خواہشات قلبی کاعلاج (اکیسواں باب)

خواہشات قلبی کاعلاج کے عنوان سےاکیسویں باب میں  حکمت نمبر 202 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے :۔
202) لا يُخْرِجُ الشَّهْوَةِ مِنَ القَلْبِ إِلاَّ خَوفٌ مُزْعِجٌ أَوْ شَوْقٌ مُقْلِقٌ .
ہلا دینے والے خوف یا بے قرار کر دینے والے شوق کے سوا کوئی شے قلب سے خواہش کو نہیں نکالتی ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :- جب خواہش قلب میں مضبوطی سے قائم ہو جاتی ہے۔ تو اس کا علاج مشکل ہو جاتا ہے۔
اور عام عادت کے مطابق اس کا نکلنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ پھر وہ کسی قہری وارد جلالی ، یا جمالی سے ہی ملتی ہے۔ اور وارد جلالی: ۔ وہ ہلا دینے والا خوف ہے۔ جو تم کو تھرتھرا کر تمہاری خواہش سے روک دیتا ہے۔ اور تم کو تمہارے مقام اور اہل سے باہر کردیتا ہے۔
اور وارد جمالی – وہ بے قرار کرنے والا شوق ہے۔ جو تم کو بے قرار کر کے تمہاری مرادوں اور فوائدسے باز رکھتا ہے۔ پھر وہ تمہارے نفس کو تم سے بھلا دیتا ہے۔ اور تم کو تمہارے رب سے مانوس کرتا ہے۔ اور اس مرض کے مشکل اور سخت ہونے کی وجہ سے علمائے کرام اللہ تعالیٰ  سے زیاد ہ حجاب میں ہوتے ہیں۔ پھر عابدین ، پھر زاہدین زیادہ محجوب ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہ خواہش پوشیدہ ہوتی ہے؟ اس خواہش والا اس آیہ کریمہ کا مصداق ہے۔
اضَلَّهُ اللَّهُ عَلَى عِلْمٍ اللہ تعالیٰ نے اس کو علم پر گمراہ کر دیا۔ وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعاً اور وہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اچھے عمل کر رہے ہیں۔
یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو خصوصیت کے راستے سے گمراہ کر دیا اور وہ لوگ عمومیت کے راستے میں باقی رہ گئے۔ لیکن ظاہری علمائے کرام ۔ تو وہ لوگ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ ان کے علم سے اوپر کوئی فضیلت نہیں ہے۔ یعنی ان کا یہ ظاہری علم ہی سب سے افضل ہے۔ یہاں تک کہ میں نے بعض علما کویہ کہتے سنا ہے :- احسان کا مقام ان علما کا یہی مقام ہے، جو وہ کتاب وسنت کے ظاہر پر عمل کرتے ہیں ۔ اور اس سے اوپر کوئی مقام نہیں ہے۔ تو اس خیال کا ان کے قلوب سے نکلنا ، عنایت سابقہ کے سوا کس طرح ممکن ہے۔ لیکن عابدین اور زاہدین – وہ لوگ بھی کہتے ہیں کہ محبت اور عبادت کی انتہا نہیں ہے۔ اور وہ ظاہری کرامات ، جو وہ دیکھتے ہیں ، ان کو اللہ تعالیٰ سے زیادہ دور کر دیتے ہیں ۔ لہذا اللہ تعالیٰ سے ان کا حجاب زیادہ ہوتا جاتا ہے۔ اور وہ اپنے اس حال میں مضبوط ہوتے جاتے ہیں۔ لیکن عوام اور غافل لوگ ۔ تو یہ لوگ ، اطاعت اور فرمانبرداری اور اپنے رب کی طرف بڑھنے کے لئے سب سے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔
حدیث شریف میں حضرت نبی کریم ﷺ سے روایت ہے ۔
اكْثَرُ أَهْلِ الْجَنَّةِ الْبُلْهُ) أَي الْمُعْقِلُونَ اکثر اہل جنت لا پرواہ یعنی غافل لوگ ہوں گے ۔
اور اس بات پر کہ قلبی خواہش ، نفسانی خواہش سے بہت سخت اور زیادہ مشکل ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام اور شیطان کا قصہ ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کی خواہش ان کے پیٹ میں تھی ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کر لی ۔ اور شیطان کی خواہش اس کے قلب میں تھی۔
قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ اس نے کہا میں آدم سے بہتر ہوں ۔
لہذادہ قیامت تک مردود کر دیا گیا۔
پھر تم یہ معلوم کرو ۔ کہ خوف کی دو قسمیں ہیں: ایک عوام کا خوف ۔ دوسری ، خواص کا خوف ۔
عوام کا خوف :- سزا اور عذاب سے ہے۔ اور خواص کا خوف :- دوری اور حجاب سے ہے ۔ اور شوق کی بھی دو قسمیں ہیں:۔
ایک عوام کا شوق :- حور و قصور کے لئے ۔ دوسری خواص کا شوق – مشاہد ہ اور حضور کے لئے ۔ عوام کا شوق :- جسمانی نعمتوں کے لئے ۔ اور خواص کا شوق :- روحانی نعمتوں کے لئے ہوتا ہے۔ عوام کا شوق ، اللہ تعالیٰ کی اس آیہ کریمہ سے پیدا ہوتا ہے :-
وَعَدَ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَ مَسَاكِنَ طَيِّبَةٍ فِي جَنَّاتٍ عَدْنٍ اللہ تعالیٰ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے ایسے باغوں کا وعدہ فرمایا ہے۔ جن کے نیچے نہر نے بہتی ہیں۔ وہ لوگ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ اور ہمیشہ رہنے والے باغوں میں بہترین مکانوں کا وعدہ فرمایا ہے ۔
اور خواص کا شوق ، اللہ تعالیٰ کی اس آیہ کریمہ سے پیدا ہوتا ہے۔ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللَّهِ اكْبَرُ ذَالِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
اور اللہ تعالیٰ کی رضا مندی سب سے بڑی ہے۔ اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے احسان و کرم سے ہم کو بڑے مرتبے والوں اور کامل مقام وفضیلت والوں میں سے بنائے۔ آمین


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں