دوران اقامت کھڑے ہونا

عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ أَبِی قَتَادَۃَ عَنْ أَبِیہِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ -صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا أُقِیمَتِ الصَّلاَۃُ فَلاَ تَقُومُوا حَتَّی تَرَوْنِی خَرَجْتُ وَقَدْ کَرِہَ قَوْمٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ -صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ- وَغَیْرِہِمْ أَنْ یَنْتَظِرَ النَّاسُ الإِمَامَ وَہُمْ قِیَامٌ. وَقَالَ بَعْضُہُمْ إِذَا کَانَ الإِمَامُ فِی الْمَسْجِدِ فَأُقِیمَتِ الصَّلاَۃُ فَإِنَّمَا یَقُومُونَ إِذَا قَالَ الْمُؤَذِّنُ قَدْ قَامَتِ الصَّلاَۃُ قَدْ قَامَتِ الصَّلاَۃُ. وَہُوَ قَوْلُ ابْنِ الْمُبَارَکِ.( الترمذی :کتاب الصلاۃ:باب کَرَاہِیَۃِ أَنْ یَنْتَظِرَ النَّاسُ الإِمَامَ وَہُمْ قِیَامٌ عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلاَۃِ)

                 عبداﷲ بن ابوقتادہص اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر نماز کی اقامت ہو جائے تو تم لوگ اس وقت تک کھڑے نہ ہو جب تک مجھے نکلتے ہوئے نہ دیکھ لو ۔

                 علماء صحابہث کی ایک جماعت لوگوں کے کھڑے ہو کر امام کا انتظار کرنے کو مکروہ سمجھتی ہے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اگر امام کے مسجد میں ہوتے ہوئے اقامت ہو تو اس وقت کھڑے ہوں جب موذن (قَدْ قَامَتْ الصَّلَاۃُ)کہے ابن مبارک کا بھی یہی قول ہے۔

موجودہ زمانہ میں بعض لوگ اکثر جونہی اقامت شروع ہو تو کھڑے ہو جاتے ہیں اور وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ اگر حی علی الصلاۃ یا حی علی الفلاح پہ کھڑا ہوا جائے تو صفیں

سیدھی نہیں ہوتیں ایسے لوگوں کی یہ دلیل بڑی عجیب ہے کیونکہ صحابہ کرام ث اور بڑے بڑے فقہاء کو یہ بات کیوں سمجھ نہیں آئی جنہوں نے اسے مکروہ لکھا ہے جبکہ آجکل کے مقابلے میں اس طرح مسجد میں چٹائیاں اور دریاں بھی نہ ہوتیں مزید صفوں کیلئے لائنیں بھی لگی ہوتی ہیں دراصل نمازیوں کی سستی ہے کہ پہلے دور دور بیٹھے رہتے ہیں اور عین وقت پر اٹھتے ہیں جبکہ وقت سے پہلے ہی صفوں میں ترتیب سے بیٹھنا چاہیئے حدیث تو دور کی بات ہے فقہ حنفی کی کسی کتاب میں ایسی کوئی عبارت نہیں جہاں یہ ہو کہ وقت اقامت کھڑا ہونا مستحب ہے ۔ جب امام اور مقتدی مسجد میں ہوں تو انہیں چاہیئے کہ حی علی الصلاۃ یا حی علی الفلاح پہ کھڑے ہو یہی مستحب ہے اور اس سے پہلے کھڑا ہونا مکروہ ہے جیسا کہ اسی حدیث کی شرح میں علامہ شمس الحق عظیم آبادی فرماتے ہیں

                وَمَعْنَی الْحَدِیث أَنَّ جَمَاعَۃ الْمُصَلِّینَ لَا یَقُومُونَ عِنْد الْإِقَامَۃ إِلَّا حِین یَرَوْنَ أَنَّ الْإِمَام قَامَ لِلْإِمَامَۃِ(عون المعبود)

                اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ اقامت کے وقت نمازی نہ کھڑے ہوں جب تک امام کو نہ دیکھیں کہ وہ امامت کیلئے کھڑا ہو گیا ہے۔

                ایک دوسری حدیث جو صحیح بخاری میں حضرت ابوقتادہ ثروایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب نماز کی اقامت کہی جائے تو تم اس وقت تک نہ کھڑے ہو جب تک کہ مجھے نہ دیکھ لو اور اپنے اطمینان کو لازم سمجھو ۔

                حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جب موذن تکبیر کے لیے کھڑا ہو تو مجھے مسجد میں آتا ہوا نہ دیکھ لو تو نماز کے لیے کھڑے نہ ہو، کیونکہ امام کی آمد سے پہلے ہی کھڑے ہو جانا خواہ مخواہ کی تکلیف اٹھانا ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ عموماً رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نماز پڑھانے کے لیے اپنے حجرہ مبارک سے اس وقت نکلتے تھے جب کہ موذن اقامت شروع کر دیتا اور جب موذن تکبیر کہتا ہوا حی علی الصلوۃ پر پہنچتا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اس وقت محراب میں داخل ہوتے ۔ اسی وجہ سے ہمارے ائمہ کرام رحمہم اﷲ تعالیٰ علیہم نے کہا ہے کہ جب مؤذن تکبیر شروع کر دے اور حی علی الصلوۃ پر پہنچتے تو امام اور مقتدیوں کو کھڑے ہو جانا چاہئے اور جب موذن قد قامت الصلوۃپر پہنچے تو نماز شروع کر دینی چاہئے۔

                اسی لئے دوران اقامت کھڑا ہونا مکروہات میں شمار کیا گیا کہ یہ فضول اور غیر ضروری کام ہے جیسا کہ ابو جعفر محمد بن جریر الطبری نے لکھا

                کانوا یکرہون أن یقوموا إذا أقام المؤذن للصلاۃ، ولیس عندہم الإمام، وکانوا یکرہون أن ینتظروہ قیاما، وکان یقال: ذاک السُّمود، أو من السُّمود.( تفسیر الطبری)

                جب مقتدیوں کے ساتھ امام نہ ہو اور مؤذن تکبیر کہے تو ان کا کھڑا ہونا مکروہ ہے کیونکہ کھڑے ہو کر امام کا انتظار مکروہ ہے اور یہ فضولیات میں سے ہے۔

                یہ امر پہلے بھی اکابرین کے عمل میں شال تھا جیسا کہ حضرت عمر بن عبد العزیز کا عمل اس حدیث سے ثابت ہے۔

عَنْ أَبِی عُبَیْدٍ ، قَالَ سَمِعْتُہُ یَقُولُ سَمِعْت عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ بِخَنَاصِرَۃَ یَقُولُ حِینَ یَقُولُ الْمُؤَذِّنُ قَدْ قَامَتِ الصَّلاَۃُ : قُومُوا ( مصنف ابن ابی شیبۃ)

                حضرت ابی عبید فرماتے ہیں کہ میں نے عمر بن عبد العزیزسے خناصرہ میں یہ بات سنی جو کہہ رہے تھے جب مؤذن قد قامۃ الصلاۃ کہے تو کھڑے ہو ۔

                حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ کا عمل بھی اسی پہ تھا ۔

                وکان أنس رضی اﷲ تعالی عنہ یقوم إذا قال المؤذن قد قامت الصلاۃ (ابن المنذر،عون المعبود)

                حضرت انس اس وقت کھڑے ہوتے جب مؤذن قد قامۃ الصلاۃ کہتے۔

                حضرت حسن بصری کا بھی یہی معمول تھا۔

                 عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّہُ کَرِہَ أَنْ یَقُومَ الإِمَامُ حَتَّی یَقُولَ الْمُؤَذِّنُ قَدْ قَامَتِ الصَّلاَۃُ. ( مصنف ابن ابی شیبۃ)

                حضرت حسن بصری سے ہے کہ وہ ناپسند کرتے کہ امام کھڑا ہو جب تک مؤذن قد قامۃ الصلاۃ نہ کہے۔

                 ملا علی قاری شارح بخار ی فرماتے ہیں

                 وفی ( المصنف ) کرہ ہشام یعنی ابن عروۃ أن یقوم حتی یقول المؤذن قد قامت الصلاۃ(عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری)

                 کتاب مصنف میں ہے کہ ہشام بن عمر مکروہ سمجھتے تھے اقامت میں قد قامت الصلوۃ سے پہلے کھڑے ہونے کو ۔

                 فقہ حنفی کی معتبرکتب اور اکثر آئمہ نے اسی کو ترجیح دی

                عن محمد ، قال إذا قال المؤذن حی علی الفلاح ، فإنہ ینبغی للقوم أن یقوموا فیصفوا ، فإذا قال المؤذن قد قامت الصلاۃ ، کبر الإمام ( الاثار محمد بن حسن)

