دوائراوردائرہ
واضح ہو کہ مجتہدینِ طریقت نے دائرے کی اصطلاح تفہیمِ مُقامات کے لیے وضع فرمائی ہے چونکہ قُربِ الٰہی کے مراتب و مُقامات لاتعداد ہیں لیکن سالک کو عالمِ مثال میں کشف کی نظر سے وہ تمام مراتب و مقامات ایک دائرے کیطرح نظر آتے ہیں اور سالک اپنے آپ کو عالمِ مثال میں اس طرح دیکھتا ہے کہ گویا وہ سَیر کررہا ہے اور دَم بدَم ترقی کررہا ہے یہاں تک کہ ظلال کے دائرے میں داخل ہوجاتا ہے اور سَیرِ عروجی کرتے ہوئے اپنی اصل کو پہنچ جاتا ہے اسی وجہ سے ان مراتبِ قُرب کے لئے دائرے کا لفظ بولا جاتا ہےاور اپنی اصل کی طرف ترقی کو سَیر کہا جاتا ہے۔ان دائروں کی مثال ایسی ہے جیسے انسان ایک سرے سے دوسرے سرے پر چڑھتا ہے اور درجہ بدرجہ ترقی ہوتی رہتی ہے۔
ولایت صغری میں ظلال اسماء وصفات کا دائرہ ہوتا ہے اور ولایت کبری ظلال سے بڑھ کر دائرہ اسماء و صفات اور شیونات حق تعالی میں سیر ہوتی ہیں
*جس طرح دائرہ ہرطرف سے برابر ہوتا ہے اور نہیں کہا جاسکتا کہ اس کا ایک سرا کہاں ہے اور دوسرا کہاں ہے؟ اسی طرح قُرب کے مقاموں اور مرتبوں کی بھی کوئی حد معلوم معلوم و مفہوم نہیں ہوتی سالک کو کو دائرہ کے اندر چکر لگانے والے کیطرح یہاں سوائے تعجب اور حیرت کے کچھ پتہ نہیں چلتا۔ مگر یاد رہے کہ مراتب تقرب کی انتہا کو نہیں کہتے کیونکہ قرب کے مر تبوں کی کوئی حد نہیں۔ بلکہ دائرہ سالک کی حد نظر اور مقام سیر کا نام ہے۔
* حکمتِ الٰہیہ کے تحت ظاہر و باطن کی دونوں آنکھیں دائرے کی طرح گول واقع ہوئی ہیں آنکھ کی پُتلی بھی دائرے کی مانند ہے لہٰذا سالک کی نظر جب عالمِ امکان و وجوب کے مراتب پر پڑتی ہے تو وہ تمام مراتب و مقامات آنکھوں کی گولائی کی طرح گول نظر آتے ہیں سالک مقامات کی اسی گولائی کی وجہ سے ان کو دائرے کا نام دیتے ہیں۔
*صوفیائے کرام نے راہِ سلوک کے ہر مرتبے کو دائرہ قرار دیا ہے کیونکہ حلقہِ مفرّغہ کا ہر حصہ اوّل و آخر بالا وپست اور یمین و یسار ہوسکتا ہے اور دائرہ کی یہی صفت ہوتی ہے۔ وَاللہُ اَعْلَم
دائرہ امکان
عالم امر اور عالم خلق کے لطائف پر ذکر کرنے کے مرحلے سے مراد دائرہ امکان یا دائرہ ممکنات کو طے کرنا ہے چنانچہ جب سالک لطائف پر اسم ذات (اللہ اللہ)کا ذکر شروع کرتا ہے اور اس کے لطائف منور ہو کر عالم امر میں واقع اپنی اصل کے ساتھ تعلق قائم کر لیتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ اس نے دائرہ امکان طے کرلیا ہے۔دائرہ امکان لطائف کے اصول کی نہایت پر ختم ہوتا ہے۔
دائرہِ اصل
صُوفیاء کرام کے نزدیک دائرہِ اصل سے مُراد ذات کے اسماء و صفات اور شیونات و اعتبارات کے مراتب ہیں اس دائرے کا تعلق عالمِ وُجوب سے ہے یہ مرتبہ کسی لفظ ، عبارت ، اشارے یا کنائے کے ذریعے بیان نہیں کیا جاسکتا اس مرتبے میں سالک کو سَیرِ علمی واقع ہوتی ہے اس سیر کا نام سیر فی اللہ ہے۔
دائرہِ ظلال
ظلال ظل کی جمع ہے اور ظل کے معنی حجاب ہیں حجابات کے عالم کو دائرہ ظلیت کہا جاتا ہے تمام کائنات اور ممکنات دائرہ ظلیت ہے
صوفیائے کرام کے نزدیک تمام موجودات ، اسماء و صفاتِ باری تعالیٰ کے ظِلال ہیں اور اسماء و صفات کیطرح ان کے ظِلال بھی بے انتہاء ہیں ارشادِ باری تعالیٰ ہے مَا عِندَكُمْ يَنفَدُ ۖ وَمَا عِندَ ٱللَّهِ بَاقٍۢ ترجمہ: جو تمہارے پاس ہے وہ فانی ہے اور جو اللہ کے پاس ہے وہ باقی ہے)
جب سالِک اسماء و صفات کے ظِلال سے اسماء و صفات کی طرف سیر کرتے ہوئے دائرہِ ظِلال میں داخل ہوجاتا ہے اور اپنی اصل کو پہنچ جاتا ہے تو اس سیر کو سیر الیٰ اللہ کہتے ہیں دائرہِ ظلال کو دائرہِ اسماء و صفات، دائرہِ ممکنات اور دائرہِ ولایتِ صُغریٰ بھی کہا جاتا ہے۔
یہ اولیاء کی ولایت کہلاتی ہے یہاں تک نقشبندی سلوک طے ہو جاتا ہے اس میں عالم امر کے پانچوں لطائف قلب روح سر یا خفی اور اخفی پر فیض وارد ہوتا ہے
دائرہ اسماء
دوائرِ محبت میں پہلا دائرہ اسماء کا ہے۔ سالک مبتدی جب مسمیٰ تک نہیں پہنچ سکتا تو اسم سے ہی اپنے دل کو تسلی دے لیتا ہے۔ اس دائرے میں سالک کو معرفتِ ذات بواسطہ اسماء کی تعلیم دی جاتی ہے۔
سالک جب دائرہ ظلال سے ترقی کر کے ولایت کبری اور جسے ولایت انبیاء بھی کہتے ہیں یہ تمام مقامات اور فیوضات اصل میں انبیائے کرام کے لیے مخصوص ہیں لیکن حضور کے بعض خاص متبعین کو کامل اتباع کی سنت کی برکت سے بہ شرط فضل الہی ان فیوضات میں حصہ نصیب ہوتا ہے
ولایت کبریٰ انبیاء کے تعینات کی ابتداء ہے
دائرہِ صفات
دوسرا دائرہ صفات کا ہے۔ اس دائرے میں سالک صفات کے پرتو سے فیض یاب ہوتا ہے اور کائنات میں ہر طرف اللہ تعالیٰ کی قدرت اور صنعت کے نمونے اسکی صفات کے مَظہر نظر آتے ہیں۔ اس دائرے میں معرفتِ ذات بواسطہ صفات کی تربیت دی جاتی ہے۔
دائرہِ ذات
تیسرا دائرہ ذات کا ہے۔ اس دائرے کی وسعت لامحدود ہے ۔ اس میں نہ اسماء پیش نظر ہوتے ہیں نہ صفات بلکہ اس میں معرفتِ ذات بلاواسطہ اسماء و صفات کا سبق دیا جاتا ہے۔