خواہش نفسانی دل کیلئے آفت

حضرت شیخ المشائخ، قطب ربانی، غوث صمدانی ، محبوب سبحانی، سیدنا عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے تصوف و طریقت پر مشتمل کتاب” آداب السلوک والتواصل الی منازل الملوک“ میں فرمایا :

ہوائے نفسانی کے چنگل سے باہر نکل اس سے دور ہو اور مملکت وجود سے رخت سفر باندھ کر سب کچھ اللہ تعالی کے سپرد کر دے۔ پھر اپنے دل کے دروازے پر بیٹھ کر نگہبانی کا فریضہ سرانجام دے۔ اللہ تعالی کی فرمانبرداری کر۔ جسے وہ اندر آنے کا حکم دے اسے اندر آنے دے اور جسے وہ اندر آنے سے روکے تو بھی اسے اندر آنے سے روک دے۔ ایک بار جب خواہش نفسانی دل سے باہر نکل چکی ہے تو اسے پھر اندر مت آنے دے۔ اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ تو ہوائے نفسانی کی مخالفت کرے اور تمام حالات میں اس کی متابعت ترک کر دے۔ اس کی متابعت و مطابقت سے خواہشات دل میں گھر کر جاتی ہیں۔ پس اللہ تعالی کے ارادے کے بغیر کسی غیر کا ارادہ نہ کر۔ کسی اور کا ارادہ خواہش نفسانی ہے اوریہی احمقوں کی جنت  ہے۔ اسی میں تیری ہلاکت ،ذلت ورسوائی، نگاه خداوندی میں گر نا اور اس سے محجوب ہونا ہے۔ ہمیشہ اس کے امر و نہی کی حفاظت کر۔ اور اس کے فیصلوں کے سامنے سر تسلیم خم کر مخلوق کو اس کا شریک مت بنا۔ (یاد رکھ) تیر ارادہ ، تیری خواہش اور تیری چاہت سب مخلوق ہے۔ پس کسی چیز کا ارادہ نہ کر۔ حرص و ہواکی پیروی نہ کر ورنہ مشرک ٹھہرے گا۔ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ 

فَمَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًاپس جو شخص امید رکھتا ہے اپنے رب سے ملنے کی تو اسے چاہیئے کہ وہ نیک عمل کرے اور نہ شریک کرے اپنے رب کی عبادت میں کسی کو“ 

صرف بت پرستی ہی شرک نہیں خواہش نفس کی اتباع اور دنیاوآخرت میں اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور کو بزرگ و بر تر خیال کرنا بھی شرک ہے۔ اللہ تعالی کے علاوہ جو کچھ ہے وہ غیر ہے۔ جب تو غیر کا ہوا تو مشرک ٹھہرا۔ احتیاط کر اور صرف اللہ کا ہوکررہ۔ خوف خدار کھ اور اس کی پکڑ سے بے خوف نہ ہو جا۔غور و فکر کر اور غفلت کا شکار نہ ہو ۔کسی مقام اور حال کی نسبت اپنی ذات کی طرف نہ کر اور مدعی ولایت نہ بن جا۔ 

اگر کچھ عطا ہو۔ کوئی مقام حاصل ہو یا کسی مخفی راز سے مطلع ہو تو کسی اور کو خبر نہ دے۔ کیونکہ اللہ تعالی تفسیر و تبدیل میں روزانہ ایک الگ شان میں ہوتا ہے۔ اللہ تعالی بلاشبہ انسان اور اس کے دل کے در میان حائل ہے۔ ہو سکتاہے اللہ تعالی نے تجھے جس چیز سے آگاہ فرمایا ہے اور تو نے اس کی خبر دوسرے کو دی ہے وہ تجھ سے زائل کر دے ۔ اور جس کو تو محکم اور باقی خیال کر رہا تھاوہ متغیر ہو جائے۔ پس اس طرح تو اس شخص کے سامنے نادم ہوگا۔ راز کو دل میں محفوظ رکھ اور کسی کو اس پر مطلع نہ کر۔ اگر اس میں ثبات و بقاء ہے تو موہبت ربانی(اللہ کی بخشش) ہے۔ اللہ تعالی کا شکر ادا کر تاکہ یہ نعمت تجھے اور عطا ہو اور اگر ثبات وبقاء نہیں تو بھی یہ ایک نعمت ہے کیونکہ اس میں علم و معرفت، نورو بصیرت اور تادیب تو ہے ہیں۔ رب قدوس ارشاد فرماتا ہے۔ 

مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

جو آیت ہم منسوخ کر دیتے ہیں یا فراموش کرادیتے ہیں تو لاتے ہیں دوسری بہتر اس سے یا کم از کم اس جیسی کیا تجھے علم نہیں کہ الله تعالی سب کچھ کر سکتا ہے“۔ 

اللہ تعالی کو اپنی قدرت میں عاجز خیال نہ کر۔ تقدیر و تقریر میں اسے تہمت نہ دے اور اس کے وعدہ میں شک نہ کر۔ رسول خدا میں تیرے لیے نمونہ ہے اسی اسوہ حسنہ کی پیروی اختیار کر۔ 

کئی سورتیں اور آیتیں جو آپ ﷺپر نازل ہوئیں ان پر عمل ہوتارہا۔ نمازوں میں تلاوت ہوتی رہیں۔ مصاحف میں لکھی گئیں پھروہ اٹھالی گئیں احکام بدل گئے اور ان کی جگہ دوسرے احکام نازل ہوئے۔ یہ سب کچھ ظاہری شریعت مطہرہ میں ہوتارہا باطن علم خاص اور وہ حال جو بندے اور اللہ کے درمیان کا معاملہ ہے تو اس سلسلے میں رسول خدا فرمایا کرتے تھے۔ نَّهُ ‌لَيُغَانُ ‌عَلَى قَلْبِي، وَإِنِّي أَسْتَغْفِرُ اللهَ فِي كُلِّ يَوْمٍ مِئَةَ مَرَّةٍحضور ﷺ کو ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل کیا جاتا تھا۔ کبھی آپ ایک حال میں ہوتے توکبھی دوسرے حال میں۔ یوں آپ منازل قرب اور میادین غیب میں ہمیشہ محو سفر رہتے اورخلعتیں اور انوار تغیر پزیر رہتے آپ کی ہر دوسری حالت پہلی حالت کے مقابلے میں ارفع واعلی ہوتی۔ جب آپ دوسری حالت پر فائز ہوتے اور پہلی حالت پر نگاہ پڑتی تووہ عیب و نقصان محسوس ہوتی اور آپ خیال کرتے کہ اللہ تعالی کی شایان شان حدود کی حفاظت نہیں کر سکا۔ در حقیقت یہ آپ کی کمال تواضع وعاجزی ہے۔ای لیے آپ کو تلقین کی جاتی کہ آپ استغفار کریں۔ 

کیونکہ یہ بندے کی بہترین حالت ہے اور تمام احوال میں اس کے شایاں شان ہے کہ وہ بارگاہ خداوندی میں اعتراف گناہ کرتار ہے۔یہی دو چیزیں ہیں جو حضور نبی کریمﷺ کو ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام سے وراثت میں ملیں۔ جب آدم علیہ السلام عہد خداوندی کو بھول گئے ۔ جنت میں ہمیشہ رہنے۔ محبوب حقیقی رحمان و منان کے قرب اور فرشتوں کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کے ارادے نے انگڑائی لی۔ اللہ کریم کے ارادے کے ساتھ ان کا ارادہ بھی شریک ہوا تو ان کے ارادے کو توڑ دیا گیا۔ یہ حالت زائل ہو گئی ولایت کا منصب چھن گیا۔ انہیں اس بلند ترین مقام سے نیچے اتار دیا گیا۔ انوار کی جگہ ظلمتوں نے لے لی۔ اور صفاء مکدر ہو گئی۔ پھر آپ علیہ الصلوۃ والسلام کو آگاہ فرمادیا گیا اور رحمن ور حیم ذات کی دوستی کی یاد دہانی کرادی گئی۔ انہیں حکم ملا کہ نسیان و لغزش کا اعتراف کریں اور آپ کو تلقین کی گئی کہ اپنے قصور کا اقرار کریں۔ اس لیے آپ علیہ الصلوة والسلام نے بارگاه خداوندی میں عرض کیا۔

رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ “اے ہمارے پروردگار ! ہم نے ظلم کیا اپنی جانوں پر اور اگر نہ بخشش فرمائے تو ہمارے لیے اور نہ رحم فرمائے تو یقینا ہم نقصان اٹھانے والوں سے ہو جائیں گے۔ 

پس اس طرح  انوار ہدایت علوم و معارف توبہ اور وہ مخفی مصالح جو آج تک غائب تھے وہ حضرت آدم علیہ السلام کے ہاتھ آئے۔ اور یہ سب کچھ اس لغزش و نسیان کے بغیر ممکن نہ تھا۔ پس آدم علیہ السلام کے ارادے کو ایک دوسرے ارادے کے ساتھ ۔ ایک حالت کو دوسری حالت کے ساتھ بدل دیا گیا۔ ولایت صغری کے بعد آپ کو ولایت کبری کا منصب عطا ہوا۔ دنیا آپ کی جائے سکونت ٹھہری۔ پھر آپ عقبی میں منتقل ہوئے۔ پس دنیا آپ کیلئے اور آپ کی اولاد کیلئے منزل اور عقبی مرجع، اور ہمیشہ رہنے کی جگہ قرار پائے۔ 

رب قدوس نے فرمایا : مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا جو آیت ہم منسوخ کردیتے ہیں یا فراموش کرادیتے ہیں تو لاتے ہیں دوسری بہتر اس سے یا کم از کم  اس جیسی“ 

اے مخاطب !  آپ کیلئے اللہ تعالی کے حبیب محمد مصطفی کی زندگی اور حضرت آدم صفی اللہ علیہ السلام کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔ جس طرح انہوں نے قصور کا اعتراف کیا اور ہر حالت میں استغفار کرتے رہے۔ ہمیشہ عاجزی و انکساری کو شیوہ بنایا اور بندگی کو اپنایا آپ بھی گناہوں کا اعتراف کریں۔ اللہ تعالی سے استغفار کریں۔ ہمیشہ بندگی کا اظہار کریں اور عاجزی و انکساری کی روش اختیار کریں۔ 

آداب السلوک شیخ عبد القادر الجیلانی صفحہ 59 ،مکتبہ دارالسنابل دمشق شام


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں