اس سرکے کشف میں کہ حضرت یوسف علیہ الصلوة والسلام کے ساتھ حضرت یعقوب علیہ الصلوة والسلام کی گرفتاری کی وجہ کیا تھی اور بعض اسرار غر یبہ اور علوم عجیبہ کے بیان میں شیخ نورالحق کی طرف صادر فرمایا ہے۔ .
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی ( اللہ تعالیٰ کے لئے حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو )
فضائل و کمالات کے پناہ والے برادرم عزیزم شخ نورالحق نے اس گرفتاری کی نسبت جو حضرت یعقوب علیہ الصلوة والسلام کی حضرت یوسف علیہ الصلوة والسلام کے ساتھ تھی۔ بڑے شوق و اہتمام کے ساتھ دریافت کیاتھا اور فقیرکو بھی مدت سے اس امر کے انکشاف کا شوق تھا جب آپ کا شوق اس شوق کے ساتھ مل گیا تو بے اختیار ہوکر ہمہ تن اس دقیقہ کے کشف کی طرف متوجہ ہوا اور سرسری نظر میں ظاہر ہوا کہ حضرت یوسف علی نبینا وعلیہ الصلوة والسلام کی خلقت اور ان کا حسن و جمال اس عالم دنیا کے خلقت اور حسن و جمال کی قسم
سے نہیں ہے اور یہ بھی ظاہر ہوا کہ ان کا جمال بہشتیوں کے جمال کی قسم سے ہے اور مشہور ہوا کہ باوجود اس جہان کے ان کا حسن صباحت حور وغلمان کے حسن کی مانند ہے اب اللہ تعالیٰ کے کرم وفضل سے جو کچھ مفصل طور پر اس بارے میں فائض ہوا ہے تری کر کے ارسال کیا جاتا ہے۔ سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَايااللہ تو پاک ہے ہمیں کوئی علم نہیں مگر جس قدر کہ تو نے ہم کو سکھایا) بیت۔
در پس آئینہ طوطی صفتم داشته ام ہر چه استاد ازل گفت بگو میگویم
ترجمه مثل طوطی آئینے کے پیچھے رکھا ہے مجھے کہتاہوں میں وہ جو استاد ازل مجھ کو کہے
سوال: یہ افراط محبت اور گرفتاری جو حضرت یعقوب علیہ السلام کو حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ تھی۔ کسی سبب سے تھی حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بزرگ آباؤ اجدادعلیہم الصلوۃ والسلام کے حق میں فرمایا ہے۔ أُولِي الْأَيْدِي وَالْأَبْصَارِ (ہاتھوں اور آنکھوں والےیعنی توانا اور دانا ) نیز ان کے آبائے کرام کے شان میں فرماتا ہے ۔ إِنَّا أَخْلَصْنَاهُمْ بِخَالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ وَإِنَّهُمْ عِنْدَنَا لَمِنَ الْمُصْطَفَيْنَ الْأَخْيَارِ (ہم نے ان کو دار آخرت کی یاد کے لئے چن لیا اور وہ ہمارے نزدیک برگزیدہ اور بہتر لوگوں میں سے ہیں ) پس حق تعالیٰ کے ماسوا کی گرفتاری أُولِي الْأَيْدِي وَالْأَبْصَارِ انبیاء کے شان کے کیا مناسب ہے اور برگزیدہ مخلصوں کومخلوق کے ساتھ کیسے تعلق ہوسکتا ہے کوئی یہ نہ کہے کہ یہ حق تعالیٰ کے ماسوا کی گرفتاری نہیں کیونکہ مخلوق حق تعالیٰ کے حسن و جمال کا آئینہ ہے جیسے کہ صوفیہ نے کہا ہے اور کثرت کے آئینہ میں وحدت کا شہود تجویز کیا ہے اور رؤیت آخرت کے سوا اس جہان میں ممکنات کی صورتوں کے مظہروں اور آئینوں میں مشاہدہ و مکاشفہ ثابت کیا ہے کہ اس لئے اس قسم کے کشف وشہود جوسالکان صوفياء کو توحید کے غلبوں کے وقت اس جہان فانی میں حاصل ہوتے ہیں عجب نہیں کہ انبیاء کے امتوں میں سے خواص لوگوں کو ان سے انکار ہو اور یہ لوگ اس مکشوف ومشہود سے تنزہ اور پرہیز کریں جب اصل معاملہ اس طرح ہے تو پھر انبیاء برگزیدہ کے حق میں اس قسم کے احوال کا ثبوت کس احتمال پر ہے بلکہ اس امر کا ان بزرگواروں کےحق میں عین و بال ہے۔
جواب: اس سوال کی بناء پر ایک مقدمہ ہے اور وہ یہ ہے کہ آخرت کا حسن و جمال اور وہاں کی لذتیں اور نعمتیں دنیا کے حسن و جمال اور یہاں کی لذتوںونعمتوں کی مانند نہیں ہیں کیونکہ وہ حسن و جمال خیر در خیر ہے اور وہ لذت ونعمت حق تعالیٰ کو مقبول اور پسندیدہ ہے اور یہ حسن وجمال سراسر شرونقص ہے اور یہ لذت ونعمت نا مقبول و ناپسند ہے اسی واسطے دار آخرت رضا ہے اور دار دنیا مولی جل شانہ کے غضب کا مقام ۔
سوال: جب ممکن میں حسن و جمال مرتبہ حضرت وجود تعالیٰ سے عاریت کے طور پر آیا ہے اور ممکن اس مرتبہ کا مظہر اور آئینہ ہے کیونکہ ممکن اپنی کوئی چیز نہیں رکھتا سب کچھ حضرت وجوب تعالیٰ سے عاریت کے طور پر رکھتا ہے تو پھر ان دونوں مقامات میں کیوں فرق ہے اور کیوں ایک مقبول اور پسندیدہ ہے اور دوسرا نامقبول اور ناپسند۔
جواب: چند مقدموں پرمبنی ہے مقدمہ اول یہ کہ عالم سب کا سب واجب تعالیٰ کے اسماء وصفات کا جلوہ گاہ اور مظہر اور حق تعالیٰ کے اسمائی و صفاتی کمالات کا آئینہ ہے مقدمہ دوم یہ کہ واجب تعالیٰ کی صفات اگرچہ دائرہ وجوب میں داخل ہیں لیکن چونکہ وجود قیام میں حضرت ذات تعالیٰ کی محتاج ہیں اس لئے امکان ان میں ثابت ہے اور وجوب ذاتی ان کے حق میں غیر ثابت ہے کیونکہ ان کا وجوب خودبخود نہیں بلکہ ذات واجب تعالیٰ کے ساتھ ہے اگرچہ ان کو غیرذات نہیں کہتے لیکن غیریت سےچارہ نہیں رکھتے کیونکہ دوئی ان کے درمیان ثابت ہے کہ اَلْاَثْنَانِ مُتَغَائِرَانِ (دو چیزیں ایک دوسرے کے مغائر ہوتی ہیں)) معقول والوں کے نزدیک قضیه مقررہ ہے لیکن ان کے حق میں امکان کا اطلاق نہ کرنا چاہیئے کہ اس سے حدوث کا وہم گزرتا ہے کیونکہ جو ممکن ہے وہ حادث ہے وجوب بالغیر بھی اس مقام میں تجویز نہ کرنا چاہیئے
کہ حضرت ذات تعالیٰ سے ان کا الگ ہونا مفہوم ہوتا ہے تیسرا مقدمہ یہ ہے کہ جہاں امکان کی بو پائی جاتی ہے وہاں فی حد ذاتہ عدم کی بھی گنجائش ہے اگر چہ اس عدم کا حاصل ہونا محال ہے لیکن وہ محال ہو نااس کے نفس سے پیدا نہیں ہوا بلکہ دوسری جگہ سے آیا ہے چوتھا مقدمہ یہ ہے کہ حق تعالیٰ کے اسماء و صفات کے لئے جس طرح ان کے وجود کی جانب میں حسن و جمال ثابت ہے ان کے احتمال عدم کی جانب میں بھی حسن و جمال ثابت ہے۔ گویہ حسن و جمال مرتبہ وہم وحسن میں ثابت ہو جوعدم کے مناسب ہے اور اگرچہ ہمسایہ سے عاریت کے طور پر لیا ہو کیونکہ عدم فی حد ذاتہ شروقبح کے سوا کچھ نصیب نہیں رکھتا وہ وجود ہی ہے جو سراسر خیر وکمال اور بتمامہ حسن و جمال ہے۔ واضح ہو کہ یہ حسن و جمال جو عدم میں نمایاں ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جسےحنظل یعنی اندرائن(کڑوا پھل) کوشکر سے غلافی کر کے شیریں دکھلائیں۔ پانچواں مقدمہ یہ ہے کہ نظر کشفی میں ظاہر ہوا ہے کہ جہان آخرت میں ممکن کی جانب وجود کو ترجیح دیکر صفات کے اس حسن و جمال کا مظہر بنائیں گی جو ان کے وجود کی جانب میں ثابت ہے جب یہ پانچوں مقدمے معلوم ہو گئے اور دنیا کے حسن و جمال اور آخرت کے حسن و جمال کے درمیان فرق ظاہر ہو گیا اور ایک کی برائی اور دوسرے کی خوبی واضح ہوگئی اور ایک کا پسندیدہ اور دوسرے کا ناپسندیدہ ہو نا معلوم ہو چکا تو ان تحقیقات سے اس سوال کا حل بھی ہو گیا اور اس مقدمہ کی توضیح بھی ہوگئی جس پر سوال مبنی تھا۔ اب میں سوال اول کا جواب کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کشف صریح کے ساتھ معلوم ہوا ہے کہ حضرت یوسف علیہ الصلوة والسلام کا وجود اگر چہ اس جہان میں پیدا ہوا ہے لیکن اس جہان کے تمام موجودات کے برخلاف ان کا وجود عالم آخرت سے ہے اور ان کے وجود کی جانب کوترجيح دیکر اس حسن و جمال کا مظہر بنایا ہے جو اسماء و صفات کے وجود سے تعلق رکھتا ہے اور عدمیت کی آمیزش کو جوان کے نفس یا اصل سے تعلق رکھتی ہے منتفی کیا ہے اور عدم کی علت سے کہ ہرقبح ونقص کا منشاء ہے اور ان کو اور ان کے اصل کو پاک کیا ہے اور نور وجود کے غلبہ کے سوا جو بہشتیوں کے نصیب ہے ان میں کچھ نہیں چھوڑا۔ اسی واسطے ان کے حسن و جمال گرفتاری بہشت و بہشتیوں کے حسن و جمال کی طرح محمود اور پسندیدہ اور کاملوں کے نصیب ہوئی ہے اورمحب جس قدر زیادہ کامل ہوگا اسی قدر آخرت کے حسن و جمال کا زیادہ تر گرفتار ہوگا اور اسی قدرت تعالیٰ کی رضامندی میں اس کا قدم بڑھ کر ہوگا کیونکہ آخرت کی گرفتاری آخرت کے صاحب یعنی حق تعالیٰ کی عین گرفتاری ہے اس لئے کہ عالم آخرت حق تعالیٰ کی حکمت کا طلسم ہے اور رداء کبریا کی طرح پردگی کا روپوش نہیں ہے۔ وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى دَارِ السَّلَامِ الله تعالى دار السلام کی طرف بلاتا ہے۔ )نص قاطع ہے اور وَاللَّهُ يُرِيدُ الْآخِرَةَ (اللہ تعالیٰ آخرت چاہتا ہے اس مطلب پر حجت واضح ہے جن لوگوں نے آخرت کی گرفتاری کو دنیا کی گرفتاری کی طرح مذموم جانا ہے اور اس کو تعالیٰ کی گرفتاری کے سوا سمجھا ہے انہوں نے آخرت کی حقیقت کو پورے طور پرنہیں جانا اور با وجود فرق ظاہر کے حاضر پر غائب کا قیاس کیا ہے رابعہ بیچاری اگر بہشت کی حقیقت کو پورے طور پر جانتی تو اس کے جلانے کافکر نہ کرتی اور اس کی گرفتاری کو حق تعالیٰ کی گرفتاری کے سوانہ جانتی کسی اور نے کہا ہے کہ آیت کریمہ مِنْكُمْ مَنْ يُرِيدُ الدُّنْيَا وَمِنْكُمْ مَنْ يُرِيدُ الْآخِرَةَ ( کوئی تم میں سے دنیا چاہتا ہے اور کوئی آخرت) میں فریقین کی شکایت ہے حق تعالیٰ اس شخص کو انصاف دے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ حق تعالیٰ بہشت کی طرف دعوت فرمائے اور دعوت کے بعد جوشخص قبول کرلے۔ پھر اس کی شکایت کرے اگر اس مقام مقدس کی گرفتاری بری ہوتی یا برائی کی آمیزش رکھتی تو بہشت رضا کا گھر نہ ہوتا اور رضا جو مراتب قبول میں سے نہایت مرتبہ ہے وہ بھی دنیا کی طرح مغضوب یعنی غضب کا موجب ہوتی ۔ غضب کا سبب اورذم کا باعث عدم ہے جو ہرقبح و نقص کی جڑ اور دنیا کا نصیب اور اس کی لعنت کا سبب ہے جب عدم کی کوئی چیز اس میں حاصل نہ ہوئی توذم وقبح کی آمیزش دور ہوگئی اور رضامندی اور نامقبول دشمنوں کے نصیب ہوئی اور رضا وقبول اور وجودنور اور وصل و وصول اور راحت و سرور کے سوا کچھ نہ رہا۔ حضرت مخبر صادق علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا ہے کہ تسبیح و تحمیدوتہلیل سے بہشت میں درخت لگاؤیعنی سبحان اللہ کہو اور درخت لگاؤیعنی وہ تنزیہ جو یہاں ان حروف و کلمات کے لباس میں ظاہر ہوئی ہے وہاں ایک درخت کی صورت میں متمثل ہوگی جس کی گرفتاری اور لذت معنی تنزیہی کی عین گرفتاری اور لذت ہے۔ علی ہذا القیاس صوفياء نے جودقائق واسرار توحید و اتحاد میں فرمائے ہیں اور اس جہان کے مظاہر جمیلہ پر لا کر عشق کی باتیں کی ہیں اور ان کے ضمن میں مشہود و مشاہدہ ثابت کیا ہے اور ان کے حسن و جمال کو مولی جل شانہ کا حسن و جمال سمجھا ہے چنانچہ ایک کہتا ہے ۔ ذُقْتُكَ فِيْ کُلِّ طَعَام ٍلَذِيْذٍ ( میں نے تجھے ہر طعام لذيذ میں چکھا ہے) دوسرا اس طرح کہتا ہے۔ بیت
امروز چوں جمال تو بے پردہ ظاہراست در حیرتم که وعده فرد ابراۓ چیست
ترجمہ بیت ظاہر ہے جب جمال ترابے حجاب آج حیرت ہے پھر کہ دعده فردا کیوں ہوا۔تیر یوں بولتا ہے۔ بیت
عاطشاں گردر قدح آب خورند در دروں آب حق رانا ظراند
ترجمہ بیت پیاسے گرپئیں کاسہ میں پانی نظر آتا ہے پانی میں خداہی
اس جہان میں اس قسم کی باتوں کا صدق آنا اس فقیر کے فہم و دریافت سے دور ہے فقیر اس جہان میں اس قسم کی نازک باتوں کے اٹھانے کی طاقت معلوم نہیں کرتا اور اس کو اس قسم کی دولت کے قبول کرنے کے قابل نہیں جانتا اگر اس جہان میں یہ طاقت و قابلیت ہوتی تو مولی جل شانہ کے غضب کامحل نہ ہوتا اور حضرت پیغمبر علیہ الصلوة والسلام الدُّنْيَا مَلْعُونَةٌدنیا پر لعنت ہے) نہ فرماتے وہ بہشت ہی ہے جوان کرامات کے لائق اور ان مقامات کے قابل ہے اور ۔ ذُقْتُكَ فِيْ کُلِّ طَعَام ٍلَذِيْذٍ طعام بہشتی میں صادق آتا ہے نہ طعام دنیاوی میں کہ جس کے ساتھ عدم کا زہر آب ملا ہوا ہے اسی واسطے اس کا اختیار کرنا پسندیدہ نہیں ۔ فقیر کے نزدیک ہرشخص کا بہشت اس اسم الہی جل شانہ کے ظہور سے مراد ہے جو اس شخص کا مبد ءتعین ہے اور اس اسم نے اشجار وانہار اورحورو قصور اور ولدان وغلمان کی صورت اور لباس میں ظہور فرمایا ہے جس طرح اسماء الہی جل شانہ میں بلندی اور پستی اور جامعیت اور عدم جامعیت کے اعتبار سے فرق ہے اسی طرح جنتوں میں بھی ان کے اندازہ کے موافق فرق ہے اگر اس ظہور کےضمن میں شہود و مشاہدہ ثابت کیا جائے تو بہتر اور زیبا ہے اور شے کا اپنی مناسب جگہ میں استعمال کرنا ہے لیکن اس موضع کے سوا اس قسم کی باتوں کا اطلاق کرنا جرات ہے اور شے کو نا مناسب جگہ پر استعمال کرنا ہے اس میں کچھ شک نہیں کہ صوفیاء نے فرط محبت اور کمال اشتیاق سے جو مطلوب کے ساتھ رکھتے ہیں جس قدر مطلوب کی خوشبو ان کی جان کے دماغ میں بھی ہے غنیمت جانا ہے اور اس سکر(مستی) اور غلبہ محبت کو عین مطلوب و مقصود سمجھا ہے اور اس قسم کی عشق بازیاں جونفس مطلوب کے ساتھ ہونی چاہئیں اختیار کر کے حظ ولذت حاصل کی ہے اور مشاہدہ و مکاشفہ ثابت کیا ہے چنانچہ ایک بزرگ کہتا ہے۔ بیت
سوۓ تو از جا برجہم مست و بیخود زہر سو کہ آواز پائے برآید
ترجمہ بیت کہیں سے پاؤں کی آہٹ کو میں جس وقت پاتا ہوں تو بیخود مست دیوانہ تری جانب کو آتا ہوں
ہاں اس قسم کے معاملات عاشقی اور محبت کی بے آرامی میں جائز پسندیدہ ہیں چونکہ یہ سب باتیں خدا تعالیٰ کے واسطے اور بے مثل مطلوب کے شوق دیدار کے لیے ہیں اس لیے ان کی خطا صواب کا حکم رکھتی ہے اور ان کا سکر(مستی) صحوکا حکم۔ حدیث میں آیا ہے ۔ سِينَ بِلَالٍ عِنْدَ اللَّهِ شِينٌ (بلال کاسین الله تعالیٰ کے نزدیک شین ہے)
براشهد تو خنده زند اسھد بلال ترجمہ اشهدپہ تیرے ہنستا ہےا سہد بلال کا ۔
جاننا چاہیئے کہ اس فقیر کا مکشوف یہ ہے کہ بہشت میں ہر ایک بہشتی شخص کی رؤیت بھی اسی اسم الہی جل شانہ کے اندازہ کے موافق ہوگی جو اس کا مبدأ تعین وتشخیص ہے اور بہشتی درختوں، نہروں اور حوروغلمان کے لباس میں ظاہر ہوا ہے اس طرح پر کہ کچھ مدت کے بعدحق تعالیٰ کے کرم سے یہ درخت ونہریں وغیرہ جو اس اسم مقدس کے مظہر ہیں تھوڑی دیر کے لیے عینک کا حکم پیدا کر لیں گے اور اس شخص کے لیے رؤیت غیر متکیفہ(بے کیف) کی دولت کا وسیلہ ہو جائیں گے اور پھر اصلی حالت میں آجائیں گے اور اس کو اپنے ساتھ مشغول رھیں گے، جس طرح کے تجلی ذاتی برقی ہے جس کو صوفیاء نے اس جہان میں ثابت کیا ہے کہ حضرت ذات تعالیٰ کی تجلی اس دولت کے مستعدوں کے لیے ہمیشہ اسماء و صفات کے پردہ میں ہوتی ہے اور کچھ مدت کے بعد تھوڑی دیر کے لیے ان اسماء و صفات کے حجاب دور ہو جاتے ہیں اور حضرت ذات تعالیٰ اسماء و صفات کے پردہ کے بغیر تجلی ہوتی ہے چونکہ وہ اسم الہی جل شان حضرات ذات تعالیٰ کے اعتبارات میں سے ایک اعتبار ہے اس لیے ہر ایک شخص کی رؤیت بھی اسی اعتبارذاتی کے متعلق ہوگی جو اس شخص کا رب ہے اس مضمون سے کوئی شخص ذات تعالیٰ کے تبعض وتجزی یعنی بعض بعض اور جز و جزو ہونے کا وہم نہ کرے کیونکہ ذات جل شانہ بتمامہ وہ اعتبار ہےیہ نہیں کہ ذات کا بعض حصہ وہ اعتبار ہے اور بعض حصہ کوئی دوسرا اعتبار کیونکہ یہ نقص وحدوث کی علامت ہے۔
تَعَالَى اللہُ سُبْحَانَهُ عَنْ ذَالِکَ اللہ تعالیٰ ان باتوں سے پاک و برتر ہے ) اور اگر چہ ہر ایک اعتبار سراسر ذات ہے لیکن مرئی وہی اعتبار ہے نہ دوسرے اعتبارات لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ آنکھیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں) کا سر اس جگہ طلب کرنا چاہے۔
سوال: جب اعتبارات میں کوئی تمیز نہیں اور ہر ایک عین ذات ہے تو پھر رؤیت کو تمام اعتبارات میں سے ایک اعتبار کے تعلق کرنا کس لیے ہے۔
جواب : یہ اعتبارات اگر چہ عین ذات ہیں بلکہ ایک دوسرے کے بھی عین ہیں اور وہ تمیز و امتیاز چونی جو عالم چون کے گرفتاروں کے نزدیک معتبر ہے نہیں رکھتے لیکن ان کے درمیان امتیازبیچونی ثابت ہے اور وہ صاحب نصیب لوگ جو عام چون سے بیچون طور پر عالم بیچون کے ساتھ جا ملے ہیں ان پر یہ امتیاز بیچونی واضح ہے اور اس کو گوش وچشم کے امتیاز کی مانند معلوم کرتے ہیں ہاں وہ صاحب دولت جس کا مبدأتعین اعتدال کے طور پر اسم جامع ہوتا ہے اس کو مجمل طور پر درجات کے تفاوت کے بموجب ذات تعالیٰ کے تمام اعتبارات سے حصہ حاصل ہوتا ہے اور اس کی رؤیت ان سب کے متعلق ہوتی ہے لیکن چونکہ جامعیت اجمال کی تنگی جو اس کا نصیب ہے ہر وقت اس کو دامنگیر ہوتی ہے اس لیے درک و احاطہ اس کے حق میں بھی مفقود ہوتا ہے اور آیت کریمہ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ صادق آتا ہے۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ حَدِيثًا اللہ تعالیٰ سے زیادہ سچے كلام والا کون ہے جاننا چاہیئے کہ جب اللہ تعالیٰ بندے کو اپنے کرم کے ساتھ خصوصی کر کے فناء اتم کی دولت سے مشرف فرماتا ہے اور عدم کی قید سے کہ اس کی ماہیت تھی خلاص کرتا ہے اور اس کا عین واثر باقی نہیں چھوڑتا تو اس فناء کے بعد اس کو ایک وجود بخشتا ہے جو عالم آخرت کے وجود کی مانند ہوتا ہے جس کا تعلق ممکن کی جانب وجود کی ترجیح کے ساتھ ہوتا ہے اور اسما و صفات الہی جل شانہ کے جانب وجود کے کمالات کا مظہر ہوتا ہے جس کی تحقیق پہلے گزر چکی ہے حضرت یوسف علی نبینا وعلیہ الصلوة والسلام پہلے ہی وجود میں اس دولت سے مشرف ہوئے تھے اور یہ عارف دوسرے وجود اور دوسری ولادت میں چونکہ وہ دولت جبلی اور پیدائشی تھی۔ اس لیے ظاہری حسن بھی عطا فرمایا اور یہ چونکہ کسب کے بعد حاصل ہوئی ہے اس لیے نور باطن پر کفایت کی اور اس کے ظاہری حسن کو آخرت کے لیے ذخیرہ رکھا۔ انبیاعلیہم الصلوة والسلام کے بعد اس قسم کا دولتمند عزیز الوجود اور کمیاب ہے یہ بزرگوار اگر چہ نبی نہیں لیکن انبیاء کی تبعیت سے ان کی دولت خاصہ میں شریک ہے اور اگر چہ طفیلی ہے لیکن ان کی نعمت کے دسترخوان پر بیٹھنے والا ہے اور اگر چہ خادم ہے لیکن مخدوموں کا ہم نشین ہے اور اگر چہ تابع ہے لیکن متبوعوں کا مصاحب اور ہمراز ہے کبھی اس کے ساتھ وہ اسرار بیان کرتے ہیں جن میں انبیاء رشک کرتے ہیں اور اس کے ساتھ شریک ہونے کی آرزو کرتے ہیں جیسے کہ مخبر صادق علیہ الصلوة والسلام نے بھی اس کی خبر دی ہے لیکن اس قسم کا معاملہ فضل جزوی میں داخل ہے فضل کلی انبیاء علیہم الصلوة والسلام ہی کے لیے ہے اور چونکہ یہ فضل بھی اس کو انبیاء کی متابعت کی بدولت حاصل ہوا ہے اس لیے انہی کا ہے وہ صرف ان کا ایک امانت دار ہے۔ وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِينَ إِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنْصُورُونَ وَإِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغَالِبُونَ (ہمارے مرسل بندوں کے لیے ہمارا وعدہ ہو چکا ہے کہ یہی لوگ فتح مند ہیں اور بے شک ہمارالشکرہی غالب رہے گا )نص قرآنی ہے جس نے ان بزرگواروں کی شان کو سب سے آگے بڑھا دیا ہے اور سب پرفتح مند اور غالب کیا ہے۔
سوال: یہ وجود جواس تام الصفات عارف کو بخشا جاتا ہے یہ بھی اس جہان کے تمام موجودات کے وجود کی طرح مرتبہ حس میں ہے یا اس مرتبہ سے خارج ہے اور اگر خارج ہے تو اس نے وجود خارجی پیدا کیا ہے یا نہیں حالانکہ قوم کے نزدیک مقرر ہے کہ خارج میں حق تعالیٰ کے سوا کوئی چیز موجودنہیں۔
جواب: جواب جو کچھ آخر کار معلوم ہوا ہے۔ میں کہتا ہوں مرتبہ حس ووہم سے خارج ہے اور نفس امری ہو چکا ہے ۔ مرتبہ وہم نے اگر چہ ثبات وتقرر کے اعتبار سے نفس امر کا حکم پیدا کیا تھا لیکن درحقیقت نفس امرنہ تھا کیونکہ نفس امر اس مرتبہ کے ماسوا ہے۔ گویا مرتبہ مرتبہ وہم وخارج کے درمیان برزخ ہے۔ عالم آخرت کی موجودات بھی مرتبہ نفس امر میں ہیں بلکہ صفات ثمانیہ حقیقہ کے سواحق تعالیٰ کی باقی تمام صفات اسی مرتبہ میں ہیں اور مرتبہ خارج ذات اقدس جل شانہ اور اس کی صفات ثمانیہ کے سوا کچھ موجودنہیں۔ پس موجودات کے لیے تین مرتبے پیدا ہوئے۔
مرتبہ وہم جو اس جہان کے اکثر افراد کے نصیب ہے سب کے سب انبیاءعلیہم الصلوة والسلام اور ملائکہ کرام بھی اس مرتبہ سے نکلے ہوئے ہیں۔ ان کا وجود عالم آخرت کے وجود کے مناسب ہے اور اولیاء کرام میں سے بھی بعض اس دولت سے مشرف ہوئے ہیں اوروہم سے نکل کر نفس امر سے مل گئے ہیں۔
مرتبہ نفس امر ہے جہاں حق تعالیٰ کی صفات وافعال ثابت ہیں اور ملائکہ کرام بھی اس مرتبہ میں موجود ہیں اور عالم آخرت کا وجود بھی اس مرتبہ میں ثابت ہے اور انبیاء سب کے سب اور اولیاء میں سے بہت کم بھی اس مرتبہ میں گئے ہیں۔ فرق صرف اس قدر ہے کہ حق تعالیٰ کی صفات اس مقام کے مرکز میں ہیں جو اس کے تمام اجزاء میں سے اشرف جزو ہے اور باقی تمام موجودات اپنی اپنی استعداد کے موافق اس مرکز کے اطراف و اکناف میں ہیں۔
(3) مرتبہ خارج ہے جہاں واجب الوجود جل شانہ کی ذات اور صفات ثمانیہ(حیات، علم، قدرت،ارادہ، سمع، بصر، کلام، تکوین) موجود ہیں فرق صرف مرکز اور غیر مرکز کا ہے کیونکہ اشرف اقدس کے بہت مناسب ہے۔
سوال: مرتبہ وہم سے مرتب نفس الامر میں جانا کیا قرب رکھتا ہے اور کون سا قرب اس پر وابستہ ہے۔
جواب: ہر خیر و کمال اور حسن و جمال کا مبدأ وجود ہے اور وجود میں قوت و استقرار جس قدر زیادہ ہوگا اسی قدر ان صفات کا ظہور زیادہ کامل ہوگا اور شک نہیں کہ وجود نفس امری وجود وہمی سے اقوی و اثبت ہے۔ اس لیے خیر و کمال اس میں اتم واکمل ہوگا اور اس کے قرب میں کیا کلام ہے جبکہ حق تعالیٰ کی صفات افعال کے مرتبہ میں موجود ہوا ہے اور خالقیت و راز قیت کی صفات سے حق تعالیٰ کا قرب و جوار پیدا کیا ہے۔
جاننا چاہیئے کہ عدم کا ثبوت اور ایسے ہی ان کمالات کا ثبوت جن میں عدم کی آمیزش ملحوظ ہے اگر چہ کمالات صفاتیہ میں سے ہوں سب مرتبہ حس و وہم میں ہیں جب تک عدم سے بالکل پاک نہ ہوں اور عدم کا عین اثر زائل نہ ہو جائے مرتبہ نفس الامر تک پہنچنے کے لائق نہیں ہوتے اگرچہ ثبوت وہمی میں عدم کے قوت و ضعف کے اعتبار سے بہت سے درجات ہیں یعنی عدم جس قدر زیادہ قوی ہوگا اس قدر مرتبہ وہم کی گرفتاری زیادہ اتم واکمل ہوگی اور جس قدر زیادہ ضعیف ہوگا اسی قدر گرفتاری کم ہوگی بہت سے اولیاء جو سیر سلوک کر کے عدم کے تمام مراتب سے گزر جاتے ہیں اور عدم کے اثر کے سوا ان میں کچھ باقی نہیں رہتا اگرچہ جب تک وہ اثر باقی رہتا ہے مرتبہ نفس الامر میں داخل نہیں ہوتے لیکن مرتبہ وہم سے گزر کر اس کے نہایت نقطہ تک پہنچ جاتے ہیں اور مرتبہ نفس امر کے نظارہ کرنے والے ہو جاتے ہیں اور اس مقام سے کچھ حصہ حاصل کر لیتے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ انبیاء کرام اور ملائکہ عظام اپنے اپنے درجات کے موافق اور انبیاء کے بعض تابعدار گو تھوڑے ہی ہوں ۔ مقام نفس امری کے نہایت تک پہنچے ہیں اور وہاں ہر ایک کے لیے درجات کے اختلاف کے بموجب خاص محل اور علیحدہ مقام ہے۔ قرآن مجید کے حروف و کلمات بھی وہاں مشہودہوتے ہیں اور ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا مقام انبیاءعلیہم السلام کے اوپر ہے ۔ گویا اس مقام سے نکل چکے ہیں اور مقام فوق تک نہیں پہنچے ہیں اور درمیان میں برزخ بن کر ا قامت اختیار کی ہے کیونکہ مقام فوق واجب الوجود جل شانہ کی ذات اور صفات پاک کے ساتھ مخصوص ہے اس لیے کہ خارج میں سوائے حق تعالیٰ کے کچھ موجود نہیں۔ یہ حروف و کلمات چونکہ حدوث کے نشانات رکھتے ہیں اس لیے اس مقام تک پہنچنے کی قابلیت نہیں رکھتے لیکن اس مرتبہ کی تمام موجودات سے پیش قدم ہیں اور اپنے اپنے مدلولات کے دامن میں پنجہ مارے ہوئے ہیں اور وہ بزرگ کہ جنہوں نے مرتبہ نفس امر کی نہایت میں اقامت اختیار کی ہے۔ مرتب فوق کے نظارہ کرنے والے ہیں اور کمال گرفتاری کے باعث نرگس کی طرح ہمہ تن آنکھ بن کر اس جناب مقدس کی طرف دیکھنے والے ہیں۔عجب معاملہ ہے کہ یہ بزرگوار باوجود اس وطن و اقامت اختیار کرنے کے المَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ (آدمی اسی کے ساتھ ہو گا۔ جس کے ساتھ اس کو محبت ہوگی) کے موافق اپنے محبوب کے ساتھ مجہول الکیفیت معیت رکھتے ہیں اور بیخود ہو کر اس کے ساتھ ہیں اور بغیر اتحاد و دوئی کے اپنے مطلوب کے ساتھ مانوس و مالوف ہیں ۔ اس اثنا میں کہ اس مرتبہ مقدسہ کے ساتھ حروف و کلمات قرآنی کی معیت کا ملاحظہ کیا گیا ہے معلوم ہوا کہ اس معیت کو دوسروں کی معیت کے ساتھ کچھ نسبت نہیں ۔ یہ معیت بہت ہی بلند ہے ذرا بھی ادراک وسمجھ میں نہیں آسکتی کیونکہ ا بطن بطون یعنی باطنوں کے باطن پر وابستہ ہے۔ مخلوق کے فہم کی وہاں کچھ گنجائش نہیں۔اَلْقُرْانُ کَلَامُ اللهِ غَيْرُ مَخْلُوْقٍ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام غیرمخلوق ہے ) آیا ہے ان حروف و کلمات مقدسہ کی بلندی شان سے معلوم ہوتا ہے کہ کلام نفسی یہی حروف و کلمات ہیں چنانچہ قاضی عضد نے اس کی تحقیق کی ہے اور تقدیم اور تاخیر کے بغیر انہی کو کلام قد یمی نفسی کہا ہے اور ان کی تقدیم و تاخیر کو اپنے آلہ حادث یعنی زبان کے تصور پرموقوف رکھا ہے۔
سوال: اگر یہی حروف و کلمات کلام نفسی ہوں تو پھر چاہیئے کہ مرتبہ خارج میں داخل ہوں اور پہلے گزر چکا ہے کہ اس مقام میں داخل نہیں ہوتے اس کی وجہ کیا ہے؟
جواب: یہ حروف و کلمات چونکہ ذہنوں میں مقدم ومؤخر مذکور ہوئے ہیں اس لیے اس ملاحظہ سے نظر کشف میں ظاہر ہوتے ہیں کہ مرتبہ خارج میں داخل نہیں جب دوبارہ ان کو تقدیم و تاخیر کے ملاحظہ کے بغیر دیکھا ہے تو مشہودہوا ہے کہ داخل ہیں اور اپنے اصل کے ساتھ ملحق بلکہ متحد ہیں ۔ پس دوسروں کی معیت کو ان کی معیت کے ساتھ کیا نسبت ہے کیونکہ اس معیت میں اتحاد ہے اور دوسروں کی معیت میں اتحاد کی گنجائش نہیں۔ سبحان اللہ یہی حروف و کلمات قرآنی جب اللہ تعالیٰ کا کلام قدیم ہے تو اس کا ظہور اس جہان میں برخلاف دوسری صفات قدیمہ کےبنفس خود ہوگا کیونکہ اس صورت میں حروف و کلمات اس کلام تقدیم کانفس ہیں اور عارضی تقدیم و تاخیر کے سوا کہ وہ بھی آلہ تکلم کے قصور کے باعث ہے ۔ کوئی اس کا روپوش نہیں ہے۔ پس خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں تمام اشیاء سے زیادہ قریب قرآن مجید ہے اور حق تعالیٰ کی صفات سے زیادہ ظاہر بھی یہی صفت ہے جس کو ظلیت کی گرد بھی نہیں لگی اور تقدیم و تاخیر کے خس و خاشاک کومحجوبوں کی آنکھ میں ڈال کر اپنی اصالت کے ساتھ عالم ظلال میں جلوہ گر ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ تمام عبادتوں سے افضل قرآن مجید کی تلاوت ہے اور اس کی شفاعت دوسروں کی شفاعت سے زیادہ مقبول ہے خواہ ملک مقرب کی شفاعت ہو اور خواہ نبی مرسل کی اور وہ نتائج وثمرات جو قرآن مجید کی تلاوت پر مترتب ہوتے ہیں۔ تفصیل سے باہر ہیں ۔ بسا اوقات تلاوت کرنے والے کو ایسے بلند درجات تک لے جاتا ہے کہ وہاں بال کی بھی گنجائش نہیں ہوسکتی۔
سوال : کیا قرآن مجید کے حروف و کلمات ہی اس دولت کے ساتھ مخصوص ہیں یا تمام منزلہ کتابوں کے حروف کلمات بھی اس دولت میں ان کے ساتھ شریک ہیں اور سب کلام قدیم نفسی ہیں۔
جواب: سب اس دولت میں شریک ہیں البتہ اس قدرفرق نظر کشفی میں پیدا ہوتا ہے کہ قرآن مجید گویا مرکز دائرہ ہے اور تمام کتب منزلہ بلکہ تمام وہ کلا میں جن کے ساتھ ازل سے ابد تک تکلم واقع ہوتا ہے اس دائرہ کا محیط ہیں۔ پس قرآن مجید سب کا اصل اور تمام کتابوں میں سے اشرف ہے کیونکہ مرکز دائرہ کے تمام اجزاء میں سے اشرف اور اس کے تمام نقطوں کا اصل ہوتا ہے گویا تمام نقطے اس کی تفصیل ہیں اور وہ سب کا اجمال ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی شان میں فرماتا ہے۔ وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ (بیشک وہ اولین کے صحیفوں میں تھا)
سوال: تحقیق اول سے معلوم ہوا ہے کہ اس جہان میں مظاہر جمیلہ کے ضمن میں شہود(مشاہدہ) مشاہدہ جو بعض نے کہا ہے واقع نہیں اور ان میں اس مقدمہ کے مظہربننے کی قابلیت نہیں کہ اس جہان میں ان مظاہر کے سوانفس مشہود و مشاہدہ حق ہے یا نہیں؟
جواب :جو کچھ اس فقیر کے اعتقاد میں ہے یہ ہے کہ اس جہان کے نصیب ایقان ہے کہ رؤیت بصری اور مشاہدہ جو درجات کے اختلاف کے بموجب رؤیت قلبی سے مراد ہے اس کا ثمره ونتیجہ ہے جو آخرت پر وابستہ ہے صاحب تعرف قدس سرہ جو اس طا ئفہ عالیہ کے بزرگواروں میں سے ہیں اپنی کتاب میں مشائخ کا اجماع اس بارہ میں نقل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مشائخ نے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ اس جہان میں حق تعالیٰ کی رؤیت آنکھ اور دل سے واقع نہیں اور ایقان کے سوا کوئی اور امر ثابت ہیں۔
سوال : اس طائفہ علیہ کے نزدیک ثابت و مقرر ہے کہ یقین کے تین درجے ہیں۔ علم الیقین عین الیقین وحق الیقین علم الیقین اثر سے موثر کی طرف استدلال کرنے سے مراد ہے جس طرح آگ کے وجود کا یقین جو استدلال کے طور پر دھوئیں کے وجود کے علم سے حاصل ہوتا ہے اور عین الیقین آگ کے دیکھنے سے مراد ہے اور حق الیقین شان آتش کے ساتھ متحقق ہونے سے مراد ہے اور جب رؤیت قلبی بھی نہ ہوئی تو پھرعین الیقین کس طرح درست ہے اور عدم رؤیت پر مشائخ کا اجماع کس طرح صادق ہے۔
جواب: ہوسکتا ہے کہ اجتماع سے مراد مشائخ متقدمین کا اجماع ہو اور متاخرین نے اس کیخلاف حکم کیا ہو اور رؤیت قلبی کو تجویز کیا ہو لیکن اس فقیر کے نزدیک یہ حکم ثابت نہیں ہوا اور اس تجویز کا ثبوت نہیں ملا یہ تینوں درجے جو یقین میں کہے گئے ہیں سب علم الیقین میں داخل ہیں اور استدلال سے نہیں نکلے اور علم سے عین تک نہیں پہنچے یہ جو انہوں نے عین الیقین میں آگے کا دیکھنا کہا ہے جس سے آگ کے وجود پر استدلال کیا ہے نہ کہ آگ کا دیکھنا جس طرح علم الیقین میں دھوئیں کے علم سے آگ کے وجود پر استدلال تھا یہاں دھوئیں کے دیکھنے سے آگ کے وجود پر استدلال ہے یہ دوسرا یقین اپنی دلیل کے قوی ہونے کے باعث پہلے یقین سے اتم واکمل ہے کیونکہ وہاں علم دلیل یعنی دلیل کا علم ہے اور یہاں رؤیت دلیل یعنی دلیل کا دیکھنا اسی طرح حق الیقین میں دھوئیں کے ساتھ محقق ہوتا ہے نہ کہ آگ کے ساتھ اور اس آگ پر استدلال کرتا ہے یہ یقین پہلے دونوں باقیوں کی نسبت زیادہ کامل ہے کیونکہ اپنے نفس سے جود خان ہے آگ کے وجود پر استدلال کرتا ہے اور اس سے آفاق تک فرق واضح ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ وَفِي الْأَرْضِ آيَاتٌ لِلْمُوقِنِينَ وَفِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ (ہم آفاق میں اور ان کے انفس میں اپنے نشان دکھائیں گے تا کہ واضح ہوجائے کہ الله تعالیٰ حق ہے اور زمین میں یقین کرنے والوں کے لیے نشانات ہیں اور تمام جانوں میں بھی ہیں ۔ تم کیوں نہیں دیکھتے ) جو آفاق وانفس میں دیکھا جاتا ہے سب مطلوب کے نشان ہیں نہ نفس مطلوب پس مرئی انفس آفاق میں دخان ہے جو آتش کا نشان ہے نہ کہ آتش پس معاملہ انفس وآفاق میں استدلال ہے جو علم الیقین کی حقیقت ہے اور عین الیقین وحق الیقین کو نفس و آفاق کے ماورا تشخیص کرنا چاہیئے۔ سبحان اللہ بزرگوں نے مطلوب کی یافت کی نفس کے باہر لاحاصل سمجھا ہے چنانچہ کوئی کہتا ہے۔ بیت
ہمچونا بینا مبر ہر سوۓ دست با تو درز یرگلیم است آنچہ ہست
ترجمہ بیت ہاتھ اندھوں کی طرح ہرگز نہ مار گودڑی میں ہے وہ تیرے ہم کنار کوئی اس طرح کہتا ہے۔ بیت
چوں جلوآں جمال بیرون ز تو نیست پابدامان و سربجیباندر کش
ترجمہ بیت جب جلوہ اس جمال کا باہرترےنہیں خاموش بیٹھ اور ڈھونڈ اس کو کہیں کوئی یوں پکارتا ہے۔ بیت
ذره گربس نیک وربس بدبود گر چپ عمرے تک زنده در خود بود
ترجمہ بیت ذره گر ہونیک یا ہوبس برا عمرتک دوڑے رہے اس جا پڑا
صاحب فصوص فرماتے ہیں کہ تجلی ذاتی متجلی لہ صورت پر ہوتی ہے ۔ ایک بزرگ اس طرح کہتے ہیں کہ اہل اللہ فناء و بقاء کے بعد جو کچھ دیکھتے ہیں اپنے آپ ہی میں دیکھتے ہیں اور جو کچھ جانتے ہیں اپنے آپ میں ہی پہچانتے ہیں اور ان کی حیرت اپنے ہی وجود میں ہے ۔ وَفِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ (اپنی جانوں میں تم کیوں نہیں دیکھتے ) فقیر کے نزدیک انفس بھی آفاق کی طرح لا حاصل ہے اور مطلوب کے آفاق سے خالی اور بے نصیب ہے وہ ہنر جو انفس و آفاق میں ہے مطلوب کی طرف استدلال اور مقصود پر دلالت ہے۔ مطلوب تک پہنچنا نفس و آفاق کے ماوراء پر وابستہ ہے اور جذبہ وسلوک کے ماسوا ء پر موقوف ہے کیونکہ سلوک سیر آفاقی ہے اور جذبہ سیرانفسی پس سلوک و جذبہ اور سیرانفسی و آفاقی سب سیرالی اللہ میں داخل ہیں نہ کہ جس طرح صوفیاء نے کہا ہے کہ سیروسلوک آفاقی سیر الی اللہ ہے اور جذبہ و سیرانفسی سیر فی اللہ کیا کہا جائے۔ ان کو ایسا مبتلاکیا گیا ہے اور مجھے سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَايا الله تو پاک ہے ہم کو کوئی علم نہیں مگر جو تو نے سکھایا ) ان کے پس خوردہ کھانے والے مجھ مسکین کی کیا طاقت ہے کہ ان کے مذاق کے برخلاف کام کرے لیکن چونکہ معاملہ تقلید سے گزر چکا ہے اس لیے جو کچھ پاتا ہے کہتا ہے خواہ قوم کے مخالف ہو یا موافق ۔ امام ابو یوسف کے لیے تقلید سے گزر کر اپنے استاد امام ابوحنیفہ کے ساتھ موافقت کرنا خطا ہے رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَاتو ہماری بھول چوک پر ہمارا مواخذہ نہ کر)
سوال: یقین کے یہ تینوں درجے جب علم الیقین میں داخل ہیں تو پھر تمہارے نزدیک عین الیقین کیا ہے؟
جواب : عین الیقین اس حالت سے مراد ہے جونفس دخان کو آتش کے ساتھ ثابت ہے اور جب مستدل درجہ دلیل کے منتہا تک پہنچ جائے جو کہ دخان ہے تو اس کے لیے بھی آگ کے ساتھ وہ حالت پیدا ہو جائے گی جو دخان کو آتش کے ساتھ ثابت ہے ۔ فقیر کے نزدیک یہ حالت عین الیقین سے تعبیر کی گئی ہے جوعلم استدلال سے برتر ہے اور انفس و آفاق کے باہر ہے چونکہ استدلال کا پردہ درمیان سے اٹھ گیا ہے جو مرتبہ علم کی نہایت ہے اس لیے علم سے کشف میں آ گیا ہے اور غیب سے شہود(مشاہدہ) حضور میں پہنچ گیا ہے جاننا چاہیئے کہ شہود حضور اور ہے اور رؤیت و احساس اور ضعیف البصر کے لیے آفتاب کی تیز روشنی میں آفتاب کا شہودو ثابت ہے اور اس کی رؤیت و احساس متحقق نہیں۔
تنبیہ
: دخان کے ساتھ متحقق ہونا دو درجے رکھتا ہے اورعلم الیقین و عین الیقین کو شامل ہے۔ جیسے کہ اس کی تحقیق گزر چکی دخان کے ساتھ متحقق ہونے میں جب تک اس کے تمام نقطوں کو طے کر کے اس کے آخیر نقطہ تک نہ پہنچیں تب تک علم یقین ہے کیونکہ ہر ایک نقطہ جو باقی رہا ہے اس کا حجاب ہے جس سے استدلال لازم آتا ہے اور جب تمام نقطوں سےمتحقق ہو کر اس کے آخیر نقطہ تک پہنچ جائیں تو پھر استدلال سے نکل آتے ہیں کیونکہ حجب یعنی پردے سب کے سب دور ہو جاتے ہیں اورنفس دخان کی طرف عین الیقین ثابت ہو جاتا ہے۔ فَاَفْھَمْ حق الیقین کی نسبت کیا لکھا جائے ۔ کیونکہ اس کے ساتھ کامل طور پرتحقق ہونا عالم آخرت پر وابستہ ہے اگر اس دولت کا کچھ حصہ دنیا میں ثابت ہے تو اخص خواص کے ساتھ ہی مخصوص ہے جن کے نزدیک سیرانفسی جو حق الیقین کے مشابہ ہے علم الیقین میں داخل ہے اور ان کے انفس نے آفاق کا علم حاصل کیا ہے اور ان کا علم حضوری جو اس کے متعلق ہے علم حصولی ہوگیا ہے اور عین الیقین انفس وآفاق کے ماوراء ان کے حق میں حاصل ہوا ہے ایسے لوگ بہت ہی کم ہیں ۔
خاتمہ حسنہ
: حضرت محمد رسول اللہ ﷺکے اس حسن و جمال کے بیان میں جو پروردگار عالمیان جل شانہ کی محبت کا باعث ہے اور جس کے سبب آ نحضرت رب العالمین کےمحبوب ہوئے ہیں ۔ حضرت یوسف علیہ الصلوة والسلام اگر چہ اس صباحت کے سبب جوان میں پائی جاتی تھی حضرت یعقوب علی نبینا وعلیہ الصلوة والسلام کے محبوب تھے لیکن ہمارے حضرت پیغمبر خاتم الرسل اس ملاحت کے باعث جو ان میں موجودتھی ۔ خالق زمین و آسمان کے محبوب ہیں اور زمین و آسمان کو ان ہی کے طفیل پیدا فرمایا ہے۔کما ورد جاننا چاہیئے کہ پیدائش محمدی تمام افراد انسان کی پیدائش کی طرح نہیں بلکہ افراد عالم میں سے کسی فرد کی پیدائش کے ساتھ نسبت نہیں رکھتی کیونکہ آنحضرت ﷺباوجودعنصری پیدائش کے حق تعالیٰ کے نور سے پیدا ہوئے ہیں جیسے کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا ہے ۔خُلِقْتُ مِنْ نُوْرِ اللهِ (میں اللہ تعالیٰ کے نور سے پیدا ہوا ہوں) اور دوسروں کو یہ دولت میسر نہیں ہوئی اس دقیقہ کا بیان یہ ہے کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ حضرت واجب الوجود جل شانہ کی صفات ثمانیہ حقیقیہ اگر چہ دائرہ وجوب میں داخل ہیں لیکن اس احتیاج کے باعث جو ان کو حضرت ذات تعالیٰ کے ساتھ ہے ۔ ان میں امکان کی بو پائی جاتی ہے اور جب صفات حقیقیہ قدیمہ میں امکان کی بو موجود ہے تو حضرت واجب الوجود جل شانہ کی صفات اضافیہ میں بطریق اولی امکان ثابت ہوگا اور ان کا قدیم نہ ہونا ان کے امکان پر پختہ دلیل ہوگا۔ کشف صریح سے معلوم ہوا ہے کہ آنحضرت کی پیدائش اس امکان سے پیدا ہوئی ہے جو صفات اضافیہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے نہ کہ اس امکان سے جو تمام ممکنات عالم میں ثابت ہے جوممکنات عالم کےصحیفہ کوخواہ کتنا ہی باریک نظر سے مطالعہ کیا جائے لیکن وہاں آنحضرت ﷺکا وجود مشہود نہیں ہوتا بلکہ ان کی خلقت و امکان کامنشاء صفات اضافیہ کا وجود اور ان کا امکان محسوس ہوتا ہے جب آنحضرت کا وجود عالم ممکنات میں ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس عالم سے برتر ہے تو یہی وجہ ہے کہ ان کا سایہ نہ تھا نیز عالم شہادت میں ہر ایک شخص کا سایہ اس کے وجود کی نسبت زیادہ لطیف ہوتا ہے اور جب جہان میں آنحضرت سے زیادہ لطیف کوئی نہیں تو پھر ان کا سایہ کیسے متصور ہوسکتا ہے۔
واضح ہو کہ صفت علم صفات حقیقیہ میں سے ہے اور موجود خارجی کے دائرہ میں داخل ہے اور جب اس صفت کو اضافت عارض ہو جائے اور اس سے تقسیم ہو جائے جیسے کہ علم اجمالی اورعلم تفصیلی تو یہ قسمیں صفات اضافی میں سے ہوں گی اور ثبوت نفس امری کے دائرہ میں داخل ہوں گی جو صفات اضافیہ کا مقرر مقام ہے جیسے کہ گزر چکا اور مشہودہوتا ہے کہ علم جملی جو صفات اضافیہ میں سے ہے وہی نور ہے جس نے عالم عنصری میں بہت سی پشتوں سے رحموں میں منتقل ہونے کے بعد بعض حکمتوں اور مصلحتوں کے بموجب صورت انسانی میں جو احسن تقویم ہے ظہور فرمایا ہے اور جس کا نام محمد احمد ہوا ہے۔
غور سے سننا چاہیئے کہ اس قید اجمال نے اگر چہ علم مطلق کو قید کیا ہے اور اس کو حقیقت سے اضافت میں لایا ہے لیکن مقسم یعنی علم میں کوئی زیادتی پیدا نہیں کی اور اس کی کسی چیز کو مقید نہیں کیا کیونکہ اجمال علم نفس علم سے مراد ہے نہ کہ کوئی زائد امر جو علم سے ملا ہو برخلاف تفصیلی علم کے جو بے شمار جزئیات کو چاہتا ہے تاکہ تفصیل متصور ہو سکے ۔ یہ عجب قید ہے جو اطلاق کی مظہر ہے اور عجیب مقید ہے جونفس مطلق ہے اس قسم کی نزاکت مطلق علم میں ذات عالم جل شانہ کی نسبت ملاحظہ کرنی چاہیئے جہاں علم نفس عالم اورنفس معلوم ہوسکتا ہے جیسا کہ علم حضوری میں ثابت ہے ۔ برخلاف دوسری صفات کے کہ یہ قابلیت نہیں رکھتیں نہیں کہہ سکتے کہ قدرت عین قادر اور عین مقدور ہے یا ارادت عین مرید اور عین مراد ہے پس علم کو ذات عالم کے ساتھ وہ اتحادنیستی (فنائیت) ہے جو غیر کونہیں یہاں احمد کا قریب جواحد کے ساتھ ہے معلوم کرنا چاہیئے اور جاننا چاہیئے کہ ان کے درمیان کون سا واسطہ ہے وہ صفت علم ہی ہے جو ایک ایسا امر ہے جو مطلوب کے ساتھ اتحاد رکھتا ہے پھرحجاب ہونے کی کیا گنجائش ہے نیز علم کے لیے ایک ایساذاتی حسن ہے جو صفات میں سے کسی اور کیلئے ثابت نہیں ہے اسی واسطے اس فقیر کے خیال میں جو صفات واجبی سے زیادہ محبوب حق تعالیٰ کے نزدیک صفت علم ہے چونکہ اس کا حسن بیچونی کی آمیزش رکھتا ہے اس لیے اس کے ادراک سے قاصر ہے اس حسن کا پورا پورا ادراک عالم آخرت پر وابستہ ہے جو رؤیت کا مقام ہے جب خدا تعالیٰ کو دیکھیں گے حضرت محمد کے جمال کو بھی پالیں گے اگر چہ اس جہان میں حسن کا دو تہائی حصہ حضرت یوسف کو عطا ہوا اور باقی تیسرا حصہ سب میں تقسیم ہوا لیکن عالم آخرت میں سارا حسن حسن محمدی ہے اور تمام جمال جمال محمد ہے جو خدا تعالیٰ کومحبوب ہے صفت علم کے حسن کے ساتھ کی دوسری صفت کے حسن کو کس طرح مشارکت ہوسکتی ہے جبکہ اس کا حسن مطلوب کے ساتھ متحد ہونے کے باعث عین مطلوب کا حسن ہے۔ دوسری صفت کے لیے چونکہ اس قسم کا اتحاد نہیں اس لیے ایسا حسن بھی نہیں۔ پس پیدائش محمد با وجود حدوث کے قدم ذات کی طرف منسوب ہے اور اس کا امکان بھی وجود ذات تعالیٰ تک منتہی ہے اور اس کا حسن حسن ذات تعالیٰ ہے جس میں حسن کے سوا اور کسی چیز کی آمیزش نہیں یہی وجہ ہے کہ اس کے ساتھ جمیل مطلق کی محبت کا تعلق ہے اور حق تعالیٰ کی محبوب ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ ( اللہ تعالیٰ جمیل ہے جمال کو دوست رکھتا ہے)
سوال: آیت کریمہ وَیُحِبُّهُمْ الله تعالیٰ ان کو دوست رکھتا ہے ) اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ آنحضرت کے سوا اوروں کے ساتھ بھی حضرت حق سبحانہ کی محبت کا تعلق ہے اور دوسرے بھی حق تعالیٰ کے محبوب ہیں اس تخصیص کی وجہ کیا ہے جو دوسروں میں موجود نہیں۔
جواب: محبت کی دوقسمیں ہیں ایک وہ محبت ہے جو ذات محب کے متعلق ہے دوسری وہ محبت ہے جو اس کی ذات کے سوا غیر سے تعلق رکھتی ہے ۔پہلی قسم ذاتی محبت ہے اور محبت کی تمام قسموں سے بڑھ کر ہے کیونکہ کوئی شخص کسی چیز کو اتنا دوست نہیں رکھتاجتنا کہ اپنے آپ کو نیز اس قسم کی محبت نہایت محکم اور مضبوط ہوتی ہے جوکسی عارضہ سے زائل نہیں ہوتی ۔ نیزیہ محبت محبوب . صرف سے تعلق رکھتی ہے جس میں محبیت کی آمیزش نہیں برخلاف دوسری قسم کی محبت کے کہ جو عارضی اور زوال پذیر ہے محبت بھی اگرچہ ایک وجہ سے محبوب کے ساتھ تعلق رکھتی ہے لیکن کئی وجوہ سے محبیت کی آمیزش رکھتی ہے چونکہ حضرت خاتم الرسل کا حسن و جمال حضرت ذات تعالیٰ کے حسن و جمال کی طرف منسوب ہے جیسے کہ گزر چکا اس لیے قسم اول کی محبت جوذات تعالیٰ کے متعلق ہے آنحضرت ﷺکے متعلق ہوئی اور ذات سبحانہ کی طرح محبت کے تعلق سے آنحضرت ﷺبھی محبوب صرف ہوئے دوسروں کو چونکہ یہ دولت میسر نہیں ہوئی اور ایک وجہ سے ان کو محبوب بنا دیا محبوب مطلق آنحضرت ﷺہی ہیں جو محب کی ذات کی طرح ہمیشہ محبوب ہیں محسوس ہوتا ہے کہ جس طرح حضرت موسی کو حضرت حق سبحانہ کے ساتھ محبت غالب ہے اور وہ اس محبت کے باعث محبوں کے سردار اور رئیس ہیں اسی طرح حق تعالیٰ کو حضرت خاتم الرسل کے ساتھ غالب محبت ہے یہ فقیران دونوں محبتوں کے دریا میں ہر چند غوطہ لگاتا اور تیرتا ہے کہ قوت وضعف کے لحاظ سے ان دونوں محبتوں کے درمیان فرق ظاہر کرے اور آیت کریمہ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ خبر دار اللہ کا گروہ غالب ہے ) گروہ کے موافق خالق کی محبت کو مخلوق کی محبت سے زیادہ مضبوط ومحکم معلوم کرے لیکن کوئی فرق ظاہر نہیں ہوتا گویا ان محبتوں کو عدالت کی میزان پر برابر تولا ہے اور بال بھر بھی کمی بیشی تجویز نہیں کی۔ سوال: صوفیاء نے تمام افراد عالم کو اسماء الہی جل شانہ کا ظہور مقرر کیا ہے اور انہیں اسماء کو اشیاء کی حقائق معلوم کیا ہے اور اشیاء کو ان کا ظلال جانا ہے گویا انہوں نے تمام عالم کو اسماء الہی جل شانہ کا ظہور مقرر کیا ہے پھر بعض اسماء کے ظہور کو آنحضرت ﷺ کی پیدائش کے ساتھ مخصوص کرنے کی کیا وجہ ہے؟
جواب: اشیاء کی حقائق صوفیاء کے نزدیک وہ اعیان ثابتہ (ممکنہ حقائق) ہیں جو اسماء الہی کی علمیہ صورتیں ہیں ۔ نہ کہ اسماء الہی بذات خود اور اس عالم کو ان علمیہ صورتوں کا ظہور کہا ہے اگرچہ مجاز کے طور پر ان کو اسما ءکا ظہور بھی کہتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک شے کی صورت علمی بھی اس شے کا عین ہے نہ کہ اس شے کاشج و مثال اور یہ جو اس فقیر نے آنحضرت ﷺ کی پیدائش کے بارہ میں کہا ہے وہ اس اسم الہی کا ظہور ہے نہ کہ اس اسم کی صورت علمیہ کا ظہور۔ شَتَّانَ مَا بَيْنَ نَفْسَ الشَّيْىِء وَبَيْنَ صُوْرَتِهِ الْعِلْمِيَّةِ (شے کےنفس اور اس کی صورت علمیہ میں بہت فرق ہے) آگ کو جب تصور کرتے ہیں تو اس صورت علمیہ میں اس کی چمک اور روشنی کہاں ہے جو آگ کا کمال و جمال ہے۔ صورت علمیہ میں صرف آگ کی شج ومثل ثابت ہے ۔ معقول والے لوگ اس بات کو پسند کریں یا نہ کریں خواہ عین آتش کہیں لیکن ہمارا کشف صریح عینیت کی تکذیب کرتا ہے۔ آگ کی صورت عالیہ میں صرف اس آگ کی شج و مثال ہے جو خارج میں موجود ہے یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ جو اسماء کی علمیہ صورتوں کا ظہور ہے اس کا امکان و وجود امکان عالم اور اس کے وجود کی قسم سے ہے جس نے مرتبہ وہم میں حق تعالیٰ کی صنعت(کاریگری) سے ثبات وتقرر پیدا کیا ہے اور جونفس اسم الہی کا ظہور ہے جیسے کہ آنحضرت ﷺکی پیدائش میں گزر چکا ہے ۔ اس کا امکان صفات اضافی کے امکان کی قسم سے ہے اور اس کا وجود بھی ان صفات کے وجود کی طرح مرتبہ نفس امر میں مقررو ثابت ہے اور آنحضرت ﷺکے بغیر کوئی شخص نظر نہیں آتا جونفس اسم الہی کا ظہور ہو مگر قرآن مجید کی وہ بھی نفس اسم الہی کا ظہور ہے جیسے کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے حاصل کلام یہ ہے کہ ظہور قرآنی کا منشاء صفات حقیقیہ میں سے ہے اور ظہورو محمدی کا منشاء صفات اضافیہ میں سے اسی واسطے اس کو قدیم وغیرمخلوق کہتے ہیں اور اس کو حادث ومخلوق لیکن کعبہ ربانی کا معاملہ ان ہر دوظہوراسمی سے بھی زیادہ عجیب ہے۔ وہاں صورتوں اور شکلوں کے لباس کے بغیر معنی تنزیہی کا ظہور ہے کیونکہ کعبہ جو خلائق کا مسجود الیہ ہے پتھر ڈھیلے چھت اور دیواروں سے مرادنہیں ہے کیونکہ یہ چیز یں اگر نہ بھی ہو تو بھی کعبہ کعبہ اور مسجودالیہ ہے پس یہ نہایت ہی عجیب بات ہے کہ وہاں ظہور ہے لیکن اس کی کوئی صورت نہیں۔
واضح ہو کہ اس دولت خاصہ محمدی میں اگر چہ کوئی دوسرا شریک نہیں لیکن اس قدر معلوم کرتا ہے کہ آنحضرت کی تخلیق و تکمیل کے بعد آنحضرت کی دولت خاصہ سے کچھ بقیہ رہ گیا تھا کیونکہ کریموں کی دولت ضیافت کے دستر خوان میں زیادتی لازم ہے تا کہ پس خورده خادموں کے نصیب ہو غرض وہ بقیہ آنحضرت کی امت کے دولتمندوں میں سے ایک کو پس خوردہ کے طور پر عطا فرمایا ہے اور اس کو غیر مادی بنا کر اس کے وجود اورذات کو اس سے گوندھا ہے اورآنحضرتﷺ کی تبعیت اور وراثت کے طور پرآنحضرت کی دولت خاصہ میں شریک کیا ہے۔ع
برکریماں کا رہا دشوار نیست کریموں پر نہیں مشکل کوئی کام
به بقیہ حضرت آدم کی اس بقیہ طینت کی طرح ہے جو درخت خرما کو نصیب ہوا ہے جیسے کہ آنحضرت نے فرمایا ہے أَكْرِمُوا عَمَّتَكُمُ النَّخْلَةَ، فَإِنَّهَا خُلِقَتْ مِنْ بَقِيَّةِ طِينَةِ آدَمَ (اپنی پھوپھی خالہ کی عزت کرو کیونکہ وہ حضرت آدم کی طینت سے پیدا کی گئی ہے ہاں سچ ہے۔ ع
وَلِلْأَرْضِ مِنْ كأسِ الكِرَامِ نَصِيْبُ ترجمہ: ہے کاسہ کریم سے حصہ زمین کو۔
سوال: حضرت محی الدین ابن عربی قدس سرہ اور اس کے تابعین نے حقیقت محمدی کوحضرت اجمال علم سے تعبیر کیا ہے اور اس کو تعین اول کہا ہے اور تجلی ذات جانا ہے اور اس کے اوپر مرتبہ لاتعین ثابت کیا ہے جو مرتبہ حضرت ذات بحت (خالص ذات) ہے اور تم نے اس کوقسم علم اور صفات اضافیہ میں داخل کیا ہے جو صفات حقیقیہ سے نیچے ہیں اس کی وجہ کیا ہے۔ جواب: شیخ محی الدین قدس سره خارج میں ذات احدیت مجردہ (غیر مادی) کے سوا کچھ موجودنہیں جانتا اور صفات کا وجود اگرچہ حقیقیہ ہوں علم کے سوا ثابت نہیں کرتا اسی واسطے اس کے نزدیک تعین اول علم جملی (تفصیل طلب)ہے اور ثبوت بعد ازاں متصور ہوتا ہے۔ اس لیے کہ ان کا ثبوت علم کی فرع ہے کیونکہ علم کے سوا ان کا ثبوت نہیں جانتا۔ پس اس کے نزدیک علم سب سے اسبق ہے اور تمام کمالات کا جامع ہے۔ فقیر کے نزدیک جو کچھ مکشوف ہوا ہے یہ ہے کہ صفات حقیقیہ ثمانیہ ذات واجب تعالیٰ کی طرح خارج میں موجود ہیں اگر کچھ تفاوت ہے تو مرکزیت اور غیر مرکزیت کے اعتبار سے ہے ۔ جیسے کہ گزر چکا ہے یہ قول علماء اہل سنت و جماعت شکر اللہ تعالیٰ سعیہم کے عقائد کے موافق ہے جو فرماتے ہیں کہ صفات کا وجودذات تعالیٰ کے وجود پر زائد ہے۔ اس صورت میں علم جملی کوتعین اول کہنا بے معنی ہے بلکہ تعین کا اطلاق کرنا گنجائش نہیں رکھتا کیونکہ تمام صفات میں سے اسبق اور اول صفت حیات ہے جس کے تابع صفت علم ہے علم کو اس پر سبقت دینا ناممکن ہے خاص کہ جب علم کے ساتھ کوئی قید بھی لگی ہو وہ مطلق علم سے بھی بہت نیچے اور اضافات میں داخل ہے جیسے کہ گزر چکا ہاں اگرعلم جملی (تفصیل کا محتاج)کوعلم کا تعین اول کہیں تو ہوسکتا ہے کیونکہ اس کا تعین ثانی علم تفصیلی ہے۔
سوال:شیخ محی الدین قدس سرہ نے جوعلم جملی کو حقیقت محمدی کہا ہے اور اس عالم عنصر ی کو اس کا ظہور جانا ہے اس کی مرادنفس اسم کا ظہور ہے جیسے کہ تم نے کہا ہے یا اس اسم کی صورت کا ظہور ہے جیسے کہ تمام ممکنات میں ہے۔
جواب : صورت اسم کا ظہور ہے کیونکہ تعین اول شیخ قدس سرہ کے نزدیک تعین علمی ہے اس لیے کہ اس نے پہلے دونوں تعینوں کوتعین علمی کہا ہے اور آخر کے تینوں تعینوں کوتعین خارجی فرمایا ہے تعین علمی شان العلم کی صورت ہے جس کو اس نے خارج میں عین ذات کہا ہے اور علم میں اس کی صورت کو ثابت کیا ہے اور اس صورت علمی نے جو حقیقت محمدی ہے عالم عنصری میں صورت انسانی محمدی میں ظہور کیا ہے غرض شیخ کے نزدیک جہاں کہیں ظہور ہے صورت علمیہ کا ظہور ہے خواہ صفات واجبی جل شانہ ہوں کیونکہ اس کے نزدیک علم کے سواصفات کا ثبوت نہیں اور خارج میں سوائے ذات بحت کے کچھ بھی اس کے نزدیک موجود نہیں۔
سوال : اس مرتبہ میں علم و عالم و معلوم کا اتحاد ہے جس کاحاصل علم حضور ہے پس اسم کی صورت کی بھی وہاں گنجائش نہ ہوگی کیونکہ علم حصولی میں صورت کا حصول ہے اور علم حضوری میں نفس معلوم حاضر ہے نہ کہ معلوم کی صورت۔
جواب: وہ مرتبہ ذات بحت کا مرتبہ نہیں ہے اس واسطے اس کو تعین وتنزل کہا ہے پس خارج میں موجود نہ ہوگا اور جب خارج میں موجود نہ ہوا تو ثبوت علمی سے اس کو چارہ نہیں اور اس واسطے اس کو تعین علمی کہا ہے کہ ثبوت علمی کے لیے معلوم کی صورت کا ہونا ضروری ہے اس بیان سے لازم آیا کہ علم حضوری میں نفس معلوم کے حاضر ہونے کے باوجود معلوم کی صورت بھی ثابت ہے کیونکہ نفس معلوم خالص طور پر حاضر نہیں ہے بلکہ ایک اعتبار نے اس میں راہ پایا ہے جو اس کو نفس سے صورت میں لایا ہے لیکن ہرشخص کا فہم اس وقت تک نہیں پہنچتا اور جب تک ذات بحت جل شانہ سے بیچونی وصول کے ساتھ واصل نہ ہوں تب تک اس دقیقه کونہیں پاسکتے۔ سبحان اللہ مجھے درماندہ اور پسماندہ فقیر میں کہاں طاقت ہے کہ حضرت خاتم الرسل کی بعثت سے ہزار سال کے بعد انبیاء اولو العزم علیہم الصلوة والسلام کے اسرار و معارف کی نسبت گفتگو کروں اور معاد کے دامن میں آ کر مبدأکے کمالات کے دقائق بیان کروں۔
من آں خاکم که ابر نو بهاری کند از لطف برمن قطره باری
اگر به اوئد از تن صد زبانم چو سبزه شکرلطف کے توانم
ترجمہ : ابيات .مجھے جب خاک سے شہ نے اٹھایا ہے لائق ہو فلک سے اونچا پایا میں ہوں وہ خاک ابر نو بہاری کرے جس پر کرم سے قطره باری اگر ہر بال میں میری زبان ہو نہ شکر اس کاکبھی مجھ سے عیاں ہو الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ لَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ (الله تعالیٰ کے لیے حمد ہے جس نے ہم کو ہدایت دی اور اگر وہ ہم کو ہدایت نہ دیتا تو ہم بھی ہدایت نہ پاتے، بیشک ہمارے اللہ تعالیٰ کے رسول حق کے ساتھ آئے ہیں)۔ ) دل تو چاہتا تھا کہ اس صباحت و ملاحت کا کچھ حال بیان کروں جس کی نسبت حدیث نبوی میں آیا ہے۔ آخیْ يُوْسُفُ أَصْبَحُ وَأَنَا أَمْلَحُ (میرا بھائی یوسف صبیح( صاف رنگ کی خوبصورتی) تھا اور میں ملیح (چہرے کی کشش کی خوبصورتی)ہوں) اور اس بارہ میں رمز و اشارہ سے گفتگو کروں لیکن دیکھا کہ رمز واشارہ مقصود کے ادا کرنے میں قاصر ہے اور سننے والے اس کے سمجھنے سے عاجز ہیں۔ قرآن کے حروف مقطعات سب کے سب ان حقائق احوال اور دقائق اسرار کے رموز و اثرات ہیں جومحب ومحبوب کے درمیان ثابت ہیں لیکن کون ہے جو ان کو معلوم کر سکے ۔ علماء راسخین جو حبیب رب العالمین کے خادموں اور غلاموں کا حکم رکھتے ہیں خادموں کے لیے جائز ہے کہ ان کومخدوم کے بعض خفیہ اسرار پر اطلاع ہو بلکہ ہوسکتا ہے کہ مخدوم کی تبعیت کے باعث خادم کے ساتھ معاملات بیان کریں اور پس خوردہ کھانے والے کی طرح مخدوم کی دولت خاصہ میں شریک ہولیکن اگر وہ ان اسرار کو کچھ بھی بیان کرے تو خیانتی ہوتا ہے اور اپنے سر کو برباد کرتا ہے اور لَقُطِعَ هَذَا الْبُلْعُومْ جو حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا ہے اس کے حق میں صادق آتا ہے۔ وَيَضِيقُ صَدْرِي وَلَا يَنْطَلِقُ لِسَانِي ( میرا سینہ تنگ اور میری زبان بند ہو جاتی ہے اس کا نقد وقت ہے ۔ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ ( یااللہ تو ہمارے گناہوں اور کام میں زیادتیوں کو بخش اور ہمارے قدموں کو ثابت رکھے اور کافر لوگوں پر ہمیں فتح دے ) وَالسَّلَامُ عَلَیْکُم ْوَعَلیٰ سَائِرِمَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى وَالتَزَمَ مُتَابَعَةَ المُصطَفىٰ عَلَيهِ وَعَليٰ اٰلِہٖ الصَّلَواتُ وَالتَّسلِيمَاتُ العُلیٰ اَتَمَّهَا وَاَدْوَمَهَا
اور سلام ہو آپ پر اوران لوگوں پر جو ہدایت کے رستہ پر چلے اور جنہوں نے حضرت محمدﷺکی متابعت کو لازم پکڑا۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ292ناشر ادارہ مجددیہ کراچی