حقائق سبعہ
لغت میں لفظ حقیقت سے مراد ذات ،شئی یا کسی لفظ یا عبارت کا بنیادی مفہوم ہے اس کا متضاد مجاز ہے اور اس کی جمع حقائق ہے۔
اصطلاح میں کسی شے کی اصلیت ،کُنْہ( ماہیتِ الٰہی جو ادراک سے پرے ہے۔انتہا، غایت) ,داخلی مطلب ،جوہر اور باطنی پہلو مراد ہے ۔پس اہل حقیقت سے مراد وہ لوگ لئے جاتے ہیں جو اشیاء کے باطنی پہلوؤں کو جانتے ہیں اور اس کا تجزیہ بھی کر سکتے ہیں اللہ تعالیٰ کو اس اعتبار سے حقیقت الحقائق کہا جاتا ہے یہ توحید کابلند مرتبہ ہے جسے حضرت الجمع بھی کہتے ہیں۔
صوفیائے کرام کے نزدیک حقیقت
صوفیائے کرام کے نزدیک حقیقت سے مراد کسی شے کا مبداء تعین ہے جہاں سے وہ شے فیض و تربیت پاتی ہے۔
۔ پس جاننا چاہئیے کہ حقیقت کا اِطلاق کئی وجہ سے ہوتا ہے یہاں حقیقت سے مُراد مبداءِ فیض ہے وہ حقیقت مُراد نہیں جو جِنس اور نوع سے مُرکب ہوتی ہے کہ اس پر اعتراض کیا جاسکے
حقیقت وجود کی وہ خاصیت ہے جو ہر شے کیلئے ضروری ہوتی ہے
دین محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے لیکن ظاہر تعیین اوقات جائے گمان اور اجسام کے ساتھ مصلحتوں کے قائم کرنے سے متعلق ہیں اور اس کا باطن طاعات کے آثار اور انوار کے حاصل کرنے کا نام ہے
حقائق کے سات مراتب ہیں ان کو حقائق سبعہ کہا جاتا ہے اور وہ درج ذیل ہیں
حقیقت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم
حقیقتِ محمّدی ایک جامع ذات ہے جو ہر قسم کے تنزل(زوال) سے پاک ہے حقیقت محمدی کو صوفیاء کے ہاں ‘مرتبہ ٔ وحدت’ اور ‘موجود اجمالی’ اور ‘حقیقة الحقائق’ اور ‘عقل اوّل’ اور ‘عالم صفات’ اور ‘ظہورِ اوّل’ اور ‘عالم رموز’ اور ‘اُمّ الفیض’ وغیرہ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے
حقیقت احمدی صلی اللہ علیہ وسلم
حقیقت ابراہیمی علیہ السلام
حقیقت موسوی علیہ السلام
حقیقت کعبہ
*حقیقتِ کعبہ سے مُراد وہ مرتبہِ وجوب ہے جو حضور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عالمِ امر کا مربی ہے اور شان العلم سے برتر ہے۔ اس اعتبار سے حقیقتِ کعبہ حقیقتِ مُحمّدیہ سے افضل ہے۔
حقیقت قرآن
حقیقتِ قرآنی اور حقیقتِ کعبہِ ربّانی کا درجہ حقیقتِ محمّدی علیٰ مظہرھا الصَّلوٰۃ و السَّلام و التحیۃ سے اُوپر ہے لہٰذا حقیقتِ قرآنی حقیقتِ محمّدی کی امام اور پیشوا ہوئی اور حقیقتِ کعبہِ ربّانی حقیقتِ محمدی کی مسجود ہوئی
حقیقت صلاۃ
پہلی چار حقائق حقائق کونیہ(مخلوقات عالم کے متعلق تمام حقاق، وہ شے ہے جو پہلے موجود نہ تھی اور پھر پیدا کی گئی حقائق کونیہ ہیں انہیں موجودات حدیث کہتے ہیں۔) اور آخری تین حقائق کو حقائق الہیہ( بمعنی علم عقل، قلم، لوح ، کرسی، عرش وغیرہ۔ انہیں موجودات قدیم کہتے ہیں ) کہا جاتا ہے حقیقت کعبہ حقیقت کونیہ سے افضل ہے کیونکہ حقیقت کعبہ ظہور تنز یہہ صرف ذات حق تعالیٰ ہےاور یہ مرتبہ وجوب اور حقائق کونیہ ظہورات مراتب وجوب ہیں نہ کہ خود مراتب وجوب۔
اسی طرح حقیقت قرآن باعتبار مبدا وسعت اور حقیقت صلاۃ باعتبار وسعت ذات ہونے کے حقیقت کعبہ سے افضل ہیں
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «إِنَّ مِنَ الْعِلْمِ كَهَيْئَةِ الْمَكْنُونِ، لا يَعْرِفُهُ إِلا الْعُلَمَاءُ بِاللَّهِ، فَإِذَا نَطَقُوا بِهِ لَمْ يُنْكِرْهُ إِلا أَهْلُ الْغِرَّةِ بِاللَّهِ
حضرت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ہے کہ فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یقینا بعض علم بیش قیمت مستور موتی کی طرح ہیں انہیں علمائے ربانی کے علاوہ کوئی نہیں پہچان سکتا پس جب وہ اس علم کے بارے میں بات کرتے ہوتے ہیں تو اہل تکبر ہی اس کا انکار کرتے ہیں
الفردوس بمأثور الخطاب : شيرويه بن شهردار بن شيرو يه بن فناخسرو، أبو شجاع الديلميّ الهمذاني الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت
إحياء علوم الدين المؤلف: أبو حامد محمد بن محمد الغزالي الطوسي الناشر: دار المعرفة – بيروت
شیخ اکبر ابن عربی نے آیت فمن حج البیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے
یعنی حج کرنے والا وحدت ذاتیہ کے مقام پر پہنچ گیا اور حضرت حق میں فنائے ذاتی کلی کےساتھ داخل ہوگیا۔
اس کے مقابل حضرت مجدد الف ثانی نے لکھا ہے
حقیقت کعبہ سے مراد ذات حق تعالیٰ ہے جو سجدہ اور عبادت کے لائق ہیں حقیقت محمدیہ ظہور اول اور حقیقت الحقائق ہے۔
اس سلسلہ میں حضرت مجدد الف ثانی خود لکھتے ہیں
حقیقت محمدی علیہ من الصلوت افضلھا والتسلیمات و اکملھا دراصل ظہور اور حقیقت الحقائق ہے دوسرےتمام حقائق یعنی انبیاء کرام اور ملائکہ کرام علیھم الصلوۃ والسلام کے حقائق تمام اس کے ظلال کی طرح ہیں خود نبی اکرم ﷺ نے فرمایا سب سے پہلے اللہ تعالی نے میرے نور کو پیدا کیا۔
آپ نے اسی مکتوب میں لکھا
مراتب ظلال طے کرنے کے بعد اس فقیر پر جو کچھ کشف ہوا ہے وہ یہ ہے کہ حقیقت محمدی حقیقت الحقائق کا تعین اورظہور ہے جو مخلوق کی پیدائش کا اصل منشا ہے۔
دنیا کی پیدائش کے لیے پہلے حب پیدا کی گئی اس کے بعد وجود کیوں کہ حضرت حق جل وعلااس حب اور وجود سے مستغنیٰ ہیں
حضرت مجدد الف ثانی اس مکتوب کے آخر میں لکھتے ہیں
تعین اول میں جو تعین حبی ہے پر جب بڑی باریکی سے نظر کی جائے تو رب کریم کے فضل سے معلوم ہوتا ہے کہ اس تعین کا مرکز حب ہے جو حقیقت محمدی ہی ہے۔