حق تعالیٰ  کے قرب ومعیت و احاطہ کے سر مکتوب نمبر 63دفتر سوم

حق تعالیٰ  کے قرب ومعیت و احاطہ کے سر کے کشف میں اور اس سرعظیم کو کتاب کریم کےمجمل مشکل کی طرف رجوع کرنے میں میر منصور کی طرف صادر فرمایا ہے۔ 

قرب ومعیت واحاطہ وسريان وصل و اتصال وتوحيد اتحاد وغیرہ اس بارگاہ جل شانہ میں متشابات و شطحیات(وہ کلمات جو واصلین کاملین سے حالت مستی و غلبہ شوق میں  بے اختیار نکلےظاہر شریعت کے خلاف )  کی قسم سے ہیں۔ وہ قرب ومعیت اور وہ وصل و اتصال جو ہماری عقل وفہم میں اسکے حق تعالیٰ  کی پاک بارگاہ اس سے منزہ اور مبرا ہے لیکن آخر کار اس قدر معلوم ہوا ہے کہ یہ قرب و اتصال وغیرہ اس قرب و اتصال کی مانند ہے جو آئینہ اور اس صورت کے درمیان  جو آئینہ میں متوہم ہوتی ہے حاصل ہے جو موجود کےموہوم کے ساتھ قرب و اتصال کی قسم سے ہے چونکہ حق تعالی موجود حقیقی ہے اور عالم مرتبہ حس و وہم میں مخلوق ہوا ہے اس لیے واجب و ممکن کا درمیانی قرب و اتصال موجود اور موہوم کے درميانی قرب و اتصال کی قسم سے ہوگا۔ اس قرب ومعیت سے اس پاک بارگاہ میں کوئی خلل ومحذر عائد نہیں ہوتا اشیاءخسیسہ جو آئینہ میں منعکس ہوتی ہیں اور آئینہ کو ان سے قرب و احاطہ حاصل ہوتا ہے اس سے کوئی نقص راستہ نہیں پاتا اور کوئی خست اس میں اثرنہیں کرتی کیونکہ جس مرتبہ میں کہ آئینہ ہے اس مرتبہ میں ان اشیاءخسیسہ متوہمہ کا نام ونشان بھی نہیں تا کہ ان کی صفات اس میں تاثیر کریں حاصل کلام یہ ہے کہ چونکہ حق تعالیٰ  نے عالم کو مرتبہ حس و وہم میں پیدا فرمایا ہے اور چاہتا ہے کہ اس مرتبہ کو ثبات و استقامت دے تو ان احکام و آثار کو جو وجود پر مترتب ہیں اس موہوم پر جاری کئے اور موجود کے آثار کو موہوم پر مرتب کیا اس واسطے قرب و احاطہ موہومہ کوقرب و احاطہ موجودہ کی طرح ثابت فرمایا اور احکام صادقہ میں سے بنایا کیا نہیں دیکھتے کہ جس طرح صورت جملہ کا خارج میں دیکھنا التذ اذ و گرفتاری کا باعث ہے اسی طرح اس صورت کا دیکھنا بھی جو آئینہ میں منعکس ہوکر ثبوت وہمی پیدا کرلیتی ہے۔ التذ اذ و گرفتاری کا موجب ہے حالانکہ صورت اول موجود ہے اور صورت دوم موہوم لیکن اثر کے حصول میں دونوں شریک ہیں جب اللہ تعالیٰ  کے کرم سے احکام کے مترتب ہونے میں موہوم کو موجود کے ساتھ شرکت حاصل ہوگئی اور موجود کی طرح موہوم پربھی آثار مترتب ہوئے تو موہوم نامراد کو موجود سے بہت امیدیں پیدا ہوئیں اور موجود کے قرب و اتصال کی دولت کی بہت سی بشارتیں اس کو حاصل ہوئیں۔ بیت 

ھَنِیئًا لأربَابِ النَعِیمِ ِنَعِيمُهَا وَلِلعَاشِقِ ِالمِسكِين ِمَا يَتَجَرَّعُ

ارباب نعمت کو یہ نعمت مبارک اور عاشقوں کو یہ رنج و حسرت مبارک

۔ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ( یہ الله تعالیٰ  کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور الله تعالیٰ  بڑے فضل والا ہے۔)

جاننا چاہیئے کہ قرب و اتصال کو جس طرح کہ ذکر ہو چکا ہے اس کے بغیر اور جس طرح تصور تعقل کر یں تشبیہ وتجسیم کی آمیزش سے خالی نہ ہوگا ہاں یہی بہتر ہے کہ اس پر ایمان لے آئیں اور اس کی کیفیت میں مشغول نہ ہوں اور  اس کو حق تعالیٰ  کے علم کے حوالے کریں جب ان الفاظ کے ساتھ ایک قسم کا بیان لاحق ہوگیا تو ان کو اگر متشابہات سے نکال کر مجمل یا مشکل میں داخل کیا جائے تو ہوسکتا ہے۔ وَاللَّهُ  سُبحَانَه أَعْلَمُ ‌بِحَقِيقَةِ ‌الْحَالِ (حقیقت حال کو اللہ تعالیٰ  ہی جانتا ہے

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ182ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں