خرق عادات نفس کو لگام (تیرھواں باب)

خرق عادات نفس کو لگام کے عنوان سے تیرھویں باب میں  حکمت نمبر 127 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
عارفین کی اس قوت کے بارے میں جو ہم نے بیان کیا ہے اس سے وہی لوگ نا واقف ہیں جن کی رسائی ان کے مقام تک نہیں ہوئی ہے اور جولوگ ان کے مقام تک نہیں پہنچے ہیں ان کیلئے ان کو حق سمجھنا اور ان کی باتوں کو تسلیم کر لینا ہی کافی ہے۔ اور اس قوت کا راز جو عارفین کے اندر ظاہر ہوئی ہے کہ وہ روح کی طرف سے ہے اور اس کی حقیقت یہ ہے:۔ روح عزت اور قوت کے عالم سے آئی ہے پھر جب وہ اس بدن میں داخل کی گئی تو وہ محجوب اور مغلوب ہو گئی تو اس نے اپنی اصل کی طرف لوٹنے کا ارادہ کیا اور اس نے اصلی عزت اور اصلی قوت کی خواہش کی تو وہ اس سے روک دی گئی ۔ تو وہ ذلت اور محتاجی کے دروازے سے داخل ہوئی اور اپنے نفس کی عادتوں کو ختم کردیا اس وقت اس کیلئےحجابات چاک ہو گئے اور دو اپنی اصل کی طرف لوٹ گئی۔ پھر جب وہ اپنی اصل کی طرف لوٹ گئی تو اسی قوت سے موصوف ہوگئی جو اس کو پہلے حاصل تھی پھر اس کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ اس قوت کو اپنے باطن میں چھپا کر رکھے تو اس نے ایسا ہی کیا لیکن اکثر اوقات قوت کے غلبے کی وجہ سے اس میں سے کچھ آثار ظاہر پر بھی نمایاں ہو جاتے ہیں۔ اس لیے حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے خرق عادات کا بیان قیام عبودیت کے بیان کے بعد ہی فرمایا ہے، چنانچہ فرمایا:
127) كَيْفَ تُخْرَقُ لَكَ العَوائِدُ وَأنْتَ لَمْ تَخْرِقْ مِنْ نَفْسِكَ العَوائِدَ.
تمہارے لیے عادتوں کے خلاف کس طرح کیا جا سکتا ہے (یعنی تم کو کرامات کس طرح عطا کی جاسکتی ہیں ؟ جبکہ تم نے اپنے نفس کی عادتوں کو ختم نہیں کیا (یعنی اس کی خواہشات کو فنا نہیں کیاہے
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ عوائد (عادات ) :- ان تمام چیزوں کو کہتے ہیں جن کا نفس عادی ہو اور ان سےمحبت کرتا ہو اور اس کے ساتھ ہمیشہ رہتا ہو اس طرح کہ اس کا ان کو چھوڑ نا دشوار ہو خواہ وہ چیزیں ظلمانی ہوں یا نورانی جیسے فضائل اور کثرت نوافل کی پیروی کی خواہش۔ اور عادات کی دو قسمیں ہیں۔ پہلی قسم : عادات حسی ظاہری (محسوس ہونے والی ظاہری عادتیں ) ۔
دوسری قسم :- عادات باطنی حقیقی (باطن اور حقیقت کی غیر محسوس عادتیں )۔
پہلی قسم : عادات حسی ظاہری کی مثال :- کھانا اور پینا ، اور سونا اور لباس اور آدمیوں سے میل ملاپ اور اسباب و ذرائع کا اختیار کرنا اور بات چیت، لڑائی جھگڑا، ملامت و شکایت کی زیادتی اورظاہری محسوس عبادتوں ، اور رائج علوم میں مستغرق ہونا وغیرہ ہے۔
دوسری قسم :- عادات حقیقی باطنی (غیر محسوس) کی مثال :- مرتبہ ، اور سرداری کی محبت ، اور خصوصیات کی خواہش اور دنیا کی محبت اور تعریف کی خواہش اور جیسے کہ حسد اور کبر ، اور عجب اور ریاء ،اور مخلوق کی حرص اور محتاجی کا خوف اور روزی کی فکر اور بے رحمی اور سخت دلی ہے اور ان کے علاوہ وہ تمام صفات جن کا بیان پہلے ہو چکا ہے تو جو شخص اپنے نفس سے اس کے ظاہری محسوس عادتوں کو سخت ریاضتوں کے ذریعے فنا کر دیتا ہے اس کیلئے ظاہری محسوس عادتوں کو خلاف ظاہر کر دیا جاتا ہے۔ (یعنی ظاہری محسوس کرامات عطا کی جاتی ہیں ) جیسے ہوا میں اڑنا اور پانی پر چلنا اور آواز کا دور تک پہنچنا اور ان کے علاوہ دوسرے ظاہری محسوس کرامات ۔
اور جو شخص اپنے نفس سے حقیقی باطنی عادتوں کو فنا کر دیتا ہے اس کیلئے باطنی خرق عادات ظاہر کیے جاتے ہیں ۔ (باطنی کرامات عطا کیے جاتے ہیں ) جیسے غفلت کے پردوں کا اٹھانا اور قلوب کو پاک کرنا اور حجاب کو دور کرنا اور دروازے کا کھولنا اور عرفان کو ثابت ہونا اور احسان کے مقام کی طرف ترقی کرنا ور یہی اہل عقل کے نزدیک معتبر ہے اور تمام آدمیوں کی خلقت سے یہی مقصود ہے۔ لیکن محسوس خرق عادات یعنی ظاہری کرامات کبھی ان لوگوں سے بھی صادر ہوتے ہیں جن کو خصوصیت حاصل نہیں ہوتی ہے جیسے جادوگر اور نظر بندی کرنے والے شعبدے باز ۔ہاں جو شخص دونوں ( خرق عادات ظاہری و باطنی ) کا جامع ہوتا ہے اس کو دونوں قسم کے کرامات عطا کیے جاتے ہیں۔
تو اے مرید تم یہ کس طرح چاہتے ہو کہ تمہارے لیے تمہارے نفس کی عادتیں خلاف کر دی جائیں (باطنی کرامات عطا کر دی جائیں ) یہاں تک کہ تم کو اپنی بارگاہ قدس میں داخل کر لے ۔ حالانکہ تم نے اپنے نفس کی عادتوں کو فنا نہیں کیا ہے اور نفس شہود سے صرف اس وجہ سے حجاب میں ہوا ہے کہ اس وجود کو دیکھنے کا عادی ہو گیا ہے تو اگر وہ اس وجود کے دیکھنے سے غائب ہو جائے تو البتہ اس کیلئے شہود ثابت و قائم ہو جائے اور نفس کی عادتوں کے فنا کیے بغیر اس وجود کے دیکھنے سے غائب ہونا ممکن نہیں ہے۔ اور اس شخص کا قصہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے جو حضرت ابو یزید کی صحبت میں تیس سال رہا۔ لیکن اس کو کچھ ذوق حاصل نہیں ہوا۔ تو حضرت ابو یز یدنے اس سے فرمایا :- اگر تم اسی طرح تین سو سال نماز پڑھتے رہو تو بھی تم کو کچھ ذوق حاصل نہ ہوگا ، کیونکہ تم اپنے نفس کے ساتھ محجوب ہو پھر اس سے فرمایا: تم اس وقت حجام کے پاس جاؤ اور اپنے سر اور داڑھی کو منڈ وادو اور یہ لباس اتار دو اور ایک عبا پہن لو اور اپنی گردن میں ایک جھولی لٹکالو اور اس میں اخروٹ بھر لو اور اپنے گرد بچوں کو جمع کر لو اور بلند آواز سے پکار کر کہو:۔ اے بچو! جو مجھ کو ایک تماچہ مارے گا میں اس کو اخروٹ دوں گا ۔ اور – اس حالت پر تم بازار میں جاؤ۔ یہاں تک کہ تم کو تمہارے سب پہچاننے والے دیکھیں ۔ پھر اس سے فرمایا:- کسی شخص کیلئے غیب کے ان اسرار میں جو عام لوگوں سے پوشیدہ ہیں حرص کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اس کا نفس مرجائے اور عوام کی عادتیں فنا ہو جا ئیں اور جب تم ایسا کرو گے تو اس وقت تمہارے لیے خرق عادات (کرامات) اور فوائد ظاہر ہوں گے۔ اور خمول کے باب میں حضرت غزالی ، حضرت ششتری اور حضرت مجذوب اور ان کے علاوہ دوسرے عارفین کے قصے بیان کیے جاچکے ہیں۔ جنہوں نے نفس کی عادتوں کوفنا کیا توان کیلئےخر ق عادات، اور فوائدظا ہر ہوئے اور لیکن جو شخص اپنے نفس کی عادتوں کے ساتھ باقی ہے اس کو اللہ تعالی کی بارگاہ قدس سے لطف حاصل کرنے کی حرص نہ کرنی چاہیئے ۔
حضرت شیخ ابوالمواہب نے فرمایا ہے ۔ جو شخص جلال کے ذریعے با ادب ہونے کے قبل جمال کے شہود کا دعویٰ کرتا ہے اس کو چھوڑ دو وہ دجال ہے۔ اور نفس کیلئے اس کی عادتوں کے خلاف کرنے سے بڑا کوئی جلال نہیں ہے جیسے عزت کے خلاف ذلت ، اور غنا کے خلاف محتاجی اور مرتبہ کے خلاف گمنامی اختیار کرنا اور اس کے سوا دوسری عادتیں ۔
حضرت شیخ ابوالحسن نے فرمایا ہے :۔ اے اللہ تعالیٰ تو نے صوفیائے کرام کی جماعت پر ذلت کا فیصلہ کیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے عزت پائی اور تو نے ان کیلئے گم ہونے کا فیصلہ کیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے پالیا۔ اس لیے کہ اللہ تعالی کے ساتھ عزت پانے میں حرص کی گنجائش نہیں ہے جب تک اس کیلئے ذلت ثابت نہ ہو اور نہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ فنا حاصل ہونے میں حرص کی کوئی گنجائش ہےجب تک اس کے ماسوی سے گم ہونا ثابت نہ ہو۔
حضرت ابوحمزہ بغدادی نے فرمایا ہے:۔ سچے صوفی کی پہچان یہ ہے کہ وہ و دولتمند ہونے کے بعد محتاج ہو جائے اور عزت والا ہونے کے بعد ذلیل ہو جائے اور مشہور ہونے کے بعد گمنام ہو جائے۔ پس یہ سب خبریں اس بات کی دلیل ہیں کہ نفس کی عادتوں کی مخالفت خصوصیت کے ثابت قائم ہونے کیلئے شرط ہے اس لیے اگر کوئی شخص نفس کی عادتوں کے خلاف کیے بغیر خصوصیت کو دعوی کرتا ہے وہ بہت بڑا جھوٹا ہے ، جیسا کہ ابو المواهب کے قول میں گزر چکا ہے۔ اور ہمارے شیخ الشیوخ نے اپنے بعض احباب کو خط لکھا ۔ اگر تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ تمہارے اعمال پاکیزہ ، اور تمہارے احوال پسندیدہ ہوں تو نفس کی عادتوں کو کم کرو کیونکہ وہ فوائد کو روکتی ہیں ۔
اور میں نے حضرت شیخ الشیوخ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:۔ جملہ عادات میں سے فضائل کی تلاش اور نوافل کی کثرت ہے کیونکہ وہ قلب کو پراگندہ کردیتی ہے اور مرید کو چاہیئے کہ صرف ایک ذکر اور ایک عمل اپنے اوپر لازم کرے جو اس کیلئے مناسب ہو۔ پس خرق عادات :- عادتوں کو اس کی ضد (مخالف ) سے تبدیل کرنا ہے جیسے کھانے اور سونے کی زیادتی کو بھوک اور بیداری سے تبدیل کرنا اور جیسے لباس کی زیادتی کو لباس کی کمی سے یا موٹے کپڑے مثلا گدڑی وغیرہ سے تبدیل کرنا اور جیسے لوگوں سے میل ملاپ کو گوشہ نشینی سے اور اسباب و ذرائع کو زہد سے اور گفتگو کو خاموشی سے اور بداخلاقی کو خوش اخلاقی سے تبدیل کرنا اور جیسے کہ مرتبہ اور سرداری کی محبت کو ذلت اور گمنامی سے اور لوگوں کے نزدیک مرتبہ کے گرنے سے تبدیل کرنا اور دنیا کی محبت کو ترک دنیا سے تبدیل کرنا اور جیسا کہ برے اوصاف سے اپنے آپ کو پاک کر کے بہترین اوصاف آراستہ کرنا ۔ تو جب مریدان امور پر ثابت قدمی سے قائم ہو جاتا ہے تو اس کیلئے خرق عادات ظاہر کیے جاتے ہیں ۔ یہاں تک کہ اس کو اللہ تعالیٰ کے نام ہی کے ساتھ موافقت نہیں، بلکہ اللہ تعالی کے ساتھ موافقت حاصل ہو جاتی ہے۔ تب اس کا حکم اللہ تعالیٰ کے حکم کے ساتھ متعلق ہو جاتا ہے۔
وَمَا ذَالِكَ عَلَى اللَّهِ بِعَزِيزٍ اور یہ اللہ تعالی کیلئے کچھ دشوار نہیں ہے ۔
اور باطنی عادتوں کی مخالفت کیلئے ایسے شیخ کامل کا ہونا ضروری ہے جو حقیقت اور شریعت کا جامع ہو جو تم کو اپنی ہمت سے اٹھائے اور گرنے سے بچائے اس لیے کہ جب تم اپنے نفس کی طرف ہاتھ بڑھاؤ گے تو شیخ کی ہمت تم کو سنبھالے گی اور قدرت تمہاری مدد کرے گی تو تم اس کو ایک ہی وار میں فنا کر دو گے لیکن جب تمہارا کوئی شیخ نہ ہو گا تو جب تم نفس کو مارو گے تو وہ پہلے سے زیادہ طاقت کے ساتھ لوٹے گا اور زندہ نفس نہیں مرتا ہے ۔ مگر مردوں کے ہاتھ سے یعنی ان شیوخ کے ہاتھ سے جن کے نفوس مردہ ہو چکے ہیں جیسا کہ ہمارے شیخ نے فرمایا ہے۔ یہ طریقہ مجرب ہے۔ وباللہ التوفیق


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں