خوف اور رجاء اللہ کی قربت کےپر

حضرت شیخ المشائخ، قطب ربانی، غوث صمدانی ، محبوب سبحانی، سیدنا عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاہ نے تصوف و طریقت پر مشتمل کتاب” آداب السلوک والتواصل الی منازل الملوک“ میں فرمایا :

عارف باللہ کا ہر سوال پورا نہیں کیا جاتا اور اس کا ہر وعدہ وفا نہیں ہوتا کہ کہیں خوف پر امید غالب نہ آجائے اور وہ تباہ و برباد ہو جائے۔ کیونکہ ہر حال اور ہر مقام کیلئے خوف اور رجا دونوں ضروری ہیں۔ ان کی حیثیت پر ندے کے دوپروں کی ہے۔ جب تک دونوں پر سلا مت نہ ہوں اور ان میں توازن نہ ہوپرندہ نہیں اڑ سکتا۔ ایمان ان دو کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ اسی طرح حال اور مقام کیلئے بھی خوف و رجاضروری ہے ہاں ہر ایک کیلئے خوف اور رجاء اس کے حسب حال ہو گی۔ 

عارف مقرب بارگاه الہی ہوتا ہے۔ اس کا حال اور مقام یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی کو چھوڑ کر کسی چیز کا ارادہ نہ کرے۔ نہ کسی کی طرف مائل ہو۔ نہ کسی اور سے مطمئن اور مانوس ہو۔ بندے کا یہ مطالبہ کہ میرا سوال پورا ہو۔ مجھ سے جو وعدہ کیا گیا ہے وہ ایفاءمناسب نہیں۔ کیونکہ بعض اوقات وہ ایک ایسی چیز کا طالب ہوتا ہے جو اس کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے اور اس کے حسب حال نہیں ہوتی۔ اس کے سوال کے پورانہ ہونے کی بنیادی طور پر دو وجہیں ہوتی ہیں۔ 

پہلی یہ کہ دعا قبول نہیں ہوتی تاکہ خوف پرر جاء اور امید غالب نہ آجائے اور انسان اللہ تعالی کی سزا سے بے خوف اور غافل نہ ہو جائے اور آداب خداوندی کا لحاظ نہ رکھ کر تباہ وبرباد نہ ہو جائے۔ 

دوسری وجہ یہ ہے کہ بندہ اسباب پر اعتقاد اور یقین رکھ کر کہیں انہیں اپنے رب کا شریک نہ بنالے۔ کیو نکہ انبیاء علیہم السلام کے علاوہ دنیامیں اور تو کوئی معصوم نہیں ہے۔ 

اللہ تعالی اپنے بندے کی دعا قبول نہیں کرتا اور وعدہ پورا نہیں فرماتا تاکہ وہ عادتا نہ مانگے اور نہ طبعا کسی چیز کا ارادہ کرے بلکہ اس کا سوال اور ارادہ اطاعت فرمانبرداری کی بناء پر ہو۔ کیونکہ عادتاً مانگنا اور طبعا ارادہ کرنا شرک ہے۔ اور شرک تمام مقامات ، احوال اور سلوک کے تمام مدارج میں گناہ کبیرہ ہے۔ 

بندہ جب اطاعت و انقیاد کی نیت سے سوال کرتا ہے تو اللہ تعالی اسے اپنے اور زیادہ قریب کر تا ہے۔ جس طرح نماز ، روزہ و غیرہ فرائض و نوافل سے

قرب خداوندی میں اضافہ ہوتا ہے۔ کیونکہ ان احکام کی بجا آوری میں اطاعت خداوندی مقصود ہوتی ہے۔

آداب السلوک شیخ عبد القادر الجیلانی صفحہ 137 ،مکتبہ دارالسنابل دمشق شام

خوف ور جاء ایمان کے گویادو پر ہیں

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ وارضاه نے فرمایا : میں نے خواب دیکھا کہ مسجد جیسی کوئی جگہ ہے جس میں دنیاو مافیھاسے بے نیاز کچھ لوگ بیٹھے ہیں۔ میں نے سوچا اگر فلاں شخص یہاں ہوتا توان درویشوں کو آداب شریعت سکھاتا اور وعظ و تلقین کرتا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ درویش میرے ارد گردجمع ہو گئے۔ ایک بولا۔ عبد القادر ! آپ خود کچھ کیوں نہیں فرمادیتے ؟ میں نے کہا۔ اگر تم چاہو تو میں ہی کچھ بیان کر دیتا ہوں۔ 

پھر میں نے انہیں نصیحت کی اور کہا : جب تم دنیا سے لا تعلق ہو کر اللہ تعالی کے ہو کر رہ گئے ہو تو پھر اپنی زبانوں سے لوگوں سے کسی چیز کے بارے مت پوچھو۔ اور جب تم زبان سے ترک سوال کر چکے ہو تو پھر اپنے دل کے ذریعے بھی سوال نہ کرو بلاشبہ دل کے ساتھ سوال زبان کے ساتھ سوال کرنے کی طرح ہے۔ جان لو کہ مخلوق کو سنوارنے اور بگاڑنے اور بلند و پست کرنے میں وہ ہر روز ایک نئی شان سےتجلی فرماتا ہے۔ بعض کو اعلی علیین کے مرتبے پر فائز کر تا ہے اور بعض کو اسفل السافلین کی حد تک پست کر دیتا ہے۔ 

جنہیں وہ اعلی علیین تک بلند کرتا ہے انہیں ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہےکہ  کہیں وہ اسفل السافلین میں نہ دھکیل دئیے جائیں اور ساتھ یہ امید بھی ہوتی ہے کہ اللہ کریم انہیں بلند مقام پر قائم وثابت رکھے گا۔ 

اور جنہیں اللہ تعالی اسفل السافلین کی حد تک پست فرمادیتا ہے انہیں یہ خوف بھی ہوتا ہے کہ کہیں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس پستی کے سزاوار نہ ٹھہرائے جائیں اور یہ امید بھی ہوتی ہے کہ ہو سکتا ہے اللہ کریم کرم فرمائے اور اپنے فضل و احسان سے اعلی علیین کے مرتبے پر فائز کر دے۔ (یہ خواب دیکھنے کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔ 

آداب السلوک شیخ عبد القادر الجیلانی صفحہ 76 ،مکتبہ دارالسنابل دمشق شام


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں