حقیقت کعبہ ربانی کے اسرار اور عجزو معرفت کے دقائق اور صلوات وکلمہ طیبہ کی نفی و اثبات کی حقیقت کے بیان میں مخدوم زادہ حضرت خواجہ محمدسعید کی طرف صادر فرمایا ہے:۔
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ لَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ (الله تعالیٰ کے لیے حمد ہے جس نے ہم کو ہدایت دی اور اگر وہ ہم کو ہدایت نہ دیتا تو ہم بھی ہدایت نہ پاتے، بیشک ہمارے اللہ تعالیٰ کے رسول حق کے ساتھ آئے ہیں)۔ ) مرتبہ عالیہ نور صِرف(خالص نور) کے بعد جس کو اس فقیر نے حقیقت کعبہ ربانی معلوم کیا اور لکھا ہے ایک نہایت ہی اعلی مرتبہ ہے جس کو قرآن مجید کی حقیقت کہتے ہیں۔ کعبہ معظمہ قرآن مجید کے حکم سے آفاق کا قبلہ بنا ہے اور سب کے مسجود ہونے کی دولت سے مشرف ہوا ہے۔ امام قرآن ہے اور ماموم یعنی مقتدی پیش قدم کعبہ معظمہ یہ مرتبہ مقدسہ حضرت ذات تعالیٰ و تقدس کی بیچون وسعت کا مبدأ ہے اور اس بارگاه کی بیچون و بیچگون (بے مثل و بے کیف) امتیاز کا مبدأ بھی یہی درجہ بلند ہے۔ اس درجہ مقدسہ کی وسعت طول وعرض کی رو سے نہیں ہے کیونکہ یہ نقص و امکان کے نشان ہیں بلکہ ایک ایسا امر ہے کہ جب تک اس کے ساتھ متحقق نہ ہوں معلوم نہیں ہوتا۔ اسی طرح اس مرتبہ مقدسہ کی امتیاز مزایلت ومباينت( ایک دوسرے کا زائل کرنا اور باہم فرق ہونا) کی رو سے نہیں۔ کیونکہ اس سے تبعض و تجزی يعنی بعض بعض اور جزو جزو ہونا لازم آتا ہے جو جسم و جسمانی کے لوازم سے ہے۔ تَعَالَى اللہُ سُبْحَانَهُ عَنْ ذَالِکَ اللہ تعالیٰ ان باتوں سے پاک و برتر ہے ) اس مقام میں شےکا غیرشے فرض کرنامتصورنہیں کیونکہ غیریت اثنینیت اور مغائرت کی خبر دیتی ہے بلکہ فرض کی بھی مجال نہیں کیونکہ فرض محال کی قسم سے ہے۔ ۔ وَمَنْ لَّمْ يَذُقْ لَم يَدْرِ ( اور جس نے اس کا مزہ نہیں چکھا نہیں جانا) بیت
چوں گویم باتواز مرغ نشانہ کہ باعنقا بود ہم آشیانہ
زعنقا ہست نامے پیش مردم زمرغ من بود آں نام ہم گم
ترجمہ: میں تجھے کیا بتاؤں کہ وہ کہاں ہےدراصل وہ عنقا کی طرح بے نشان ہے جس طرح عنقا کانام تو سب کو معلوم ہےمگر اس کا تو نام بھی کسی کو پتہ نہیں
اس مقام میں جو فرض کی جائے اگر چفرض حال ہو اور اس نے میں جس قدر دور دور جائیں اگر چہ کچھ بھی نہ چلے ہوں ہرگز کوئی ایسا امر وہاں پیدا نہیں ہوا جس کو اس نے کے ساتھ ایا اختصاص ورمیتال و جو دوسری نے مفروض میں پائی جائے اس کے علاوہ ان دو ٹ منرو میں امتیاز ثابت ہوتا ہے اور باوجود ان احکام کے ایک دوسرے سے ہوتی ہیں۔سُبْحَانَ لَمْ يَجْعَلْ لِلْخَلْقِ سَبِيْلاً إِلَى مَعْرفَته إِلَّا بِالْعَجزِ عَنْ مَعْرِفَتِهٖ (پاک ہے وہ ذات جس نے معرفت سے عاجز ہونے کے سوامخلوق کے لیے اپنی طرف کوئی راستہ نہیں بنایا )معرفت سے عاجز ہونا اولیاءبز رگ کا حصہ ہے۔ عدم معرفت اور ہے اور عجز از معرفت اور اس مقام مقدس میں عدم امتیاز کاحکم کرنا اور ہرکمال ذاتی کو ایک دوسرے کا عین معلوم کرنا جس طرح صوفیہ کہتے ہیں کہ علم قدرت کا عین ہے اور قدرت ارادہ کا عین ۔
یہاں اس مقام کے امتیاز کی عدم معرفت ہے اور اس مقام کے امتیاز کاحکم کرنا اور اس امتیاز کی کُنْہ ( ماہیتِ الٰہی جو ادراک سے پرے ہے۔انتہا، غایت)کونہ پانے کا اقرار کرنا اس مقام کے امتیاز کی معرفت سےعجز ظاہر کرتا ہے۔ عدم معرفت جہل ہے اورعجزاز معرفت علم بلکہ عجزدوعلموں کو متضمن ہے۔ ایک شے کا علم دوسرے اس شے کی کمال عظمت و کبریا کے باعث اس شے کی کُنْہ وحقیقت کو نہ پانے کا علم اور اگر اس میں تیسرے علم کو بھی داخل کرلیں تو ہوسکتا ہے اور وہ اپنےعجز و قصور کا علم ہے جومقام عبدیت وعبودیت (بندگی) کی تائید کرتا ہے۔ عدم معرفت میں جو کہ سراسر جہل ہے بسا اوقات جہل مرکب کا مرض پیدا ہو جاتا ہے یعنی اپنے جہل کو جہل نہیں جانتا بلکہ علم خیال کرتا ہے لیکن عجز از معرفت میں اس مرض سے پوری پوری نجات حاصل ہوتی ہے بلکہ اس مرض کی وہاں گنجائش ہی نہیں رہتی کیونکہ اپنےعجز کا اقرار کرتا ہے اگر عدم معرفت اورعجزاز معرفت دونوں یکساں ہوتے تو تمام نادان عارف ہوتے اور ان کاجہل ان کے کمال کا باعث ہوتا بلکہ جو کوئی وہاں زیادہ جاہل ہوتا زیادہ عارف ہوتاکیونکہ معرفت وہاں معرفت کا نہ پانا ہے اور عجز از معرفت میں یہ معاملہ صادق اور سچا ہے کیونکہ جو کوئی معرفت سے زیادہ عاجز ہوگا معارف میں اتنا ہی وہ زیادہ عارف ہوگا ۔
عجز از معرفت ایک مدح ہے جوذم سے مشابہ ہے اور عدم معرفت محض مذمت ہے جس میں مدح کی بو بھی نہیں۔ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا بِكَمَال الْعَجزعَنْ مَّعْرِفَتِکَ سُبْحَانَکَ(یااللہ تو پاک ہے مجھے اپنی معرفت سے کامل عجزکا علم زیادہ تر عطافرما )شیخ محی الدین ابن عربي قدس سرہ اگر اس فرق کوملاحظہ کرتا جس کی طرف اس فقیر نے ہدایت پائی ہے تو ہرگز عجزاز معرفت کو جہل نہ کہتا اور اس کو عدم علم نہ جانتا جیسے کہ اس نے کہا ہے فمنا من علم ومنا من جهل فقال العجز عن درک الاد راک ادراک (ہم میں سے بعض نے جان لیا اور بعض جاہل رہے پھر کہا کے ادراک سے عاجز ہونا بھی ادراک ہے)
اس کے بعدشق اول کے علوم کو بیان کیا ہے اور ان پر بڑافخر کیا ہے اور ان علوم کو اپنے ساتھ ہی مخصوص جان کر کہا ہے کہ خاتم الانبیاء ان علوم کو خاتم اولیاء سے اخذ کرتا ہے اور اس نے خاتم ولایت محمدیہ اپنے آپ کو کہا ہے اور اس سبب سے خلائق کے طعن تشنیع کا سبب ہوا ہے اورفصوص کے شارحین نے ان کی توجیہات میں بڑی ہمتیں اور کوششیں صرف کی ہیں لیکن فقیر کے نزدیک یہ علوم جوشیخ نے کہے ہیں اس عجز سے کئی مرتبے نیچے ہیں بلکہ اس عجز کے ساتھ کچھ نسبت نہیں رکھتے کیونکہ یہ علوم ظلال پر وابستہ ہیں اور عجز مقام اصل سے تعلق رکھتا ہے۔ سبحان اللہ اس قول کے قائل حضرت صدیق رضی الله تعالیٰ عنہ ہیں اور وہی اس عجز کے ظہور کے مصدر ہیں جو تمام عارفوں کے سردار اور تمام صدیقوں کے رئیس ہیں۔ علم کیا ہے جو اس عجز سے سبقت لے جا سکے اور وہ کون سا قادر اور زور آور ہے جواس عاجز یعنی حضرت صدیق سے آگے ہو سکے ۔ ہاں جب حضرت صدیق کے خواجہ حضرت محمد علیہ الصلوۃ والسلام کے حق میں اس طرح کہتا ہے تو پھر اگر حضرت صدیق کے حق میں اس طرح کہہ دے تو کیا عجب ہے اور اس کا کیا علاج کیا جائے ۔ عجب معاملہ ہے کہ شیخ باوجود اس گفتگو اور ان خلاف جواز اور مخالف شطحیات(وہ کلمات جو واصلین کاملین سے حالت مستی و غلبہ شوق میں بے اختیار نکلےظاہر شریعت کے خلاف ) کے مقبولوں میں سے نظر آتا ہے اولیاء کے زمره میں گنا جاتا ہے۔ع
بکریماں کارها دشوار نیست ترجمہ کریموں پہ نہیں مشکل کوئی کام
ہاں کبھی دعا سے رنجیدہ ہوتے ہیں اورکبھی گالیوں پرہنستے ہیں۔ شیخ کا رد کرنے والا بھی خطرہ میں ہے اور اس کو اور اس کی باتوں کو قبول کرنے والا بھی خطرہ میں ہے۔شیخ کو قبول کرنا چاہیئے اور اس کی مخالف باتوں کو قبول نہ کرنا چاہیئے ۔شیخ کے قبول اور عدم قبول کے بارہ میں اوسط طريق فقیر کے نزدیک یہی ہے وَاللَّهُ سُبحَانَه أَعْلَمُ بِحَقِيقَةِ الْحَالِ (حقیقت حال کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ) اب ہم پر اصل بات کو بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس مرتبہ مقدسہ میں جس کو ہم نے حقیقت قرآنی (قرآن تمام ذاتی و شیونی کمالات کا جامع ہے) مجید کہا ہے نور کا اطلاق بھی گنجائش نہیں رکھتا اور تمام کمالات ذاتیہ کی طرح نور بھی راہ ہی میں رہ جاتا ہے۔ وہاں وسعت بیچوں اور امتیاز بیچگوں کے سوا کسی چیز کی گنجائش نہیں اور آیت کریمہ قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ (اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے پاس نورآيا ) میں اگر نور سے مراد نور قرآن ہو تو ممکن ہے کہ تنزل وانزال کے اعتبار سے ہوجیسے کہ کلمہ قَدْ جَاءَكُمْ میں اس امر کی طرف اشارہ ہے۔ اس مرتبہ مقدسہ کے اوپر ایک اور نہایت اعلی مرتبہ ہے جس کو حقیقت صلوات کہتے ہیں جس کی صورت عالم شہادت میں نہیں نمازیوں کے ساتھ قائم ہے اور یہ جو قصہ معراج میں آیا ہے کہ قِفْ يَا مُحَمَّدُ فَاِنَّ اللهَ یُصَلِّی(اےمحمدٹھہر جا کہ الله تعالیٰ صلوۃ پڑھ رہا ہے ممکن ہے کہ اس حقیقت صلوۃ کی طرف اشارہ ہو، ہاں وہ عبادت جو مرتبہ تجردوتنزہ کے لائق ہے مراتب وجوب ہی سے صادر ہوتی ہے اور قدم کے اطوار سے ہی ظہور میں آتی ہے۔فالعبادة الائقه بجناب قدسه تعالیٰ هی الصادرة من مراتب الوجوب لا غیرفهو العابد والمعبود ( وہ عبادت جو اس کی پاک بارہ گاہ کے لائق ہے وہ مراتب وجوب ہی سے صادر ہوسکتی ہے پس وہی عابد ہے اور وہی معبود ہے)
اس مرتبہ مقدسہ میں کمال وسعت و امتیاز بیچون ہے کیونکہ حقیقت کعبہ بھی اس کا جزو ہے اور حقیقت قرآنی بھی اسی کا حصہ ہے کیونکہ صلوٰت مراتب عبادات کے ان تمام کمالات کی جامع ہے جو اصل الاصل کی نسبت ثابت ہیں کیونکہ معبودیت صرف اسی کے لیے ثابت ہے اور حقیقت صلوات جو تمام عبادات کی جامع ہے اس مرتبہ مقدسہ کی عبادت ہے جو اس کے اوپر ہے جس کے لیے معبودیت صرف کا استحقاق ثابت ہے اور جوکل کا اصل اور سب کا جائے پناہ ہے۔ اس مقام میں وسعت بھی کوتاہی کرتی ہے اور امتیاز بھی راہ میں رہ جاتا ہے اگربیچون وبیچگون ہو۔ کامل انبیاء اور اولیائے بزرگ کے اقدام کا منتہا مقام حقیقت صلوات کے نہایت تک ہی ہے جو عابدوں کے مرتبہ عبادت کا نہایت ہے۔ اس مقام کے اوپر معبودیت صرف کا مقام ہے جہاں کسی شخص کو کسی طرح بھی اس دولت میں شرکت نہیں کہ قدم اوپر رکھ سکے اور جہاں تک کہ عابد و عابدیت کی آمیزش ہے وہاں تک نظر کی طرح قدم کے لیے بھی گنجائش ہے لیکن جب معاملہ معبودیت صرف تک جا پہنچتا ہے تو قدم کوتاہی کرتا ہے اور سیر ختم ہو جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی حمد ہے کہ نظر کو وہاں سے منع نہیں فرمایا اور اس کو استعداد کے موافق گنجائش بخشی ہے۔
بلابود ے اگر ایں ہم نبودے ترجمہ مصیبت تھی اگر یہ بھی نہ ہوتا
ممکن ہے کہ امر قِفْ يَا مُحَمَّدُ میں اسی کوتاہی قدم کی طرف اشارہ ہو۔ یعنی اے محمدٹھہر جاؤ اور قدم آگے نہ رکھو۔ کیونکہ اس مرتبہ صلوة کے اوپر جو مرتبہ مقدسہ وجوب سے صادرہے حضرت ذات تعالیٰ و تقدس کے تجردوتنزه کا مرتبہ ہے جہاں قدم کے لیے کوئی جگہ اور گنجائش نہیں ۔کلمہ طیبہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُکی حقیقت اسی مقام میں متحقق ہوتی ہے اور غیر مستحق خداوں کی عبادت کی نفی اسی جگہ متصور ہوتی ہے اورمعبود حقیقی کا اثبات کہ جس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں۔ اسی مقام میں حاصل ہوتا ہے اور عابدیت ومعبودیت (بندگی) کے درمیان کمال امتیاز اسی جگہ ظاہر ہوتا ہے اور عابد معبود سے کما حقہ جدا ہو جاتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُکے معنی منتہیوں کے حال کے مناسب لَا مَعْبُوْدَ اِلَّا اللہُ ہیں جیسے کہ شرع میں اس کلمہ کے معنی قرار پائے ہیں اور لَامَوْجُوْدٌ وَلَا وَجُوْدٌ وَلَا مَقْصُوْدٌ کہنا ابتداء ووسط کے مناسب ہے لیکن لَامَوْجُوْدٌ وَلَا وَجُوْدٌ وَلَا مَقْصُوْدٌ کے اوپر ہے جو لَا مَعْبُوْدَ اِلَّا اللہُ کا دریچہ ہے ۔ جاننا چاہیئے کہ اس مقام میں نظر کی ترقی اور بینائی کی تیزی عبادت صلوة پر وابستہ ہے جو منتہیوں کا کام ہے دوسری عبادتیں صلوۃ کی تکمیل میں مدد دیتی ہیں اور اس کے نقص کی تلافی کرتی ہیں۔ شاید اسی واسطے نماز کوبھی ایمان کی طرح حَسَنَ لِذَاتِهٖ یعنی اصل اور ذات میں خوب اور بہتر کہتے ہیں جبکہ دوسری عبادتوں کی خوبی ذاتی نہیں۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ220ناشر ادارہ مجددیہ کراچی