                اور امام محمد سے مروی ہے کہ جب مؤذن حی علی الفلاح کہے تو لوگوں کو چاہیئے کھڑے ہو اور صفیں درست کریں اور جب مؤذن قد قامت الصلوۃ کہے تو امام تکبیرتحریمہ کہے ۔

                 فتاویٰ ہندیہ میں تویہاں تک لکھا ہے کہ دوران اقامت آنے والابھی ؤتے ہی بیٹھ جائے چہ جایئکہ پہلے سے موجود بھی کھڑے ہو جائیں۔

                إذَا دَخَلَ الرَّجُلُ عِنْدَ الْإِقَامَۃِ یُکْرَہُ لَہُ الِانْتِظَارُ قَائِمًا وَلَکِنْ یَقْعُدُ ثُمَّ یَقُومُ إذَا بَلَغَ الْمُؤَذِّنُ قَوْلَہُ حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ .(فتاوی عالمگیری)

                جب کوئی آدمی اقامت کے وقت آئے تو کھڑے ہوکر انتظار کرنا مکروہ ہے لیکن وہ بیٹھ جائے پھر کھڑا ہو جب مؤذن اپنے قول حی علی الفلاح پر پہنچے۔

                 یہی چیز حاشیہ علی مراقی الفلاح پہ بھی موجود ہے۔

                وإذا أخذ المؤذن فی الإقامۃ ودخل رجل المسجد فإنہ یعقد ولا ینتظر قائما فإنہ مکروہ کما فی المضمرات قہستانی ویفہم منہ کراہۃ القیام إبتداء الإقامۃ والناس عنہ غافلون(حاشیۃ الطحاوی علی المراقی الفلاح)

                اور جب مؤذن نے اقامت شروع کی اور کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تووہ بیٹھ جائے کھڑے ہو کر انتظار نہ کرے کیونکہ یہ مکروہ ہے جیسا کہ علامہ قہستانی نے اپنی کتاب مضمرات میں لکھا ہے اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ ابتدائے اقامت میں کھڑا ہونا مکروہ ہے اور لوگ اس سے غافل ہیں ۔

                ان تمام باتوں کو تقریبا ًاسی انداز میں عون المعبود شرح ابوداؤد میں ابو الطیب حافظ شمس الدین عظیم آبادی یوں بیان فرماتے ہیں۔

وَذَہَبَ الْأَکْثَرُونَ إِلَی أَنَّہُمْ إِذَا کَانَ الْإِمَام مَعَہُمْ فِی الْمَسْجِد لَمْ یَقُومُوا حَتَّی تَفْرُغ الْإِقَامَۃ . وَعَنْ أَنَس أَنَّہُ کَانَ یَقُوم إِذَا قَالَ الْمُؤَذِّن قَدْ قَامَتْ الصَّلَاۃ . رَوَاہُ اِبْن الْمُنْذِر وَغَیْرہ ، وَکَذَا رَوَاہُ سَعِید بْن مَنْصُور مِنْ طَرِیق أَبِی إِسْحَاق عَنْ أَصْحَاب عَبْد اللَّہ . وَعَنْ سَعِید بْن الْمُسَیِّب قَالَ : إِذَا قَالَ الْمُؤَذِّن اللَّہ أَکْبَر وَجَبَ الْقِیَام ، وَإِذَا قَالَ حَیّ عَلَی الصَّلَاۃ عُدِلَتْ الصُّفُوف ، وَإِذَا قَالَ لَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ کَبَّرَ الْإِمَام وَعَنْ أَبِی حَنِیفَۃ یَقُومُونَ إِذَا قَالَ حَیّ عَلَی الْفَلَاح ، فَإِذَا قَالَ قَدْ قَامَتْ الصَّلَاۃ کَبَّرَ الْإِمَام ، (عون المعبود شرح ابو داؤد)

                اکثراس پر گئے کہ جب امام مسجدمیں ان کے ساتھ ہوتو مقتدی نہ کھڑے ہوں جب تک اقامت سے فارغ نہ ہو جائے اورحضرت انس اس وقت کھڑے ہوتے جب مؤذن قد قامۃ الصلاۃ کہتے اسے ابن المنذر نے روایت کیا اور حضرت سعید بن المنصور نے سعید بن المسیب کے واسطے سے روایت کی ہے جب مؤذن اﷲ اکبر کہے تو قیام واجب ہے اور جب حی علی الصلوۃ کہے تو اپنی صفیں سیدھی کی جائیں اور جب لاالہ الا اﷲ کہے تو امام تکبیر کہے امام ابو حنیفہ جب حی علی الفلاح کہا جاتا توصف میں کھڑے ہوتے اورجب قد قامت الصلاۃ کہا جاتا تو تکبیر تحریمہ کہتے ۔

                علامہ ابوبکر کاسانی حنفی کھڑے ہو کر اقامت سننے کو مکروہ تحریر فرماتے ہیں ۔

                وَالْجُمْلَۃُ فِیہِ أَنَّ الْمُؤَذِّنَ إذَا قَالَحَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ فَإِنْ کَانَ الْإِمَامُ مَعَہُمْ فِی الْمَسْجِدِ یُسْتَحَبُّ لِلْقَوْمِ أَنْ یَقُومُوا فِی الصَّفّ(بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع)

                 کھڑے ہوکر تکبیر سُننا مکروہ ہے،یہاں تک کہ علماء حکم فرماتے ہیں کہ جو شخص مسجد میں آیا اور تکبیر ہورہی ہے وہ اس کے تمام تک کھڑا نہ رہے بلکہ بیٹھ جائے یہاں تک کہ مکبّر ”حی علی الفلاح” تک پہنچے اُس وقت کھڑا ہو۔

                محیط وہندیہ میں ہے إنْ کَانَ الْمُؤَذِّنُ غَیْرَ الْإِمَامِ وَکَانَ الْقَوْمُ مَعَ الْإِمَامِ فِی الْمَسْجِدِ فَإِنَّہُ یَقُومُ الْإِمَامُ وَالْقَوْمُ إذَا قَالَ الْمُؤَذِّنُ

                اگر مؤذن خود امام نہ ہو توہمارے تینوں ائمہ کے نزدیک جب اقامت کہنے والا ”حی علی الفلاح” کہے تو اس وقت امام اور تمام نمازی کھڑے ہوں اور یہی صحیح ہے۔

                 جامع المضمرات وعالمگیریہ وردالمحتار میں ہے

إذَا دَخَلَ الرَّجُلُ عِنْدَ الْإِقَامَۃِ یُکْرَہُ لَہُ الِانْتِظَارُ قَائِمًا وَلَکِنْ یَقْعُدُ ثُمَّ یَقُومُ إذَا بَلَغَ الْمُؤَذِّنُ قَوْلَہُ حَیَّ عَلَی الْفَلَاح( فتاوٰی عالمگیری فی کلمات الاذن والاقامۃ)

                جب کوئی نمازی تکبیر کے وقت آئے تو وہ بیٹھ جائے کیونکہ کھڑے ہوکر انتظار کرنا مکروہ ہے پھر جب مؤذّن ”حی علی الفلاح” کہے تو اس وقت کھڑا ہو۔

                 ہندیہ میں یہ عبارت مذکور ہے

                فَأَمَّا إذَا کَانَ الْإِمَامُ خَارِجَ الْمَسْجِدِ فَإِنْ دَخَلَ الْمَسْجِدَ مِنْ قِبَلِ الصُّفُوفِ فَکُلَّمَا جَاوَزَ صَفًّا قَامَ ذَلِکَ الصَّفُّ وَإِلَیْہِ مَالَ شَمْسُ الْأَئِمَّۃِ الْحَلْوَانِیُّ وَالسَّرَخْسِیُّ وَشَیْخُ الْإِسْلَامِ خُوَاہَرْ زَادَہْ وَإِنْ کَانَ الْإِمَامُ دَخَلَ الْمَسْجِدَ مِنْ قُدَّامِہِمْ یَقُومُونَ کَمَا رَأَی الْإِمَامَ وَإِنْ کَانَ الْمُؤَذِّنُ وَالْإِمَامُ وَاحِدٌ فَإِنْ أَقَامَ فِی الْمَسْجِدِ فَالْقَوْمُ لَا یَقُومُونَ مَا لَمْ یَفْرُغْ مِنْ الْإِقَامَۃِ وَإِنْ أَقَامَ خَارِجَ الْمَسْجِدِ فَمَشَایِخُنَا اتَّفَقُوا عَلَی أَنَّہُمْ لَا یَقُومُونَ مَا لَمْ یَدْخُلْ الْإِمَامُ الْمَسْجِدَ وَیُکَبِّرُ الْإِمَامُ قُبَیْلَ قَوْلِہِ قَدْ قَامَتْ الصَّلَاۃُ قَالَ الشَّیْخُ الْإِمَامُ شَمْسُ الْأَئِمَّۃِ الْحَلْوَانِیُّ : وَہُوَ الصَّحِیحُ .ہَکَذَا فِی الْمُحِیطِ ۔( فتاوٰی عالمگیری الفصل الثانی فی کلمات الاذن والاقامۃ)

                اگر امام مسجد سے باہر ہو اگر وہ صفوں کی جانب سے مسجد میں داخل ہوتوجس صف سے وہ گزرے وہ صف کھڑی ہوجائے، شمس الائمہ حلوانی، سرخسی، شیخ الاسلام خواہر زادہ اسی طرف گئے ہیں، اور اگر امام اُن کے سامنے سے مسجد میں داخل ہوتواُسے دیکھتے ہی تمام مقتدی کھڑے ہوجائیں،اگر مؤذن اور امام ایک ہی ہے پس اگر اس نے مسجدکے اندرہی تکبیر کہی تو قوم اس وقت تک کھڑی نہ ہو جب تک وہ تکبیر سے فارغ نہ ہوجائے اور اگر اس نے خارج ازمسجد تکبیر کہی تو ہمارے تمام مشائخ اس پر متفق ہیں کہ لوگ اس وقت تک کھڑے نہ ہوں جب تک امام مسجد میں داخل نہ ہواور امام ”قدقامت الصلاۃ” کے تھوڑا پہلے تکبیر تحریمہ کہے امام شمس الائمہ حلوانی کہتے ہیں کہ یہی صحیح ہے، محیط میں اسی طرح ہے۔

                 الفاظ کے کا اختلاف اور تعارض

                بعض کتب میں ہے ”حی علی الصلاۃ” کے موقعہ پر کھڑا ہونا چاہیئے اور بعض ”حی علی الفلاح” کے وقت کھڑا ہونے کا قول کرتے ہیں اس میں کوئی تعارض نہیں اس لئے کہ جب ہم پہلے قول کو انتہا اور دوسرے کو ابتدا پر محمول کریں تو دونوں قولوں میں اتحاد حاصل ہوجاتا ہے یعنی جب مؤذن حی علی الصلاۃ” پُورا کرکے حی علی الفلاح کہے تو کھڑے ہوں۔

                یہ اُس صورت میں ہے کہ امام بھی وقتِ تکبیر مسجد میں ہو،اور اگروہ حاضر نہیں تو مؤذن جب تک اُسے آتا نہ دیکھتے تکبیر نہ کہے نہ اُس وقت تک کوئی کھڑا ہولقولہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم لاتقوموا حتی ترونی(کیونکہ نبی اکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: تم نہ کھڑے ہواکرو یہاں تک کہ مجھے دیکھ لو۔ ) پھر جب امام آئے اور تکبیر شروع ہواور اگر خود امام ہی تکبیر کہے تو جب تک پُوری تکبیر سے فارغ نہ ہولے مقتدی اصلاً کھڑے نہ ہوں بلکہ اگر اس نے تکبیر مسجد سے باہر کہی تو فراغ پر بھی کھڑے نہ ہوں جب وہ مسجد میں قدم رکھے اُس وقت قیام کریں۔

                امام کا دوران اقامت تکبیر تحریمہ کہنا

                ملا علی قاری شارح بخار ی اما م ابوحنیفہ اور امام محمد کے عمل پہ مزید لکھتے ہیں

                 وقال أبو حنیفۃ ومحمد یقومون فی الصف إذا قال حی علی الصلاۃ فإذا قال قد قامت الصلاۃ کبر الإمام ( عمدۃ القاری)

                امام ابو حنیفہ اور امام محمدجب حی علی الصلوۃکہا جاتا توصف میں کھڑے ہوتے اورجب قد قامت الصلاۃ کہا جاتا تو تکبیر تحریمہ کہتے۔

                گویاکہ تکبیر کے دوران ہی نماز کی تکبیر کہنا احنا ف کا عمل ہے ۔جیسا کہ وقایہ میں ہے

                :یقوم الامام والقوم عند ”حی علی الصلاۃ” ویشرع عند ”قدقامت الصلاۃ”۔( (مختصر الوقایہ فصل الاذان)

                امام اور نمازی ”حی علی الصلاۃ” پر کھڑے ہوں اور ”قد قامت الصلاۃ” کے الفاظ پر امام نماز شروع کردے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں