توہین رسالت عظیم ترین جرم

توہین رسالت عظیم ترین جرم

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز چراغ مصطفوی سے شرار بو لہبی

                 سید کائنات ﷺ پر صرف ایمان لانا ہی ضروری نہیں بلکہ آپ کی عزت و عظمت اور توقیر و محبت کیلئے جان قربان کرنا بھی عین ایمان ہے کیونکہ اہل اسلام کیلئے آپ کی عزت و حرمت ہی سب سے بڑی متاع ایمان ہے رسول کریم ﷺ کی توہین اور گستاخی بالاجماع کفر ہے اور توہین کرنے والا بالاجماع واجب القتل ہے آئمہ مذاہب نے توہین رسالت چاہے آپ کی ذات کے متعلق ہو ،نسب مبارک کے بارے میں ہو یا کسی صفت کے بارے ہو ، مزید یہ کہ توہین چاہے صراحتاً ہو یا کنایتاً ہو حکم یہی لاگو ہوگا۔

                ہر دور میں دشمنان اسلام کا وطیرہ یہی رہا ہے کہ ایک تسلسل سے آپ ﷺکی ذا ت مبارکہ کی توہین و بے ادبی کر کے امت مسلمہ کو اشتعال دلا تے رہتے ہیں اور ان کے ایمان کے پیمانے کو لبریز ہوتا دیکھ کرآپس میں لڑا کر کمزور دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ یہی ان کی غلط فہمی ہے نام نہاد دانشور اپنی عقل کے مطابق ذات مصطفےٰﷺ کو متنازعہ بنا کر اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی میں مصروف ہیں جبکہ یہ ان کی خام خیالی ہے مسلمان بجائے دوری کے اسی نقطے پہ اکٹھے ہوتے ہیں جس کی مختلف کڑیاں غلام احمد قادیانی، سلمان رشدی، تسلیمہ نسرین،فرانس و ڈنمارک میں گستاخانہ خاکے اور ملک پاکستان میں موجودہ لہر ہے جس کی وجہ سے پوری امت سراپا احتجاج بنکررسول اﷲ ﷺسے وابستگی کا اظہار کر رہی ہے۔سید الانبیاءﷺ سے عقیدت و محبت کا اثر ہے کہ تاریخ کے کسی موڑ پر صریحاً تو کجا کسی نے اشارتا بھی توہین کی تومسلمانوں کے اجتماعی شعورنے ایسے مردود و قبیح فعل کی بھرپورمزاحمت کی اور مرتکبین کو کیفر کردارا دتک پہنچایا۔

                موجودہ حالات میں مغربی تہذیب کے دلدادہ اورمغرب کے نمک خوارمختلف انداز میں توہین رسالت ماٰب کے حق میں یہ دلائل دیتے دیکھے جا رہے ہیں کہ آپ تو بڑے معاف فرمانے والے درگذر کرنے والے رسول تھے اس سے بڑھ کر اس طرح کی لاف زنیاں مارتے ہیں کہ جن گستاخان رسول کو نبی کریم ﷺنے قتل کروایا اس کا مقصد صر ف نعوذ باﷲ ذاتی بدلہ لینا تھا۔یا آپ ﷺ کے کردار پر انگلی اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپﷺ نے سریع الغضب ہوکرجلد بازی میں یہ فیصلے کئے۔

                بھلاوہ رحمۃ اللعالمین ہستی جو اپنے ذاتی اور خاندانی دشمنوں کو فتح مکہ کے موقع پر لا تثریب علیکم الیوم کہہ سکتی ہے کعب بن اشرف،ابن خطلِِ ( جو رسول اﷲ کی ہجو کرتے اور گانے والیوں کو ہجو گانے کو کہتے)اور اس طرح کے دوسروں توہین رسالت والوں سے کیوں انتقام لیتے ؟اس میں مغرب کے حق نمک ادا کرنے والے عموما ذاتی انتقام اور گستاخی میں فرق نہیں کرتے انہیں اس نکتہ پر غور کرنے کی اور سوچنے کی اشد ضرورت ہے توہین رسالت کی سزااﷲ تعالیٰ کی مقرر کردہ ہے کسی انسان کی ذاتی کاوش کا نتیجہ نہیں کہ چاہے قبول کیا جائے یا رد کر دیا جائے۔جبکہ اﷲ کے احترامات کو پامال کرنا قبیح ترین جرم ہے۔

                رسول ﷲ نے اخلاق اتنے عظیم تھے کی اپنی ذات کے دشمنوں کو ہمیشہ معاف فرماتے رہے اسی وجہ سے اﷲ تعالیٰ نے فرمایا

                وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْم(القلم:4)ٍ

                اور بیشک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)۔

                اور آپ کا فرمان ذیشان ہے

                إِنَّمَا بُعِثْتُ لأُتَمِّمَ مَکَارِمَ الأَخْلاَقِ ( سنن الکبریٰ البیہقی)

                میں مکارم اخلاق کی تکمیل کیلئے مبعوث ہو اہوں ۔

                اخلاق عظیم کا منصب ایسے ہی نہیں عطا ہوتا یہ اﷲ کے کرم اور خصوصی عطا کی بات ہوتی ہے جس کی وجہ سے طبیعتوں کادائمی میلان تبدیل ہوتا ہے جس سے دوسروں کے شعور و فکر کے پیمانے تبدیل ہوتے ہیں توایسی ہستی کے متعلق’’ معاذا ﷲ‘‘ سوچنا کہ وہ ذاتی دشمنوں کو شریعت کی حد کہہ کر قتل کرواتا رہا سوائے الزام کے اور کچھ نہیں۔ان کی غلامی میں آنے والے بدو بھی معراج انسانیت پر فائز ہونے والے تھے ۔اخلاق کا کام ہی باطن اور ظاہر کو تبدیل کرنے کا نام ہے

                 آپ ﷺکا پوری زندگی ذاتی انتقام نہ لیناایک ثابت امر ہے جس پر صحیح مسلم کی یہ حدیث گواہ ہے

                وَمَا نِیلَ مِنْہُ شَیْء ٌ قَطُّ فَیَنْتَقِمَ مِنْ صَاحِبِہِ إِلاَّ أَنْ یُنْتَہَکَ شَیْء ٌ مِنْ مَحَارِمِ اللَّہِ فَیَنْتَقِمَ لِلَّہِ عَزَّ وَجَلَّ.

                جس نے بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو کوئی تکلیف پہنچائی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس سے بدلہ نہیں لیا سوائے اس کے کہ جس نے اﷲ کے حکم کی خلاف ورزی کی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اﷲ ہی کے لئے اس سے انتقام لیا۔

                یہاں یہ بھی خیال رکھنا چاہیئے کہ حدود کا قائم کرنا اس گناہ کو ختم کرنا ہوتا ہے اور رسول اﷲ نے ان حدود میں بعض اوقات تبدیلی بھی فرمائی جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث سے ثابت ہے ۔

                حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھا تو ایک شخص نے آکر عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں حد والے گناہ کا مرتکب ہوا ہوں اس لئے آپ مجھ پر حد قائم کریں، آپ نے اس سے اس (گناہ) کے متعلق کے پوچھا، پھر نماز کا وقت آگیا تو اس آدمی نے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی جب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو وہ آدمی پھر آپ کے سامنے کھڑا ہوا اور عرض کیا یا رسول اﷲ میں حد والے گناہ کا مرتکب ہوا ہوں، اس لئے آپ کتاب اﷲ کی حد مجھ پر قائم کریں آپ نے فرمایا کہ تو نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی ہے اس نے کہا ہاں پڑھی ہے، آپ نے فرمایا کہ اﷲ نے تیرے گناہ کو اور تیری حد کو بخش دیا۔(بخاری)

                رسول اﷲ ﷺنے اﷲ کی حد کیلئے قتل کرنے کا حکم دیا اپنی ذات کیلئے کئی لوگوں کو معاف فرمایااور اس حدود کے قائم ہونے کے بعد سوائے توہین رسالت کے باقی گناہ معاف ہوتے ہیں ۔

                حد قائم ہونے سے مراد صرف سزا نہیں بلکہ اس گناہ کا ازالہ ہے جو اس نے کیا اس بات کا اشارہ اس حدیث مبارکہ سے ملتا ہے جب انہیں زنا پہ سنگسار کیا گیاتو رسول اﷲﷺ نے فرمایا ۔

                ماعز بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے لیے بخشش مانگو صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا اﷲ نے ماعز بن مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو معاف کردیا۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا لَقَدْ تَابَ تَوْبَۃً لَوْ قُسِمَتْ بَیْنَ أُمَّۃٍ لَوَسِعَتْہُمْکہ انہوں نے ایسی خالص توبہ کی ہے کہ اگر اس کو امت میں تقسیم کردیا جاتا تو ان سب کے لیے کافی ہو جاتی۔(مسلم)

                اسلامی احکامات کا ذکر کرنے سے پہلے اقوام متحدہ کے ایک قانون کا ذکر مناسب ہے جسے مغربی فکر رکھنے والے عموما ًحرف آخر جانتے ہیں حالانکہ یہ انسانوں کا بنایا قانون ہے ۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اعلامیہ 1948کی شق 18میں لکھا ہے۔

                ’’ہر انسان خیال ،ضمیر اور مذہب کی آزادی رکھتا ہے لیکن اس اظہار خیال کی آزادی کا مطلب ہر گز یہ نہ ہو گا کہ کوئی بھی شخص دوسروں کی دل آزاری کرے‘‘

                تقریبا اس قانون کے تحت’’ ہولو کاسٹ‘‘ کی ساٹھ لاکھ تعداد کو چیلنج کرنے والے صحافیوں کو قید وبند اس لئے رکھا گیا کہ اس سے یہودیوں کی دل آزاری ہوئی ہے جبکہ اہل اسلام کی اتنی بڑی تعداد کی دل آزاری کو یہی جمہوری قوتیں دل آزاری ہی نہیں سمجھتیں۔

                جب توہین رسالت کا جرم اﷲ کی حدود میں ہے تو اس حد کا نفاذ رسول اﷲ ﷺنے توہین رسالت کے مرتکبین کیلئے استعمال کیا آپ ﷺ شارع ہیں اور شارع کا منصب ہی شریعت کا نفاذ ہے اور امت کیلئے ایسی روایات چھوڑنا ہے جو منشائے خداوندی کے مطابق ہوں۔اور یہی چیز رسول اﷲ ﷺ نے بطور مثال چھوڑی اور امت مسلمہ کے فقہاء و علماء نے اسے عملی طور پر امت میں لاگو کیا ۔

                غزوہ بد ر کے قیدیوں میں نضر بن حارث اور عقبہ بن معیط کو عام قیدیوں کے برعکس قتل کیا گیا(صرف ان کے قتل کا حکم دیا گیا) اس کی وجہ یہی گستاخی اور توہین رسالت تھی جو کفر سے بھی شدیدتر ہے عام کفار اگر جنگ نہ کریں تو انہیں ایک معاہدہ کے ذریعے ذمی کے طور پر امان دی جاتی ہے کیونکہ تمثیلاً وہ پھلدار درخت کے پھل کو کاٹنے کے درپے ہوتا ہے لیکن توہین رسالت کا مرتکب ایسا ہی ہے جیسا پھل بھی کاٹتا ہے اور اس درخت کی جڑوں کو کاٹنے کے درپے ہے یہ دونوں جرم مختلف ہیں اور ان کی سزا بھی جدا ہے۔

                حضرت سعد رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ جب فتح مکہ کا دن آیا تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے تمام لوگوں کو امن دیا مگر چار مردوں اور عورتوں کو اس سے مستثنی رکھا۔ جب رسول اﷲ صلی علیہ وسلم نے لوگوں کو بیعت کے لئے بلایا تو حضرت عثمان نے بن سرح ( یہ حضرت عثمان کے رضاعی بھائی کاتب وحی تھے جو لوگوں کو کہتے تھے کہ میں اپنی مرضی سے قرآن میں تبدیلی کرتا تھا )کو آپ کے سامنے لا کھڑا کیا اور بولے اے اﷲ کے نبی عبداﷲ سے بیعت لے لیجئے آپ نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور بیعت نہ کی اور تین مرتبہ آپ نے ایسا ہی کیا تین مرتبہ انکار کرنے کے بعد آپ نے بیعت لی اور اپنے اصحاب سے فرمایا کیا تم میں کوئی بھی اتنا سمجھدار نہ تھا کہ جب میں نے اس کی بیعت لینے سے ہاتھ کھینچ لیا اور بیعت نہ کی تو اس کو قتل کر ڈالتا صحابہ نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہم نہیں سمجھ پائے کہ آپ کے دل میں کیا ہے اگر آپ آنکھ سے بھی اشارہ کر دیتے تو ہم اس کو قتل کر ڈالتے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا نبی کو زیب نہیں دیتا کہ اس کی خیانت کرنے والی آنکھ ہو (یعنی نبی کیلئے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ چپکے چپکے آنکھوں سے اشارے کنائے کرے)( ابوداؤد)

                عبد اﷲ ابن ابی سرح کو معافی تو مل گئی لیکن اس معافی کی وجہ ان کا رسول اﷲﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہونا اور حضرت عثمان غنی کا امان دینا شامل تھا لیکن اس کے باوجود رسول اﷲ کا منشاء یہی تھا کہ توہین رسالت کا مرتکب قتل ہی ہوتاتو بہتر تھا لہذا امت پر فرض یہی ہے کہ منشائے رسول کا احترام کرے ورنہ رسول اﷲ ﷺ کی مخالفت ہوتی ہے جو بذات خود کفر ہے ۔

                گستاخی کی سزا عام گناہوں کی طرح سزا نہیں جیسے عمومی طور پر لوگ خیال کرتے اور توہین رسالت کے قانون کو سخت کہہ کر اسلام پر انگلیاں اٹھاتے ہیں اور یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ یہ غیر مسلموں کیلئے مخصوص قانون نہیں بلکہ اگر توہین رسالت کوئی مسلمان بھی کریگا تو اس کی بھی یہی سزا ہو گی ۔جیسا کہ مندرجہ ذیل عبارت سے ظاہر ہے

                أجْمَع عَوامّ أہلی الْعِلْم عَلَی أن من سَبّ النَّبِیّ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہ وَسَلَّم یُقْتَل( کتاب الشفا،عمدۃ القاری)

                تمام علما کا اس بات پر اجماع ہے کہ حضور ﷺ کی توہین کرنے والے کی حد یہ ہے کہ اسے قتل کیا جائے ۔

                اس سے واضح ہوا کہ توہین رسالت ناقابل معافی جرم اور سب سے بڑا گناہ ہے۔

                عام جرم یا عام کفر کی وضاحت کیلئے اعلیٰ حضرت عظیم البرکت الشاہ احمد رضا خان صاحب فتاویٰ رضویہ جلد 14 صفحہ 302پر فرماتے ہیں۔

                ’’نشہ کی بیہوشی میں اگر کسی سے کفر کی کوئی بات نکل جائے اسے بوجہ بیہوشی کافر نہ کہیں گے نہ سزائے کفر دیں گے مگر نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی وہ کفر ہے کہ نشہ کی بیہوشی سے بھی صادرہوا تو اسے معافی نہیں دینگے‘‘

                مزید وضاحت کیلئے فقہ حنفی کے مسلمہ کتاب کا یہ حوالہ بھی پیش نظر رہے

                کُلُّ کَافِرٍ تَابَ فَتَوْبَتُہُ مَقْبُولَۃٌ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ إلَّا جَمَاعَۃُ الْکَافِرِینَ بِسَبِّ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ

(الْأَشْبَاہُ وَالنَّظَائِرُعَلَی مَذْہَبِ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ النُّعْمَانِ)

                ہر کافر کی توبہ دنیا و آخرت میں مقبول ہے سوائے اس کافروں کی جماعت کے جس نے نبی ﷺ کی گستاخی کی ہو ۔

                 منافقین بھی اسی قسم کی گستاخیاں کرتے تھے جن کا ذکر پچھلی آیات میں موجود ہے تو ایسی گستاخیوں پر اﷲ تعالیٰ نے رسول اﷲﷺ کو فرمایا کہ اے حبیب ﷺاگر آپ بھی ان کیلئے استغفار فرمائیں تو اﷲ انہیں نہیں بخشے گا۔

اِسْتَغْفِرْ لَہُمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ اِنْ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً فَلَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَہُمْ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ کَفَرُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ (التوبہ 80)       

                آپ خواہ ان (بدبخت، گستاخ اور آپ کی شان میں طعنہ زنی کرنے والے منافقوں) کے لئے بخشش طلب کریں یا ان کے لئے بخشش طلب نہ کریں، اگر آپ (اپنی طبعی شفقت اور عفو و درگزر کی عادت کریمانہ کے پیشِ نظر) ان کے لئے ستر مرتبہ بھی بخشش طلب کریں تو بھی اﷲ انہیں ہرگز نہیں بخشے گا، یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے اﷲ اور اس کے رسول (صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کفر کیا ہے،

جس طرح حدود کا معاملہ ہے باقی حدود میں توبہ پر معافی ہے لیکن اس میں نہیں ہے ۔

                توہین رسالت اس قدر نازک مسئلہ ہے کہ اس کے مرتکب کی سزا اﷲ تعالیٰ کی توہین سے بھی اشد ترین ہے اسی لئے علمائے امت نے اس کی سزا پہ کسی نرمی کا پہلو باقی نہیں رکھامثلاًکتاب حاشیہ الصاوی علی الشرح الصغیرمیں ہے

                ’’اﷲ تعالیٰ کی توہین کرنے والے کی توبہ قبول ہے لیکن انبیاء کی توہین کرنے والے کی توبہ قبول نہیں اس کی وجہ یہ کہ اﷲ تعالیٰ تو عقلا ہر عیب سے پاک ہے اسلئے توبہ قبول ہو جائیگی باقی رہے خواص تو ان کا پاک ہونا اﷲ تعالیٰ کے بتانے سے ہوا ان کی اپنی ذات کی وجہ سے نہیں اس لئے اس بارے میں سختی کی جائیگی اور توبہ قبول نہ ہو گی‘‘

                توہین رسالت کا تعلق انسانی حقوق سے بھی نہیں ہے اسی لئے امت مسلمہ کے اکابرین نے کبھی اس پہ نرمی یا کمزوری نہیں دکھائی ورنہ کبھی تو یہ معاملہ زیر غور آتاوَمَنْ أَحْیَاہَا فَکَأَنَّمَا أَحْیَا النَّاسَ جَمِیعًا(جس نے ایک انسان کی زندہ رکھا تو گویااس نے سارے انسانوں کی زندہ رکھا( حیات انسانی کا اجتماعی نظام بچا لیا) توہین رسالت کوئی قتل و غارت کیلئے نہیں بلکہ اﷲ کی حدود کو قائم رکھنے کیلئے جسے اﷲ تعالیٰ نے فرمایاکہ میری حدوں کو قائم رکھنے میں اہل عقل کیلئے زندگی کے سامان موجود ہیں۔

                اسی وجہ سے علمائے امت نے ہر پہلو کو مد نظر رکھا جیسا کہ امام ابن ہمامؒ کی اس عبارت سے واضح ہوتا ہے۔

                وَاَلَّذِی عِنْدِی أَنَّ سَبَّہُ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ أَوْ نِسْبَۃَ مَا لَا یَنْبَغِی إلَی اللَّہِ تَعَالَی إنْ کَانَ مِمَّا لَا یَعْتَقِدُونَہُ کَنِسْبَۃِ الْوَلَدِ إلَی اللَّہِ تَعَالَی وَتَقَدَّسَ عَنْ ذَلِکَ إذَا أَظْہَرَہُ یُقْتَلُ بِہِ وَیُنْتَقَضُ عَہْدُہ(رد المحتار)

                 کہ میرے نزدیک جو نبی کی گستاخی کرتا ہے یا اﷲتعالیٰ سے ایسی بات منسوب کرتا ہے جو شان الہٰی کے منافی ہو تو انہیں قتل کیا جائے گا سوائے اس بات کے جو ان کے اعتقادات میں شامل نہ ہو جیسے یہودو نصاری اﷲ کا بیٹا کہتے ہیں ( یہ بھی شان الٰہی کے منافی ہے)

                توہین رسالت کے حساس ہونے کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ یہ معاملہ ظاہر ی اعمال پر ہی منحصر نہیں بلکہ صرف دل میں یہ بھی سوچنا کہ میں رسول اﷲ سے افضل ہوں اس میں شامل ہو تا ہے اس غیب کی خبریں دینے والے پیغمبر سے کچھ بھی پنہاں نہ تھا لہذا مندرجہ ذیل واقعہ میں اس کی قلبی کیفیت کو دیکھ کر ہی واجب القتل ہونے کا حکم لگا دیا ۔

                مدینہ منورہ میں بڑا ہی عابد و زاہد نوجوان تھاکسی نے رسول اﷲ کے سامنے ذکر کیا آپ پہچان نہ سکے ایک دن اچانک سامنے آگیا صحابہ نے اس کی عبادت کا ذکر کرتے ہوئے رسول اﷲ کویاددہانی کرائی آپ ﷺ نے فرمایا ’’میں اس کے چہرے پر شیطان کے دھبے دیکھتا ہوں پھر پوچھا أَحَدَّثْتَ نَفْسَکَ آنِفًا أَنَّہُ لَیْسَ فِی الْقَوْمِ رَجُلٌ أَفْضَلَ مِنْکَ؟ ابھی تواپنے دل میں یہ نہیں سوچ رہا تھا کہ تجھ سے افضل یہاں کوئی نہیں ؟اسنے جوابدیا کہ ہاں وہ نماز کیلئے مسجد میں داخل ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا کون اسے قتل کریگا ؟

( مصنف عبد الرزاق خصائص الکبریٰ)

                 نبی کریم ﷺ کی توہین یا آپ کی بے ادبی حبط اعمال کا ذریعہ ہے اور مباح الدم یا واجب القتل صرف وہ شخص ہوتا ہے جو ایمان لانے کے بعد کفر کرے یہ شخص بھی بے ادبی کی وجہ سے مباح الدم ہو گیا تھا جس کے قتل کا حکم دیاگیا یہی معاملہ جب منافقین نے توہین اور استہزاء کی صورت میں کیا تو اسے قرآن لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ کَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ سے تعبیر کرتا ہے (اب جھوٹے عذر نہ کرو تم ایمان لانے کے بعد کفر کر چکے ہو )

                بِشر منافق جس نے رسول اﷲﷺکے فیصلے کو تسلیم نہ کرتے ہوئے یہودی کوحضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے پاس فیصلہ کیلئے لے گیاآپ نے قتل کرتے ہوئے یہ فرمایا ہَکَذَا أَقْضِی لِمَنْ لَمْ یَرْضَ بِقَضَاء ِ اللَّہِ وَرَسُولِہِ جو اﷲ اور اس کے رسولﷺ کا فیصلہ تسلیم نہیں کریگا عمر کا اس کیلئے فیصلہ یہی ہے (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ)

                َ أَنَّ رَجُلًا قَالَ لَہُ : سَمِعْت رَاہِبًا سَبَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : لَوْ سَمِعْتہ لَقَتَلْتہ ، إنَّا لَمْ نُعْطِہِمْ الْعُہُودَ عَلَی ہَذَا( فتح القدیر، احکام القرآن للجصاص،تفسیر مظہری)

                 ایک آدمی نے حضرت حفص رضی اﷲ عنہ کو بتایا کہ میں نے ایک راہب کو دیکھا جو نبی کی گستاخی کرتا تھا تو انہوں نے جواب میں فرمایااگر میں سنتا تو اسے قتل کر دیتا ہم ان سے اس بات پر معاہدہ نہیں کرتے ۔

                رسول اﷲ ﷺنے توہین رسالت کی سزا کو بطور حد قائم فرمایا اس پہ اکابرین کے یہ اعمال گواہ ہیں۔

                کنز العمال کتاب الشفا اور تاریخ طبری میں ہے کہ جب امیر یمامہ نے رسول اﷲکی ہجو گانے والی دو عورتوں کے دوسامنے کے دانت اور ایک ہاتھ کاٹ دیا تو حضرت ابوبکررضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ اگر مجھے پہلے پتہ چلتا تو میں تجھے ان کے قتل کا حکم دیتا کیونکہ انبیاء علیھم السلام کی توہین کی سزا دوسری سزاؤں سے مختلف ہوتی ہے ۔

                مرتد بھی واجب القتل ہے لیکن حضرت عمررضی اﷲ عنہ اسے تین دن توبہ کی مہلت دیتے ہیں جبکہ توہین رسالت کیلئے اس مہلت کے بھی قائل نہیں (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح )

                علامہ ابن حجرؒ مکی کا فرمان ہے

                جو یہ ارشادفرمایا کہ نبی ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کرنے والا کافر اور جو اس کے کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے یہی مذہب ہمارے آئمہ وغیرھم کا ہے

                جب خلیفہ ہارون الرشید نے امام مالک سے کہا کہ فقہائے عراق نے فتویٰ دیا ہے کہ نبی کو گالی دینے والے کو کوڑے لگائے جائیں توآپ نے فرمایا

                یَا أَمِیر الْمُؤْمِنین مَا بَقَاء الْأُمَّۃ بَعْد شَتْم نَبِیّہَا؟(کتاب الشفاء )

                اے امیر المومنین اس امت کو زندہ رہنے کاکوئی حق نہیں جس کے نبی کو گالیاں دی جائیں ؟

                جو شخص توہین رسالت کا مرتکب ہو اس کی توبہ بھی قبول نہیں ہو سکتی ۔

                 جو رسول اﷲ ﷺ یا کسی بھی نبی کی شان میں گستاخی کریاس دنیا میں باوجود توبہ کرنے کے اسے سزا دی جائیگی یہاں تک کہ اگر نشہ کی حالت میں ہوش میں نہ بھی ہولیکن کلمہ گستاخی کی سزا اسے لازمی دی جائے گی تمام علمائے امت کا اجماع ہے ۔ اور یہ حکم عام ہے کہ کسی بھی نبی کی توہین کی جائے۔

                مَنْ کَذَّبَ وَاحِدًا مِنَ الْأَنْبِیَاء ِ فَقَدْ کَذَّبَ سَائِرَہُمْ لِاتِّفَاقِہِمْ فِی الدَّعْوَۃِ إِلَی کُلِّیَّاتِ الشَّرَائِعِ(تفسیر فتح القدیر)

                جو تمام انبیاء میں سے کس ایک نبی کو بھی جھٹلائے گا تو بالاتفاق سب کا اس نے جھٹلایاکیونکہ ان کی دعوت متفق اور شریعت اکٹھی ہیں

                ٌ وَأَمَّا إذَا سَبَّہُ – عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ – أَوْ وَاحِدًا مِنْ الْأَنْبِیَاء ِ مُسْلِمٌ وَلَوْ سَکْرَانَ وَأَنَّہُ یُقْتَلُ حَدًّا وَلَا تَوْبَۃَ لَہُ

                 نبی کریم ﷺ یا انبیاء میں سے کسی بھی نبی کی توہین و گستاخی وہ اگر نشہ کی حالت میں بھی کریگا تو اس کی حد یہی ہے کہ وہ قتل کیا جائیگا اور اس کی توبہ قبول نہیں کی جائیگی(درر الحکام شرح غرر الأحکام)

                ِ مَنْ شَکَّ فِی عَذَابِہِ وَکُفْرِہِ فَقَطْ کَفَرَ(مجمع الأنہر فی شرح ملتقی الأبحر)

                 جو شخص اس کے عذاب اور کفر میں شک بھی کریگا وہ خودکافر ہو گا

                وَالْحَاصِلُ أَنَّہُ لَا شَکَّ وَلَا شُبْہَۃَ فِی کُفْرِ شَاتِمِ النَّبِیِّ – صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ – وَفِی اسْتِبَاحَۃِ قَتْلِہِ، وَہُوَ الْمَنْقُولُ عَنْ الْأَئِمَّۃِ الْأَرْبَعَۃِ(رد المحتار علی در المختار)

                اور حاصل یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کو گالی دینے والے کے کفر اور مستحق قتل ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں یہ چاروں آئمہ سے منقول ہے ۔

                رسول اﷲ ﷺ کی زندگی میں آپ کا عمل ہی شریعت کی حد تھا آپ ﷺ نے توہین رسالت کرنے والوں کو قتل کرایا اب آپ ﷺ کے وصال کے بعدتمام امتیوں پر لازم ہے کہ وہ آپ ﷺکے منشاء کے مطابق عمل پیرا ہوں اور توہین کرنے والوں کی ہر قسم کی سرکوبی کریں اور شریعت کی حدود کی حفاظت اسی شریعت کے قائم کرنے میں ہے اور شریعت کا تقاضا یہی ہے کہ توہیں رسالت کا منکر قتل ہو

                 احکام دین تین ہے

                ایک دلیل اﷲ کی کتاب ہے دوسری دلیل احادیث نبویہ ہیں اور تیسری دلیل اجماع امت ہے ان تینوں ذرائع کے اعتبار سے توہین رسالت کی سزا قتل ہے جبکہ رسول اﷲ ﷺکی ذات اقدس ان تینوں کا خلاصہ بلکہ خلاصہ کائینات ہے اور آپﷺ کی زندگی میں آپ کا عمل ہی حد تھا جسے چاہتے اس پرحد جاری فرماتے اور جس کیلئے چاہتے منسوخ فرمادیتے جس طرح معترضین کہتے ہیں کہ صرف تین چیزوں میں حد لگائی تو آپ ﷺنے کئی حدود میں معافی عطا فرمائی جبکہ کئی مقامات پر تبدیلی فرمائی جیسے سورہ المجادلہ میں حضرت خولہ اورخویلہ بنت ثعلبہ رضی اﷲ تعالیٰ عنھما کے معاملہ میں غلام آزاد کرنے ،ساٹھ روزے رکھنے اور ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کا حکم دیا پھر اس کوفرمایا جاؤ بنی زریق میں صدقہ وصول کرنے والے سے کجھور یں لے کر مسکینوں میں تقسیم کرو اور گھر والوں کو بھی کھلاؤ(تفسیر مظہری) یا جس طرح حضرت انس رضی اﷲ عنہ کی روایت پہلے گذری کہ رسول اﷲ نے اپنی قتداء میں نماز پڑھنے پر حد ساقط فرمادی۔یہ اس لئے بھی ہے کہ آپ ک ہر عمل وحی خدا کے ضمن میں ہے جس کی گواہی اﷲ کا قرآن دیتا ہے ۔وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے۔ایسے اعمال میں تائید خدا وندی شامل ہوتی ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل آیت کریمہ سے ثابت ہے

                مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّیْنَۃٍ اَوْ تَرَکْتُمُوْہَا قَایِمَۃً عَلٰٓی اُصُوْلِہَا فَبِاِذْنِ اللّٰہِ وَلِیُخْزِیَ الْفٰسِقِیْنَ (الحشر: 5)

(اے مومنو! یہود بنو نَضیر کے محاصرہ کے دوران) جو کھجور کے درخت تم نے کاٹ ڈالے یا تم نے نہیں ان کی جڑوں پر کھڑا چھوڑ دیا تو (یہ سب) اﷲ ہی کے حکم سے تھا اور اس لئے کہ وہ نافرمانوں کو ذلیل و رسوا کرے۔

                قرآن مجید

                (1)اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَاَعَدَّ لَہُمْ عَذَابًا مُّہِیْنًا( الاحزاب 57)

                بیشک جو لوگ اﷲ اور اس کے رسول (صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) کو اذیت دیتے ہیں اﷲ ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت بھیجتا ہے اور اس نے ان کے لئے ذِلّت انگیز عذاب تیار کر رکھا ہے

                 اﷲ کو اذیت دینے کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ اس کی نافرمانی کی جائے اور دوسرے یہ کہ اس کے رسول کو اذیت دی جائے، کیونکہ جس طرح رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت اﷲ کی اطاعت ہے اسی طرح رسول صلی اﷲ علیہ وسلم پر طعن اﷲ پر طعن اور رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی نافرمانی اﷲ کی نافرمانی ہے۔ رسول کی نافرمانی فی الحقیقت اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی ہے تبھی اس کی سزا سب سے زیادہ اور اس جرم کو قبیح کہا گیا ۔ اسی طرح اﷲ کے رسول کو ستانا اورتکلیف پہنچانا فی الحقیقت اﷲ کو دکھ پہنچانا ہے۔ پھر آخر اﷲ تعالیٰ ایسے لوگوں کو ذلت و رسوائی کا عذاب کیوں نہ دے گا۔

                (2)وَالَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ رَسُوْلَ اللّٰہِ لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ( التوبہ 61)

                اور جو لوگ رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) کو (اپنی بدعقیدگی، بدگمانی اور بدزبانی کے ذریعے) اذیت پہنچاتے ہیں ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔

                 اس آیت کی تفسیر میں قاضی ثنا اﷲ پانی پتی فرماتے ہیں

                وہ لوگ کوئی عذر قابل فائدہ نہیں پیش کرسکیں گے (تفسیر مظہری ، ص 255، ج۴)

                رئیس المحققین عمدۃ المفسرین علامہ آلوسی بغدادی ؒ اپنی شہرہ آفاق تفسیر روح المعانی میں فرماتے ہیں کہ آیت مذکورہ میں لفظ رسول ﷺ کی اضافت لفظ ِ اﷲ کی طرف نہایت تعظیم کیلئے ہے اور اس بات کی طرف تنبیہ ہے کہ رسول پاک ﷺ کی ایذا رسانی کو اﷲ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب فرما کر انتہا ئی قہر و غضب اور درد ناک عذاب دینے کا اعلان فرمایا ہے ۔ اسی طرح اﷲ تعالیٰ کا ایک اور فرمان ہے کہ :

                (3)وَلَیِنْ سَاَلْتَہُمْ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّمَا کُنَّا نَخُوْضُ وَنَلْعَبُ قُلْ اَبِاللّٰہِ وَاٰیٰتِہٖ وَرَسُوْلِہٖ کُنْتُمْ تَسْتَہْزِء ُ وْنَ لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ کَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ اِنْ نَّعْفُ عَنْ طَایِفَۃٍ مِّنْکُمْ نُعَذِّبْ طَایِفَۃً بِاَنَّہُمْ کَانُوْا مُجْرِمِیْنَ (التوبہ65،66)

                 اور اگر ان سے پوچھا جائے تو یقینا یہ کہیں گے کہ بیشک ہم کھیل رہے تھے آپ فرما دیجئے ( اظہار و قہر و غضب کے طور پر ) کہ یہ کیاتم اﷲ کے ساتھ اور اسکی آ یتوں اور اس کے رسولوں کے ساتھ تم مسخرے کرتے ہو اب تم جھوٹا ؑزر مت کرو کہ تمھارا کفر ظاہر ہو گیا کہ تم لوگوں نے رسول کریم ﷺ پرطعن کیا ہے حالانکہ تم پہلے ایمان ظاہر کر چکے ہو۔

                تفسیر ابن کثیر ص367،ج 2میں ہے کہ تم نے اپنا کفر ظاہر کیا حالانکہ پہلے ایمان ظاہر کر چکے ہو۔ اس طرح کہ تم نے مذاق اڑایا۔

                تفسیر جمل ص 291، ج ۲میں ، تفسیر خازن ص 96، ج 2، بغوی صاوی ، ص 134، ج 2، میں ہے کہ تم نے اﷲ تعالیٰ کے ساتھ استہزاء کیا یعنی اس کے فرائض اسکے حدود ، اس کے احکام کا مذاق اڑایا ہے اس سے مراد اﷲ کی کتاب ، اس کی ذات اور اس کے محبوب ﷺ ہیں۔اسی طرح صاوی ، مدارک ص 134، ج2، تفسیر کشاف ص 286، ج 2، میں بھی مذکور ہے اور صاحب تفسیر مظہری صاحب تفسیر کبیر ، ص469، ج2، فرماتے ہیں کہ دین کے ساتھ استہزاء کرنا یا مذاق اڑانا ، جس طرح بھی ہو کفر ہے کیونکہ یہ تحقیر ہے۔اسی طرح صاحب عمدۃ القاری شارح بخاری ، ص 124، ج 1، میں فرماتے ہیں کہ ایسے شخص کے کفر کے بارے میں کوئی شک نہیں جس کاعقیدہ حضور ﷺکی تعظیم و تکریم کا نہ ہو۔علامہ شامیؒ فرماتے ہیں کہ بعض احناف فقہاء کے نزدیک حضور ﷺ کی شان میں گستاخانہ الفاظ ذکر کرنے والے کی توبہ بھی قبول نہیں ہو تی۔

                (4)مَّلْعُوْنِیْنَ اَیْنَـمَا ثُــقِفُوْٓا اُخِذُوْا وَقُتِّلُوْا تَــقْتِیْلًا (الاحزاب61)

                (یہ) لعنت کئے ہوئے لوگ جہاں کہیں پائے جائیں، پکڑ لئے جائیں اور چن چن کر بری طرح قتل کر دیئے جائیں

یہ فعل قتل کی کثرت پر دلالت کرتا ہے۔

                 حدیث مبارکہ

                اس میں بہت احادیث مبارکہ ہیں اجمالاً چند ایک کا ذکر ہے

                (1)حضرت ابن عباس کی روایت جس میں نابینا کا ام ولد باندی کا قتل کرنا (سنن ابی داؤد)

                (2)حضرت علی سے مروی حدیث جس میں یہودیہ کو قتل کیا گیا تو آپ ﷺ نے قاتل کا خون معاف کر دیا (ابوداؤد)

                 (3)حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہ کی روایت جس میں کعب بن اشرف کا قتل رسول اﷲ کے حکم سے کیا گیا(بخاری)

                (4)حضرت انس رضی اﷲ عنہ کی حدیث جس میں ابن خطل کو کعبہ کے پردے سے نکال کر قتل کیا گیا (بخاری)

                ابن سرح کا ذکر، مدینہ کے اس ظاہری عابد جوان کا ذکر، بشرمنافق جسے سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے قتل کیا تفصیل سے اسی مضمون میں کیا جا چکا ہے

                فقہائے کرام

                اکثر علماء وفقہاء اور محدثین کے نزدیک توہین رسالت کرنے والے کی توبہ قبول نہ ہوگی اور نہ ہی سزائے قتل معاف ہو گی

                وَقَدْ نَقَلَ الْمُنْذِرِ الِاتِّفَاقَ عَلَی أَنَّ مَنْ سَبَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَرِیحًا وَجَبَ قَتْلُہُ

                وَقَالَ الْخَطَّابِیُّ لَا أَعْلَمُ خِلَافًا فِی وُجُوبِ قتلہ إذا کان مسلما( عون المعبود شرح ابو داؤد)

                المنذر نے نقل کیا ہے اس بات پر اتفاق ہے کہ جس نے صریح توہین رسالت کی وہ واجب القتل ہے اور خطابی کہتے ہیں اگر توہین کرنے والامسلمان ہے تو اس کے قتل کرنے کے واجب ہونے میں مجھے کسی کے اختلاف کا علم نہیں۔

                (رد المختارعلی الدر المختار، ص 400، ج3 )اور کافر جو کسی بھی نبی علیہ السلا م کی شان میں برے الفاظ استعمال کرنے کی وجہ سے ہواشش ہے تو اسے قتل کیا جائے گا اور اسکی روبہ قبول نہیں کی جائے گی مطلقاً۔اور اگر اﷲ تعالیٰ کی شان میں برے الفاظ استعمال کئے ہوں تو اس کی توبہ قبول ہو سکتی ہے کہ یہ اﷲ کا حق ہے اور وہ بندے کا حق ہے جو ان سے معافی مانگے بغیر قبول نہیں ہوتا۔اور جو ایسے شخص کے کفر اور عذاب میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔

                علامہ شامی حنفی ؒ فرماتے ہیں کہ ۔۔۔اس لئے کہ حد توبہ کرنے کے ساتھ ساقط نہیں ہوتی ۔ اور اس کا یہ فائدہ ہوا کہ یہ حکم دنیا کے ساتھ ہے البتہ آخرت میں اﷲ تعالیٰ کے نزدیک اسکی توبہ قابل قبول ہے۔(ردالمختار علی الدر المختار ، ص 400، ج ۳):

                صاحب خلاصہ الفتاویٰ ص 386 ،ج4، میں ذکر فرماتے ہیں ــ’’: اور ذکر کیا گیا ہے محیط میں کہ جس نے نبی اکرمﷺ کو برا بھلا کہا یا آپﷺکی اہانت کی یا آپ ﷺ پر دین کے بارے میں یا آپ ﷺ کی شخصیت کے بارے میں یا کسی بھی وصف کے بارے میں کوئی بھی عیب لگایا خواہ وہ شخص آپ ﷺ کی امت میں سے ہو یا کوئی غیر ہو خواہ وہ اہل کتاب سے ہو یا غیر خواہ وہ ذمی ہویا حربی خواہ اس سے الفاظ یا اسکی وہ اہانت یا عیب لگانا اس سے قصداًصادر ہوا ہو یا بھول کر یا غفلت میں یا مذاق میں صادر ہوا ہو۔ان تمام صورتوں میں وہ شخص دائمی کفر کے ساتھ کافر ہوا ہے۔اب کسی بھی طرح سے اس کی توبہ ہمیشہ کیلئے قبول نہیں نہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک اور نہ ہی بندوں کے نزدیک ، اور شریعت مطہرہ میں ان کا حکم تمام متاخرین مجتھدین ؒ کے نزدیک اور متقدمین کے نزدیک یہ ہے کہ اس کو قتل کیا جائے گا۔یقینا، اور بادشاہ یا اس کانائب اس کے قتل میں کوئی سستی نہیں کریں گے۔

                بعض لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ توبہ قبول کرنا اسلام کے منافی نہیں

                ایک قاتل کی حد توبہ سے ساقط نہیں ہوتی زنا والے کی حد توبہ سے ساقط نہیں ہوتی تو کیا گستاخی کی سزا ان جرائم سے بھی کم ہے اگر ایسا نہیں اور یقینا ایسا نہیں تو ناموس رسالت کا مقام بہت ارفع و اعلیٰ ہے تو ماننا پڑے گا توہین رسالت کی حد بھی توبہ سے معاف نہیں ہو سکتی

یہ حق چونکہ صرف رسول اﷲ کا ہے اور بندے کا حق معاف کرنا قاضی یا عدالت کے اختیار میں نہیں ہوتا لہذا توہین رسالت کرنے والے کی توبہ عند اﷲ تو قبول ہو سکتی ہے لیکن عدالت اس پہ حد لازمی جاری کرے گی ۔اور توبہ کا معاملہ اﷲ کے ساتھ ہو گاجو اسے آخرت میں فائدہ دے گا جو معاف کرنے والے واقعات بطور دلیل دئیے جاتے ہیں وہ ابتدائی دور سے تعلق رکھتے ہیں پھر جب اسلام کو طاقت ملی تو حکم ہوا

اکثر علماء وفقہاء اور محدثین کے نزدیک توہین رسالت کرنے والے کی توبہ قبول نہ ہوگی اور نہ ہی سزائے قتل معاف ہو گی

وَقَدْ نَقَلَ الْمُنْذِرِ الِاتِّفَاقَ عَلَی أَنَّ مَنْ سَبَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَرِیحًا وَجَبَ قَتْلُہُ

وَقَالَ الْخَطَّابِیُّ لَا أَعْلَمُ خِلَافًا فِی وُجُوبِ قتلہ إذا کان مسلما( عون المعبود شرح ابو داؤد)

المنذر نے نقل کیا ہے اس بات پر اتفاق ہے کہ جس نے صریح توہین رسالت کی وہ واجب القتل ہے اور خطابی کہتے ہیں اگر توہین کرنے والامسلمان ہے تو اس کے قتل کرنے کے واجب ہونے میں مجھے کسی کے اختلاف کا علم نہیں

                توہین رسالت کے مرتکبین کی توبہ

                توبہ کے چار اجزاء ہیں

                (1)جو اس سے ہو چکا اس پر دلی ندامت ہو

                (2)جو گناہ ہوا اس کو فورا ً چھوڑ دے

                (3)مصمم ارادہ کرے کہ دوبارہ نہیں کریگا

                (4)جس کا حق مارا ہو اس سے معاف کرائے

                توہین رسول کرنے والے کی توبہ شرعی توبہ نہیں کیونکہ آپ ﷺ کے وصال کے بعد اس میں چوتھا جزء شامل نہیں

                 ہر امتی کو نیابت کا حق حاصل ہے لیکن معافی کا حق کسی انسان کو یا کسی امتی کو نہیں جس طرح والدین کا حق اولاد پر ہے اسی طرح امتی بھی اپنے پیغمبر کا حق رکھتا ہے اور یہ اپنے امتی کے ساتھ خیانت اور بے وفائی ہو گی کہ وہ حق امتی ادا نہ کرے سب سے پہلا حق حکومت وقت اور عدالت کا ہے کہ وہ توہین کرنے والے کو سزا دے اگر وہ اپنے اس فرض میں ناکام رہیں تو کوئی امتی بھی اسے قتل کرکے پوری امت کا فرض ادا کر دے تو حکومت اسے قصاص میں قتل نہیں کریگی کیونکہ اس نے اپنے فرض میں کوتاہی کی اور جس شخص کو بطور حد قتل کیا جا رہا ہے اس کی توبہ یہی جان دینا ہی ہے ورنہ قیامت کو اسے کا عذاب زیادہ سخت ہوگا ۔ ایسے دلائل جن میں توہین کرنے والے کی توبہ قبول نہیں ہوتی مندرجہ ذیل ہیں ز

                کُلُّ مَنْ أَبْغَضَ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِقَلْبِہِ کَانَ مُرْتَدًّا ، فَالسِّبَابُ بِطَرِیقٍ أَوْلَی ، ثُمَّ یُقْتَلُ حَدًّا عِنْدَنَا فَلَا تَعْمَلُ تَوْبَتُہُ فِی إسْقَاطِ الْقَتْلِ (فتح القدیرابن الھمام)

                ہر وہ شخص جو رسول اﷲ سے دل میں بغض رکھے وہ مرتد کہلائے گا جب گالی دینا توشدید ترین جرم ہے تو ہمارے نزدیک بطور حد کے وہ قتل کیا جائیگا اور اس کی توبہ سے قتل ساقط نہیں ہوگا ۔

                وَلَا تُقْبَلُ تَوْبَتُہُ لِأَنَّ الْحَدَّ لَا یَسْقُطُ بِالتَّوْبَۃِ فَہُوَ عَطْفُ تَفْسِیرٍ ؛ وَأَفَادَ أَنَّہُ حُکْمُ الدُّنْیَا ، أَمَّا عِنْدَ اللَّہِ تَعَالَی فَہِیَ مَقْبُولَۃٌ کَمَا فِی الْبَحْرِ(رد المحتار ابن عابدین)

                اس کی توبہ قبول نہ ہوگی کیونکہ حد توبہ کرنے سے ساقط نہیں ہوتی اور اس کے فائدوں میں یہ ہے کہ یہ حکم دنیا سے تعلق رکھتا ہے البتہ اﷲ تعالیٰ کے ہاں اس کی توبہ قابل قبول ہے۔

                ( الْکَافِرُ بِسَبِّ نَبِیٍّ ) مِنْ الْأَنْبِیَاء ِ فَإِنَّہُ یُقْتَلُ حَدًّا وَلَا تُقْبَلُ تَوْبَتُہُ مُطْلَقًا ،۔۔۔۔، وَالْأَوَّلُ حَقُّ عَبْدٍ لَا یَزُولُ بِالتَّوْبَۃِ ، وَمَنْ شَکَّ فِی عَذَابِہِ وَکُفْرِہِ کَفَرَ (رد المحتار ابن عابدین)

                نبی کریم ﷺ کی گستاخی ایک وصال یافتہ شخص پر بہتان ہے اس لئے گستاخ کی توبہ سے یہ سزا ساقط نہ ہو گی ( الصارم المسلول284)

                ابن سرح کو گستاخی کرنے پر قتل کا حکم دیا حالانکہ وہ تائب ہو کر آیا تھا اس کی توبہ کا رسول اﷲ کو علم بھی تھا اس کے باوجود آپ کی منشاء یہی تھی کہ کوئی اسے قتل کر دے

                یہ نص ہے کہ مرتد کی توبہ قبول کرنا لازم نہیں بلکہ قتل کرنا جائز ہے خواہ تائب ہو کر آئے

                ابن سرح کو خود رسول اﷲ نے معاف کیا تھا حضور کے وصال کے بعد اب اس طرح کی معافی کا دروازہ بند ہو چکا ہے امت کے پاس اختیار نہیں کہ نبی کریم ﷺ کا حق معاف کرے (الصارم المسلول318)

                امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں

                جو شخص نبی اکرم ﷺ کو گالی دے یا آپ کی تنقیص شان کرے خواہ مسلمان ہو یا کافر واجب القتل ہے میری رائے میں اس                                 گستاخ کو قتل کیا جائے اور اس سے توبہ کا مطالبہ نہ کیا جائے (الصارم المسلول281)

                اس سے معلوم ہوا کہ حنابلہ کے نزدیک گستاخ کی توبہ قبول نہ ہونے کا حکم ہے

                نبی اکرم ﷺ کی شان اقدس میں بہتان کے ذریعے گستاخی کرنے یا کسی اور وجہ سے گالی دینے میں فرق نہیں

                امام مالک کے نزدیک بھی اس سے توبہ کا مطالبہ نہ کیا جائیگا

                جو بد بخت حضور انور ﷺ کو سب وشتم کرے یا آپ ﷺپر عیب لگائے یا تنقیص شان کرے اس کو توبہ کا موقع نہ دیا جائے وہ قتل کیا جائیگا (الصارم المسلول290)

                کسی نبی کی توہین کرنا ایسا کفر ہے جسکی حد قتل کرنا ہے اور کسی صورت میں اس کی توبہ قبول نہ کی جائیگی۔۔۔اور بندے کا حق توبہ سے زائل نہیں ہوتا ۔۔۔ جو شخص اس کے کفر اور عذاب میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔

                ناموس رسالت ﷺ اس قدر نازک مسئلہ ہے جس پہ امت مسلمہ کے اکابرین اور عام لوکوں نے کسی قسم کی کبھی نرمی نہ دکھائی توہین رسالت یا کسی بھی رسول کی اہانت کرنے والے کو قتل کرنے میں فقہی نصوص واقع ہیں کہ اسے قتل کیا جائے۔مثلاًقول عمر بن عباس و ابو بکر الصدیق و ابن عمر رضی اﷲ عنہم جس میں ہے کہ حضور ﷺ نے قتل کا حکم فرمایا تھا ان عورتوں کا جو اپنی زبانوں سے برا بھلا کہتیں تھیں اور قتل کرنے میں کسی کی توبہ قبول نہیں کی گئی۔حالانکہ حربی کافرہ عورت کو نہیں قتل کیا جاتا جب کہ وہ کسی کو نہ قتل نہ کرے اور مرتدہ جب توبہ کرے تو بھی اس کو نہیں مارا جاتا۔اور ان عورتوں کوقتل کیا گیا۔(الصارم المسلول338 )

                اور حدیث عبداﷲ بن خطل اس پر دال ہے کہ توہین کرنے والے کو قتل کیا جائے کیونکہ وہ پہلے مسلمان تھا پھر مرتد ہوا اور وہ توہین بھی کرتا تھا تو اسے قتل کیا گیا ۔اور اس سے توبہ قبول نہیں کی گئی ( الصارم المسلول337)

                حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اس شخص کو قتل کیا جو حضورﷺکے فیصلے پر راضی نہیں تھا اور اس نے اس کی توبہ ہرگز قبول نہیں کی قرآن پاک میں اس واقعہ کا ذکر نازل ہوا یہ تو ادنیٰ قسم کی توہین ہے تو آپ کا کیا خیال ہے کہ جو اس سے زیادہ توہین کا مرتکب ہو ( الصارم336)۔

                صاحب چلپی نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک اس کی توبہ فائدہ دے گی لیکن اسکا قتل موقوف نہ ہو گا (باب الجزیہ137)

                توہین رسالت کرنے والے کی توبہ کے متعلق فقہاء کے اقوال ہیں۔اکثر کا قول یہی ہے کہ توہین کرنے والے کی توبہ قبول نہیں اور یہ قول مفتیٰ بہ اور مختار ہے غنیہ میں فرمایا گیا ہے کہ ذوی الاحکام اور مختار قول فتویٰ میں یہ ہے کہ اس کی توبہ قبول نہ کی جائے (سیف الحنفی ص4)

                 نور الہدیٰ میں فرمایا گیا ہے کہ جس نے نبی کی توہین کی اس قول تک کہ وہ کافر ہوا اور یہ قتل کا مستحق ہے اس پرفتویٰ ہے۔حسب المفتین۔ (سیف الحنفی ص7)

                امام شعرانی ؒ نے فرمایا ہے کہ امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک اس کی توبہ قبول نہیں۔( سیف الحنفی ص،20)

                 توہین کرنے والے کی توبہ قبول نہیں یہ مذہب ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ اور اما م اعظم ؒ اور امام ثوری ؒ اور اہل کوفہ کا ہے۔ایسا ہی الدر الحکام میں ہے۔

                فتح القدیر میں ہے کہ توہین کرنے والے کا قتل واجب ہے اور اس کی توبہ قبول نہ کی جائے۔یہ مذہب اہل کوفہ اور مالک ؒکا ہے اور حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ سے بھی نقل ہے۔(سیف الحنفی ص3)

                حامدیہ میں ہے اگر توہین کرنے والے نے توبہ کی تو اس میں اختلاف ہے لیکن مشہور مذہب یہ ہے کہ اس کو حد کی وجہ سے قتل کیا جائے۔(سیف الحنفی9)

                 فتاویٰ خیریہ میں اگر کسی نے نشے کی حالت میں حضور اکرم ﷺ کی توہین کی تو اس کو معاف نہیں کیاجائیگااور حد کی وجہ سے اس کو قتل کیا جائے گا۔اور یہ مذہب ابو بکر صدیق ؓاور امام اعظم کا ہے۔(سیف الحنفی ص10)

                 مبسوط میں عثمان بن کنان سے روایت ہے کہ جس نے نبی کریم ﷺ کی توہین کی اسکو قتل کیا جائے اور اس کی توبہ نہ لی جائے اور بادشاہ وقت کو چاہیئے کہ اس کو پھانسی دے یا قتل کرے(سیف الحنفی ص4)

                 مبسوط میں یہی مذکور بالا عبارت ہے۔فتاویٰ نور الھدیٰ میں ہے اور امام محمد کی کتاب میں ہے کہ جس نے حضور ﷺکی توہین کی یا کسی اورنبی کی توہین کرنے والا مسلمان ہو یا کافر اس کو قتل کیا جائے اور توبہ نہ لی جائے۔دونوں اسکی نگاہ میں ایک ہیں۔(سیف الحنفی ص9)۔

                کشف الغمہ میں کہ امام ابو حنیفہ ؒاوران کے اصحاب اور سفیان ثوریؒاور اوزاعی کے نزدیک فتویٰ اس پر کہ اس سے توبہ نہ لی جائے۔ ( سیف الحنفی ص7)۔

                                اﷲ تعالیٰ نے بعض گستاخان رسول کو خود سزا بھی دی قرآن مجید میں ہے

                انَّا کَفَیْنَاکَ الْمُسْتَہْزِئِینَ

                بیشک مذاق کرنے والوں (کو انجام تک پہنچانے) کے لئے ہم آپ کو کافی ہیں

                عاص بن وائل،حارث بن قیس،اسود بن المطلب بن الحارث،ولید بن مغیرہ ،ابوجہل ابولہب وہ لوگ ہیں جنہیں توہین رسالت پر اﷲ نے خود سزا دی ۔ یہ لوگ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو بہت ایذا دیتے اور آپ کے ساتھ تمسخر و استہزاء کرتے تھے ۔ اسود بن مطلب کے لئے سید عالم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کی تھی کہ یاربّ اس کو اندھا کر دے ۔ ایک روز سید عالم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم مسجدِ حرام میں تشریف فرما تھے ، یہ پانچوں آئے اور انہوں نے حسبِ دستور طعن و تمسخر کے کلمات کہے اور طواف میں مشغول ہوگئے ۔ اسی حال میں حضرت جبریلِ امین حضرت کی خدمت میں پہنچے اور انہوں نے ولید بن مغیرہ کی پنڈلی کی طرف اور عاص کے کف پا کی طرف اور اسود بن مطلب کی آنکھوں کی طرف اور اسود بن عبد یغوث کے پیٹ کی طرف اور حارث بن قیس کے سر کی طرف اشارہ کیا اور کہا میں ان کا شردفع کروں گا چنانچہ تھوڑے عرصہ میں یہ ہلاک ہوگئے ۔ ولید بن مغیرہ تیر فروش کی دوکان کے پاس سے گزرا اس کے تہہ بند میں ایک پیکان چبھا مگر اس نے تکبّر سے اس کو نکالنے کے لئے سر نیچا نہ کیا اس سے اس کی پنڈلی میں زخم آیا اور اسی میں مرگیا ۔ عاص ابن وائل کے پاؤں میں کانٹا لگا اور نظر نہ آیا اس سے پاؤں ورم کرگیا اور یہ شخص بھی مرگیا ۔ اسود بن مطلب کی آنکھوں میں ایسا درد ہوا کہ دیوار میں سر مارتا تھا اسی میں مرگیا اور یہ کہتا مرا کہ مجھ کو محمد نے قتل کیا (صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) اور اسود بن عبد یغوث کو استسقاء ہوا اور کلبی کی روایت میں ہے کہ اس کو لُو لگی اور اس کا منہ اس قدر کالا ہوگیا کہ گھر والوں نے نہ پہچانا اور نکال دیا اسی حال میں یہ کہتا مرگیا کہ مجھ کو محمد (صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) کے رب نے قتل کیا اور حارث بن قیس کی ناک سے خون اور پیپ جاری ہوا ، اسی میں ہلاک ہوگیا ۔ انہیں کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔

                ایسے گستاخان رسول میں ہی ایک جد جد الجندعی بھی تھا

                جد جد الجندعی یمن گیا وہاں اسے ایک عورت سے عشق ہو گیا اس نے وہاں کے لوگوں سے وہ عورت اس طرح مانگی کہ رسول اﷲ نے تمہیں حکم دیا ہے کہ یہ عورت میرے حوالے کرو یمن کے لوگ کہنے لگے کہ رسول اﷲ نے تو ہمیں زنا حرام کہہ کر روکا ہے ایک آدمی رسول اﷲ کے پاس بھیجا اور ساری کہانی سنائی تو رسول اﷲ نے حضرت علی کو روانہ فرمایا کہ اگر اسے زندہ پاؤ تو قتل کرو اور اگر مردہ پاؤ تو اس کی لاش کو جلا دوجب حضرت علی وہاں پہنچے تو سانپ کے ڈسنے سے مر چکا تھا حضرت علی نے اس کو جلانے کا حکم دیا (خصائص الکبریٰ)

اورمشکاۃ المصابیح میں ہے کہ رسول اﷲ پر جھوٹ گھڑنے کی گستاخی کی وجہ سے زمین نے قبول ہی نہ کیا

 مٹ گئے مٹتے ہیں مٹ جائیں گے اعداء تیرے

نہ مٹا ہے نہ مٹے گا کبھی چرچا تیرا

بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ غیر مسلم جو ہمارے ملک میں رہتے ہیں ان کی حفاظت کی ذمہ داری ہمارے اوپر عائد ہوتی ہے ایسے لوگوں کیلئے مندرجہ ذیل حدیث دلیل ہے

                حضرت عرفہ بن الحارث رضی اﷲ عنہ ایک عیسائی کے پاس سے گذرے تو اسے اسلام کی دعوت دی تو اس عیسائی نے غصے میں رسول اﷲ کو گالی دی تو آپ اسے پکڑقتل کر دیاگورنر مصر حضرت عمرو بن العاص نے پوچھا ان کا ہمارے ساتھ معاہدہ تھا جس پر حضرت عرفہ بولیمَعَاذَ اﷲِ أَنْ نَکُونَ أَعْطَیْنَاہُمْ عَلَی أَنْ یُظْہِرُوا شَتْمَ النَّبِیِّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ , :معاذ اﷲ کیا ہم نے اس کا ذمہ لیا ہے کہ ہمیں اﷲ کے رسول کے بار ے میں ایذا دی جائے۔ ہم نے یہ ذمہ لیا ہے کہ ہم انکے اور ان کی عبادت گاہوں کے درمیان مداخلت نہیں کریں گے، ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالیں گے اور انکی جان ومال اور عبادت گاہوں کی حفاظت کریں گے جس پر حضرت عمر بن العاص نے فرمایا کہ آپ نے سچ فرمایا (السنن الکبریٰ البیہقی :الاصابہ فی تمیز الصحابہ )

                غیرت مسلم کا تقاضا یہ ہونا چاہئیے کہ وہ سب کچھ برداشت کر لیں لیکن رسول اﷲ کی ناموس کے خلاف ایک حرف بھی سننا گوارا نہ کریں جس طرح حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اﷲ عنہ نے کیا

                رسول اﷲ ﷺ کی رحلت کے بعد جب اہل’’ دبا‘‘مرتد ہو گئے اور انہوں نے رسول اﷲ کے خلاف زبان کھولی تو وہاں کے امیر حضرت حذیفہ بن الیمان جن کا بس نہیں چل رہا تھا فرمانے لگے

                أَسْمِعُونِی فِی أَبِی وَأُمِّی، وَلَا تُسْمِعُونِی فِی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ(نصب الرایہ :جمال الدین الزیلعی)

                مجھے میرے ماں باپ کی گالی دیدو لیکن نبی کریم ﷺ کے بارے کوئی نازیبا بات نہ کرو

تو ہے ہم کو جان سے بڑھ کر مال اور ملک سے پیارا ہے

تیری محبت کامل ایمان ،یہ ایمان ہمارا ہے

(1)الکتاب: صحیح البخاری

المؤلف: محمد بن إسماعیل أبو عبداﷲ البخاری الجعفی

(2)الکتاب : صحیح مسلم

المؤلف : مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری

(3)الکتاب: سنن أبی داود

المؤلف: أبو داود سلیمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشیر بن شداد بن عمرو الأزدی السَِّجِسْتانی

(4)الکتاب: الشفا بتعریف حقوق المصطفی

المؤلف: أبو الفضل القاضی عیاض بن موسی الیحصبی

(5)الکتاب: عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری

المؤلف: أبو محمد محمود بن أحمد بن موسی بن أحمد بن حسین الغیتابی الحنفی بدر الدین العینی

(6) الکتاب :العطایا النبویۃ فی الفتاوی الرضویۃ

المؤلف:الامام اہلسنت احمد رضا خان

(7)الکتاب : الْأَشْبَاہُ وَالنَّظَائِرُعَلَی مَذْہَبِ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ النُّعْمَانِ

المؤلف : الشَّیْخ زَیْنُ الْعَابِدِیْنَ بْنِ إِبْرَاہِیْمِ بْنِ نُجَیْمٍ

(8)الکتاب :حاشیۃ الصاوی علی الشرح الصغیر

المؤلف: أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّاوِیُّ الْمَالِکِیُّ

(9)الکتاب : رد المحتار

المؤلف:السید محمد أمین عابدینی الحنفی المفتی العلامۃ الشہیر بابن عابدین

(10)الکتاب: المصنف عبدالرزاق

المؤلف: أبو بکر عبد الرزاق بن ہمام بن نافع الحمیری الیمانی الصنعانی

(11)الکتاب: الخصائص الکبری

المؤلف: عبد الرحمن بن أبی بکر، جلال الدین السیوطی

(12)الکتاب: مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح

المؤلف: علی بن (سلطان) محمد، أبو الحسن نور الدین الملا الہروی

(13)الکتاب: أحکام القرآن

المؤلف: أحمد بن علی أبو بکر الرازی الجصاص الحنفی

(14)الکتاب: التفسیر المظہری

المؤلف: الحافظ محمد ثناء اﷲ الحنفی النقشبندی

(15)الکتاب: التفسیرفتح القدیر

المؤلف: محمد بن علی بن محمد بن عبد اﷲ الشوکانی الیمنی

(16)الکتاب: مجمع الأنہر فی شرح ملتقی الأبحر

المؤلف: عبد الرحمن بن محمد بن سلیمان المدعو بشیخی زادہ, یعرف بداماد أفندی

(17)الکتاب: عون المعبود شرح سنن أبی داود،

المؤلف: محمد أشرف بن أمیر بن علی بن حیدر، أبو عبد الرحمن، شرف الحق، الصدیقی، العظیم آبادی

(18)الکتاب: الصارم المسلول علی شاتم الرسول

المؤلف: تقی الدین أبو العباس أحمد بن عبد الحلیم بن عبد السلام بن عبد اﷲ بن أبی القاسم بن محمد ابن تیمیۃ الحرانی الحنبلی الدمشقی

(19)الکتاب : فتح القدیر

المؤلف :ابن الہمام شمس الدین احمد ابن محمود المعروف بقاضی زادہ الرومی الحنفی

(20)الکتاب: السنن الکبری

المؤلف: أحمد بن الحسین بن علی بن موسی الخُسْرَوْجِردی الخراسانی، أبو بکر البیہقی

(21)الکتاب: الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ

المؤلف: أبو الفضل أحمد بن علی بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلانی

(22)الکتاب: نصب الرایۃ لأحادیث الہدایۃ

المؤلف: جمال الدین أبو محمد عبد اﷲ بن یوسف بن محمد الزیلعی

(23)الکتاب: کنز العمال فی سنن الأقوال والأفعال

المؤلف: علاء الدین علی بن حسام الدین ابن قاضی خان القادری الشاذلی الشہیر بالمتقی الہندی

(24)الکتاب :تاریخ الطبری

المؤلف : محمد بن جریر بن یزید بن کثیر ابو جعفر الطبری

(25)الکتاب: درر الحکام شرح غرر الأحکام

المؤلف: محمد بن فرامرز بن علی الشہیر بملا – أو منلا أو المولی – خسرو

(26) الکتاب: گستاخ رسول کا حکم قرآن و حدیث فقہ کی روشنی میں

المؤلف:علامہ مولانا مفتی فقیر سید احمد علی شاہ صاحب سیفی

(27) الکتاب : سیف احمد علی بر گردن دشمن نبی ﷺ

المؤلف:علامہ مولانا مفتی فقیر سید احمد علی شاہ صاحب سیفی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں