جلال اور جمال کے مشاہدات

حضرت شیخ المشائخ، قطب ربانی، غوث صمدانی ، محبوب سبحانی، سیدنا عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے تصوف و طریقت پر مشتمل کتاب” آداب السلوک والتواصل الی منازل الملوک“ میں فرمایا :

اولیاء و ابدال کے لیے اللہ تعالی کے افعال میں سے جو محیر العقول اور خارق العادة امور ظاہر پذیر ہوتے ہیں ان کی دو قسمیں ہیں جلال اور جمال۔ 

جب جلال کا ظہور ہو تا ہے تو خوف و دہشت چھا جاتی ہے۔ اور دلوں پر ایک رعب و غلبہ کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے جس کا اظہار جوارح کے ذریعے بھی ہو تا ہے۔ جیسا کہ نبی کریم کے متعلق روایت کیا جاتا ہے کہ آپ جب نماز ادا فرماتے تو شدت خوف سے آپ کے سینہ اقدس سےہنڈیا کے ابلنے کی سی آواز سنائی دیتی کہ کیونکہ آپﷺ جلال خداوندی کا مشاہدہ کر رہے ہوتے۔ اور عظمت الہی کو عیاں دیکھ رہے ہوتے تھے۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام اور امیر المومنین عمر فاروق کے بارے بھی ایسی ہی کیفیات کا تذکرہ ملتا ہے۔ 

رہا مشاہده جمال تو یہ دلوں پر صفات خداوندی کی تجلی کے سبب ہوتا ہے۔ اور اس تجلی میں انوار خداوندی، سرور والطاف ، كلام لذیذ وحدیث انیس ہوتی ہے۔ انسان کو بڑی بخششوں ، منازل عالیہ اور قرب الہی کی بشارت ملتی ہے۔ اور اسے بتایا جاتا ہے کہ یہ سب نعمتیں تیرے مقدر میں لکھ دی گئی ہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور یہ محض اللہ کا فضل ورحمت ہے۔ اللہ تعالی دنیا میں انسان کو ثابت قدم رکھتا ہے تا کہ انسان زندگی بھر نافرمانی کاراستہ اختیار نہ کرے۔ اور فرط شوق اور محبت الہی کی شدت کی وجہ سے قوتیں اور طاقتیں ماند نہ پڑ جائیں اور عبودیت کے حق کو ادا کرنے سے کمزور نہ ہو جائیں۔ اور یہ ثبات انہیں اس وقت تک حاصل رہے جب تک یقین کی منزل نہیں آجاتی یعنی دنیا سے کوچ کا وقت نہیں آجاتا۔ پس اللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے جمال تجلی فرماتا ہے اور اس طرح ہمیشہ اپنے بندوں کے قلوب کی تربیت فرماتارہتا ہے۔ کیونکہ وہ دانا ہے علیم ہے اور اپنے بندوں پر لطف و کرم کرنے والا بہت مہربان اور رحیم ہے۔ اس لیے نبی کریم ﷺ کے متعلق مروی ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے قُمْ يَا بِلَالُ، فَأَرِحْنَا بِالصَّلَاةِاے بلال اٹھواور نماز سے ہمیں راحت باہم پہنچا، کیونکہ نماز میں آپﷺکو جمال خداوندی کا مشاہدہ ہو تا تھا۔ 

اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا۔ وَجُعِلَتْ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِاور میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے

آداب السلوک شیخ عبد القادر الجیلانی صفحہ 64 ،مکتبہ دارالسنابل دمشق شام

جلال تجلی قہاری ہے جملہ افعال و آثار ضلالت و معصیت اور شرکا صدور اس سے ہوتا ہے
جمال تجلی لطف و رحمت ہے جملہ افعال و آثار خیر و طاعت و عبادت و حسنات کا صدور اسی سے ہے

کبھی جلال سے مراد مرتبہ احدیت اور جمال سے مرتبہ وحدت مراد ہوتا ہے کبھی ذات کے مرتبہ خفا کو جلال اور مرتبہ ظہور کو جمال کہتے ہیں
تنزیہ و تشبیہ اور بعض ذات کے مراتب داخلی احدیت ،وحدت واحدیت کو جلال میں اور مراتب خارجی ارواح ،امثال، اجسام کوحد جمال میں شمار کرتے ہیں


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں