خوارق کے کثرت ظاہر ہونے کے بیان میں مکتوب نمبر 86دفتر سوم

 خوارق کے کثرت ظاہر ہونے کے بیان میں درویش حبيب خادم کی طرف صادر فرمایا ہے ۔

فضول مباحات(ضرورت سے زائد جائز امور) کا مرتکب ہونا ۔ خوارق کے کمتر ظاہر ہونے کا باعث ہے۔ خاص کر جبکہ فضول میں بکثرت مشغول ہو کر مشتبہ کی حد تک پہنچ جائیں اور وہاں سے محرم و حرام کے گرد آجائیں پھر خوارق کہاں اور کرامات کجا؟ مباحات کے ارتکاب کا دائرہ جس قدر زیادہ تنگ ہوگا اور قدرضروری پر کفایت کی جائے گی ۔ اس قدر کشف و کرامت کی زیادہ گنجائش ہوگی اور خوارق کے ظہور کا راستہ زیادہ تر کھل جائے گا۔ خوارق کا ظاہر ہونا نبوت کی شرط ہے۔ ولایت کی شرط نہیں کیونکہ نبوت کا اظہار واجب ہے۔ ولایت کا اظہار واجب نہیں بلکہ اس کا چھپانا اور پوشیده رکھنا بہتر ہے کیونکہ نبوت میں خلق کی دعوت ہے اور ولایت میں قرب حق اور ظاہر ہے کہ دعوت کا ظاہر کرنا ضروری ہے اور قرب کا چھپانا لازم ہے کسی ولی سے خوارق کا بکثرت ظاہر ہونا اس امر کی دلیل نہیں ہے کہ وہ ولی ان اولیاء سے افضل ہے جن سے اس قدر خوارق ظاہر نہیں ہوئے بلکہ ممکن ہے کہ کسی ولی سے کوئی بھی خرق عادت ظاہر نہ ہوا ہو اور وہ ان اولیا سے افضل ہوجن سے خوارق بکثرت ظاہر ہوئے ہوں۔

جیسے کہ شیخ الشیوخ (شیخ شہاب الدین سہروردی)نے اپنی کتاب عوارف المعارف میں اس امر کی تحقیق کی ہے جب انبیاء علیہ الصلوۃ والسلام میں خوارق(و معجزات) کا کم یا زیادہ ظاہر ہوا جو نبوت کی شرط ہے ایک سے دوسرے کے افضل ہونے کا موجب نہیں ہے تو پھر ولایت میں جہاں یہ شرط نہیں تفاضل کا سبب کیوں ہوگا۔ میرے خیال میں انبیاء علیہم الصلوة والسلام کی ریاضتوں اور مجاہدوں اور اپنی جانوں پر دائرہ مباحات کو زیادہ تر تنگ کرنے سے اصلی مقصود یہ تھا کہ ظہور خوارق حاصل ہو جو ان پر واجب ہے اور نبوت کے لیے شرط ہے نہ کہ قرب الہی جل شانہ کے درجات تک پہنچنا کیونکہ انبیا علیہم الصلوۃ والسلام مجتبی اور برگزیدہ ہیں اور جن کو جذب ومحبت کی رسی سےکھینچ لے جاتے ہیں اور بغیر تکلیف و مشقت کے ان کو قرب الہی کے درجات تک پہنچا دیتے ہیں ۔

وہ انابت وارادت ہی ہے جہاں قرب الہی کے درجات تک پہنچنے کے لیے ریاضتوں اور مجاہدوں کی ضرورت ہے کیونکہ یہ مریدوں کا راستہ ہے اور مرادوں کو نازونعمت کے ساتھ اپنی طرف بلالے جاتے ہیں اور محنت کے بغیر درجات قرب تک پہنچا دیتے ہیں۔ جاننا چاہیئے کہ ریاضتیں اور مجاہد ے راہ انابت واردات میں شرط ہیں لیکن راہ اجتباء میں مجاہدہ و ریاضت کی کوئی شرط نہیں ۔ ہاں نافع اور سود مند ضرور ہیں ۔ مثلا کوئی شخص جس کو کشاں کشاں لے جائیں اگر وہ اس کشش کے ساتھ اپنی کوشش اور مشقت کو بھی کام میں لائے تو وہ بہت جلدی منزل مقصود تک پہنچ جائے گا۔ بہ نسبت اس کے کہ اپنی کوشش و مشقت کو چھوڑ دے اگر چہ جائز ہے کہ کبھی کشش تنہا جو زیادہ قوی ہو کشش مرکب مذکور سے زیادہ تر کام کر جاتی ہے۔ پس راه اجتباء میں سعی وتر دوو مشقت کمال وصول کی شرط بھی نہ ہوا جیسے کہ نفس وصول کی شرط نہیں ہاں کچھ نہ کچھ نفع کا احتمال ضرور ہے۔ ریاضتوں اور مجاہدوں سے جو ضروری مباحات پرکفایت کرنے سے مراد ہے ارباب اجتباء کو بھی اس معنی کے بغیر جومذکور ہو چکے ہیں بہت سے نفع اور فائدے حاصل ہوتے ہیں جیسے کہ دوام جہاد اکبر اور دنیا دنیہ کی آلودگی سے طہارت و لطافت یعنی پاک و صاف ہونا وغیرہ وغیرہ جس قدرضروری حاجتیں ہیں وہ دنیا میں داخل نہیں ہیں اور جو فضول ہیں وہ دنیا میں سے ہیں اور ریاضتوں اور قدر ضرورت پر کفایت کرنے میں دوسرا نفع آخرت کے محاسبہ اور مواخذہ کی کمی اور عاقبت کے درجات کی بلندی ہے کیونکہ دنیا میں جس قدر محنت ہے آخرت میں اس سے کئی گنا زیادہ مسرت ہے۔ پس انبیاءعلیہم الصلوة والسلام کی ریاضتوں اور مجاہدوں کے لیے مذکورہ بالا وجہ کے سوا اور وجوہ بھی پیدا ہو گئیں اور واضح ہوگیا کہ ریاضتیں اور ضروری مباحات پر کفایت کرنا راہ اجتباء میں اگر چہ وصل کی شرط نہیں لیکن فی حد ذاتہ محمود ومستحسن ہیں بلکہ فوائد مذکورہ کے لحاظ سے ضروری و لازم ہیں۔ رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا ‌رَشَدًا يا الله تو اپنے پاس سے ہم پر رحمت نازل فرما اور ہمارے کام سے ہمارے لیے بھلائی نصیب کر وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى (سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایت اختیار کی )

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر سوم صفحہ245ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں