کوئی مغلوب الحال ہو جاتا تھا اس سے اس قسم کے اتحادنما توحیدی کلمات سرزد ہو جاتے تھے اور غلبہ سکر کے باعث اس کے سر کو نہ پاسکتے تھے اور ان عبارتوں کے ظاہر کو حلول و اتحاد کی آمیزش سے پھیر نہ سکتے تھے جب شیخ محی الدین بن عربی قدس سرہ تک نوبت پہنچی اس نے کمال معرفت سے اس مسئلہ دقیقہ کومشرح کیا اور بابوں اور فصلوں میں تقسیم کر کے صرف و نحو کی طرح جمع کیا باوجود اس امر کے پھر بھی اس طائفہ میں سے بعض نے اس کی مراد کون سمجھ کر اس کو خطا کی طرف منسوب کیا اور اس پر طعن وملامت کی اس مسئلہ کی اکثر تحقیقات میں شیخ حق پر تھے اور اس کے طعن لگانے والے دور ازصواب ہیں۔ شیخ کی بزرگی اور اس کے علم کی زیادتی اس مسئلہ کی تحقیق سے معلوم کرنی چاہیئے اور اس کی ردو طعن نہ کرنی چاہیئے اس مسئلہ پر جوں جوں غورو بحث کی جاتی ہے متاخرین کے مختلف فکروں کے ملنے سے واضح اوصاف ہوتا ہے اور حلول و اتحاد کے شہر سے دور تر ہوتا جاتا ہے۔ وہ نحوجو متاخرین نحویوں کےمختلف فکروں کے ملنے سے واضح وصاف ہوا ہے سیبویہ و اخفش کے زمانہ میں ہرگز ایسانہ تھا کیونکہ ہر ایک فن وصنعت کی تکمیل مختلف فکروں کے ملنے پر موقوف ہے۔ حضرت امام اعظم اور ابویوسف رضی اللہ تعالیٰ عنہما مسئلہ خلق قرآن میں چھ مہینے تک ایک دوسرے کے ساتھ بحث کرتے رہے اور ردو بدل فرماتے رہے چھ مہینے کے بعد یہ بات قرار پائی کہ جوکوئی قرآن کومخلوق کہے وہ کافر ہو جاتا ہے اتنی مدت تک یہ بحث ومباحثہ اسی لیے ہوتا رہا کہ یہ مسئلہ واضح وصاف نہیں ہوا تھا اب چونکہ مختلف فکروں کے ملنے سے واضح ہوچکا ہے اس لیے کہہ سکتے ہیں کہ نزاع کا موجب اگر حروف و کلمات ہیں جو کلام نفسی پر دلالت کرتے ہیں تو بے شک حادثات اورمخلوق ہیں اور اگر مراد ان کی مدلولات(معانی) ہیں تو قدیم اور غیر مخلوق ہیں ۔یہ تنقیح مختلف فکروں کے ملنے کی برکت سے ہے اب ہم اصل بات کو بیان کرتے اور کہتے ہیں کہ اس عبارت کے اور معنی بھی ہیں جوحلول و اتحاد سے بعید ہیں یعنی سب نیست ہیں اور حق تعالیٰ ہی موجود ہے نہ یہ کہ یہ سب ہست ہیں اور اس کے ساتھ متحد ہیں اس قسم کی بات کوئی بیوقوف اور نادان بھی نہیں کہتا ۔ بزرگوں سے کسی طرح متصور ہوسکتی ہے چونکہ غلبہ محبت کے باعث محبوب کے سوا کچھ ان بزرگواروں کی نظر سے پوشیدہ ہو جاتا ہے اور اس کے سوا کچھ بھی ان کے شہود(مشاہدہ) میں نہیں رہتا۔ اس لیے ہمہ اوست کہہ دیتے ہیں لیکن یہ سب کچھ جو ثابت دکھائی دیتا ہے سراسر وہم و خیال ہی ہے موجود صرف حق تعالیٰ ہی ہے اس صورت میں نہ جزئیت و اتحاد کی آمیزش ہے نہ حلول وتلون کا گمان لیکن یہ فقیر اس قسم کی عبارتوں کو پسند نہیں کرتا اور اس قسم کے مقاصد سے مبرا ہے کیونکہ حق تعالیٰ کے مرتبه تقدس وتنزہ کے لائق نہیں یہ اشیاء کیا ہیں جو اس کا مظہر ہوسکیں۔
. در کدام آئینہ در آیداو ترجمه و کسی آئینہ میں آتا نہیں
اور ان میں یہ طاقت ومجال کہاں ہے کہ ظہور کے اعتبار سے بھی اس پر محمول ہوئیں اگر مظہر بھی ہیں تو اس کے کمالات کے ظلال میں سے کسی ظل کا مظہر ہیں اور وہ ظل کہ جس کا مظہر ہیں ۔ حق تعالیٰ کے ظلال میں سے وہ ظلال جس سے لے کرذات تعالیٰ تک کئی ہزار ظلال درمیان ہیں آپ نے سناہی ہوگا کہ اِنَّ لِلّٰهِ سَبْعِیْنَ اَلْفَ حِجَابٍ مِّنْ نُّوْرٍ وَّظُلْمَةٍتحقیق الله تعالیٰ کے لئے ستر ہزار پردے نور اور ظلمت کے ہیں۔) پس حق تعالیٰ کے ظلال میں سے کسی ظل کے مظہر کو بے تحاشا حق تعالیٰ پر محمول کرنا بڑی بے ادبی اور دلیری ہے لیکن چونکہ غلبہ سکروحال ہے اس لیے اس قدر مذموم نہیں ۔ اسی طرح دوسری توجہ کے موافق بھی اپنے مشہودکوحق تعالیٰ کا عین جاننا اور اس اعتبار سے اس پرمحمول کرنا بے ادبی بلکہ خلاف واقع ہے کیونکہ وہ مشہود بھی حق تعالیٰ کے کمالات کاظل ہے حق تعالیٰ وراء الوراءثم وراء الوراء ہے ۔ نیز جو کچھ مشہود ہے دہ نفی کے لائق ہے پھر وہ حق تعالیٰ کیسے ہوسکتا ہے۔ حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ فرماتے ہیں کہ جو کچھ دیکھا گیا اور سنا گیا اور جانا گیا سب حق تعالیٰ کا غیر ہے کلمہ لا کی حقیقت سے اس کی نفی کرنی چاہیئے اس مسئلہ میں جو کچھ اس حقیر کے نزدیک مختار اور شان تقدیس وتنزیہ کے مناسب ہے وہ ہمہ از اوست(ہر شے کا وجود حق(اللہ) سے ہے) کی عبارت ہےنہ ان معنی کے لحاظ سے جس پر علماء ظاہر کفایت کرتے اور کہتے ہیں کہ سب کا صدر اورخلق اسی سے ہے کیونکہ یہ خود صادق اور واضح ہے بلکہ اس کے علاوہ یہاں اور علاقہ اور نسبت بھی ہے جس کی طرف علماء نے ہدایت نہیں پائی اور صوفیاء اس کو دریافت کرنے سے ممتاز ہوئے ہیں وہ اصالت وظلیت کا ارتباط اور باہمی رابطہ ہے یعنی اگرممکن کا وجود ہے تو وجود واجب سے ناشی ہے اور اس کے وجود کا پرتو ہے اور اگر حیات ہے تو وہ بھی اسی کی صفت حیات سے پیدا ہے اور اسی کی حیات مقدسہ کا پرتو ہے۔ علم و قدرت و ارادہ بھی اسی قیاس پر ہیں ۔ پس صوفیاء کے طور پر عالم حق تعالیٰ سے صادر بھی ہے اور اس کے کمالات کاظل بھی ہے اور اسی کے منزہ کمالات سے ناشی ہے مثلا وہ وجود جوممکن کو دیا گیا وہ ایسا امر نہیں جو خودمختار ہو اور اس کو خود بخود استقلال حاصل ہو بلکہ وہ وجود واجب تعالیٰ کے وجود کا ظل وپرتو ہے اسی طرح حيات وعلم وغیرہ جو ممکن کو بخشا گیا ہے اس قسم کے امور نہیں ہیں کہ انہوں نے صانع تعالیٰ شانہ سے ثبوت و استقلال پیدا کیا ہے بلکہ ان کا وجودصدورحق تعالیٰ کی طرف سے ہے اور یہ سب حق تعالیٰ کے کمالات کے ظلال اور ان کمالات کی صورتیں اور مثالیں ہیں یہی اصالت اور ظلیت کا ارتباط ہے جس کی طرف صوفیہ نے ہدایت پائی ہے۔ یہی معاملہ صوفہ کو اعلی علیین تک لے گیا ہے اور ان کو فناء و بقاء تک پہنچا کر ولایت خاصہ کے ساتھ متحقق کیا ہے چونکہ علماء ظاہرکو یہ دید میسر نہیں ہوتی اس لئے فنا و بقاء سے بہرہ مند اور ولایت خاصہ کے ساتھ متحقق نہیں ہوئے ۔ صوفياء اپنے کمالات کو واجب تعالیٰ کے کمالات کے عکس جانتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اپنے آپ کو حق تعالیٰ کے کمالات کا امانتدار دیکھتے ہیں اور ان کمالات کا آئنہ معلوم کرتے ہیں جب إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنی امانتوں کو امانت والوں کے حوالہ کر دو ) کے موافق اس امانت کو امانت والے کے حوالہ کرتے ہیں اور پوری طرح ان کمالات کو بڑے ذوق کے ساتھ اصل کو دے دیتے ہیں تو اپنے آپ کو معدوم معلوم کرتے اور میت جانتے ہیں کیونکہ وجود و حیات جب اپنے اصل کی طرف چلے گئے تو پیچھے معدوم و میت رہ گیا اور فنامتحقق ہوگئی مولانا روم فرماتے ہیں ۔ ابیات
چوں بدا نستی تو اوراز نخست سوئے آنحضرت نسب کردی درست
وآنکہ دانستی که ظل کیتسی فارغی گر مردی و گر زیستی
اگر تجھے پہلے سے ہوتی کچھ شناخت اس سے نسبت اپنی کر لیتا درست
جان لے اب بھی کس کا ظل ہے تو پھرتو فارغ کام تیرا ہے چست
اس فنا کے بعد اگر اس کو بقاء سے مشرف کرنا چاہیں تو دوبارہ اس کو وجود اور توابع وجود یعنی صفات کا ملہ اس کو عطا فرماتے ہیں اور دوسری ولایت کے ساتھ اس کو متحقق کرتے ہیں۔ لَنْ يَّلَجَ مَلَكُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ مَنْ لَّمْ يُوْلَدُ مَرَّتَيْنِ ( جو شخص دوبارہ پیدا نہ ہو آسمانوں کے ملکوت میں داخل نہیں ہوسکتا)۔
ھَنِیئًا لأرْبَابِ النَعِیْمِ ِنَعِيْمُهَا ارباب نعمت کو یہ نعمت مبارک
بار خدایا میدان عبارت کی تنگی کے باعث وہ الفاظ جن کا اطلاق شرع میں وارد نہیں ہوا ہے جیسے کے ظليت وغیرہ کا اطلاق کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ ممکن کا وجود واجب تعالیٰ کے وجود کاظل ہے اور اس کی صفات حق تعالیٰ کی صفات کاملہ کے ظلال ہیں۔ ان اطلاقات سے بہت ڈرتا اور کانپتا ہوں لیکن چونکہ تیرے اولیاء نے مجھ سے پہلے ان اطلاقات پر سبقت کی ہے اس لیے معافی کا امیدوار ہوں رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَاتو ہماری بھول چوک پر ہمارا مواخذہ نہ کر)
جاننا چاہیئے کہ سابق تحقیق سے واضح ہوا کہ صوفياء جو کلام ہمہ اوست کے قائل ہیں عالم کو حق تعالیٰ کے ساتھ متحد نہیں جانتے اور حلول وسریان(سرایت) ثابت نہیں کرتے بلکہ ظہور وظلیت کے اعتبار سے حمل کرتے ہیں نہ کہ وجود تحقیق کے اعتبار سے اگرچہ ان کی ظاہر عبارت سے اتحاد وجودی کا وہم گزرتا ہے لیکن ہرگز ہرگز ان کی یہ مرادنہیں کیونکہ یہ کفر والحاد ہے جب ایک کا دوسری پرحمل کرناباعتبارظہور کے ہے نہ باعتبار وجود کے تو پھر ہمہ اوست کے معنی ہمہ ازاوست(ہر شے کا وجود حق(اللہ) سے ہے) ہیں کیونکہ شے کاظل اسی شے سے پیدا ہوتا ہے اگر چہ غلبہ حال میں ہمہ اوست کہتے ہیں لیکن درحقیقت اس عبارت سے ان کی مراد ہمہ از اوست ہے۔ پس اس بیان کے موافق ان کی کلام پر اعتراض کرنے اور اس کلام کے کہنے والے کو کافر گمراہ کہنے کی کوئی مجال نہیں رہی۔ واضح ہو کہ ظل شے سے مراد اس شے کے ظہور سے ہے۔ دوسری یا تیسری یا چوتھی مرتبہ میں مثلا زید کی صورت میں جو آئینہ میں منعکس ہوئی ہے وہ مرتبہ دوم میں زید کاظل اور اس کا ظہور ہے اور زید في حد ذاتہ اپنے وجود اصلی کے مرتبہ میں ہے جس نے اپنے آپ کوظل کے طور پرآئینے میں ظاہر کیا ہے بغیر اس بات کے کہ اس کی ذات و صفات میں تغیر وتبدل واقع ہو جیسے کہ گزر چکا ۔ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ يا الله تو ہمارے نور کو کامل کر اور ہمیں بخش۔ تو ہر چیز پر قادر ہے) وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى (سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایت اختیار کی )
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ258ناشر ادارہ مجددیہ کراچی